﷽
جابر بن حیان: امام صادق علیہ السّلام کے ایک عظیم شاگرد-کیمیا گری کی دنیا بابائے اعظم کہلائے جانے والے حیّان نے اپنے متّقی با حیّان القحطانی کے آنگن میں آنکھ کھولی تو اس نے اپنے چاروں جانب اہلبیت کی محبّت کے شامیانے دیکھے حیّا ن اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کے قریبی مراسم پر بھی غور کیا اور پھر خود بھی اپنے والد کے رنگ میں رنگ گئے -بس یہی موقع تھا جب ان کے والد نے ان کو کوفے جانے کا مشورہ دیا اوروہ اما م جعفر صادق کے شاگرد بن کر کوفہ آ گئے
جابر بن حیان، جنکی کنیت ابو موسی تھی، وہ امام صادق علیہ السّلام کے اصحاب میں سے تھے اور کیمیا (alchemy) میں ایک اہم کردار رکھتے ہیں جس نے جگہ بنائی دور حاضر کی کیمسٹری کیلئے۔ انکی ولادت تقریبا 103 یا 104 ہجری میں ہوئی اور، وہ 200 ہجری میں طوس میں وفات پا گئے انکی لکھی ہوئی کتاب “کتاب الرحمة” انکے سرہانے موجود تھی۔ ان سے منسوب بہت سی تالیفات ہیں، وہ ہمہ وقت تصنیف و تالیف اور ریسرچ میں مصروف رہا کرتے تھے، علم کیمیا میں جابر کی شخصیت شہرۂ آفاق حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے علم کیمیا میں نام پیدا کیا ہے۔
۔ جابر نے علم کیمیا کے توازن کی بحثیں اور فلسفہ کے اہم مباحث کو اجاگر کیا ہے اور نئی نئی تحقیقات منظر عام پر لیکر آئے ہیں۔ ان کی تألیفات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور بعض لوگوں نے انھیں الجبرا کا موجد قرار دیا ہے۔-ہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اس علم میں نام پیدا کیا ہے۔ ان کو صوفی اور حرانی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جابر نے علم کیمیا کے توازن کی بحثیں اور فلسفہ کے اہم مباحث کو اجاگر کیا ہے اور نئی نئی تحقیقات منظر عام پر لیکر آئے ہیں۔ ان کی تألیفات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ علم کیمیا کے بارے میں انھوں نے ہزار صفحہ کے پانچ سو رسالے تألیف کئے ہیں۔جابر علوم کے ذخیرے جمع کرنے کی فکر میں مصروف رہتے تھے، لوگوں کو جدید تحقیقات سے آشنا کرنا ان کا دلپسند مشغلہ تھا -وہ ایک ایسی ہستی کے طالب علم تھے جو عالم بے معلّم تھی اسی لئے۔ جابر ایک شہرۂ آفاق شخصیت بن کے ابھرے اور تاقیامت اپنا نام کر گئے -ا ن کی تألیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔-
جابر نے خود اپنے رسالوں میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ میں نے یہ علوم براہ راست امام جعفر صادق علیہ السّلام سے لئےہیں۔خواص کبیر کے ص:۲۰۵ پر جابر کا بیان ہے کہ میں ایک دن امام جعفر صادق علیہ السّلام کے گھر جارہا تھا... اس کے علاوہ جابجا اس کی تصریح موجود ہے، ص:۳۱۶ مقالہ ۲۴ میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ان خواص کے جمع کرنے کا حکم دیا اور آئندہ بھی ایسی تحقیقات کے اضافہ کا مشورہ دیا۔
اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کے کافی مواقع تھے۔ کوفہ میں جابر نے امام جعفر صادقؒ کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب کے ساتھ ساتھ منطق، حکمت اور کیمیا جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے
استاذ محمد یحییٰ نے اپنی کتاب ’’امام صادق علیہ السّلام مُلھم الکیمیا‘‘ میں لکھا ہے کہ علوم کی تاریخ میں جابر کا مسئلہ اور ان کا امام جعفر صادق علیہ السّلام سے ارتباط بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کو اکثر مستشرقین اور اہل کیمیا نے محل بحث بنایا ہے لیکن کوئی قابل اطمینان کام نہیں کیا ہے اس لئے کہ انھوں نے موضوع کے دیگر مصادر کی چھان بین کی ہے اور خود جابر کے بیانات کو نظر انداز کردیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم جابر ہی کے رسائل کی روشنی میں اس بحث کا تجزیہ کریں اور امام صادق علیہ السّلام کے فکری خدمات کا صحیح جائزہ لیں!.......اس کے بعد ص:۳۹ پر لکھتے ہیں کہ جابر کے چھوڑے ہوئے علمی ذخیرہ کی چھان بین کرنے کے بعد یہ اعتراف کرنا پڑتاہے کہ انھیں یہ سب کچھ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے ملا تھا۔
ایک دفعہ کسی تجربے کے دوران ’’ قرع النبیق‘‘ میں بھورے رنگ کے بخارات اُٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ میں جمع ہو گئے جو تانبے کا بنا ہوا تھا۔ حاصل شدہ مادہ اس قدر تیز تھا کہ دھات گل گئی، جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے میں ڈالا تو اس میں بھی سوراخ ہوگئے، چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکلا۔ جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ جل گئی۔ اس کاٹ دار اور جلانے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو انہوں نے’’ تیزاب‘‘ یعنی ’’ریزاب‘‘ کا نام دیا۔ پھر اس تیزاب کو دیگر متعدد دھاتوں پر آزمایا لیکن سونے اور شیشے کے علاوہ سب دھاتین گل گئیں۔
جابر بن حیان مزید تجربات میں جُٹ گئے۔ آخر کار انہوں نے بہت سے کیمیائی مادے مثلاً گندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک ایسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھلانا ممکن تھا۔اس کے علاوہ لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے لوہے پر وارنش کرنے، موم جامہ بنانے، خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔اس کے علاوہ فولاد کی تیاری، پارچہ بافی ، چرم کی رنگائی اور شیشے کے ٹکڑے کو رنگین بنانا وغیرہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ عمل کشید اور تقطیر کا طریقہ بھی جابر کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے قلماؤ یعنی کرسٹلائزیشن کا طریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کئے۔
جابر نے کیمیا کی اپنی کتابوں میں بہت سی اشیاء بنانے کے طریقے درج کئے۔ انہوں نے کئی اشیاء کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے بتائے۔ انہوں نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’ قرع النبیق‘‘ کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی ’’ سائنسی ‘‘ اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطو، اقلیدس، ارشمیدس، بطلیموس اور جالینوس کے بعد صرف اسکندریہ کی آخری محقق ’’پائپا تیا ‘‘چوتھی صدی عیسویں میں گزری تھی لہٰذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان کی تھی۔ اس کے بعد گیارہویں صدی تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا۔ جابر بن حیان کا انتقال ۸۰۶ء میں دمشق میں ہوا۔