- اپنی بربادی پر نوحہ کناں اسٹیل ملز کراچی -پاکستان اسٹیل ملز ایک عظیم الشان منصوبہ جسے پاکستان کے مگر مچھ کھا گئے -پہلے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہو وہ عظیم الشان صنعتی تحفہ جو پوری دنیا میں پاکستا ن کی پہچان بنا تھا -جب نا اہلوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا تو اس کی بربادی کا آغاز ہو گیا -قیام پاکستان کے بعد ملک میں صنعتیں لگانے کی جانب توجہ دی گئی اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ملک میں موجود معدنی لوہے کو فولاد میں تبدیل کرنے کی بنیادی صنعت لگانے کے لیے کام شروع کرنے کا حکم دیا۔ 1956ء میں روسی حکومت نے پاکستان میں اسٹیل پلانٹ لگانے میں معاونت کی پیشکش کی۔ ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد ایوب خان کی حکومت نے اس پیشکش پر بات چیت شروع کی اور 1968ء میں پاکستان اسٹیل ملز کو بطور ایک نجی کمپنی کے رجسٹر کیا گیا۔ یعنی قیام پاکستان کےبعد تقریباً 21 سال بعد ادارے کی رجسٹریشن ہوئی۔ آخر اس میں اتنا وقت کیوں لگا اس کی متعدد وجوہات ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام میں وقت لگنے کی بڑی وجہ روس اور مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان کو فولاد سازی کی صنعت لگانے کی پیشکش تھی۔ مغربی جرمنی کی جانب سے پاکستان میں صوبہ خبیر پختون خوا اور پنجاب سے ملحقہ علاقے کالا باغ میں فولاد سازی کا کارخانہ لگانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ وہاں سے جرمنی کی ایک کمپنی خام لوہے کی کان کنی کرکے اس کو جرمنی میں واقع والکس ویگن کمپنی کو فروخت کررہی تھی۔
پاکستان کی ترقی کے لیے ملک میں ایک بڑے فولاد سازی کے کارخانے کی ضرورت ہے جوکہ وطن عزیز کی زمین میں دفن 1.427 ارب ٹن خام لوہے کو فولاد میں تبدیل کرکے نہ صرف مقامی ضروریات کو پورا کرسکے بلکہ برآمدات کر کے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھی کماسکے۔یہ طرفہ تماشا دیکھیں کہ کراچی کے مضافات میں پورٹ قاسم سے ملحقہ ایک دوسرے کی دیوار سے جڑی دو اسٹیل ملز بند پڑی ہیں۔ اس کی مشینری کو سمندر کی نمکین ہوا زنگ آلود کررہی ہے۔ ان میں سے ایک ہے پاکستان اسٹیل ملز اور دوسری نجی شعبے کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے قائم الطوقی اسٹیل ملز۔ان دونوں اسٹیل ملز کی صلاحیت معدنی لوہے یعنی آئرن اُور (Iron Ore) کو فولاد میں ڈھالنے کی ہے۔ مگر فولاد سازی کے یہ دونوں ادارے ملکی نظام میں اس ذہنی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ ملک کو ترقی کرنے سے روک رہی ہے۔ اس کے عوض اس کمپنی نے پاکستان میں فوکسی کاریں اور ویگنیں درآمد کیں۔ دوسری طرف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں روس کی جانب سے ایک اسٹیل مل لگانے کی پیشکش کی گئی تھی جو کہ درآمدی خام مال پر لگائی جانی تھی مگر جرمنی کی پیشکش جو کہ نجی سرمایہ کاری کی تھی کو اس وقت کے وزیر توانائی ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد کردیا
اور 1973ء میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روسی پیشکش کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔پاکستان اسٹیل ملز کو مرحلہ وار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے مرحلے میں 11 لاکھ ٹن کی گنجائش اور بعد ازاں پیداواری گنجائش کو بڑھاتے ہوئے 22 لاکھ ٹن کرنا تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا انفرااسٹرکچر بھی مستقبل کی گنجائش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ پاکستان اسٹیل کے لیے درکار زمین کے علاوہ اس کے ساتھ ذیلی صنعتوں کے لیے ایک خصوصی صنعتی زون بھی قائم کیا گیا جس میں فولاد سازی سے متعلق دیگر صنعتوں کا قیام کیا جانا تھا۔ مگر ملک میں سیاسی وجوہات اور درآمدی مافیاز اور قومی خزانے کی لوٹ مار میں دلچسپی رکھنے والوں کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز 11 لاکھ ٹن کی گنجائش سے آگے نہ بڑھ سکی۔ پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار کا آغاز 1981ء میں ہوا جبکہ افتتاح جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں کیا اور یہ پورا منصوبہ 27 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔اسٹیل میل کی تعمیر کے لیے روسی ماہرین بھی پاکستان آئے— پاکستان اسٹیل ملز میں فولاد سازی کے متعدد کارخانے ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ان میں سب سے پہلا کارخانہ بلاسٹ فرنس کا تھا جوکہ معدنی لوہے کو پگھلا کر اس کو صاف کرتا تھا۔ اس کے بعد اس سیال لوہے کو اسٹیل میکنگ میں بھیجا جاتا جہاں آکسیجن کے ذریعے جلاکر سیال لوہے کو کثافتوں سے پاک کیا جاتا اور یہاں بلٹس ڈپارٹمنٹ میں بلٹس اور سلیب ڈھالی جاتیں۔ اس کے بعد ضرورت کے مطابق لوہے کی ان سلیبس کو ہاٹ رول اور کولڈ رول ملز میں پروسیس کیا جاتا اور وہاں سے مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دیا جاتا
اسٹیل ملز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک سو میگاواٹ کا بجلی کا پلانٹ، آکسیجن پلانٹ، کوئلے کو کوک میں تبدیل کرنے کے لیے کوک اوون بیٹری، کوئلے اور معدنی لوہے کی درآمد کے لیے پورٹ قاسم پر جیٹی، اس کو منتقل کرنے کے لیے کنویئربیلٹ کی تعمیر بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ رہائش کے لیے پاکستان اسٹیل سے متصل اسٹیل ٹاون شپ کے علاوہ گلشن حدید بھی بنایا گیا۔ اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز سے منسلک اسٹیل ٹاون شپ کی قیمت پاکستان اسٹیل ملز کے پلانٹ سے کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔پاکستان اسٹیل ملز کے قیام سے لے کر اس کو چلانے اور اس کی نجکاری تک تقریباً تمام ہی فیصلوں میں ذاتی مفاد اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے ہر مقام پر غلطیاں ہی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ اسٹیل ملز قیام کے بعد سال 2005ء تک خسارے میں چل رہی تھی -پاکستان اسٹیل: روشن ماضی سے تاریک حال تک کا سفراسٹیل ملز حکومت کی کاروباری ادارے چلانے کی عدم اہلیت، بروقت فیصلہ سازی کے فقدان اور نااہلی کا شکار ہوئی اور قومی خزانے پر ایک بوجھ بن گئ
پہلے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا دیا ہو وہ عظیم الشان صنعتی تحفہ جو پوری دنیا میں پاکستا ن کی پہچان بنا تھا -جب نا اہلوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا تو اس کی بربادی کا آغاز ہو گیا
جواب دیںحذف کریں