اتوار، 5 مارچ، 2023

ہد ہد ننّھا سا واٹر انجینیر

 

یہ ایسا   پرندہ  ہے جو ہزاروں میل دو ر سفر بغیررکے طے کرنے کی صلاحیت سے بھی لیس ہےاب  اس کی 

 ساخت کے بارے میں یہ لمبی چونچ والا ایک نہایت ہی خوبرو پرندہ ہے یہ لمبی چونچ سے کسی بھی کیڑے کو زمین سے کھود کر نکال

 سکتا ہے ۔اس کے سر پر ایک شاہی تاج کی مانند ایک تاج بناہوتا ہے یہ تاج مالٹا اور کالے کلر پر مشتمل ہوتا ہے اس کا جسم رنگ

 برنگے پنکھوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کے جسم پر سفید اور سیاہ دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں اس کے دو پنجے ہوتے ہیں اور ہر پنجہ چار

 انگلیوں پر مشتمل ہوتا ہے اس کی لمبائی پچیس سے بتیس سینٹی میٹر اور جب کہ اس کا ونگس پین چوالیس سے اڑتالیس سینٹی میٹر

 تک ہوتا ہے ۔اس کا وزن چھیالیس سے نواسی گرام تک ہوسکتا ہے ۔اس کی اوسطا عمر دس سال تک ہوتی ہے-    فارسی ادب میں

 اسے ایک پراسرار پرندہ تصور کیاجاتا ہے اگر کسی ایک کو کھانے کی چیز مل جائے تودوسرے ساتھی کا انتظارکرتا ہے اور پھر اس چیز

 کو کھایاجاتا ہے ایک ہدہد اپنی پوری زندگی میں صرف ایک بار ہی جوڑا بناتا ہے اگر اس کا ساتھی ساتھ چھوڑ جائے یا کسی حادثے کا

 شکار ہوجائے تو یہ ساری زندگی اکیلا رہنا پسند کرتا ہے کہاجاتا ہے کہ تنہائیوں کے ان لمحات میں ہدہد اتنا رزق لیتا ہے جس سے اس

 کی جان بچ جائے اور ایسی حالت میں اسے باآسانی پکڑاجاسکتا ہے

ہد ہد  اپنی افزائش نسل کس طرح کرتے ہیں- جب ایک میل ہد ہد کو اپنی افزائش نسل کی خواہش ہوتی ہے تب وہ اپنے لئے ایک

 مادہ ہد ہد کو تلاش کرتا ہے جب مادہ مل جاتی ہے -ہد ہد اپنی مادہ کو کھانےوالی کوئی چیز پیش کرتا ہے۔،اگر مادہ وہ چیز کھا لےتو اس کا

 مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ شادی کے لیے راضی ہے۔ پھر نر ہد ہد مادہ کو اپنے گھونسلے میں لے کر جاتا ہےجواکثر اوقات

 کسی درخت میں سوراخ کرکے پہلے سے بنایا ہوتا ہے۔اگر مادہ کو یہ گھونسلہ پسند آ جائے تو پھر دونوں رشتہ زواج میں منسلک ہو

 جاتے ہیں -مادہ ہدہد چھ سے آٹھ انڈے دیتی ہے انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد نر اور مادہ دونوں ہی بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش کی

 ذمہ داری نبھاتے ہیں تقریبا تین سے چار ہفتوں کے دورا بچے اپنے گھونسلوں سے باہر آجاتے ہیں پوری طرح خود مختار ہونے کے

 لئے مزید دوہفتے والدین کی زیر نگرانی رہتے ہیں ہد ہد کو درختوں میں سورخ کرنے کی ایک خاص مہارت رکھنے والا ایک خاص

 جانور تصور کیاجاتا ہےکی درختوں میں سوراخ کرنے کی تین وجوہات ہیں ایک تو وہ انڈے دینے کے لئے اپنی رہائش کاانتظام

 کرتاہےاس کی اڑان اونچی نہیں ہوتی لیکن شکاری پرندوں سے بچنے کے لیے یہ آسمان کی انتہائی اونچائی میں بھی اڑ سکتے ہیں۔ یہ

 درختوں کے کٹائو یا دیواروں کے سوراخوں میں رہتے ہیں۔ مادہ چھ تا آٹھ انڈے دیتی ہے۔ ۱۶ تا ۱۹ دن بعد بچے باہر آتے ہیں ان کا

 نر (Male) مادہ اور بچوں کی غذا کا انتظام کرتا ہے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد بھی مادہ (Female) ان کو مزید دس دن گرم

 رکھتی ہے تاکہ بچے ماحول سے ہم آہنگی پیدا کر لیں۔

ہد ہد وہ ایک واحد پرندہ ہے جو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک ہی بار شادی کرتا ہے۔اور اپنے لائف پارٹنرکے مرنے کے بعد

 اپنی ساری زندگی اکیلے ہی گزاردیتا ہے۔۔ اس پرندے کی ازدواجی زندگی آج کے دور کے انسانوں کیلئے ایک مثال ہے۔کہ عقل

 نہ رکھنے کے باوجود بھی یہ دونوں ایک دوسرے کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

اور انسانوں کےساری زندگی میں آپس کےجھگڑےہی نہیں ختم ہوتے، جب آپ اپنے ہمسفر کو پا لیں تو پھر اسی پر بس کر دیں اور

 وہ آپ کا ہوجائے اور آپ اس کے ۔دکھ ،سکھ ،بھوک، پیاس،غمی خوشی سب بانٹ کر جئیں۔اس کے علاؤہ اور کوئی آپشن دل و

 دماغ میں نہ رکھیں۔ مادہ ہمیشہ ہر موسم میں عموماً چھ سے آٹھ انڈے دیتی ہے اور پھربچے پیدا ہونے کے بعدباری باری خوراک کا

 بندوست بھی کر لیتی ہے۔ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ اگردونوں میں سے کسی کو بھی خوراک کی کوئی چیز مل جائے تو وہ اسے

 اکیلے نہیں کھاتے، بلکہ دونوں اکھٹے ہونے کے بعد ہی اسے کھا تے ہیں۔ہد ہد پرندے کی چھٹی حس اتنی زیادہ تیز ہوتی ہےکہ وہ

 زمین کے اوپر سے ہی زمین کے اندر پانی کو محسوس کر لیتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ہدہد سے زیر زمین پانی

 ڈھونڈنے کا کام لیتے تھے۔ہدہد ایک ایسا پرندہ ہے جوہزاروں میل کا سفر رکے بغیر طے کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔اسی لیے

 حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے دوسرے ملک ملکہ بلقیس کو خط لکھ کر بھیجا تھا۔

  درخت کترنے کے لیے مشہور اس پرندے کا نام قرآن کریم میں بھی موجود ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو یمن کی ملکی سبا

 کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔اس پرندے کی اہم خاصیت درخت کے تنے کو کترنا ہے۔ یہ عمودی طور پر بھی درخت پر چڑھ

 سکتے ہیں، لکڑی کو کترتے ہوئے یہ اسے مضبوطی سے اپنے پنجوں سے پکڑ لیتے ہیں اس کے بعد کترنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ 

ہدہد کے لکڑی کترنے کی 3 وجوہات ہیں۔ لکڑی کترنا ان کا آپس میں گفتگو کا ذریعہ بھی ہے، لکڑی کترتے ہوئے یہ مخصوص

 آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے پیغامات پہنچاتے ہیں۔

علاوہ ازیں اس عمل کے ذریعے یہ تنوں میں رہنے والے کیڑوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں اپنی خوارک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ

 انڈے دینے کے لیے بھی یہ درخت کے تنوں میں سوراخ بناتے ہیں۔ہدہد کی ایک قسم ان سوراخوں میں سردیوں کے لیے

 خوراک بھی محفوظ کرتی ہے۔درخت کترتے ہوئے ان ننھے منے پرندوں کے سر کو زوردار جھٹکا لگتا ہے جیسا کہ آپ اوپر دیکھ سکتے

 ہیں تاہم اس قدر سخت تنے کھودنے کے بعد بھی یہ بالکل چاک و چوبند اور تندرست رہتے ہیں اور ان کے سر کو کوئی نقصان نہیں

 پہنچتا۔دراصل ان پرندوں کے سر میں نرم ٹشوز اور ایئر پاکٹس ہوتے ہیں جس کے باعث ہدہد کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتے ہیں

ہد ہد قدیم دنیا کا معروف پرندہ ہے۔  تاج اور پروں کی خاص ترتیب کے باعث اس پرندے کی خوبصورتی میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔

 جب کبھی یہ پرندہ تنائو میں رہتا ہے یا خطرہ محسوس کرتا ہے تو اس کے تاج کے پر عمودی حالت میں کھڑے ہو جاتے ہیں جس کی وہ

 سے اس کی خوبصورت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے پیر چھوٹے ہوتے ہیں اور بآسانی زمین پر دوڑ یا چل سکتا ہے۔ یہ چلتے ہوئے بار بار

 اپنی چونچ زمین پر مارتا ہے اور غذا حاصل کرتا ہے‘ بڑے کیڑوں کو چونچ میں لے کر رگیدتا ہے اور اس کا خول علیحدہ کر کے اس کو

 چونچ میں لے کر اچھالتا ہے جو دیکھنے والے کے لیے عجیب دلچسپ منظر ہوتا ہے۔

اس کی چونچ لمبی اور اگلی جانب ہلکی سی مڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کی آواز میں موسیقیت ہوتی ہے اور اس کا نام خود اس کی آواز کی

 دین ہے کہ اس کی آواز کا Rhythm خود اس کا نام بن گیا ہے۔ ہد ہد کا ذکر سورۃ النمل میں موجود ہے۔ اس کو مرغ سلیماں

 بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ جن کو اﷲ نے ملک شام اور فلسطین پر حکومت عطا کی تھی۔ ان کی

 فوج میں اﷲ نے انسانوں کے علاوہ جنوں اور پرندوں کو بھی شامل کیا تھا۔ ویسے دنیا میں پرندوں کو فوج میں رکھنے کا عام رجحان پایا

 جاتا ہے تاکہ دشوار گزار علاقوں میں اطلاعات کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک بہ آسانی پہنچایا جاسکے۔ مواصلات کی دنیا میں

 ترقی نے اب ان پرندوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے لیکن بعض ماہرین کے نزدیک محفوظ طریقہ ترسیل آج بھی پرندہ ہی ہے کہ اس

 کے سگنلز کو عام طور پر مقید نہیں کیا جاتا۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ نے اپنی فوج کا جائزہ لیا تو ہد ہد کو غائب پایا

 کیونکہ یہ پرندہ فوج میں ایک اہم منصب پر فائز تھا۔ ہد ہد میں زمین کے اندر بہنے والی نہروں کو پہچاننے کی صلاحیت ہوتی ہے اسی

 لیے جب کبھی لشکر کسی علاقے میں ٹھہر جاتا تو حضرت سلیمانؑ ہد ہد کو پانی کی تلاش کا حکم دیتے۔ جب یہ پرندہ پانی کی نشاندہی کرتا تو

