پیر، 23 ستمبر، 2024

دین اسلام میں نکاح کی اہمیت اور اس کے ثمرات

 روائت ہے کہ جب عرش بریں پر  حضرت آدم علیہ اسلام  گہری نیند سے جاگے تو اپنے قریب ایک پری پیکر وجود کو پایا اور آپ علیہ السلام وارفتہ اس وجود  کی جانب بڑھے تب ندائے پروردگار آئ -ٹہر جائیے آدم علیہ السلام پہلے نکاح ہوگا -پھر  نکاح کی رسم کے بعد حضرت آدم علیہ السلام نے  پانچ مزید بشر کو پایا  یہ پنجتن پاک کے وجود  مبارک تھے  جو نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے تھے -یعنی اللہ کریم و کارساز نے روز ازل سے ہی  عفّت و عصمت کا محافظ ،” نکاح ”کو قرار دیا  اس رشتے سے اِنسانی معاشـرت کا آغاز ہوتا ہے  یہی رشتہ   پاکیزہ نسب کا ضامن ، ذہنی ،جسمانی ،روحانی ،سماجی اخلاقی و  بلندی کردار اورنفسیاتی مفسدات کا معالج ، شریف خاندان اور صالح معاشرے کے قیام کا موجب ہے جسے اِسلام نے عام ضروریاتِ زندگی کی طرح بےحد آسان بنایا تاکہ معاشرے میں کوئی مرد  یا عورت غیر شادی شدہ نا رہے


لیکن بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس متبرک اور سادہ رسم کو  ہمارے سماج نے اتنا پیچیدہ کر دیا ہے کہ  لوگ  اپنے بچوں کی شادیوں کانام پر خاموشی سے وقت کو گزارتے ہیں تاکہ بیٹی ہے تو اس کا جہیز تیار کر سکیں اور بیٹا ہے تو اس کی بری اور  زیور تیار کر سکیں  نتیجہ یہ ہے کہ نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو  سماجی  فضا کی آ لودگی کا سبب بنتے ہیں شادیاں مشکل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کے تصورات بھی بدل گئے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے شادی کے لیے لڑکے کا تعلیم یافتہ اور مہذب ہوناکافی سمجھاجاتا تھا لیکن اب لڑکی والے الگ گھر، گاڑی اورسرکاری نوکری کاتقاضا کرتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ لڑکے کے گھر میں کتنے افراد ہیں، خاندان زیادہ بڑا تو نہیں،عام طورپراسی لڑکے کو ترجیح دی جاتی ہے جس پر بھائی ، بہنوں کی ذمہ داری نہ ہو


 اگر آج سے پچاس برس پیچھے چلے جائے  تو خاندان کے اندر شادیاں کروانے کا رواج تھا،جس کی بدولت شادیاں آسانی سے ہوجاتی تھیں البتہ  جدید  طبی تحقیق نے بتایا کہ  کزن میرج  کرنے کی صورت میں بچوں میں معذوری کا امکان بڑھ جاتاہے۔چنانچہ اس کے بعد لوگ خاندان سے باہر رشتہ ڈھونڈنے لگے ۔خاندان کے اندر رشتہ کرنے کی صورت میں فریقین بہت سی چیزوں پرسمجھوتاکرلیتے تھے لیکن اب لوگ خاندان سے باہر رشتہ تلاش کرتے ہیں اور انھیں ذات برادری کے نام پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے جس کی وجہ سے شادیاں تاخیر کا شکار ہورہی ہیں۔مردوں اور خواتین میں جس کی عمرتیس ،پینتیس برس سے بڑھ جاتی ہے اس کے لیے شادی کرنا اوربھی مشکل ہوجاتاہے کیوں کہ اس   لڑکی یا لڑکے نے زندگی کاطویل حصہ  جیون ساتھی کے بغیر  گزارہ ہوتا ہےیہ لوگ کئی طرح کے تجربات اورمشاہدات سے گزرے ہوتے ہیں جو انھیں منطقی بنادیتے ہیں۔ان کے لیے جو رشتہ آتاہے یہ بہت باریکی کے ساتھ اسے جانچتے اور عقل کے ترازو پرپرکھتے ہیں،یاد رکھئے ایک مشہور مثل ہے جتنا چھانو اتنا کر کرا نکلے گا - رشتوں میں اس قدر ناپ تول نہیں کیا جاتا بلکہ کچھ چیزوں کوقبول کرناپڑتاہے۔


بیس ، پچیس سال کی عمرلااُبالی پن کی ہوتی ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں کچھ چیزوں پر سمجھوتاکرلیتی ہیں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں، ایک بہن گھر میں رہ جاتی ہے جووالدین کی خدمت کرتی ہے۔اب بعض والدین اس وجہ سے اپنی بیٹی کارشتہ نہیں ہونے دیتے کہ اگر یہ بھی گھر سے چلی گئی توہماراخیال کون رکھے گا۔یہ اپنی بیٹی پر ظلم ہے اور اللہ  کے حکم کے  بھی خلاف ہے۔یہ بات یادرکھیں کہ انسان کو جوانی میں  جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ عمراگرہم سفر کے بغیرگزرجائے تو اس کے بعدانسان کی شخصیت میں نفسیاتی  عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔وہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتاہے اور اس کے اندرگھٹن بھی بڑھ جاتی ہے جس کااظہار وہ مختلف منفی رویوں کی صورت میں کرتاہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ ان کی بیٹی کے لیے جب بھی مناسب رشتہ آجائے اسے قبول کرکے بیٹی کاگھر بسائیں۔


شادیاں مشکل بنانے کے ذمہ دارہم سب ہیں۔دین اسلام نے نکاح کوانتہائی آسان بنایاہے اورولیمے کاحکم بھی فرد کی استطاعت کے مطابق دیاہے لیکن معاشرے کی نام نہاد رسومات اور دکھاوے کی کوشش میں ہم نے اسے انتہائی مشکل بنادیا ہے۔آج نکاح کے لیے مہنگے ترین ہال بک کرائے جاتے ہیں۔کئی کئی دن پروگراموں کا سلسلہ چلتاہے جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کی شادی پرمجموعی طورپرایک کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اوریہ سب کچھ اس لیے کیاجاتاہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں۔دراصل جب ہم اسراف کی انتہاکردیتے ہیں تویہیں سے بے برکتی کی بنیادپڑجاتی ہے ۔اگر شادی کا مقصد میاں بیوی کاسکون ، راحت اورآسودگی ہے تو اس کے لیے لوگوں کو خوش کرنے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔اگرہم اسی طرح رسم و رواجوں کی دنیا میں  سر نگوں رہیں گے    تو ہمارا سماج ہمارے ہاتھوں  یرغمال رہے گا   


د   


لکھنؤ کا ضلع بہرائچ -ایک دلکش شہر-پارٹ- 2

 

اس طرح یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس کے مطالعہ سے ماضی کے بہت سارے پہلو واشگاف ہوجاتے ہیں، اوربہت سی ایسی نئی باتیں علم میں آتی ہیں جو اَب تک پردۂ خفا میں تھیں۔جیسے منشی پریم چند کے بارے میں تحریر کیا ہے :مشہور ادیب ،عیدگاہ اور گودان جیسے بے مثل وشاہکار (افسانے) لکھنے والے منشی پریم چند نےبھی شہر بہرائچ کو اپنی رہائش کا شرف بخشا ہے ۔ منشی پریم چند کی پیدائش 3/جولائی 1880 ء کوہوئی ۔آپ صرف 20 سال کی عمر میں ٹیچر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے -اس دوران 2/جولائی 1900ء میں آپ کا ٹرانسفر بہرائچ کے گورنمنٹ انٹر کالج میں 20رو پے ماہانہ پر ہوا ، جہاں پرآپ نے تین ماہ تک بطور ٹیچر کے تعلیمی خدمات انجام دی اور یہیں بہرائچ میں ہی اپنے ناول ”اسرار ِ معابد“ کی شروعات کی تھی ۔“ (ص47)زیر نظر کتاب نہایت جامع اوربہت ساری کتابوں کا لب لباب ہے ،اور حشووزوائد اور فضولیات سے پاک بھی ہے۔کتاب کا سرورق جاذبِ نظر اورخوب صورت ہے۔496 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ ِ اُردوزبان حکومت ہند کے مالی تعاون سے طبع ہوئی ہے ۔کتاب کا شرف ِ انتساب بہرائچ کے مرحوم استاذ الشعرا اظہار وارثی کے نام ہے ، اس کے اگلے صفحہ پر سابق چیئر مین قومی اقلیتی کمیشن حکومت ہندپروفیسر طاہر محمود کا درج ِ ذیل شعر ہے ؎

ہے علم و فن کی روایات کا امیں یہ شہر

ادب نواز ہے کیسی ہوائے بہرائچ

اس کے بعد چھ صفحات پر مشتمل پوری کتاب کی فہرست ہے ،پھر دعائیہ کلمات ،کلمات ِ تبریک اورپیش ِ لفظ کے بعد پروفیسر سراج اجملی(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کی تحریر بعنوان ”بہرائچ کے بارے میں ایک اہم کتاب “شامل ِکتاب ہے ۔بعد ازاں منظوم تأثرات ،اظہارِ تشکر ،حرفِ چند،حرف ِ آغاز ، دو تبصرے ،ایک خط پیش کیا گیا ہے ۔ پھر صاحب ِ کتاب جنید احمد نورؔ نے ”اپنی بات “کے عنوان سے گویاکتاب کا مقدمہ تحریر کیا ہے اوراُسے بہرائچ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک لائق و فائق شاعرجناب راشد راہی ؔکے مندرجہ ذیل شعر پر ختم کیاہے؎اپنے اسلاف کی توقیر بتانے کے لیےمیں نے اس شہر کی تاریخ مرتب کی ہےاس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے ،اور” بہرائچ کاادب میں مقام“سے معنون ایک تحریر میں بہرائچ کے علمی ،روحانی اورادبی پس منظر کو بڑے خوب صورت انداز ِ بیان اوردلکش پیرایے میں پیش کرکےضلع بہرائچ سے تعلق رکھنے والے 106 شعرا،ادبا اور اہل ِ علم دانشوروں کا تفصیلی تذکرہ مع کلام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ درج کیا ہے ۔اِس سے قبل جنید احمد نورؔ دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل پہلا حصہ بنام ”بہرائچ ایک تاریخی شہر “ تالیف کر چکے ہیں ؛جس میں ضلع بہرائچ کی اہمیت، مکمل تعارف اور تاریخ،یہاںکی زبان ، تعلیم ، یہاں کی ندیوں اور جھیلوںوغیرہ کا ذکر کرنے کے ساتھ بزرگان ِ دین، شہداے اسلام ، اولیاے کاملین ،علماء کرام ، صلحا ء عظام اور مشہور سیاسی شخصیات کا تذکرہ وحالات مختلف عنوان سے مفصل انداز میں پیش کرنے کے ساتھ تاریخی حقائق، اسرار ورموز، نکات اور باریکیوں کو بڑے ہی واضح انداز میں قارئین کی خدمت میں پیش کیاہے ۔


اس طرح جنید احمد نورؔ نےتصنیفی وتالیفیدنیامیں بہت کم عرصہ میں اپنی منفردشناخت بنائی ہے _، یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں کئی ممتاز شاعروںاور ادیبوں نے ان کے کام کوسراہا اور خراج ِ تحسین پیش کیا ہے ۔بندۂ ناچیز بھی موصوف کےاس ادبی اور تاریخی پیشکش پر تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہوئےدعاگوہےکہ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کواور زوروتوانائی عطا فرمائے۔آمین-آب و ہوالکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔ موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔ دھند اواخر جنوری سے وسط دسمبر میں بہت عام ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 45 ° س (113 ° ف) تا 40 ° س (104 ° ف) تک پہنچ جاتا ہےوثقافت -لکھنؤ اپنی وراثت میں ملی ثقافت کو جدید طرز زندگی کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ بھارت کے اہم شہروں میں گنے جانے والے لکھنؤ کی ثقافت میں جذبات کی گرماہٹ کے ساتھ اعلیٰ احساس اور محبت بھی شامل ہے۔ لکھنؤ کے معاشرے میں نوابوں کے وقت سے ہی پہلے آپ! والا انداز رچا بسا ہے۔


 وقت کے ساتھ ہر طرف جدیدیت کا دور دورہ ہے تاہم اب بھی شہر کی آبادی کا ایک حصہ اپنی تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ تہذیب یہاں دو بڑے مذاہب کے لوگوں کو ایک ثقافت سے باندھے ہوئے ہے۔ یہ ثقافت یہاں کے نوابوں کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ لکھنوی پان یہاں کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر لکھنؤ نامکمل لگتا ہے۔-زبان اور شاعری -لکھنؤ میں ہندی اور اردو دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو کو یہاں صدیوں سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ جب دہلی حالات اچھے نہ رہے تو بہت سے شاعروں نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ تب سے اردو شاعری کے دو ٹھکانے ہو گئے، دہلی اور لکھنؤ۔ جبکہ دہلی صوفی شاعری اور لکھنؤ غزل، عیش و آرام اور عشقیہ شاعری کا مرکز بنا۔ نوابوں کے دورے میں اردو کی خصوصی نشو و نما ہوئی اور یہ بھارت کی تہذیب والی زبان کے طور پر ابھری۔ یہاں کے مشہور شاعروں میں حیدرعلی آتش، عامر مینائی، مرزا محمد ہادی رسوا، مصحفی، انشا، صفی لکھنوی، میر تقی میر شامل ہیں۔ لکھنؤ شیعہ ثقافت کے دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ہے۔ میر انیس اور مرزا دبیر اردو مرثیہ گوئی کے لیے مشہور ہیں۔مشہور ہندوستانی رقص کتھک نے یہیں ترقی پائی۔ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کتھک کے بڑے پرستاروں میں سے تھے۔ لکھنؤ مشہور غزل گلوکاہ بیگم اختر کا بھی شہر رہا ہے۔ وہ غزل گائکی میں معروف تھیں اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔


 لکھنؤ کی بھاتكھڈے موسیقی یونیورسٹی کا نام یہاں کے عظیم موسیقار پنڈت وشنو نارائن بھاتكھڈے کے نام پر رکھا ہوا ہے۔ سری لنکا، نیپال، بہت سے ایشیائی ممالک اور دنیا بھر سے طالبعلم یہاں رقص اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لکھنؤ نے کئی گلوکار دیے ہیں جن میں سے نوشاد علی، طلعت محمود، انوپ جلوٹا اور بابا سہگل انتہائی اہم ہیں۔ لکھنؤ شہر برطانوی پاپ گلوکار كلف رچرڈ کا جائے پیدائش بھی ہے۔لکھنؤ ہندی فلمی صنعت کا شروع سے ہی مرکز رہا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ لکھنوی رابطے کے بغیر، بالی ووڈ کبھی اس بلندی پر نہیں آ پاتا جہاں وہ اب موجود ہے۔ اودھ سے بہت سکرپٹ مصنف اور نغمہ نگار ہیں، جیسے مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، جاوید اختر، علی رضا، وجاہت مرزا (مدر انڈیا اور گنگا جمنا کے مصنف)، امرت لال ناگر، علی سردار جعفری اور کے پی سکسینہ جنہوں نے بھارتی فلم کو بلندی پر پہنچایا۔ لکھنؤ پر بہت سی مشہور فلمیں بنی ہیں جیسے ششی کپور کی جنون، مظفر علی کی امرا ؤ جان اور گمن، ستیہ جیت رائے کی شطرنج کے کھلاڑی اور اسماعیل مرچنٹ کی شیکسپیئر والا کی بھی جزوی شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔بہو بیگم، محبوب کی مہندی، میرے حضور، چودھویں کا چاند، پاکیزہ، میں میری بیوی اور وہ، سحر، انور اور بہت سی ہندی فلمیں یا تو لکھنؤ میں بنی ہیں یا ان کا پس منظر لکھنؤ کا ہے۔ غدر فلم میں بھی پاکستان کے مناظر لکھنؤ میں فلمائے گئے ہیں۔ اس میں لال پل، لکھنؤ اور لا مارٹينير کالج کے مناظر ہیں۔


اتوار، 22 ستمبر، 2024

لکھنؤ کا ضلع بہرائچ -ایک دلکش شہر-پارٹ-1

 


بہرائچ شروع سے ہی علمی ،روحانی اورادبی مرکز ہونے کے ساتھ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے؛جسےسلطان محمود غزنوی (971ء-1030ء)کے بھانجے حضرت سید سالار مسعود غازیؒ(1015ء- 1033ء) نے اپنے فیوض وبرکات سے نہ صرف مالا مال کیا بلکہ یہاں ہمیشہ کے لیے علم وعمل کی وہ شمع جلائی جس کی روشنی وتابانی سےنہ صرف علاقہ اور ضلع بلکہ ملک کا بیش تر حصہ مستفیض ہورہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ علم وفن ،شعر وادب، تقریر وتحریراورتصنیف وتالیف کے میدان میں بھی سرزمین ِ بہرائچ نے ایسے باکمال شہسوار پیدا کئے ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر بہرائچ کا نام درج کروایا ہے ۔مشہور فلمی شخصیت کیفی اعظمی(1919ء-2002ء) ،ادبی دنیا کو افسانہ نگاری سے روشناس کرانے والے منشی پریم چند (1880ء-1936ء)، اُردو فکشن کے اُفق پر پوری تابانی کے ساتھ چمکنے والی اور اپنے مشہور ِ زمانہ ناول ”آگ کادریا“کے ذریعہ اُردوناول نگاری کوعروج عطاکرنے والی شخصیت قرۃ العین حیدر (1927ء- 2007ء)، معروف ناول نگار عصمت چغتائی (1915ء-1991ء)،ان کے بھائی عظیم بیگ چغتائی (1895ء-1941ء)،1930ء میں لکھنؤ یونیور سٹی میں شعبۂ اُردو کے بنیادگزار سید مسعود حسن رضوی ادیب ؔ (1893ء-1975ء) ، اسلامی تاریخ پر بیش بہا تصانیف کےخالق ومالک قاضی اطہر مبارکپوریؒ (1916ء-1996ء)اورمصباح اللّغات جیسی عربی اُردو لغت کے مصنف مولانا عبدالحفیظ بلیاویؒ(1901ء-1971ء)جیسے اساطین ِ ادب اور قرطاس و قلم سے اپنا رشتہ استوا ر کرنے والے خود بھی بہرائچ سے مستفیدہوئے اور فیضیاب کیا بھی ۔


بہرائچ شروع سے ہی علمی ،روحانی اورادبی مرکز ہونے کے ساتھ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے؛جسےسلطان محمود غزنوی (971ء-1030ء)کے بھانجے حضرت سید سالار مسعود غازیؒ(1015ء- 1033ء) نے اپنے فیوض وبرکات سے نہ صرف مالا مال کیا بلکہ یہاں ہمیشہ کے لیے علم وعمل کی وہ شمع جلائی جس کی روشنی وتابانی سےنہ صرف علاقہ اور ضلع بلکہ ملک کا بیش تر حصہ مستفیض ہورہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ علم وفن ،شعر وادب، تقریر وتحریراورتصنیف وتالیف کے میدان میں بھی سرزمین ِ بہرائچ نے ایسے باکمال شہسوار پیدا کئے ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر بہرائچ کا نام درج کروایا ہے ۔مشہور فلمی شخصیت کیفی اعظمی(1919ء-2002ء) ،ادبی دنیا کو افسانہ نگاری سے روشناس کرانے والے منشی پریم چند (1880ء-1936ء)، اُردو فکشن کے اُفق پر پوری تابانی کے ساتھ چمکنے والی اور اپنے مشہور ِ زمانہ ناول ”آگ کادریا“کے ذریعہ اُردوناول نگاری کوعروج عطاکرنے والی شخصیت قرۃ العین حیدر (1927ء- 2007ء)، معروف ناول نگار عصمت چغتائی (1915ء-1991ء)،ان کے بھائی عظیم بیگ چغتائی (1895ء-1941ء)،1930ء میں لکھنؤ یونیور سٹی میں شعبۂ اُردو کے بنیادگزار سید مسعود حسن رضوی ادیب ؔ (1893ء-1975ء) ، اسلامی تاریخ پر بیش بہا تصانیف کےخالق ومالک قاضی اطہر مبارکپوریؒ (1916ء-1996ء)اورمصباح اللّغات جیسی عربی اُردو لغت کے مصنف مولانا عبدالحفیظ بلیاویؒ(1901ء-1971ء)جیسے اساطین ِ ادب اور قرطاس و قلم سے اپنا رشتہ استوا ر کرنے والے خود بھی بہرائچ سے مستفیدہوئے اور فیضیاب کیا بھی ۔


جن کاشمار لیلاے اُردوادب کے گیسو سنوارنے والوں میں ہوتاہے ۔ ویسے تو بہرائچ کی شعری وادبی تاریخ تین سوسال پر محیط ہے ، جس کا آغازاُردواور فارسی کے مشہور عظیم شاعر ،ایہام گوئی کے سخت مخالف ،اصلاح ِ زبان کےمحرک ، حضرت امیر خسرو ؒ (1253ء-1325ء)، محمدقلی قطب شاہ (1565ء-1612ء)اور ولی دکنی(1667ء-1707ء) کے بعد اُردو شاعری کے چار ستونوں میں سے ایک یعنی حضرت مرزا مظہر جان جانا ں ؒ (1699ء-1781ء)کے تلمیذ ِ خاص،شاگرد ِ رشید اور خلیفۂ و جانشین شاہ نعیم اللہ بہرائچی ؒ(1738ء- 1803ء)سے ہوتاہے ۔بہرائچ ایک تاریخی شہر  -بہرائچ کی سرزمین سے شروع ہونے والا اُردوشاعری کےاس سلسلہ کی ایک کڑی ریاست حسین المتخلص بہ شوق بہرائچی ـ(1884ء-19645ء) بھی ہیں جن کے مزاحیہ اور لوگوں کے ہونٹوں پر ہنسی بکھیرنے والے مبنی بر حقیقت اشعار نے جہاں عوام وخواص کو مسکرانے پر مجبور کیا ،وہیں ایوانوں میں بیٹھے مکلّف جوڑوں میں ملبوس لیڈروں پر بھی طنز کیا ہے، جیسا کہ اُن کا ایک بہت ہی مشہور شعر زبان زد ِ عوام وخواص ہے ؎

بربادیٔ گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلّو کافی تھا

ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھے ہیں انجامِ گلستاں کیا ہوگا


بہرائچ کے اُردو شعروادب کا یہ کارواں اپنی آب و تاب کے ساتھ یوں ہی بڑھتا رہا؛ یہاں تک کہ پورے تین سو سال کا سفر کرتے ہو ئے آج کےدور تک پہنچا۔ اس تین سو سالہ دور میں سرزمین ِ بہرائچ نےاپنی کوکھ سے ا یسے دُرِ نایاب جنم دیے،جنھوں نے ہر سطح پر بہرائچ کا نام روشن کرنے کا فریضہ انجام دیا۔لیکن تاریخ کاایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ وقت کی رفتارنے مذکورہ بالا اہل علم ِوعمل ،ارباب ِ شعر وادب اور اصحاب ِ تصنیف وتالیف کے کارناموں پردبیز پردہ ڈال دیا ،بریں بنا یہ تمام حضرات گمنامی کا شکار ہوکر لوگوں کے دل و دماغ سے تقریباًمٹ گئے تھے۔ اللہ جزاے خیر دے بہرائچ کے ایک ہونہار فرزنداورجواں سال قلم کار جنید احمد نورؔ کو۔جنھوں نے ”بہرائچ ایک تاریخی شہر“بہرائچ اردو ادب میں (حصہ دوم ) تالیف کرکے اپنے شہر بہرائچ کی تین سوسالہ ادبی تاریخ کو 496 صفحات میں قید کرکےایک اہم اورعظیم علمی ،ادبی و تاریخی فریضہ انجام دیا ہے۔جس میں موصوف نے بڑی‌ہی خوش اسلوبی کے ساتھ دلکش انداز میں نہایت جانفشانی اورعرق ریزی سےبہرائچ کے علمی ، روحانی ،ادبی ،شعری اور تصنیفی کام کو انجام دینے والے اشخاص وافرادکے حیات وخدمات اور کارناموں کو تحقیقات و تجربات سے مزیّن کرکےدنیا ے علم وادب کے سامنے پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی تاریخ کے بہت سے مخفی گوشوں سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔مثلاً ایک مقام پر جنید احمد نورؔ لکھتے ہیں:


”کیفیؔ اعظمی صاحب کا بچپن شہر بہرائچ میں ہی گزرا ہے ۔ کیفیؔ صاحب کے والدصاحب نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ کے نواب قزلباش کے یہاں ملازم تھے ،اور شہر بہرائچ کے محلہ سید واڑہ قاضی پورہ میں رہتے تھے ۔ “ (ص155)دوسری جگہ رقم طراز ہیں:حکیم جوہر ؔصاحب سے وابستہ ایک واقعہ یوں ہے کہ جب پنڈت جواہر لعل نہرو الہ آباد کے نینی جیل میں قید تھے تواُن کی ہدایت کے مطابق جوہرؔ صاحب لنگوٹی باندھے ایک خستہ حال فقیر کی شکل میں جیل سے کچھ فاصلہ پر اپنی گودڑ گھٹری لیے سرِ راہ خیمہ زن رہتے اور راہ گیر چند سکے آپ کے ہاتھوں پر رکھ دیا کرتے تھے مگر کچھ مخصوص کانگریسی کارندے پیسوں کی جگہ دن بھر کی کارروائیوں اور حالات ِ حاضرہ سے متعلق رپورٹ مڑے تڑے کاغذ کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں دبا جایا کرتے تھے جسے جوہر ؔ صاحب دن بھر اپنے پاس گودڑ میں بحفاظت چھپائے رکھتے اوررات کے اندھیرے میں مخصوص ذرائع سے کاغذ کے وہ پُرزے پنڈت نہرو تک پہنچاتے تھے ۔یہ بڑے جان جوکھم کا کام تھا ،مگر مادر ِ وطن ہندوستان کی محبت کے آگے کبھی کوئی آڑے نہیں آیا۔“(ص195،196)

یہ مضمون میں نے انٹر نیٹ سے لیا ہے جزاک اللہ مصنف کے لئے دعاء

ہفتہ، 21 ستمبر، 2024

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

 یہ تحریر میں نے   ان دنوں میں  قلم بند  کی تھی جب میں عالمی اخبار پر لکھ رہی تھی-ہجرت کا پر مصائب سفر طے کرنے کے بعد جب ہم اپنے تنکوں سے بنے آشیانے میں بیٹھے اس کے بعد میری بسم اللہ کا وقت آیا تب والدہ کے نزدیک میری تعلیمی زندگی کی ابتداء کے لئے ہر بات ثانوی ہو گئ اور میری بسم اللہ کوفوقیت ہو گئ میری والدہ اکثر کہتی تھیں جس نے قران دل لگا کر پڑھنا شروع کیا سمجھ لو علم اس سے خود دوستی کرنے کا خواہا ں ہو جاتا ہے-،مجھے یاد ہے گھر میں ایک خاص چہل پہل سی ہو رہی تھی اور پھر سہ پہر کے وقت پنجتن پاک کی نذراورمرحومین کی فاتحہ بھی بسم اللہ سے پہلے ہی دی گئ تھی،،مجھے میری پیاری امّی جان نے اپنے ہاتھوں سے سموکین کے کڑھے ہو ئے گلے اور پف والی آستینو ں کی فراک زیب تن کی اور پھر میرے والد مرحوم جو خود بڑے ہی علم دوست انسان تھے ان سے کہا آئے بچّی کو بسم اللہ پڑھا دیجئے،


مین تخت پر بچھی اجلی چاندنی پر جا کر بیٹھی اب گھر کے سارے افراد بلا لئے گئے اور تخت پر بھی جگہ نہیں رہی باقی بھی تخت سے نزدیک ہی رہے اور امّی جان نے میرے سامنے اپنے ہاتھ کے کاڑھے ہوئے کار چوبی گلابی تکئے پرعربی قاعدہ رکھ کر اس کا پہلا صفحہ کھولا اور میری انگشت شہادت پکڑ کر حرف الف پر رکھّا ،اور والد صاحب نے مجھے پورے الف تا ے حروف پڑھائے ،اور پھر دعائیں مانگیں جن میں میرے حصول علم کی دعاء اہمیت کی حامل تھی -پھر والد صاحب نے مجھے اپنے ہاتھ سے امّی جان کی تیّار کی ہوئ خوشبودار کھیر کھلائ اور دعا دی اور اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نقد رقم بھی ہاتھ پر رکھّی یہ میری بچپن کی زندگی کا خوبصورت اور یادگار دن تھا ،اس دن کے بعد میری امّی جان میرے لئے بھی ا یک ملتانی مٹّی سے نفاست سے لیپی ہو ئ تختی تیّار کرنے لگیں -یہ ہمارے گھر کا دستور تھا کہ جب بچّے کی لکھائ میں پختگی محسوس کی جاتی تب وہ تختی کی لکھائ سے برئ الذّمّہ کیا جاتا تھا ،اگر اس سے پہلے وہ کبھی تختی لکھنے پر چوں چرا کرتا تو امّی جان ناراض ہو کر کہتیں ،پہلے اپنی لکھائ میں پختگی پیدا کرو تب ہی تختی چھوٹے گی ،والدہ گرامی کی اس وقتی سختی نے ہم سب بہن بھائیو ں کی لکھا ئ کو بہت اچھا رنگ دیا اور ہم سب بہن بھائو ں نے اچھّے رسم الخط کو اپنی زندگی مین شامل کر لیا-


 زندگی کی  مصروفیات میں     قلم کی دوستی  بھی کیا حسین  رنگ  بھرتی ہے -میں  جب لکھنے یا پڑھنے بیٹھتی ہوں یقین جانیں  کہ یا تو نماذ کے لئے ہوش آتا ہے یا بھوک اندر سے احتجاج کرتی ہے تب جاکر اٹھتی ہوں علم کی دنیا حسین دنیا ہے ،اس دنیا مین جانا اس کی سیر کرنا اس سے دوستی کرنا اور پھر کئے رکھنا ،،ایک عجیب سرشاری کی کیفیت میں رکھتا ہےمیں متلاشی تھی اس عنوان کی جو میرے سفر حیات کی کتاب کا سرنامہ بنے ،شاہین کے دئے ہوئے عنوان نے مجھ کو بھی ایک خوبصورت عنوان دے دیا ہئے ،اور یہیں سے ،میں نے اپنے قلمی اور طالب علمی کے شروعا تِ سفر کی بات چھیڑ دی ہئے ۔اور میرے قلم کو بفضل اللہ تعالٰی دو نہیں چار پہیئے مل گئے ہیں جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہو-اس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،


ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیںمیں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیااس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرےخیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھا-میری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،


لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل گئ-اس زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،اس کے بعد کے  دور میں کئ  برس بعد  بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایا-یہ تبصرہ بہن عالم آراء نے کیا زائرہ بجو -اّپکی باتوں سے گذرے کل کی کتنی پیاری مہک آرھی ھے-اور اب تو کسی بچے کو تختی کا پتہ ھی    نہیں کچھ   عر صے کے بعد ھماری آپکی یہ تختیاں جن پر ھم نے لکھنا اور لفظوں سے دوستی کی ابتداء کی تھی کسی میوزیم میں نظر آئنگی مجھے بھی یاد ھے وقت یہ باتیں کہاں بھولنے دیتا ھےکہ میری بھی بسمہ اللہ ھوئ تھی اور میں نے بھی تختی پر لکھنا سیکھا تھاھم نے خوش خطی بھی تختی لکھنے کے ساتھہ ھی سیکھا تھااب تو گھروں میں نماز کی چوکی بھی مشکل سے دستیاب ھوتی ھے


 

جمعہ، 20 ستمبر، 2024

سیکیورٹی پروٹوکول

 

 ابھی کچھ ہفتوں پہلے کی بات ہے نیٹ پر ایک وڈیو دیکھی پاکستان  کے دارالخلافہ  اسلام آباد کی چمچماتی   سڑک پر  میرے وطن کے کسی وی آئ پی کا ننھا سا بیٹا اپنی ننھی سی  بچہ سائیکل پر بیٹھا  سائیکل چلا رہاہے اور بچے کے پیچھے انتہائ آہستہ روی سے چم 'چم کرتی قیمتی لاتعداد گاڑیا  ں بچہ پروٹوکول کے ساتھ چل رہی تھیں -یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پروٹوکول کی تمام                  گاڑیاں یقیناً عوام کے ٹیکس کے پیسے  کے پٹرول سے ہی چلتی ہیں -لیکن اب کچھ عرصہ سے   وی آئی پی کلچر کے خلاف  آوازیں سنائ دی جا رہی ہیں ،  خدارا ہمارے اوپر ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ لادنے کے بجائے آپ اپنے ناجائزاخراجات کو ختم کریں ،   آپ  کو معلوم بھی  نہیں ہوگا کہ جب آپ کی گاڑیا فراٹے بھرتی ہو ئ  سڑکوں پر دوڑ رہی ہوتی ہیں پولیس والے سخت پہرے میں  راستے بلاک کیئے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں  سینکڑوں گاڑیاں آ پ کے گزر جانے تک سانپ سونگھے کھڑی ہوتی ہیں  - مریض گاڑیوں میں مر رہے ہوتے ہیں، بچے سکولوں سے لیٹ ہو رہے ہوتے ہیں،  لوگ آفس وغیرہ سے لیٹ ہو رہے ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کی رش میں پھنس کر اکثر لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔

 جھوٹی شان و شوکت دکھانے والوں کے سبب انسانی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں،  ۔     عہدوں پر   ہر دوسرا فرد غیرقانونی طور پر سیکورٹی یا پروٹوکول کے نام پر پولیس، رینجرز یا دوسرے کسی سیکورٹی ادارے کے اہلکاروں کی سرکاری گاڑیوں کے حصار میں سفر کرتا ہے تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ کوئی بڑے صاحب یا صاحبہ گزر رہی ہیں-نام نہاد VIPsکو جلد ازجلد اپنی منزل تک پہنچانے کے لئے دوسری گاڑیوں کو سائیڈ یا ٹکر مارنے سے بھی سیکورٹی یا پروٹوکول والے نہیں ہچکچاتے۔۔قانونی طور پر سیکورٹی یا پروٹوکول کا حق گنے چنے حکومتی ذمہ داروں کو ہی حاصل ہے لیکن اب تو شاید ہی کوئی وزیر مشیر، جج، جرنیل اور اہم عہدوں پر فائز فرد بغیر پروٹوکول کے باہر نکلتا ہو۔ اب تو سرکاری افسران خصوصاً پولیس اور سول انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے اکثر ڈپٹی کمشنر، کمشنرز بھی سیکورٹی اور پروٹوکول کے بغیر باہر نہیں نکلتے۔جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ ماسوائے ایک محدود تعداد کے اہم ترین سرکاری عہدیداروں کے، پروٹوکول اور سیکورٹی کانوائے کے ساتھ سفر کرنے والے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ قومی پیسہ کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ٹریفک حادثات اور بدنظمی کا بھی باعث بنتے ہیں۔

 ضرورت اس  بات کی ہے  کہ پروٹوکول کو ہر سطح اور ہر محکمہ سے ختم کیا جائے۔  اور ہر اُس فرد کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے جو غیرقانونی طور پر پروٹوکول یا سیکورٹی استعمال کر رہا ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ چاہے کوئی VIP ہو یا اُس کا پروٹوکول اور سیکورٹی عملہ، ٹریفک قوانین پر عمل کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔سیکورٹی اور پروٹوکول کے نام پر دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والوں کو سزا دینی چاہئےغریب پولیس والوں کے لئے بھی سوچیئے جو سردی گرمی بارش  ہر موسم میں اوپن فضاوں میں  پروٹوکول دینے کھڑے ہوتے ہیں  راستوں، انٹرنیٹ، موبائل فون کی بندش کے ساتھ دوسری پابندیوں سے جہاں پاکستانی شہریوں  کا  ذہنی سکون برباد ہوتا ہے اور معمولات زندگی درہم برہم ہو جاتے ہیں، وہیں انہیں بعض اوقات ایسا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، جس کی زندگی بھر تلافی نہیں ہو پاتی۔ اکثر پڑھنے اور سننے میں آتا ہے کہ فلاں وی آئی پی کی سیکیورٹی کی وجہ یا راستوں کی بندش کی وجہ ایمبولینس ٹریفک میں پھنس گئیں اور مریض زندگی کی بازی ہار گئے۔ جو لوگ ہٹو بچو کی آوازوں اور سیکیورٹی پروٹوکول کے نام پر گاڑیوں کی فوج ظفر موج ساتھ لے کر چلنے کے شوقین حکمرانوں اور مقتدر شخصیات کے باعث زندگی کی بازی ہارتے ہیں وہ اپنے گھر والوں کے پیارے اور کوئی تو گھر کے واحد کمانے والے ہوتے ہیں، لیکن اس کا احساس عوام کے دکھ درد کے حقیقی احساس سے عاری ان حکمرانوں کو نہیں ہوتا۔
لڑکی زچگی کے لئے رکشہ میں روانہ  ہوئ اور راستے میں طویل وقت کا پروٹوکل  نے راستہ بند کیا ہوا  تھا  اور بالآخر لڑکی نے رکشہ میں بچہ ڈیلیور کیا آس پڑوس کی گاڑیوں سے لوگوں نے اتر کر ابتدائ مدد کی پروٹول ختم ہوا تب لڑکی ہسپتال پہنچائ گئ 

راستوں کی بے جا بندش  سے ہزاروں لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور انہیں بھوکا پیٹ سونے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔ جب بھی راستے بند کیے جاتے ہیں تو ان علاقوں میں  دکانوں، فیکٹریوں، کارخانوں میں روز کی اجرت پر کام کرنے والے ملازمین، سڑکوں پر پھیری یا ٹھیلا لگا کر اپنے گھر والوں کے لیے چٹنی روٹی کا انتظام کرنے والے غریب اس روز بیروزگار رہتے ہیں۔راستوں کی بندش ہو یا انٹرنیٹ، موبائل فون کی بندش ہمیشہ سیکیورٹی تھریٹ کو جواز بنایا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن کا کام دہشتگردوں کو روکنا ہے وہ دہشتگردوں کو روکنے کے بجائے پُرامن شہریوں کی آمدورفت پر ہی کیوں ڈاکا مارتے ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی راستے بند کرنے کوغیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ سیکیورٹی کے نام پر سڑکیں بند نہ کریں -

جمعرات، 19 ستمبر، 2024

تقویٰ ایک چمکتا ہوا آ بگینہ ہے

  اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں جو راستے کو روشن کرتی ہے                       تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے -                                                    تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے                      تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے                                                تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔ تقویٰ سے متعلق     مولائے کائنات حضرت علی  علیہ السلام کا ایک قول کتابوں میں مذکور ہے کہ تقویٰ دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، شریعت پر عمل کرنے، جو مل جائے اس پر قناعت کرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کا نام ہے۔تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعہ ہوتا ہے، جیساکہ نبی اکرم نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے۔ غرضیکہ تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔


 اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سینکڑوں آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت وتاکید کو ذکر کیا ہے۔ تقویٰ سے متعلق تمام آیات کا ذکر کرنا اس وقت میں میرے لئے ممکن نہیں لیکن چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں: اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے۔ ( آل عمران102) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ ( الاحزاب 70) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔ ( التوبہ119) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو۔ ( الحشر 18) تقویٰ کوئی ایسا عمل نہیں جو صرف اِس امت کے لئے خاص ہو بلکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ سے ڈر کر زندگی کے ایام گزارے، فرمان الٰہی ہے: ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کوبھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کی ہے کہ اللہ سے ڈرو۔ ( النساء131) 


خالق کائنات نے اپنے حبیب محمد مصطفی کو بھی تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ سورۃ الاحزاب آیت نمبرایک میں ارشاد باری ہے: اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ کریم نےقرآن کریم میں اعلان کردیا کہ اس کے دربار میں مال ودولت اور جاہ ومنصب سے کوئی شخص عزیز نہیں بن سکتابلکہ اس کے ہاں عزت کا معیار صرف اللہ کا خوف ہے۔ جو جتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرکر یہ فانی دنیاوی زندگی گزارے گا، وہ اس کے دربار میں اتنا ہی زیادہ عزت پانے والا ہوگا، چنانچہ فرمان الٰہی ہے: درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ ( الحجرات13) عباداتی، معاملاتی اور معاشرتی زندگی میں 24 گھنٹے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آسان نہیں جبکہ شیطان، نفس اور معاشرہ ہمیں مخالف سمت لے جانے پر مصر رہتا ہے، چنانچہ رحمت الہی نے بندوں پر رحم فرماکر ارشاد فرمایا: جہاںتک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ ( التغابن 16) یعنی ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی کے لمحات گزارتا رہے۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران102) حج کے سفر کے دوران نیز عام زندگی میں ایک مسلمان دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے متعدد چیزوں سے آراستہ ہونا چاہتا ہے، 


فرمان الٰہی ہے : اور (حج کے سفر میں) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ ( البقرہ 197) یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف نہیں لیکن سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف ہے۔ سورۃ الطلاق آیت2 و3 میں رازق کائنات نے اعلان کردیا کہ تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے والا دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والا ہے: اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ نیز دوسرے مقام پر فرمایا: اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہ تم سے دور کردے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ ( الانفال29) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقویٰ کے مختلف فوائد وثمرات ذکر فرمائے ہیں، چند حسب ذیل ہیں: ہدایت ملتی ہے ۔( البقرہ2)ایسا علم ملتا ہے جس کے ذریعہ حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ ( الانفال29) غم دور ہوجاتے ہیں اور وسیع رزق ملتا ہے۔ ( الطلاق2 و3) اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ ( النحل 128) اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے۔ (الجاثیہ 19) اللہ کی محبت ملتی ہے۔ ( التوبہ7) دنیاوی امور میں آسانی ہوتی ہے۔ ( الطلاق4) گناہوں کی معافی اور اجر عظیم کا حصول ہوتا ہے۔ ( الطلاق 8) نیک عمل کی قبولیت ہوتی ہے۔ (المائدہ27) کامیابی حاصل ہوتی ہے۔


( آل عمران130) اللہ کی جانب سے خوشخبری ملتی ہے۔ (یونس 64) جہنم سے چھٹکارا مل جاتا ہے،جو انتہائی برا ٹھکانا ہے۔ ( مریم 71 و72) ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش یعنی جنت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت45) بے حیائی اور برائیوں سے رکنا ہی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اُن کے مال سے زکوٰۃ لو تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے اور دعا دے اُن کو۔ ( التوبہ103) زکوٰۃ کوئی ٹیکس نہیں جو مسلمان حکومت کو ادا کرتا ہے، اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی امیر کا غریب پر کوئی احسان نہیں بلکہ جس طرح مریض کو اپنے بدن کی اصلاح کے لئے دوا کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہر مسلمان کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے حکم پر اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرے اور یہ صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان مال جیسی مرغوب چیز کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور یہی خوفِ خدا تقویٰ کی بنیاد ہے۔ روزہ اُن اعمال میں سے ہے جو تقویٰ کے حصول میں مددگار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں روزہ کی فرضیت کی یہی حکمت بتائی ہے کہ روزہ سے انسان میں تقویٰ پیداہوتا ہے۔

بدھ، 18 ستمبر، 2024

مُشک -کستوری کیسے حاصل کیا جاتا ہے

 


پاکستان اللہ کی ان نعمتوں میں سے ہے جسے اللہ نے دنیا کی ہر نایاب نعمت سے مالا کر رکھا ہے۔کیا خوبصورت موسم ، ندی نالے، ساحل، آبشاریں، انواع واقسام کی نباتات، نایاب چرند ،پرند اورحشرات الارض۔غرضیکہ ہر وہ نعمت جس کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک ترستے ہیں ۔ ایسی ہی کچھ صورت حال یہاں کی پرشکوہ اور سحر انگیز وادیوں کی ہے جہاں کے قدرتی خزانے تو ایک طرف ہم نے تو ان نایاب چرند پرند کو بھی نہیں بخشا جنکی نسل اب تیزی سے معدومیت کا شکار ہے۔ اور دنیا بھر کی تنظیمیں ہمیں چیخ چیخ کر ان کی بقاء کے خطرات سے متنبہ کرتی آرہی ہیں۔ایسے میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پایا جانے والا ایک نایاب اور قیمتی جانور کستوری ہرن بھی ہے۔جس کے نافہ سے نکلنے والی کستوری سونے سے بھی زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ غیر قانونی شکار سے حاصل کی جانے والی یہ کستوری دنیا کی مہنگی ترین خوشبوؤں میں استعمال ہوتی  ہے۔ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں شاید سب سے زیادہ غیر قانونی شکارکستوری ہرن کا ہی ہوتا ہے۔


لیکن یہاں اصل المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں اس معصوم جانور کی بقا کو شکاریوں سے خطرہ ہے دوسری طرف اس جانور کو تیزی سے بدلتی موسمی تبدیلیوں کے چیلنجز کاسامنا بھی ہے۔ حیوانیات اور ماحولیات کے ماہرین اکثر و بیشتر اس خدشے کا اظہار کرتے آتے ہیں کہ کستوری ہرن کی بقا ء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اس سلسلے میں حال ہی میں وادیء نیلم میں کنٹرول لائن کے قریب ایک رہائشی قمر الزمان جنہوں نے یوں تو حیوانیات میں ماسٹرز کر رکھا ہے لیکن ان کاقابل ذکر کارنامہ کستوری ہرن بارے وہ مقالہ ہے جس پر انہوں نے وسیع تحقیق کر رکھی ہے۔قمر الزمان کہتے ہیں '' پاکستان میں سب سے زیادہ غیر قانونی شکار اور خرید وفروخت پینگوئن کے بعد کستوری ہرن کا ہی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے پاکستان میں اس کی تعداد اس قدر کم ہو چکی ہے کہ اب یہ معدومیت کا شکار ہوتا جارہا ہے‘‘۔بنیادی طور پر کستوری ہرن جو بلند و بالا پہاڑوں کی بلندیوں اور ٹھنڈی جگہ پر رہنے کاعادی ہے۔


ہمالیہ ممالک جن میں پاکستان ، بھوٹان ،انڈیا، چین اور نیپال وغیرہ شامل ہیں۔اب حال ہی میں ہمالیہ ممالک نے ایک مشترکہ بین الاقوامی رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق اس جانور کی بقا ء کو جہاں غیر قانونی شکار کی فراوانی سے خطرہ ہے وہیں اسے تیزی سے بدلتے موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا بھی ہے جس کے پیش نظر ماہرین نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ 2050ء تک جب ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں اپنے عروج پرہونگی ،کستوری ہرن اپنی آماجگاہیں تبدیل کرنے پر مجبور ہونگے جس کے سبب ہمالیہ میں شاید یہ جانور ناپید ہو جائیں۔ایک اور ماہر ماحولیات ہمالیہ میں کستوری ہرن کی تیزی سے کم ہوتی نسل بارے کہتے ہیں اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہمالیہ اور کستوری ہرن کا چولی دامن کاساتھ ہے اور اگر کستوری ہرن کم یا ناپید ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمالیہ کا خصوصی ماحول جو کہ ہمالیہ والے ممالک کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ماہرین ماحولیات اور حیوانیات پچھلے کچھ عرصہ سے ایک اور خدشہ کااظہار کرتے آرہے ہیں۔ ان کے مطابق ہمالیہ کے دامن میں جس میں پاکستان ، افغانستان، انڈیااور نیپال شامل ہیں ، 


ماہرین اس کو کستوری ہرن جیسے قیمتی جانور کی زندگی میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہیں جو اس قیمتی جانور کی نسل کشی کے برابر ہے۔ماہرین اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمالیہ میں اسی رفتار سے انسانی مداخلت ہمالیہ کے قدرتی ماحول کو متاثر کرتی رہی تو کستوری ہرن کی نسل کو تو ناقابل تلافی نقصان تو ہوگا ہی انسانوں کو بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے دورس نتائج برداشت کرنا پڑیں گے۔کستوری ہرن اتنا بیش قیمت کیوں ؟کستوری ہرن دنیا کا وہ واحد جانور ہے جب اس کی ناف کستوری سے بھری ہو اگر قریب سے گزر جائے تو ایک لمبے فاصلے تک فضا ایک معطر خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہ ہو کہ ایک ہرن میں اوسطاً ایک سے چار تولہ اور بسااوقات اس سے بھی زیادہ کستوری اس کے نافہ میں جمع ہو چکی ہوتی ہے۔اگر اس کی قیمت کا اندازہ کرنا ہو تو اوسطاًچار تولہ کستوری والے ہرن کی کستوری کی مالیت آٹھ سے دس تولے سونے کی قیمت کے برابر ہوگی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جو شکاری ایک بالغ اور تنومند کستوری ہرن کا شکار کر لے تو سارا سال گھر بیٹھ کر کھاسکتا ہے۔کستوری صرف جوان ہرن میں پائی جاتی ہے۔


کستوری کی خوشبو کستوری ہرن کی ناف کے ساتھ لگی جھلی نما تھیلی میں ہوتی ہے۔چنانچہ کستوری حاصل کرنے کے لئے جب اس کا شکار کیا جاتا ہے تو ماہر شکاری بڑی تیزی سے اس تھیلی کو پکڑ کر باہر نکالتا ہے اور چاقو سے اس کو جلد سے الگ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد اس تھیلی کو چیر کر اس میں سے نیم خشک دانے دار سفوف کو نکال کر الگ کر دیتا ہے اور اسے مکمل خشک کرنے کے لئے رکھ چھوڑتا ہے۔کستوری سے تیار کردہ خوشبو یورپ اور عرب ممالک میں بہت مقبول ہے۔-کستوری ہرن کا شکار- کستوری ہرن کے شکار کے آثار آج سے چھ ہزار سال قبل میں بھی ملتے ہیں۔ کیونکہ اس معصوم جانور کو صدیوں سے نہ صرف خوشبو بلکہ مذہبی رسومات اور علاج معالجے کی غرض سے بھی شکار کیا جاتا رہا ہے۔ قدرت نے اس جانور کو کستوری جیسے قیمتی خزانے سے تو مالامال کیا ہے لیکن اس کو اپنے دفاع کی طاقت سے محروم رکھا ہے کیونکہ اس کے سینگ نہیں ہوتے اسلئے یہ غیر محفوظ ہوتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماہر اور پیشہ ور شکاریوں نے اس ہرن کی عادات اور معمولات سے پوری پوری آگاہی حاصل کر رکھی ہوتی ہے جس کے سبب انہیں اس کا شکار کرنے میں آسانی رہتی ہے۔مثال کے طور پر کستوری ہرن عام طور پر رفع حاجت کے لئے ایک ہی مقام استعمال کرتے ہیں ،اس دوران وہ اپنے ساتھیوں کو پیغام رسانی بھی کرتے رہتے ہیں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اوورسیز میں پاکستانی گداگرایک صوبے میں منظم مافیا

      آج ہی یہ تحریر انٹرنیٹ سے ملی ہے غور سے پڑھئے سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سخت اقدامات کیے ہیں، جن ک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر