ہر محب وطن کی طرح صدیق سالک کا رواں رواں اپنے وطن پاکستان کی محبت سے سرشار تھا اور شو مئ قسمت بھارتی قید کی اسیری نے اس میں بے پناہ اضافہ کیا تھا۔ بہر حال اتنے بڑے حادثے کے بعد جب وہ پاکستان واپس آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اہل اقتدار طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوا اسی بددلی میں وہ فوج بھی چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں ملازمتی مجبوریوں کے تحت ایسے اقدامات میں شریک ہونا پڑتا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اس پس منظر میں سالک نے ”پر یشر ککر“ تخلیق کیا جس میں انہوں نے عام پاکستانی کو معاشرے میں در پیش مسائل ‘ ناانصافی کی تصویر پیش کی ہے۔ صدیق سالک بنیادی طور پر ایک مزاح نگار نثر میں مہارت رکھتے لیکن اس کے باوجود یہ ناول حقیقت سے قریب ہونے کی بنیاد پرقارئین میں بہت مقبول ہوا ۔ ناول پریشر کی کہانی ممتازمصور غلام رسول کی زندگی کی کہانی ہے جس کے پردے میں سالک نے اپنی زندگی کی کہانی بھی سنائی ہے۔ جس میں بہت دخل اندازِ بیان کا بھی ہے سالک نے بہت سادہ اور فطری انداز میں اپنی بات قارئین تک پہنچائی ہے۔
عشق‘ محبت کی عدم موجودگی کے باوجود یہ ناول مقبول ہوا جس کی اہم وجہ یہ نظر آتی ہے کہ یہ ایک عام پاکستانی کے دل کی آواز تھی۔ اس ناول کے ذریعے سالک نے ناول نگاری میں پاکستانی قومیت کے تصور کو بھی فروغ دیا ہے”اسلوب بیان کے اعتبار سے یہ ناول کلاسیکی روایت کی ایک ترقی یافتہ صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے اس میں داستان گوئی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اس میں اگرچہ روایتی رومانویت نہیں لیکن یہ اپنی ایک نئی رومانویت تخلیق کرتا ہے‘ جبر اور ظلم کو سہنے کی ‘ برداشت کرنے کی رومانویت فطرت اور پریشر ککر ہمارے معاشرتی رویوں کی علامتیں بھی ہیں“ ”صدیق سالک کے دو ناول ”پریشر ککر“ اور”ایمرجنسی“ میں پاکستانی معاشرے کی سماجی زندگی ‘ اخلاقیات کے زوال اور روح کی زبوں حالی کو واقعاتی صداقت اور کرداروں کا وجود معنویت سے پیش کیا گیا ہے۔ان ناولوں میں پوری انسانیت ایمرجنسی‘ کی زد میں آ کر پریشر ککر میں محبوس نظر آتی ہے پس منظر میں دیہات موجود ہے جو شہر کی باطل قوت سے دست بگر بیاں ہے۔ ان ناولوں کا اسلوب کلاسیکی ہے ا “بیسویں صدی کے آخر تک اردو ناول تکنیک کے اعتبار سے بہت سے اوصاف سے مالا مال ہو چکا تھا۔
اس میں کرداروں کی تعمیر‘ پلاٹ کی بنت کے لحاظ سے تکنیکی تنوع آ چکا تھا جیسے شعور کی رو‘ خودکلامی‘ فلیش بیک کی تکنی۔ صدیق سالک ان تجربات اور روایات سے استفادہ کرتے نظر نہیں آتے۔سالک کے ہاں زیادہ حصہ سوانحی ادب کا ہے۔ ان کا افسانوی ادب جو ان کے ناولوں پر مشتمل ہے میں بھی سوانحی رنگ بہت گہرا ہے خصوصاً ”پریشر ککر“ مصور غلام رسول کے ساتھ خود سالک کی زندگی کا مرقع ہے۔دو اشخاص کی زندگی کی کہانی کے ساتھ اسے مکمل افسانوی نثر نہیں کہا جا سکتا۔اسی طرح ایمرجنسی پر امجد اسلام امجد کے ڈرامے ”وارث“ کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ جاگیرداری نظام پر لکھے گئے ناولوں کے مشترک عناصر بھی اس میں موجود ہیں۔ ان کی دیگر تحریروں کے تناظر میں جب ان کے ناولوں کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخلیقی مزاج افسانوی نثر سے میل نہیں کھاتا۔ بطور ناول نگار ناقدین نے صدیق سالک کی ناول نگاری خصوصاً ”پریشرککر“ کو اہمیت دی ہے۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ ‘ ڈاکٹر انور سدید ‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ فتح محمد ملک اور ڈاکٹر شاہین مفتی جیسے نقادوں نے”پریشرککر“ کو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک منفرد ‘غیر روایتی اور کامیاب ناول قرار دیا ہے فوج میں شمولیت1964ءمیں بطور کپتان مسلح افواج میں شامل ہو گئے اور دلچسب بات یہ ہے کہ ان کی ملازمت کے آغاز وہی دن تھا جو ان کی پیدائش کا دن تھا، 6ستمبر ، ابتدائی فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد ان کا تقرر بطور پبلک ریلیشن آفیسر آئی ایس پی آر کے ہیڈ کواٹر میں کر دیا گیا۔ 1970میں میجرکے عہدے پر ترقی پا کر ڈھاکہ چلے گئے۔ پھر سانحہ مشرقی پاکستان ہو گیا۔ یہ بھی جنگی قیدی کی حیثیت سے دوسال ہندوستانی قید میں رہے۔ اسیری کے ان دو سالوں پر انھوں نے ایک کتاب “ہمہ یاراں دو زخ “ کے نام سے لکھی- رہائی کے بعد 1973ء میں واپس آئے۔1977ء میں لفٹینٹ کرنل بنا دیے گئے اسی سال فل کرنل ہو گئے۔ جب ضیا الحق نے زمامِ اقتدار سنبھالا تو انھیں چیف مارشل لا سیکریٹریٹ میں پریس سیکریٹری مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران وہ صدر کے لیے تقریر نویس کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر کا عہدہ 1985 میں ملا - زندگی کے آخری لمحے تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے اگرچہ ساتھ ساتھ صدر ضیا الحق کے پریس سیکرٹری اور تقرر نویس کا کام بھی چلتا رہا۔1 گئے۔ پسماندگان میں تین بیٹاں اور ایک بیٹا چھوڑا ان کا بیٹا سرمد سالک صحافت اور ادب سے رشتہ وراثت میں لے کر پیدا ہوا اور آج بھی صحافی ہے اور اپنی ایک نیوز ایجنسی چلانے کے علاوہ مختلف نیوز چینلز اوراخبارات سے بھی وابستہ ہیں۔ دو بیٹوں صحیفہ سالک اور صائمہ سالک نے ایم اے انگریزی کیا اور سب سے چھوٹی صاحبزادی آئینہ سالک نے نفسیات میں ایم فل کیا۔ صدیق سالک ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس خیالِ خام کو غلط ثابت کیا کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے تمام کٹھنائیوں کے باوجود نہ صرف اپنا راستہ تلاش کیا بلکہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے کیونکہ انھوں نے ادب کی تاریخ میں ایسا قیمتی اثاثہ شامل کر دیا جو ہماری ادبی تاریخ کا لازوال حصہ ہے ۔
جاری ہے
اگر بریگیڈئر سالک فضائ حادثے میں جان بحق نا ہوتے تو ان کی مزید تصنیفات قارئین کو پڑھنے کو ملتیں
جواب دیںحذف کریں