جمعرات، 3 جولائی، 2025

میں چلا ہوں علی سے ملاقات کو

 

کہا جاتا ہے  اور ریکارڈ پر بھی موجود ہے کہ  شہید سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے لیےروزنامہ جنگ سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سےتکنیکی و تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھے جو بعد ازاں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔ مستند زرائع  بتاتے ہیں  کہ ہارڈ ورڈ یونیورسٹی ،کولمبیا یونیورسٹی اور فلوریڈا میں امریکی محققین و ماہرین پروفیسر سبطِ جعفر زیدی کے دبستان سوز خوانی اور فن سوز خوانی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات ماہرین فن اساتذہ اور محققین کی نگرانی میں باقاعدہ استفادہ کررہے ہیں۔تاکہ سوز خوانی کا یہ ورثہ اگلی نسل کو منتقل کیا جاسکے۔شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں ایک سو سے زائد سوز خواں اپنی خدمات بغیر معاوضہ کے انجام دے رہے ہیں ۔اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کار خیر کو  جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ مختلف شہروں میں مقبول سوز خوانوں کا مختصر تعارف اور نام بھی لکھ دیئے  گئے ہیں استاد سبط جعفر زیدی کو 18 مارچ 2013ء کو پیر کے دن دوپہر کے وقت کالعدم سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے اس وقت شہید کیا جب لیاقت آباد میں قائم کالج سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد اپنی موٹرسائیکل پر گھر جارہے تھے


شہادت کے وقت آپ 56 برس کے تھے۔آپ کی نماز جنازہ امروہہ گراوٴنڈ انچولی میں ادا کی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء، شعراء، مدارس اور کالجز کے اساتذہ اور اپنی تعلیم سے سرفراز ہونے والے شاگردوں نے شرکت کی۔ اان کی شہادت پر صوبہ سندھ کے تمام کالجز بطور احتجاج ایک دن بند رہے۔ آپ کو وادی حسینؑ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔سبط جعفر سے نقل کیا جاتا ہے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ "مرنا تو سب کو ہے تو پھر کینسر یا روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے سے بہتر ہے کہ چلتے ہاتھ پاؤں شہادت کی موت نصیب ہو۔ ان کے کسی قریبی دوست نے باہر آنے جانے میں احتیاط برتنے کا کہا تو از راہِ مذاق کہنے لگے کہ "تم لوگ تو مجھ سے جلتے ہو، چاہتے ہی نہیں ہو کہ مجھے شہادت ملے۔" وہ ہمیشہ شہادت کے متمنی رہتے تھے یہاں تک کہ شہادت سے کئی ماہ قبل اپنے وصیت نامے کو دو منظوم کلام کی شکل میں لکھ کر گئے۔ایک کلام احباب کے نام اور دوسرا قاتلوں کے نام۔ ان دونوں کلاموں کے آخر میں انہوں نے اپنا نام شہادت سے قبل ہی *"شہید سبط جعفر بقلم خود" لکھا۔آپ نے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ سبط جعفر زیدی سنہ 1990ء سے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور پاکستان ٹیلی ویژن پر آپ نے صوتی علوم و فنون اسلامی  پر "لحنِ عقیدت" کے نام سے پروگرام نشر کئے


 آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانی انجمن محبان اولیاء کے بانی، انجمن وظیفہ سادات پاکستان اور انجمن محمدی کے صدررہےکر ایسوسی ایشن، سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن، انجمن سوز خوانان کراچی اور آرٹس کونسل کے رکن رہے۔آپ J.D.C بورڈ کے بانی اور خادمان علم جامعہ امامیہ کے سرپرست بھی رہے۔سبط جعفر نے سندھ بھر میں 7 کالجز پانچ خیراتی ادارے، مختلف تعلیمی ادارے اور ٹنڈو آدم میں ایک سکول بنوایا جس میں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ایک ایوارڈ بھی ملا ہے۔ سنہ 1957ء کو آپ کراچی میں پیدا ہوئے۔ سبط جعفر گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے۔ آپ نے کئی کالجز، سکول اور فلاحی ادارے قائم کئے اور اردو زبان میں سوزخوانی کو حیات نو بخشی۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے آپ کو ایوارڈ ملا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوزخوانی اور بعض دیگر اداروں کے بانی اور عہدے دار بھی رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر سوزخوانی کے متعدد پروگرام کئے۔


سبط جعفر اپنے اشعار میں اہل بیتؑ کے صرف مصائب ہی نہیں بلکہ عقائد اور احکام پر بھی تاکید کرتے تھے۔زیدی اپنے آپ کو شاعر کے بجائے سوزخواں سمجھتے تھے۔ برصغیر میں سوز خوانی کو مجلسِ امام حسینؑ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شہید سبط جعفر زیدی سوز خوانی سے اپنی وابستگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سکول کے زمانے سے ہی سوز خوانی سے شغف تھا اور سنہ 1988ء میں شاعر اہل بیت ریحان اعظمی نے انہیں پاکستان ٹیلی ویژن لے گئے اور اسی سال ریحان اعظمی کی کوششوں سے پہلا کیسٹ منظر عام پر آگیا۔ یہ سلسلہ سنہ 2006ء تک جاری ریا اور اس وقت تک پچاس سے زائد آڈیو ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز منظر عام پر آگئیں -شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں متعدد سوز خواں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوز خوانی کی مجالس میں مصائب اہل بیتؑ بیان کرتے ہیں۔سید سبط جعفر کو مختلف راگ اور سُروں کے علم پر بھی عبور حاصل تھا مگر ان کی بندشوں یعنی کمپوزیشنز میں کہیں بھی گانے یا غنا و موسیقی کا گمان تک نہیں ہوتا تھا اور وہ ذکرِ اہل بیتؑ کو گانوں کی طرز پر بیان کرنے کے سخت مخالف تھے


سوز فارسی کا لفظ ہے، جس کے معنی دکھ درد اور جلن کے ہیں اور خوانی کے معنی پڑھنے سنانے اور دہرانے کے ہیں اور سوزخوانی کے معنی دکھ درد کا بیان کے ہیں۔ اصطلاح میں مصائب اہل بیت علیہ السلام اور بالخصوص واقعہ کربلا کے منظوم کلام کو لحن یا طرز میں اور وضع کردہ طریقوں میں ادائیگی کو "سوز خوانی" کہا جاتا ہے-تالیفات -سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہ 1418ھ میں ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے میں باصلاحیت نوجوانوں کو سوز خوانی سکھانے کے لئے عزاداری اور عزاداروں کا تحفۃ العوام "بستہ" کے نام سے کتاب تالیف کیانٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسز کے نصاب تعلیم کیلئے کئی کتابیں تصنیف کیں جو 1985ء سے 1988ء تک متعدد بار شائع ہوئیں۔مطالعہ پاکستان، عمرانیات اور اطلاقی عمرانیات وغیرہ؛ نیز منتخبات نظم و نثر، زاد راہ، نشان راہ اور صوتی علوم و فنون اسلامی وغیرہ ان کی تالیف کردہ نصابی کتب میں شمار کیا جاتاےسوز خوانی کی ترویج کے لیے "روزنامہ جنگ" سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سے تکنیکی تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھتے رہے، جو بعد ازاں سنہ 1995ء کو کتابی شکل میں منظر عام پر آئ آپ کا پہلا تکنیکی تحقیقی مضمون سوزخوانی کے نام سے سنہ 1989ء کو روزنامہ جنگ کراچی کے مڈ ویک میگزین میں شائع ہوا۔



قبرستان وادی امام حسین کراچی میں شہید سبط جعفر کی آرامگاہ

منگل، 1 جولائی، 2025

شیر نیستان حیدر(عباس علمدار)




ولادت باسعادت قمر بنی ہاشم -معروف یہ ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت جمعہ کے دن چار شعبان سال ٢٦ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ امیر المومنین نے اپنے نو مولود کا نام عباسؑ رکھا چونکہ مولائے کائنات حضرت  علی  علیہ السلام  جانتے تھے کہ ان کا یہ فرزند ارجمند  باطل کے مقابلے میں سخت اور ہیبت والے اور حق کے سامنے شاداب و تسلیم ہے۔  عباس اس شیر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جاتے ہیں۔حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو  آپ کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی آپ  کا ساتھ نہیں چھوڑا۔


 لفظ وفا آپ کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے  آپ کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔جنگ صفین-جنگ صفین امیر المومنین خلیفتہ المسلمین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شام کے گورنر نے مئی۔جولائی 657 ء مسلط کروائی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پہنا اور بالکل اپنے والد علی علیہ السلام کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ہی سمجھا۔ جب علی علیہ السلام بھی میدان میں داخل ہوئے تو لوگ ششدر رہ گئے ۔ اس موقع پر علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عباس ہیں اور یہ بنو ہاشم کے چاند ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ھاشم کہا جاتا ہے۔واقعہ کربلا اور حضرت عباس علیہ السلام-واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔


 امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے ذیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔امام حسینؑ کے پاسدار ، وفاؤں کے درخشان مینار، اسلام کے علمبردار، ثانیِ حیدرِ کرّار، صولتِ علوی کے پیکر ، خاندانِ رسول ص کے درخشان اختر ، اسلام کے سپاہ سالارِ لشکر ، قلزمِ علی کے نایاب گوہر، فاطمہ زہرا کے پسر، ثانیِ زہرا کے چہیتے برادر ،علمدار کربلا حضرتِ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام ۔کسی کے قلم میں اتنی طاقت کہاں کہ انکی فضیلت  کا حق اداکر سکے 8 محرم کا دن علمدار کربلا سے منسوب ہے ، جرات اور شجاعت کے پیکر ر حضرت عباس علمدار واقعہ کربلا میں اپنے بھائی حضرت امام حسین کے شانہ بشانہ رہے۔


 انکی بہادری اور دلیری سے یزیدی لشکر پر بھی لرزہ طاری رہا۔حضرت عباس ابن علی فاطمہ بنت خذام کے صاحبزادے اور امام حسین کے لاڈلے چھوٹے بھائی، ان کو شجاعت اور بہادری اپنے والد حضرت علی سے ملی جس کو دیکھ کر دشمنوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ واقعہ کربلا کے موقع پر وہ امام حسین کے ساتھ ساتھ رہے۔یزیدی لشکر کی جانب سے پانی بند ہونے پر جہاں بڑوں نے صبر کیا۔ وہیں بچے پیاس سے نڈھال تھے  اور اپنے ننھے ننھے کوزے ا ٹھا ئے العطش العطش کہہ رہے تھے  اور پھر اپنی پیاری بھتیجی سکینہ کے پانی مانگنے پر عباس رہ نہ سکے، مشک و علم تھاما اور دریائے فرات کی جانب روانہ ہوگئے، فرات پر پہنچ کر انھوں نے جناب سکینہ کے مشکیزے میں پانی بھرا اور خیموں کی طرف روانہ ہوئے تو یزیدی لشکر نے  پشت سے حملہ کر دیا آپ کے ہاتھوں میں کوئ ہتھیار نہیں تھا -نیزوں اور تیروں کی بارش میں جناب عباس کے دونوں بازو  قطع ہوگئے۔ بازوؤں کے  کٹ جانے   کے بعد مشک کو دانتوں میں لے لیا ، لیکن لشکرِیزید کی جانب سے برسنے والے تیروں نے مشک کو بھی نہ چھوڑا۔


آقا حسین علیہ السلام فرات کے نشیب میں  اپنے زخموں سے چور بھائ کے پاس پہنچے  اور جناب عباس کا سر مبارک  اپنی آ غوش میں لیا  پھر آنکھ میں لگا ہوا تیر نکالا   اور جناب عباس سے فرمایا  عباس تم نے مجھے ہمیشہ آقا کہ کر مخاطب کیا اب اس وقت  مجھے بھائ کہہ کرمیرا دل ٹھنڈا کر دو مولا عباس نے امام حسین علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کی اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی - حضرت عباس  کی شہادت نے نہ صرف کربلا کے دشت میں  آل رسول  کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا  عباسِ باوفا شہادت کے وقت بھی امام حسین اور اہل بیت رسول سے وفا نبھاتے رہے انکی شہادت کے موقع پر امام حسین نے فرمایا کہ آج میری کمر ٹوٹ گئی۔ جناب عباس کی شہادت کے بعد ٍ امام عالی مقام نے علمِ غازی عباس کو اپنی ہمشیرہ بی بی زینب کے سپرد کیا اور جناب زینب شہادتِ حضرتِ عباس کے بعد قافلہ حسینی کی سالار بن گئیں  - اما م سجاد علیہ السلا فرماتے ہیں  کہ خدا وند عالم کے نزدیک میرے چچا  عبّاس کی وہ منزلت ہے کہ تمام شہدا قیامت کے دن رشک کر ینگے 


پیر، 30 جون، 2025

شیعہ قوم میں ذوالجناح کیوں محترم اور معزز ہے

 


ذوالجناح کی شبیہ نکالنے کا آغاز برصغیر پاک و ہند کے علاقوں سے ہوا برصغیر پاک و ہند میں جب اسلام پھیلا اور مجالس و عزاداری کا سلسلہ قائم ہوا تو عقیدت کی بنا پر لوگ مزارات آل محمد ع تک تو نہیں پہنچ سکتے تھے لہذا روحانی القا کی خاطر شبیہ حرم بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جسکو تعزیہ کا نام دیا گیا اکی طرح مصائب اہل بیت ع میں غیر انسانی کردار ذوالجناح کی شبیہ کا سلسلہ شروع ہوا عام روایات کے مطابق اکثر لوگوں کو بذریعہ بشارت اس شبیہ کو نکالنے کے احکامات ملے یقینا" اس بشارت میں کوئی راز قدرت موجود ہے برصغیر میں شبیہ ذوالجناح کا آغاز تعزیہ داری کے ساتھ ہی ملتان سے شروع ہوا پھر لاہور جس شہر کو ہمشیرہ امام حسین ع کی جائے سکونت کا اعزاز بھی حاصل ہے شبیہ عزاداری کا آغاز ہوا اسکے بعد یہ سلسلہ ریاست اودھ اور دکن کے علاوہ بنگال اور بہار تک پھیل گیا دکن میں شیعہ ریاستیں قائم ہوئیں پھر لکھنو اور دہلی میں عزاداری کو فروغ ملا امیر تیمور نے برصغیر پر جب چڑھائی شروع کی تو یہاں عزاداری پوری طرح قائم ہو چکی تھی مگر عہد تیمور میں باقاعدہ شبیہ تعزیہ ذوالجناح برآمد کرواگیا



اسلام میں جانور کی شبیہ کا تصور موجود ہے اسکی مثال قربانی کے جانور ہیں جو اس دنبے کی شبیہ ہیں جو حضرت اسماعیل ع کی جگہ ذبح ہوا تھا آج اس دنبے کی شبیہ بنا کر ہر سال لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں حالانکہ ہم خود ہی ان جانوروں کو اس دنبے سے نسبت دیتے ہیں پھر اسکے احترام میں اسکی رسی یا کیل کو جس جگ جسکے ساتھ اسماعیل نبی ع کی جگہ پر ذبح ہونے والے دنبہ کی شبہہ بندھی ہو ہم گستاخی نہیں کرتے ایسی کامل شبیہ بناتے ہیں کہ اسطرح اسے ذبح بھی کرتے ہیں یہاں اس سوال کا بھی جواب مل جاتا ہے کہ ذوالجناح تو ایک تھا پھر ہر شہر ہر گاؤں سے الگ الگ شبیہ کیوں نکالی جاتی ہیں کیوں جسطرح حضرت اسماعیل ع کی یاد میں ذبح ہونے والا دنبہ بھی ایک ہی تھا لیکن اس کی یاد میں لاکھوں جانور شبیہ بنا کر ذبح کیے جاتے ہیں لہذا جسطرح اس دنبے کی شبیہ کا مقصد ہے کہ قربانی حضرت اسماعیل ع یاد رہے اسی طرح شبہہ ذوالجناح کا مقصد ہے قربانی امام حسین ع یاد رہے  ذوالجناح کو سجانا اور گردن میں دو پٹے ڈالنے کی  رسم  -


کہا جاتا ہے کہ جب امام حسین ع نے ذوالجناح پر سوار ہو کر مقتل کی طرف رخ کیا تو تمام مستورات نے دررویہ  قطار بنا لی جیسے ہی ذوالجناح نے مستورات کی قطار کے درمیان چلنا شروع کیا تو تمام مستورات نے اپنے سروں پر بندھے کپڑےکھول کر ذوالجناح کی گردن میں باندھنے لگیں اور کہتی گئیں ہمارے سر کے اس بندھے کپڑے کی لاج رکھنا اور مشکل وقت میں امام حسین ع کو نہ چھوڑنا یاد رہے عرب خواتین برقعے کو سر پر سنبھالنے کے لیے دوپٹے کی طرح کا ایک کپڑا استمعال کرتی تھیں جو ماتھے سے سر کی پشت کی جانب باندھا جاتا تھا یہ بالکل دوپٹے کی مانند ہوتا تھا یوم عاشور مستورات نے ذوالجناح کی گردن میں یاددہانی کے طور پر سر کے دو پٹے باندھے آج خواتین نے ان مظلوم مستورات کی یاد میں بطور منت شبیہہ ذوالجناح کی گردن پر دوپٹہ باندھتی ہیں اور اللہ راہوار حسینی کے صدقے میں خواتین کی شرعی حاجات مستجاب فرماتا ہے


ذوالجناح کے پاؤں کی خاک -اللہ نے سورہ العادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھنے والے غبار کی قسم کھائی ہے جب مجاہدین کے گھوڑوں کے پاؤں کی خاک اتنی متبرک ہے کہ اللہ قرآن میں اسکی قسمیں کھاتا ہے تو رسول خدا ع اور امام حسین ع کے گھوڑے  کے سموں کی خاک کتنی متبرک ہو گی-جب دس محرم کو امام مظلوم علیہ السلام نے ریت کربلا پر سجدہ کے لیے سر جھکایا تو ذوالجناح نے پروانے کی طرح شمع امامت کا طواف کرنا شروع کر دیا ہر آگے بڑھنے والے کم بخت کا راستہ کاٹا کسی کو ضرب لگائی کسی کو دولتی کے مزے سے آشنا کیا اگر کوئی بہت قریب آیا تو دانتوں سے اسکی خبر لی۔ اس دوران اس کے جسم پر تیر پیوست ہوتے رہے، سنگ باری ہوتی، مگر یہ اپنے جسم پر کھاتا رہا۔ اس دوران شہزادی سکینہ سلام اللہ علیہا محبت پدر میں بیقرار ہو کر بابا کے پاس آ گئیں۔ امامؑ نے ذوالجناح کو حکم دیا کہ جنگ بند کر دے اور شہزادی سکینہؑ کو خیام تک پہنچا۔


یہاں یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب امامؑ نے سجدہ شکر ادا کیا تو امامؑ نے غیب سے سورہ فجر کی آخری آیت کی آواز سنی تو ذوالجناح سے کہا جنگ کو چھوڑ دے کیونکہ اب رب نے اپنے سے راضی نفس کو راضی ہو کر بلا بھیجا ہے۔ ذوالجناح آگے بڑھا، آقا کے بہتے ہوئے خون سے پیشانی کو رنگین کیا، سرپٹ دوڑتا ہوا خیام میں آیا اور کربلا کی شیر دل خاتون کو امامؑ کی شہادت کی خبر سنا دی۔ اس خبر کو سن کر مستورات نے ذوالجناح کے گرد حلقہ بنا کر ماتم کرنا شروع کر دیا۔ اکثر روایات کے مطابق ذوالجناح اس حلقہ ماتم  کے درمیان سے ہی غائب ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق ذوالجناح مستورات کے حلقہ ماتم سے نکل کر نہر علقمہ کی جانب گیا جہاں حضرت عباس علیہ السلام کا لاشہ تھا اور خود کو نہر علقمہ کے پانی میں اتار کر غائب ہو گیا۔ چند مؤرخین کا خیال ہے کہ ذوالجناح خیمہ گاہ سے واپس مقتل میں آیا جہاں جنگ کرتے کرتے شہید یا غائب ہو گیا۔ بعض اہل علم کا نظریہ ہے کہ ذوالجناح پردہ غائب میں ہے، جب امام آخر زمان علیہ السلام کا ظہور ہو گا تو ذوالجناح ان کی خدمت کے لیے دوبارہ حاضر ہو گا۔ 

اتوار، 29 جون، 2025

پیکر علم و عرفان-مرزا سلامت علی دبیر



 مرزا سلامت علی دبیر (1875ء۔1803ء) اردو کےان نامور شعراء میں سے تھےجنہوں نے مرثیہ نگاری کو ایک نئی جدت اور خوبصورتی سے نوازا۔ آپ کو میر انیس کے ساتھ مرثیہ نگاری کا موجد اور بانی کہا جاتا ہے۔مرزا دبیر 1803ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچپن میں ہی محرم کی مجالس میں مرثیے پڑھنے شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے میر مظفر ضمیر کی شاگردی میں شاعری کا آغاز کیا۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔۔مولانا محمد حسن آذاد اپنی کتاب ’’آب حیات‘‘ میں ’’تذکرۂ سراپا سکون‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ۔ دبیر اپنے زمانے کے بہت بڑے دانشور بھی تھے۔لکھنؤ شہر کو سلاطین  وقت  جو ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے   ادب کا تراشا ہو نگینہ بنا دیا تھا  -  شعراء کی سرپرستی کرتے تھے تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر  اپنی  توجہ اپنے علم پر رکھیں -مرزادبیر   نے اپنی مزاجی کیفیت محسوس کر تے ہوئے  دہلی سے لکھنؤ ہجرت کی جہاں انہیں مرثیہ نگاری پر ذیادہ بہتر کام کرنے کا ماحول دستیاب ہوا۔


انہوں نے اپنی زندگی میں تین ہزار (3000) سے زائد مرثیے لکھےجس میں نوحے اور سلام شامل نہیں ہیں۔’’ہم طالع ہما مراد ہم رسا ہوا‘‘اس بے نقطہ نظم میں مرزا دبیر نے اپنے تخلص دبیر کی جگہ اپنا تخلص ’’عطارد‘‘ استعمال کیا اور اس پوری نظم میں شروع سے آخر تک ایک نقطے کا استعمال بھی نہیں کیا۔ ایک انگریز مصنف ، پرو فیسر اور قدیم اردو شاعری کے ماہر پروفیسر فرانسس ڈبلیو پرچیٹ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ’’ اس طرح کا مکمل مرثیہ نگار، شاعر اور انسان دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا‘‘شاعری  کے میدان  میں ان کو الفاظ کی اتنی مہارت تھی  کہ انہوں نے بغیر نقطوں کے ایک کلام لکھا -آپ  کا ایک مشہور مرثیہ ۔کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے -ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے -سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے-شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو- جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو -راحت کے محلوں کو بلا پوچھ رہی ہے- ہستی کے مکانوں کو فنا پوچھ رہی ہے- تقدیر سے عمر اپنی قضا پوچھ رہی ہے- دونوں کا پتہ فوج جفا پوچھ رہی ہے- غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر 

 
 

اگرچہ مرزا دبیر کی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی لیکن انہوں نے شاعری کی دوسری اصناف پر بھی بہت کام کیا جس میں سلام، رباعی، قطعات اور غزلیات بھی شامل ہیں۔ آپ کی غزلوں کا اسلوب مرزا غالب سے ملتا جلتا ہے۔اردو ادب کی تاریخ میں مرزا دبیر اور میر انیس کی مرثیہ نگاری کا بہت زیادہ تقابل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دونوں کی ہی وجہ شہرت مرثیہ نگاری تھی تاہم دونوں کا انداز اور اسلوب ایک دوسرے سے بہت مختلف تھا۔ بعد میں آنے ولےاردو ادب کے بہت سے ماہرین نے اس پر بہت ذیادہ کام کیا۔ اس عظیم ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے مختلف مصنفین اور محققین نے مرزا دبیر کے فن شاعری  پر لاتعداد کتابیں لکھیں - اردو ادب کے شعراء کو سلام  عربوں میں مرثیہ نگاری کا رواج عام تھا۔ عبدالمطلب اور ابوطالب کے کہے ہوئے مرثیے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ حسان بن ثابتؓ نے حضرت   محمد  مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے وصال  پر بڑے دردناک پیرائے میں مرثیہ کہا۔ اسی حوالے سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  نے بھی مرثیہ کہا۔ اور حضرت علی  علیہ السلام نے حضرت فاطمہ ؑکی وفات پر مرثیہ لکھا۔


انیس اور دبیر اکیڈمی لندن نے ان دونوں عظیم شعراء کی سالگرہ پر ’’اردو ادب میں انیس اور دبیر کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک عالمی سیمینار کا انعقاد کیاجس میں پاکستان، بھارت، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیااور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک کے ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی اور مرزا دبیر و انیس کی شخصیات اور کام پر روشنی ڈالی۔اسی طرح کا ایک سیمینار 27 اکتوبر 2009ء کو کراچی میں بھی منعقد کیا گیا جس میں کینیڈا کے ڈاکٹر سیّد تقی عابدی   کے مطابق  اردو شاعری میں میر انیس اور مرزا دبیر نے دنیا کے کسی بھی اردو شاعر سے ذیادہ الفاظ استعمال کیےہیں۔مرزا دبیر کو جب  ضعف بصارت کا مرض لاحق ہوا  جس  کا علم نواب واجد علی شاہ  کو ہو گیا اور پھر نواب صاحب کی  خواہش پر بغرض ضعف بصارت علاج کے لئے  کلکتہ تک گئے اور مٹیا برج میں مہمان ہوئے ۔  مرزا دبیر نے بہ کثرت مرثیے لکھے جو کئی جلدوں میں چھپ کر شائع ہو چکے ہیں۔ ایک پورا مرثیہ بے نقط لکھا ہے۔دوسو سالہ جشن دبیر -2003ء میں پوری دنیا میں ان کا دو صد سالہ جشن ولادت منایا گیا۔


3 جنوری 2014ء کو مفس نوحہ اکیڈمی ممبئ انڈیانے مرزا دبیر کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئےمرزا دبیر کے مرثیوں پر مشتمل 35 وڈیوز کی ایک سیریز جاری کی۔جس کا عنوان تھا ’’مرزا سلامت علی دبیر کے سوز‘‘ جو کہ 8 مرثیوں پر مشتمل ہے (مدینہ تا مدینہ مکمل، 28 رجب سے 8 ربیع الاول) بھارت کے مشہور نوحہ خواں راحیل رضوی نے یہ مرثیے پڑہنے کا شرف حاصل کیا۔ان کے مرثیے اپنے فکری گہرائی، جذباتیت اور زبان و بیان کی خوبصورتی کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے واقعہ کربلا اور اہل بیت کی شہادت کو اپنے کلام کا موضوع بنایا اور اردو مرثیے کو ایک نئی بلندیوں تک پہنچایا.جب بھی مرثیہ نگاری اور اردو ادب میں خدمات کا ذکر کیا جائے گا مرزا دبیر کا  نام  ہمیشہ  سنہری حرفوں سے  لکھا جائے گا۔ شاعر اہلبیت مرزا دبیر کا 1875ء میں انتقال ہوا اور انہیں ان کے مکان کے اندر   ہی دفن کیا گیا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 72 سال تھی
مرزا دبیر کے کچھ غیر منقوط اشعار
اول سرور دل کو ہو ، اس دم وہ کام کر
ہر اہل دل ہو محو ، وہ مدح امام کر
حاصل صلہ کلام کا دارالسلام کر
کر اس محل کو طور وہ اس دم کلام کر


ہفتہ، 28 جون، 2025

حیدرآباد دکن میں قطب شاہی دور میں عزاداری کی ابتداء ہوئ

 

  جنوبی  ہندوستان  میں عزاداری  سید الشہدا کا آغاز    قطب شاہی  دور  میں  ہوا جبکہ بنگال میں سراج الدولہ کی شہادت کے بعد بنگال سے بھی بڑے پیمانے پر شیعہ مسلم ہجرت کر کے سرزمین حیدر آبا د پر وارد ہوئے   ۔ قطب شاہی  بادشاہوں  نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے بہت سے عاشور خانے یعنی امام باڑے تعمیر کرائے، اس سلسلہ میں بہت سی زمینیں اور جاگیریں وقف کیں۔ تیلگو عوام کی رسم و رواج کے مطابق گاؤں گاؤں علم نصب کرائے اور عاشور خانے تعمیر کرا کر عزاداری کو فروغ دیا۔مغلیہ بادشاہ اورنگزیب کے دور اقتدار میں یہاں عزاداری تقریبا بند تھی بس گھروں میں انتہائ رازداری کے ساتھ  غم عاشور منایا جاتا تھا ۔ لیکن  جب آصف جاہ  کا دور حکومت  شروع ہوا تو عزاداری میں پھر رونق آگئی۔محرم کے عشرہ اول میں یہاں موجود 30 سے زیادہ عمومی عاشور خانوں کہ جن میں سے زیادہ تر دورہ قطب شاہی میں تعمیر ہوئے ہیں،  عاشور خانوں کے احاطوں بڑا  علم نصب کیا جاتا ہے جس میں چاند رات سے شب عاشور تک شیعوں کے علاوہ امام حسین علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے اہل سنت اور اہل ہنود زیارت کے لئے آتے ہیں۔‌

حیدرآباد دکن میں کچھ خاص تبرکات مندرجہ ذیل ہیں

1.  جسکی 10 محرم کو مرکزی جلوس میں ہاتھی کی سواری نکلتی ہے۔بی بی کا علم: بتایا جاتا ہے کہ جس تخت پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو غسل دیا گیا تھا اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حیدر آباد لایا گیا اور اس پر سونا چڑھا کر علم کی شکل دی گئی۔ واضح رہے کہ روز عاشورا مرکزی جلوس بادشاہی عاشور خانے سے دن میں ایک بجے برآمد ہوتا ہے اور شام کو سات بجے مسجد الہیہ پر اختتام پذیر ہوتا۔2. نعل مبارک: بیان کیا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے خود (جنگی ٹوپی) کا ایک ٹکڑا حیدرآباد لایا گیا جسے صندل میں محفوظ کیا گیا اس کی سواری شب عاشور رات 11 بجے نکلتی ہے جو تقریبا 10 کلومیٹر گشت کرنے کے بعد صبح 10 بجے واپس آتی ہے۔3. حضرت عباس علیہ السلام کی انگوٹھی۔ جسے صندل کے ڈبی میں رکھ کر علم مبارک میں نصب کر دیا گیا ہے۔ یہ علم درگاہ حضرت عباس علیہ السلام میں نصب ہے۔4. الاوے سرطوق: امام زین العابدین علیہ السلام کے طوق کا ٹکڑا جسے علم مبارک میں نصب کر دیا گیا ہے۔5. حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی چادر کا چھوٹا سا ٹکڑا جو خلوت کے عاشور خانے میں محفوظ ہے۔

6. پیراہن امام زین العابدین علیہ السلام۔

محرم الحرام کے عشرہ اول میں نماز صبح کے بعد سے گھر گھر عزاداری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو اکثر ظہر تک جاری رہتی ہے، اس کے بعد سہ پہر سے دیر رات تک یہاں عزاداری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں کے تقریبا ہر گھر میں عاشور خانے موجود ہیں، یہاں لوگ اپنے گھروں میں 29 ذی الحجہ کو علم نصب کرتے ہیں۔ شہنشاہیت کے زمانے سے اب تک یہاں بڑی شان و شوکت سے عزاداری ہوتی آ رہی ہے۔ کرونا وبا میں جب ہر جگہ عزاداری محدود ہو گئی تھی لیکن یہاں اپنے روایتی انداز سے عزاداری منعقد ہوئی۔ہندوستان میں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ کی تاریخی جڑیں ساتویں صدی ہجری میں منگولوں کے ایران پر حملہ کے بعد کے برسوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت بہت سے ایرانیوں نے اس سرزمین کی طرف ہجرت کی۔ بعض ہندوستانی حکمرانوں کے شیعیت کی طرف مائل ہونے کے بارے میں کچھ تاریخی شواہد کو اس بات سے  تقویت ملتی ہے کہ ایران سے ہجرت کرنے والوں نے تشیع کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لکھنؤ شہر، جسے ہندوستان کے اہم شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اثناء عشری شیعوں کا عظیم مرکز ہے اور اس شہر میں قدیم شیعہ مساجد اور امام باگاہوں کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ حیدرآباد، دکن اور میسور کے شہر ہندوستان کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں سے ہیں۔

چار مینار کے جلوس کا پرشکوہ منظر-ارض دکن کا تاریخی اہمیت کا حامل بی بی کے علم کا جلوس   یوم عاشورہ کو دوپہر ایک بجے الاوہ بی بی دبیر پورہ سے ہاتھی پر برآمد ہوتاہے۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت عظمی کی یاد میں نکالاگیا جلوس مختلف راستوں اور تاریخی چارمینار سے ہوتا ہوا مسجد الہی چادرگھاٹ پر پڑاؤ ڈالتا ہے۔قبل ازیں علم پر آصف جاہی خاندان اور نظام ٹرسٹ کے عہدیداران کے علاوہ سیاسی، سماجی رہنماوں اور پولیس کے اعلی حکام کی جانب سے ڈھٹی نذرکیجاتی ہے۔جلوس کے دوران مختلف شیعہ ماتمی انجمنیں   ماتم کرتی ہیں ۔ اس تاریخی جلوس میں ہزاروں عزادار شرکت کرتے ہیں  ۔ بی بی کے علم کے سامنے پولیس کا چاق و چابند  گھڑسواردستہ بھی موجود  ہوتا ہے


 شہر حیدرآبادمیں بی بی کے علم کے جلوس کی روایت کافی قدیم ہے۔زائد از400سال قبل قطب شاہی دور میں عبداللہ قطب شاہ کی والدہ حیات بخشی بیگم نے اس کا آغاز کیا تھا۔بعد ازاں آصفیہ خاندان کے فرمانرواوں نے نہ صرف اس روایت کو برقراررکھابلکہ بڑے پیمانہ پر گرانٹس کی منظوری بھی عمل میں لائی۔سلاطین آصفیہ کے دور میں بی بی کے علم پرہیروں کی چھ تھیلیاں بھی چڑھائی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان نے بھی عاشورخانوں پر خصوصی توجہ دی۔بڑے پیمانہ پر انتظامات کئے گئے۔نظام ٹرسٹ کے تحت محرم کے تمام انتظامات روبہ عمل لائے گئے۔اس کا سلسلہ آج تک بھی جاری ہے۔دکن میں قطب شاہی حکمرانو ں کے سلسلے میں پانچویں حکمران محمد قُلی قطب شاہ تھے جو ابراہیم قطب شاہ کے فرزند تھے۔ان کی پیدائش گولکنڈے میں ہوئی۔ ان کو اس اعتبار سے تاریخ ساز شخصیت کہا جا سکتا ہے  


جمعرات، 26 جون، 2025

میر انیس مرثیہ گوئ کے اوج کمال تک

 


میر انیس کا تعارف:

سنہ ء 1802 میں لکھنؤ میں  اقامت گزیں  میر مستحسن خلیل  کے گھر ایک  بچہ پیدا ہوا جس کا نام انہوں نے میر ببر علی انیس  رکھا   -میر مستحسن خلیل  خود بھی   شاعر  اہلبیت تھے  اس طرح میر  انیس کو شاعری کی تربیت اپنے گھر میں اپنے والد سے  ہی ملی۔مرثیہ گوئ سے پہلے  انہوں عاشقانہ  بحر میں طبع آزمائ کی جس کا علم ان کے والد  کو ہو گیا اور انہوں نے  بیٹے کو کربلا کے میدان میں شاعری کی تلقین کی جس کی اطاعت میر  انیس کی -میر  انیس کو  فارسی اور عربی زبانوں میں بھی مہارت حاصل  تھی لیکن ان کی اصل شہرت کا ان کی مرثیہ نگاری ہے،انہوں نے رباعیات اور قطعات بھی لکھے۔میر انیس اردو ادب کے ایک عظیم مرثیہ نگار تھے، جنہیں اس صنف میں کمال حاصل تھا۔ انیس نے مرثیہ نگاری کو اس اوج کمال  تک پہنچایا جو کسی دوسرے شاعر کا مقدر نہیں تھا  اسی لئے انہیں اردو ادب میں ایک منفرد اور بلند  مقام حاصل ہے۔ ان کے مرثیوں میں جذبات و احساسات کی عکاسی، کردار نگاری اور منظر کشی کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔


 ان کے مرثیوں میں جذبات کی سچی تصویر کشی، کرداروں کی حقیقی عکاسی اور واقعات کی منظر کشی نے مرثیے کو ایک زندہ اور متاثر کن صنف بنا دیا۔ ان کے مرثیوں میں جذبات کی شدت اور زبان کی سلاست پڑھنے والے کو تو   متاثر کرتی ہے  ساتھ میں مجالس میں موجود عزاداروں کے قلوب کو بھی پگھلا دیتی ہےیہاں تک کہ  کہ پڑھنے والا اور سامع دونوں اپنے آپ کو خود میدان کربلا میں موجود پاتے ہیں۔منظر کشی انیس کے مرثیوں میں واقعات کی منظر کشی اتنی واضح اور تفصیلی ہوتی ہے کہ قاری کے ذہن میں ایک تصویر سی بن جاتی ہے۔ میرانیس کی زبان سادہ اور سلیس ہے لیکن اس میں ایک خاص قسم کی اثر انگیزی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے الفاظ کا چناؤ نہایت احتیاط سے کیا ہے اور ان کے مرثیوں میں زبان کی روانی اور خوبصورتی پڑھنے والے کو مسحور کر دیتی ہے۔



