ویسے تو اللہ کریم و کارساز نے دنیا میں ہر تخلیق ہی بے مثال بنائ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روئے زمین پر پرندے اس کی تخلیق اعلٰی کی بے مثل ' مثال ہیں پرندے ہماری زندگی کا لازمی جزو ہیں اور اللہ پاک نے ان کو یہ سمجھ بوجھ عطا کی ہے کہ یہ موسم کے لحاظ سے اپنے مسکن تبدیل کر لیتے ہیں اور موسمی سختیوں کی زد میں آنے کے بجائے وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں ۔ اس ہجرتی راہداری کو پرندوں کا انڈس فلائ روٹ کہا جاتا ہے، جو دنیا کی اہم ہجرتی گزرگاہوں میں شامل ہےجیسا کہ روس کے برفانی صحرا سائبیریا میں جب ہر طرف برف کا راج ہوتا ہے یہ پرندے پاکستان کی جانب ہجرت کرکے منگلا ڈیم اور ہیڈ رسول پر اپنے ڈیرے ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقون کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے ۔ ، مہمان موسمی پرندوں جن میں کونج، شاہین، تلور، بٹیر اور مرغابیاں شامل ہیں ان کی آمد کا سلسلہ ماہ کے آخر تک جاری رہتا ہے ۔اسی طرح پنجاب میں مختلف ہیڈورکس جن میں ہیڈبلوکی ، خانکی، سدھنائی ، سلیمانیکی ، قادرآباد اورمرالہ شامل ہے یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں مہمان پرندے قیام کرتے ہیں۔اسی طرح مختلف جھیلیوں پر بھی ان پرندوں کی اچھی خاصی تعداد ڈیرے ڈالتی ہے، بد قسمتی سے گزرتے وقت کے ساتھ قدرتی حسن کو دوبالا کرنے والے ان مہمان پرندوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک براعظم سے دوسرے براعظم ہجرت کر نے والے یہ پرندے زمین پر اترے بغیر مسلسل دس ماہ تک اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کمی آئی ہے جس کی ایک وجہ ان پرندوں کا بڑے پیمانے پر ہونے والا غیرقانونی شکار ہے۔سائبیریا کے سرد ترین برفانی علاقے سے ہجرت کرنے والے پرندے ہر سال سردیوں میں گرم ممالک کی جانب محو پرواز ہوتے ہیں ۔ یہ پرندے اکتوبر سے مارچ تک پاکستان کے دریاؤں، جھیلوں اور دلدلی علاقوں میں قیام کرتے ہیں اور موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی واپس سائبیریا چلے جاتے ہیں ۔ اس سال یہ دن ''پانی: پرندوں کی زندگی قائم رکھنے کا ضامن'' کے موضوع کے تحت منایا جائے گا جس سے ہجرتی پرندوں اور ان کے مساکن کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔13 اور 14 مئی کو ہجرتی پرندوں کا عالمی دن دنیا کی توجہ ان پرندوں کی زندگی کو لاحق خطرات کی جانب مبذول کراتا ہے۔
ہجرتی پرندے ہجرت، موسم سرما گزارنے، نسل کشی اور گھونسلے بنانے کے لئے پانی اور اس سے منسلک مساکن جیسا کہ جھیلوں، دریاؤں، ندیوں، تالابوں اور ساحلی نم دار جگہوں پر انحصار کرتے ہیں اور طویل موسمی ہجرتوں کے دوران ان مقامات پر آرام کرتے اور تازہ دم ہوتے ہیں۔تاہم دنیا بھر میں یہ آبی ماحولی نظام خطرے سے دوچار ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی انسانی طلب، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سے اس بیش بہا ماحولی نظام اور ان پر انحصار کرنے والے ہجرتی پرندوں کو خطرہ لاحق ہے-پرندوں کو عام طور پر ہماری زمین کی صحت کا پیمانہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ''ماحولی نظام کے انجینئر'' ہوتے ہیں جو پودوں کی افزائش کے لئے بیج پھیلاتے، زیرگی کرتے اور مردہ جانداروں کو کھا کر ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔معدومیت کا خطرہ تاہم جیسا کہ دنیا میں پرندوں کی صورتحال کے بارے میں 2022 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے، پرندے اور ہماری زمین خطرے سے دوچار ہیں۔ آٹھ میں سے ایک پرندے کی نسل کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے اور دنیا بھر میں پرندوں کے حوالے سے صورتحال بگڑ رہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی آبی پرندوں کی انواع کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ انہیں سب سے بڑے خطرے کا سامنا شمالی کرے میں موسم گرما کے نسل کشی کے مقامات اور جنوب میں خوراک کے حصول کی جگہوں کے مابین سالانہ دو طرفہ ہجرتوں کے دوران ہوتا ہے۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے رکن ممالک، بین الحکومتی ادارے کے نمائندوں اور این جی اوز نے متعدد قراردادوں اور رہنما ہدایات کی منظوری دی جس کا مقصد حیاتیاتی تنوع کے نقصان میں کمی لانا اور ان 255 آبی پرندوں کو تحفظ دینا تھا جنہیں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی حمایت سے طے پانے والے افریقین یوریشین واٹر برڈ ایگریمنٹ (اے ای ڈبلیو اے) کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی پرندوں کی بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔ONU News PT سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی پرندوں کی بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔بڑا ماحولیاتی چیلنج -تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کا نقصان اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑے ماحولیاتی مسائل میں سے ایک ہے۔2019 میں 'حیاتیاتی تنوع اور ماحولی نظام کی خدمات پر بین الحکومتی سائنس۔پالیسی پلیٹ فارم' (آئی پی بی ای ایس) کے عالمگیر جائزے میں خبردار کیا گیا تھا کہ انسان حیاتیاتی تنوع کو جس شرح سے کھو رہا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔اگر اس حوالے سے موجودہ رحجانات کا رخ واپس نہ موڑا گیا تو مستقبل قریب میں جانداروں کی دس لاکھ انواع معدوم ہو جائیں گی۔
جنگلی جانوروں کی ہجرتی انواع کے تحفظ سے متعلق کنونشن (سی ایم ایس) نے اس رحجان کی تصدیق کی ہے۔ یہ ہجرتی جانوروں، ان کے مساکن اور ہجرتی راستوں کے تحفظ سے متعلق واحد مخصوص عالمی کنونشن ہے۔اس کنونشن کے فریقین کی 13ویں کانفرنس (کاپ-13) میں پیش کردہ سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔ حیاتیاتی تنوع اور ماحولی نظام انسانیت کی بقا کے لئے ضروری ہیں اور ان دونوں کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔عالمگیر تعاون-کنونشن کی ایگزیکٹو سیکرٹری ایمی فرینکل نے کہا ہے کہ ''ہجرتی جانور اس ماحولی نظام کا لازمی حصہ ہوتے ہیں جن میں وہ پائے جاتے ہیں۔ وہ صحت مند ماحولی نظام کی فعالیت، توازن اور اس کی بناوٹ میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں جو ہمیں پودوں کی زیرگی، خوراک، فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو ختم کرنے اور کئی طرح کی معاشی منفعت جیسے بے شمار فوائد پہنچاتا ہے۔''چونکہ ہجرتی انواع قومی، علاقائی حتٰی کہ براعظمی حدود کے بھی آر پار آتی جاتی ہیں اس لیے سی ایم ایس نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جو اس معاملے میں عالمگیر تعاون میں مدد دیتا ہے۔ ماحولیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلی جیسے کثیررخی عالمگیر مسائل سے نمٹنے کے لئے یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوم پیچ » ماحولیات » سندھ: 2023 کے بعد مسافر پرندوں کی آمد میں مسلسل کمیانڈپینڈنٹ اردو گفتگو کرتے ہوئے محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو نے کہا کہ 2023 کے بعد مسافر پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں