، لداخ پاکستان سے ملحقہ ہندوستان کے شمالی ترین مقام پر واقع ایک خطہ ہے۔ یہ خطہ شمال میں کونلون پہاڑوں اور جنوب میں ہمالیہ سے گھرا ہوا ہے اور اس کی آبادی ہندوستانی اور تبتی نژاد کا مرکب ہے۔ یہ علاقہ کشمیر کے سب سے کم گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ لیکن چینی حکومت نے 1960 کی دہائی میں اس خطے کو بلاک کر دیا۔ 1974 سے حکومت ہند لداخ میں سیاحت کی صنعت کو کامیابی سے بحال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ چونکہ لداخ ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ ہے اور پاکستان کے ساتھ تنازعہ کا شکار ہے، اس لیے اس خطے میں ہندوستانی فوج کی موجودگی واضح ہے۔ لداخ کا قدیم ترین شہر اور اس ضلع کا مرکز لیہہ شہر ہے، جو آج جنوبی ایشیا کی چند باقی رہ جانے والی ہندو اور بدھ بستیوں میں سے ایک ہے۔ لداخ کی زیادہ تر جمعیت ہندو بدھ مت ہیں اور باقی جمعیت را اور شیعہ بارہویں امام بناتے ہیں۔لداخ کی تاریخ (بخش کرزم)۔چورٹن۔لداخ کے بہت سے حصوں میں پائے جانے والے نقش و نگار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ علاقہ نوع قدیم کے دور سے بنی نوع انسان کے ذریعہ آباد ہے - لداخ کے قدیم ترین باشندے ہند آریائی اور مون اور درد کے ایک گروہ کا مرکب تھے جو کہ ہیروڈوٹس سمیت متعدد یونانی مورخین کی کتابوں میں موجود ہے۔ , Nerchus, Magasthenes, Pliny اور Ptolemy کے ساتھ ساتھ قدیم ہندوستانی پران میں مذکور جغرافیائی علاقے۔ پہلی صدی عیسوی میں لداخ کشان سلطنت کا حصہ تھا۔ دوسری صدی عیسوی میں کشمیر کے راستے بدھ مت لداخ پہنچا اور تب سے لداخ کے لوگوں کی اکثریت بون مذہب پر یقین رکھتی تھی۔ 7ویں صدی عیسوی میں ایک چینی بدھ مت سیاح ژوانگ ژانگ نے اس علاقے کی تفصیل دی تھی۔
Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
بدھ، 20 نومبر، 2024
لداخ خوبصورت اور زمینی حسن کا امتزاج
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...
ایک صدی قبل تک خاصا متمول اور متحدہ ہندوستان، تبت، چین، ترکستان و وسط ایشیاء کی ایک اہم گزرگاہ ہوتا تھا۔ خوبصورت ارضیاتی خدو خال، حد نگاہ تک رنگ برنگے اونچے ننگے پہاڑ، بنجر اور ویران لمبے چوڑے میدان،اس خطے کو خاصی حد تک پاکستانی صوبہ بلوچستان سے مماثلت کرواتے ہیں۔ پچھلے سال اگست میں ہندوستان نے اس خطہ کو جموں و کشمیرسے الگ کرکے ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام خطہ بنایا۔
جواب دیںحذف کریںدو ضلعوں لہیہ اور کرگل پر مشتمل اس خطہ کا رقبہ نقشہ پر 97872مربع کلومیٹر ہے۔ مگر اکسائی چن علاقہ کے چین کے زیر تصرف ہونے کی وجہ سے اصل رقبہ صرف 58321مربع کلومیٹر ہی ہے۔ اکثر لکھاری اس خطے کو بدھ اکثریتی علاقہ گردانتے ہیں۔ جبکہ 2011کی مردم شماری کے مطابق اس خطے کی دو لاکھ 74ہزار کی آبادی میں 46.40فیصد مسلمان اور 39.65فیصدبدھ مت کے پیروکار ہیں۔لہیہ ضلع میں بدھ آبادی 66.39فیصد ہے۔مگر اس ضلع میں بھی 25مسلم اکثریتی گاؤں ہیں۔
اس خطے کی نامور شخصیت اور تاریخ دان عبدالغنی شیخ کے مطابق یہ علاقہ ایک صدی قبل تک دنیا سے اس قدر جڑا تھا کہ ترک یہاں کی دوسری زبان تھی۔ 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل تک یہ علاقہ برطانیہ، چین اور روس کی چپقلش کا مرکز رہا۔تاجروں، سیاحوں، جاسوسوں اور سپاہیوں کے لیے ترکستان یعنی سنکیانگ کے شہروں یارقند، خوتان اور کاشغر کے سفر کے لیے لداخ ایک اہم زمینی رابطہ تھا۔
لیہہ شہر میں بدھ خانقاہ نمگیال سیمو گمپا اور اس سے کچھ فاصلے پر تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے معمر افراد ترکستان کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ نے ذرا ذکر چھیڑا تو وہ یارقند، کاشغر یا تبت کے دارلحکومت لہاسہ، گلگت، بلتستان، ہنزہ و چترال کی ڈھیر ساری کہانیاں سنائے بغیر نہیں جانے دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ لہیہ کے بازار میں ایک معمر لداخی نے ایک بار بتایا کہ وہ عذاب الہی کے شکار ہوگئے ہیں،کیونکہ ان کے بزرگوں نے نعمتوں کی قدر نہیں کی۔
لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق کشمیر کی طرح لداخ بھی 20ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔
لداخی محقق ریچن ڈولما کے مطابق کشمیر کی طرح لداخ بھی 20ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریں