یہ میرے بچپن کی بات ہے جب مجھےمعلوم ہوا کہ پہلے وقتوں میں معاشرے میں چائے کا چلن نہیں تھا-ظاہر ہے اس بات پر میری حیرت بجا تھی -میں نے اپنی دادی جان سے سوال کیا پھر اس کا نعم البدل کیا تھا دادی جان نے بتایا سردیوں میں گرم دودھ کے ساتھ مختلف میوہ جات شامل کر کے استعما ل کیا جاتا تھا اور گر میوں میں لسی اور مختلف مشروبات ہوتے تھے -میرا اگلا سوال تھا پھر چائے نے کب رواج پایا -دادی جان نے بتایا بدیسی قومیں آ ئیں اور اپنے ساتھ چائے کی سوغات بھی ساتھ لائیں 'شروع شروع میں مفت تقسیم کی گئ جب مزہ مزاج میں سرائت کر گیا تب قیمت کے ساتھ دی جانے لگی اور اب یہ حال ہے کہ اس بار 52 کروڑ ڈالر کی چائے درآمد کر کے ہم پی چکے ہیں ، پاکستانی قوم مانسہرہ کے باغات جن کی چائے کو چینی کالج نے ’بہترین‘ چائے قرار دیا-سی پیک روٹ کے متصل ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری میں چائے کے باغات کے ساتھ ہی چائے بنانے کی فیکٹری بھی لگائی گئی ہے جہاں کی چائے چینی ایوارڈ جیت چکی ہے۔خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری میں میلوں دور تک چائے کے باغات پھیلے ہوئے ہیں جن سے ملنے والی چائے کو چین کے ایک ادارے کی جانب سے بہترین چائے قرار دیے جانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔شنکیاری میں 1986 میں قائم کیے گئے نیشنل ٹی اینڈ ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر عبدالوحید کے مطابق پاکستان میں کاشت کی گئی چائے کو چین کے ٹین فو ٹی کالج نے 2008، 2009 اور 2013 میں بہترین چائے کا ایوارڈ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹین فو ٹی کالج دنیا کا واحد کالج ہے جہاں چائے پر تحقیق کی جاتی ہے۔ یہاں کے طالب علم صرف چائے سے جڑے پہلوؤں پر تحقیق کرتے ہیں اور کالج ایم ایس، پی ایج ڈی اور پوسٹ ڈاک بھی کرواتا ہے۔انہوں نے بتایا: ’اس کالج نے ہماری چائے کو بہترین چائے قرار دیا ہے اور سرٹیفیکٹ ہمارے پاس موجود ہے۔
‘سی پیک روٹ کے متصل شنکیاری میں ترکی کے تعاون سے چائے کے باغات کے ساتھ ہی چائے بنانے کی فیکٹری بھی لگائی گئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق شمالی علاقہ جات، کشمیر، مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں کل ایک لاکھ ایکڑ کے قریب زمین چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ تاہم ملک میں اب تک صرف پانچ سو ایکڑ رقبے پر کی چائے کاشت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں استعمال ہونے والی زیادہ تر چائے درآمد ہوتی ہے۔چائے جو مبینہ طور پر کرونا سے بچائےڈاکٹر عبدالوحید کہتے ہیں کہ کسان کو چائے کی فصل اگانے کے لیے پانچ سے چھ قربانی دینی ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ و کسانوں کو کسانوں کو معاوضہ دے تاکہ وہ اسے کاشت کرنے پر آمادہ ہوں۔انہوں نے کہا: ’اگر ہم چائے کا ایک ایک پیالہ بھی پینا چھوڑ دیں تو ہماری بچت ہو جائے گی۔‘ڈاکٹر عبدالوحید نے قوم کو مشورہ دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سبز چائے پیئں۔ان کا کہنا تھا کہ ’بازار میں زیادہ تر چائے ملاوٹ شدہ ہے جسے پینے سے معدے کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ اس میں رنگ اور باقی کیمیکل ہوتے ہیں۔
‘نعمت خان مانسہرہ میں قائم چائے کے باغ میں گذشتہ پانچ سال سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے بہترین روزگار ہے کیونکہ چائے کے باغات میں سال بھر کام کرنا ہوتا ہے۔نعمت خان نے بتایا کہ انہوں نے میٹرک کے بعد ہی چائے کے باغات میں کام شروع کردیا اور یہ انہیں بہت پسند ہے۔انہوں نے کہا: ’میں دیگر زمینداروں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ جتنا زیادہ ہو سکتا ہے چائے کی پیداوار کو زیادہ کریں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ نوکریوں کے مواقع ملیں -شاہراہِ ریشم پر واقع ہزارہ ڈویژن کا کُل رقبہ 17064 مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی 61 لا88 ہزار 736 افراد پر مشتمل ہے۔موسمی اعتبار سے یہ علاقہ چائے اور زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہے۔ 1982میں پاکستان اور چین کے زرعی ماہرین نے ایک سروے کیا تھا، جس کا مقصد جائزہ لینا تھا کہ کون کون سے علاقے چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔اس میں جو علاقے سامنے آئے ان میں ہزارہ کا علاقہ پہلے نمبر پر تھا،
جس کی وجہ سے حکومتِ پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے یہاں چائے کی کاشت کو فروغ دینے میں سرگرم ہے، مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔پاکستان سالانہ کتنی مالیت کی چائے درآمد کرتا ہے؟دنیا میں چائے کی پیداوار کی سالانہ مالیت 122.2 ارب ڈالر ہے، جو 2028 تک بڑھ کر 160ارب ڈالر ہو جائے گی۔اس میں چین 24 لاکھ ٹن کے ساتھ پہلے، انڈیا نو لاکھ ٹن کے ساتھ دوسرے اور کینیا تین لاکھ پانچ ہزار ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، پھر سری لنکا، ترکی اور انڈونیشیا کا نمبر آتا ہے۔2022 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان سالانہ 707 ملین ڈالر کی درآمد کے ساتھ پہلے، امریکہ 522 ملین ڈالر کے ساتھ دوسرے اور متحدہ عرب امارات 388 ملین ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔چائے کی پیداوار صدیوں پہلے چین میں شروع ہوئی تھی، جو آج بھی 38 فیصد کے ساتھ چائے کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔
تقریباً 200 سال پہلے ہندوستان میں چائے کی کاشت نہیں ہوتی تھی مگر آج وہ نہ صرف چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے بلکہ چائے کی پوری دنیا کی پیداوار کا 23 فیصد پیدا کرتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ انڈیا 200 سال میں چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر کیوں اور کیسے آیا اور پاکستان جو 78 سال پہلے ہندوستان کا ہی حصہ تھا وہ چائے کی پیداوار میں نہ صرف پیچھے ہے بلکہ دنیا میں چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بھی ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی 1820 میں چین سے ایک جاسوسی مشن کے ذریعے پودے چرا کر ہندوستان لائی، جن کو آسام اور دارجیلنگ میں کاشت کیا گیا۔تب ہزارہ کے علاقے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملکیت میں تھے، وگرنہ شاید ایسٹ انڈیا کمپنی ہزارہ کو بھی موزوں خیال کرتے ہوئے یہاں چائے کاشت کرتی اور آج ہزارہ کا معاشی منظر نامہ مختلف ہوتا۔ہزارہ میں چائے کی کاشت کیوں ناکامی سے دوچار ہے؟جبکہ مانسہرہ میں چائے پھل پھول رہی ہے -یہ بلاگ انٹر نیٹ پر لکھا ہوا ہے میری اپنی تلخیص شامل ہے ۔
شاعر نے تو یہ شعر کسی اور مشروب کے لئے کہا ہے لیکن میں اس کو چائے کے لئے کہا جانے والا شعر کہتی ہوں --اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا-چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئ
جواب دیںحذف کریں