میر ببر علی انیس ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو کی رثائی شاعری کو   معراج کمال تک پہنچا دیا۔ صنف مرثیہ میں انیس کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔ انیس نے اس عام خیال کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے  وہ خدا کے گھر سے رثائی شاعری کا  مرتبہ لے کر آئے اور اپنے اس  مرتبے کو پہچان کر انہوں نے مرثیے کی صنف کو جس بلندی پر پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میر انیس آج بھی اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں

 ایک بندمرثیہ حضرت علی اکبر سے

،،،،،،،،،،،،،

تا دیر تو سنتے رہے تلواروں کی جھنکار​

تکتے تھے پر اکبر نہ نظر آتا تھا زنہار​

لشکر میں ستمگاروں کے یہ غل ہوا اک بار​

برچھی علی اکبر کے کلیجے سے ہوئی پار​

لو سیدِ مظلوم کے دلدار کو مارا​

مارا اسے کیا احمدِ مختار کو مارا​ ۔ 

یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب تک آپ مقامی انداز کے روایات و انسانی جذبات کو بیان میں نہ شامل کریں ۔۔سننے والے اس تاثر کو بعینہ محسوس نہیں کرسکتے خود کو ان واقعات سے متصل نہیں کرپاتے۔۔  مثال یہ ہے کہ میر انیس کے مرثئے کے اشعار میں مہندی،  نیگ ،  سہرا ،  اور شادی کی دیگر  رسومات کا تذکرہ کرنا یا  بہن بھائی کی رخصت پر جذباتی گفتگو ۔۔دکھ کے لمحات کا بیان  بے ساختہ خوشی اور غم کا اظہار کرنا ہے  ۔۔   ان جزئيات کی آمیزش جو خالصتا” برصغیر پاک وہند سے متعلق تھیں ۔مختصر یہ کہ میر انیس اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان کے مرثیے نہ صرف اردو 

ادب کا سرمایہ ہیں بلکہ انسانی جذبات اور احساسات کی سچی تصویر بھی ہیں۔

مرثیہ حضرت علی اصغر سے ایک بند

،،،،،،،،،،،،،،،

اب خون میں ڈوب کے یاقوت بنے گا

جس جھولے میں وہ پلتے ہیں تابوت بنے گا

اِن پھول سے رُخساروں کے کُمہلانے کو دیکھو

اِن سُوکھے ہوئے ہونٹوں کے مُرجھانے کو دیکھو

   میر انیس نےاپنی فکر کے مطابق  سنائے جانے والے واقعات کو  اپنے الفاظ میں ڈھال  کر مرثیہ کو اردو ادب کا ایک عظیم سرمایہ  دیا تاکہ سامع اپنے رشتوں اور جذبات کو ان واقعات میں رکھ کر اس درد کو محسوس کرے جو کربلا میں آلِ محمد پر وارد ہوئے  ۔یوں سمجھئے کہ جہاں امام حسین اپنی بہن سے مخاطب ہیں یا بیٹی سے رخصت طلب ہیں سننے والا خود کو انکی جگہ رکھتے ہوئے ان تمام حادثات و صدمات کو محسوس کرتا ہے ۔اور گریہ کرتا ہے۔  گویا اس وقت تک آپ اس درد کو جذبے کو درک نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کی یاداشت میں محفوظ کوئی اسی جیسا واقعہ یا دکھ آپ کے سامنے نہ آن موجود ہو۔۔میر انیس اس طرح منظر نامہ تحریر کیا کرتے تھے کہ گویا چشم تصور نے خود دیکھا اور محسوس کیا ہو۔ میر انیس کی طرح منظر کشی میں شاید ہی کوئی شاعر ایسی مہارت سے شعر کہنے پر قادر ہو۔وہ اگر فوج کا بیان کرتے ہیں تو اسکی شان و شوکت،  زرہ،  تلوارِ آبدار،  خورد آہنی اس میں موجود زنجیریں یہاں تک کہ سواروں کے قدموں کی دھمک اور قدو قامت بھی سننے والے کے لئے مفصل طور پر بیان کرتے ہیں یوں جیسے تصور میں ہر لفظ بصورت تصویر دیکھا جارہا ہو ۔ میر انیس کا  29 شوال سنہ 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو 72 سال کی عمر میں لکھنؤ میں انتقال ہوا   اور لکھنؤ میں ان کے اپنے مکان میں ہی ان کی تد فین ہوئ۔ لکھنؤ میں ان   کا  عالیشان مقبرہ ہے

 خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را   

  



منگل، 24 جون، 2025

دنیا کی معیشت میں سونے کے زخائر کی اہمیت کیوں ہے



پاکستان  میں گزشتہ چند برسوں  کے دوران سونے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے-   سونے کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں میں اضافہ، افراط زر، کرنسی کی قدر میں کمی اور معاشی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔ان حالات کے نتیجے میں سونا عام آدمی کی قوت خرید سے باہر جا چکا ہے دنیابھر میں سونے کے ذخائر کے حوالے سے امریکا پہلے نمبر پر ہے جبکہ ، بھارت عالمی سطح پر آٹھویں اور ایشیا میں دوسرے نمبر پر ہے، پاکستان عالمی فہرست میں 49 ویں نمبر ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں نے 2024ء میں 1,000 میٹرک ٹن سے زائد سونا خریدا، جو مسلسل تیسرے سال بڑی پیمانے پر خریداری کی عکاسی کرتا ہے اور پچھلی دہائی کی اوسط سالانہ خریداری کے تقریباً دگنا کے برابر ہے۔ مرکزی بینکوں کی جانب سے سونے کی خریداری 2025ء میں بھی جاری رہی، جس میں پولینڈ، بھارت، چین، کرغزستان اور ازبکستان نمایاں رہے۔ ایشیا ایشیاء میں سب سے زیادہ ذخائر چین کے پاس ہیں جبکہ کل 940.92  ٹن سونے کے ساتھ، بھارت جنوبی ایشیا میں سب سے آگے ہے اور اس نے سال 2024 میں 22.54 ٹن کا اضافہ کیا۔


دنیا کے اکثر دریاؤں کی گزرگاہ میں سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں اور ان میں گھلے سونے کے ذرات شامل ہوتے رہتے ہیں۔ ارضیاتی عمل کے تحت اب بھی دنیا میں بہت سے دریا ایسے ہیں جہاں سونے کے ذرات اور بڑے ڈلے بھی ملے ہیں۔انیسویں صدی میں سونے کی تلاش کی ایک دوڑ شروع ہوئی تھی -دنیا میں اب بھی بعض دریائی مقامات ایسے ہیں جہاں عام افراد بھی سوناتلاش کرسکتے ہیں۔ ایسے دریا امریکا میں بہت زیادہ ہیں اور کچھ کناروں پر معمولی فیس کے عوض عام افراد بھی سنہرے خزانے کے لیے اپنی قسمت آزما سکتے ہیں۔ سونے کی تلاش کے لیے اب بھی دنیا کے کئی دریا مشہور ہیں۔ اس فہرست میں امریکا کے کئی دریا شامل ہیں۔رِیڈ گولڈ مائن، شارلوٹ، امریکاامریکا میں واقع ریڈ گولڈ مائن کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ 1799ء میں ایک شوقیہ مہم جو شخص، کونراڈ ریڈ یہاں سے گزررہا تھا کہ اس کی نظر سونے کے ایک ٹکڑے پر پڑی۔ جب اسے اٹھایا گیا تو یہ 17 پاؤنڈ یعنی ساڑھے سات کلو گرام کا ٹکڑا تھا۔


اب بھی لوگ رِیڈ گولڈ مائن کی طرف آتے ہیں اور اپنا نصیب آزماتے ہیں اور ان میں سے بعض خوش نصیبوں کو سونے کے ذرات ملتے رہتے ہیں۔کرو کریک، الاسکا، امریکاالاسکا کے سرد صوبے میں نصف میل کا علاقہ ہے جہاں عام افراد جاتے ہیں اور اپنا نصیب آزماتے ہیں۔ اس ضمن میں باریک چھلنی سے مٹی کو چھان کر دیکھا جاتا ہے اور اس طرح سونے کے چھوٹے اور بڑے ذرات مل جاتے ہیں۔ کروکریک میں پانی کے نیچے بہاؤ والے مقام پر سونا ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں دریائے امریکا، کیلی فورنیا، امریکادریائے امریکا (امریکن ریور) میں سونے کی تلاش کی دوڑ 1848ء میں شروع ہوئی تھی۔ سب سے پہلے دریا کے کنارے کولوما کے مقام پر اس کے آثار ملے۔ دریائے امریکا کے دو مقامات پر عام افراد کو مٹی چھاننے اور سونا ڈھونڈنے کی عام اجازت ہے۔ اگرچہ یہاں پائے جانے والے سونے کی مقدار کا ریکارڈ موجود نہیں لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اب بھی اپنی قسمت آزماتی ہے۔رائے پیچ، نیواڈا، امریکایہ علاقہ ماحوبہ پہاڑیوں کے پاس موجود ہے۔


یہاں پر خاص شکل کے سونے کے ذرات مل سکتے ہیں۔ خوبصورت شکل کے سونے کے ذرات نودرات جمع کرنے والے ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں۔واضح رہے کہ سونے کے ذرات یہاں کی نرم مٹی میں پائے جاتے ہیں۔ لوگ یہاں چھلنی اور دھاتی ڈٹیکٹر سے اپنی قسمت آزماتے ہیں۔ اس جگہ سرکاری اراضی سے سونا اٹھانے اور لے جانے کی اجازت ہے۔دریائے کلنڈائک، یاکون، کینیڈااس مقام میں ایک جگہ بونینزا کریک ہے (جس کا پرانا نام ریبٹ کریک تھا)۔ یہاں پر پہلی مرتبہ 1896ء میں سونا ملا تھا۔ ہاں صرف اسی علاقے سے سونا نکالا جاسکتا ہے جو اراضی وفاق کے زیرِ اہتمام ہوتی ہے۔ اگر کوئی جگہ مقامی افراد یا قبائل کے زیرِ اثر ہے تو پہلے ان سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ مقامی لوگوں کو یہاں فرسٹ نیشن پیپل کہا جاتا ہے۔دریائے 'ایئرو' اوٹاگو، نیوزی لینڈنیوزی لینڈ میں سونے کی تلاش ایک اچھا مشغلہ ہے۔ اس ملک میں بہت جگہ پر سونے کے ذخائر موجود ہیں۔


 نیوزی لینڈ کے ساؤتھ آئی لینڈ میں  ایک چھوٹا سا علاقہ 'ایئروٹاؤن' سونا ڈھونڈنے کی سب سے بہترین جگہ ہے اور دلچسپ بات یہے کہ حکومت عوام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنی قسمت ضرور آزمائیں۔ مقامی افراد کی بڑی تعداد یہاں سونے کی تلاش میں آتی ہے۔دریائے ایلوو، اٹلیاٹلی کے شہر پائیڈمونٹ میں دریائے ایلوومیں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ اگرآپ کو 5 گرام سونا مل گیا ہے تو وہ کسی کو بتائے بغیر آپ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اس سے زائد ملنے والے سونے سے حکومت کو آگاہ کرناہوگا۔گلگت، بلتستان، پاپاکستان میں دریائے گلگت سے سونے کے ذرات ملتے ہیں۔ اس ضمن میں 4000 سال قبل یونانی مؤرخ، ہیروڈوٹس نے بھی اس علاقے میں سونے کے ذرات کا احوال بیان کیا ہے۔ آج بھی یہاں کے لوگ سونے کے ذرات تلاش کرتے ہیں اوربسا اوقات بڑے ذرات بھی مل جاتے ہیں 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اللہ کی یونیورسٹی سے ڈگری ہولڈر انجینئر پرندہ ننھا بیا

       ٍکیا آ پ جانتے ہیں کہ بیا جیسا ننھا پرندہ اپنی زات میں آرکیٹکٹ بھی ہے سول انجینئر بھی ہے اور انتہائ سگھڑ بھی ہے اس کے گھونسلے میں ایک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر