پیر، 10 جون، 2024

پر چم غدیر'من کنت مولاہ

      

                                      بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَه‏(مائده:67)

اے پیغمبر صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسّلم جو کچھ تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ پر نازل ہوا ہے اسے کامل طور سے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گویا تم نے کوئی کار رسالت سر انجام ہی نہیں دیاالْيَوْمَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَرُوا مِنْ دينِكُمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً(مائده:3 )آج کے دن کفار تمہارے دین سے مایوس ہو گئے ہیں لہذا ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور آج کے دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر قبول کر لیا۔إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذينَ آمَنُوا الَّذينَ يُقيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ(مائده:55)تمہارا سر پرست اور رہبر صرف اللہ ہے ، اس کا پیغمبر اور وہ ہیں جو ایمان لائے ہیں انہوں نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کی ہے.روایات کے مطابق ایک دن ایک سائل مسجد نبوی میں داخل ہوا اوراس نے وہاں موجود لوگوں سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے اسے کچھ نہیں دیا۔ اس موقعے پر سائل نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرکے خدا سے شکایت کی: خدایا! تو گواہ رہنا! میں نے تیرے نبی کی مسجد میں مدد کی درخواست کی مگر کسی نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ عین اسی وقت حضرت علیؑ نے نماز میں رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا۔ سائل آپ کے پاس گیا اور آپ کی انگلی سے انگوٹھی اتار لی۔جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ﴿۵۵﴾تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں

الْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِي جَعَلَنَامِنَ الْمُتَمَسِّکِينَ بِوِلايَةِ أَمِيرِالْمُؤْمِنِينَ وَ الْأَئِمَّةِ (عَلَيْهِمُ‌السَّقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص): «يوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ أَفْضَلُ أَعْيادِ أُمَّتِي وَ هُوَ الْيوْمُ الَّذِي أَمَرَنِي اللَّهُ تَعَالَى ذِکْرُهُ فِيهِ بِنَصْبِ أَخِي عَلِي بْنِ أَي طَالِبٍ(ع) عَلَماً لِأُمَّتِي يهْتَدُونَ بِهِ مِنْ بَعْدِي وَ هُوَ الْيوْمُ الَّذِي أَکْمَلَ اللَّهُ فِيهِ الدِّينَ وَ أَتَمَّ عَلَى أُمَّتِي فِيهِ النِّعْمَةَ وَ رَضِي لَهُمُ الْإِسْلَامَ دِيناً»؛(أمالي الصدوق: ١٢۵)رسول اکرم:میری امت کی بہترین عید ، عید غدیر خم کا دن ہے، اور یہ وہ دن ہے کہ خداوند متعالی نے مجھے اس دن میرے بھائی علی بن ابی طالب(ع) کو امامت پر نصب کرانے کا حکم دیا تا کہ میرے بعد وہ رہبر ہو جائےں ، اور یہ وہ دن ہے کہ خدا نے دین کو اس دن کامل فرمایا اور میری امت پر اپنی نعمتوں کو پورا کیا اور اسلام کو ان کا پسندیدہ دین قرار دیا۔قَالَ سَأَلْتُ أَبَاعَبْدِاللهِ(ع): «هَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عِيدٌ غَيرَ يوْمِ الْجُمُعَةِ وَالْأَضْحَى وَالْفِطْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَعْظَمُهَا حُرْمَةً. قُلْتُ: وَأَيّ عِيدٍ هُوَ جُعِلْتُ فِدَاکَ؟ قَالَ: الْيوْمُ الَّذِي نَصَبَ فِيهِ رَسُولُ اللهِ صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسّلم) أَمِيرَالْمُؤْمِنِينَ  علیہ السّلام  وَ قَالَ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِي مَوْلَاهُ»؛(الکافی۴: ١۴٩)

حضرت علی   علیہ السّلام عالم آدمیت کے رہبر اور امام ہیں، نیک اور پرہیزگاروں کے پیشوا ہیں لہذا ہم نیک سیرت اور اچھے کردار کے مالک بنیں۔ حضرت علی  علیہ السّلام کی پیروی اس وقت صحیح معنی من ہوگی اور اس کا حق اس وقت ادا ہوگا جب ہم علوی سیرت کا نمونہ بیں گے اور آپ کی زندگی کو نمونہ عمل قرار دیں گے۔ علی علیہ السّلام اس ذات گرامی کا نام ہے کہ جب کوئی منصف مزاج عالم، دانشور اور علاقائی مذہبی اور خاندانی تعصب سے ہٹ کر   حضرت علی   علیہ السّلام  کی سیرت کا مطالعہ کرتا ہے تو آپ کے فضائل و مناقب کا اعتراف کرتا ہی ہے۔ اور آپ  کے سامنے اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتا اور خود پر اور اس دور کے تعصب سے بھرے انسانوں اور جاہلوں کی عقل پر ماتم کرتا ہے کہ اس طرح کے دانشور اور دنیا کے عظیم طبیب اور معالج سے استفادہ کیوں نہیں کیا۔  حضرت علی   علیہ السّلام  اپنے دوستوں کے ساتھ بھی وہی برتاو کرتے تھے جو اپنے دشمنوں کے ساتھ کرتے تھے اگر کوئی خلاف اسلام اور شریعت کرتا تھا۔ جرج جرداق عیسائی مصنف کے بقو  ل  علی   علیہ السّلام   اپنی عدالت کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں۔روز غدیر، رسولخدا (ص) اور حضرت علی علیہ السّلام  کی سیرت و کردار کو اجاگر کرنے اور سنت حسنہ کو زندہ کرنےاور تاریخ انبیاء اور اولیاء کو دھرانے کا دن ہے۔ انسانوں اور انسانیت کی خدمت کا دن ہے۔ کاش دنیا کا ہر انسان حضرت علی  کی سیرت کا مطالعہ کرتا اور بغور مطالعہ کرتا اور ہر قسم کے تعصب سے ہٹ کر علی   علیہ السّلام کی سیرت پر نظر ڈالتا۔ خصوصا آپ کے دور حکومت کا مطالعہ کرتا تو آج دنیا میں نہ کوئی بھوکا ہوتا نہ کوئی مظلوم اور بے ناصر و مددگار ہوتا، نہ کوئی علم و دانش سے بے بہرہ ہوتا اور نہ کوئی کسی پر ظلم کرتا، نہ کسی کا حق مارا جاتا۔

ہم دنیا کے تمام انسانوں کو حضرت علی علیہ السّلام  کی سیرت کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا پیشوا ہے؟ کیا انسانیت کا ایسا کوئی حاکم گذرا ہے؟ یقنا گذرا اور نہ گذرے گا۔ انسانیت کی خدمت اور اس کے بارے میں بھلائی کی فکر وہی کرسکتا ہے جو قرآن اور حدیث پر عمل کرے گا اور اللہ کے فرمان کو صحیح طریقہ سے سمجھ کر لوگوں کے سامنے علمی سیرت پیش کرے گا۔حضرت امام خمینی (ع) 24/ اگست سن 1986ء کو حکومت کے اعلی عہدیداروں کے مجمع میں واقعہ غدیر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: حکومت یہ ہے کہ حضرت علی  علیہ السّلام  نے ابن عباس سے فرمایا: اے ابن عباس! یہ تمہاری حکومت میری نظر میں اس معمولی جوتی سے بھی کم اہمیت رکھتی ہی کیونکہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ سماج کے لوگوں کے دریمان عدل و انصاف قائم کرے اور منصفانہ نظام چلائے۔ حضرت علی   علیہ السّلام  اور آپ کی اولاد کے نزدیک اہمیت اس بات کی تھی کہ خدا کی مرضی کے مطابق لوگوں کے درمیان انصاف کریں اور جب تک زندہ رہے لوگوں اور خدا کے بندوں کے درمیان عدل و مساوات قائم کیا۔ حضرت امیر علیہ السّلام  کی شخصیت کے بارے میں ہم کیا بیان کرسکتے اور کون کیا کہہ سکتا اور لکھ سکتا ہے!!


روای کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السّلام  سے عرض کیا : کیا مسلمانوں کا جمعہ ، عید قربان اور عید فطر کے علاوہ بھی کوئی اور عید ہے ؟ امام نے فرمایا:جی ہاں! عرض کیا: آپ پر فدا ہو جاوں ، وہ کونسا دن ہے ؟فرمایا:وہ دن کہ رسول خداصلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسّلم نے امر المومنین (ع) کو ( خلافت اور ولایت ) کے لئے منصوب کیا اور فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں یہ علی علیہ السّلام   اس کا مولا ہے ۔سَمِعْتُ أَبَاعَبْدِاللَّهِ الصَّادِقَ(ع) يقُولُ: «صِيامُ يوْمِ غَدِيرِ خُمٍّ يعْدِلُ صِيامَ عُمُرِ الدُّنْيا إِلَى أَنْ قَالَ وَ هُوَ عِيدُ اللَّهِ الْأَکْبَرُ وَ مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِياً إِلَّا وَ تَعَيدَ فِي هَذَا الْيوْمِ وَ عَرَفَ حُرْمَتَهُ وَ اسْمُهُ فِي السَّمَاءِ يوْمُ الْعَهْدِ الْمَعْهُودِ وَ فِي الْأَرْضِ يوْمُ الْمِيثَاقِ الْمَأْخُوذِ وَ الْجَمْعِ الْمَشْهُود»؛(وسائل الشيعة‏ ٨: ٨٩)روای کہتا ہے:میں نے سنا کہ امام صادق علیہ السّلام  علیہ السّلام  نے فرمایا: عید غدیرکے دن کے روزہ دنیا کی پوری عمر کے روزہ کے برابر ہے ، اس کے بعد فرمایا:عید غدیر کا دن ،خدا کا بڑا عید ہے ، خداوند متعالی نے جتنے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا ان سب نے اس دن کو عید منایا ہے اور اس دن کی عظمت کے معترف ہوئے ئےں ، اس دن کا نام آسمان میں ، عہد و پیمان کا دن اور زمین میں محکم عہد وپیمان اور سب کے حاضر ہونے کا دن رکھا گیا ہے ۔


1 تبصرہ:

  1. غدیر خم
    جمعرات 18 ذی الحجہ مطابق 21 مارچ نوروز کے دن یہ قافلہ جحفہ پہنچا۔ جحفہ مکہ سے 13 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شام کے راستے سے حج کے لیے مکہ آنے والے لوگ احرام باندھتے ہیں اس کو میقات اہل شام (سوریہ) بھی کہتے ہیں اور مکہ سے واپسی پر مدینہ منورہ، مصر، شام اور عراق والوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کے قریب کوئی ڈیڑھ دو میل کی مسافت پر ایک تالاب ہے۔عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر