حضرت خواجہ نظام الدّین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ - امام علی نقی علیہ السلام کے دو بیٹے سید علی اور سید احمد عباسی خلیفہ کی
دشمنی سے بچنے کے لیے مدینہ سے ہجرت کر کے ازبکستان کے شہر بخارا میں آ گئے۔
چنانچہ انہوں نے ہندوستان کے شہر کا انتخاب کیا - یہ خواجہ نظام الدین کے والد
گرامی تھے، خدا ان کو سلامت رکھے، جن کی اولاد کو نقوی سادات کہا جاتا ہے - اور جو
شہر بخارا میں رہے انہیں بخاری کہا جاتا ہے، جو حضرت سلطان کی اولاد ہیں۔ المشائخ
محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء۔ وہ یوپی کے مشہور شہر بدایوں میں صفر کے آخری بدھ
کو پیدا ہوئے۔ . والدین: حضرت کی والدہ اور والدہ دونوں نہایت نیک اور پرہیزگار
بزرگ تھے۔ والدہ کا نام سیدہ بی بی زلیخا اور والد کا نام گرامی سید احمد تھا۔ ایک
ماں کا خواب: سیدہ بی بی زلیخا اور حضرت سید احمد کو اللہ تعالیٰ نے دو بچوں سے
نوازا۔
ایک
سید محمد جو بعد میں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کے
نام سے مشہور ہ حضرت
خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے دادا "سید علی بخاری
رحمتہ اللہ علیہ" اور ان کے چچا زاد
بھائی "حضرت سید عرب رحمتہ اللہ علیہ (آپکے نانا)" دونوں بزرگ اپنے اپنے
اہل و عیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوۓ
تھے- والدین:آپکے نانا سید عرب کی صاحبزادی
"سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا (آپکی والدہ ماجدہ)" جو زھد و تقوی میں کمال درجہ رکھتی تھیں-عبادت
گزار اور شب بیدار تھیں-اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں-ان کو اپنے وقت کی
"رابعہ عصری" کہا جاتا تھا- آپکے دادا حضرت سید علی بخاری کے صاحبزادے
"سید احمد (آپکے والد ماجد)"
جو نیک سیرت اور صاحب فضل و کمال
تھے-آپکے دادا "حضرت سید علی بخاری رحمتہ اللہ علیہ" اور آپکے نانا "سید عرب بخاری رحمتہ اللہ
علیہ" دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے-دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے
سےاپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوۓ
"حضرت سید احمد علی رحمتہ اللہ علیہ"
کی شادی "حضرت سیدہ زلیخا رحمتہ اللہ علیہا" سے کردی-
* کم سِنی ہی میں والد ماجد کا وصال ابھی حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ
بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا-لیکن آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور
بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا
نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔حضرت نظام الدین اولیاء
رحتمہ اللہ علیہ کی
مادر گرامی حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا ایک امیر و کبیر بزرگ حضرت خواجہ عرب
علیہ الرحمہ کی صاحبزادی تھیں - لیکن آپ نے اپنے والد کی دولت کے ذخائر کی طرف
آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔انتہا یہ ہے کہ بیوگی کا لباس پہننے کے بعد اس دروازے
کی جانب نگاہ نہ کی-جہاں آپ کا پورا بچپن اور جوانی کے ابتدائی چند سال گزرے تھے۔آپ
دن رات سوت کاتتیں اور پھر اسے ملازمہ کے ہاتھ بازار میں فروخت کرادیتیں۔اس طرح جو
کچھ رقم حاصل ہوتی، اس سے گزر اوقات کرتیں۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا
کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ شدید محنت کے باوجود ہفتے میں
ایک فاقہ ضرور ہوجاتا-جس روز فاقہ ہوتا اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ
مادر گرامی سے کھانا مانگتے تو حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا بڑے خوشگوار انداز میں فرماتیں۔’’بابا نظام! آج
ہم سب اﷲ کے مہمان ہیں‘‘
حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا کا بیان ہے کہ میں جس روز "سید محمد"
سے یہ کہتی کہ آج ہم لوگ اﷲ کے مہمان ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے۔ سارا دن فاقے کی
حالت میں گزر جاتا مگر وہ ایک بار بھی کھانے کی کوئی چیز طلب نہ کرتے اور اس طرح
مطمئن رہتے کہ اﷲ کی مہمانی کا ذکر سن کر انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر آگئی ہو۔پھر
جب دوسرے روز کھانے کا انتظام ہوجاتا تو حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنی
محترم ماں کے حضور عرض کرتے
’’مادر گرامی! اب ہم کس روز اﷲ کے
مہمان بنیں گے؟‘‘ والدہ محترمہ جواب دیتیں’بابا نظام! یہ تو اﷲ کی مرضی پر منحصر
ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دنیا کی ہر شے اس کی دست نگر ہے۔ وہ جب بھی چاہے گا تمہیں
اپنا مہمان بنالے گا‘‘حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ مادر گرامی کی زبان سے یہ
وضاحت سن کر چند لمحوں کے لئے خاموش ہوجاتے اور پھر نہایت سرشاری کے عالم میں یہ
دعا مانگتے۔
’’اے اﷲ! تو اپنے بندوں کو روزانہ
اپنا مہمان بنا‘‘
ﷲ کی مہمانی کا واضح مطلب یہی تھا کہ
اس روز فاقہ کشی کی حالت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پانچ سال کی عمر میں یہ دعا، یہ
خواہش اور یہ آرزو! اہل دنیا کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی… مگر وہ جنہیں اس
کائنات کا حقیقی شعور بخشا گیا اور جن کے دل و دماغ کو کشادہ کردیا گیا- وہ اس راز
سے باخبر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا تھا-اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ
انتہائی کم سنی کے عالم میں اﷲ کا مہمان بننے کی آرزو کیوں کرتے تھے۔ ابتدائی دینی
تعلیم:
آپ پر اللہ کا
فضل و کرم تھا اس لئے آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کر لیا-اس کے بعد آپ نے
مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت اختیار فرمائی-آپ کے استاد
محترم مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علمی ذوق کو دیکھتے ہوۓ
آپ پر خصوصی توجہ دی- ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقہ حنفی کی مشہور کتاب "قدوی"
ختم کی-* دستار فضیلت:جب امام قدوری علیہ الرحمہ کی کتاب قریب الختم تھی-تو ایک دن آپ کے استاد
محترم مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ نے حضرت نظام الدین علیہ الرحمہ سے
فرمایا۔’’سید! اب تم ایک منقبت اور بڑی کتاب ختم کررہے ہو۔ اس لئے تمہیں لازم ہے
کہ اپنے سر پر دانشمندی کی دستار بندھواؤ‘‘حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا اپنے
فرزند کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں -پھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی
زندگی کا وہ یادگار دن بھی آیا جب آپ نے اس
عظیم کتاب کو ختم کرلیا۔
اس کے بعد حضرت بی بی زلیخا رحمتہ اﷲ علیہا نے
کھانا تیار کرایا اور بدایوں کے جلیل القدر علماء کو دعوت دی۔جب بدایوں کے ممتاز و
جلیل القدر علماء جمع ہوچکے تو "مولانا علاء الدین اصولی علیہ
الرحمہ" نے اپنے شاگرد کے سر پر
دستار فضیلت باندھی ۔ حاضرین نے اس مجلس روحانی میں بڑا جانفزا منظر دیکھا۔ زمانۂ
حال کا عالم مستقبل کے عالم کو اپنے علم کی امانت منتقل کررہا تھا۔دستار بندی کے
بعد "مولانا علاء الدین اصولی علیہ الرحمہ" نے "حضرت خواجہ علی علیہ
الرحمہ" سے دعا کی درخواست کی۔
"حضرت خواجہ علی علیہ
الرحمہ" نے ایک نظر حضرت نظام الدین
اولیاء علیہ الرحمہ کی طرف دیکھا اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے۔
سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید
محمد خواجہ نظام الدین اولیاء چشتی رحمتہ
اللہ علیہ نے تقریبا" 700 صاحب ِ حال
و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے۔
چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں-
• حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ
اللہ علیہ
• حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ
* جانشین و خلٰیفہ اکبر:
وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو
بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید
نصیر الدین روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ" کو طلب کیا-
اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ
تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے-
انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر
رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔
انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔
* تصانیف:
* راحت القلوب
(ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج
شکر)
مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،
*افضل الفوائد
(مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ
اللہ علیہ)
* فوائدالفواد
(مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی علیہ
الرحمۃ)
• سیر الاولیاء
* وصال:
خواجہ نظام الدین اولیاء نے بعمر 94
برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و
ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں
غروب ہوگیا-
* مزارِ پر انوار:
آپ کا مزارِ پر انوار دہلی میں لاکھوں
دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔
مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ
وفات کندہ ہے۔
نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں ۔ ۔ سراج دو
عالم شدہ بالیقیں ۔ ۔ چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب ۔ ۔ نداداد ہاتف شہنشاہ دیں ( ۷۲۵ھ - 1324ء ) :
خلفاء:
سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید
محمد خواجہ نظام الدین اولیاء چشتی رحمتہ
اللہ علیہ نے تقریبا" 700 صاحب ِ حال
و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے۔
چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں-
• حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ
اللہ علیہ
• حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ
* جانشین و خلٰیفہ اکبر:
وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو
بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید
نصیر الدین روشن چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ" کو طلب کیا-
اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ
تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے-
انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر
رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی۔
انہیں اپنا نائب اور جانشین مقررکیا۔
* تصانیف:
* راحت القلوب
(ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج
شکر)
مرتبہ: حضرت سلطان نظام الدین اولیا،
*افضل الفوائد
(مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ
اللہ علیہ)
* فوائدالفواد
(مرتبہ: حضرت امیر حسن علا سجزی علیہ
الرحمۃ)
• سیر الاولیاء
* وصال:
خواجہ نظام الدین اولیاء نے بعمر 94
برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و
ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں
غروب ہوگیا-
* مزارِ پر انوار:
آپ کا مزارِ پر انوار دہلی میں لاکھوں
دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہاہے۔
مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ
وفات کندہ ہے۔
نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں ۔ ۔ سراج دو
عالم شدہ بالیقیں ۔ ۔ چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب ۔ ۔ نداداد ہاتف شہنشاہ دیں ( ۷۲۵ھ - 1324ء ) :