پیر، 15 دسمبر، 2025

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

 مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیشان مسجدیں بھی تعمیر کی گئیں۔ مسجد مہابت خان، ایسی ہی شاندار مساجد میں سے ایک ہے جو مغلیہ دور حکومت میں پشاور کے حاکم مہابت خان نے تعمیر کروائی تھی چنانچہ یہ اسی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ مسجد پشاور شہر کے عین وسط میں واقع ہے اس کی کرسی بہت اونچی ہے اندر داخل ہونے کے لیے تین شاندار دروازے ہیں جن پر چڑھنے کے لیے تینوں طرف زینے لگے ہوئے ہیں     مغل سلاطین  نے دنیا   کےجن جن ملکوں میں اپنے قدم جمائے وہاں'وہاں  بڑے بڑے محلات،باغات، قلعے، دروازے، مساجد ومقبرے وغیرہ تعمیر کرائے لیکن  مساجد پر بالخصوص بہت دیدہ ریزی سے کام کیا - مسجد مہابت خان بھی اسی دور کی ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جو پشاورکے  قدیم تہذیب و تمدن اور تاریخی حیثیت کے حامل شہر  میں  قلعہ بالا حصار سے 50فٹ کے فاصلے پر اندرون شہر واقع ہے۔شہنشاہ شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں تعمیر کردہ 17ویں صدی کے مغل دور کے فنِ تعمیر کا ایک حسین شاہکار  ہے- یہ مسجد 1670ء میں مغلیہ دورِ حکومت میں کابل کے گورنر،مہابت خان نے تعمیر کروائ اور اسی کے نام سے منسوب کی گئ  ۔



 پشاور کے قدیمی گنجان آباد علاقے میں تعمیر شدہ یہ مسجد 30ہزار اسکوئر فٹ رقبے پر    پشاور میں قدیم فصیل بند شہر میں بنائ گئ ۔یہ  نا صرف ایک مغل شاہکاربلکہ ماہ مقدس میں نمازیوں کی توجہ کامرکز نگاہ بھی ہے -گل کاری اور عربی خطاطی کی آرائش سے مزین یہ مسجد غیر ملکی  سیاحوں  کو بھی متوجہ کرتی ہے-مسجد مہابت خان بالخصوص ماہِ رمضان کے دوران روحانیت کا ایک پررونق مرکز بن جاتی ہے ۔ مقدس ماہِ رمضان میں ہمیشہ نمازیوں کی ایک بڑی تعداد میں آمد ہوتی  ہے جب لوگ خصوصی نمازِ تراویح ادا کرتے ہیں جس میں تقریباً چار ہفتوں کے دوران مکمل قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے-مہابت خان مسجد اپنے مغل طرزِ تعمیر کی بنا پر نمایاں مقام کی حامل ہے جس میں ایک کشادہ صحن، نیلے رنگ کے ٹائلوں والا وضو کا تالاب اور گل کاری کے ڈیزائن اور عربی خطاطی کے ساتھ وسیع آرائش ہے۔اپنے تاریخی جوہر کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ بحالی کی اہم کوششوں سے گذری ہے۔ آج یہ ایک پررونق عبادت گاہ اور ایک ثقافتی ورثے کا مقام ہے جو زائرین کو اپنی شاندار تعمیراتی تفصیلات کی طرف راغب کرتی ہے اور پشاور کی بھرپور ثقافت کے ثبوت کے طور پر کام کرتی ہے  اس کے قدیم گنبد اور محراب دور دراز سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے تھے۔


مسجد مہابت خان 400 سے 450 سال پرانی ہے اور اس جگہ پر عرب اور دیگر ریاستوں سمیت بیرونی ممالک سے بہت زیادہ لوگ آتے ہیں۔"دوسرے ممالک سےآنے والے لوگ اس جگہ کا دورہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ایک تاریخی مسجد ہے۔ وہ اس کی تاریخ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہاں  ایسی جگہ بھی ہے۔ یہ ایک تاریخی مسجد ہے اور یہاں بڑی تعداد مین لوگ رمضان میں عبادت کرتے ہیں۔"پشاور کے ایک 31 سالہ رہائشی ضیاء الرحمٰن نے کہا کہ فصیل بند شہر میں آنے والے لوگ ہمیشہ اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خواہش کرتے تھے۔"رمضان میں وہ تمام لوگ جو ملحقہ سٹی بازار کی سیر کے لیے آتے ہیں ہمیشہ اپنی نماز پڑھنے مسجد میں آتے ہیں۔" ۔اس کا صحن 35 میٹر لمبا اور تقریباً 30 میٹر چوڑا ہے۔صحن کے درمیان میں ایک بہت بڑا حوض ہے۔ مسجد کی دیواروں اور گنبدوں کاشی کاری کے علاوہ نقش نگاری اور مرقع نگاری سے مزین کیا گیا ہے۔ مسجد کے 34 میٹر بلند و بالا میناروں کے درمیان 6 چھوٹے چھوٹے مینار بھی ہیں۔اس کی چھت پر کل 7 گنبد تعمیر کیے گئے ہیں جن میں 3 گنبد کافی بڑے ہیں۔اس میں داخل ہونے کے لیے دو دروازے ہیں، ایک آساماہی روڈ پرجبکہ دوسرا اندرون شہرمیں کھلتا ہے۔


جب کوئی شخص مسجد دیکھنے کے لیے دروازوں زینے پر چڑھ کر اندر داخل ہوتا ہے تو مسجد کے وسیع و عریض صحن کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے اس صحن کے درمیان میں ایک حوض ہے جس کے اندر فوارہ لگا ہوا ہے اور جس سے پانی اوپر کی طرف اچھل کر قطروں کی شکل میں یوں نیچے گرتا ہے جیسے چمکدار موتیوں کی بارش ہو رہی ہو۔ صحن کے ایک طرف کنواں ہے جسے سردیوں میں بند کر دیا جاتا ہے صرف گرمیوں میں کھولا جاتا ہے تب اس کا پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے جیسے برفیلے چشمے کا پانی ہو۔ مسجد کے طویل صحن کے بعد ایک دالان شروع ہوتا ہے یہ دالان بھی کافی لمبا چوڑا ہے اس میں ایک منبر ہے جس پر قاری صاحب بیٹھ کر خطبہ پڑھتے ہیں یہ خالص سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ پتھر کو تراش کر اس پر جو بیل بوٹے بنائے گئے ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسجد کے گنبد بھی سنگ مرمر کے بنے ہوئے ہیں ان کی رنگت اتنی سفید ہے کہ دن کے وقت جب دھوپ چمک رہی ہو تو ان پر نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ مسجد کے دونوں گوشوں پر دو بلند مینار ہیں جس کے اندرونی حصوں میں زینے بنے ہوئے
 ہیں

