منگل، 4 مارچ، 2025

بیرون ملک پاکستانی قیدی توجہ چاہتے ہیں-

 

بیرون ملک پاکستانی قیدیوں پر حکومت توجہ دے -جسٹس پراجیکٹ پاکستان مختلف ملکوں میں قیدیوں کے جرائم، ان کی منتقلی کے معاہدے اور قونصلر تک رسائی نیز انہیں تحفظ فراہم کرنے جیسی تفصیلات کی بنیاد پر اعداد و شمار جمع کرتا ہے اور  پراجیکٹ  کی کوشش کرتی  ہے کہ قیدیوں کو جلد پاکستان لایا جا سکے'پاکستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتیں بھی اس بارے میں اعلانات کرتی رہی ہیں کہ بیرون ممالک قید پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کی تعداد میں اضافہ ماہرین کے مطابق حکومتی اعلانات کی نفی کرتا ہے۔دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے وائس آف امریکہ کے سوال پر بتایا کہ پاکستان کے سفارت خانے بیرون ممالک قید ان پاکستانی قیدیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں قانونی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ دفتر خارجہ نے ان پاکستانیوں کو واپس لانے کی اپنی کوششوں سے پارلیمنٹ کو بھی آگاہ کیا ہے۔ممتاز زہرا نے کہا کہ   یقیناًًپردیس میں رہنے والے پردیسیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ اور بے شمار شکایات بھی ہیں۔


 اور  ان قیدیوں  کو بہت سے مسائل بھی درپیش۔ جن کے  پائیدار  حل کے لئے ہم کوشاں ہیں -ایک بہت ہی توجہ طلب بات یہ ہےبے شمار  لوگ جو ہیں وہ بے گناہ قید ہیں اور بہت سے تو ایسے ہیں کہ جن کی سزائیں بھی مکمل ہو چکی ہیں لیکن وہ تاحال قید میں ہیں کیونکہ  ان کے لئے رہائ تو کجا   کوئ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور رہائی نہ ملنے کی وجہ کے انکے کاغذات تاحال نامکمل ہیں جسکی بڑی وجہ جو ہے وہ ایک یہ بھی ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کاعملہ پاکستانی قیدیوں سے کسی قسم کا کو ئی رابطہ روا نہیں رکھتا۔ یاد  رہے کہ ہمارے وطن کے ممتاز لکھاری  ممتاز مفتی نے اپنی ایک تحریر میں پاکستان کے سفارتی عملے کی  نالائقی سے نالاں ہو کر ایک تحریر بھی لکھی تھی  جبکہ دوسری جانب  دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کا انکے ملک کے سفارتی عملے کی طرف سے بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ سفارتخانے کی طرف سے باقاعدگی سے خرچا بھی دیا جاتا ہے اور ان کی خوراک و دیگر سہولتوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جبکہ پاکستانی سفارتی عملے کی طرف سے کوئی خاطر داری نہیں ہوتی انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ہمیں ملنے والے پاکستانی قیدی کے پیغام میں بیشمار گلے شکوے پاکستانی سفارت خانے کے عملے اور حکومت سے کئے گئے ہیں۔ جی ہاں پاکستانی قیدیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان جو ہے وہ ان کے مسائل کو نہ صرف سنے بلکہ ان کے حل کے لئے مناسب اقدامات بھی کرے۔


 تاہم ہمارے پاکستانی قیدی بھائی جو طویل عرصہ سے بے گناہ نہ صرف سعودی قید میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہیں ان کے حالات پر رحم کیا جائے اور ان کی رہائی کا بندوبست کیاجائے۔  یہ  شکایات ہمارے ان دوستوں کی جو دیار غیر میں مقید ہیں۔ بہر حال اب اخلاقی طور سے بھی اور انسانی ہمدردی کے ناطے  ہمارا فرض ہے کہ دیار غیر میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائیں۔تاہم دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے اہلکاروں کو چاہیے کہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو سمجھے اور جہاں تک ہوسکے ان کی پریشانیوں کو حل کرنے کی کوشش کرے۔بہر حال اب حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ از خود دنیا بھر کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کے کوائف حاصل کرے اور پاکستانیوں کی رہائی کے لئے بھی عالمی سطح پر آواز اٹھائے تاکہ دیار غیر میں قید پاکستانی بھائی بھی نہ صرف آزادی کا سورج دیکھ سکیں


  بے شمار پاکستانی   نوجوان     ہیں وہ غیرممالک کی جیلوں میں بھی قید ہیں۔  ایک  پاکستانی  نوجوان نے اس طرح    ایک  کہانی بتائ  ہے-جی ہاں دوستوہمیں بھی ہمارے ایک مہربان اور پیارے پاکستانی بھائی کا پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ وہ میرے محلے دار ہیں مجھ سے مل بھی چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی کسی نے انہیں بھی دھوکے سے پکڑوایا خیر ہمارے پاکستانی دوست جو کہ سعودی عرب جیل میں قید ہیں اور سعودی جیل سے ہی بذریعہ سوشل میڈیا اپنی آواز میں پیغام ہم تک پہنچا دیا۔  دیار غیر میں سعودی جیلوں میں قید بے شمار پاکستانی قیدیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے  پیغام میں بتایا کہ   کمیشن کومختلف ممالک میں قید پاکستانیوں کے اعدادوشمار اکھٹے کرنے کے علاوہ اُن کی رہائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم ایسے قیدی جو دہشت گردی یا منشیات کی سمگلنگ میں قصوروار ٹھہرائے گئے ہیں اُن کے متعلق کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔


وزارت داخلہ کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں جوائنٹ سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی دنیا کی مختلف جیلوں میں قید اُن تمام پاکستانیوں کے کوائف اکھٹے کرنے کے علاوہ اُن کے خلاف درج کیے گئے مقدمات کا جائزہ لے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی ان مقدمات کا جائزہ لینے کے بعداس پرقانونی ماہرین سے رابطہ کرنے کے بعد اُن سے رائے لی جائے گی جس کے بعد مختلف ممالک میں سفارت خانوں کے متعلقہ حکام کوان افراد کے مقدمات کی پیروی کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جیلوں میں قید پاکستانیوں کے بارے میں معلومات وہاں پر موجود پاکستانی سفارت خانے کے عملے کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہیں۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی پاکستانی معمولی جرائم میں قید ہواور وہ کونسل کی خدمات چاہتا ہو تو پھر سفارتخانے کے اہلکار وہیں پرکسی وکیل کی خدمات حاصل کرکے اُن کی رہائی کےاقدامات کرتے ہیں۔‘


انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی پاکستانی منشیات، قتل اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو ایسے افراد کو قانونی امداد دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ زیاہ ممالک میں ان جرائم کی سزا موت ہے۔‘قیدیوں کے حالت زار کے بارے میں کام کرنے والی تنظیم گلوبل فاؤنڈیشن کےمطابق دنیا بھر کے اکیاون ممالک کی جیلوں میں7934 پاکستانی قیدی موجود ہیں جن میں درجنوں خواتین بھی پابند سلاسل ہیں۔ تنظیم کےاعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ تعداد سعودی جیلوں میں ہے جن کی تعداد 5237ہے دوسرے نمبر پر بھارت کی 31جیلوں میں472قیدی موجود ہیں جبکہ ماہی گیروں کی کثیر تعداد اس کے علاوہ ہے۔تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق صرف فیروز پور جیل میں35 پاکستانی سزائیں پوری کر لینے کے باوجوداذیت ناک حالات میں قید کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تھائی لینڈ کی دو جیلوں لارڈ یاؤ اور بنک کوانگ میں قید ہیں-میں نے یہ تحریر انٹر نیٹ سے لے کر تلخیص کی ہے

 

 


1 تبصرہ:

  1. یہ حقیقت ہے کہ بیرون وطن پاکستانی قیدیوں پر اگر حکومت توجہ دے تو ان کے مسائل جلد حل ہو جائیں اوروہ قیدی بھی آزادی کی زندگی گزار سکیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر