جمعہ، 7 فروری، 2025

ٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل

  یہ کیسا ظلم عظیم ہے-بھلا 14سال کی عمر بھی کوئ عمر ہوتی ہے ابھی بچپن بیت رہا ہوتا ہے بھی تو سمجھداری کی پہلی سیڑھی پر بچے کا پہلا قدم ہی ہوتا ہے کہ اس کے خواب کو ریوالور کی چند گولیوں سے موت کی نیند سلا دیا جائےمعصوم چودہ برس کی حرا   کہانی یہ ہے کہ اس کے والدنے اچھی زندگی گزارنے کے لئے ویسٹرن کنٹری کا انتخاب تو کر لیا لیکن وہ یہاں کے ماحول سے مطابقت رکھنے والی تربیت اپنی اولاد کو فراہم نہیں کر سکے اور جب اولاد نے سر اٹھایا تو بس اس کو مارڈالا-.عتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی کے قتل کے الزام میں والد اور ماموں گرفتار-قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب  کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھابلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے ایک 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کے قتل کے الزام میں اس لڑکی کے والد اور ماموں کو گرفتار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے ’لڑکی کے رہن سہن اور ٹک ٹاک پر قابل اعتراض ویڈیوز پوسٹ‘ کرنے کی وجہ سے اِس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب سوا گیارہ بجے کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھا جس کی ابتدائی ایف آئی آر ہلاک ہونے والی لڑکی کے والد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروائی گئی تھی۔لڑکی کے والد بھی امریکی شہریت کے حامل ہیں اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ چند روز قبل ہی امریکہ سے پاکستان آئے تھے۔ لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کی استدعا پر عدالت نے دونوں ملزمان کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ’سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ‘ کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔


کرائمز انویسٹیگیشن یونٹ کوئٹہ سے منسلک ایس ایس پی ذوہیب محسن نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’ابتدائی تفتیش میں یہ سامنے آیا ہے کہ لڑکی کے والد کو اپنی بیٹی کے رہن سہن اور سماجی سرگرمیوں پر اعتراض تھا۔‘نھوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں مزید تفتیش جاری ہے اور ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ 14 سالہ لڑکی کا واقعی کوئی ٹک ٹاک اکاؤنٹ تھا بھی یا نہیں اور اگر تھا تو اس پر کیا مواد موجود ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ لڑکی کا موبائل پولیس کی تحویل میں ہے جس کا لاک کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔سول ہسپتال کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مقتولہ کو چار گولیاں ماری گئی تھیں جبکہ ان کے اہلخانہ کی درخواست پر باقاعدہ پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا تھا۔جبکہ کیس کی تفتیش سے منسلک ایک اہلکار نے بتایا کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران ملزمان کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔


کوئٹہ میں قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کون تھیں؟مقامی عدالت لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیاکوئٹہ میں پولیس نے قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کی شناخت حرا انوار کے نام سے کی ہے جن کی عمر 14 سال کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔مقامی پولیس کے مطابق لڑکی کے خاندان کا تعلق کوئٹہ سے ہی ہے اور وہ یہاں بلوچی سٹریٹ میں عرصہ دراز سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی کے والد 27 سال پہلے امریکہ گئے تھے اور پھر وہی آباد ہو گئے تھے۔پولیس حکام کے مطابق حرا کی پیدائش بھی امریکہ میں ہوئی اور انھوں نے امریکہ ہی میں تعلیم حاصل کی تھی۔حرا رواں ماہ کی 15 تاریخ کو اپنے والد کے ہمراہ امریکہ سے لاہور آئی تھیں جہاں چند روز گزارنے کے بعد یہ خاندان 22 جنوری کو کوئٹہ آیا تھا۔ملزم والد ہی مدعی مقدمہ بنے: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘غیرت کے نام پر قتل،حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پا رزخموں کے نشانات تھے


حرا کے قتل کا ابتدائی مقدمہ اُن کے والد ہی کی مدعیت میں 28 جنوری کو درج کیا گیا تھا۔لزم نے ایف آئی آر میں بتایا کہ وہ گذشتہ 28 سال سے اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ میں مقیم ہیں یف آئی ار میں کہا گیا کہ ’میں 15 جنوری کو اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ سے لاہور پہنچا تھا جہاں چند روز گزارنے کے بعد 22 جنوری کو کوئٹہ آ گیا۔ 27 جنوری کی شب میں اپنی بیٹی حرا کے ہمراہ اپنے برادرِ نسبتی کے گھر جانے کے لیے نکلا۔ میں اور حرا ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ مجھے معلوم ہوا کہ میری جیب میں میرے بھائی کا فون رہ گیا تھا جسے واپس کرنے کے لیے میں دوبارہ گھر میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میں گھر کے اندر گیا تو باہر سے اچانک فائرنگ کی آواز آئی جبکہ میری بیٹی حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں۔‘ملزم والد کی جانب سے ایف آئی آر میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ ’یہ آوازیں سُن کر میں باہر نکلا تو حرا شدید زخمی حالت میں گیٹ کے پاس پڑی تھی


۔ میں نے محلہ داروں کے ہمراہ حرا کو ہسپتال پہنچایا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی۔‘والد نے پولیس سے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی جس پر پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت یہ مقدمہ درج کر لیا۔پولیس ٹیم کی جانب سے ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ جب وہ اطلاع موصول ہونے کے بعد ہسپتال پہنچے تو وہاں حرا کی خون میں لت پت لاش موجود تھی۔’سرسری جسمانی معائنے میں معلوم ہوا کہ حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پار زخموں کے نشانات تھے۔  

2 تبصرے:

  1. اللہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کا چلن عام کر دے تو یہ ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا انشاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. اللہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کا چلن عام کر دے تو یہ ظلم خود بخود ختم ہو جائے گا انشاللہ

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر