حضرت موسی ع اور ذوالجناح -کوہ طور پر بھی ذوالجناح کی وفا کا چرچا تھا حضرت موسی ع کوہ طور پر مناجات کے لیے جا رہے تھے کہ ایک اسرائیلی گناہ گار نے کہا اے خدا کے نبی ع میں بہت بڑا عاصی ہوں آپ خدا سے میری سفارش کیجیے گا تاکہ میری عفو ہو جائے کلیم اللہ نے اسکی وکالت کی جواب ملا اے موسی ع آپ جو مانگو دوں گا اور جسکی طلب مغفرت مانگو بخش دوں گا مگر قاتل حسین ع کی بخشش نہیں ہے عرض کیا حسین ع کون ہے خطاب ہوا وہ ہی جسکا ذکر کوہ طور پر ہو چکا ہے کہا انکو کون قتل کرے گا فرمایا انکے نانا ع کی بدبخت اور سرکش امت میدان کربلا پر گھوڑا انکا صحیہ کرتا ہوا ( در خیمہ ) پر آئے گا اور بزبان بے زبانی اعلان ظلم بیان کرے گا اور امت کے ہاتھ سے ان کے پغیمبر ع کی دختر کے لال پر جو ستم ہوئے آسمانی صحیفے کی بھی وہ حدیث ہے حسین ع کی شہادت عظمی سے سیکڑوں برس پہلے اولوالعزم پغیمبر موسی ع کے سامنے بیان فرمایا جو ان پر رؤے یا رؤلائے یا رونے والے کی شکل بنائے اس کے جسم کو میں آگ پر حرام کر دوں گا (ناسخ التواریخ ج.٦) شجرہ نسب -ایک روایت کے مطابق ذوالجناح کا شجرہ حضرت اسماعیل ع کے گھوڑے سے جاکر ملتا ہے.-دوسری روایت ہے کہ حضرت ابراہیم ع جس گھوڑے پر فلسطین سے مکے آیا کرتے تھے اسی گھوڑے کی نسل سے ہے
بعض کے نزدیک ذوالجناح بھی جنت کی سواریوں میں سے ایک سواری ہے جو رسول خدا اور اہل بیت ع کے لیے براق کی طرح خدا نے بھیجا تھا.بعض کے مطابق یہ ذوالجناح کوئی عام گھوڑا نہ تھا بلکہ ایک جن تھا جو اللہ کے حکم کے مطابق اہل بیت ع کی خدمت پر مامور تھا اور اپنے فرض کی تکمیل کے بعد ٦١ ہجری کو واپس لوٹ گیا.بعض کے نزدیک ذوالجناح اک فرشتہ تھا جسے یوم عاشور کے واقعات کا گواہ بننا تھا جیسا کہ حجراسود بھی ایک فرشتہ ہے جو عہد الست کا گواہ ہے اور اللہ نے پھتر کی صورت میں اس فرشتہ کو دنیا میں بھیجا تاکہ اس بات کی گواہی دے سکے کہ کون لوگ عہد الست پر قائم رہے ذوالجناح بھی قانون قدرت کے مطابق واقعہ کربلا کا گواہ ہے-مورخ یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ راہوار حسینی گھوڑا نہیں کسی اور دنیا کی مخلوق نظر آتا ہے ذوالجناح رسول اکرم ع کے پاس کیسے آیا-ذوالجناح کو رسول ع کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کیا گیا واقعہ کے مطابق مصر کے علاقے اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے رسول اکرم ع کی خدمت میں ایک خاتون سودہ بنت زمعہ کو اور ایک بے مثال گھوڑا روانہ کیا تھا رسول اکرم ع نے سودہ بنت زمعہ کو عقد کے زریعے داخل حرم کیا اور گھوڑے کو پرورش کے لیے حضرت علی ع کے سپرد کیا
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے ایک بادشاہ اپنے وقت کی سب سے بااثر شخصیت کو جو تحفہ پیش کر رہا ہے لازمی اس میں کوئی خاص بات ہو گی کہا جاتا ہے اسکندریہ کے علاقے میں جو مصر کے شمال اور بحریہ روم کے جنوبی کناروں پر واقع ہے ایک گھوڑا جو آزادانہ پھرتا دیکھا گیا یہ گھوڑا افسانوی کردار کا مالک تھا بہت سے بہادروں اور مہم جوؤں نے اسکو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اسطرح اس گھوڑے کا قصہ زبان ذدعام ہو گیا ایک طرح گھوڑے کا ذکر مافوق الفطرت داستان کے طور پر ہونے لگا بادشاہ مقوقس نے رسول ع کی خدمت میں بے مثال تحفے بھیجنے کی خاطر اپنے کارندوں کو اس گھوڑے کو پکڑنے کی خاصر روانہ کیا-مقوقس کے کارندے اس گھوڑے کو پکڑنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن اس میں سوار ہونے پر ناکامی ہوئی چناچہ اس گھوڑے کو اسی طرح رسول اکرم ع کی خدمت میں روانہ کیا گیا اسکندریہ سے مدینے تک کہ تمام راہ میں اس گھوڑے کو بڑے بہادر افراد قابو میں رکھتے جب اس منہ زور گھوڑے کو رسول ع کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو رسول ع نے اس جانور کو انتہائی پسند فرمایا جب رسول ع نے اسکی گردن پر ہاتھ پھیرا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اسکے ساتھ ہی اسکی منہ زوری اطاعت میں تبدیل ہو گئ رسول ع نے اس وقت اسکو ذوالجناح کا لقب عطا فرمایا اور پرورش کے لیے اسکی رسی مولا علی ع کو دے دی اسطرح یہ ان کے ساتھ ایسے چل پڑا جیسے صدیوں سے منزل کی تلاش میں بھٹکنے والے مسافر کی روح کو منزل پا لینے کے بعد قرار آگیا ہو کا رنگ بے داغ موتی کی طرح سفید تھا لہذا پتہ چلا یہ ذوالجناح حقیقت میں رسول اللہ ع کا ہے
اس میں قدرت کا راز یہ ہے آئندہ جب بھی ذکر ذوالجناح ہو فقط راہوار حسینی کی وجہ سے نہ پہچانا جائے بلکہ اسکا ذکر ہو تو یاد رسول ع بھی تازہ ہو اور ذوالجناح کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ اسکی پشت پر سب سے پہلے رسول اللہ ع سوار ہوئے اس کے بعد مولا علی ع پھر امام حسن ع اور آخر میں امام حسین ع نے سواری کی ذوالجناح مرتجز عقاب میمون وغیرہ یہ وہ گھوڑے تھے جو پغیمبر اکرم ع کو مختلف ملکوں حکمرانوں نے تحفتا" بھجوائے تھے اور یہ گھوڑے رسول اللہ ع کے استمعال میں بھی رہے یہ نبوت امامت کا معجزہ ہے کہ ان سے مربوط منسوب کسی بھی شے پر زمانے کی کثافتیں اثر انداز نہیں ہوتیں اسی لیے 61 ہجری میں یہ گھوڑے اسی آب و تاب کے ساتھ امام حسین ع اور اقربا کی سواری بنے ہوئے تھے -بعض مورخین کے نزدیک حضرت عبدالمطلب ع کو یمن کے بادشاہ سیف بن ذی یزن نے چار گھوڑے ہدیہ کیے تھے اس وقت رسول اکرم ع کی عمر آٹھ برس تھی بادشاہ یمن کی خواہش تھی کہ آپ ان گھوڑوں کو اپنے پوتے کو دے دیجیے گا وہ بڑا ہو کر نبی ع بنے گا میں نے آسمانی کتابوں میں اسکی پہچان پڑھی ہے حضرت عبدالمطب ع نے وہ گھوڑے اپنے پوتے حضرت محمد ع کو پیش کیے اور آپ ع نے کم سنی کے عالم میں باری باری ہر گھوڑے کی سواری کی ایک گھوڑے کا نام مرتجز رکھا ایک گھوڑے کا نام میمون رکھا ایک کا نام ذوالجناح رکھا ایک کا نام طاویہ رکھا سیف بن ذی یزن نے گھوڑے دینے کے بعد حضرت محمد ع سے اپنی شفاعت کی دعا کی التجاء کی تھی -
روائت ہے کہ حمیری خاندان میں سے باذان تبع یمن تھا جو سیف بن ذی یزن کی اولاد میں سے تھا جس وقت رسول ع کا گرامی نامہ خسرو پرویز کے پاس پہنچا اس نے گرامی نامہ کی کوئی عزت نہیں کی اور ساتھ ہی بادشاہ یمن باذان کو خط لکھا کہ تجھے معلوم ہو گا کہ عرب کی بنجر زمین میں اللہ کی رحمت کا نزول ہوا ہے وہاں جناب محمد بن عبداللہ ع رسالت کے داعی ہیں اور ایک نئے دین کی ترویج فرما رہے ہیں تو انہیں گرفتار یا شہید کرکے انکا سر اطہر میری طرف روانہ کر جس وقت یہ خط باذان کو پہنچا اس نے یہ خط رسول اکرم ع کی طرف روانہ کیا اور عرض کیا آپ ع مجھے آگاہ فرمائیں اب میں اسے جواب میں کیا لکھوں ؟ رسول اکرم ع نے جوابا" اسے آگاہ فرمایا کہ تمہیں اب جواب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے جواب اللہ کی طرف سے آچکا ہے خسروپرویز کو قتل کر دیا جائے گا جس دن تیرے پاس خط پہنچے گا اسکے دو دن بعد اسکے قتل کی خبر تیرے پاس پہنچ جائے گی یہ فیصلہ آسمان پر ہو چکا ہے جب خسرو پرویز قتل ہوا اسکی اطلاع باذان کے پاس حسب فرمان پہنچ گئ اس وقت باذان نے بارگاہ رسالت میں عریضہ لکھا میں آپکا مذہب قبول کر چکا ہوں چند دن بعد جب باذان کا انتقال ہوا تو اسکے بڑے بیٹے شہر بن باذان کو تخت پر بٹھادیا گیا اور شہنشاہ انبیاع جشن تاج پوشی میں شرکت کی دعوت دی گئ شہنشاہ انبیاع جناب امیر کائنات ع سے فرمایا اسکی دل شکنی کرنا مناسب نہیں ہے آپ یمن تشریف لے جائیں جس وقت امیر کائنات یمن تشریف لے گئے تو شہر بن باذان نے شایان شان استقبال کیا اور اپنے محل میں لے گئے امیر کائنات ع نے ایک ہفتہ تک یہاں قیام فرمایا اور تمام اہل یمن اسلامی تعلیمات سے مستفید ہوتے رہے ایک ہفتہ کے بعد امیر کائنات ع نے واپسی کا ارادہ فرمایا جب آپ واپس روانہ ہوئے تو شہنشاہ یمن شہر بن باذان نے بہت سے تحائف بارگاہ میں پیش کیے ان تحائف میں ایک گھوڑی بھی شامل تھی
جسکے بارے میں شہنشاہ یمن نے عرض کیا آقا ہمارا حمیری قبیلہ گھوڑوں کے معاملے میں بہت خوش نصیب ہے کہ عرب کی اعلی ترین نسل کے گھوڑے ہمارے پاس موجود ہیں انہی میں سے ایک یہ گھوڑی بھی ہے امیر کائنات ع نے فرمایا ہم وہ گھوڑی دیکھنا چاہتے ہیں شہر بن باذان کے حکم پر اسکا ایک غلام گھوڑی دربار کے باہر لے آیا امیر کائنات ع نے باہر جاکر گھوڑی کو دیکھا اور دریافت فرمایا اسکا نام کیا ہے شہر بن باذان نے بتایا کہ اسکا نام مجلی ہے -امیر کائنات ع نے اس غلام سے فرمایا ذرا اسکو ہمارے سامنے دوڑاؤ تاکہ ہم اسکے قدم دیکھیں غلام نے حکم کی تکمیل کی اس دوران امیر کائنات ع نے نگاہ فرمائی گھوڑی چار قدم چلتی ہے پھر پیچھے دیکھتی ہے اور بوجہ فراق ہنہناتی ہے پھر چند قدم آگے چلی پھر ہنہناتی ہوئی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے امیر کائنات ع نے شہنشاہ یمن کی طرف دیکھ کر فرمایا اس گھوڑی کے انداز بتاتے ہیں جیسے اسکا کوئی بچہ پیچھے رہ گیا ہے کیا واقعہ ہی اسکا کوئی بچہ پیچھے ہے اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیے حضور واقعی ہی اسکا ایک بچہ ہے امیر کائنات ع نے فرمایا وہ تم نے ساتھ کیوں نہ دیا ؟شہنشاہ یمن نے کہا حضور ہمیں دینے سے انکار تو نہیں ہے مگر اسکا بچہ بیمار ہے امیر کائنات ع نے فرمایا بتاو کیا بیماری ہے اسے شہنشاہ یمن نے عرض کیا حضور ہمیں خود نہیں معلوم اسے کیا بیماری ہے مگر اس کی عادات بہت عجیب ہیں امیر کائنات ع نے فرمایا ہمیں تفصیل بتاو اس نے کہا آقا یہ تو ہمیں نہیں معلوم اسے کیا بیماری ہے مگر جس دن سے پیدا ہوا ہے ہمیشہ اداس رہتا ہے تین دن تک تو اس نے ماں کا دودھ نہیں پیا تھا ہر وقت اسکی آنکھوں سے آنسو برستے رہتے ہیں ہمارے شہر سے ریت کا ایک ٹیلہ ہے جس وقت سخت گرمی ہوتی ہے گرم لو چل رہی ہوتی ہے زمین گرمی سے جل رہی ہوتی ہے تو اکثر وہ زوال آفتاب کے وقت وہ شہر چھوڑ دیتا ہے دانہ پانی چھوڑ کر دوڑ جاتا ہے گرم ٹیلے پر جا کر کھڑا ہوتا ہے پہلے زمین پر گھٹنے ٹیکتا ہے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے پھر پہلے دائیں پہلو پھر بائیں پہلو کے بل گرم زمین پر سوتا ہے پھر کھڑا ہو جاتا ہے مدینہ کی جانب منہ کرکے تین مرتبہ ہنہناتا ہے پھر دوڑ پڑتا ہے شہنشاہ یمن جب تفصیل بتاتا رہا امیر کائنات ع روتے رہے پھر فرمایا شہنشاہ یمن وہ تو ہمارے کام کا ہے چلو ہم اسکو دیکھتے ہیں اس نے کہا حضور وہ اب بھی اس ٹیلے پر ہو گا امیر کائنات ع شہر سے باہر تشریف لائے ریت کے پاس ٹیلے پر دیکھا تو وہ دائیں پہلو کے بل سویا ہوا تھا مولا ع جب اسکے قریب آئے تو وہ مولا ع کی خوشبو محسوس کرتے ہی دوڑ کر حضور ع کے قریب آکر کھڑا ہوا -
امیرکائنات ع نے اسکے گلے میں اپنی باہیں ڈال دیں درد کے دریا نے صبر کے بند توڑ کر بہنا شروع کردیا امیر کائنات ع کافی دیر تک اسکے گلے میں باہیں ڈالے گریہ کرتے رہے اسے پیار کرتے ہوئے فرمایا تم نے ابھی سے یہ تیور اپنا لیے ہیں وہ وقت ابھی بہت دور ہے -امیر کائنات ع نے پوچھا کہ مجلی کے اس بچے کا نام کیا ہے ؟انہوں نے عرض کیا حضور اسکا نام مرتجز ہے یہ نام سن کر امیر کائنات ع نے فرمایا اے شہنشاہ یمن ہم اسے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں اس نے عرض کیا آقا ہر چیز کے آپ مالک ہیں جو چیز چاہیں ساتھ لے جائیں مولا ع نے کہا ہمیں صرف یہ بچہ اپنے چھوٹے شہزادے کے لیے ضرورت ہے القصہ امیر کائنات ع مرتجز کو یمن سے مدینے اپنے ساتھ لے آئے دستور کے مطابق شہر سے باہر قیام ہوا رسول پاک ع استقبال کی خاطر شہر سے باہر تشریف لائے مگر انداز یہ تھا آپ ناقہ پر تشریف فرما تھے حسنین شریفین ع اپنے نانا کے ساتھ ناقہ پر سوار تھے امیر کائنات ع نے شہنشاہ انبیا ع کا استقبال کیا تحائف پیش کیے اس وقت امام حسین ع پاک بابا کے پاس آکر عرض کی بابا ع جان جو تحفہ آپ ع میرے لیے لائے ہیں وہ مجھے دیں امیر کائنات ع نے گھوڑی مجلی منگوائی ابھی گھوڑی کچھ دیر تھی مرتجز نے ماں کو چھوڑ دیا اور دوڑ کر امام حسین ع کے قدموں پر منہ رکھ دیا اس وقت اسکی عجیب کفیت تھی کسی وقت قدموں پر منہ لگاتا کسی وقت سرکار ع کے ہاتھوں پر آنکھیں لگاتا جس طرح مدت سے بچھڑےہوئے دوست ملتے ہیں بالکل اسی انداز میں دونوں ایک دوسرے کو پیار کرنے میں مصروف تھے امام حسین ع نے مرتجز کے گلے میں باہیں ڈال کر اسے بہت پیار ارباب تاریخ لکھتے ہیں اس وقت مرتجز کی عمر تین سال تھی -ذوالجناح امام حسین ع کے پاس-رسول پاک ع اکثر مسجد سے نکل کر اپنے گھوڑے کو دیکھنے جایا کرتے تھے ایک دن مسجد سے نکلے اور اصطبل کی طرف پہنچے تو دیکھا کہ ذوالجناح کے قریب مولا حسین علیہ السلام کھڑے ہیں اور اسکی گردن اور چہرے پر ہاتھ پھیر رہے ہیں اور ذوالجناح بار بار اپنے سر کو امام حسین ع کے قدموں میں جھکاتا ہے امام حسین ع اسکو پھر پیار کرتے جاتے ہیں کافی دیر تک رسول اکرم ع کھڑے یہ منظر دیکھتے رہے پھر رسول ع امام حسین ع کے قریب آئے اور کہا حسین ع یہ گھوڑا تمہیں اچھا لگتا ہے ناں کہا نانا یہ گھوڑا ہم سے بہت پیار کرتا ہے رسول ع نے فرمایا جبھی تو تم اس سے پیار کرتے ہو ہم نے آج سے تمہیں دے دیا یہ آج سے تمہارے نام ہو گیا
اس دن سے امام حسین ع نے جب ذوالجناح کی سواری کرنا چاہی قریب آتے تو ذوالجناح فورا" بیٹھ جاتا جب چاروں ہاتھوں پیروں سے بیٹھ جاتا تو امام حسین ع اس پر سوار ہو جاتے تھے بہت آہستہ اٹھتا کہیں امام حسین ع ڈگمگا نہ جائیں آہستہ آہستہ چلتا اور جب امام حسین ع اترنا چاہتے تو گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جاتا کہیں اترنے میں زحمت نہ ہو ذوالجناح دس محرم کے بعد کدھر گیا-جب دس محرم کو امام مظلوم علیہ السلام نے ریت کربلا پر سجدہ کے لیے سر جھکایا تو تو ذوالجناح نے پروانے کی طرح شمع امامت کا طواف کرنا شروع کر دیا ہر آگے بڑھنے والے کم بخت کا راستہ کاٹا کسی کو ضرب لگائی کسی کو دولتی کے مزے سے آشنا کیا اگر کوئی بہت قریب آیا تودانتوں سے اسکی خبر لی اس دوران اس کے جسم پر تیر پیوست ہوتے رہے سنگ باری ہوتی مگر یہ اپنے جسم پر کھاتا رہا اس دوران شہزادی سکینہ ع محبت پدر میں بیقرار ہو کر بابا کے پاس آگئیں امام علیہ السلام نے ذوالجناح کو حکم دیا کہ جنگ بند کر دے اور شہزادی سکینہ ع کو خیام تک پہنچا یہاں یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے جب امام ع نے سجدہ شکر ادا کیا تو امام ع نے غیب سے سورہ فجر کی آخری آیت کی آواز سنی تو ذوالجناح سے کہا جنگ کو چھوڑ دے کیونکہ اب رب نے اپنے سے راضی نفس کو راضی ہو کر بلا بھیجا ہے آگے بڑھا آقا کے بہتے ہوئے خون سے پیشانی کو رنگین کیا سرپٹ دوڑتا ہوا خیام میں آیا اور کربلا کی شیر دل خاتون کو امامعلیہ السلام کی شہادت کی خبر سنا دی اس خبر کو سن کر مستورات نے ذوالجناح کے گرد حلقہ بنا کر ماتم کرنا شروع کر دیا اکثر روایات کے مطابق ذوالجناح اس حلقہ ماتم کے درمیان سے ہی غائب ہو گیا بعض روایات کے مطابق ذوالجناح مستورات کے حلقہ ماتم سے نکل کر نہر علقمہ کی جانب گیا جہاں حضرت عباس ع کا لاشہ تھا اور خود کو نہر علقمہ کے پانی میں اتار کر غائب ہو گیا چند مورخین کا خیال ہے کہ ذوالجناح خیمہ گاہ سے واپس مقتل میں جہاں جنگ کرتے کرتے شہید یا غائب ہو گیا بعض اہل علم کا نظریہ ہے کہ ذوالجناح پردہ غائب میں ہے جب امام ع کا ظہور ہو گا تو ذوالجناح ان کی خدمت کے لیے دوبارہ حاضر ہو گا بعض کے نزدیک ذوالجناح نے دس محرم شام غریباں کو بحکم امام علیہ السلام بی بی شہر بانو ع کو پشت پر سوار کیا اور انکو رے جہاں پر بی بی شہر بانو کا مزار ہے تک پہنچایا اور خود غائب ہو گیا اور امام ع کے ظہور پر دوبارہ آئے گا
بعض کا خیال ہے ذوالجناح زندہ ہے اور امام زمانہ ع کی اقامت گاہ پر موجود ہے جب امام ع ظہور فرمائیں گے تو یہ انکے ساتھ ہو گا -غرض کہ حاصل کلام یہ ہے کہ ذوالجناح حکم رب سے محمد و آل محمد ع کی خدمت کے لیے بطور خاص خلق ہوا تھا اور فرض کی ادائیگی کے بعد حکم ربی اپنی دنیا میں واپس چلا گیا آغاز شبیہ ذوالجناح-ذوالجناح کی شبیہ نکالنے کا آغاز برصغیر پاک و ہند کے علاقوں سے ہوا برصغیر پاک و ہند میں جب اسلام پھیلا اور مجالس و عزاداری کا سلسلہ قائم ہوا تو عقیدت کی بنا پر لوگ مزارات آل محمد ع تک تو نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا روحانی القا کی خاطر شبیہ حرم بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جسکو تعزیہ کا نام دیا گیا اکی طرح مصائب اہل بیت ع میں غیر انسانی کردار ذوالجناح کی شبیہ کا سلسلہ شروع ہوا عام روایات کے مطابق اکثر لوگوں کو بذریعہ بشارت اس شبیہ کو نکالنے کے احکامات ملے یقینا" اس بشارت میں کوئی راز قدرت موجود ہے برصغیر میں شبیہ ذوالجناح کا آغاز تعزیہ داری کے ساتھ ہی ملتان سے شروع ہوا پھر لاہور جس شہر کو ہمشیرہ امام حسین ع کی جائے سکونت کا اعزاز بھی حاصل ہے شبیہ عزاداری کا آغاز ہوا اسکے بعد یہ سلسلہ ریاست اودھ اور دکن کے علاوہ بنگال اور بہار تک پھیل گیا دکن میں شیعہ ریاستیں قائم ہوئیں پھر لکھنو اور دہلی میں عزاداری کو فروغ ملا امیر تیمور نے برصغیر پر جب چڑھائی شروع کی تو یہاں عزاداری پوری طرح قائم ہو چکی تھی مگر عہد تیمور میں باقاعدہ شبیہ تعزیہ ذوالجناح برآمد کرواگیا-کیا اسلام میں جانور کی شبیہہ کا تصور موجود ہے ؟ اسلام میں جانور کی شبیہہ کا تصور موجود ہے اسکی مثال قربانی کے جانور ہیں جو اس دنبے کی شبیہہ ہیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ذبح ہوا تھا آج اس دنبے کی شبیہہ بنا کر ہر سال لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں حالانکہ ہم خود ہی ان جانوروں کو اس دنبے سے نسبت دیتے ہیں پھر اسکے احترام میں اسکی رسی یا کیل کو جس جگ جسکے ساتھ اسماعیل نبی ع کی جگہ پر ذبح ہونے والے دنبہ کی شبیہہ بندھی ہو ہم گستاخی نہیں کرتے ایسی کامل شبیہہ بناتے ہیں کہ اسطرح اسے ذبح بھی کرتے ہیں یہاں اس سوال کا بھی جواب مل جاتا ہے کہ ذوالجناح تو ایک تھا پھر ہر شہر ہر گاؤں سے الگ الگ شبیہہ کیوں نکالی جاتی ہیں کیوں جسطرح حضرت اسماعیل ع کی یاد میں ذبح ہونے والا دنبہ بھی ایک ہی تھا لیکن اس کی یاد میں لاکھوں جانور شبیہہ بنا کر ذبح کیے جاتے ہیں لہذا جسطرح اس دنبے کی شبہییہ کا مقصد ہے کہ قربانی حضرت اسماعیل ع یاد رہے اس
ی طرح شبیہہ ذوالجناح کا مقصد ہے قربانی امام حسین ع یاد رہے ذوالجناح کو سجانا اور گردن میں دو پٹے ڈالنے کی وجہ-جب امام حسین ع نے ذوالجناح پر سوار ہو کر مقتل کی طرف رخ کیا تو تمام مستورات نے دررویہ قطار بنا لی جیسے ہی ذوالجناح نے مستورات کی قطار کے درمیان چلنا شروع کیا تو تمام مستورات نے اپنے سروں پر بندھے کپڑےکھول کر ذوالجناح کی گردن میں باندھنے لگئیں اور کہتی گئیں ہمارے سر کے اس بندھے کپڑے کی لاج رکھنا اور مشکل وقت میں امام حسین ع کو نہ چھوڑنا یاد رہے عرب خواتین برقعے کو سر پر سنبھالنے کے لیے دوپٹے کی طرح کا ایک کپڑا استمعال کرتی تھیں جو ماتھے سے سر کی پشت کی جانب باندھا جاتا تھا یہ بالکل دوپٹے کی مانند ہوتا تھا یوم عاشور مستورات نے ذوالجناح کی گردن میں یاددہانی کے طور پر سر کے دو پٹے باندھے آج خواتین نے ان مظلوم مستورات کی یاد میں بطور منت شبیہہ ذوالجناح کی گردن پر دوپٹہ باندھتی ہیں اور اللہ راہوار حسینی کے صدقے میں خواتین کی شرعی حاجات مستجاب فرماتا ہے ذوالجناح کے پاؤں کی خاک-اللہ نے سورہ العادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھنے والے غبار کی قسم کھائی ہے جب مجاہدین کے گھوڑوں کے پاؤں کی خاک اتنی متبرک ہے کہ اللہ قرآن میں اسکی قسمیں کھاتا ہے تو رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم اور امام حسین علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کی خاک کتنی متبرک ہو گی کوئی بھی بیماری کیوں نہ ہو اس کی خاک سے انسان کو شفا مل جاتی ہے جس قسم کا زخم ہو اسکے قدموں سے مس کردہ خاک لگائیں زخم ختم ہو جاتا ہے جس عورت کی اولاد نہ ہوتی ہو وہ عورت اپنے دوپٹے کے دامن میں جو یا چنے کی نیاز پیش کرکے ذوالجناح کو کھلائے اور ذوالجناح کے پاؤں کی خاک سر میں لگائے آئندہ سال بچہ انشااللہ اسکی گود میں ہو گا متعرض کے لیے تجربہ شرط ہے کے مطابق بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے والد ذوالجناح پونجا کی والدہ نے عاشور کے دن اپنے یہاں لڑکا ہونے کی منت مانی اور بیٹا ہونے پر امام حسین علیہ السلام کی سواری ذوالجناح کے نام پر اپنے بیٹے کا نام ذوالجناح پونجا رکھا کثرت استمعال سے ذوالجناح صرف جناح رہ گیا اور یہ ہی قائداعظم کا خاندانی نام قرار پایا (ذوالجناح)ذوالجناح ہندوؤں کی کتابوں میں- مرحوم غیاث الدین مدیر معارف اسلام اور شہید نینوا نمبر جلد ١٣ نمبر شمارہ ١ محرم الحرام ١٣٨٤ ہجری میں لکھتے ہیں راقم الحروف کے زیر مطالعہ اہل ہنود کی چند کتب کے بیانات تھے پڑھتے پڑھتے یجروید کی مندرجہ ذیل عبارت پر آنکھیں رک گئیں جو یقینا" قارئین معارف اسلام اور اہل تحقیق کے لیے ہیں "نمے سبھا بھیم پتی بھشیج وونمو شو بھیر " ترجمعہ:"مجلسوں اور مجلسوں کے مالکوں کو بار بار نمسکار ہے گھوڑں اور گھوڑوں والوں کو بھی بار بار سجدہ ہو" ترجمعہ از شری پنڈت آتما جی بحوالہ یجروید ادھیائے ١٦ منتر ٢٤ کتاب ویدرتھ پرکاش حصہ اول ص ٢١٧ مطبوعہ ١٨٣٥ء ساٹی برقی پریس ہال لازارا امرتسر فاضل مضمون نگار نے لکھا ہے ہندؤ تہذیب یہ ہے کہ وہ جس کو تعظیم کے لائق سمجھتے ہیں اس کے سامنے ہاتھ ہاتھ جوڑتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں لہذا یہاں ہندوؤں کی کتابوں میں امام حسین ع اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ گھوڑوں کو بھی سجدہ نمسکار کے ساتھ عزت و تکریم کی جا رہی ہے کلکتہ میں دس محرم کو جب جلوس عزا گزرتا ہے تو مسلم اور غیر مسلم ہندو عورتیں اور مرد ذوالجناح کے آگئے گھڑوں میں پانی لاکر زمین پر بہاتے ہیں اور آب جاری ظاہر کرکے بتاتے ہیں ہم اپنے مہمان کو پیاسا نہیں رکھتے بے زبان جانور کے لیے پانی بھی حاضر ہے اور یہ تعلیم بھی اس پیشوائے اعظم کا اسوہ حسنہ ہے جس نے حر ع نامدار کے لشکر کو مع راکب مرکب سیراب کیا. یہ متبرّک مضمون میں نے حرف بہ حرف درس اہل بیت سے لیا ہے - شکر گزار ی درس اہل بیت مبران کی-جزاک ا