اہل بیت نبوّت کی قربانیوں کو اگر دیکھا جائے تو نا صرف پورے برّ صغیر میں بلکہ شائد دنیا کے کسی بھی حصّے میں کسی خاتو ن نے
بعد از شہادت اس طرح سے دین کی بقا کا چراغ نہیں جلایا ہوگا جس طرح سے بی بی پاک دامن نے اس وقت کے کافرانہ کدے میں کبھی نا بجھنے والابقا ئے دین کا چراغ روشن کیا ۔بی بی پاک دامن
ہاں ! یہ وہی بت کدہ تھا جس کے آتش کدوں میں کبھی بھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی اور یہ وقت محمّد بن قا سم کےسندھ میں آمد سے کہیں پہلے کا تھااور یہ روشنی بی بی پا کدامن کے دامنِ پاک سے اس وقت طلوع ہوئ جب سفر کربلا کے دوران حضرت اما م حسین علیہ السّلام امام عالی مقام نے جناب مسلم بن عقیلکی شہادت کی خبر بہ رنج و ملال سنی تو،بی بی رقیّہ جو اب جناب مسلم بن عقیل کی بیوہ تھیں ان سے فرمایا ،بہن اب تم برصغیر چلی جاؤ ،اس وقت لاہور نام کا کوئی علاقہ موجود نہیں تھا ،بی بی رقیّہ نے پس وپیش کی کیونکہ وہ اپنے بھائ سےکسی طور پر جدا نہیں ہونا چاہتی تھیں ۔بہن کا تردّد دیکھ کر امام عالی مقام نے بی بی رقیّہ
سےناجانے کیا رازونیاز کئے کہ وہ قافلہء کربلا سے جدا ہو کر برّصغیر کےلئے روانہ ہو گئیں اس طولانی سفر میں ان ک ک دو کمسن بیٹیا ں اور جناب حضرت مسلم بن عقیل کی دو کمسن بہنیں اور ایک کام کرنے والی خادمہ حلیمہ (المعروف مائ تنوری ،کیونکہ وہ تندور پر روٹیاں پکاتی تھیں) اور بروا ئتےتین مرد حضرات بطور محافظ شامل تھے ،یہ غریب الوطن جنگل کے ایک ٹیلے پر قیام پذیر ہوئےاس وقت دریا ئے راوی کے کنارے دور تک جنگل ہی جنگل پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے پر ایک ہندو راجہ مہا برن حکومت کرتا تھا اور اسکی راجدھانی میں بت پرستی کا رواج تھا
ان غریب الوطن اہلبیت کے افراد کو یہاں پہنچے ہوئے چندروز ہی گزرے تھے کہ راجہ کے محل میں اونچے چبوتروں پررکھّے ہوئے سنگی بت محل کے فرش پراوندھے منہ گر گئے اور راجہ کی راجدھانی کے آتش کدو ں میں جلنے والی صدیوں پرانی آگ خود بخود بجھ گئ ،اور اس منظر کو دیکھ کر راجہ کے حواس گم ہو گئے اوربستی کے اندر بھی کہرام مچ گیا کہ ان کے دیوتاؤں کا یہ حشر کیو ں کر ہو گیا ،راجہ نے فوراً محل میں نجومیوں اور جوتشیوں کو طلب کر کے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہو اہے نجومیوں اور جوتشیوں نے ستاروں کی چال سے حساب کر کے بتایا کہ ائے راجہ تیری راجدھانی میں کچھ پردیسی وارد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ حال ہواہے اور ستاروں کی چال بتارہی ہئے کہ بہت جلد تیر ی حکومت بھی سر نگوں ہوجائے گی ،نجو میوں کی بات سن کر راجہ نے فوراً ایک کماندار کو طلب کیا اور کہا کہ ابھی ابھی ان پردیسیوں کو ہمارے سامنے محل میں حاضر کیا جائے،،کماندار سپاہیوں کو لے کر گیا اور پورا شہر چھان مارا لیکن کہیں بھی کوئ نو وارد اجنبی انہیں نظر نہیں آیا ،لیکن جب وہ پردیسیوں کی تلاش میں جنگل کی جانب گئے تو وہاں انہوں نے جنگل کی لکڑ یوں کے سہارے چادروں کے ایک خیمہ میں اجنبیمسافردیکھے ،،کماندار نے خیمے کے با ہر سے آواز دی کہ پردیسیوں ہمارے ساتھ چلو تمھیں ہمارا راجہ بلا تا ہئے ۔کماندار کی آواز سن کر بی بی رقیّہ خیمے کے در پر تشریف لایئں اورپردے کے پیچھے سے اس وقت کی مروّجہ زبان سنسکرت میں جواب دیا کہ ہم پردیسی ہیں اورکسی کو کوئ نقصان نہیں پہچانے آئے ہیں ہم کو ہمارے حا لپرچھوڑدیاجائے ،کماندار رحم دل انسان تھا اس پاکیزہ ہستی کا جواب سن کر واپس لوٹ گیا اور باشاہ سےکہا اے راجہ وہ لوگ یہاں آنے کو تیّارنہیں ہیں ،راجہ کو اس جواب کے سننےکے ساتھ ہی غصّہ آگیا اور اس نے اپنے بیٹے راج کمار کنور بکرما ساہری کو طلب کرکے کہا پردیسیوں کو ابھی ابھی ہمارے حضور حاضر کیا جائے نوجوان راج کمار نےاپنے زور با زو کی قوّت پر نازاں خیمے کے در پر آ کر حکم دیا کہ سب پردیسی خیمے سے باہر آکر اس کے ساتھ محل میں چلیں یہ راجہ کا حکم ہے راجکمار کی بات کے جواب میں پھر بی بی رقیّہ در خیمہ پر آئیں اور راج کمار سے کہا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے- ہم کو یہیں بیٹھا رہنے دیا جائے بی بی رقیّہ کی جانب سے انکار پر راج کمار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سارے پردیسیوںکو گرفتار کر لیا جائے اور جونہی سپاہی خیمے کی جانب جھپٹے ویسے ہی خیمے کے مقام پر زمین شق ہو گئ اورخیمہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر دور ہوا میں جا گرا اوراسی لمحےراج کمار نے چادروں میں لپٹی ہوئ بیبیوں کو شق زمین کے اندر تہہ زمین جاتےدیکھا ،،کیونکہ وہ بی بی رقیّہ سے مخاطب تھا اس لئے وہ بہ خوبی سمجھ گیا کہ کون سی بی بی پردے کی اوٹ میں اس سے قریب اس سے مخاطب تھی جونہی یہ قافلہ ء اہلبیت نبوّت زمین کے اندر گیا اور زمین پھر جو کی توں برابر ہو گئ اوربراوئتے بی بی رقیؤہ کے دوپٹّے کا پلّو باہر رہ گیا ،اپنی آنکھو ں کے سامنے اس منظر نے راج کمار کو حوش و حواس سے بیگانہ کر دیا وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ جوڑ کر وہ بی بی رقیہ کے دوپٹّے کے پلّو کے قریب بیٹھ کر روتے ہوئے کہنے لگا بڑی بی بی مجھے معاف کر دیجئے-راجہ کے سپاہیوں نے اسے اپنے ساتھ لےجانا چاہا تو اس نے جانے سے انکار کر دیا , سپاہیوں نے محل میں واپس جاکر راجہ کو بتایا کہ سارے پردیسیوں کو زمین کھا گئ ہئے اور ولی عہد واپس آنے کو تیّار نہیں ہے تب راجہ خود بیٹے کو لینے آیا اور اس سے کہا کہ تم میرے ولی عہد شاہزادےہومیری تمام جائداد تمھاری ہئے لیکن راج کمار نے کہ دیا کہ اسے جائداد اور سلطنت کچھ بھی نہیں چاہئے بادشاہ نےاس کا جنو ن دیکھ کر جس جگہ وہ بیٹھتا تھا وہیں پر کئ میل کا علاقہ اس کے نام کر دیا اور ساتھ میں رہنے کے لئے ایک بڑی عمارت بھی بنا دی لیکن راج کمار اسی مقام پر دن کی دھوپ اور رات کے ہر موسم میں زمین پر ہی بیٹھا روتا رہتا اور دونو ں ہاتھوں سے خاک اڑاتا اور وہی خاک سر پر بھی ڈال لیتا اور ساتھ میں کہتا 'یہ میں نے کیا کیا-جب اسکےپچھتاوے کا جنون عروج پر پہنچا تب ایک رات بی بی رقیّہ اس کے خواب میں تشریف لایئں اور اس سے کہا کہ وہ مسلمان ہو جائے،چنانچہ راج کمار راجدھانی کے اندر ایک مولانا سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیاور اب اس نا یا ۔ اب اس کا نام جمال دین رکھّا گیااس کے کچھ عرصے بعد پانچ ہزار افراد کا ایک ہندو قبیلہ اس جگہ سے گزر کر دوسری جگہ نقل مکانی کر رہا تھا کہ اس قبیلے کے سردار کی نظر ایک عبادت گزارنوجوان پر پڑی سردار اس نوجوان سے ملا اور پھر اس نے نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرلے نوجوان نے کہا کہ وہ اپنی بڑی بی بی سے
ہو گی پوچھے بغیر کوئ کام نہیں کرتا ہے ،اس لئے اسے بڑی بی بی سے اجازت لینیاگر انہوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک ہے میں
تمھاری بیٹی سے شادی کر لوں گا اور اگر منع کر دیا تو تم برا مت ماننا اور پھر جب جمال دین نے بی بی رقیّہ سےشادی کی اجازت
طلب کی تو آ پ نے اسے شادی اجازت دیدی ،جمال دین لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا اور جب شادی کی رات گزر کر صبح ہوئ تو لڑکی کی تمام معزوری دو ر ہو چکی تھی ،لڑ کی کے باپ نے یہ معجزہ دیکھا اور اپنے قبیلے کے پورے پانچ ہزار افراد کے ساتھ اسلام لے آیا-
برّ صغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی روشنی لے کر بے شمار اولیائے دین آئے ا ور ہر ایک ولی نے بہت ہی بامشقّت زندگی گزارتے ہوئے اور شہنشاہان وقت کے عتاب کو جھیلتے ہوئے اپنے پاکیزہ مشن کو جاری رکھّا ان میں سے بے شمار ولی اللہ نے ا پنے حقّا نی مشن کی تکمیل کے دوران شہا دت کی حیات آفرین موت کو گلے لگا لیا لیکن اپنے دین الِہی کی تبلیغ کے مشن سے دست بردار نہیں ہوئے ،ان شہید اولیائے کرام کے مزارات مقدّ سہ تمام برّصغیر کے گوشے گوشے میں مرجع ءخلائق عام ہیں۔
جواب دیںحذف کریں