 لشکر میں موجود جنوں کے ذریعہ زمین کھود کر پانی کو حاصل کیا جاتا۔ شاید لشکر کو پانی کی ضرورت آن پڑی ہو گی اسی لیے حضرت

 سلیمانؑ نے اس پرندے کو یاد کیا اور غیرموجود پاکر حضرت سلیمانؑ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ معقول وجہ نہ بتا سکے تو اس کو سزا

 دی جائے گی۔ کچھ ہی دیر بعد جب ہد ہد واپس ہوا تو اس نے حضرت سلیمانؑ کو ملکہ سبا کا واقعہ سنایا۔ یہ ملک جنوبی عرب یعنی آج

 کے یمن کے مقام پر واقع تھا۔ اس کا صدر مقام شہر صنعاء سے ۵۰ کلو میٹر دور ’’معارف‘‘ تھا

۔ ہدہد نے اس ملک کی ملکہ کے تخت کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہاں لوگ سورج کی پرستش کرتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ نے ہدہد کی

 سچائی کو جانچنے کے لیے ملکہ سبا کے نام ایک خط بھجوایا۔ یہاں ہر شے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ

 ایک پرندہ کس طرح گفتگو کر سکتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ ہدہد ایک آدمی کا نام رہا ہو گا۔ دراصل وہ خدا کی قدرت سے واقف

 نہیں ورنہ جاندار پر کیا موقوف کہ اگر قدرت چاہے تو بے جان بھی اپنے احساسات کا اظہار کرنے لگیں۔ ویسے اس قدر سائنسی

 ترقی کے باوجود انسان یہ کہنے سے قاصر ہے کہ مختلف جانداروں کی ذہنی صلاحیت کیا ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے انسان اس بات کا

 بھی اب تک مکمل طور پر اندازہ نہیں لگا پایا کہ کیا جاندار بھی وہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ایک انسان سنتا ہے اور ان کا دماغ کس طرح

 کام کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں مختلف سائنسدانوں نے اپنے مسلسل تجربات کے بعد بتایا کہ پرندے باربط گفتگو کرتے ہیں اور ان کی

 زبان کو برقی لہروں میں تبدیل کر کے انسانی زبان میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آلات کی تیاری کا کام جاری ہے

 جو برقی لہروں کی توانائی قابلِ فہم زبان کی لہروں میں بدل سکتے

ہدہدکوعموماً ہم 80 کی دہائی کے مقبول کارٹون سیریز ووڈی ووڈ پیکر کے ذریعے جانتے ہیں جس نے اسے ہر خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔


ہفتہ، 4 مارچ، 2023

جشن نوروز کا قدیم اور حسین تہوار

  ا مریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کی بلدیہ نے ایک قرارداد میں جسے متفقہ طورپر منظور کیا گیا، عید نوروز- کو تاریخی اور ثقافتی تہوار کے طور پر تسلیم کر لیا۔امرکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کی بلدیہ نے ایک قرارداد میں جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا، عید نوروز کو ایک تاریخی و ثقافتی تہوار کے طور پر تسلیم کر لیا۔یکم مارچ کو منظور کی گئی اس قرار داد میں نوروز کو تین ہزار سالہ قدیمی جشن قرار دیا گیا ہے۔واشنگٹن کی بلدیہ کی قرار داد میں آیا ہے کہ نوروز کا جشن اسلامی جمہوریہ ایران، افغانستان، تاجکستان، آذربائیجان اور دنیا کے دیگر علاقوں کے تیس کروڑ سے زائد لوگ مناتے ہیں۔قاب ذکر ہے کہ ایرانی ہجری شمسی سال کے پہلے دن یا بیس اور اکیس مارچ کو ایران، افغانستان، تاجیکستان، ترکمنستان، عراق، جمہوریہ آذربائیجان اور پاکستان و ہندوستان میں بھی نوروز کا جشن منایا جاتا ہے جبکہ ایران سمیت نو ملکوں میں اکیس مارچ کو اس جشن کے موقع پر عام تعطیل بھی کی جاتی ہے۔

 نوروز کا مطلب نیا دن! عید نوروزتاریخ کے آئینے میں اسے نوروز جمشیدی کہا جاتا ہے. يہ دن فارسيوں كے پسندیدہ تہواروں ميں سے ایک تہوار اور عظيم جشن مانا جاتا ہے۔ كہا جاتا ہے كہ اس جشن كو سب سے پہلے منانے والا شخص فارسيوں كے ہی قديم بادشاہوں ميں سے ایک بادشاہ جمشيد تھے ۔ اور انھیں “جمشاد” ميں سے مانا جاتا ہے-ظاہر ہے اس تہوار کی ابتدا جمشید کے زمانے سے ہوئی ۔ کہتے ہیں کے جمشید اسی دن تخت نشیں ہوا تھا ۔ جمشید کے بعد بھی ایرانی بادشاہوں نے اس روایت کو زندہ رکھا ۔ خصوصاً ساسانی حکمران اس دن اپنا دربار منعقد کرتے تھے۔ امرا و اراکینِ، بادشاہ سلطنت کے بارگاہ حضور تحفے پیش کرتے اور پھر بادشاہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا کرتے تھے ۔اسی دن صوبوں کے نئے گورنروں کا تقرر کیا جاتا۔ نئے نئے قیمتی و خوبصورت سکے ڈھالے جاتے ۔ آتش کدوں کی صفائی کا بہت ہی خاص اہتمام کیاجاتا ۔ اسی لئے ہی جشنِ جمشیدی تو نوروز کا دوسرا نام پڑا ۔نوروز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’’نیا دن‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے

۔ دنیا کے مختلف حصوں میں یہ تہوار ہر سال 21مارچ کو منایا جاتا ہے۔ شمسی ماہ کے حساب سے 21 مارچ کو سورج قطر فلک پر اپنا ایک سالہ سفر تمام کرتا ہے اور تمام 12 برجوں سے گزر جاتا ہے۔ 21 مارچ کو 24 گھنٹوں میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب سورج آخری برج سے گزر کر پہلے برج حمل میں داخل ہو جاتا ہے اس وقت کو شرف آفتاب کہا جاتا ہے۔ اس دن کو ثقافتی اہمیت کے ساتھ ساتھ مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے اور جن ممالک یا علاقوں میں یہ تہوار منایا جاتا ہے وہاں کئی قسم کی مذہبی روایات کا تذکرہ ملتا ہے-تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دریائے نیل اور فرات کی وادیوں میں ہزاروں برس قبل پنپنے والی بابلی تہذیب نے اپنے بعد آنے والی تمام تہذیبوں، عقیدوں اور مذاہب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تخلیق کائنات کی اس داستان کا تعلق بھی قریب قریب بابلی تہذیب سے ہے۔ نامور مورخ سبط حسن لکھتے ہیں “وادی دجلہ وفرات میں تین موسمی تیوہار بڑی عقیدت اورجوش سے منائے جاتے تھے اول نوروز کاتہوار جسے اہل عکاد وسومیر ’اکی تو‘ کہتے تھے۔ اکی تو ان کا سب سے بڑا تیوہار تھا جو سردیوں کی بارش کے بعد اپریل (ماہ نیسان) میں منایا جاتا تھا۔ ایک اور تیوہار ’’تشری‘‘ کے نام سے ستمبر میں فصل کاٹنے پر منایا جاتا تھا۔ شہری ریاستوں کے سومیری دور میں اکی تو اور تشری دونوں نوروز کے تیوہار سمجھے جاتے تھے۔

۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔عمومی خیال یہ ہے کہ نوروز زرتشتیوں کا مذہبی تہوار تھا۔ اس مذہب کے پیروکار اس دن آگ جلا کر رقص و مستی کرتے تھے جو ان کی عبادت تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ مارچ بالخصوص 21 مارچ کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے اور نوروز بھی آمدبہار کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ایرانی کیلنڈر کے مطابق 21 مارچ کو زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر پورا کرتی ہے اور اسی طرح ایک شمسی سال مکمل ہوتا ہے۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔ فارسی لوک داستانوں میں یہ بھی لکھاہے کہ جب نامور بادشاہ جمشید نے فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس دن کو نیا دن قرار دیا اس کے بعد ہر سال نوروز کا تہوار جوش وخروش سے منایا جانے لگا۔ نامور ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیں کہ ’’نوروز کائنات کے جشن، زمین کی خوشی، سورج اور آسمان کی تخلیق کادن، وہ عظیم فاتح دن جب ہر ایک مظہر پیدا ہوا‘‘۔ نوروز کا سب سے بڑا جشن ایران کے جنوبی شہر شیراز میں تخت جمشید کے مقام پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شیراز اور اصفہان کی جانب سفر کرتی ہے۔بلتستان کی دستیاب تاریخ کے مطابق یہاں نوروز کا تہوار ہمیشہ سے روایتی  جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

 اس حوالے سے یہاں کی قدیم  لوک روایات میں بھی کئی حوالے ملتے ہیں۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ چونکہ یہ زرتشت مذہب کے تہواروں میں سے ایک ہے اور بلتستان میں ماضی بعید میں زرتشت مذہب بھی رائج رہا اس لیےتب سے یہ تہوار بلتستان میں رائج چلا آرہا ہے۔ لیکن بعض مورخین کا خیا ل ہے کہ یہ تہوار بلتستان میں ایران سے آیا ہے۔ چودہویں صدی کے دوران بلتستان میں دین اسلام ایرانی مبلغین کی آمد کے بعد آیا اور ان مبلغین نے جہاں بلتستان سے بدھ مت اور اُن سے منسوب روایات اور ثقافت کے خاتمےکے لیے کامیاب جد وجہد کی  وہیں  اس کے ساتھ ایرانی تہذیب و ثقافت کو  بھی یہاں متعارف کرایا  جس کا ایک مظہر نوروز کا تہوار ہے۔ بلتستان کی تہذیب و ثقافت پر ایران کی دیگر کئی روایات کے  گہرے نقوش آج بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ نوروزکا  تہوار در اصل بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جانے والاتہوار ہے۔ اسےایک طرح سے جشن بہاراں کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ کیونکہ بلتستان اور ایران کے موسمی حالات ایک جیسے ہیں، دسمبر سے مارچ کے وسط تک پڑنے والی شدید سردی کے بعد تیسرے ہفتے سے لوگ کاشت کاری سے فارغ ہوجاتے ہیں اور بہار کی آمد آمد کا سماں ہوتا ہے۔ شدید ترین سردی کے کھٹن اور صبر آزما کئی مہینے گزانے کے بعد جب موسم بہار کی جانب اَنگڑائی لیتا ہے تو اہل بلتستان خوشی کے اظہار کے لئے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں اور کئی روز جاری رہنے والی ان رنگا رنگ تقریبات میں محو رہتے ہیں۔نوروز پر بلتستان میں کئی دنوں تک تقریبات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس تہوار پر بلتستان میں دوسری بڑی دوعیدوں کی طرح نوروز پر بھی لوگ نئے کپڑےزیبِ تن کرتے  اور گھروں میں انواع و اقسام کے پکوان تیار کرتے ہیں۔

 رشتہ دار وعزیر واقارب ایک دوسرے کے گھر عید ملنے جاتے ہیں۔ سی ،او،کی تنظیم میں شامل ملکو ں کو چاہیے کہ جشن نوروز سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 21 سے 31 مارچ تک رکن ممالک کے دارالحکومتوں، اسلام آباد، کابل، باکو، تہران، آستانہ، بشکش، دوشنبے، انقرہ، اشک آباد اورتاشقند میں مشترکہ ثقافت کی بنیادپر مل کر روزانہ پروگرام کریں، جشن نوروز کے معنی نئے دن یا دنوں کے ہیں یوں اگر21 مارچ سے 31 مارچ 2018 ء میں یا آئندہ سال جشن نوروز میں یہ ممالک اپنے اپنے ملکوں میں ویزوں کی پابندی ختم کرد یں، اپنے اپنے ملکوں کی فضائی کمپنیوں کے ٹکٹوں پر ٹیکس کی چھوٹ دیں تو ان ملکوں کی چالیس کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے لاکھوں افراد مشترکہ تہذیب ،ثقافت ، اور تاریخ کے حامل ملکوں میں ایک دوسرے سے آسانی سے مل سکیں گے، اور یورپ کی طرح یہ بھی آج کے زمانے میں جنگوں کی بجائے امن وآتشی ، دوستی و اخوت کے رشتوں کو مضبوط کر سکیں گےپاکستان کا بیشتر علاقہ موسمیاتی،جغرافیائی اور ماحولیاتی اعتبار سے جنوبی ایشیائی خطے کے دیگر ملکوں بھار ت،بنگلہ دیش،سری لنکا وغیرہ سے بہت مختلف ہے اس لیے یہاں کیثقافت،تہذیب وتمدن، ادب سب ہی بھارت ، بنگلہ دیش سے مختلف ہیں اور اگر ان میں کچھ چیزیں مشترکہ دکھائی دیتی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ وہ تاریخ ہے جس میں حملہ آور فاتحین افغانستان، ایران اور سینٹر ل ایشیا سے آئے اور پھر برصغیر پر تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی۔ ہندوستان میں تین موسم ہوتے ہیں جن میں موسم گرما ،جاڑا یعنی موسم سرما اور برسات، ہزاروں برس سے برسات کو موسم بہار کی طرح ہندی،بنگالی اور دیگر مقامی زبانوں کی شاعری میں پیش کیا جاتا ہے، اور جہاں تک تعلق موسم بہار اور خزاں کا ہے تو ان کا ذکر فارسی شاعری سے ہندوستان میں آیا اور اپنے ساتھ غزل سمیت شاعری کی دیگر اصناف کو بھی لایا، 

ان میں سے کچھ پہلوئوں پر تحقیقی اعتبار سے معروف دانشور،ماہر قانون اعتزاز احسن نے اپنی کتاب سندھ ساگرمیں لکھا ہے۔ہمارے ہاں بلوچستان کے سرد علاقوں گلگت ،بلتستان،آزاد جموںوکشمیر،خیبر پختونخوا کے بیشتر اور سرد علاقوں میں چار موسم بہت واضح طور پر اور پوری شدت اور اپنے مناظر کی پہچان کے ساتھ آتے ہیں۔ موسم گرما جو سرد علاقوں میں خوشگوار اور فرحت بخش ہوتا ہے جو ن ، جولائی اور اگست کے تین مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کے بعد موسم گرما ڈھلتا ہے خوبانی، زرد آلو،آڑو، بادام ،چیری ، ناشپاتی، سیب ، پستہ،انار، شنے، جنگلی زیتو ن، سنجداور سایہ دار درختوں میں چنار، عیش، چنبیلی، اور دیگر درختوں کے سبز پتے ہلکی ٹھنڈی خشک ہوائوں کے چلنے سے اپنے رنگ بدلنے لگتے ہیں اور مختلف درختوں کے پتوں کے سائز اوراُن کی سا خت کے لحاظ سے خزاںکا یہ عمل ستمبر سے شروع ہوتا ہے اور نومبرکے وسط تک مکمل ہوتا ہے۔پندرہ اکتوبر تک یہ موسم رنگوں کا موسم کہلاتا ہے کیونکہ مختلف درختوں کے پتے سرخ ، نارنجی،کاسنی، ملگجی ،گلابی ، سرمئی، دھانی اور زرد رنگوں میں نظر آتے ہیں عموما یکم نومبر سے یہ پتے سرد اور تیز ہوائوں سے گرنے لگتے ہیں اور وادیوں، باغات اور جنگلوں میں روز ہی یہ زمین پر چادر کی طرح پھیلے ہوتے ہیں اور اب چرواہے نہ صرف اپنے ریوڑ یہاں چراتے ہیں بلکہ روز گرنے والے ان پتوں کو بڑی بڑی بوریوں میں بھر بھر کر لاتے اور اسٹور کرتے ہیں، پندرہ نومبر تک اکثر درخت پتوں سے بالکل خالی ہوجاتے ہیں ماسوئے صنوبر اور ایسے صدابہار درختوں کے جن کے پتے سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔اب ان تمام پہاڑی اور سرد علاقوں میں جو ہمارے خطے کے اعتبار سے ایران، افغانستان، کرغیزستان، آذربائجان، ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان، تاجکستان، ترکی، عراق، شام، مصر، فلسطین وغیرہ پر مشتمل یہاں ان سردعلاقوں میںزندگی مشکل سے مشکل تر ہونے لگتی ہے۔

 کھیتوں اور باغات جہاں صرف موسم گرما میں ایک ہی فصل ہوتی ہے اور اس کا پیداواری موسم خزاں کے آغاز پر ختم ہوجا تا ہے اور اب صرف اور صرف بھیڑوں کے ریوڑ ہوتے ہیں اور وادیوں میں گھاس اور جھاڑیاں بھی خشک ہوتی ہیں۔ اب شدید سردموسم کی تیاریاں ہوتی ہیں، بھیڑوں کی اُون سے بنے قالین اور رضائیاں باہر نکل آتی ہیں۔خشک لکڑیاں اور معدنی کوئلہ اسٹور کیا جاتا ہے، نر اور جوان بھیڑوں کو ذبح کرکے الائش نکال کر ان کی کھال پر سے بال صاف کرکے ان ہی علاقوں میں خودرو پیدا ہونے والی ہینگ اور نمک لگا کر ان سالم دمبوں، بھیڑوں کو سایہ دار جگہ پر خشک کیا جاتا ہے، یہ سب عمل زیادہ تر ان ملکوں کے دیہی علاقوں میں ہوتا ہے، پھر نومبر کے وسط سے سردی شروع ہوتی ہیاور خصوصا ً برفباری اور شدید برفباری میں ہر طرف ہر شے برف کی سفید چادر اوڑھ لیتی ہے۔ اب اگر برف کی تہہ زیادہ موٹی ہو تو چرواہے گھروں سے نہیں نکلتے کہ ان کی بھیڑوں کے منہ اس برف کے نیچے دبی خشک گھاس تک نہیں پہنچتے۔ اب وہ اپنے دیہاتوں میں گھروں کے بڑے صحنوں یا باڑوں پر وہی خشک پتے ان مال مویشیوں کو کھلاتے ہیں جو انہوں نے موسم ِ خزاں میں جمع کیے تھے، سردی زیادہ ہوتی ہے تو وہی خشک گوشت،جسے ہمارے ہاں،لاندی، کہا جاتا ہے ’عالمی یوم نوروز‘ کا مقصد قدیم ترین تہذیب کو زندہ رکھنا ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے 21 مارچ کو نوروز ڈے قرار دیے جانے کے بعد اب ہر سال دنیا بھر میں اس دن کو منایا جاتا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی پاکستان میں جہاں پارسی کمیونٹی نے ’نوروز‘ کو 20 مارچ کو مذہبی انداز میں منایا، وہیں 21 مارچ کو اسے عالمی یوم نوروز کے طور پر منانے کے انتظامات کیے گئے۔

علی ابن خانس نے روایت کیا ہے کہ نوروز کے دن، میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام (ع) نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا تم اس دن کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، یہ وہ دن ہے جسے ایرانی بہت اچھا سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں۔ تو امام نے کہا: میں تمہیں اس کی وجہ بیان کروں کرنا ہوں؛ جو کہ بہت پرانی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ بات آپ سے سیکھتا ہوں تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ میرے مردے زندہ ہوجائیں اور میرے دشمنوں کا قلع قمع ہوجائے۔تو انہوں نے فرمایا: اے معلی! نوروز کا دن وہ دن ہے جب خداوند عالم نے اپنے بندوں کے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ شراکت نہیں کریں گے اور انبیاء اور ائمہ (ع) پر ایمان لائیں گے۔ نوروز پہلا دن ہے جب سورج طلوع ہوا تھا اور اچانک ہوا چل رہی تھی اور اس دن زمین کا تارا پیدا ہوا تھا .

.. نوروز کا دن وہ دن ہے جب علی (ع) نے نہروان میں خارجیوں کو قتل کیا تھا۔ اس دن زمین کے پھول پیدا ہوئے تھے۔ اسی دن نوح علیہ السلام کا کشتی پہاڑ جودی پر اترا تھا۔ یہ وہی دن ہے جب جبریل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے تھے۔ اسی دن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا تھا۔ اسی دن ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی (ع) کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر قریش کے بتوں کو اکھاڑ پھینکا ... ایسے ہی دن  حضرت مہدی (ع) حاضر ہوں گے اور ہمیں ایسے ہی دن انکے ظہور کی توقع ہے، کیونکہ نوروز ہمارا اور ہمارے شیعوں کا ہے۔ نوروز سفر اور کھیتی باڑی اور ضروریات کی تلاش میں بہت اچھا ہے، اس دن شادی کرنا بہت مناسب ہے۔(١) اس کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ شیخ طوسی اور دوسرے بعد کے لوگوں نے نوروز کے لئے خصوصی اعمال بیان کیے ہیں، ان میں: غسل، روزہ ، نماز وغیرہ شامل ہیں (٢)یہ بھی روایت ہے کہ احمد ابن فہد حلی رحمة اللہ علیہ  کتاب مہذب البارع میں فرماتے ہیں کہ: نوروز ایک عزیز اور اعلی درجہ کا دن ہے۔ (٣)  مرحوم سید مرتضیٰ، علامہ بہاءالدین علی ابن حمید نے معلی ابن خنیس کا حوالہ دیتے ہوئے امام صادق علیہ السلام سے روایت کیا کہ: نوروز وہ دن ہے جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے لئے غدیر میں ایک معاہدہ کیا اور اپنے بعد انہیں امام مقرر کیا۔۔۔ ،اور کوئی نوروز نہیں گزرتا ہے مگر یہ کہ ہم اس دن قائم آل محمد علیہ السلام کے ظہور کے منتظر ہوتے ہیں اور نوروز ہمارے دنوں میں سے ایک ہے۔ (4حاجی شیخ عباس قمی رحمة اللہ علیہ ، قیمتی کتاب مفاتیح الجنان کے گیارہویں باب میں ، نوروز کے لئے مخصوص اعمال لے کر آئے ہیں ، جن میں: دعا ، متعدد دعائیں اور صدقہ کرنا ہے۔ انہوں نے چھٹے امام علیہ السلام سے یہ بھی روایت کیا کہ جب نوروز آئے تو غسل کریں اور اپنا صاف ستھرا لباس پہنیں اور بہترین خوشبو سے اپنے آپ کو خوشبو عطا کریں۔ اس دن کے پروگراموں میں ہمدردی ، مریضوں ، مذہبی رہنماؤں ، اسکالرز اور والدین سے ملاقات شامل ہیں۔  

 

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا

ہجرت کا پر مصائب سفر طے کرنے کے بعد جب ہم اپنے تنکوں سے بنے آشیانے میں بیٹھے اس کے بعد میری بسم اللہ کا وقت آیا تب والدہ کے نزدیک میری تعلیمی زندگی کی ابتداء کے لئے ہر بات ثانوی ہو گئ اور میری بسم اللہ کوفوقیت ہو گئ میری والدہ اکثر کہتی تھیں جس نے قران دل لگا کر پڑھنا شروع کیا سمجھ لو علم اس سے خود دوستی کرنے کا خواہا ں ہو جاتا ہے-،مجھے یاد ہے گھر میں ایک خاص چہل پہل سی ہو رہی تھی اور پھر سہ پہر کے وقت پنجتن پاک کی نذراورمرحومین کی فاتحہ بھی بسم اللہ سے پہلے ہی دی گئ تھی،،مجھے میری پیاری امّی جان نے اپنے ہاتھوں سے سموکین کے کڑھے ہو ئے گلے اور پف والی آستینو ں کی فراک زیب تن کی اور پھر میرے والد مرحوم جو خود بڑے ہی علم دوست انسان تھے ان سے کہا آئے بچّی کو بسم اللہ پڑھا دیجئے،
مین تخت پر بچھی اجلی چاندنی پر جا کر بیٹھی اب گھر کے سارے افراد بلا لئے گئے اور تخت پر بھی جگہ نہیں رہی باقی بھی تخت سے نزدیک ہی رہے اور امّی جان نے میرے سامنے اپنے ہاتھ کے کاڑھے ہوئے کار چوبی گلابی تکئے پرعربی قاعدہ رکھ کر اس کا پہلا صفحہ کھولا اور میری انگشت شہادت پکڑ کر حرف الف پر رکھّا ،اور والد صاحب نے مجھے پورے الف تا ے حروف پڑھائے ،اور پھر دعائیں مانگیں جن میں میرے حصول علم کی دعاء اہمیت کی حامل تھی-پھر والد صاحب نے مجھے اپنے ہاتھ سے امّی جان کی تیّار کی ہوئ خوشبودار کھیر کھلائ اور دعا دی اور اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نقد رقم بھی ہاتھ پر رکھّی- یہ میری بچپن کی زندگی کا خوبصورت اور یادگار دن تھا ،اس دن کے بعد میری امّی جان میرے لئے بھی ا یک ملتانی مٹّی سے نفاست سے لیپی ہو ئ تختی تیّار کرنے لگیں یہ ہمارے گھر کا دستور تھا کہ جب بچّے کی لکھائ میں پختگی محسوس کی جاتی تب وہ تختی کی لکھائ سے برئ الذّمّہ کیا جاتا تھا ،اگر اس سے پہلے وہ کبھی تختی لکھنے پر چوں چرا کرتا تو امّی جان ناراض ہو کر کہتیں ،پہلے اپنی لکھائ میں پختگی پیدا کرو تب ہی تختی چھوٹے گی ،

والدہ گرامی کی اس وقتی سختی نے ہم سب بہن بھائیو ں کی لکھا ئ کو بہت اچھا رنگ دیا اور ہم سب بہن بھائو ں نے اچھّے رسم الخط کو اپنی زندگی مین شامل کر لیا جی تو میں بات کر رہی تھی تختی کی ،اس زمانے کا رواج تھا کہ اسکولوں میں بھی ابتدا ئ جماعتوں میں تختی لازمی لکھوائ جاتی تھی ،اس کے لئے میری محنتی ، جفاکش اور سمجھدار ماں نے ا ضافی کام یہ کیا ہوا تھا کہ ہم لکھائ سیکھنے والے بچّوں میں ہر ایک کے لئےکے لئے دو تختیاں رکھی تھیں تا کہ ایک تختی اسکول جائے تو دوسری گھر میں استعمال ہو- اس زمانے میں ہمارے گھرمیں ا یک مٹّی کے کٹورے میں ہمہ وقت ملتانی مٹّی بھیگی رہتی تھی ،ایک دن میں نے کٹورے سے نکال کرجست کے پیالے میں رکھنی چاہی تو امّی جان نے کہا کہ اس پیالے میں مٹّی نہیں رکھنا ورنہ ملتانی مٹّی کا پانی اوپر ہی تیرتا رہے گا اورتختی کی لپائ میں مشکل پیش آئے گی ،اسوقت میں نے جانا کہ مٹّی کے برتن پانی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں میں نے بہت جلد تختی تیّار کرنے کا ہنر سیکھ لیا اور پھر جب تختی سوکھ جاتی تھی تب میری پیاری ماں اس پر چوڑی لکیریں کھینچ کر اپنے ہاتھ سے خوش خط تحریر لکھ کر ہم بہن بھائ کو دیتیں اور ہم بچّے برو کے قلم کو سیاہ روشنا ئ میں بھگو کران کے پنسل سے لکھے ہوئے حروف کو دوبارہ لکھتے-

 یوں ہمارا رسم الخط بہتر ہوتا گیااس زمانے کی زندگی مین برو کے قلم کی بہت اہمیت تھی ،یہ قلم دراصل بہت پتلے بانس کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے میری معلومات کے مطابق ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس کسی کے بھی علم میں ہو وہ برائے مہربانی بتا کر ثواب دارین حاصل کرے-خیر تو اس کے بنانے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا چونکہ وہ بہت سخت لکڑی کا ہوتا تھا اس لئے اس کے واسطے بہت تیز چھری استعمال کی جاتی تھی اورقلم کا تحریری حصّہ ترچھا رکھّا جاتا تھا-میری امّی جان کی جانب سے ہر گز اجازت نہیں تھی کہ کوئ بچّہ اپنا قلم خود بنائے گا ،لیکن میں نے امّی جان سے چھپ کر حسب معمول یہ ہنر بھی جلد سیکھ لیا اور پھر امّی جان سے بتایا کہ آپ خود دیکھ لیجئے کہ میں چھری کو محفوظ طریقے سے چلاتی ہوں کہ نہیں ،بس پھر امّی جان میرے طریقہ کار سے مطمئین ہو گئیں اور مجھے ا پنا قلم خود تیّار کرنے کی اجازت مل گئ- اس زمانے میں بنی بنائ روشنائ کے بجائے گھر میں تیّار کی ہوئ روشنائ استعمال کی جاتی تھی تختیوں پر سیاہ اور کاغذ پر نیلی ہر دو روشنائ کی بنی بنائ پڑیاں بازار سے دستیاب ہوتی تھیں جن کو گھول کر استعمال کیا جاتا تھا ،اس کے بعد کے دور میں بنی بنائ روشنائ نے معاشرے میں رواج پایا- اللہ پاک ھم سبکو آزمائش سے ھر بری گھڑی سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین

 تختی لکھنا اور ساتھ ہی اس کو جھلا جھلا کر سکھانا کہ جلدی سوکھے اور جلدی سے لکھ کر چھٹی ملے ۔روشنائی کا گاڑھا ہوجانا اور پھر کبھی کبھی پانی زیادہ ڈال لینے سے اس کا پتلا ہو جانا قلم کی نوک کا بار بار روشنائی میں ڈبانا تاکہ ایک سا لکھا جا سکے ۔کتنے مشکل کام تھے لیکن کتنے آسان تھے اس وقت کہ فرستوں کی ضرورت نہیں تھ۔فرست ہوتی ہی نہیں تھی ۔اپنے اپنے بستر صحن میں بچھانے ۔صبح اسکول جانے سے پہلے انہیں تہہ کر کے رکھنا ۔اب اگر سوچیں تو لگتا ہے کہ کوئی الف لیلیٰ کا ماحول تھا ۔ اور اتنا ہی سکون اورتختی لکھنا اور ساتھ ہی اس کو جھلا جھلا کر سکھانا کہ جلدی سوکھے اور جلدی سے لکھ کر چھٹی ملے ۔روشنائی کا گاڑھا ہوجانا اور پھر کبھی کبھی پانی زیادہ ڈال لینے سے اس کا پتلا ہو جانا قلم کی نوک کا بار بار روشنائی میں ڈبانا تاکہ ایک سا لکھا جا سکے ۔کتنے مشکل کام تھے لیکن کتنے آسان تھے ۔اپنے اپنے بستر صحن میں بچھانے ۔صبح اسکول جانے سے پہلے انہیں تہہ کر کے رکھنا ۔اب اگر سوچیں تو لگتا ہے کہ کوئی الف لیلیٰ کا ماحول تھا ۔ اور اتنا ہی سکون اور حلاوت تھی جو آج خوابوں میں بھی نصیب نہیں-

 اب میں قلم کہانی کے اختتام پر اپنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ دیویزن پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی-

جمعہ، 3 مارچ، 2023

جمیل الدین عالی-جیوے 'جیوے پاکستان

 

 

 

 

 

پاکستان سے محبت، اتحاد اور اتفاق سے مل جل کر رہنے کا پرچار کرنے والے، امن اور سلامتی کا درس دینے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے نوجوان نسل میں‌ جذبہ حب الوطنی اور جوش و ولولہ پیدا کرنے والے ادیبوں کا ذکر کیا جائے تو جمیل الدین عالی کا نام ہمارے سامنے آتا ہے-کسی نے کیا خوب کہا ہے -تخلیقیت انسان کا ایسا وصف ہے جو نہیں مرتا۔ جسے پیشگی بھی ہے اورپائیداری بھی ۔تو یہ بات تو جمیل الدّین عالی کی شخصیت پرپوری اترتی ہے-عالی جی نے  اپنے گیتوں میں اپنے لہجے کی چاشنی اور جذبات  کی نغمگی کا وہ امتزاج رکھّا کہ انہیں پڑھنے والا اور سننے والا دونوں ہی ان کے اسیر ہو گئے-جن کے ملّی نغمات ہمارا سرمایہ ہیں۔جمیل الدین عالی پاکستان سے محبت کا پرچار اور اردو کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے جو ملّی نغمے لکھے انھیں‌ لازوال شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی

ممتاز شاعر اور نقاد، پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ جمیل الدین عالی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، ان کی علمی و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیگم انیس انور دہلوی میموریل سوسائٹی اور گل رنگ ادب پاکستان کے اشتراک سے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر جبکہ مہمان اعزازی معروف شاعر اور سائنس داں ظفر محمد خان ظفر تھے۔ میزبان تقریب ڈاکٹر حسن وقار گل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ جدہ میں مقیم پاکستان کے معروف شاعر، خطاط اور مصور انور انصاری نے بطور خاص شرکت کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اور رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسر اظہار حیدری، اوج کمال، فہیم انجم اور آصف علی نے عالی صاحب کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ محفل مشاعرہ میں صاحب طدر کے علاوہ جن شعراء نے کلام سنایا ان میں ظفر محمد خان ظفر، انورانصاری، اظہارحیدری، حسن وقار گل، راشد نور، قیصر وجدی، ڈاکٹر نزہت عباسی، رشید خان رشید، محمد علی گوہر، ڈاکٹر جاوید، محمد علی سوز، کامران محور، اسامہ امیر اور تاج علی رعنا شامل تھے۔ ڈاکٹر مبین اختر نے عالی صاحب کی وفات کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالی جی دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر اوج کمال نے جمیل الدین عالی کی شخصیت اور زندگی کے ان گوشوں کا ذکر کیا جو اب تک عام قاری اور نظروں سے اوجھل ہیں۔ ڈاکٹر حسن وقار گل نے کہا کہ عالی جی کے ’’دوہوں‘‘ کو اردو دوہا نگاری میں ایک سنگ میل تسلیم کیا گیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری نے کہا کہ عالی صاحب کی حکیمانہ شاعری کے قدیم اور جدید تصورات ہمیں دور دور تک نظر آتے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ عالی جی نے اپنی نظموں سے اپنے قاری کو تہذیبی زندگی کا ایک ایسا تاب ناک شعور دیا ہے جو قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے کلمات تشکر ادا کئے۔

۔ یہاں ہم ان کے چند مقبولِ عام نغمات کا ذکر کررہے ہیں جنھیں‌ آپ نے آج بھی جشنِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے دوران یا اپنے گھروں میں‌ ٹیلی ویژن پر سنا ہو گا۔جیوے… جیوے… جیوے پاکستان 'پاکستان، پاکستان جیوے پاکستان…یہ ملّی نغمہ جیسے ہر دل کی دھڑکن اور ایک ایسی دُعا بن گیا جو ہر لب پر جاری ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم، زندہ و پائندہ رہے۔ 90 کی دہائی میں‌ جمیل الدین عالی کا یہ نغمہ ملک کی فضاؤں میں گونجا اور دنیا بھر میں ہماری پہچان بن گیا۔پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر قوم نے جذبات اور امنگوں سے بھرپور ایک ترانہ سنا اور یہ بھی بچے بچے کی زبان پر جاری ہو گیا۔س کے بول تھے: ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں…سندھ کے لوک فن کار علن فقیر کی آواز میں‌ یہ ملّی نغمہ بہت مشہور ہوا جس کے بول ہیں: اتنے بڑے جیون ساگر میں‌، تُو نے پاکستان دیا….اس گیت کے خالق بھی جمیل الدین عالی ہیں اور جب 1965 میں‌ دشمن نے ہمیں للکارا تو جرات و بہادری اور سرفروشی کی تاریخ رقم کرنے والے سپاہیوں تک جمیل الدین عالی نے قوم کے جذبات ان الفاظ میں‌ پہنچائے:اے وطن کی سجیلے جوانو، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں…

عالی صاحب بیوروکریٹ تھے جب کہ انہوں نے سیاسی میدان میں بھی کچھ عرصہ طبع آزمائی کی۔ وہ وزارت تجارت سے بھی وابستہ رہے۔ سول سروس کا امتحان پاس کیا اور محکمہ ٹیکسیشن کا حصہ بھی رہے۔جمیل الدین عالی نے درجنوں ملی نغمے لکھے اور ایک سے بڑھ کر ایک لکھے۔ جیسے، جْگ جْگ جیے میرا پیارا وطن، جیوے جیوے جیوے پاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانو، اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد۔۔ تاہم جو ملی نغمہ ان کی پہچان بنا وہ ’جیوے جیوے پاکستان‘ تھا۔جمیل الدین عالی 'پاکستان رائٹرز گلڈ' کے اعلیٰ عہدوں پر رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو سے بھی وابستہ رہے اور ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے کام کرتے رہے۔ پاکستان کے معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک وہ باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جن کا مجموعہ ’ دعا کرچلے‘ اور ’صدا کرچلے‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔جمیل الدین عالی جس طرح ملی نغموں میں سب سے برتر رہے وہیں دوہوں میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ یہ ان کا خاص میدان طبع تھا اور اس کے وہ بے تاج بادشا ہ تھے۔جمیل الدین عالی نے1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقے این اے 191 سے انتخاب لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وہ ایم کیو ایم کی طرف سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔انہیں حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات پر ”ہلال امتیاز“ اور” تمغہ حسن کارکردگی“ سمیت کئی ایوارڈز سے نوازا۔-جمیل الدین عالی کے لکھے گئے مشہور ملی نغمے آج بھی لوگوں کے دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں۔بیس جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے شاعر و ادیب جمیل الدین عالی کا نام کسی تعریف کا محتاج نہیں،جن کے لکھے گئے خوبصورت ملی نغموں میں شہناز بیگم کی ایواز میں گایا ہوا جیوے جیوے پاکستان، نصرت فتح علی خان کی ایواز میں "میرا انعام پاکستان،"،،،نور جہاں کی آواز میں "اے وطن کے سجیلے جوانوں"،مہدی ظہیر کی آواز میں "ہم مصطفٰوی مصطفٰوی ہیں"،علن فقیر کی آواز میں "اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا"اور نئیرا نور کی آواز میں "جو نام وہی پہچان پاکستان پاکستان" کو نہ صرف پزیرائی ملی،بلکہ یہ نغمے آج بھی ہر عمرکے لوگوں کی زبان پر نقش ہیں۔جیوے جیوے پاکستان اور ایسے ہی کتنے ملی اور قومی نغموں کے خالق ،اردو کے محسن، ادب میں تہذیب کی روایت امین اور شعر سے عشق کرنے والے جمیل الدین عالی تئیس نومبر کو کراچی میں لگ بھگ نوے سال کی عمر میں وفات پا گئے اور چوبیس نومبر کو انکی نماز جنازہ کراچی میں ادا کر کے احباب نے انکو اسی مٹی کے حوالے کر دیا جس کے خمیر سے خالق نے انکو گوندھا تھاعالی جی نے یوں تو ساری عمر سرکاری نوکری کی لیکن سرکاری رعب اور سرکاری بدعنوانی ان پر غالب نہ آ سکی، وہ پاکستان کی سینٹ میں سینٹر بھی بنے لیکن سیاسی مکروہ پن سے دور رہےنقاد ، دانشور ، شاعر ، کالم نگار اورادیب کے طور پر انہوں نے اپنی الگ شان اور منفرد مضبوط ادبی حثیت کو منوایا ،وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے  کم عمری میں والد کا انتقال ھوگیا تھا اس لیے انکی والدہ عالی جی سے بہت پیار کرتی تھیں اور اب باری آگئ اللہ کی بارگاہ میں  حاضری عالی جی کی ممتاز شاعر اور نقاد، پروفیسر سحر انصاری نے کہا ہے کہ جمیل الدین عالی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی، ان کی علمی و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیگم انیس انور دہلوی میموریل سوسائٹی اور گل رنگ ادب پاکستان کے اشتراک سے اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر جمیل الدین عالی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کے مہمان خصوصی ماہر نفسیات ڈاکٹر مبین اختر جبکہ مہمان اعزازی معروف شاعر اور سائنس داں ظفر محمد خان ظفر تھے۔ میزبان تقریب ڈاکٹر حسن وقار گل نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ جدہ میں مقیم پاکستان کے معروف شاعر، خطاط اور مصور انور انصاری نے بطور خاص شرکت کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اور رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ پروفیسر اظہار حیدری، اوج کمال، فہیم انجم اور آصف علی نے عالی صاحب کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔

محفل مشاعرہ میں صاحب طدر کے علاوہ جن شعراء نے کلام سنایا ان میں ظفر محمد خان ظفر، انورانصاری، اظہارحیدری، حسن وقار گل، راشد نور، قیصر وجدی، ڈاکٹر نزہت عباسی، رشید خان رشید، محمد علی گوہر، ڈاکٹر جاوید، محمد علی سوز، کامران محور، اسامہ امیر اور تاج علی رعنا شامل تھے۔ ڈاکٹر مبین اختر نے عالی صاحب کی وفات کو ایک قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالی جی دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر اوج کمال نے جمیل الدین عالی کی شخصیت اور زندگی کے ان گوشوں کا ذکر کیا جو اب تک عام قاری اور نظروں سے اوجھل ہیں۔ ڈاکٹر حسن وقار گل نے کہا کہ عالی جی کے ’’دوہوں‘‘ کو اردو دوہا نگاری میں ایک سنگ میل تسلیم کیا گیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری نے کہا کہ عالی صاحب کی حکیمانہ شاعری کے قدیم اور جدید تصورات ہمیں دور دور تک نظر آتے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ عالی جی نے اپنی نظموں سے اپنے قاری کو تہذیبی زندگی کا ایک ایسا تاب ناک شعور دیا ہے جو قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر نسرین شگفتہ نے کلمات تشکر ادا کئے۔

جمعرات، 2 مارچ، 2023

پاکستان میں بیروزگاری کی عفریت

   میری نظروں کے سامنے ایک چونکا دینے والا منظر تھااسلام آباد پولیس فورس کے تحریری امتحان میں شرکت کرنے والے سال 2022ء کے آخری روز،اسلام آباد پولیس فورس میں کانسٹیبل (بی ایس-07) کی اسامیوں کے لیے تحریری امتحان منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے 30 ہزار سے زائد مرد اور خواتین امیدواروں نے شرکت کی۔جس اسٹیڈیم میں یہ امتحان ہوا وہ اس طرح بھرا ہوا تھا گویا وہاں فٹ بال کا میچ شروع ہونے والا ہو۔ یہ 30 ہزار سے زائد افراد صرف ایک ہزار 667 اسامیوں کے لیے امتحان دے رہے تھے۔ اسٹیڈ یم میں  جگہ بھر جا نے  کے بعد سیکڑو ں امیدوا ر ذمین پر بیٹھے دکھا ئ د ے رہے ہیں -اس ملازمت کے لیے نشستیں اوپن میرٹ پر مختص کی جاتی ہیں جبکہ علاقائی کوٹے میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مزید تقسیم کی جاتی ہے۔ 

امتحان میں شرکت کرنے کے لیےامیدواروں کا میٹرک پاس ہونا شرط ہے۔ اگر وہ جسمانی امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ہی انہیں شارٹ لسٹ کر کے تحریری امتحان کے لیے بلایا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر اسامی کے لیے جسمانی امتحان کی شرط نہیں ہوتی تو امتحان میں بیٹھے امیدواروں کی تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی۔ یہ واقعہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس مواقع کتنے محدود ہیں اور انہیں کیا مسائل درپیش ہیں۔خواتین اور مخنث افراد کو ملازمت کے حصول میں خاص رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ثقافتی اور قانونی دفعات ان لوگوں کے لیے جائیداد کی ملکیت اور کاروبار شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تاہم حکومت نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے چند ٹیکس اقدامات بھی متعارف کروائے ہیں۔مثال کے طور پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کےدوسرے شیڈول کی شق 19 فنانس ایکٹ 2021ء کے ذریعے یہ سہولت دیتی ہے کہ خواتین کی ملکیت میں چلنے والے کاروبار کے منافع پر ٹیکس ادائیگی کو 25 فیصد تک کم کیا جائے۔ تاہم ٹیکس میں کمی کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ کاروبار ایک اسٹارٹ اپ ہو جو یکم جولائی 2021ء کے بعد شروع کیا گیا ہو۔ مزیدبرآں اس شق سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کاروبار کو کسی دوسرے کے نام پر منتقل کرنے یا پہلے سے موجود کاروبار کی تنظیمِ نو ممنوع ہے۔۔

پاکستان کو اس وقت جن بڑے معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کے بارے میں تجربہ کار ماہرینِ اقتصادیات، سابق وزرائے خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے گورنرز میڈیا میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ تاہم روزگار پیدا کرنے اور اس کی فراہمی جیسے مسائل کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ شاید ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم اس وقت قرضوں کی ادائیگی، معاشی اتار چڑھاؤ اور دیوالیہ ہونے کے خطرے جیسے بڑے اقتصادی مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔

پاکستان میں نجی شعبہ ہی روزگار کے حوالے سے پائیدار حل پیش کرسکتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی حلقے نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول پیدا کریں جس میں نجی شعبہ ترقی کرسکے۔لیکن کچھ انفرااسٹرکچر اور ریگولیٹری رکاوٹیں نجی شعبے کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار سے محروم ہے۔پاکستانی نوجوانوں کے لیے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع توانائی کے بحران، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں کم سرمایہ کاری اور غیر مستحکم سیاسی صورتحال جیسے عناصر کی وجہ سے محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کو درپیش ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک کی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ انتہائی کم آمدنی میں خطرناک اور ناقص حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔پاکستان میں شاید نوجوانوں کی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ 18 سے 25 سال کی عمر کے نوجوانوں میں مہارت کی عدم مطابقت ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم اور ہنر تک رسائی سے محروم ہے جو انہیں مسابقتی مارکیٹ میں روزگار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ رسمی تعلیم اور دوران ملازمت تربیت نوجوان گریجویٹس کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کی مدد سے ایک منظم نصاب تیار کرے جو زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار کے حصول کے قابل بناسکے--آسان ٹیکس شرائط کے علاوہ کاروباری خواتین کو تربیت اور مشاورت کے ذریعے کاروبار شروع کرنے کے حوالے سے آگہی بھی دینی چاہیے۔ نئے کاروباروں کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کرکے ملک میں روزگار کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ طلبہ اور گریجویٹس کی کاروباری سرگرمیوں میں منظم طریقےسے ان کے ساتھ تعاون کرنے سے نہ صرف انہیں اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ملازمتیں پیدا کرنے کا موقع ملے گا۔پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30سال سے کم عمر ہے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم ہے جنہیں روزگار نہیں دیا گیا تو اس کے ریاست، معاشرے اور معیشت پر سنگین اثرات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پہلےسے مایوسی کا شکار ہمارے معاشرے میں مزید ناامیدی کے بادل چھائیں گے۔

سال 2021ء میں پاکستان کے ادارہِ شماریات کی جانب سے شائع کردہ لیبر فورس سروے میں بےروزگاری مں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ نوجوانوں کو ملازمت کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس کے پیچھے ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوان اپنی تعلیم اور ہنر کے مطابق نوکری نہ ملنے کے باعث کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد پولیس میں بھرتی کے لیے امیدواروں کے ہجوم نے بھی اسی رجحان کی عکاسی کی ہے۔حکومت کے پاس موجود اعدادوشمار کے ذریعے مسائل کی شناخت کرکے ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے انسانی سرمایہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آڈیولپمنٹ اکانومکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور ڈائریکٹر درِنایاب کی تحقیق ’پاکستانز اپورچنیٹی ٹو ایکسیل: ناؤ اینڈ دی فیوچر‘ میں لیبر فورس سروے کا بغورجائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں بتایا گیا کہ پاکستان میں یونیورسٹی سے گریجویٹ طلبہ میں بےروزگاری کی شرح 31 اعشاریہ 2 فیصد ہے۔اعلیٰ تعلیم کی طلب میں اضافے اور نوکریوں میں کمی کے باعث ملک میں بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان رابطے کی کم جانب اشارہ ہے۔  

ملک کی گرتی ہوئی معیشت، کمر توڑ مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور دوبارہ سر اٹھاتے دہشتگردی کے عفریت کے پس منظر میں ملک میں   سیاست کی جارہی ہے  ۔اقتدار کے حصول کی کوشش سیاست کا ایک لازمی جز ہے کیونکہ سیاستدان اور ان کی جماعتیں ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد ہی اپنے وعدوں کو پورا کرسکتی ہیں اور اپنے منشور پر عمل درآمد شروع کرسکتی ہیں لیکن یہ کوشش جمہوری اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے اور اسے زمینی حقائق سے الگ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ماہرِ تعلیم فیصل باری نے جمعے کے روز ڈان میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا کہ لوگوں کو کس طرح کی معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور یہاں تک کہ ماضی میں جو طبقات معاشی بدحالی سے محفوظ تصور کیے جاتے تھے وہ بھی ان مشکل معاشی حالات کے اثرات برداشت کررہے ہیں۔اب تو ماہانہ لاکھ روپے کے آس پاس کمانے والے لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں تو سوچیے کہ 30 فیصد مہنگائی میں کم آمدن والے یا بے روزگار افراد کا کیا حال ہوگا۔میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اس دور میں 4 لوگوں کا خاندان کم از کم ماہانہ آمدن سے دوگنے یعنی 50 ہزار روپے میں بھی کس طرح گزز بسر کرسکتا ہے (میں اور آپ دونوں ہی یہ بات جانتے ہیں کہ کئی لوگ اس کم از کم تنخواہ سے بھی کم کماتے ہیں)۔ ان لوگوں کو گھروں کے کرائے، پانی، بجلی، گیس کے بل اور بچوں کے اسکول کی فیسیں دینی ہیں اور پھر انہیں گھر والوں کا پیٹ بھی بھرنا ہے۔ یقیناً ان لوگوں کو سخت جدوجہد کرنی پڑتی  ہے -موجودہ حکومت نے عوام کو خون کے آنسو رلائے ہیں  

 لوگ بتا رہے ہیں کہ انہیں کم کرائے کے گھروں میں منتقل ہونا پڑا اور اپنے بچوں کو نسبتاً سستے اسکولوں میں داخل کروانا پڑا لیکن پھر بھی ان کا گزارا مشکل سے ہی ہورہا ہے۔۔افراطِ زر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہے کہ معاشی اعتبار سے نچلے طبقے کے افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی اسکیموں کے تحت دی جانے والی براہِ راست نقد سبسڈی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتائیں کہ یہ معمولی نقد رقم کتنے دنوں تک ایک غربت زدہ خاندان کے لیے صرف کھانے کا انتظام بھی کرسکے گی۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سیاسی رہنما چاہے ان میں وہ لوگ ہوں جنہیں بدعنوان کہا جاتا ہے یا پھر وہ جن کے پاس ’صادق‘ اور ’امین‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے، ایک دوسرے کے خلاف اپنی متعصبانہ روش کے ساتھ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسا اس دوران بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے گوچی جوتوں، ییزی ٹرینرز اور برکن ہیڈ بیگ جیسی مہنگی اشیا اور 40 ایکڑ پر بھیلی جائیداد کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ کفایت شعار سیاستدان بھی ایس یو ویز میں سفر کرتا ہے ۔ تو یہ بات درست ہے کہ یہ لوگ غریبوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کو کسی اور طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غریبوں کو نعرے لگانے والوں کے علاوہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ اس نظام کو ملک کی سول ملٹری اشرافیہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے تیار کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ جبکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ایک پریشانی سے نکلتے ہیں تو دوسری پریشانی ان کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور وہ ایک سے دوسرے دن تک پہنچنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔معلوم نہیں ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے آرام دہ مقامات سے دیکھ سکتے ہیں یا نہیں لیکن صورتحال تیزی سے ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہے یا پھر ہوگئی ہے۔ سراسر نرگسیت سے لے کر مادی لالچ اور شان و شوکت تک جو کچھ بھی ہمارے لیڈروں کو متحرک کرسکتا ہے، اب انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بنیادی تنظیمِ نو ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور یہ کہ کرائے کی معیشت سے فائدہ اٹھانے والی اشرافیہ کے دن ختم ہوچکے ہیں۔

اب اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تمام سیاسی رہنماؤں کو، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا نہ ہوں، ساتھ بیٹھنے اور معیشت کے بحالی کے اقدامات پر اتفاق کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کرنا ہوگا جس سے ترقی میں اضافہ، روزگار کے مواقع بڑھیں، برآمدات میں اضافہ ہو اور ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ہو جو ہماری اکثر مشکلات کی وجہ ہے۔کسی بھی معاشی پالیسی کا اوّلین مقصد غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں لیکن اس نظام سے باہر بیٹھے شخص کے لیے یہ دونوں ہی قصور وار ہیں کیونکہ جب دُور رس فیصلے کرنے کی گنجائش موجود تھی تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا

-

بدھ، 1 مارچ، 2023

پاکستان میں طاقت اور جبروت کی علامت سرداری نظام

 

 

پاکستان میں طاقت اور جبروت کی علامت سرداری نظام

’یہ بڑا دن ہے، اس کو سلام کرو۔ اب جناب، یہاں سردار نہیں رہے۔۔۔ تو جناب، اب سرداری چاہتے ہو تو جاؤ ہندوستان، سردار جی کے پاس۔۔۔۔ اور اگر سرداری چاہتے ہو تو جاؤ افغانستان، سردار داؤد کے پاس۔ یہاں تو سرداری ختم ہو گئی۔ کل پورے پاکستان میں چھٹی ہو گی۔‘یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جو کوئٹہ کے ایوب سٹیڈیم میں عوام کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔یہ الفاظ ابھی انھوں نے ادا کیے ہی ہوں گے کہ ایک دھماکہ ہوا۔ عوامی انداز رکھنے والے رہنما نے دھماکے کی آواز سنی۔ اس سے پہلے کہ ہجوم خوفزدہ ہو کر بکھرنے لگتا، لوگوں نے بھٹو کی جانی پہچانی پر جوش آواز سنی: ’یہ پٹاخہ خیر بخش مری کا ہے۔۔۔ اب دوسرے پٹاخے کا انتظار کرو۔‘ 

یہ الفاظ ابھی ان کی زبان پر ہی تھے کہ ایک اور دھماکہ ہو گیا۔ دوسرے دھماکے کی آواز سنتے ہی انھوں نے کہا: ’یہ خیر بخش مری کا پٹاخہ ہے، اب تیسرے کا انتظار کرو۔‘زرا سی دیر میں تیسرا دھماکہ بھی ہو گیا جسے انھوں نے میر غوث بخش بزنجو سے منسوب کیا۔ممتاز بلوچ دانشور اور مؤرخ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اس واقعے کے بارے میں مجھے بتایا ’نہیں معلوم یہ دھماکے کس نے کرائے، ہو سکتا ہے کہ اسی نے کرائے ہوں جس نے ان کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کی لیکن دھماکوں کا یہ واقعہ اور اس کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کے یہ جملے اس زمانے میں زبان زد عام ہو گئے۔‘

یہ آٹھ اپریل 1976 کی بات ہے جب پاکستان میں سرداری نظام ختم کیا گیا۔

سیاسی مؤرخ احمد سلیم نے اپنی کتاب ’بلوچستان: آزادی سے صوبائی بے اختیاری تک‘ میں وزیر اعظم بھٹو کی اس تقریر کا مکمل متن شائع کیا ہے۔ انھوں نے اس تقریر میں بہت کھل کر بتایا کہ وہ کیوں اس نظام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس تقریر میں انھوں نے اپنے اس فیصلے کی تین وجوہات بیان کی تھیں۔

1- ششک۔ یہ لفظ بلوچی زبان میں چھٹے حصے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اصطلاح تھی جو بلوچ معاشرے میں صدیوں سے چلی آتی تھی جس کے تحت ہر کاشت کار کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی زرعی پیدا وار کا چھٹا حصہ سردار کو پیش کرے۔ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ 1970 میں اپنے انتخابی منشور میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ششک جو ایک ظالمانہ روایت ہے، اس کا خاتمہ کر دے گی لیکن اس نے یہ نہیں کیا۔

2- ذوالفقار علی بھٹو کے مطابق دوسری وجہ زرعی اصلاحات بنی۔ اس سلسلے میں بلوچستان کے سرداروں نے بھٹو حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ پورے ملک کے زمین داروں نے اس سلسلے میں قوانین کی پاس داری کی اور زرعی اصلاحات کے سلسلے میں تمام شرائط پوری کر دیں لیکن بلوچستان کے سرداروں نے مزاحمت کی۔بھٹو نے اس تقریر میں بتایا کہ مزاحمت کرنے والے سرداروں کی تعداد 22 تھی۔ 

3- سابق وزیر اعظم نے اس کی تیسری وجہ یہ بتائی کہ بلوچستان کے یہ سردار پٹ فیڈر کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ انھوں اس مقصد کے لیے جعلی دستاویزات پیش کی تھیں۔سابق وزیر اعظم کے خیال میں یہ تین وجوہات تھیں جس کے باعث انھوں نے اس نظام کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ کتنا مؤثر ثابت ہوا اور بلوچستان کی معاشرت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ یہ کوئی ایسا پیچیدہ سوال نہیں۔ بلوچستان کے امور کو سمجھنے والی شخصیات اور خود بلوچ دانشوروں کی آرا میں اس سلسلے میں زیادہ فرق نہیں لیکن اس معاملے کی تفہیم ممکن نہیں جب تک سرداری نظام کی بنیاد کو نہ سمجھا جائے۔

ڈاکٹر عطا محمد مری نے اپنی کتاب ’بلوچ قوم: قدیم عہد سے عصر حاضر تک‘ میں سرداری نظام کے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ اس نظام کے خد و خال اگر چند الفاظ میں بیان کیے جائیں تو ڈاکٹر عطا محمد مری کے الفاظ میں اس کی صورت یہ ہو گی:

’سردار لا شریک ہوتا ہے‘ڈاکٹر مری کے اس جملے سے بلوچستان کے سردار کی طاقت اور جبروت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اسے یہ قوت کیسے میسر آتی ہے۔ ڈاکٹر مری کے مطابق خطہ بلوچستان کی ایک فطری اور تاریخی کمزوری نے اس یہ طاقت فراہم کی۔

وہ لکھتے ہیں کہ بلوچستان روائتی طور پر ایک کمزور ’ملک‘ رہا ہے جہاں کوئی مرکزی اتھارٹی کبھی نہیں رہی۔ یہی سبب تھا کہ اس خطے میں چھوٹے چھوٹے معاشرے مل کر ایک کنفیڈریشن کی شکل اختیار کر گئے۔ سرداری نظام کو اس کنفیڈریشن کو وجود میں لانے والی اکائیوں کو تشکیل دینے والے عناصر ترکیبی سے سمجھنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ہر انسانی معاشرے کی طرح فطری طور پر بلوچستان میں بھی سماج کی بنیادی اکائی فرد سے ہی تشکیل پاتی ہے جو فطری طور پر کسی خاندان کی نمائندگی کرتا ہے۔

ناگزیر ہے کہ اس خاندان کی قیادت کوئی بزرگ یعنی سفید باریش شخص کرے۔ بلوچ معاشرے میں اسے ’پیرہ مرد‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مختلف خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے پیرہ مردوں کے اجتماع سے ایک اور ادارہ وجود میں آتا ہے جو 'پیریں مرد' کی قیادت میں کام کرتا ہے۔ اس قبائلی معاشرے میں اس پیریں مرد کا مقام سب سے بلند ہے اور یہی سردار ہے۔

اس نظام میں سردار کی حیثیت کیا ہے؟ ڈاکٹر مری لکھتے ہیں ’اس ساری درجہ بندی کی چوٹی پر سردار بیٹھا ہے۔ اس کا ہمسر اور اس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ لاشریک ہوتا ہے اور قبیلے پر اپنا اثر اپنے ماتحتوں یعنی وڈیروں کے ذریعے برقرار رکھتا ہے۔‘

یہ شخص ایک عام بلوچی کے مقابلے میں کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ اس کی جان کی قیمت سے ہوتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں اگر ایک عام بلوچ کا خون بہا دو ہزار روپے تھا تو اس کے مقابلے میں سردار کا خون بہا آٹھ ہزار روپے تھا۔سردار کو قبیلے میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے اور ہر قسم کے انتظامی معاملات کی انجام دہی کے لیے لا محدود اختیارات حاصل تھے۔ سردار کی اپنی ذاتی جیل ہوا کرتی جس میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا۔ یہاں تک کہ انھیں خوراک بھی نہ دی جاتی۔ لوگ خیرات میں انھیں خوراک دیتے یا بھاری بھرکم لکڑیاں پھاڑنے کے معاوضے کے طور پر انھیں کھانے پینے کو کچھ ملتا۔

سردار کی پولیس سوار کہلاتی جو آریہ عہد کے حکمرانوں کا تسلسل تھی۔ سوار کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی جس پر سردار کی مہر ہوتی۔ یہ چھڑی سوار کو نہ صرف ناقابل گرفت بنا دیتی بلکہ اسے احکامات جاری کرنے کا اختیار بھی مل جاتا۔ لیویز اسی سوار کی جدید شکل تھی۔ڈاکٹر مری نے اس سردار کے ذہنی جذباتی اور سیاسی رجحانات پر دلچسپ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 'سردار ہی وہ سرچشمہ ہے جہاں سے سیاسی، ثقافتی، اور معاشی اختیارات کے دریا پھوٹتے ہیں، وہ اپنی اتھارٹی کو برقرار رکھنا بھی جانتا ہے اور ایسا کرنے کی قوت بھی رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کہنے کو تو اس کے قبائل بہت روشن فکر، جمہوری اور ترقی پسند ہوتے ہیں۔

مگر دراصل یہ روایت اور قبائلیت میں بنیاد پرست اور سماجی برتاؤ میں بہت ہی قدامت پسند ہوتے ہیں۔ وہ غیرت کی دھن پر جان لیوا رقص کرتے ہیں اور وطن کے خطرے میں وجد میں آتے ہیں اور اگر برطانوی، امریکی اور پنجابی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی صدا دو تو پوری غیور قوم آپے سے باہر ہو کر مکمل مجنوں بن جاتی ہے۔

اس نظام میں قبیلے کی سیاست، معیشت اور معاشرت تو ہوتی ہی سردار کے تابع ہے لیکن علم و ہنر اور زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضے بھی سردار کی چشم ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ڈاکٹر مری کے الفاظ میں:’غربت قسمت کا لکھا بن جاتی ہے، علم بے غیرتی ہو جاتا ہے اور انصاف سردار کی خشم آلود نگاہوں کی باندی بن جاتا ہے۔‘اے لٹریری ہسٹری‘ میں محمد سردار خان بلوچ نے لکھا ہے کہ اس معاشرے میں علم و ہنر اور لڑیچر کچھ موسمی اور طبی ٹوٹکوں سے بڑھ کر نہیں ہوتا اور تلوار، ڈھال، تیر کمان کے مقابلے میں فلسفہ، سائنس اور سیاسی نظریات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔

ایک پاکستانی کی حیثیت سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آج کے روشن زمانے میں کیا کوئ بلوچستان کو پسماندگی دور کرنے کے لئے کوئ قدم اٹھا سکتا ہے

 

 

منگل، 28 فروری، 2023

ا و ر پھرکشتی ڈوب گئ

 

اٹلی کے قریب کشتی حادثے میں کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کا خدشہ ’دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں‘اٹلی کے جنوبی

 علاقے میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں بچوں سمیت 100 افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 12 بچوں سمیت 62 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہونے

 والی کشتی میں 200 کے قریب افراد سوار تھے۔ اتوار کے روز یہ کشتی اس وقت تباہ ہو گئی جب اس نے اٹلی کے جنوبی علاقے کروٹون میں لنگر انداز ہونے کی

 کوشش کی۔کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔ سرکاری زرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے کم ازکم چار پاکستانیوں کی

 شناخت کی جا چکی ہے جن کا تعلق پنجاب کے علاقے گجرات اور راولپنڈی سے بتایا جارہا ہے۔یہ کشتی کئی دن قبل ترکی سے روانہ ہوئی تھی اور اس میں افغانستان،

 پاکستان، صومالیہ اور ایران کے باشندے سوار تھے۔ کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ 80 افراد زندہ پائے گئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب بھی کچھ افراد لاپتہ ہیں۔

 زندہ بچ جانے افراد میں کچھ ایسے بھی جو گشتی ڈوبنے کے بعد خود ساحل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔

جبکہ اٹلی میں پاکستان کے سفیر علی جاوید نے کہا ہے کہ کشتی حادثے میں کتنے پاکستانی جاں بحق ہوئے، ابھی تصدیق نہیں کر سکتے۔ جیو نیوز سے گفتگو میں علی جاوید

 کا کہنا تھاکہ کلابریا کے ساحل پرکشتی ڈوبنے کے واقعے میں 16 پاکستانیوں کو ریسکیوکیاگیا اور انہوں نے بتایا کشتی پر 20 پاکستانی سوار تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ڈوبنے

 والی کشتی پر سوار مزید 4 پاکستانی تاحال لاپتہ ہیں، کشتی حادثے میں کتنے پاکستانی جاں بحق ہوئے، ابھی تصدیق نہیں کر سکتے۔ پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ پاکستان

 کے نائب سفیر فرحان احمد نے متعلقہ جگہ کا دورہ کیا ہے۔ ڈوبنے والی کشتی پر مبینہ طور پر 40 پاکستانی سوار تھے، 12 لاپتہ ہیں: پاکستانی سفارتخانے کا بیان ان کا کہنا

 تھاکہ ڈوبنے والی کشتی پر سوارپاکستانیوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غیرمصدقہ معلومات زیرگردش ہیں لہٰذا پاکستانی عوام اطالوی ساحل پرکشتی حادثے میں

 غیرمصدقہ معلومات پرکان نہ دھریں۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز ترکیہ سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی

 جس کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 59 افراد ہلاک ہوئے اور کئی لاپتہ ہیں۔

سفارتخانے نے ابتدائی طور پر 28 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی اور 12

 لاپتہ قرار دیے تھے۔ مزید خبریں :./ فوٹو اے ایف پی اٹلی میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ پر روم میں پاکستان کے سفارت خانے نے ورثا کیلئے ہیلپ لائن قائم کر دی۔

 پاکستانی سفارتخانے کے مطابق ورثا معلومات کے لیے واٹس ایپ نمبر 393898716588+ پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ کشتی میں 120 سے زائد افراد سوار تھے

 جن میں سے 81 کو بچا لیا گیا، باقی کی تلاش کا کام جاری ہے: اٹلی حکام پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اٹلی میں کلابریا کے ساحل پر ڈوبنے والی کشتی

 پر مبینہ طور پر 40 پاکستانی سوار تھے جن میں 28 کی لاشیں مل چکیں اور 12 لاپتا ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کے مطابق اطالوی حکام اور میری ٹائم ایجسنیوں

 سمیت کلابریا میں پاکستانی کمیونٹی اور رضا کاروں سے بھی رابطے میں ہیں۔ مزید خبریں :.فوٹو: ای پی اے روم: اٹلی میں تارکین وطن کی کشتی کو حادثے میں 28

 پاکستانیوں سمیت 58 تارکین جاں بحق ہوگئے۔

 غیر ملکی میڈیا کے مطابق اٹلی کے صوبے کروٹون میں جنوبی ساحل کے قریب ناہموار سمندر میں 140 سے زائد

 تارکین وطن کو لیجانے والی کشتی چٹانوں سے ٹکراکر تباہ ہوگئی جس کے نتیجے میں بچوں سمیت کم از کم 58 افراد ہلاک ہوگئے۔ لکڑی کی یہ کشتی کئی روز قبل ترکی

 سے روانہ ہوئی تھی جس میں افغانستان اور دیگر کئی ممالک کے لوگ سوار تھے، مقامی حکام کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 58 ہے جبکہ 81 افراد کو زندہ بچالیا

 گیا ہے جن میں سے 20 کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشتی میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے تارکین وطن سوار تھے، مرنے والوں

 میں ایک شیرخوار بچی اور متعدد بچے شامل ہیں۔ پاکستانیوں کا تعلق گجرات ،کھاریاں، منڈی بہائوالدین سے بتایاجارہا ہے۔ پاکستان میں والدین اپنے بیٹوں کی

 لاشوں کے منتظر ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر ڈوبنے والے بحری جہاز میں پاکستانیوں کی ممکنہ موجودگی سے متعلق رپورٹس

 پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، روم میں پاکستان کا سفارتخانہ اطالوی حکام سے حقائق جاننے کے لئے رابطے میں ہے۔ واضح رہے کہ سمندری راستے سے یورپ میں

 داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کے لیے اٹلی ایک اہم لینڈنگ پوائنٹ ہے جہاں وسطی بحیرہ روم کے راستے کو دنیا کے خطرناک ترین راستوں

 میں شمار کیا جاتا ہے۔ تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم مسنگ مائگرینٹ پروجیکٹ کے مطابق 2014 سے ابتک وسطی بحیرہ روم میں کم از کم 20 ہزار 333

 افراد جاں بحق اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔

 ترکی سے اٹلی جانے والے غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر ڈوب گئی جس کے

 نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 58 افراد ہلاک ہوگئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق غیرقانونی مہاجرین کی کشتی ترک شہر ازمیر سے اٹلی جاتے ہوئے گہرے سمندر

 میں حادثے کا شکار ہوئی۔ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غیرقانونی مہاجرین کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہوئی اور اس کا ملبہ آج اٹلی کے ساحل پر پہنچا۔

 اٹلی کے حکام کے مطابق کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 58 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے جبکہ ہلاک غیرقانونی مہاجرین کا تعلق پاکستان،

 افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کئی افراد کی لاشیں تیرتے ہوئے ساحل پر پہنچیں، کشتی میں 120 سے زائد افراد سوار تھے جن میں سے 81 کو

 بچا لیا گیا ہے اور باقی کی تلاش کیلئے سمندر میں آپریشن جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ 22 افراد اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر حادثے کا

 شکار ہونے والی کشتی میں سوار مبینہ پاکستانیوں کی تصاویر اور دیگر دستاویزات زیر گردش ہیں تاہم اس کی مصدقہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے

واضح رہے کہ غربت یا دیگر وجوہات کی وجہ سے سالانہ ایک بڑی تعداد میں لوگ افریقہ کی جانب سے اٹلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان کے

 دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ممکنہ موجودگی کی خبروں سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ

 لے رہے ہیں۔دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ روم میں پاکستانی سفارت خانہ اطالوی حکام سے واقعے کے حقائق جاننے کے عمل میں مصروف ہے۔دوسری جانب

 پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ 

’اٹلی میں کشتی کے حادثے میں دو درجن سے زیادہ پاکستانیوں کے ڈوبنے کی خبریں

 انتہائی تشویشناک ہیں۔ میں نے دفتر خارجہ کو ہدایت کی ہے کہ جلد ازجلد حقائق کا پتا لگایا جائے اور قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔‘کشتی کے حادثے میں ڈوبنےوالوں

 کو بچانے کے لیے جب امدادی کارروائیاں جاری ہیں اس وقت اسولا ڈی کاپو ریزوٹو قصبے کے ایک عارضی استقبالیہ مرکز میں کمبلوں میں لپٹے ہوئے افراد رو رہے

 تھے۔خیراتی ادارے میڈیسنز سانز فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے سرجیو ڈی داٹو کا کہنا ہے کہ 'وہ شدید صدمے کا شکار ہیں۔ ''کچھ بچوں نے اپنے

 پورے خاندان کو کھو دیا ہے۔ ہم انہیں ہر ممکن مدد کی پیش کش کر رہے ہیں۔ "افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک 16 سالہ لڑکا ساحل پر اپنی 28 سالہ بہن کی

 لاش کے قریب بیٹھا ہوا ہے اور اس میں اپنے والدین کو بتانے کی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کو بتائے کہ ان کی بیٹی مر چکی ہے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک 43 سالہ شخص اپنے 14 سالہ بیٹے کے ساتھ زندہ بچ گیا، لیکن اس کی بیوی اور اس کے تین دیگر بچے، جن کی عمریں 13، 9 اور

 5 سال تھیں، وہ زندہ نہیں رہے۔امدادی کارروائیوں میں مصروف ایک غیر سرکاری تنظیم ایس او ایس میڈیٹیرینی کے ترجمان فرانسسکو کریزو نے کہا''یہ ایک

 اور المیہ ہے جو ہمارے ساحلوں کے قریب ہو رہا ہے۔ وسطی بحیرہ روم کہ یہ ہم سب کو یاد دلاتا ہے کہ بحیرہ روم ایک بہت بڑی اجتماعی قبر ہے، جس میں ہزاروں

 جانیں ہیں، اور یہ مسلسل وسیع ہوتی جا رہی ہے۔

’ایسا سانحہ کبھی نہیں ہوا‘

بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی اس وقت ڈوب گئی تھی جب خراب موسم میں یہ سمندر میں موجود پتھروں سے ٹکرائی جس کے بعد بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن شروع

 کیا گیا۔ویڈیو فوٹیج میں کشتی کا ملبہ ساحل پر دیکھا جا سکتا ہے-زندہ بچ جانے والوں کو کمبل لپیٹے دیکھا گیا جن کی مدد ریڈ کراس کے اہلکار کر رہے تھے۔ ان میں سے

 چند کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔قصبے کے میئر انتونیو کیراسو نے رائے نیوز کو بتایا کہ ’اس سے پہلے بھی ساحل ہر لوگ اترتے ہیں لیکن ایسا سانحہ کبھی نہیں

 ہوا۔‘کسٹم پولیس نے کہا ہے کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک فرد کو انسانی سمگلنگ کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا ہے۔اطالوی وزیر

 اعظم جیورجیا میلونی، جو گذشتہ سال تارکین وطن کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے وعدے کے ساتھ منتخب ہوئی تھیں  

ڈوبنے والے 90 افراد میں سے 32 پاکستانی ہیں جن میں سے 12 کی نعشیں مل گئی ہیں جبکہ بقیہ کی شناخت اور لاشیں نکالنے کا عمل جاری ہے

لیبیا کے ساحل کے قریب سپین جانے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی کشتی کے حالیہ حادثے میں جو 90 افراد جان سے گئے ان میں سے 32 کا تعلق

 پاکستان سے تھا۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق ان میں سے 18 کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ صرف 12 کی ہی لاشیں مل پائی ہیں اور باقی افراد اب بھی لاپتہ

 ہیں۔وزارت خارجہ کی جاری کردہ فہرست کے مطابق ڈوبنے والے افراد میں سے چار کا تعلق گجرات کے ایک ہی خاندان سے ہے۔


بی بی سی نے ان کے اہل خانہ سے رابطہ کیا تو ان کے کزن بشیر چوہدری نے بتایا کہ کشتی میں دو بھائی، 35 سالہ رحمت خان اور 32 سالہ اسماعیل خان اپنی بیوی اور

 دو بچوں سمیت سوار تھے۔ان پانچ میں سے صرف رحمت خان ہی زندہ بچے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت نے لیبیا کے ساحل کے قریب تارکین

 وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں 90 افراد کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے تین افراد کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد پاکستانی تھےملنے والی دس لاشوں میں سے آٹھ پاکستانی شامل ہیں   کئ برسوں

 سے تارکین وطن لیبیا کو سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کے لیے اہم گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔واں برس جنوری میں وہاں 240 پاکستانی پہنچے

 جس کے بعد پاکستان تیسرے نمبر پر پہنچ گیا اگر موازنہ کیا جائے تو سمندر کے راستے جنوری 2017 میں فقط نو پاکستانی سمندر کے راستے اٹلی پہنچے تھے جبکہ اقوام

 متحدہ کے مطابق ساحل پر پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر حافظ آباد کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان اپنے بہتر مستقبل

 کی خواہش میں یورپ پہنچنے کا غیر قانونی راستہ اپناتے ہیں۔ اسی طرح اکیس سالہ علی ورک نے بھی پاکستان سے ایران، ترکی اور یونان تک غیر قانونی طریقے سے

 سفر کیا تھا۔ملنے والی دس لاشوں میں سے آٹھ پاکستانی شامل ہیں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر