مارچ 2025/24ء
پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے میں لے لیا گیا تھا لیکن عمائدین کی مداخلت کے بعد افغانستان واپس بھیج دیا گیا-مقامی قبائلی عمائدین نے بی سی کو بتایا کہ ان کے بچوں میں نوعمر اور بچے شامل ہیں اور یہ سرحد پر مختلف قسم کا سامان سمگل کرتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقے ایک ماہ تک بند رکھنے کے لیے افغانستان کو بدھ کو کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان تجارت اور سفر کے لیے مرکزی گزرگاہ سمجھی جاتی ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے پیدل افراد کو جمع کرنے کی اجازت دی گئی۔
طورخم سرحد پر زیرو پوائنٹ یا مرکزی گزرگاہ گاہ کے آس پاس کے کمرے سے تعلق رکھنے والے کم عمر بچے جن کی عمریں آٹھ سال سے 14 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے کہ اکثر سامان بھرے ہوتے ہیں افغانستان سے پاکستان اور افغانستان کی طرف سے سمگل کرتے ہیں۔ان بچوں کی گاڑیوں کے نیچے یا اوپر سے خفیہ طور پر سرحد پار کرتے ہیں اور اس سے روزگار حاصل کرتے ہیں لیکن بڑے وزیر کا کہنا ہے کہ سمگلرز کی طرف سے ان کا استحقاق بھی کیا جاتا ہے اور کم اجرت پر انتہائی پُرخطر اور غیرقانونی کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
سنہ 2023 کی یونیسیف کی رپورٹ کے ادارے میں افغانستان کے ننگرہار صوبے میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن نے کہا کہ ’’سروے کے مطابق سال مارچ میں 2500 بچے زیادہ طور پر سرحد پر انتہائی چائلڈ لیبر کر رہے ہیں‘‘۔ویڈیو چلائیں، "چلتے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر پاکستان سامان سمگل کرنے والے افغان بچے"، چلتے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر پاکستان کا سامان سمگل کرنے والے افغان بچے پاکستان والے افغان بچوں کو کیسے کیسے لیا گیا؟لنڈی کوتل کے ایس ایچ اور عدنان خان آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ پچاس کے لگ بھگ غیر بچے اور نوعمر قانونی طور پر سرحد پر لگنے پر باڑ توڑ کر داخل ہو گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے غیر قانونی طریقے سے مختلف قسم کے سامان سمگل کرتے ہیں جن میں سگریٹ اور دیگر اشیا شامل ہوتی ہیں۔
پولیس نے ان بچوں کے خلاف جا کر 14 فارن ایکٹ کے تحت نامزد کیا تھا لیکن مقامی عمائدین اور نمائندوں کی کوششوں سے درخواست نہیں کی تھی۔عدنان خانریدی نے بتایا کہ ان بچوں کو تنبیہ کر دیا گیا ہے کہ اگر اس طرح سے آپ کے خلاف درج کیا جائے گا۔ بچے بڑی گاڑیوں کے نیچے یا گاڑیوں کے اوپر سے سرحد پار کرتے ہیں۔ لنڈی کوتل تحصیل کے چیئرمین شاہ خالد شنواری نے بتایا کہ پچاس بچوں کو تو آپ نے لے لیا تھا لیکن 30 بچے اور بھی تھے جنھوں نے اتوار کی رات افغان صوبائی وزیر کو خطاب کر دیا۔عدنان آفریدی نے بتایا کہ طور خم سرحدپر کوئی 700 لوگ لگتے ہیں جو سرحد پر اِدھر کا سامان اُدھر اور اُدھر کا ساما ن ا دھر ادھر کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مقامی عمائدین اور جرگہ بااختیار نے ان کی واپسی کے لیے کوششیں کیں اور ماہِ رمضان میں جذبۂ خیر سگالی کے تحت جرگہ کے موقع پر بات چیت کی۔
مقامی قبائلی رہنما ملک تاج الدین نے بی سی کو بتایا کہ ’’سرحد کھلنے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے جس پر عصمت دری کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے بعد ان بچوں کو زیرو پوائنٹ پر افغان وزیر خارجہ کو دیا گیا‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے بچوں میں 17 بچے شامل ہیں جبکہ 33 بچے اور نوعمر بچے شامل ہیں۔پاک افغان پر ماضی میں بڑے پیمانے پر مختلف اشیا کی سمگلنگ کی سرحد تھی لیکن سرحد پر سمگلنگ میں کمی واقع ہوئی لیکن اب بھی سرحد پر مختلف بچے اشیا سمگلنگ کرتے ہیں جن میں سگریٹ، نشہ آور اشیا، قسم کی اشیا اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
یہ بچے ماضی میں بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے اوٹ میں چھپ کر یا ان کنٹینرز اور ٹرکوں کے نیچے سامان سمگل کرتے ہیں۔لنڈی کوتل تحصیل کے چیئرمین شاہ خالد شنواری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’ایک المیہ ہے کہ بڑی تعداد میں انتہائی بچے راستے یا ان کی بڑی گاڑیوں کے نیچے اور ان گاڑیوں کے ساتھ افغانستان کے چھپے ہوئے ہیں اور ان بچوں کے پاس مختلف قسم کا سامان ہوتا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’اکثر یہ بچے جب اس طرف آکر واپس نہیں جاسکتے تو پھر یہ عورتیں اپنے ہوٹلوں پر آس پاس یا بازار میں چھپ کر گزارتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا بھی ہوا ہے کہ ان کے نیچے بڑی ڈیکلیوں کے ساتھ ساتھ چھپ کر بچے زخمی بھی ہوئے ہیں لیکن اس گاڑی کو اس کام سے منع کیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب یہ بچے باڑ کر رہے ہیں اور ان بچوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کو سامان دیا جاتا ہے اور اس سے مقامی سطح پر مسائل بڑھ رہے ہیں۔
اللہ پاک ہمارے افغان ملک کی غربت دور کر دے آمین
جواب دیںحذف کریں