جمعرات، 24 جون، 2021

ہم تو ڈوبے ہیں صنم

 

 

 

 

 

 

 

 

 


کراچی کا ساحل پورے پاکستان کے لوگوں کے لئے بہت پر کشش حیثیت رکھتا ہے اور تمام سال کراچی میں کسی بھی مقصد کے لئے آنے والے لوگ اس کے

 نظارے کے لئے جاتے ضرور ہیں ،بالخصوص نوجوان ،یہ کہانی ایک ایسے ہی نوجوان کی کہانی ہے جس کو کراچی کے ساحل دیکھنے کی آرزو کراچی لے آئی ۔ ویسے

 توہرسمجھدار ماں کی کو شش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کی فرماںبردار ہو،لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی کہیں نا کہیں  ماؤں سے قابل گرفت غلطیا ں ہو ہی

 جاتی ہیں یا ایسے نقصانات ہو جاتے ہیں جن کا زندگی کے آخری پل تک  مداوا نہیں ہو پاتا ہے،

کچھ برس پہلے کی بات ہے شائد پندرہ برس' کیونکہ میں اس وقت کراچی میں ہی تھی محلّے میں ایک طوفان سا اٹھا کہ کراچی کے کچھ نوجوان  کلفٹن پر ڈوب کر

 جاںبحق ہو گئے ہیں جن میں ہماری چیپل سن سٹی کا بھی ایک نوجوان شامل ہے ۔میں بھی سارے کام چھوڑ کر اس گھر کی جانب چل دی جہاں محلّے کی خواتین

 اکھٹّی ہو رہی تھیں،ماں کی حالت کیا تھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے،میّت مل چکی تھی لیکن آنے کا انتظار تھا ،اس بنا وقت اور اندوہنا ک موت کا سبب کیا ہوا

 اس کے بارے میں پتا چلا کہ پنجاب کے کسی شہر سے (میں شہر کا نام بھول گئ ہوں)نوجوان کا پھپھی زاد بھائ آیا اس نے اپنے کزن سے کہا کہ چلو کلفٹن  چلتے ہیں

 نوجوان نے کہا امّی نہیں جانے دیں گی پھپھی زاد نے کہا امّی سے کہنا قائداعظم کے مزار پر جائیں گے لیکن ہم جائیں گے کلفٹن نوجوان کو بھی کلفٹن جانے کی لالچ آئ اور پھر وہ کلفٹن آگئے ،پھپھی زاد نہانے پانی میں اتر گیا اور دوسرا کزن کلفٹن کی سنگی دیوار پر بیٹھ گیا

 کسی کو کیا معلوم تھا کہ اس شام سنگی دیوار پر جتنے نوجوان بیٹھےتھے سمندرکی صرف ایک بے رحم موج ان کو نگلنے کے لئے بے تاب ہے وہ سب سمندر میں

 نہانے والوں کودیکھتے ہوئے محو نظارہ تھے  کہ اچانک سمندر کے پانی میں جوار بھاٹا اٹھا دیوار پر بیٹھے ہوئے نوجوان اپنے دوستوں اور عزیزوں  کو پانی میں غرق

 ہوتے ، ڈوبتے دیکھ کر چیخنے لگے اور اسی لمحےجوار بھاٹے کی ایک اورلہر نے ان سب کو بھی سنگی دیوار سے یا تو نیچے پڑے پتّھروں پر پٹخ دیا یا اپنی بانہوں میں

 سمیٹ کر سمندر کی موت کے حوالے کر دیا ہمارے علاقے کے نوجوان کی موت سر پر پتھّر کی چوٹ کے باعث ہوئ جبکہ اس کے برابر میں بیٹھنے والے کئ

 نوجوان لہر کے ساتھ ہی بہہ گئے ۔

اس شام کراچی میں سوگ کا سماں تھا ،ان گنت نوجوانوں کے گھروں میں ان کے شام ڈھلے گھر آنے کا انتظار تھا کہ یا تو

 ایمبولینسز نے ان کی میّتیں ان کی دہلیزوں پر پہنچائیں یا پھر اپنے پیچھے اپنے پیاروں کوتمام عمرگھر کی دہلیزپرمحو

 انتظارکرکے ایک جاں گسل صدمے سے دوچار کر گئے

 میرے محلّے کے اس نوجوان کی موت کا اس کی امّی کو اس طرح پتا چلا کہ جب پنجاب سے بچّوں کی پھپھی کا فون آیا  کہ ابھی ابھی پاکستان ٹیلی وژن نے کراچی کے

 ساحل پرڈوبنے والوں کی خبر دی ہے کہ ساحل پر کئ میّتیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ کئ  سمندربرد بھی ہوئیں جن کی تلاش کا کام جاری ہے۔

 اب جو نوجوان کی ماں نے ٹی وی کھولا تو اس کو اپنے لخت جگر کی لاش نظر آئ اور پھر اس سے آگے کیا تھا قارئین اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں وہ ہونہار

 نوجوان جس نے میٹرک میں پوزیشن لی تھی جس کو اپنے ماں باپ کا سہارا بنناتھا وہ

محض زرا سی دل لگی کی خاطر موت کی آغوش میں جا سویا تھا اور اس کے اس پھپھی زاد کی تو میّت بھی سمندر نگل گیا جو اج تک بازیاب نہیں ہو سکی اور یہ واقعہ

 تومیرے اپنے گھر کا ہے ،میرے بڑے صاحبزادے  کلاس ہفتم میں اور چھوٹےکلاس شّشم میں پڑھ رہے تھے،ایسے میں میری سسرال سے ایک قریبی

 نوجوان کزن لاہور سے آئے  اور انہوں نے

 میرے بچّوں سے کہا کہ چلو میرے کزن کے گھر چلتے ہیں دراصل لاہور سے آئے مہمان  کا پروگرام بھی کراچی کا

 سمندر دیکھنے کا تھا انہوں نے سوچا کہ یوں تو مجھ سے اجازت ملے گی نہیں تو کزن کا بہانہ کر کے مجھ سے اجازت لی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ میرے  بچّوں لے کر کلفٹن چلے جائیں گے مجھے تو بس یہ معلوم تھا کہ کزن کے گھر گئے ہیں

اور ہوا یوں کہ کلفٹن پہنچ کر ان میں جو نوجوان سب سے بڑی عمرکا تھا اس نے میرے چھوٹے صاحبزادے کو اپنے بازؤوں

   میں اٹھا لیا اور وہ پرانا جہاز جو ریت میں دھنسنے کے باعث ساحل پرکھڑا تھا اس کے قریب یہ کہ کر لے جانے لگا کہ تم کو جہاز پر پھینک دوں گا-

میرے صاحبزادے بتا رہے تھے کہ میں نے سخت مزاحمت کی اور ان کے ہاتھوں کی گرفت سے اپنے آپ کو چھڑا لیا لیکن وہ جہاز کے اتنے قریب پہنچ چکے تھے کہ جب میں ان کے ہاتھوں سے نکلا تو پانی میرے گلے تک تھا۔

جب شام ہوئ اور میرے شوہر گھر آئے اور ان کو معلوم ہوا کہ بچّے میری اجازت سے اپنے کزن کے ساتھ گئے ہیں تو انہوں نے مجھے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ

 اس طرح اندھا اعتماد نقصان پہنچا سکتا ہے،پھر جب بچّے گھر واپس آئے اور انہوں نے پورا احوال سنایا تو مجھے خود بھی ہوش آیا کہ خالہ زاد ہوں یا پھوپھی زاد

 ہوں نو جوانی' نوجوانی ہوتی ہے اس لئے ان پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ آج بھی مجھے اس دن کا خیال آتا ہے تو ایک خوف کی لہر سی بدن میں گزر جاتی ہے

 کیونکہ جہاز جس جگہ کھڑا تھا وہاں سے ریت ہٹ گئ تھی اور ریت کی جگہ دلدل بن گئ تھی اب زرا سوچا جائے بظاہر نظر آنے والا پانی اپنے اندر دلدل لئے

 ہوئے تھا اور اس جگہ اکثر حادثات کی خبریں بھی آتی رہتی تھیں،اللہ پاک سب کی آل و اولاد کو اپنی امان میں رکھّے ۔ آمین

1 تبصرہ:

  1. کراچی سے ساحل سمندر پر پکنک منانے کے لئے آنے والے ان نو عمر نوجوانوں کی ناگہانی موت کی خبر نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ خدارا مائیں اپنی آنکھیں کھلی رکھّیں اور نوجوان بچّوں کو کھلی چھوٹ نا دیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر