سولہویں صدی عیسوی میں جب برطانیہ اپنے طول و عرض میں غربت اور بے روزگاری کا شکار تھا اس وقت برطانیہ کے کچھ پالیسی سازوں نے ہندوستان میں
اپنے قدم جمانے کا آغاز ایک تجارتی قافلہ کی شکل میں کیا اور کچھ عرصہ گزرا کہ اس نے کلکتّہ کے مشہور دریا دریائے ہگلی کے کنارے اپنی تجارت کو ترقّی دینے
کے نام پر ایک کوٹھی تعمیر کر لی اور یہی وہ نقطہء آغاز تھا جس نے ہدوستان کو ڈھائ سو سال کی غلامی کی بیڑی پہنا دی –اب آیئے ایران کی جانب انگریز نے
ایران کی شاہی قیادت اور اس وقت کی بیورو کریسی کو مراعات کے بدلے میں خرید لیا اس طرح ایرانی عوام کو غربت اور پسماندگی میں دھکیل کر ایرانی دولت
پر قا بض ہوگئے ، پھر دور کچھ بدلا لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر وہی خون پینے والے چمگادڑ ہی براجمان رہے-ایسے میں قاچار بادشا ہوں نے عنان حکومت سنبھالی
جو اپنے علمائے دین کا احترام کرنے والے تھے انہی د نوں کی بات ہے کہ برطانیہ کی ایک ٹوبیکو کمپنی نے ایرانی حکومت سے زمین اور پیداواری نسبت اس طرح
طے کی جس سے ایرانی عوام کا پیسہ برطانیہ کی جیب میں جانا تھا یعنی زمین ایران کی ہوتی ٹوبیکو کی کاشت برطانیہ کرتا اور زمین کا کرایہ ایرانی حکومت کو دے کر
پیداوار پوری کی پوری برطانیہ لے جا کر بیچی جاتی معاہدہ مکمّل ہو گیا اور کسی نے جا کر اپنے وقت کے مراجع کو اس معاہدے کی تفصیل بتا دی اور مراجع نے اسی
وقت فتویٰ لکھا کہ تمام ایران میں تمباکو کی کاشت بھی حرام ہے اور تمباکو پینا بھی حرام ہے اور یہ فتویٰ تمام ایران کے شہروں میں نافذ کر دیا گیا اس سے اگلی صبح
جب شاہ قاچار سو کر اٹھا تو ملازم سے حقّہ طلب کیا 'ملازم نے کہا سرکار مراجع کا فتویٰ آ گیا ہے آج سے ایران میں تمباکو پینا حرام ہے –اور ایرانی عوام کا پیسہ برباد
ہو نے سے بھی بچا اور تمباکو کی لعنت سے بھی بچ گیا- یہ فتوے کا درست نفاز تھا - فتوےٰکیا ہوتا ہے -ہم دین اسلام کے پیروکاروں میں شائد ہی کوئ ایسا فرد ہو
جو اس کے معانی اورمفہوم سے نا بلد ہوںلیکن وہ محترم علمائے دین جن کے کاندھوں پر قوم کی پیشوائ کی فریضہ ہوتا ہے کیا اس کے جاری کرنے کے اثرات
و ثمرات سے واقف ہوتے ہیں
فتویٰ دینا ایک بہت اہم منصب ہے اس منصب کو پانے کے لئے علمائے کرام کو بہت علمی محنت کرنا ہوتی ہے تب جا کر ان کو فتویٰ دینے کا منصب عطا ہوتا ہے
لیکن تاریخ کی ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے جب میں نے برّصغیر کے غیر منقسم ہندوستا ن میں انگریز کے آنے کے بعد کی تاریخ پڑھی تو مجھے حیرت اور
دلی تکلیف سے گزرنا پڑا-انگریز ہندوستان میں اپنے قدم مظبوطی سے جما چکا تھا اور اب اسکو اپنی انگریزی زبان رائج کر کے مکمّل فاتح قوم کی حیثیت دینا تھی
،چنانچہ اس نے پورے ہندوستا ن میں انگریزی زبان لازمی مضمون کی حیثیت شامل کروا دیا –عین اسی زمانے میں مسلم علماء نےپہلا فتویٰ دیا کہ ایک بدیسی قوم
کے آ جانے کے بعد اب ہندوستان رہنے کے قابل ملک نہیں ہے اس لئے رہائش کے لئے کسی اسلامی ملک کا انتخاب کرنا ہو گاچناچہ نگاہ انتخاب نے افغانستان کو
جائے رہائش کے لئے موزوں قرار دیا اس فتوے کی پیروی پچّیس ہزار خاندانوں نے کی اور اپنا مال و اسباب لہلہاتے کھیت و کھلیان بیچے اور اور بیل گاڑیوں پر اپنی
نقل مکانی کا آغاز کیا
یہ سفر اپنے آغاز میں اچھّا تھا لیکن جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا تو سردیا ں شروع ہو چکی تھیں اور قافلہ کے لوگوں پر راستہ کی مسافت کی
تھکن بھی طاری ہو گئ تھی،ایک اور اہم قابل غور بات یہ تھی کہ میدانی علاقے کے لوگوں کی جسمانی ساخت پہاڑی علاقہ کے کے لوگوں کی ساخت کی نسبت
مختلف ہوتی ہے میدانی علاقہ کے لوگ سخت جان نہیں ہوتے ہیں جس طرح پہاڑی علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں چنا نچہ یوں ہوا کہ جب یہ لکھوکھا کی تعداد میں
جب یہ قافلہ افغانستان کی سرحد کے قریب پہنچا اور وہاں کی حکومت کو معلوم ہواکہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ افغانستان میں پناہ کے لئے پہنچ چکے ہیں وہاں کی
حکومت سے اپنی سرحدوں پر پہرے بٹھا دئے اور سختی سے حکم نافذ کیا کہ جو بھی
سرحد کے پاس آئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے
اب قافلہ کے پاس واپسی کے سوا کوئ چارہنہیں تھا اور واپسی کا سفر بڑا ہی درد ناک تھا برف باری میں شدّت تھیاورچھوٹے بچّے اور ضیف افراد پر برفانی موسم
موت بن کر وارد ہو رہا تھا یہاں تک پھر جوانوں کی بھی قوّت مدافعت ساتھ چھوڑ گئ اور یہ قافلہ جب دوبار ہ اپنے ٹھکانوں کو لوٹا تو بس چند ہزار خستہ بدن اور
مفلوک الحال لوگ زندہ بچے تھے باقی راستے کی ایسی خاک بن چکے تھے جس پر
کوئ فاتحہ بھی پڑھنے کو نہیں موجود تھا
ایک اور فتوے نے مسلمانوں کی کئ نسلوں کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا ہوا یہ کہ انگریز نے ہندوستان پر جب اپنا قبضہ مستحکم کر لیا اور اس کو اب
مزاحمت کا خوف نہیں رہا تو اس نے ہند وستان کے طول و عرض میں فارسی زبان کی جگہ انگلش زبان رائج کر دی اور ہندوستان کی تمام قومیتوں کے لوگوں بے
چوں چرا انگلش سیکھنے پر توجّہ مبزول کر لی لیکن مسلمان وہ واحد قوم تھی جس کے پیشواوں نے اس قوم پر فتویٰ لاگو کر دیا کہ انگلش زبان سیکھنا حرام ہے،یہ
فتویٰ اس زمانے کے کسی مفتی محترم نے یا متّفق علیہ مفتیان نے دیا تھا اس فتوے کے آنے کے بعد مسلمانوں پر ہر قسم کی اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوتے گئے
اورہندوقوم کا بچّہ'بچّہ فرفر انگلش بولنے اور لکھنے لگا اور جب ہند واور مسلم قوم کے یہ بچّے جوان ہوئے تو ہندو انگلش زبان کی بنیاد پر مسلمانوں سے سبقت لے
گیا اور مسلمانوں کی
قسمت میں کلرکی لکھی گئ اس فتوے کے ا ثرات پاکستان بننے کے بعد بھی مسلمانوں کی
ترقّی کی راہ میں رکاوٹ بنے،
-جیسا کہ ابھی حالیہ ماضی میں اسلامی مملکت سعودی عرب کے مفتی نے فتویٰ جاری کیا کہ مجاہدین کے لئے ان حالات میں ان کی محرمات بھی جائز ہیں اور جہاد
انّکاح کے لئے نکاح کی
ضرورت نہیں ہے
ان میں صرف لڑکیاں ہی نہیں تھیں کئ' کئ بچّوں کی مائیں بھی تھیں جنہوں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں اسلامی مجاہدین کے لئے اپنی جنسی خدمات پیش
کرنے کو کشاں کشاں چل پڑیں -شوہروں کے آنگن ویران کر کے جانے والی ان لڑکیوں اور خواتین کو اب اپنے شوہروں سے طلاق کے بغیر اپنی جنسی
خدمات دہشت گردوں کو خوشی خوشی فراہم کرنا تھیں -اورپھر ہزاروں بے نام باپوں سے پیدا ہونے بچّے آج پناہ گزین کیمپوں میں اپنی ماوں کے ساتھ
پرورش پا رہے ہیں -زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم یہ لاوارث بچّے ااپنی بے شوہروں کی ماوں کے ہمراہ ازّیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان میں وہ
بچّے بھی ہیں
جن کو ان کی مائیں اپنے گھروں کے پر سکون آنگنوں سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئیں اب
آگے ان کا انجام کیا ہونا ہے عالم الغیب زیادہ بہتر جانتا ہے
حالیہ ماضی میں اسلامی مملکت سعودی عرب کے مفتی نے فتویٰ جاری کیا کہ مجاہدین کے لئے ان حالات میں ان کی محرمات بھی جائز ہیں اور جہاد انّکاح کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مجاہدین کی ضرورت ہے اس فتوے کے آتے ہی ساری دنیا سے داعش کے بنا نکاح کے حرم میں شامل ہونے لئے لڑکیا ں دیوانہ وار شام کی جانب دوڑ پڑیں
جواب دیںحذف کریںان میں صرف لڑکیاں ہی نہیں تھیں کئ' کئ بچّوں کی مائیں بھی تھیں جنہوں اپنے شوہروں کی غیر حاضری میں داعش کے لئے اپنی جنسی خدمات پیش کرنا تھیں ان میں پاکستان کے طول عرض کی لڑکیاں اور خواتین تھیں جو اپنے شوہروں کی لاعلمی میں اپنے بال بچّوں سمیت غائب ہو چکی تھیں -شوہروں کے آگن ویران کر کے جانے والی ان لڑکیوں اور خواتین کو اب اپنے شوہروں سے طلاق کے بغیر اپنی خدمات داعشی دہشت گردوں کو خوشی خوشی فراہم کرنا تھیں اور اس خدمت کے عوض ان کے لئے جنّت کی وعید تھی ،،استغفر اللہ،،اور اب داعشی دہشت گردوں کو شکست فاش کے بعد ان میں سے بیشتر شام کے ایک مہاجر کیمپ میں اپنے بچّوں اور داعشی دہشت گردوں سے پیدا ہونے والے بچّوں کے ساتھ بے یارو مددگار رہنے پر مجبور ہیں،،