ہفتہ، 1 فروری، 2025

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -میرے بچپن کی روداد زندگانی

  


لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردِشِ ایّا م تو-
اپنی کتاب زندگی شروع کرتے ہوئے  اپنی معلوم یاداشت میں اپنے بچپن کا بس ایک ہلکا سا وہ خاکہ محفوظ ہے جب میرے  والد کی بیماری کے سبب  انکی  ائر فورس کی سروس ختم ہوئ  اور پھر ہماری ائرفورس چھاؤ نی کی رہائش  سےبھی   ماورائ طاقتوں نے ہمیں بے دخل کروا کر ہی چھوڑا کیونکہ میرے چھ برس کے  بھائ جان ان طاقتوں کے نشانے پر آ چکے تھےپھر ہم سب کو  میرے والد اپنے ایک دوست حفیظ اللہ   صاحب کے گھر لے آئے  اور یہاں سے  ہمارا اگلا آزمائشی زندگی کا سفر شروع ہوا - مجھے اچھی طرح یاد ہے  جب  میرے   والدین نے لالوکھیت ڈاکخانے سے''اب اس مکان میں جاوداں سیمنٹ  ڈپو ہے '' لالوکھیت چار نمبر نقل مکانی کی تھی اس دور میں کراچی میں سائیکل رکشا کا رواج تھا اور میں بھی اسی سائیکل رکشا میں    اپنے بھائ جان کے ساتھ اپنے  والدین کے محسن بابو بھا ئ کے ساتھ ہاتھ رکشہ میں  بیٹھی  تھی میرا خیال ہے کہ بابو بھائ کی عمر اس وقت تیرہ یا چودہ برس ہوگی وہ اپنی بڑی بہن اور بہنوئ کے ساتھ رہتے تھےسائیکل رکشہ میں کئ چھوٹے بڑے موجود تھے اور جب سائیکل رکشہ نےچلنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ہر گاڑی جیسے مجھے کچلنے کو بڑھی چلی آ رہی ہے میں رونے لگی تو بابو بھائ نے کہا تم اپنی آنکھین بند کر لواور پھر میں نے ڈر کے مارے تمام راستے اپنی آنکھین بند رکھّی تھیں -جب ہما را تنکوں سے بنا آشیانہ آ گیا تو بابو بھائ نےکہا سب بچّے اٹھ جائیں گھر آ گیا ہے


بابو بھائ نے ہمیں رکشہ سے اتارا اور رکشہ والے کو کرایہ دے کر ہم بچّو ں کو اندر لائے ، مجھے اپنے بچپن کے یہ دن بھلائے نہیں بھولے کیونکہ یہ دور بہت ہی نا آسودہ اور مشکل دور تھا اس دور کے خوف بھی عجیب تھے ،راتوں کوبھیڑیوں کے غول کے غول جھگیّوں کے آس پاس اپنی مکروہ آوازوں میں بولتے ہوئے اور غرّاتے ہوئے پھرتے تھے- اس پر گھر کے بڑوں نے یہ باور کروا دیا تھا کہ بھیڑئے بچّوں کو منہ میں دبا کر اٹھا لے جاتے ہیں ہمارے بڑوں نے ہمیں اس لئے ڈرایا تھا کہ ہم بچّے دن میں گھر سے باہر نہیں پھریں لیکن اس ڈرانے کا نتیجہ میرے اوپر یہ ہوا کہ میں راتوں کو ڈر کے مارے جاگنے لگی،مجھے  چھاؤنی  کی رہا ئش میں کبھی بھی ڈر یا خوف لاحق نہیں ہوا تھا لیکن لالوکھیت چار نمبر میں یہ خوف مستقل میرے زہن سے چپک گیا تھا کہ کسی رات کو بھیڑیا مجھے بھی سوتے میں اپنے منہ میں دبا کر چل دے گا اور یہ خوف مجھے ساری ساری رات جگائے رکھتا تھا ،لیکن زندگی کو بچّوں کی نفسیا ت کا یہ تجربہ بھی دے گیا کہ بچّے کی سوچوں کی دنیا صرف اپنی زات کے گرد ہی گھومتی ہے ،میں یہ کیوں نہیں سوچتی تھی کہ بھیڑیا میری چھوٹی بہن یا ننھے بھائ کو بھی تو لے جاسکتا ہے ڈر تھا تو بس اس بات کاکہ بھیڑیا مجھے لے جائے گااور پھر کھا جائے گا  -


