اتوار، 25 دسمبر، 2022

سر گنگا رام “ محسن لا ہور جنم گھڑی سے سمادھی کی راکھ تک ۔


 

سن ۱۸۵۱تھا اور تاریخ تھی 13 اپریل، جب ہندوستان کے ایک  شخص دولت رام  کے گھر میں ایک بچے نے جنم لیا۔ اس دن سکھوں میں بیساکھی کا تہوار منایا جارہا تھا۔ دولت رام نے اپنے بیٹے کا نام گنگا رام رکھا۔ کچھ عرصے بعد ایک پولیس مقابلے میں دولت رام نے کچھ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا۔ ڈاکوؤں کے ساتھیوں نے دولت رام کو دھمکی دی کہ اگر اس نے گرفتار شدگان کو رہا نہ کیا تو وہ اسے بیوی بچے سمیت قتل کردیں گے۔ دولت رام نے فیصلہ کیا کہ اب اسے منگٹانوالا چھوڑ دینا چاہیے چنانچہ راتوں رات اپنے بیوی اور بچے کے ساتھ امرتسر پہنچ گیا 

امرتسر میں بھی اس نے اپنی قابلیت سے بڑی جلدی اپنی جگہ بنا لی اور ساتھ ہی بیٹے کی تعلیم و تربیت بھی کرتا رہا اب یہ بیٹا جوان ہو چکا تھا اس علم دوست انسان کا تعارف یہ ہے کہ 1921 میں سر گنگا رام نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔

ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہمیت  دیتتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصو حکومت کو دیا تو حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس قاءم ہے ۔ایک مصنف  بی پی ایل بیدی کی کتاب ‘ہارویسٹ فرام دی ڈیزرٹ: دی لائف اینڈ ورک آف سر گنگا رام‘ (Harvest From The Desert: The Life and Work of Sir Ganga Ram) نظر آئی۔ 1940 میں شائع ہونے والی اس کتاب کی مدد سے سرگنگا رام کے تعارف کا مرحلہ سر ہوا۔ (اب اس کتاب کا اردو ترجمہ سر گنگا رام: صحرا کی فصل کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔)لیکن یہ ترجمہ کس نے کیا ہے یہ میرے علم میں نہیں ہے

لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے

ایک واقعہ تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دن ایک کنویں میں گر پڑے، اتفاقاً کسی شخص نے انھیں کنویں میں گرتا ہوا دیکھ لیا اور یوں انھیں بچالیا گیا۔ گنگا رام نے اس حادثے کو الہامی اشارے سے تعبیر کیا اور ان کے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے بچا یا گیا ہے

INDIAN  POSTS AND TELEGRAPH DEPARTMENT1922انگریزوں نے گنگا رام کو سر کا خطاب دیا  گنگا رام نے  پنے اپنے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے چلانے اور کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے بڑی رقوم عطیہ کیں اور اپنی کئی ذاتی عالی شان عمارتیں اور جائیداد ٹرسٹ کے حوالے کیں، جس کی آمدنی سے یہ ٹرسٹ مسلسل چلتا رہا اور 

چلتا رہے گا  جب تک یہ علمی درس گاہیں قائم و دائم رہیں گی سر گنگا رام کا نام بھی موجود رہے .علم کےسمندر میں سر گنگا رام کا بحری بیڑہ رواں دواں رہے گا  اور ہمارے محترم سیاستدانوں اور اشرافیہ کے بڑے بڑے محلات اور جزیرے جو انہوں نے عوام کا لہو نچوڑ کر بنائے ہیں اور خریدے ہیں ان کی قبروں کا مدفن بن جائیں گے۔ ۔یہ جاگیریں یہ محل ان کی اولاد کے بھی کام نہیں آئیں گے کیونکہ ان ان میں عوام کی بد دعاوں  کا گارا شامل ہے

  آئیے اب۔ لتے ہیں اس محس ن لاہور کی سمادھی تک  ۔وہ شحص جس نے لاہور کو جدید ہسپتال دیا آج اسکی سمادھی پر سالوں میں ڈسپنسری تک کی عمارت مکمل نہیں ہوئی. ہمیں گنگارام کی یاد میں کوئی عمارت تعمیر کرنی چاہیے مگر ہم تو اسکی بنائی ہوئی عمارتوں کے بھی نام تبدیل کر رہے ہیں. جس شخص کے متعلق لاہور کے بچے بچے کو معلوم ہونا چاہیے, جس کو نصاب کا حصہ ہونا چاہیے, آج اسکی سمادھی کھنڈر کا درجہ پانے کو ہے.

 گنگارام کی سمادھی لاہور میں کچا راوی روڈ پر ہے. یہاں جانا کچھ مشکل بھی نہیں اور ذیادہ آسان بھی نہیں. اگر رہنمائی لینی ہے تو آپ دو مرتبہ بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی درسگاہ بلائنڈ سکول کا پوچھ لیں. یہ سکول کافی معروف ہے. سمادھی سکول سے پہلے آتی ہے.

 گلیوں کے ہجوم میں ڈھونڈتے اور پھرتے ہوئے . لوہے کا دروازہ ملے گا۔دروازے سے داخل ہوں گے تو ایک وسیع میدان میں موجود سمادھی کا دروازہ ہے جہاں ویرانی ناچتی ملے گی

. محسن لاہور کی سمادھی میں تعمیراتی سامان پھینکا ہوا  بانس, ٹوٹی ہوئی لائٹیں, اینٹیں…معلوم ہوتا تھا کہ یہاں عرصہ دراز سے  صفائی نہیں کی گئی

اور  کیا کہوں ۔سر گنگا رام ہم تم سے شرمندہ ہیں

مضمون نگار 

سیّدہ زائرہ عابدی


منگل، 20 دسمبر، 2022

سنگا پور کی ترقّی کاراز

 ۔ سنگاپور کے شمال ميں ملیشيا واقع ہے جو اس کا واحد پڑوسی ہے۔ سنگاپور جو کے دنیا بھر سے آئے ہوئےتارکین وطن کا مرکز ہے- اس کا رقبہ کل ۶۸۳ مربع کلو میٹر ہے۔ سنگاپور میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں انگریزی، چینی، مالے اور انگریزی شامل ہیں، تاہم انگریزی تقریباً ہر کوئی سمجھ لیتا ہے۔ سنگاپور ایک ترقی یافتہ ملک ہے-اس کی ترقّی کا راز اس کے ایماندار حاکموں کے ہاتھ میں ہےجنہوں نے بہترین طرز حکمرانی کی پوری دنیا میں منفرد مثال قائم کی ہے
لیکن اس کی ترقّی کا اصل سفر سنہ ۱۹۶۰ سے شروع ہوا ہے جو اس وقت ایک پسماندہ سنگا پور ہوا کرتا تھا -پھر اس کو  بہترین حکومت ملی اور اس کے عوام کی تقدیر بدل گئ-سنگاپور نے پبلک کارپوریشنوں کو کامیابی سے چلا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کامیابی میرٹ اور صرف میرٹ پر عمل کرنے کی بنا پر حاصل ہوسکی۔لیکوان نے سنگاپور میں ایسی مصنوعات تیار کرنے کیلئے صنعتیں لگائیں جن کو برآمد کیا جا سکے۔ آج سنگاپور اعلیٰ کوالٹی کی مصنوعات برآمد کرنے والا بڑا ملک بن چکا ہے۔ اسکی ترقی کا انحصار جدید ٹیکنالوجی ٹیکس کی کم شرح اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی سازگار  ماحول ہےسنگا پور کے لوگ سبزہ کے دلدادہ ہیں -یہ اپنی زمین کے ہر قطعہ پر سبزہ لگاتے ہیں 

۔سنگاپور میں نیت دیانت اور محنت کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ ۔ اس طرح سنگاپور قانون پر عمل کرنے والا دنیا کا اہم ترین ملک بن چکا ہے۔لیکوان نے اپنے ملک کے شہریوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان میں نظم و ضبط پیدا کیا۔سنگاپور دنیا کا صاف ترین ملک ہے   سنگاپور ائرلائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا ہے

سنگاپور ائرلائن پبلک سیکٹر میں ہے حکومت اس کو کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہے۔سنگاپور میں انفراسٹرکچر پر بہت توجہ دی گئی ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ کم وقت میں مارکیٹوں اور دفتروں اور سکولوں تک پہنچ سکیں۔ سنگاپور میں بہترین انڈسٹریل پالیسی تشکیل دی گئی ہے ۔ کوالٹی یعنی معیار پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔ لیبر کو مطمئن رکھا جاتا ہے سیونگ کی شرح بلند ہے بجٹ متوازن رہتا ہے۔ ٹیکس کم لگائے جاتے ہیں شرح سود بھی کم رکھی گئی ہے۔ سنگاپور کی معاشی پالیسی میں مہارت  استعداد اور پیداوار پر توجہ دی گئی ہے۔ سنگاپور میں نسلی امتیاز کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ بہترین لوکیشن کی وجہ سے سنگاپور دنیا کا ٹریڈ سینٹر بن چکا ہے اس کا اپنا دفاعی نظام ہے اور خوبصورتی کی وجہ سے ٹورسٹ کیلئے پر کشش ہے۔  چین سنگاپور کے کامیاب معاشی ماڈل کو فالو کر کے دنیا کی عظیم معاشی طاقت بن چکا ہے۔
چین اور سنگاپور دونوں ملکوں کی ترقی اور خوشحالی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ جب   کسی ملک کا نظام صاف شفاف مساوی  ہوتا ہے اور جہاں  قانون کی حکمرانی  ہوتی ہے جہاں پر میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے وہ ملک کبھی نا کبھی ترقی یافتہ ملکوں کی صفوں میں کھڑے ہو سکتے ہیں کرسکتے ۔پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں جو سنگاپور کے پاس نہیں تھیں۔ سنگا پور کی ترقّی کیسے ہوئ جو وہ  آج ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ یہ ایک پسماندہ ملک سے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ سوشل میڈیا پر کسی نے ایک کہانی شائع کی ہے جس میں اس راز سے پردہ ایک دلچسپ انداز سے اٹھایا گیا ہے-اس کے صدر نے اپنی کہانی لکھتے ہوئے بتایا
 ۔در حقیقت، سنگا پور میں، جہاں میں نے 31سال حکومت کی، توقع حیات مردوں کی 80سال اور عورتوں کی85 سال ہے۔اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ میں توقع حیات سے بھی11 سال زیادہ زندہ رہا۔ میری زندگی اچھی گذری جو میں نے اپنی قوم کی ترقی اور خوشحالی پر صرف کی۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں جو کچھ کیا اپنی قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے کیا، اور اپنی ذاتی مفاد کے لیے نہیں،۔میں نے دنیاایک مطمئن شخص کی طرح چھوڑی، جس کا مجھے کوئی افسوس نہیں۔تو یہ اصل حقیقت ہے جس کی بناء پر آج دنیا میں سنگاپور کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہم ایک چھوٹے سے ،مایوس کن جزیرہ تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہماری بقا نا ممکن تھی۔ہم نے 1963 میں ملایا اور دوسرے ملکوں کے ساتھ ملکر ایک اتحاد بنایا۔ کہ سنگا پور ترقّی کر سکے ہمارے پاس پینے کا پانی نہیں تھاجو باہر سے لانا پڑتا تھا۔کوئی قدرتی وسائل نہیں تھے۔ نہ تیل، نہ سونا، نہ معدنیات۔ کچھ بھی نہیں۔جو کچھ تھا وہ ہمارے عوام  اور بندرگاہیں، ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اسی سے شروعات کریں گے۔اور اپنی قسمت بدلیں گے۔

آج ہماری کہانی بالکل بدل چکی ہے او۔ہم ایشیا کے چار شہروں میں سے ایک ہیں، جو اپنی حیرت انگیز ترقی کی وجہ سے مشہور ہیں۔سنگا پور ایشیا کا واحد ملک ہے جس کی تمام کریڈٹ ایجنسیوں میں AAA کی ریٹنگ ہے۔ہم دنیا کا چوتھا سب سے بڑا مالی مرکز ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کی پانچویں مصروف ترین بندرگاہ ہے ۔ صنعت کاری ہماری معیشت کا تیس فیصد حصہ ہے۔سنگاپور ، فی کس کل ملکی پیداوار کے حساب سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے اور سنگا پور ہر دن کی ہر گھڑی ترقّی کا سفر آگے ہی آگے طے کرتا جا رہا ہے-

پیر، 19 دسمبر، 2022

شہزادئ کونین( س )کا عملی تربیت کا انداز



 دین اسلام نے انسان کی پیدائش سے پہلے رشتہ ازواج کے وقت سے ہی اولاد کے اخلاق و کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانے کی تاکید کی ہے اور تربیت اولاد کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اسے والدین پر فرض قرار دیا ہے۔

اب اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہمیں ایک آئیڈیل کی ضرورت ہے۔کائنات میں مولائے کائنات ؑ اور سیدہ کونین ؑ کے گھرانے سے بڑھ کر اور کس کا گھرانہ ہو سکتا ہے جو تربیت اولاد کے حوالے سے تمام اولین و آخرین کے لئے نمونہ عمل ہو۔ کیونکہ اس گھرانے میں مولی المتقین و ایمان کل علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا فخر موجودات عالم باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں تو سیدۃ النساء العالمین جیسی ہستی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ 

یہی وہ گھرانہ ہے جس سے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ جیسے جوانان جنت کے سردار اور جناب زینب ؑ و ام کلثوم ؑجیسی عظیم ہستیاں افق عالم پر منور ہوئیں ۔ آج اگر والدین اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کرنا چاہتے ہیں اور ان کو ایمان و اخلاق و نیک کردار میں کمال پر پہنچانا چاہتے ہیں تو در سیدہ کونین علیھا السلام سے ہی اولاد کی پرورش کے سنہرے اصولوں اور عملی نمونوں کو اخذ کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جناب فاطمہ زھراء س کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اولاد کی تربیت زبانی وعظ و نصائح سے زیادہ اپنے عمل و کردار سے کیا کرتیں تھیں۔

 ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے "واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین "” بے شک میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں

حدیث کساءسے ہم کو درس ملتا ہے کہ ہم اپنے معصوم بچّوں سے کس طرح مخاطب ہوں- کہ جب امام حسن مجتبی و امام حسین علیھما السلام باری باری گھر تشریف لاتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں۔ تو آپ کس خوبصورتی اور محبت بھرے انداز میں جواب دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیں جو کہ جناب فاطمہ زھراء سے ہی روایت ہے۔

"اور پھر میرے بیٹے حسن ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرا میوہ دل۔۔۔ اورجب میرے بیٹے حسین ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میرے لخت جگر، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اورمیرے میوہ دل۔۔”

جب آپ کے دونوں باری باری تشریف لاکر آپ کو سلام کرتے ہیں تو آپ نہ صرف سلام کا جواب دیتی ہیں بلکہ ان سے پیار و محبت کا اظہار بھی فرماتی ہیں۔ جیسے صرف و علیک السلام نہیں کہا بلکہ دونوں کے سلام کے جواب میں فرمایا وعلیک السلام اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میوہ دل۔۔ 

آپ اپنے بچوں سے کس قدرمحبت کرتیں تھیں اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ  دین مقدس اسلام کی نگاہ میں ایمان و کردار کے لحاظ سے اولاد کی تربیت اور پرورش کس حد تک اہم ہے اور اس کی کس قدر ضرورت ہے اس کو واضح کرنے لئے ہم قرآن و حدیث سے چند نمونے یہاں پیش کرینگے۔ ۔ رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: أدبوا أولادكم على ثلاث خصال: حب نبيكم، وحب أهل بيته، وقراءة القرآن

"اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو: اپنے نبی کی محبت، اپنے نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن مجید”تربیت اولاد کس قدراہم ترین ذمہ داری ہے اور اس کی کس قدر ضرورت و اہمیت ہے ا سکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام جیسی ہستی اپنی دعاؤں میں اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

اللھم اعنّی علی تربیتھم و تادیبھم و برّھم

(اے اللہ! (میری اولاد) کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاو میں میری مدد فرما”  

سیرت سیدہ کونین علیھا السلام میں تربیت اولاد کے عملی نمونے

کائنات میں سیدہ کونین جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی ذات گرامی ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی حیات طیبہ کو حدود و قیود کے بغیر عالمین کی مخلوقات کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ خداون عالم ہم سب خواتین کو ہماری بیٹیوں کو اور آنے والی نسلوں کی بیٹیوں کو بہ بہ پاک سلام اللہ علیہا کے نقش مبارک پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 

ہفتہ، 17 دسمبر، 2022

غریبوں کے کچّے گھروندے

  کیا عجب تماشہ ہے کہ ہمارے ارب پتی حاکمان پاکستان سیلاب زدگان کی داد رسی کے لئے جب ان کی جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی جو سیلاب زدگان کی کچھ اشک شوئ ہو جاتی لیکن جب وہ ارب پتی حاکمان واپس گئے تو سیلاب زدگا ن جھولی پھیلا پھیلا کر انہیں بد دعائیں دے رہے تھے -ور پھر  خستہ حال  بے یارو مدد گاروں نے دیکھا  کہ بلوچستان میں سیلاب زدگان کی بحالی اور امداد کیلئے بیرون ممالک سے بھیجے گئے خیموں کوجے یو آئی کے جلسے میں بطور قالین استعمال کرنیکی فوٹوزاورویڈیو سوشل میڈیاپر وائرل ہوگئِں  ہے سوشل میڈیاکے صارفین کے مطابق سیاسی حکام کی اس حرکت سے نہ صرف سیلاب زدگان کی حق تلفی ہوئی ہے بلکہ بیرونی سطح پر پاکستان کی شدید بد نامی ہوئی ہے لیکن کسی کے اوپر کیا اثر ہونا ہے پاکستان کی نیک نا می یا بد نامی سے ان کو کیا لینا دینا ہے بس اپنی جیب کو گرم رہنا ہے

مولانا فضل الرحمن کے اس جلسے کی فوٹوز اور ویڈیو ز تین روز سے سوشل میڈیا پرٹاپ ٹرینڈ بنی رہی کیونکہ یو این ایچ سی آر کی جانب سے ممکنہ طورپربے گھر سیلاب زدگان کیلئے بھیجے گئے امدادی خیموں کو بطور قالین بچھایاگیا تھا حالانکہ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں خاندان بے گھر ہوئے ہیں اس وقت وہ کھلے آسمان میں پڑے ہوئے ہیں ان حالات میں مذکورہ متاثرین کی داد رسی کی بجائے خیموں کا جلسے میں استعمال  بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے  ۔-

سیلاب زدگان کی امداد اور ہمارے حاکموں کی خیانت

پاکستان میں اس سال پھر سیلاب اور بارشوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو رہی ہے اور جولائی سے اب تک ملک کے چاروں صوبوں میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سیلاب سے سڑکوں، پلوں اور املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان بارشوں اور سیلاب سے کہیں ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ گئے اور کہیں مکانات پر پہاڑی تودے آ گرے جبکہ کچے مکانات  کی چھتیں گر پڑیں اس سال کے سیلاب نے تقریباً ہزاروں مکانا ت کو نابود کیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوکے رہ گئے۔ ہزاروں بستیاں صفحہء سے نابود ہو گئیں ، بھوک کی تڑپ کتنی ہولناک ہوتی ہے، زندگی کا سازوسامان اچانک بکھر جانے دکھ کیا ہوتا ہے؟ کوئی آج جا کے سیلاب زدہ لوگوں سے پوچھے۔ 

نہ جانے کتنے معصوم بچے اپنی ماؤں کی گود اجاڑ چکے، نہ جانے کتنے ماں باپ اپنے بچوں کو یتیم کر کے پانی کی بہاؤ کے ساتھ ہچکولے کھاتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے، نہ جانے کتنے بسے بسائے گھر یوں مٹ گئے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا۔الحمد للہ! الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ اپنے ان غم زدہ بھائیوں کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے بذاتِ خود اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان اور اس کے قریبی علاقوں میں سیلاب اور شدید بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات کا معائنہ کیا اور متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کے متعلق حکمت عملی بنا کر کام کا آغاز کیا دیا ہے۔الحمد للہ! جنوبی پنجاب ڈیرہ غازی خان اور دیگر قریبی علاقوں تونسہ شریف، مزید راجن پور، پل قمبرگاڈی موڑ، شادن لنڈ، بستی چھٹانی، کلیری، کھوسہ،چوٹی کا علاقہ لوہار والا، لشاری بستی،جھنڈا موڑ، درخواست جمال خان کا علاقہ میں الکہف ٹرسٹ کی انتظامیہ اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

 متاثرین سیلاب میں راشن، خیمے اور ادویات کی تقسیم جاری ہے۔ الکہف سیلاب متاثرین پروگرام کے تحت اس وقت تک پانچ سوراشن پیکج تقسیم کیے گئے۔ تین سوخیمے دیے گئے۔ شادن لنڈ کا علاقہ پل قمبر کے قریب میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا جس میں اب تک 1000افراد کا علاج اور ضروری دوائیں مہیا کی جا چکی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کندھ کوٹ،جیکب آباد، نصیراباد، جعفراء باد گنداخہ باغ ہیڈمیں بھی امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔ 1000سے زائد خاندانوں میں لاکھوں روپے مالیت کے امدادی سامان تقسیم کیے گئے، جن میں خیمے، ٹینٹ، دریاں، کپڑے، غذائی راشن،آٹا،چاول، خوردنی تیل، چینی، چائے پتی، خشک دودھ، صاف پانی اور ادویات تقسیم کی گئیں۔ جبکہ ڈاکٹرز کی ٹیم نے میڈیکل کیمپ میں سینکڑوں متاثرین کا علاج کیا اور ادویات فراہم کیں۔ سینکڑوں خاندانوں کے لیے خوراک اور ادویات الکہف ٹرسٹ (کراچی زون) کے اہل خیر حضرات کے تعاون سے فراہم کیا گیا۔ 

سیلاب کے اسباب میں اس بات پر تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان قدرتی آفات میں سے ہے جنہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، البتہ اس کے نقصانات کو کم سے کم تک محدود کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اسباب سے آگے مسبب الاسباب کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہے جو ہمارے لیے اجتماعی لمحہ فکریہ ہے۔ قدرتی آفات کے موقعہ پر ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی توبہ و استغفار، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔   

جمعہ، 16 دسمبر، 2022

کارگل لداخ کی سورو وادی - بلتستان میں عاشورہ محرم

html

 

کارگل لداخ کی سورو وادی میں محرم کی عزاداری   

لداخ کے کارگل ضلع میں واقع تائی سورو گاؤں کے شیعہ مسلم، محرم کے مہینہ میں کئی دنوں تک عزاداری کرتے ہیں۔ کارگل میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ کارگل شہر سے ۷۰ کلومیٹر جنوب میں واقع تائی سورو کو اپنا ایک اہم مذہبی مرکز تصور کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے لیے اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ، یعنی محرم، پیغمبر اسلام حضرت محمد کے نواسے امام حسین کا سوگ منانے کا مہینہ ہوتا ہے۔ امام حسین کو ۱۰ اکتوبر، ۶۸۰ کو کربلا (موجودہ عراق میں) کی لڑائی میں ان کے ۷۲ رفقاء کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا۔

محرم کی ان پر سوز مجالس کے دوران وہاں کئی دنوں تک دستے یا جلوس نکالے جاتے ہیں، جن میں مرد و خواتین دونوں ہی شریک ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا جلوس محرم کی دسویں تاریخ، یعنی عاشورہ کے دن نکالا جاتا ہے، جس دن حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو کربلا میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اس دن تمام لوگ سینہ زنی کرتے ہیں، جب کہ کچھ مرد زنجیروں سے قمہ زنی کرتے ہیں۔

کارگل شہر سے ۷۰ کلومیٹر جنوب میں واقع سورو وادی کے تائی سورو گاؤں میں تقریباً ۶۰۰ لوگ رہتے ہیں۔ یہ کارگل ضلع کی طیف سورو تحصیل کا ہیڈکوارٹر ہے

عاشورہ سے پہلے والی رات میں، یہاں کی عورتیں مسجد سے امام باڑہ تک جلوس نکالتی ہیں اور راستے بھر مرثیہ اور نوحہ خوانی کرتے ہوئے چلتی ہیں۔ 

محرم کے دوران، حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی عظیم قربانیوں کو یاد کرنے کے لیے ہر شخص مجلس کے لیے امام باڑہ میں دن میں دو بار جمع ہوتا ہے۔ وہاں پر آقا یعنی خطیب سے کربلا کی لڑائی اور اس سے جڑے ہوئے واقعات سناتے ہیں، جنہیں اپنی الگ الگ جگہوں پر بیٹھے ہوئے مرد بچّے و خواتین غور سے سنتے ہیں اور بی بی سیّدہ سلام ال؛لہ علیہا کو ان کی شہید اولاد کا پرسہ دیتے ہی

لیکن ہال کے اوپر والی منزل پر ایک جالی دار بالکونی ہے، جس پرخواتین بیٹھتی  ہیں۔ مجلس کے فوراً بعد امام باڑے میں موجود سبھی لوگ  ماتم بپا کرتے ہیں 

بلتستان میں عاشورہ محرم گلگت بلتستان بھر میں عاشورہ کے درجنوں جلوس برآمد کیے جاتے ہیں مرکزی جلوس گلگت میں مرکزی امامیہ مسجد میں اختتام پذیر ہوتا ہے جلوس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی اور امام حسین سے عقیدت کا اظہار کیا۔اور مقامات پر سبیل اور لنگر بھی تقسیم کیا۔عاشورہ کے روز داخلی سیکورٹی کے پیش نظر رات گئے تک موبائل اور انٹرنیٹ کی سروس معطل رکھّی جاتی ہے جبکہ امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے جلوس کے گذرگاہوں اور اونچی عمارتوں پر پولیس اور گلگت بلتستان سکاٹس کے جوان تعینات کیے جاتے ہیں جبکہ آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی وزیر اعلی گلگت بلتستان نے جلوس عاشورہ کے مختلف مقامات پر سیکورٹی انتظامات کا جائزہ بھی لیا جلوس میں نظم ضبط کو یقینی بنانے کے لیے امامیہ سکاٹس نے داخلی و خارجہ راستوں اور رابط گذرگاہوں پر سیکورٹی فورسز کی معاونت کی۔جلوس عاشورہ کے موقع پر اپنے وقت کے پیشوا کی امامت میں نماز ظہرین ادا کی جاتی ہے جس کے بعد علمائے کرام شہادت امام حسین علیہ السّلام اور واقعہ کربلا کا مقصد بیان کرتے ہیں جلوس کے دوران ہزاروں عزاداروں نے نوحہ ،مرٹیہ اور سینہ کوبی کے زریعے امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔جلوس کے دوران ریسکیو اہلکاروں نے درجنوں افراد کو طبی امداد فراہمی کو یقینی بناتے ہیں اس جلوس عاشورہ میں 40 ہزار سے زائد عزادار شرکت کرتے ہیں ۔

اتوار، 11 دسمبر، 2022

بھا ن ملتی کا کنبہ پی ڈی ایم کی ہنڈیا