فیصلہ تو عرش بریں پر پروردگار عالم کر چکا تھا-فرش زمیں پر رسوم دنیا انجام پائیں- روائت ہے کہ بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کے کئ رشتے عمائدین یثرب سے تھے اور پھر مولائے کاءنات نے بھی دختر رسول کی خواستگاری کی -یہ ایک ایسی شب تھی جس میں جناب رسول خدا حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم بے چین تھے اور آپ کو نیند نہیں آرہی تھی اس لئے آپ ص اٹھ کر کھلے آسمان کے نیچے آ گئے بی بی سیّدہ بھی اپنے بابا جان کی بے چینی دیکھتے ہوئے خود بھی اپنے بابا جان سے دو قدم پیچھے آ کر کھڑی ہوگئِں -اور انہی لمحات میں آسمان سے ایک ستارہ فرش زمین پر آتے ہوئےمولائے کائنات کے آنگن کا رخ کر کے مولا علی عیہ السّلام کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گیا -یعنی بی بی سیدہ س اور مولا علی ع کا استخارہ خدائے پاک نے عرش بریں سے بھیج دیا تھا - ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؑ کے نکاح کے وقت رسول خداؐ منبر پر گئے خطبہ ارشاد فرمایا اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ فاطمہؑ کا نکاح علیؑ کے ساتھ کروں اور اگر علی راضی ہوں تو چار سو مثقال چاندی حق مہر کے ساتھ میں فاطمہ ؑ کا نکاح علیؑ کے ساتھ کر دوں۔ علیؑ نے فرمایا میں اس پر راضی ہوں۔
شادی کی تاریخ
محمد یعقوب کلینی نے کافی میں امام سجادؑ سے قول نقل کیا ہے کہ ہجرت مدینہ کے ایک سال بعد رسول اللہؐ نے حضرت فاطمہؑ کی شادی حضرت علیؑ کے ساتھ کر دی۔ یہ قول امام باقرؑ کے اس قول کے موافق ہے جسے طبری نے نقل کیا ہے۔ ۔۔۔ جنگ بدر سے واپسی پر علیؑ نے فاطمہؑ سے شادی کی۔ پیغمبرؐ نے ہجرت کے دوسرے سال پہلی ذی الحج کے دن حضرت فاطمہؑ کو امیرالمومنینؑ کے گھر بھیجا۔ اس لئے شادی اور نکاح کے درمیان تقریباً دس مہینے کا فاصلہ تھا۔ شاید نکاح کا صیغہ جلدی پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ دوسرے رشتے مانگنے والے لوگوں کے لئے جواب واضح ہو جائے-تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔
حق مہر اور جہیز
تاریخی مآخذ کے مطابق حضرت زہراءؑ کا حق مہر 400 سے 500 درہم کے درمیان تھا۔ امام رضاؑ کی حدیث کے مطابق حق مہر کی سنت، کہ جو مہرالسنہ سے مشہور ہے، وہ 500 درہم معین ہوا تھا۔ 500 درہم تقریباً 1250 سے 1500 گرام چاندی ہے اور اس زمانے میں ہر دس درہم چاندی ایک دینار سونے کے برابر تھی، اور مہر السنہ (حق مہر) تقریباً 170 تا 223 گرام سونا بنتا ہے۔ یہ مقدار بھی درہم اور دینار کے وزن مختلف ہونے کی وجہ سے، مختلف ہے۔ امام علیؑ نے حق مہر کی ادائیگی کے لئے زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ ان میں سے کوئی ایک چیز فروخت کی تھی۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم بلال کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم ابوبکر کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہوگی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے عمار یاسر اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔
ولیمہ
پیغمبر اکرمؐ نے بلال حبشی کو بلایا اور فرمایا: میری بیٹی کی شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے لئے شادی کے دن کھانا دینا ایک سنت ہو۔ اس لئے جاؤ اور ایک بھیڑ اور پانچ مد جو مہیا کرو تا کہ مہاجرین اور انصار کو دعوت دوں۔ بلال نے یہ سب تیار کیا اور رسول اللہؐ کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے یہ کھانا اپنے آگے رکھا۔ لوگ پیغمبرؐ کے حکم پر گروہ در گروہ مسجد میں داخل ہوئے اور سب نے کھانا کھایا۔ جب سب نے کھا لیا تو کچھ مقدار میں جو بچ گیا تھا اسے آپؐ نے متبرک کیا اور بلال سے فرمایا: اس کھانے کو عورتوں کے پاس لے جاؤ اور کہو: یہ کھانا خود بھی کھائیں اور کوئی بھی اگر ان کے پاس آئے تو اسے بھی اس کھانے سے دیں
پیغمبرؐ کی دعا
شادی کے ولیمے کے بعد رسول خداؐ علیؑ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہؑ کو آواز دی۔ جب فاطمہؑ نزدیک آئیں، تو دیکھا کہ رسول اللہؐ کے ساتھ حضرت علیؑ بھی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: نزدیک آ جاؤ۔ فاطمہؑ اپنے بابا کے نزدیک آئیں۔ رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہاتھ کو پکڑا اور جب فاطمہؑ کا ہاتھ علیؑ کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: خدا کی قسم میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہاری عزت کی اور اپنے خاندان کے بہترین فرد کو تمہارے لئے انتخاب کیا خدا کی قسم تمہاری شادی ایسے فرد سے کر رہا ہوں جو دنیا اور آخرت میں سید و آقا اور صالحین سے ہے ۔۔۔ ۔ خداوند یہ شادی آپکے لئے مبارک فرمائے اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے۔
آپس کی محبت واعتماد مولا علی اور بی بی فاطمہ نے گھر کو جنت بناہوا تھا، جہاں سے علی کرم اللہ وجہہ صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اور جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لے کر گھر پر آتے تھے .بازار سے جو خرید کرسیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیتے تھے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا چکی پیستی , کھانا پکاتی او رگھر میں جھاڑو دیتی تھیں , فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں
جواب دیںحذف کریں