بہر حال وہ کڑا وقت بھی آخر گزر ہی رہاتھا اور ابتدائ تعلیمی سفر بھی شروع ہو چکاتھا اس زمانے میں رواج تھا کہ بچّے کو پہلے گھر پر ہی تین یا چار جماعتیں پڑھائ جاتی تھیں پھر اسکول میں داخلہ ہوتا تھا ،یہ بچّے اور اس کے گھر والوں کے لئے ایک اعزاز کی بات تھی کہ وہ گھر سے اتنا سیکھ کر اسکول آیا ہے چنانچہ میری تعلیمی زندگی کی باگ ڈور حسب حال میری والدہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ،اب تختی کے ایک جانب وہ گہری کالی پنسل سےالف ب لکھتی تھی اور دوسری جانب ایک سے دس تک گنتی ہوتی تھی اور ان کے لکھے ہوئے پر برو کے قلم کو دوات میں ڈبو کر پھر اسے احتیاط سے نکال کر کہ سیاہی ادھر ادھر گرے نہیں-مجھے ان کی تحریر پر قلم سے لکھنا ہوتا تھا-میں اپنی پیاری ماں کے کہنے کے مطابق کام کر لیا کرتی تھی ،پھر تختی کی تحریر سوکھنے  کے لئے  کسی کھلی جگہ  رکھ  دینی ہوتی تھی جب میری امی جان گھر کے کام کاج سے فراغت پا لیتی تھیں تب ہم بہن بھائیوں کی  تختیاں چیک کرتی تھیں -اس چیکنگ کے بعد پھر ہم کو اپنی اپنی تختیوں کی دھلائ کر نی ہوتی تھی 'یعنی ملتانی مٹی کو ایک کاٹن کا  رومال لے کر  اپنی گیلی تختی پر آہستہ آ ہستہ رگڑ کر صاف کرکے دھونا اور  دوبارہ اس پر  ملتانی مٹی کا لیپ  کر کے  ا گلے وقت کے لئے تیار کرنا ہوتا تھا -


اس زمانے میں  بچوں کوپنسل   تیسری جماعت سے استعمال  کر نے کی  اجازت   ہوتی تھی  ،پڑھنے لکھنے کے علاوہ میرا اہم کام اپنے والدین کے گھر تین برس یا اس کچھ کم یا اس کچھ زیادہ کی مدّت پر آنے والے اپنے چھوٹے بھائیوں کی دیکھ بھال تھی اور اب میرے مشاغل میں ایک نئ مصروفیت یہ شامل ہوئ تھی کہ   جب  میرا لکھنے پڑھنے کا ٹائم پورا ہو تا تھا  تب میں اپنے گود کے بھائ کو اٹھا کر اپنے ان پڑوسیوں کے گھر چلی جاتی تھی جہاں جانے کی اجازت والدہ نے مجھے دی ہوئ تھی کیونکہ میں نے  اردو  بہت جلد پڑھنی سیکھ لی تھی اور وہ دو گھر ایسے تھے جہاں مجھے بچوں کی کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کو مل  جاتی تھی  ان دو گھروں میں ایک امینہ آپا کے چھوٹے بھائ حسن بھائ تھے جو مجھ سے سال بھر بڑ ے تھے اور دوسرا گھر  سلیم 'اسلم کا تھا اس گھر کے سربراہ جنگ اخبار کے کاتب تھے جو بہت باریک قلم سے خبریں لکھا کرتے تھے -  ابھی میرا اسکول میں داخلہ نہیں ہواتھا اور میں تیسری کلاس کا کورس گھر پر پڑھ رہی تھی- کہ میری ایک پڑوسن نے جب میں ان کے گھر پہنچی مجھ سے کہا جاؤ اور اپنی امّی سے راشن کارڈ لے کر آؤ ہم دودھ لینے جارہے ہیں میں الٹے پیروں گھر آئ اور امّی جان سے کہا ،خالہ راشن کارڈ منگا رہی ہیں آ پ بھیّا کو دیکھ لیجئے میں خالہ کے ساتھ دودھ لینے جا رہی ہوں ،خالہ نے راشن کارڈ اپنے کپڑے سے بنے ہو ئے تھیلے میں رکھا اور مجھے ساتھ لیا اور گھر سے نکل کرحب ندی  کی سمت سفر کرتے ہوئے ناظم آباد کے علاقے میں ایک بنگلے پر پہنچیں 


وہاں لاتعداد مہاجر آئے تھے عورتوں کی قطار الگ تھی مردوں کی قطار الگ تھی راشن کارڈ پر تصدیق کر نے والون کا ایک الگ کاؤنٹر تھا ہر گھر کا صرف ایک ہی فرد اپنے راشن کارڈ پر حکومت کے مقرّر کردہ کوٹے کے مطابق ہی دودھ لے سکتا تھا اس کے لئے سب سے پہلے گھر کے افراد کا ندراج رجسٹر پر ہو رہا تھا اور اسی حساب کے مطابق دودھ کی مقدار دی جارہی تھی-دودھ لانے کا سلسلہ تقریباً سوا سال سے  کچھ اوپر چلتا رہا پھر میرا اسکول میں داخلہ ہو گیا جس کے سبب دودھ لانے کا سلسلہ موقوف ہو گیا ٍ-لیکن  اس چھوٹے سے سفر میں جس کے درمیان حب ندی آتی تھی  میں دیکھتی تھی ندی کے اس پار لاکھوں جھگیاں اور ندی کے اس پار خوبصورت نئے نئے بنگلے 'دراصل ناظم آباد ان دنوں نیا نیا آبا د ہورہاتھی  بہر حال میرے دل میں ایک  خیال کا کوندا لپکتا کاش میں کسی بنگلے میں اندر جا کر  چھپ جاوں پھر باہر واپس نا آؤں لیکن میرے اس  مفسد خیال  کو میری  اس نگراں خالہ   نے عملی جامہ پہننے کا موقع نہیں دیا 









1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر