سوات: زمرد کی کانیں عدم توجہی کا شکار
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بیش بہا خزانوں سے مالا مال کیا ہے ان میں وادی سوات کی پہاڑیوں سے برآمد ہونے والا زمرد بین الاقوامی معیار کا قیمتی پتھر ہے۔ لیکن پاکستان میں کٹنگ ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صفائی اور تیاری دوسرے ملکوں میں ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق سوات کا زمرد اپنی انفرادیت، رنگ اور باریکی کی وجہ سے دبئی، بھارت اور تھائی لینڈ جیسے ملکوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔مینگورہ کے قریب ’فضا گٹ‘ کے مقام پر کئی سو خاندانوں کا روزگار زمرد کی کھدائی، صفائی اور کان کنی سے منسلک ہے۔ یہ کام مشکل بھی ہے اور خطرناک بھی۔ لیکن اصل پیسہ سرکاری حکام کی ملی بھگت کے ساتھ ٹھیکیدار، دوکاندار اور دیگر با اثر لوگ بناتے آئے ہیں۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وادی سوات میں 1970 کی دہائی میں دریافت ہونے والی قیمتی پتھر زمرد کی کانوں کا شمار دنیا کی بڑی کانوں میں ہوتا ہے تاہم حکومت اور متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی اور بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث ان ذخائر سے کوئی قابل ذکر منافع حاصل نہیں کیا جا رہا۔بین الاقوامی معیار کے قیمتی پتھروں کی یہ کانیں سوات کے صدر مقام مینگورہ کے مشہور اور پر فضا مقام فضا گٹ کے قریب واقع ہیں۔ تقریباً چھ کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ان کانوں کی دریافت سابق حاکم سوات کے دور میں 1962 میں ہوئی تھی۔
زمرّد کی کانیں حکومت کی توجّہ چاہتی ہیں -زمرد سبز رنگ کا قیمتی پتھر ہے جو عام طور پر زیوارت میں استعمال ہو تا ہے یہ پتھر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں کافی پسند کیا جاتا ہے اور اس کی منڈیاں نہ صرف پاکستان ،بھارت بلکہ چین،سنگاپور اور دیگر ممالک میں قائم ہیں-قدرت نے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کی وادیٔ سوات کو اپنی بے پناہ فیاضیوں سے نوازاہے ،یہ وادیٔ جہاں اپنے بے پنا حسن ،قدرتی چشموں،گنگناتے آبشاروں ،شورمچاتے دریائے سوات ،فلک بوس سرسبزوشاداب پہاڑوں اور گھنے جنگلات کے ساتھ ساتھ آب وہوا کو لئے دنیا میں اپنی ثانی نہیں رکھتی اسی طرح اس وادیٔ میں معدنیات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے اور اس لحاظ سے بھی قدرت نے اس علاقے کی وادی کو وادیٔ مالا مال بنادیا ہے۔
اس وادی کے سینے میں جہاں ہزاروں سال قبل مسیح دور کے آثار قدیمہ اور نوادرات محفوظ ہیں وہیں یہاں پر تین قیمتی پتھر زمرد(Emrald)کی کانیں بھی اس وادی کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ان کانوں میں سے سب سے بڑی کان مینگورہ شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پرفضامقام فضاگٹ میں واقع ہے،جبکہ دوسری کان تحصیل بریکوٹ کے علاقے شموزئی اور تیسری کان سوات اور شانگلہ کے سنگم پر واقع علاقہ امنے میں ہے ،جن میں سے اس وقت فضاگٹ کی زمردکان میں ایک نجی کمپنی کھدائی کررہی ہے زمرد کی کانوں کی ٹھیکیدار نجی کمپنی کے ایک منیجر پیر گران محمد شاہ نے بتایا کہ طالبان کے دور میں ان کانوں میں انتہائی غلط انداز میں کٹائی کی گئی جس سے قومی خزانے کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کے جانے کے بعد ان تمام کانوں کو بند کر دیا گیا تھا جس سے یہاں کے روزگار کو شدید نقصان پہنچا تھا
اور پھر سے نئی کانیں کھودنی پڑیں جس سے کافی وقت لگا اور رقم بھی خرچ ہوئی حکومت نے مینگورہ کی ان کانوں کو ایک مقامی نجی کمپنی کو دس سال کے مدت کےلیے ٹھیکے پر دیا ہوا ہےحکومت نے مینگورہ کی ان کانوں کو ایک مقامی نجی کمپنی کو دس سال کے مدت کےلیے ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔پیر گران محمد شاہ کے بقول علاقے میں زمرد کی دریافت کے 50 برس بعد بھی ان کانوں میں بنیادی ڈھانچے کا شدید فقدان ہےانہوں نے کہا کہ کانوں تک جانے کےلیے سڑک بدستور کچی ہے جس پر چھوٹی گاڑیاں بمشکل جا سکتی ہیں جبکہ کانوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کوئی انتظام موجود نہیں ۔ان کے بقول زمرد کی کانوں سے تقریباً چار سو مزدروں کا روزگار وابستہ ہے تاہم حکومت کی جانب سے ان کان کنوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت بھی میسر نہیں۔ان کے مطابق زمرد کا شمار دنیا کے چار قیمتی پتھروں میں ہوتا ہے لیکن حکومت اور متعلقہ اداراوں کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث ان بیش بہا کانوں کو منافع بخش نہیں بنایا جا سکا ہے
یہ معدنیات فضا گٹ کے علاوہ سوات کے ایک اور علاقے شموزئی اور ضلع شانگلہ میں بھی پائی جاتی ہیں تاہم آج کل صرف مینگورہ کی کانوں میں کھدائی کا کام جاری ہے جبکہ دیگر کانیں گزشتہ کئی سالوں سے بند پڑی ہیں۔زمرد کی کانیں ایک وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں جہاں کان کن قیمتی پتھروں کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ تاہم یہ مزدور آج کے اس جدید دور میں بھی پتھر نکالنے کےلیے روایتی طریقے ہی استعمال کر رہے ہیں۔قاری شوکت حیات گزشتہ کئی سالوں سے زمرد کی کان کنی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کان کے اندر کام کرنا انتہائی کٹھن اور خطرناک ہے کیونکہ پتھر کے اندر سرنگ لگانا آسان کام نہیں۔
مزدور آج کے اس جدید دور میں بھی پتھر نکالنے کےلیے روایتی طریقے ہی استعمال کر رہے ہیں۔مزدور آج کے اس جدید دور میں بھی پتھر نکالنے کےلیے روایتی طریقے ہی استعمال کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پتھر نکالنے کے لیے مہارت درکار ہے اور یہاں عام مزدور کام نہیں کر سکتا۔ان کے مطابق کھدائی کے لیے وہ مشین بھی استعمال کرتے ہیں لیکن اکثر اوقات بجلی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مزدوروں کو پہاڑ چیرنے کے لیے ہاتھوں سے کام کرنا پڑتا ہے۔ان کے بقول ’روایتی طریقوں سے کام کرنے کی وجہ سے نہ صرف وقت زیادہ لگتا ہے بلکہ کام بھی مہارت سے نہیں ہوتا جس سے حکومت اور ٹھیکیدار دونوں کو نقصان ہو رہا ہے۔‘زمرد سبز رنگ کا قیمتی پتھر ہے جو عام طور پر زیورات میں استعمال ہوتا ہے۔قیمتی پتھروں کے ماہرین کے مطابق زیادہ تر زمرد کے پتھر ایک سے پانچ قیراط کے ہوتے ہیں جس کی قیمت مارکیٹ میں پچاس ہزار روپے سے لے کر لاکھوں روپے تک ہوتی ہے تاہم قیمت کا دارومدار پتھر کی کٹائی اور کوالٹی پر ہوتا ہے۔زمرد کا شمار دنیا کے چار قیمتی پتھروں میں ہوتا ہے ،زمرد کا شمار دنیا کے چار قیمتی پتھروں میں ہوتا ہےحکومت نے مینگورہ کی ان کانوں کو ایک مقامی نجی کمپنی کو دس سال کے مدت کےلیے ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ یہ کانیں تقریباً 15 سال تک بند رہیں جس کے باعث قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔
یہ تو پاکستان کا سبز سونا ہے-اس کے زریعہ پاکستان بے حساب زر مبادلہ کما سکتا ہے
جواب دیںحذف کریں