Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعرات، 30 مئی، 2024
یوگی کے استھان پر-میرا افسانہ
بدھ، 29 مئی، 2024
پیر علی محمد راشدی۔روداد چمن
محترم پیر علی محمد راشدی مرحوم ہمارے وطن کے ایک جید سیاسی رہنما گزرے ہیں ان کی ایک تحریر دل کو اچھی لگی جو آپ کے لئے پیش خدمت ہے۔اللہ پاک کا حکم کہ اپنے غصے پر قابو رکھو اور احسان کروانسانوں پر )یہاں لفظ ’’انسان ‘‘ خاص اہمیت کاحامل ہے )۔ہمارے پیغمبر ﷺ کا وہ سلوک جوانہوں نے فتح مکہ کے بعد اپنے پرانے دشمنوں تک سے روا رکھا۔۔ہمارے قائدا عظم کے ارشادات ،پاکستان دستور ساز اسمبلی کی اولین نشست کے سامنے، ان کے الفاظ یہ ہیں۔’ایک حکومت کی اولین ذمہ داری امن وامان کو برقرار رکھناہوتا ہے ،تا کہ مملکت کی طرف سے اپنے باشندوں کی جان ومال اور مذہبی عقائدکی پوری حفاظت کی جاسکے۔ اس تقسیم میں ایک یا دوسری ڈومینین میں اقلیتوں کا باقی رہنا ناگزیر تھا۔ ہمیں اپنی ساری توجہ لوگوں با لخصوص عوام اور غریبوں کی بہبود پر مرکوز کردینی چاہیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ،ذات یا عقیدہ سے ہو۔اس کا کاروبار َمملکت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک مملکت کے شہری اور مساوی شہری ہیں۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس بات کو بطور نصب العین پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اور وقت گزرنے پر آپ دیکھیں گے کہ ہندو ،ہندو نہیں رہیں گے۔ مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی لحاظ سے نہیں، کیونکہ وہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ مملکت کے شہریوں کے طور پر سیاسی لحاظ سے‘‘اس سے وسیع اور بہتر چارٹر کسی نئی ریاست کو پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے تصور میں آنا مشکل تھا۔مگر قائداعظم کا انتقال ہوتے ہی یہاں WITCH HUNTING کی ابتدا ہو گئی، غدار سازی کے کارخانے کھل گئے، جس اپنے پرائے کو سیاست سے بھگانا مقصود تھا، اس پر غدار اور ’’پاکستان دشمن‘‘ کا لیبل چسپاں ہونے لگا۔
جو الفاظ ہم یہاں کے رہنے والوں نے شاید ہی کبھی سنے تھے وہ یکایک مروج ہوگئے۔ ’’غدار‘‘، ’’ملک دشمن‘‘، ’’سبوئیٹر‘‘، ’’کٹرلنگ‘‘، ’’تخریب پسند‘‘ (بھارت کا جاسوس)، یعنی پچھلی عالمی لڑائی کے دوران اتحادیوں نے جو الفاظ اپنے دشمنوں کی تذلیل اور دل آزاری کیلئے گھڑ لئے تھے، وہ ہم نے بغیر سوچے سمجھے اپنی سیاسی لغت اور اخباری زبان میں شامل کرلئے اور ان کا استعمال اس سارے عرصے میں ہمارا روزمرہ کا مقبول ترین مشغلہ بنا رہا (اعتبار نہ آئے تو اس دور کے اخبارات کے فائل اور تقریروں کا ریکارڈ ملاحظہ کرلیجئے)اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ رہی کہ جس شخص کو آج غدار قرار دیا کل اسی کو بشرط ضرورت گلے لگالیا، پھر الٹا کر دیا، پھر سیدھا کر دیا، پھر جیل میں ڈال دیا یا پڑودا کے تحت خارج کر دیا، پھر اس کو کسی نہ کسی بڑے عہدے پر بٹھا دیا!
غرض اکھاڑ پچھاڑ، الٹ پلٹ، باہمی آبروریزی اور دل آزاری کا یہ سلسلہ برابر 1970-71ء تک جاری رہا اور جو وقت اور قوت قوم کے مختلف ’’طفلان گریزپا‘‘ کو درس محبت دے کر، اپنے ساتھ ملاکر قومی تعمیر کے کام میں لگا دینے پر صرف ہوتی تو داخلی انتشار، باہمی تلخیوں اور جمہوریت کی پراگندگی کے وہ مناظر سامنے نہیں آتے جو پاکستان کے دشمنوں کیلئے باعث خوشنودی اور دوستوں کیلئے وجہ دل گرفتگی بنتے رہے۔افسوس یہ ہے کہ کسی نے یہ نہں سوچا کہ اس کے نتائج آگے چل کر قومی اتحاد و تنظیم اور جمہوریت کے حق میں کیا ہونے والے ہیں۔زبان سے تو سب پاکستان کا بھلا چاہتے تھے اور کہتے یہ تھے کہ وہ قوم کو ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ بنانا چاہتے ہیں، مگر عملاً اپنی غیر مال اندیشی سے، اس دیوار میں ایسے شگاف ڈالتے رہے جن کی نہ مرمت ہو سکتی تھی نہ ان کو چھپایا جا سکتا تھا۔ہاتھ کے زخم مندمل ہو سکتے ہیں، زبان کے چرکے ناسور بن جاتے ہیں۔ آدمی جسمانی اذیت بھول سکتا ہے مگر بے آبروئی بھول نہیں سکتا۔ انسان آخر بشریت کے تقاضوں کے سامنے مجبور ہی رہتا ہے۔یہ مشغلہ غدار سازی کا صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہی نہیں رہا، بلکہ بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ گئی۔ مثلاً منتخب عوامی نمائندوں کو بے آبرو اور مجبور کر کے نوکر شاہی کے قدموں میں ڈال دینے، اور اس طرح سے جمہوری سیاست کو ناکام بنانے کے مقصد سے، درون خانہ نوکر شاہی کے ہی ایما پر قائداعظم کے انتقال کے بعد (ان کی زندگی میں اس قسم کے ’’قانون‘‘ بنانے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی) ایک خاص قانون پروڈا بنایا گیا جس کا بظاہر مقصد تو انتظامی بدعنوانیوں کا احتساب تھا مگر نتیجہ کے اعتبار سے اس کا حقیقی مقصد یہ لگتا تھا کہ، منتخب قومی نمائندوں، وزیروں وغیرہ کی داڑھیاں مستقلاً نوکر شاہی کے ہاتھوں میں دے دی جائیں،تا کہ وہ وزیر، اپنی آبرو بچانے کی خاطر نوکر شاہی کے آدمیوں سے اختلاف نہ کر سکیں۔یہ پہلا قدم تھا، اولاً جمہوریت کو نوکر شاہی کا تابع فرمان بنانے کیلئے اور ثانیاً دنیا کے سامنے پاکستانی عوام اور پبلک لائف کو ذلیل و خوار کرنے کیلئے۔ پروڈا کی کارگزاریوں کے ذریعے یہ دکھا کر کہ پاکستان کے عوام بالعموم ایسے آدمیوں کو منتخب کرتے ہیں جو بددیانت اور بدعنوان ہوتے ہیں اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان کو پکڑنے کیلئے ایک خاص قانون بنانے کی ضرورت پیش آ گی ہے۔ایسا ’’قانون‘‘ دنیا میں کہیں نہیں بنا تھا،حالانکہ یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دنیا کی جملہ جمہورتیں (بھارت سمیت) فرشتوں پر مشتمل تھیں اور ان کے خلاف کبھی بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں،اور یہ کیفیت محض پاکستان میں رونما ہوئی تھی کہ پاکستاان بنتے ہی ایک سال کے اندر اندر اکثر سیاست دان بدعنوان بن گئے تھے جن کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک خاص قانون کی ضرورت محسوس ہو گئی تھی۔ کون سی جمہوریت میں بدعنوانی کی شکایتیں نہیں ہوئیں؟ امریکہ کے کتنے صدور کے خلاف بدعنوانی کے الزامات اٹھے،(ایک پوری کتاب ہے اس مضمون پر)۔ برطانیہ کے وزیراعظم لائڈ جارج پر الزام آیا کہ اس نے القاب بیچے ہیں، وہیں مارکونی کمپنی کے شیئرز پر بڑے ہنگامے ہوتے رہے، کرچل ڈائون کے پلاٹوں میں ہیرا پھیری ہوئی اور ایک وزیر زیر عتاب آیا، جنوبی امریکہ تو سرتاپا مجسمہ اسکینڈل بنا رہا ہے،مگر کہیں ’’پروڈا‘‘ جیسا ’’قانون‘‘ نہیں بنا،
پیر، 27 مئی، 2024
ہمارے سفارت کار کس مرض کی دوا ہیں
دو برس پہلے ہمارے بچے یوکرائن میں رہائ کے لئے دہائیاں دے رہے تھے اور ہمارے سفیر بھنگ پی کر سو رہے تھے -اور پھر آج کے حاضر میں کر غیزستان میں وہی صورتحال ہے
روس یوکرین جنگ: روس کے زیرِ قبضہ سومی شہر جہاں پاکستانی طلبا کا ایک گروہ محصور ہے
-منزہ انوار-بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آ باد میں یہ بی بی سی کی رپورٹ جوں کی توں پیش کر رہی ہوں
26 فروری 2022 کی رپورٹ-بلال احمد، ثنا اللہ اور مصباح اللہ۔ ان طلبا کا کہنا ہے کہ آج تیسرا دن ہے وہ دن میں پانچ پانچ چھ چھ مرتبہ سفارت خانے سے رابطہ کرکے مدد مانگ رہے مگر کوئی رسپانس نہیں مل رہا’شہر پر دو دن سے روسی فوجیوں کا قبضہ ہو چکا ہے، ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیا اور پیسے ختم ہو رہے ہیں۔۔۔ہم 15 طلبا یہاں پھنسے ہوئے ہیں، ایک دوست نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے روسی فوجیوں نے مارا اور وہ واپس آ گیا۔۔۔ ہم نے یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے مدد کے لیے فون کیا تو اہلکار نے پوچھا ’سومی کہاں ہے‘ ہم تو دنگ رہ گئے کہ کیا آپ واقعی سفارتخانے میں کام کرتے ہیں۔۔۔‘روس کے حملے کے بعد یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستانی طلبا کی اکثریت کو ملک سے نکلنے میں مدد فراہم کی جا رہی ہے اور اب صرف چند ہی طلبا ایسے ہیں جو یوکرین میں موجود ہیں لیکن پاکستانی طلبا کا ایک گروہ یوکرین کے ایسے شہر میں پھنس چکا ہے جہاں روس کی فوج قبضہ کر چکی ہے۔یوکرین پر روسی حملے کے تیسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر صوابی سے تعلق رکھنے والے ثنا اللہ اور ان کے 14 پاکستانی ساتھی روسی سرحد سے 40-50 کلومیٹر پر واقع سومی شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔
یہ سب افراد سومی سٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں -ان طلبا نے مدد کے لیے یوکرین میں واقع پاکستانی سفارتخانے فون کیا تو پہلے تو بڑیہ مشکل سے فون ریسیو کیا اور پھرانھیں کہا گیا کہ وہ لییو یا ترنوپل شہر پہنچیں (یہ دونوں شہر سومی سے بالترتیب 900 اور 800 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں)۔دوسری جانب یوکرین میں موجود پاکستانی سفیر میجر جنرل (ریٹائرڈ) نوئیل اسرائیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ انھوں نے سومی میں پھنسے ان طلبا سے بات کی ہے مگر سومی روسی فوجوں کے قبضے میں ہے اور ہم اپنے ذرائع سے انھیں وہاں سے نہیں نکال سکتے۔ تاہم طلبا ایسی کسی بھی گفتگو کی تردید کرتے ہیں۔پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے وزارتِ خارجہ کے ذریعے ماسکو میں سفارتخانے سے درخواست کی ہے کہ وہ روسی فوجوں سے کہیں کہ ان طلبا کی حفاظت کی جائے اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے ہم انھیں وہاں سے نکال لیں گے۔’روسی فوجیں ہمیں شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہیں‘
ثنا اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلی بات تو یہ کہ روسی فوجیں ہمیں شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ دوسرا لییو یہاں س90 کلومیٹر جبکہ ترنوپل تقریباً 800 کلومیٹر دور ہے۔ ہمارے پاس نہ تو گاڑی ہے نہ شہر میں پٹرول مل رہا ہے اور نہ یہاں سے کوئی بس یا ٹرین چل رہی ہے۔۔۔ ہر طرف جنگ جاری ہے، ہم اپنے طور پر یہاں سے ان دونوں شہروں تک کیسے جائیں۔‘یہ 15 طالبعلم چاہتے ہیں کہ سفارتخانہ لییو یا ترنوپل پہنچنے کے لیے روسی فوج سے ان کے لیے اجازت نامہ لے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرے یا کسی اور راستے سے انھیں نکالنے کا انتطام کرے مگر ان کے مطابق سفارتخانہ مصر ہے کہ وہ خود اپنے طور پر لییو یا ترنوپل پہنچیں جو فی الحال ناممکن اور خطرناک نظر آتا ہے۔
’یوکرین سے پاکستانی طلبا کی اکثریت کو نکالا جا چکا ہے‘یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اب تک تقریباً 70 طلبہ کو یوکرین کے شہر خرخیو سے بحفاظت نکال لیا گیا ہے۔ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جاری حملوں کا زور بھی اسی شہر میں ہے۔پاکستانی سفیر ڈاکٹر نوئیل اسرائیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں 3000 پاکستانی طلبہ تھے جن میں سے زیادہ تر کو حملوں کی زد میں آئے دو شہروں خرخیو اور کیئو سے نکال لیا گیا ہے۔ ان طلبہ کو دو سے تین گروپ میں پولینڈ بھیجا جائے گا جہاں سے پاکستانی سفارتخانہ انھیں وطن واپس بھیجے گااس سے پہلے یوکرین کے شہر ترنوپل پہنچنے والے 35 طلبہ کو بھی پولینڈ کے ذریعے پاکستان واپس پہنچایا جائے گا۔ ڈاکٹر نویئل کے مطابق اس وقت فائرنگ کی آواز ہر دوسرے منٹ سنائی دے رہی ہے جبکہ ملک کے کئی شہروں میں حملے جاری ہیں۔پاکستانی سفارتخانے نے یوکرین میں موجود طلبہ کو مغربی یوکرین کی طرف جانے کا کہا ہے جو اس وقت سب سے محفوظ ترین خط بتایا جارہا ہے۔
یاد رہے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی طرح انڈین حکومت بھی اپنے شہریوں کو یوکرین سے نکالنے میں مصروف ہے اور اب تک 470 انڈین طلبا کو یوکرین سے نکال کر رومانیہ کی سرحد پر پہنچایا جا چکا ہے۔ انڈین طلبا کو پولینڈ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے پولینڈ - یوکرین کی سرحد پر بھی تیاریاں تیز کر دی گئی ہیں۔سفارتخانے نے کہا ’آپ پڑھائی پر توجہ دیں‘ثنا اللہ بتاتے ہیں کہ چونکہ ان کا شہر بالکل سرحد کے قریب ہے اسی لیے آج سے تقریباً ایک ہفتہ قبل انھوں نے سفارتخانے کو مطلع کیا تھا کہ ’یہاں حالات بہت خراب ہو رہے ہیں اور ہم یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، بتائیں ہم کیا کریں؟ جس پر سفارتخانے نے پہلے تو یہ پوچھا کہ ’سومی ہے کہاں؟‘ ہم تو دنگ رہ گئے اور ان سے پوچھا ’کیا آپ واقعی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں؟‘وہ بتاتے ہیں کہ ان کا میڈیکل کے تیسرے سال کا امتحان ہونے والا تھا جس کے باعث یونیورسٹی نے انھیں ہفتہ قبل نکلنے کی اجازت نہیں دی، انھوں نے سفارتخانے سے یہ کہہ کر مدد مانگی کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کریں کیونکہ انھیں خدشہ تھا سب سے پہلے اسی شہر پر قبضہ ہو گا جس پر سفارتخانے نے کہا ’آپ پڑھائی پر توجہ دیں‘۔‘ان طلبا کے مطابق جمعرات کو جب حالات مزید خراب ہوئے اور شہر پر روسیوں کا قبضہ ہو گیا تو انھوں نے ایک بار پھر سفارتخانے سے رابطہ کیا جس پر انھیں کہا گیا کہ ’آپ خود وہاں سے نکلیں پھر ہم کچھ کرتے ہیں -زرا سوچیئے کیا سفارت کاروں کو یہی طریقہ کا ہونا چاہئے جو ہمارے ان مہربانوں کا ہے
طلعت حسین -خدا حافظ
زندگی کے پچاس برسوں پر محیط فن اداکاری کے ایک دور کا نام طلعت حسین ہے جو پاکستان کی نسل نو کے لئے اپنے نقش قدم چھوڑ کر اپنے مالک کی بارگاہ میں حاضری کے لئے آج جا چکا ہے -وہ کچھ عرصے سے علیل تھے -اب آئیے ان کے فن پر کچھ بات کتے ہیں -ان کا نام ہر ڈرامہ کی کامیابی کی سند ہوا کرتا تھا -لیکن یہ مقام انہوں نے اپنے خون جگر کی قیمت دے کر حاصل کیا تھا -وہ بتاتے ہیں کہ وہ ملک سے باہر ویٹر کا کام کرتے تھے ،کیونکہ اپنی تعلیم کی تکمیل کے لئے ان کو جس اضافی رقم کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس نہیں ہوتی تھی اس لئے انہوں نے ایک جگہ ویٹر کا کام کرنا شروع کر دیا -اس بارے میں وہ کہتے ہیں ’’مشکل اُس وقت ہوتی تھی جب کوئی پاکستانی فیملی ہوٹل میں کھانا کھانے آتی۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتی۔ مجھے آرڈر دیتے ہوئے اُنہیں جھجک ہوتی۔ میں ان سے کہتا کہ وہ بے چین نہ ہوں اور اطمینان سے اپنا آرڈر لکھوا دیں۔ اس کے بعد صورتِ حال اُس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی جب اُنہیں بل کے ساتھ ٹپ دینا ہوتی۔ پاکستانی مجھے ٹپ دیتے ہوئے شرماتے تھے۔‘‘طلعت حسین بتاتے ہیں کہ میں نے انگلش لٹریچر میں گریجو یشن کیا۔پھر لندن چلا گیا اور تھیٹر آرٹس میں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے ٹریننگ حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تھیٹر آرٹس پڑھنے کے ساتھ مجھے بی بی سی پر کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ یہ اس لحاظ سے یادگار کہہ سکتے ہیں کہ میں نے نہایت پروفیشنل ماحول میں کام کیا اور بہت کچھ سیکھا اور پھر اس کا فائدہ میں نے پاکستان میں آکر خوب اُٹھایا۔ طلعت حسین نے لندن میں ریڈیو پر کام کے دوران یہ کبھی نہیں سوچا تھاکہ کریئر بھی یہیں بنالیا جائے۔ان کاٹارگٹ تھیٹر آرٹس میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آنا تھا۔ اس لئے جونہی تعلیم مکمل ہوئی وطن آگئے۔ وہ وہاں کام کررہے تھے، مواقع مل رہے تھے چاہتے تو وہیں رُک جاتے ۔لیکن انہیں وطن کی محبت واپس اپنی مٹی پر لے آئ
اُنہوں نے نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائےبچپن میں طلعت حسین کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔والد نے ہارمونیم بھی لا کر دیالیکن والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔یوں اُنہیں یہ شوق ترک کرنا پڑا۔پھر وہ پینٹنگ کی طرف راغب ہوئے۔اگر ایک مقابلے میں ہار نہ جاتے تو شاید پینٹر ہوتے۔والد کی یہ خواہش بھی تھی کی وہ لٹریچر خوب پڑھیں۔وہ اُنہیں انگریزی ناول لا کر دیتے بس یہیں سے اُنہیں پڑھنے کا شوق ہوا۔وہ زیادہ تر پیسے کتابوں کی خریداری میں خرچ کرتے۔طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد ہے اور انہوں نے فنون لطیفہ نصف صدی دی ہےیعنی انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اداکاری، صداکاری اور فنون لطیفہ کو دی۔طلعت حسین نے 1970 سے قبل کم عمری میں ہی اداکاری شروع کردی تھی لیکن انہیں 1970 کے بعد شہرت ملنا شروع ہوئی۔لندن سے تعلیم حاصل کرنے والے طلعت حسین نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغا ز کیا اور انہوں نے برطانوی ٹی وی سمیت بالی وڈ فلموں میں بھی کام کیا۔
طلعت حسین نے ٹیلی ویژن کے سیکڑوں ڈراموں میں ایسی لازوال اداکاری کی ہے کہ ان کے نام بتانا بھی بہت مشکل ہے تاہم وہ جس ڈرامے میں نظر آئے ، ان کی جاندار اداکاری کی وجہ سے وہ ڈرامہ ہٹ ہوگیا-طلعت حسین نے زندگی کا نہایت مشکل دور بھی دیکھا ، وہ اداکاری کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن میں تھے، اُنہیں ایک نشریاتی ادارے میں تو کام ملنا شروع ہو گیا تھا لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کام سے گزر بسر ممکن نہیں تھی۔اس لئے ویٹر کی جزوقتی ملازمت بھی کی ۔وہ اداکار کے طور پر ایک پہچان بنا چکے تھے اِس لئے یہ کام بہت مشکل ہوتا تھا۔طلعت حسین وہ شخصیت ہیں جو اپنی ذات میں فن کی یونیورسٹی ہیں۔ اُنہوں نے نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ گلوکاری اور پیٹنگ میں دلچسپی رکھنے کے باوجود اداکاری کے شعبے میں نام اور مقام بنایا اور کئی اہم دستاویزی فلموں اور کمرشلز میں پس پردہ آواز کا جادو جگایا۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طلعت حسین کے کریئر کی ابتدا بچوں کے ایک رسالہ میں مضامین لکھنے سے ہوئی۔ طلعت حسین دو مرتبہ قرآن پاک کا ترجمہ ریکارڈ کرانے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں۔ بہت کم فنکار ایسے ہوتے ہیں جن کو تلفظ کی ادائی پر عبور حاصل ہو اور طلعت حسین کا شمار ایسے ہی فنکاروں میں ہوتا ہے جو لفظوں کی ادائی میں بھر پور صوتی تاثرات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ طلعت حسین اداکاری پر ہی نہیں ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں اور ہر وقت ان شعبوں کی قدیم و جدید کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔طلعت حسین بلا شبہ وہ فنکار ہیں جوپاکستان کی پہچان ہیں اور انہوں نے عوام کے دلوں پہ اپنی اداکاری کے وہ نقش ثبت کئے ہیں کہ انہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ارجمند، آنسو،طارق بن زیاد ،یس پردیس، عید کا جوڑ،افنون لطیفہ، ہوائیں،اک نئے موڑ پہ، پرچھائیاں،دی کاسل ،ایک امید،ٹائپسٹ، انسان اور آدمی، رابطہ، نائٹ کانسٹیبل اور درد کا شجر وغیرہ ان کے مقبول ڈرامے ہیں۔انہوں نے متعدد فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں چراغ جلتا رہا گمنام، انسان اور آدمی، جناح، لاج قربانی، سوتن کی بیٹی(انڈین) ،اشارہ ،آشنا ،بندگی اورمحبت مر نہیں سکتی وغیرہ شامل ہیں۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ بچپن میں طلعت حسین کو گلوکار بننے کا شوق تھا۔والد نے ہارمونیم بھی لا کر دیالیکن والدہ کو یہ پسند نہیں تھا۔یوں اُنہیں یہ شوق ترک کرنا پڑا۔پھر وہ پینٹنگ کی طرف راغب ہوئے۔اگر ایک مقابلے میں ہار نہ جاتے تو شاید آج پینٹر ہوتے۔والد صاحب کی یہ خواہش بھی تھی کی وہ لٹریچر خوب پڑھیں۔وہ انہیں انگریزی ناول لا کر دیتے بس یہیں سے انہیں پڑھنے کا شوق ہوا۔وہ زیادہ تر پیسے کتابوں کی خریداری میں خرچ کرتے۔درحقیقت طلعت حسین کے والدین پڑھے لکھے اور براڈ مائنڈڈ لوگ تھے۔والد تقسیمِ ہندسے پہلے سرکاری ملازم تھے اور والدہ ریڈیو پر شوقیہ پروگرام کیا کرتی تھیں۔ ا ن کے خاندان کے لوگ دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔
اتوار، 26 مئی، 2024
امام جعفر صادق علیہ السلام
۔ لاکھوں درود وسلام حضرت محمّد نبئ آخر الزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اور آپ کے ائمّہ ہدیٰ پر کہ جن پر خدائے پاک خود بھی درودبھیجتا ہے ،پروردگارِ عالم نے اس ارض البلاد پر انسانوں کی رہبری کے واسطے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین مبعوث کئے اور ختمی مرتبت سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم کی آمدِ مبارک کے ساتھ سلسلہء نبوّت کو موقوف کردیالیکن شانِ خداوندی اور کرمِ الٰہی کہ یہ شرف صرف خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو عطا کیا کہ نسلِ ابراہیم علیہ السّلام شروع ہونےوالا یہ سلسلہء ہدائت افضل الانیبیاء کی نسلِ پاک و مطّہر تک آیا اورپھرنبوّت کے اسی سلسلے سے ہی امامت کے دائماً روشن مینارے صحنِ امامت میں نصب کر دئے-یہ ائمّہ ء ہدیٰ اپنے اپنے وقت کے ظلم و جور سے بھرے ہوئے معاشرے میں زہدو تقویٰ ایثارِ کریمانہ کے اور پیکرِ صبر و استقامت کے مجسّم علامت ونمونہ تھے
امام باقر علیہ السّلام کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند امام ششّم حضرت امام جعفرِ صادق علیہ السّلام مسندِ اما مت پر جلوہ افروز ہوئے اما م جعفر صادق علیہ السّلام، حضرت محمد باقر کے فرزند اور اہل تشیع میں حضرت علی علیہ السّلام سے شروع ہونے والے سلسلۂ امامت کے چھٹے امام تھے۔ تمام شیعان علی کے افراداپنے نام کے ساتھ جعفری آپ کی نسبت سے لگاتے ہیں۔ان کا نام جعفر، کنیت ابو عبداللہ اور لقب صادق تھا۔ آپ امام محمد باقرعلیہ السلام کے بیٹے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اورشہید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے پرپوتے تھے۔ سلسلۂ عصمت کی آٹھویں منزل اور آئمۂ اہلبیت علیہم السّلام میں سے چھٹےامام تھے آپ کی والدہ حضرت محمد ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں جن کی والدہ قاسم ابن محمد رضی اللہ عنہ مدینہ کے سات فقہا میں سے تھے۔83ھ میں 17 ربیع الاول کو آپ کی ولادت ہوئی۔ اس وقت آپ کے دادا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بھی زندہ تھے۔ آپ کے والدحضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی۔ خاندان آلِ محمد میں اس اضافہ کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔ا
س دور میں بنوامیّہ کے اقتدار کا کالا سورج غروب ہو کر ایک اور ظلمتوں کی تاریک رات اپنے جلو میں لے کرسیاہ سورج بنو عبّاس کے نام سے طلوع ہو رہا تھا یہ دوربھی حسبِ سابق اما م ِوقت کا دشمن تھا لیکن اس وقت کی ایک اچھّی بات یہ ہوئ کہ بنو امیّہ اوربنو عبّاس کے انتقالِ اقتدار اور حصولِ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں امام ِ وقت حضرت جعفرِ صادق علیہ السّلام کی جانب ان کودیکھنے کا موقع نہیں مل سکا اور اس طرح امام جعفرِ صادق علیہ السّلام کواپنے دیگر آبائے طاہرین کی نسبت فروغِ علم کے لئے کام کرنے کابہتر موقع میسّر آیا اور اسی دور میں آپ علیہ السّلام نے اپنی مشہورِ زمانہ جعفریہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھ کر اس کو ایک ایسے درخشان مرکز علم کا درجہ دےدیا جس کی روشنی تا قیامت ماند نہیں ہو سکتی ہے
۔ لاکھوں درود وسلام حضرت محمّد نبئ آخر الزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اور آپ کے ائمّہ ہدیٰ پر کہ جن پر خدائے پاک خود بھی درودبھیجتا ہے ،پروردگارِ عالم نے اس ارض البلاد پر انسانوں کی رہبری کے واسطے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین مبعوث کئے اور ختمی مرتبت سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ والہ وسلّم کی آمدِ مبارک کے ساتھ سلسلہء نبوّت کو موقوف کردیالیکن شانِ خداوندی اور کرمِ الٰہی کہ یہ شرف صرف خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو عطا کیا کہ نسلِ ابراہیم علیہ السّلام شروع ہونےوالا یہ سلسلہء ہدائت افضل الانیبیاء کی نسلِ پاک و مطّہر تک آیا اورپھرنبوّت کے اسی سلسلے سے ہی امامت کے دائماً روشن مینارے صحنِ امامت میں نصب کر دئے -یہ ائمّہ ء ہدیٰ اپنے اپنے وقت کے ظلم و جور سے بھرے ہوئے معاشرے میں زہدو تقویٰ ایثارِ کریمانہ کے اور پیکرِ صبر استقام کے مجسّم علامت ونمونہ تھے ،تمام کے تمام گیارہ امامینِ کریمین کو انتہائ نامساعد صورتحال میں زندگی بسر کرنے کے حالات کا سامنا رہا
جبکہ بارہویں اما م علیہ السلام کوپردہء غیبت میں نہائت صغر سنی میں بلا لیا گیارہ اماموں کی حیات طیّبہ کا مطالعہ کرتے ہوئے اما مِ مظلوم سیّداشّہدا نے کارزارِ کربلامیں شہادت کا مرتبہ پایا اور باقی ائمّہ طاہرین نے اپنے اپنے وقت کےستمگروں کے ہاتھوں شہادت پائ ان ائمّہ طاہرین میں بالخصوص چوتھے اما م سیّدِ سجّاد جوکائنات کے سانحہء عظیم معرکہء کربلا سے گزر کر مدینے تشریف لائے تھے آپ علیہ السّلام کو اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی دشمنانِ اسلا م چین سے نہیں بیٹھنے دیتے تھے ،،لیکن آفرین ہے -میرے غریب امام علیہ السّلام پرکہ اتنے کڑے وقتوں میں بھی آپ نے دعاؤں کے زریعے اپنا علمی سرمایہ مدینے کے عوام تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا،آپ کے وقت کی سب سے بڑی فتنہ انگیزی یہ تھی کہ آئے دن امامت کے مرتبہ پر کسی بھی دینی پیشواکو تخت شاہی پر اما م بنا کر متعارف کروا دیا جاتا تھا -اس طرح چار فقہ وجود میں آگئے -آپ علیہ السلام نے شیعان علی علیہ السلام کی جداگانہ شناخت کی حفاظت کے لئے شیعہ قوم کے ہر فرد کو جعفری کی نسبت سے جوڑ دیا
بدھ، 22 مئی، 2024
بھنبھور کی قدیم مسجد
کھدائی شروع تو ہوئی مگر بات کچھ زیادہ آگے نہ بڑھ سکی اور کچھ عرصے بعد یہ کھدائی روک دی گئی۔ پاکستان بننے کے بعد سنہ 1951 میں محکمہ آثار قدیمہ کے ایک افسر لیزلی الکوک کی نگرانی میں یہ کام دوبارہ شروع ہوا۔الکوک صاحب نے سرسری کھدائیاں کیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں اسلامی زمانے سے پہلے کے کوئی آثار موجود نہیں و یہاں کی کسی چیز سے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ وہی شہر دیبل ہے جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا۔
سنہ 1957 میں اس کام کی نگرانی پاکستان کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ایف اے خان کے سپرد کر دی گئی جنھوں نے سنہ 1965 تک اس شہر کی کھدائی کا کام سرانجام دیا۔ ان کھدائیوں کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے بتایا کہ یہ شہر تقریباً دو ہزار سال قدیم ہے اور پہلی صدی عیسوی سے 13ویں صدی عیسوی تک اپنے عروج پر تھا۔سنہ 1966 میں شائع ہونے والے پاکستان محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ کے مطابق انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ وہی بندرگاہ تھی جہاں سکندر اعظم نے اپنی فوجوں کو تقسیم کیا تھا۔تازہ کھدائیوں کے بعد محققین نے دعویٰ کیا کہ لیزلی الکوک کا خیال غلط ہے اور یہ وہی شہر ہے جو عرب میں بنو امیہ کے دور حکومت کے وقت ہندوستان میں دیبل کے نام سے آباد تھا اور اس وقت سندھ کا تجارتی مرکز تھا۔ یہاں سے تاجروں کے قافلے سمندر اور خشکی کے راستے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کرتے تھے۔ یہی وہ شہر تھا جسے محمد بن قاسم نے 712 میں فتح کیا تھا۔رفتہ رفتہ اس شہر کی قدامت اور تہذیب کے مختلف پہلو سامنے آتے رہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس شہر کے وجود کی نشاندہی ہوتی رہی۔ کچھ محققین نے بتایا کہ یہی وہ شہر ہے جو محبت کی مشہور لوک داستان سسی پنوں کا مرکز تھا۔
محبت کی یہ داستان شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی کتاب ’شاہ جو رسالو‘ میں رقم کی اور یوں اسے لازوال بنا دیا۔ سسی پنوں کی داستان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنبھور ایک بہت ہی خوشحال اور بڑا شہر تھا۔ پنوں کیچ مکران کا شہزادہ تھا اور وہ تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ بنبھور آیا تھا۔دو مارچ 1958 کو بنبھور میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا آغاز ہوا۔ ایف اے خان کو ان کھنڈرات میں دو اہم تعمیرات کا سراغ ملا، ایک تو مضبوط قلعہ بند شہر پناہ جو مشرق سے مغرب کی طرف 200 فٹ چوڑی اور شمال سے مغرب کی طرف 1200 فٹ طویل تھی۔محکمہ آثار قدیمہ کے کتابچے ’بنبھور‘ میں درج تفصیلات کے مطابق اس شہر پناہ کی تعمیر کا سراغ سنہ 1958 میں ملا، دو برس بعد 17 جون 1960 کو محکمہ آثار قدیمہ کو انھی کھنڈرات میں ایک مسجد کے آثار ملے جو محکمہ آثار قدیمہ کے بیان کے مطابق برصغیر میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد کے آثار تھے۔مسجد سے برآمد ہونے والے کتبوں پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109 ھجری (سنہ 727) میں تعمیر ہوئی تھیاس مسجد کے ساتھ ہی کچھ کتبے بھی برآمد ہوئے جن پر خط کوفی میں تحریر کی گئی ایک عبارت کے مطابق یہ مسجد 109 ھجری (سنہ 727) میں تعمیر ہوئی تھی۔
اس تحریر کی برآمدگی کے بعد ماہرین آثار قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مسجد برصغیر میں تعمیر ہونے والی اولین مسجد تھی جو محمد بن قاسم کے ساتھیوں نے تعمیر کروائی تھی۔ تاہم چیرامن کے مقام پر سنہ 628 میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے دعوے کے بعد بنبھور کی یہ مسجد برصغیر کی پہلی مسجد تو نہیں کہلائی جا سکتی البتہ اسے موجودہ پاکستان کی سرزمین پر تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کے اس دعوے کو مشہور مؤرخ اے بی راجپوت نے اپنی کتاب ’آرکیٹیکچر اِن پاکستان‘ میں بھی تسلیم کیا اور محکمہ آثار قدیمہ نے اپنی شائع کردہ مطبوعات خصوصاً ’بنبھور‘ نامی کتابچے میں مزید سند عطا کی۔بنبھور کے آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والی اس پہلی مسجد کے آثار کی برآمدگی 23 ستمبر 1962 کو مکمل ہوئی۔ بتایا گیا کہ یہ مسجد کم و بیش مربع تھی۔ اس مسجد کا طول 122 فٹ اور عرض 120 فٹ تھا۔ اس کے چاروں طرف چونے کے پتھر کی اینٹوں کی ایک ٹھوس دیوار تھی جس کی موٹائی تین سے چار فٹ تھی۔ مسجد کے صحن کا طول 75 فٹ اور عرض 58 فٹ تھا، یہ صحن اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔
مسجد کے تین اطراف میں دالان اور غلام گردشیں تھیں، جن کی چھت لکڑی کے قطار در قطار ستونوں پر قائم تھی۔ کھدائیوں سے ملنے والے آثار سے معلوم ہوا کہ یہ دالان چھوٹے چھوٹے حجروں میں تقسیم تھے اور ہر حجرہ نو سے گیارہ فٹ بڑا تھا۔مسجد کی مغربی جانب ایک وسیع ایوان تھا جس کی چھت 33 ستونوں پر قائم تھی۔ مسجد میں وضو کرنے کا ایک چبوترا بھی تھا جس پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔یہ بھی اندازہ ہوا کہ آخری زمانے میں یہ چبوترا گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا -
یہ بھی اندازہ ہوا کہ آخری زمانے میں یہ چبوترا گودام کے طور پر استعمال ہوتا تھا جس پر مٹی کے چراغ رکھے جاتے تھے۔ فرش پر ان چراغوں کا ایک ڈھیر بھی برآمد ہوا۔ مسجد کے دو بڑے دروازے تھے جو مشرقی اور شمالی سمت میں واقع تھے اور ایک چھوٹا دروازہ مغرب میں تھا جس کے ساتھ سیڑھیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔مشرقی دروازہ مسجد کا صدر دروازہ تھا جو ساڑھے پانچ فٹ چوڑا تھا۔ اس دروازے کے قریب ایک بڑے کتبے کے ٹکڑے بھی ملے جن پر خط کوفی میں تحریریں موجود ہیں۔یہ صدر دروازہ خاصی بری حالت میں ملا تاہم مسجد کا شمالی دروازہ نسبتاً اچھی حالت میں تھا۔ یہ دروازہ سات فٹ چوڑا تھا اور اس کے ساتھ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ اس دروازے کے اندرونی حصے میں بھی چوکھٹے اور دہلیز کے نشانات موجود تھے۔
ان چوکھٹوں پر لگی ہوئی لکڑی گل چکی تھی۔ اس مسجد میں کوئی محراب نہیں تھی اوراس کا نقشہ کوفہ اور واسط کی مساجد سے مشابہہ تھا اور انھی کا تسلسل لگتا تھا۔ کوفہ اور واسط کی مساجد بالترتیب 670 اور 702 میں تعمیر ہوئی تھیں اور ان میں بھی کوئی محراب نہیں تھی۔ بنبھور میں برآمد ہونے والی یہ مسجد تیرہویں صدی عیسوی تک قائم رہی۔بنبھور کی اس مسجد سے خط کوفی میں لکھے ہوئے کئی کتبات بھی برآمد ہوئے جو پتھروں پر کندہ تھے۔ یہ کتبات فن خطاطی کا بہت عمدہ نمونہ ہیں۔ یہ کتبات 109 ہجری (سنہ 727) اور 294 ہجری (سنہ 906) کے دوران تحریر کیے گئے تھے۔س مسجد کے شمال کی جانب ایک نہایت وسیع عمارت کے آثار بھی پائے گئے جس کے متعلق گمان کیا گیا کہ یا تو یہ مسجد سے ملحقہ مدرسہ ہے یا سرکاری نظم و نسق کی کوئی عمارت۔ اس عمارت کا دروازہ بہت شاندار تھا جو مسجد کے شمالی دروازے کے بالکل سامنے کھلتا تھا۔بنبھور کے آثار کی کھدائی مکمل ہونے کے بعد 14 مئی 1967 کو نیشنل بینک آف پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر ممتاز حسن نے اس مقام پر ایک تاریخی عجائب گھر کا افتتاح کیا جہاں وہ نوادرات رکھے گئے ہیں جو بنبھور کی کھدائی کے دوران برآمد ہوئے تھے اور بنبھور کی تاریخ کا پتا دیتے ہیں۔جس پر مٹی کے چراغ رکھے جاتے تھے۔ فرش پر ان چراغوں کا ایک ڈھیر بھی برآمد ہوا۔ مسجد کے دو بڑے دروازے تھے جو مشرقی
پیر علی محمد راشدی
پیر علی محمد راشدی سندھ دھرتی کے وہ بلند کردار فرزند ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد جمہوریت کا جنازہ اپنی آنکھوں سے دفن ہوتے دیکھا اور وطن عزیز کے وہ واحد سیاست دان تھے جو کبھی حاکمان وقت کی نظر میں معتوب نہیں ہوئے نہ ان کے خلاف کوئ کیس داخل ہوا، نہ ایبڈو قانون کی زد میں آئے اور نہ کبھی جیل میں گئے۔وہ قیام پاکستان کے ہراول دستے کے کارکن تھے اور رہے لیکن جب قیام پاکستان کے بعد وطن کی گردن پر خونیں چمگادڑوں کو خون چوستے دیکھا تو اپنا دامن بچا کر الگ ہوگئے۔ قیام پاکستان کے لیے ان کردار اہم اور مثالی رہا۔ علی محمد راشدی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں ان کے شانہ بشانہ رہے۔ خود قائد اعظم ان کے بہت معترف تھے۔ بعض موقعوں پر دونوں کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ اسی سلسلے میں پیر علی محمد نے ایک سال تک لاہور میں قیام بھی کیاتھا۔
انھوں نے 1938ء میں کراچی میں مسلم لیگ کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے بڑے مسلم لیگی رہنما شریک تھے۔ اسی اجلاس میں شیخ عبد المجید سندھی نے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد قائد اعظم اور حاجی عبداللہ ہارون کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی اور علی محمد راشدی کو اس کمیٹی کا سیکریٹری بنایا گیا۔ بعد ازاں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے علی محمد راشدی کو لیگ کی فارن کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صوبائی سیکریٹری بھی بنے۔ -میں نے اس مضمون میں گوگل حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو علی محمد راشدی قومی یکجہتی کا مکمل نمونہ تھے۔ وہ سچے محب وطن اور پکے مسلم لیگی تھے
علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ادبی اور سیاسی زندگی کا آغاز بیک وقت کیا۔ سیاسی زندگی کی ابتدا انھوں نے 1924ء سے کی۔ جب انھوں نے حیدر آباد میں سندھی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی وہاں ان کی ملاقات جی ایم سید سے ہوئی۔ بعد میں انھوں نے انجمن سادات راشدیہ قائم کی اوراس کی ترجمانی کے لیے الراشد رسالہ جاری کیا۔ اس کے بعد وہ سندھ کے مسلمانوں کی واحد سیاسی تنظیم سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے رکن بن گئے۔ اس تنظیم کے صدر سر شاہنواز بھٹو اور سیکریٹری خان بہادر ولی محمد حسن تھے۔ 1927ء تک علی محمد راشدی اس تنظیم کے سیکریٹری بنے رہے۔ 1929ء میں سندھ کی بمبئی سے علاحدگی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور 1936ء تک، سندھ کی علاحدگی تک اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔
1933ء میں لاڑکانہ ڈسٹرک اسکول بورڈ کے ارکان بنے۔ 1939ء میں سکھر میں مسجد منزل گاہ تحریک شروع ہوئی تو ہندو مسلم فسادات کے اسباب جاننے کے لیے جسٹس ویسٹن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا گیا۔ جس کے سامنے علی محمد راشدی نے نہایت کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کی وکالت کی۔ وہ خود رقم طراز ہیں کہ اسی اثناء میں سکھر میں منزل گاہ تحریک چلی تھی اور ایک زبردست ٹربیونل بیٹھا تھا۔ اس ٹربیونل کے سامنے بھی مسلم لیگ کی طرف سے میں نے وکالت کے تھی اور کیس جیتے تھے۔ 1934ء میں سر شاہنواز بھٹو کی لیڈر شپ میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو اس میں علی محمد راشدی شریک ہوئے۔ 1936ء میں سر حاجی عبد اللہ ہارون کے ساتھ مل کر سندھ اتحاد پارٹی بنائی۔1940ء میں لاہور میں رہ کر اس اجلاس کا بندوبست کیا جس میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔
1946ء میں مشترکہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگی امیدوار یوسف ہارون کے مقابلے میں کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1953ء میں بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ اور مالیات، صحت عامہ اور اطلاعات کے وزیر بنے۔ وزیر مالیات کی حیثیت سے 1954ء میں سندھ کی جاگیروں کا خاتمہ کیا اور زمین غریبوں میں تقسیم کی۔ صحت عامہ سے متعلق اداروں کو منظم کیا۔ جامشورو میں لیاقت میڈیکل کالج قائم کیا۔ لاڑکانہ، سکھر اور نواب شاہ میں سول اسپتال قائم کیے۔ سجاول میں زچہ خانہ اور کوٹری میں تپ دق کے مریضوں کے علاج کے لیے ادارہ قائم کیا۔ ۔ انھوں نے 1954ء میں سندھ اسمبلی کی جانب سے ون یونٹ میں شامل ہونے والی قرارداد منظور کرانے میں محمد ایوب کھوڑو کی سربراہی میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ ون یونٹ کے بعد علی محمد راشدی 1956ء تک مرکزی حکومت میں نشر و اشاعت کے وزیر بنے۔ اسی دوران حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ پاکستان کے 1956ء کے آئین کو بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا۔ اینٹی ون یونٹ فرنٹ میں جی ایم سید کے ساتھ ون یونٹ ختم کروانے کے لیے کام کیا اور 1970ء میں ون یونٹ کاخاتمہ ہوا۔ 1970ء میں ہی سندھ اسمبلی کی نشست کے لیے سیہون-کوٹری حلقے سے الیکشن لڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1972ء تا 1977ء ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اطلاعات و نشریات کی وزارت میں مشیر رہے۔
ادبی خدمات- 1949ء میں راشدی صاحب آل پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1951ء میں پاک بھارت کے ایڈیٹرز کی تنظیم جوائنٹ پریس کمیشن کے صدر منتخب ہوئے۔بعد ازاں وہ 1952ء میں اسٹیٹس مین اخبار جاری کر چکے تھے۔ اس کے بعد اخباری کالم نگاری تک محدود ہو گئے۔ روزنامہ جنگ میں ان کے کالم پوری آب و تاب سے شائع ہوتے رہے۔ وہ 23 سال مسلسل جنگ کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے ہانگ کانگ میں رہتے ہوئے 1963ء سے 1964ء تک روزنامہ جنگ کے لیے مکتوب مشرق بعید کے عنوان سے کالم لکھے۔ 1964ء سے 1978ء تک مشرق و مغرب عنوان کے تحت کالم لکھے۔ اسی دوران جنگ میں ہی مزاحیہ کالم وغیرہ وغیرہ لکھنا شروع کیا۔ 1967ء تا 1969ء تک روز نامہ سندھی اخبار عبرت میں لکھتے رہےتصانیف
رودادِ چمن (اردو)
اھے ڈینھن اھے شینھن (سندھی)
فریاد سندھ (سندھی)
چین جی ڈائری (سندھی)
ون یونٹ کی تاریخ (اردو)
(بہ زبان انگریزی) SINDH: WAYS AND DAYS
وفات-پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع سندھی مسلم جماعت کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں-بشکریہ گو گل سرچ
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
پشاور کا تاریخی سیٹھی ہاؤس معماروں کے زوق تعمیر کا اظہار
پشاور کا تاریخی محلہ سیٹھیاں اور سیٹھی ہاؤس جسے دیکھ کر اس کے معماروں کا زوق تعمیر عروج پر نظر آتا ہے - اس بے نظیر محلے کی آباد کاری اس ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...