اتوار، 14 دسمبر، 2025

پاکستان کی مایہء ناز شخصیت حسن علی آفندی

 حسن علی آفندی 14 اگست 1830 کو حیدرآباد سندھ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔  ابھی بہت  بچپن کا دور تھا کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا   اب ان کی  پرورش ان کی والدہ اور بڑے بھائی نے کی۔ اپنے خاندان کی روایت کے مطابق، وہ قرآن پاک پڑھنے اور عربی اور فارسی سیکھنے کے لیے ایک مقامی مکتب میں داخل ہوئے۔ اس روایتی تعلیم کی تکمیل کے بعد انہیں نوشہرو کے ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں ملازمت مل گئی۔ وہاں اس کی اپنے ایک عیسائی ساتھی سے دوستی ہو گئی جس نے اسے انگریزی سیکھنے کی ترغیب دی۔اس وقت تک مسلمانوں کی اکثریت نے خود پر انگریزی زبان کو کسی بھی میڈیم میں استعمال کرنے کی پابندی تھی  جبکہ حسن علی آفندی کا نقطہء نظر مختلف تھا وہ جانتے تھے کہ انگریزی میں ادب اور علم کا بے پناہ ذخیرہ ہے جسے مسلمانوں کی علمی اور مادی ترقی کے لیے استعمال  کیا جانا چاہیے۔ لہذا، انہوں نے اپنے فرصت کے اوقات انگریزی سیکھنے میں صرف کیے اور اس میں مہارت حاصل کی۔ جیسے جیسے اسے انگریزی  وقت گزرا ویسے 'ویسے انہیں انگریزی زبان کے مطالعہ  کا بہت شوق ہو گیا، ۔یہ وہ وقت تھا جب زرائع  نقل و حمل بہت محدود ہوا کرتے تھے، کیونکہ سڑکیں ابھی تک تیار نہیں ہوئی تھیں اور زمینی راستے غیر محفوظ تھے۔



 اس وقت  انگریزوں نے 'انڈس فلوٹیلا' ایک خاص قسم کی کشتیوں پر مبنی نقل و حمل کا نظام قائم کیا۔ کراچی سے ساٹھ میل شمال میں  جھرک نامی دریائی بندرگاہ  پر انڈس فلوٹیلا کشتیوں   کا ہیڈ کوارٹر بنا یا گیا ۔ اس  جگہ   ایک بنیادی مستقل عملہ تھا جو اس وقت کسٹم اینڈ کلئرنس کے کا م کرتا تھا  ۔یہاں حسن علی آفندی  کو ایک جاب آفر کی گئ جس کو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا ۔1860 کی دہائی کے وسط میں جب حسن علی کی عمر تقریباً پینتیس برس تھی تو اس کی ملاقات صوبہ سندھ کی اعلیٰ ترین عدالت کے چیف جج مسٹر مڈلٹن سے ہوئی جسے ’’صدر کورٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم، جج نے رات بندرگاہ پر گزارنے اور اگلے دن دریا پار کرنے کا فیصلہ کیا۔ رات کے کھانے کے بعد جب سب فارغ  ہو گئے تو اس نے حسن علی کو تیل کے چراغ کی مدھم روشنی میں انگریزی کی کتاب پڑھتے دیکھا۔ تعارف ختم ہونے کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا۔ مختلف موضوعات پر حسن علی کی گرفت کے بارے میں جان کر جج کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ اسے یہ جان کر اور بھی حیرت ہوئی کہ وہ جس شخص سے بات کر رہا تھا وہ مسلمان تھا۔جج کو اپنی عدالت میں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو مقامی زبانیں جانتا ہو اور مسلم رسم و رواج سے بخوبی واقف ہو، 


کیونکہ عدالت کو مقامی زبانوں میں مسلمانوں کی طرف سے دائر درخواستوں کے مندرجات کو سمجھنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو عدالت کی معاونت کے لیے بالخصوص مسلمانوں سے متعلق معاملات میں مدد کرے لیکن ایسا شخص نہ مل سکا کیونکہ پورے صوبے میں اس کام کے لیے ایک بھی انگریز جاننے والا مسلمان دستیاب نہیں تھا۔ لیکن اب حسن علی میں اس نے اپنی ضرورت کے لیے ایک پرفیکٹ میچ ڈھونڈ لیا اور اسے فوری طور پر حسن علی کی موجودہ تنخواہ سے تقریباً دوگنی پر کراچی میں اپنی عدالت میں ملاقات کی پیشکش کی۔ انہوں نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے کراچی منتقل ہو گئے۔جب انہوں نے مل کر کام کرنا شروع کیا تو حسن علی نے جج کو اپنی قانونی ذہانت اور قانون کے باریک نکات پر گرفت سے اس حد تک متاثر کیا کہ جج نے انہیں قانون کی رسمی اہلیت کے بغیر بھی قانون پر عمل کرنے کی خصوصی اجازت دے دی۔ یہ حسن علی کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔یہ وہ وقت تھا جب پورے سندھ میں ان کے سوا ایک بھی مسلمان وکیل نہیں تھا۔


 سندھ میں زیادہ تر وکلاء ہندو تھے جبکہ ان میں سے کچھ عیسائی اور زرتشتی تھے۔ ان حالات میں اس کے پاس کوئی حمایتی بنیاد نہیں تھی اور اسے اچھی طرح سے قائم وکلاء کے خلاف اپنی قابلیت کا ثبوت دینا تھا۔ لیکن، اس نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور اپنی توانائی کا ہر قطرہ  اپنے نئے پیشے کے لیے وقف کر دیا۔ اپنی ملازمت کے تئیں ان کی دلچسپی اور لگن نے انہیں قانونی برادری میں عزت بخشی اور انہیں سندھ کے پبلک پراسیکیوٹر کے سب سے باوقار عہدے کی پیشکش کی گئی۔ ان کی تقرری کا امتیاز یہ تھا کہ وہ سندھ کے پہلے غیر یورپی وکیل تھے جو اس عہدے پر تعینات ہوئے۔ ایک اور امتیاز یہ تھا کہ وہ چودہ سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور ایک ریکارڈ قائم کیا۔حسن علی نادر صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہیں فارسی، عربی، انگریزی، ترکی، لاطینی اور فرانسیسی جیسی غیر ملکی زبانوں کا کافی اچھا علم تھا۔ زندگی بھر وقت پر  نمازیں ادا کرتے  ۔ سندھ مدرسہ میں مساجد کی تعمیر کے بعد، حسنی نے وہاں ہر ہفتے جمعہ کی نماز باقاعدگی سے ادا کرنے کو اپنا شعار بنایا، یہ معمول اس نے اس دنیا سے رخصت ہونے تک برقرار رکھا۔نجی زندگی میں بھی حسن علی نے زندگی بھر مناسب معمولات کا مشاہدہ کیا۔ گرمی تھی یا  سردی  وہ صبح پانچ بجے اٹھتے تھے۔ غسل اور نماز کے بعد قرآن پاک پڑھتے تھے۔ اس کے بعد وہ صبح کی سیر کے لیے  چلے جاتے نجی زندگی میں بھی حسن علی نے زندگی بھر مناسب معمولات کو پیش نظر رکھا

ہفتہ، 13 دسمبر، 2025

مورقدرت کی رعنائ کا عکاس پرندہ

       مور ایک خوبصورت دلکش اور انتہائی چوکنا رہنے والا پرندہ ہے جو برما‘ جاوا‘ ہندو پاکستان اور مشرقی ایشیا کے ممالک میں پایا جاتا ہے اس کے پروں کی رنگینی دم کا پھیلاؤ اور رقص انتہائی جاذب نظر ہوتا ہے جب یہ اپنی دم کو جو ۵ ۵ انچ سے ۷۲ انچ تک لمبی ہوتی ہے۔ پھیلا کر چکر کاٹتا ہےنظروں میں مختلف رنگوں کی دنیا آباد ہو جاتی ہے جس طرح خزاں میں درختوں کے پتے جھڑتے اور بہار میں اگتے ہیں ۔ اسی طرح اس کے پر خزاں میں جھڑجاتے ہیں اور بہارمیں دوبارہ اگ آتے ہیں ۔ بہار کا موسم اس کے حسن کے نکھار کا زمانہ ہوتا ہے۔ اسی موسم میں جوڑ کھاتا ہے مورنی تین سال کی عمر سے انڈے دینے لگتی ہے اور اس کی اوسط عمر پینتیس برس ہوتی ہے ایک سال میں کم و بیش بارہ انڈے دیتی اور ایک مہینہ تک انہیں سیتی ہے۔ مور اپنی دلکشی و خوبصورتی  سمجھا جاتا ہے۔     یوں کہ جس رنگ میں انہیں ڈبو دیا گیا ہے اس کے علاوہ کسی اور رنگ کی ان میں آمیزش نہیں کی گئی اور بعض اس طرح رنگ میں ڈبوئے گئے ہیں کہ جس رنگ کا طوق انہیں پہنا دیا گیا ہے وہ اس رنگ سے نہیں ملتا جس سے خود رنگین ہیں ۔ ان سب پرندوں سے زائد عجیب الخلقت مور ہے کہ (اللہ نے) جس کے (اعضاء کو) موزونیت کے محکم ترین سانچے میں ڈھالا ہے اور اس کے رنگوں کو ایک حسین ترتیب سے مرتب کیا ہے۔


 یہ (حسن و توازن) ایسے پروں سے ہے کہ جن کی جڑوں کو (ایک دوسرے سے) جوڑ دیا ہے اور ایسی دم سے ہی جو دور تک کھنچتی چلی جاتی ہے جب وہ اپنی مادہ کی طرف بڑھتا ہے تو اپنی لپٹی ہوئی دم کو پھیلا دیتا ہے اور اسے اس طرح اونچا لے جاتا ہے کہ وہ اس کے سر پر سایہ افگن ہوکر پھیل جاتی ہے۔ گویا وہ (مقام) دارین کیاس کشتی کا بادبان ہے جسے اس کا ملاح ادھر ادھر موڑ رہا ہو۔ وہ اس کے رنگوں پر اتراتا ہے اور اس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے اور مرغوں کی طرح جفتی کھاتا ہے اور (اپنی مادہ کو) حاملہ کرنے کیلئے جوش و ہیجان میں بھرے ہوئے نروں کی طرح جوڑ کھاتا ہے۔ تم اگر بغور دیکھو گے) تو اس کے پروں کی درمیانی تیلیوں کو چاندی کی سلائیاں تصور کرو گے اوران پر جو عجیب و غریب ہالے بنے ہوئے ہیں اور سورج (کی شعاعوں ) کے مانند (جو پروبال) اگے ہوئے ہیں (انہیں زردی میں ) خالص سونا اور (سبزی میں ) زمرد کے ٹکڑے خیال کرو گے‘ اگر تم اسے زمین کی اگائی ہوئی چیزوں سے تشبیہہ دو گے تو یہ کہو گے کہ وہ ہر موسم بہار کے چنے ہوئے شگوفوں کا گلدستہ ہے


اور اگر کپڑوں سے تشبیہہ دو گے تو وہ منقش حلول یا خوشنما یمنی چادروں کے مانند ہے اور اگر زیوراتگ سے تشبیہہ دو گے تو وہ رنگ برنگ کے ان نگینوں کی طرح ہے جو مرصع بجواہر چاندی میں دائروں کی صورت میں پھیلا دئیے گئے ہوں وہ اس طرح چلتا ہے جس طرح کوئی ہشاش بشاش اور متکبر محو خرام ہوتا ہے اور اپنی دم اور پروبال کو غور سے دیکھتا ہے تو اپنے پیراہن کے حسن و جمال اور اپنے گلوبند کی رنگتوں کی وجہ سے قہقہہ لگا کر ہنستا ہے مگر جب اپنے پیروں پر نظر ڈالتا ہے تو اس طرح اونچی آواز سے روتا ہے کہ گویا اپنی فریاد کو ظاہر کر رہا ہے اور اپنے سچے درد (دل) کی گواہی دے رہا ہے۔ کیونکہ اس کے پیر خاکستری رنگ کے  باریک اور پتلے ہوتے ہیں اور اس کی پنڈلی کے کنارے پرایک باریک سا کانٹا نمایاں ہوتا ہے اور اس کی (گردن پر) ایال کی جگہ سبز رنگ کے منقش پروں کا گچھا ہوتا ہے اور گردن کا پھیلاؤ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے صراحی (کی گردن) اور اس کے گڑنے کی جگہ سے لے کر وہاں تک کا حصہ کہ جہاں اس کا پیٹ ہے یمنی دسمہ کے رنگ کی طرح (گہرا سبز) ہے یا اس ریشم کی طرح ہے جو صیقل کئے ہوئے آئینہ پر پہنا دیا گیا ہو۔ گویا کہ وہ سیاہ رنگ کیاوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن اس کی آب و تاب کی فراوانی اور چمک دمک کی بہتات سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس میں تروتازہ سبزی کی (الگ سے) آمیزش کر دی گئی ہے


اس کے کانوں کے شگاف سے ملی ہوئی بابونہ کے پھولوں جیسی ایک سفید چمکیلی لکیر ہوتی ہے۔ جو قلم کی باریک نوک کے مانند ہے وہ (لکیر) اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہیوں میں جگمگاتی ہے۔ کم ہی ایسے رنگ ہوں گے جس نے سفید دھاری کا کچھ حصہ نہ لیا ہو اور وہ ان رنگوں پر اپنی آب و تاب کی زیادتی اپنے پیکر ریشمیں کی چمک دمک اور زیبائش کی وجہ سے چھائی ہوئی ہے۔ وہ ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہے کہ جنہیں نہ فصل بہار کی بارشوں نے پروان چڑھایا ہو اور نہ گرمیوں کے سورج نے پرورش کیا ہو۔ اس کے بال و پر لگاتار جھڑتے ہیں اور پھر پے درپے اگنے لگتے ہیں ۔جب اس کے پروں کے ریشوں میں سے کسی ریشے کو تم غور سے دیکھو گے تو وہ تمہیں کبھی گلاب کے پھولوں جیسی سرخی اور کبھی زمرد جیسی سبزی اور کبھی سونے جیسی زردی کی (جھلکیاں ) دکھائے گا 

۔

الن فقیر کی سدابہار یادیں

 



پی ٹی وی پر فوک گلو کار الن فقیر نے آ کر اپنے ایک تارے کا سُر چھیڑا اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا ہو اللہ اور پورا پاکستان الن فقیر کا ہم نوا بن گیا -یہیں سے الن فقیر نے شہرت اور عزت کی اس سیڑھی پر قدم رکھا جس میں پیچھے  پلٹ کر دیکھنا ناممکن ہو  تھا-پھر وہ ملکوں ملکوں پاکستان کا چہرہ بن گئے-گلی گلی ان کی گائیکی کی دھوم مچ گئ سندھی زبان کے لوک فنکار الن فقیر صوبہ سندھ کے ایک چھوٹے سے علاقے جام شورو میں 1922ء میں پیدا ہوئے۔ الن فقیر نے صوفیانہ کلام گاکر ملک گیر شہرت حاصل کی۔، انہوں نے سندھی، اردو، پنجابی اور سرائیکی زبانوں میں گائیکی کی۔ ان کی گائیکی کا ایک انوکھا انداز تھا جو انہیں دوسرے لوک فنکاروں سے منفرد کرتا ہے۔انہوں نے اپنی گائیکی کی بدولت کئی ایوارڈ حاصل کئے۔ان میں80 کی دھائی میں ملنے والا صدارتی ایوارڈ سرفہرست ہے۔ان کا انتقال 4 جولائی 2000ء کو ہوا مگروہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
الن فقیر کی گائیکی نے فلسفیانہ عشق الٰہی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔انہوں نے روایتی لوک گائیکی کوایک نیا انداز بخشا۔الن فقیر نے شاہ عبد الطیف بھٹائی کی شاعری کو بھی اپنی آواز میں پیش کیا۔ ان کا گایا ہوا ایک گیت "تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا... اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا۔۔" انہیں فن کی دنیا میں امر کرگیا ہے۔


 

لن فقیر 1932ء کو جامشورو، سندھ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام علی بخش تھا لیکن الن فقیر کے نام سے مشہور ہوئے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر یکساں مقبول تھے۔الن فقیر کو فنی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا سندھ کے ادیب، دانشور اور ماہرثقافت ممتاز مرزا کے سرجاتا ہے۔ الن فقیر نے سندھی، پنجابی، اردو، سرائیکی اور دوسری بہت سی زبانوں میں گانے اور صوفیانہ راگ گائے لیکن محمد علی شہکی کے ساتھ گایا جانا والا نغمہ تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا الن فقیر کی فنی شہرت میں اضافے کا باعث بنا۔اس کے علاوہ ان کا ایک ملی نغمہ اتنے بڑے جیون ساغر میں تو نے پاکستان دیا بھی بہت مشہورہوا۔ 1980ء میں انھیں صدارتی تمغہ  برائے حسن کارکردگی ملا۔ سر پر اجرک کی پگڑی باندھے، گلے میں رنگ برنگے ہار لٹکائے یہ ہیں پنجاب کی تحصیل رحیم یار خان کے رہنے والے فقیر واحد بخش، جو سندھ کے مشہور صوفی گلوکار الن فقیر کا روپ دھار کر اپنے بیٹے کے ساتھ لوک ورثہ اسلام آباد میں اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔الن فقیر سندھ کے شہر جامشورو سے تعلق رکھتے تھے، جنہوں نے سندھی، اردو، پنجابی اور سرائیکی زبانوں میں گائیکی کی۔فقیر واحد بخش نے ہو بہ ہو الن فقیر کا روپ دھار رکھا ہے۔


 

ہاں تک کے ان کی داڑھی مونچھوں اور بالوں کا انداز بھی الن فقیر جیسا ہی ہے اور وہ الن فقیر کے انداز میں ہی لاگ الاپتے ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں فقیر واحد بخش نے بتایا کہ ’الن فقیر سے میرا بہت لگاؤ تھا. انہیں جب جب سنتا تھا مزا آتا تھا. جب الن فقیر اس جہان سے چلے گئے تو میں نے ان کا روپ اختیار کیا اور جیسے میں ان ہی میں سما گیا۔‘فقیر واحد بخش کا تعلق پنجاب سے ہے لیکن وہ زیادہ تر وہی کلام گاتے ہیں جو الن فقیر سندھی زبان میں گاتے تھے۔ انہوں نے بتایا: ’سندھی کلچر (محکمہ ثقافت) والے کہتے ہیں کہ آپ کا شناختی کارڈ پنجاب کا ہے، پنجاب والے (ثقافت پنجاب) کہتے ہیں کہ آپ تو گاتے سندھی میں ہیں اور پروموٹ بھی اسی زبان کو کرتے ہیں۔ بات سچ بھی ہے میں اکثر سندھی میں ہی گاتا ہوں۔‘کوک سٹوڈیو کا گانا ’آئی آئی‘، جو وٹس ایپ کے ذریعے لکھا گیافقیر واحد بخش دو بار امریکہ اور پانچ بار انڈیا بھی جا چکے ہیں،جہاں انہوں نے صوفی فیسٹیولز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔فقیر واحد بخش کہتے ہیں کہ ’فوک سنگر ملک کا اثاثہ ہیں۔‘اسلام آباد میں پرفارمنس کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’لطیف سائیں (صوفی بزرگ و شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی) کی مہربانی سے ہمیں اسلام آباد میں پرفارمنس کا موقع ملا ۔


 

ہم یہاں پورے ملک کے لیے گاتے ہیں۔‘فقیر واحد بخش کے جواں سال بیٹے ساجد علی بھی ان کے ہمراہ گاتے اور جھومتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’مجھے والد کے ساتھ پرفارم کرکے مزا آتا ہے، والد کا اپنے استاد الن فقیر کے لیے پیار ہی اتنا ہے کہ ان کے گانوں پر ہم جھومے بغیر رہ نہیں پاتے۔‘موسیقی کے آلات ’یکتارو اور چپڑی‘ تو فقیر واحد بخش خود بناتے ہیں۔ وہ اور ان کے بیٹے ساجد علی اس فن کو نئی نسل میں منتقل کرنے کے لیے اپنے کئی شاگردوں کو صوفی گائیکی کی تربیت بھی دیتے ہیں۔فقیر واحد بخش صوفی شعرا شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست، بابا بلھے شاہ اور دیگر شعرا کے کلام گاتے ہیں۔دونوں باپ بیٹا پرعزم ہیں کہ وہ صوفی ازم، صوفی شاعری اور پاکستان کی خدمت کرتے رہیں گے۔پاکستان میں حالیہ چند سالوں کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے گلوکاری کے میدان میں قسمت آزمائی کے واقعات میں قابل زکر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز خاص طور پر یوٹیوب کی وجہ سے نئے گلوکاروں اور لوک فنکاروں کو حاصل ہونے والی وسیع پزیرائی اور ان کے مالی حالات میں آنے والی بہتری ہے۔اب سوشل میڈیا کے اس دور میں بیشتر لوک فنکار ایک ایسی خوشحال زندگی اور مقبولیت رکھتے ہیں، جس کا ماضی قریب میں تصور تک نہ تھا۔ گزشتہ نسلوں کے لوک گلوکاروں کی شہرت اور آمدن کا انحصار یوٹیوب وغیرہ کے برعکس شادی بیاہ کی محفلوں اور آڈیو کیسٹس پر ہوا کرتا تھا۔ آج کے لوک گلوکار اپنے ایک ہٹ گانے سے راتوں رات وہ شہرت اور دولت کما سکتے ہیں، جو ماضی میں فن کو تمام عمر دینے کے بعد بھی نصیب نہ ہوتی تھی۔اس کی ایک بہترین مثال صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے گلوکار ملکو کا گیت 'نک دا کوکا‘ ہے ۔ اس گیت کو صرف یوٹیوب پر چھ ماہ کے دوران چھ کروڑ سے زیادہ مرتبہ سنا گیا۔

جمعہ، 12 دسمبر، 2025

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

 


باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے 1960  ء کے لگ بھگ باؤ فاضل کے والد کا لاہو ر ریلوے اسٹیشن کے قریب معمولی سا ہوٹل تھا-       وہ اپنے والد کے چھوٹے سے چائے کے  ہوٹل میں مسافروں کے لئے چا ئے بناتے اور چائےکے گندے برتن بھی خود دھوتے تھے۔ باؤ کو یہ کام پسند نہ تھا۔خصوصاََ ان کو گاہکوں کے فضول قسم کے تبصرے سننا سخت نا پسند تھا۔ باؤ فاضل اپنا کوئی کام کرنا چاہتے تھے۔ ان دنوں فوٹو کھینچوانے کا بہت رواج تھا۔ چنانچہ آپ نے فوٹو گرافی کا کام کرنے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے والد سے کچھ رقم ادھار لے کر ایک پرانا سا کیمرا خریدا اور اندرون شہر دو موریہ پل کے قریب فٹ پاتھ پر اپناکیمرا سیٹ کیا۔ یہ سارا دن فٹ پاتھ پر تصویریں کھینچتے اور ساری رات ہوٹل کے چھوٹے سے سٹور میں تصویریں دھوتے اور ان کے پرنٹ تیار کرتے۔ ان کا کیمرا پرا نا تھا جس کی وجہ سے بعض اوقات کوئی تصویر خراب ہو جاتی تو گاہک وہ تصویر ان کے منہ پر دے مارتا مگر باؤ نےحوصلہ نہ چھوڑا اور دن رات کام کرتے رہے۔ یہ کام ان کو پسند تھا اس لئے وہ ہر ناپسندیدہ بات کو نظر انداز کرتے گئے ۔ پانچ چھ سال کی سخت محنت کے بعد انھوں نے کچھ پیسے جمع کر لئے اور اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی دکان خرید لی۔ اس طرح اپنا سٹوڈیو فٹ پاتھ سے دکان میں منتقل کر لیا۔ اب وہیں تصویریں کھینچتے، وہیں دھوتے اور پرنٹ تیار کرتے۔انہی دنوں فوٹو کاپی مشین نئی نئی پاکستان میں آئی تھی۔ 


انھوں نے بھی ایک فوٹو کاپی مشین خرید لی اور سارا دن فوٹو کاپی کرتے۔ ان کے خیال میں جس دن انھوں نے فوٹو کاپی مشین خرید ی اسی دن سے ان کی قسمت بدل گئی۔ اب ان کی آمدن میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا اور جلد ہی ان کی آمدن دوگنا ہو گئی،پھر انھوں نے دکان کی دوسری منزل بھی تعمیر کروا لی۔ 1970 ء میں ان کے دو بیٹے بھی ان کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے اپنے کام کو بڑھایا ۔ اب یہ کیمرے کی فلم تھوک میں خریدتے اور پرچون میں فروخت کرتے۔ ان سے ان کو اچھا منافع ہوتا۔1980ء میں انھوں نے کلر لیب بنائی جہاں رنگین فوٹو تیار ہوتے۔ اب ان کا کام اور بڑھ گیا۔ باؤ کے بیٹے بھی باپ کی طرح مواقع کی تلاش میں رہتے۔ اب انھوں نے کیمرے کی فلم باہر سے منگوانی شروع کی اور اسے پاکستان میں تھوک میں فروخت کرتے۔ یہ فلم اور پرنٹنگ پیپر ’’مٹسوبشی‘‘ والوں سے منگواتے تھے۔ فلم اور پرنٹنگ کاغذ کے بزنس میں انھیں خوب کمائی ہوئی۔ 1995 ء میں یہ کیمرے کی فلم اور پرنٹنگ کاغذ کے ہول سیلر بن گئے۔اب انھوں نے نسبت روڈ چوک کے پاس چیمبر لین روڈ پر پہلے ایک چھوٹی سی دکان خرید ی کچھ عرصہ بعد اس کے ساتھ والی دکان بھی خرید لی۔1998ء کے لگ بھگ نئے ڈیجیٹل کیمروں کی وجہ سے کیمرے کی فلم اور پرنٹنگ کے کاغذ کا بزنس کچھ کم ہوگا۔ انہی دنوں ان کا چھوٹا بیٹا لندن سے  کر کے لوٹا تھا۔ وہ بھی والد کے بزنسمیں شامل ہو گیا۔ اسے کوئی نیاکام کرنے کا شوق تھا۔ 


چنانچہ انھوں نے پہلے انرجی سیور بلب اور پھر مٹرولا موبائل کا بزنس کیا۔ اس بزنس میں انھیں کوئی تجربہ نہ تھا جس کی وجہ سے انھیں کا فی نقصان اٹھانا پڑا۔باؤ فاضل کافی عرصہ سے’’مٹسو بشی‘‘ والوں کے ساتھ کیمرے کی فلموں اور پرنٹنگ کے کاغذ کا کاروبار کر رہے تھے۔ انھوں نے باؤ فاضل سے کہا کہ وہ پاکستان میں ان کی دوسری چیزیں بھی فروخت کریں۔ شروع میں یہ جھجکے مگر بعد ازاں ہامی بھر لی۔ چنانچہ ’’مٹسو بشی‘‘ والوں نے انھیں ان کے  فروخت کرنے کو کہا۔ باؤ فاضل نے پانچ سو   منگوائے اور معمولی منافع پر انکی فروخت کا اشتہار دیا۔ اس طرح یہ سارے   پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی فروختہ و گئے۔1998ء سے 2004 ء تک یہ’’مٹسو بشی‘‘ کے  معمولی منافع پر فروخت کرتے رہے تا کہ وہ ایک بار   کی مارکیٹ میں داخل ہو جائیں۔ پھر انھیں خود   تیار کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ باؤ فاضل نے 2005 ء میں چوہنگ کے قریب 10 لاکھ روپے میں 32 کنال زمین خرید کر’’ مٹسوبشی‘‘ کے تعا ون سے ان کے AC اسمبل کرنے کا پہلا پلانٹ لگایا۔ 2007ء میں اورینٹ گروپ نے اپنی چیزیں بھی بنانا شروع کیں۔ اب یہ ’’مٹسو بشی‘‘ کے AC کے علاوہ اپنے)ORIENT( AC


 ‘ فریج‘ اوون اور واٹر ڈسچارجر وغیر ہ بنا رہے ہیں اورینٹ گروپ نے بہت تیزی سے ترقی کی تو ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ چنانچہ کوریا کی مشہور کمپنی Samsung والوں نے ان سے رابطہ کیا اور باؤ فاضل کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ چنانچہ 2009 ء سے باؤ فاضلSamsung والوں کے ٹی وی‘ فریج اور واشنگ مشین وغیرہ پاکستان میں فروخت کر رہے ہیں۔باؤ فاضل صرف پندرہ سال پہلے اپنے تین بیٹوں اور دو ملازمین کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اب ان کی کمپنی میں پانچ ہزار لوگ کام کر رہے ہیں۔ فٹ پاتھ سے کام شروع کر نے والا باؤ فاضل 30 سال کی محنت کے بعد اب ارب پتی بن گئے اور مصری شاہ کے چار مرلے کے مکان کے بجائے گلبرگ میں ساڑھے چھ کنال کے خوبصورت گھر میں شفٹ ہو گئے۔ ان کے خیال میں ان کی کامیابی کی وجہ اپنے رب پر بھر پور یقین، کام ، کام اور کام یعنی سخت محنت، کامیاب ہونے کی جستجو، نیک نیتی سے کام کرنا اور احساس کمتری کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دینا ہے۔ باؤ فاضل پر ایسا وقت بھی آیا جب وہ تین تین دن بھوکے رہتے، کھانا نصیب نہ ہوتا مگر پھر بھی انھوں نے کوشش ترک نہ کی اور ثابت قدم رہے۔محمد فاضل انتقال کر گئے ہیں مگر ان کی اولا د پھل پھول رہی ہے۔آپ نے اورینٹ کا نام یقیناََ سنا ہو گا۔ یہ کمپنی ائر کنڈیشنر سے لے کر مائیکرو ویو تک گھریلو مشینری بنا تی ہے ۔ یہ کمپنی باؤ فاضل نام کے ایک ان پڑھ شخص نے بنائی اور انہوں نے اسے اللہ کے کرم اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کے بڑے صنعتی گروپوں کی قطار میں لا کھڑا کیا۔آپ نے اورینٹ کا نام یقیناََ سنا ہو گا۔ یہ کمپنی ائر کنڈیشنر سے لے کر مائیکرو ویو تک گھریلو مشینری بنا تی ہے ۔یہ کمپنی باؤ فاضل نام کے ایک ان پڑھ شخص نے بنائی اور انہوں نے اسے اللہ کے کرم اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کے بڑے صنعتی گروپوں کی قطار میں لا کھڑا کیا۔

//

جمعرات، 11 دسمبر، 2025

لاہورکی سینڑل جیل میں فیض احمد فیض کے قید کے دن

 

بھائی کی موت کے کچھ ہی عرصہ بعد عزیز دوست رشید جہاں   کے ماسکو میں گزر جانے کی خبر ملی۔ ایلس کو خط میں لکھارشید کے ماسکو میں مرنے کی خبر کل پڑھی۔ اگر میں جیل سے باہر ہوتا تو شاید زارو قطار روتا لیکن اب تو رونے کو آنسو ہی باقی نہ                                         رہے۔فیض کے دل پر جو بیت رہی تھی اس کا تخلیقی اظہار ان کی شاعری میں ہورہا تھا، ان کی کئی عمدہ نظمیں اسی زمانے میں لکھی گئیں جب وہ پسِ دیوار زنداں تھے۔ یہ زمانہ ذاتی حوالے سے عہد زیاں تھا لیکن تخلیقی اعتبار سے بہت بار آور رہا۔دونوں میاں بیوی جگ بیتی   خطوط کی صورت رقم کر رہے تھے۔ فیض کے خطوط برسوں بعد انھی کے قلم سے ترجمہ ہو کر ’صلیبیں مرے دریچے میں‘ کے عنوان سے                   دنیا کےسامنے آ ئے۔ ایلس کے خطوط ’ڈیئر ہارٹ‘ کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئے۔ ان کا اردو میں ترجمہ 'عزیز دلم' کے عنوان سے نیر رباب نے کیا۔ یہ خطوط ان کی زندگی کی ظاہری اور باطنی کیفیات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔اس کے بارے میں میں فیض کے دوست شیر محمد حمید نے لکھا’فیض ایک لا ابالی، بے نیاز این و آں اور خود فراموش سا نوجوان تھا۔ ایلس نے اس کی زندگی میں ترتیب اور سنوار پیدا کر دی۔ اس کی بے قرار روح کو ایک حسین قالب میسر آ گیا۔


 ایلس نے مغرب اور اس کی تہذیبی روایات کو خیر باد کہہ کر مشرق اور اس کی ثقافتی اقدار کو اپنا لیا۔ دیس کے ساتھ بھیس اور وطن کے ساتھ زبان قید خانے میں میں فیض کے دل پر جو بیت رہی تھی   وہ تو ان کا دل ہی جانتا ہو گا لیکن چونکہ وہ کرب کے دور سے گزر رہے تھے  ان کے قلم  سے  اس کا تخلیقی اظہار ان کی شاعری میں ہورہا تھا، ان کی کئی عمدہ نظمیں اسی زمانے میں لکھی گئیں جب وہ پسِ دیوار زنداں تھے۔ یہ زمانہ ذاتی حوالے سے عہد زیاں تھا لیکن تخلیقی اعتبار سے بہت بار آور رہا۔ دونوں میاں بیوی جگ بیتی اور ہڈ بیتی خطوط کی صورت رقم کر رہے تھے۔ فیض کے خطوط برسوں بعد انھی کے قلم سے ترجمہ ہو کر ’صلیبیں مرے دریچے میں‘ کے عنوان سے سامنے آ ئے۔ ایلس کے خطوط ’ڈیئر ہارٹ‘ کے نام سے انگریزی میں شائع ہوئے۔ ان کا اردو میں ترجمہ 'عزیز دلم' کے عنوان سے نیر رباب نے کیا۔ یہ خطوط ان کی زندگی کی ظاہری اور باطنی کیفیات کو سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔’عزیز دلم‘ میں شامل آخری خط میں ایلس نے اپنے محبوب سے کہا’میری زندگی میں اور ہے کیا، تمھاری محبت، تمھارا انتظار اور تمھارے ساتھ مستقبل کے خواب۔ فیض صاحب   کو   حکومت وقت نے جب    لاہور سینڑل جیل میں    پابند سلاسل کر دیا تھا۔


وہ اُن دنوں علیل رہتے تھے۔ ایک روز اُن کے دانت میں سخت درد اُٹھا- جیل کے حکام نے اُنہیں پولیس کی حفاظت میں چیک اپ کرانے کے لیے دانتوں کے اسپتال بھیج دیا۔ ڈاکڑ صاحب اُن کے پرستاروں میں سے تھے لہٰذا اُنہوں نے روزانہ چیک اپ کے لیے بلانے کا طریقہ اختیار کیا تاکہ اس طرح جیل کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے اُنہیں نَجات حاصل ہو جایا کرے- یوں روزانہ اُنہیں جیل کی گاڑی میں اسپتال لایا جاتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ جیل والوں کے پاس گاڑی نہیں تھی- جیلر نے اُنہیں تانگے میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس صورت میں انہیں ہتھکڑی پہنانا ضروری تھا۔ فیضؔ صاحب مان گئے- اس طرح وہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئے- پولیس کے سپاہی بندوق لیے اُن کے ساتھ تھے۔ اس حال میں وہ لاہور کے گلی کوچوں سے گزرے، انہوں نے تازہ ہوا کو محسوس کیا۔


 بازاروں سے گزرتے ہوئے خوانچے والے، تانگے والے، بیل گاڑیاں سب بچھڑے ہوئے یاروں کی طرح اُن کے قریب سے گزرتے رہے- عجیب منظر تھا- وہ لاہور شہر کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزرتے رہے- شہر اور اہلیانِ شہر یہ تماشا دیکھتے رہے- شاید کچھ لوگوں نے اُنہیں پہچان بھی لیا ہو- ارد گرد لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا جن میں نانبائیوں سے لیکر صحافیوں تک سبھی شامل تھے- اس طرح ایک جلوس کی شکل بن گئی- فیضؔ صاحب کہتے تھے میں نے زندگی میں ایسا دلکش جلوس نہیں دیکھا- اسی واقعہ سے متاثر ہو کر اُنہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ نظم لکھی

 "آج بازار میں پابجولاں چلو۔"

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

زینبِ علیا ،بنت نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم)

 

سیّدالاصفیا ء خاتم الانبیاء تاجدار دوعالم حضرت رسول خدا محمّد مصطفٰے صلّی ا للہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری بیٹی جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیآغوش مبارک میں گلستان نبوّت کی ایک تروتازہ کلی نے آنکھ کھولی تو آ پ سے دو برس بڑے بھائ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین کی انگلی تھام کر اپنی مادر گرامی کے حجرے میں آئے ،اور ننھی بہن کے ننّھے ملکوتی چہرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اپنے پدر گرامی مولائے متّقیان کو دیکھ کر مسکرائے  اور سلطان اولیاء مولائے کائنات نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپاتے ہوئے فرمایا کہ ,حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تشریف لے آئیں توبچّی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے جس طرح اپنے نواسوں کے نام حسن وحسین تجویز کئے تھےنبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بی بی زینب کی ولاد ت کے وقت شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔چنانچہ تین دن کے بعدسفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ کےسلام اللہ علیہا حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی 


آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں  لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہواٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ  رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘  لے کر آئےہیں


یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے  جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ  درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،



 پھر یہ ننھی کلی  بوستان نبوت کے آنگن  کی پُر نور فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی-  بچپن  کی ہی عمر میں چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو  اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے تھے۔ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا  رکھ دیا۔ .


بدھ، 10 دسمبر، 2025

جب فیض احمد فیض غدار قرار دے کر پابند سلاسل کئے گئے

 یک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے   تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسکل پر اپ گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا


فیض کے نام خطوط سے چند منتخب اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’ لاہور میں رہنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ 16روپے من آٹا ہوگیا ہے اور ہم مشکل سے گزارا کر پا رہے ہیں۔‘’آخر یہ حکومت کر کیا رہی ہے؟ لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ کل میں نے سولہ روپے کا ایک من آٹا خریدا۔ پچھلے سال مارچ میں جب تم گئے تھے تو من بھر آٹے کی قیمت نو روپے تھی‘ (میں نے اپنی حساب کی پرانی ڈائری میں چیک کیا تھا۔)’چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب تین روپے بارہ آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ چار روپے کا، ہم نے گھر میں ٹوتھ پاﺅڈربنا لیا تھا جو دو مہینے چلا۔‘اضافی یافت کے لیے ایک طالب علم کو انگریزی بھی پڑھائی۔ وائی ایم سی اے سے شارٹ ہینڈ کا کورس اس لیے کیا کہ نوکری جاتی رہے تو یہ کہیں اور کام کے لیے کام آ سکے۔ نوکری کے تین برس ہونے پر تنخواہ میں اضافے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ایک دفعہ آموں کا موسم آنے پر شوہر رہ رہ کر یاد آیا۔ خط میں لکھا:خط کے ذریعے فیض اور ایلس کی آدھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ ’آموں کا موسم ہے اور میرا دل اداس ہے، مجھے یاد آتا ہے جب تم دوپہر کو کھانے پر گھر آتے تو بڑے بڑے آموں سے بھرا ایک تھیلا تمھارے ہاتھ میں ہوتا اور کبھی بھولتے نہیں تھے۔‘


 شوہر بھی صابر شاکر، راضی برضا، ایک خط میں بیوی سے کہا:تم نے پوچھا ہے کہ تمھارے لیے ساتھ کیا لاﺅں؟ تم خود آجاﺅ اور ان دو ہنستے ہوئے چہروں کو ساتھ لیتی آﺅ، اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے۔‘ایلس کو تنہائی ستاتی اور وہ تلخیِ ایام کا ذکر خطوں میں کرتیں تو جواب ملتا:’ دن بہت آہستہ آہستہ گزر رہے ہیں اور ہر گزرنے والا دن دل کی سطح پر کراہت اور درد کا ایک ہلکا سا غبار چھوڑ جاتا ہے لیکن چند روز اورمری جان فقط چند ہی روز۔‘ تم نے اپنے گھر کی تنہائی کا ذکر کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ تنہائی کتنی کڑی اور جدائی کے لمحے کتنے گراں ہیں۔‘دونوں میاں بیوی خطوں میں دنیا جہاں کی باتیں کرتے، ذاتی دکھ درد، موسم، باغ باغیچے، بچوں کی باتیں، لوگوں کے رویے، کتابوں کی اشاعت کے معاملات اور بہت کچھ،فیض جیل میں جو کچھ پڑھتے اس کے بارے میں تاثرات سے اہلیہ کو آگاہ کرتے۔ کتابیں جیل بھجوانے کا تقاضا کرتے۔ ایک دفعہ چیخوف کے ڈرامے ’تھری سسٹرز‘ پڑھنے کو جی چاہا۔ ایلس سے فرمائش کی جو پوری کردی گئی۔ اس پر خوش ہوکر لکھا



’مجھے خوشی ہے کہ تم نے مجھے چیخوف کی کتاب بھیج دی۔ پڑھنے میں بہت لطف آ رہا ہے۔ چیخوف کی تحریر سے کتنا گہرا پیار اور کتنی بے پناہ شفقت ٹپکتی ہے۔‘ ایلس بھی کتاب پڑھنے سے حاصل ہونے والی خوشی کے بارے میں شوہر کو بتاتیں:’میں رابرٹ برائوننگ کی سوانح عمری پڑھ رہی تھی، بہت زبردست ہے۔ کیا نفیس انسان تھا اور کیا بہترین شاعر، دل سوزی بھی اور سریلا پن بھی۔ اس کتاب میں چند خطوط بھی شامل ہیں جو اپنی ذات میں خالص شاعری ہیں۔‘خط کے ذریعے دونوں کی آدھی ملاقات ہوجاتی تھی۔ جیل میں بالمشافہ ملاقات ذاتی اعتبار سے جاں گسل ہوتا۔ اس کے لیے ایلس کو تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا خاص طور پر گرمیوں میں حیدر آباد جیل جانے کے لیے لمبا سفر انھیں نڈھال کر دیتا۔ بعض دفعہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سفرمؤخر کرنا پڑتا۔جیل میں بیوی بچوں کی جدائی کا غم اپنی جگہ عذاب ضرور تھا لیکن بہرحال یہ آس تو تھی کہ بھلے دن بھی آئیں گے لیکن حیدر آباد جیل میں انھیں بھائی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا جو اس لیے بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا کہ عزیز از جان بھائی طفیل ان سے ملنے کے مقررہ وقت سے کچھ ہی دیر پہلے اچانک جاں سے گزر گیا۔ غم زدہ فیض نے بیوی کو لکھا: آج صبح میرے بھائی کی جگہ موت میری ملاقات کو آئی۔‘

بھائی کی موت پر شکستہ دل شاعر نے یہ مرثیہ تحریر کیا:

 مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے

لے گئے ساتھ مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں

اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب

 اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے

اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوںرنگ گلاب

کیا کروں بھائی، یہ اعزاز کیونکر پہنوں

مجھ سے لے لومری سب چاک قمیصوں کا حساب

آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال

آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوس جواب

آ کے لے جاﺅ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول

مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گذشتہ کی کتاب

جاری ہے

جب فیض احمد فیض غدار قرار دے کر پابند سلاسل کئے گئے

 

1959ء میں فیضؔ  میں راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض کی گرفتاری ان کے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ ان پر جو مقدمہ قائم ہوا اس کی سزا پھانسی تھی یا پھرعمر قید، ایلس فیض ابھی گرفتاری کے صدمے سے نہیں سنبھلی تھیں کہ سی آئی ڈی کا تلاشی کے لیے گھر آنا مزید ذہنی اذیت کا باعث بنا۔41 ایمپرس روڈ لاہور پر پولیس اور سی آئی ڈی کا پہرہ لگ گیا۔ آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاتی۔ ان کے نام نوٹ ہوتے۔ اخبارات فیض کو غدار قرار دینے کی مہم میں پیش پیش تھے۔ فیض اور دیگر ملزموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ ہونے لگا۔ایلس پر چاروں طرف سے مصیبتوں نے یورش کر دی۔ ایک طرف شوہر کے پابندِ سلاسل ہونے کا غم تو دوسری طرف گھربار چلانے کی ذمہ داری کا بار، لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں الگ۔ایلس کی زندگی کس ڈھب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ فیض کے نام خطوط سے ہوتا ہے-اس کڑے وقت میں ایلس نے بڑی ہمت اور تدبر سے کام لیا۔ حالات کے سامنے سپر ڈالنے کے بجائے ان کا مقابلے کرنے کی ٹھانی۔ پاکستان ٹائمز میں ملازمت کرلی۔ خواتین اور بچوں کا صفحہ ترتیب دینے لگیں۔گاڑی بیچ کر وکیل کو فیس کی پہلی قسط کی ادائیگی ممکن بنائی۔ 150 روپے کی فلپس سائیکل خریدی جو دفتر آنے جانے کی کام آتی۔ اس زمانے میں ان کی زندگی کس ڈھب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ فیض کے نام خط کے اس اقتباس سے ہوتا ہے 


کاموں کی زیادتی میں صبح سے شام ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بچوں کو صبح 8 بجے سکول پہنچنا ہوتا ہے اور مجھے 9 بجے صبح آفس اور میری واپسی 4 بجے ہوتی ہے۔ پھر دن کا باقی حصہ بچوں کو ہوم ورک کروانے، مہمانوں کی مدارات کرنے، کتابیں پڑھنے، کپڑے دھونے میں گزر جاتا ہے اور پھر تھک کر بستر پر گرجاتی ہوں۔‘ایک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔ایک خط میں لکھا:فیض کو جیل میں بچوں کی یاد ستاتی ہے جس کا ذکر ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں ملتا ہے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے کچھ تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسیکل پر اپنے گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔’لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا۔


فیض کے نام خطوط سے چند منتخب اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’ لاہور میں رہنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ 16روپے من آٹا ہوگیا ہے اور ہم مشکل سے گزارا کر پا رہے ہیں۔‘’آخر یہ حکومت کر کیا رہی ہے؟ لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ کل میں نے سولہ روپے کا ایک من آٹا خریدا۔ پچھلے سال مارچ میں جب تم گئے تھے تو من بھر آٹے کی قیمت نو روپے تھی‘ (میں نے اپنی حساب کی پرانی ڈائری میں چیک کیا تھا۔)’چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب تین روپے بارہ آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ چار روپے کا، ہم نے گھر میں ٹوتھ پاﺅڈربنا لیا تھا جو دو مہینے چلا۔‘اضافی یافت کے لیے ایک طالب علم کو انگریزی بھی پڑھائی۔ وائی ایم سی اے سے شارٹ ہینڈ کا کورس اس لیے کیا کہ نوکری جاتی رہے تو یہ کہیں اور کام کے لیے کام آ سکے۔ نوکری کے تین برس ہونے پر تنخواہ میں اضافے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ایک دفعہ آموں کا موسم آنے پر شوہر رہ رہ کر یاد آیا۔ خط میں لکھا:خط کے ذریعے فیض اور ایلس کی آدھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ ’آموں کا موسم ہے اور میرا دل اداس ہے، مجھے یاد آتا ہے جب تم دوپہر کو کھانے پر گھر آتے تو بڑے بڑے آموں سے بھرا ایک تھیلا تمھارے ہاتھ میں ہوتا اور کبھی بھولتے نہیں تھے۔‘ شوہر بھی صابر شاکر، راضی برضا، ایک خط میں بیوی سے کہا:تم نے پوچھا ہے کہ تمھارے لیے ساتھ کیا لاﺅں؟ تم خود آجاﺅ اور ان دوہنستے ہوئے چہروں کو ساتھ لیتی آﺅ، اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے۔

ک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔ایک خط میںلکھا:فیض کو جیل میں بچوں کی یاد ستاتی ہے جس کا ذکر ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں ملتا ہے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے کچھ تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسیکل پر اپ گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا
جاری ہے

منگل، 9 دسمبر، 2025

جگنی -جڑی نام علی دا لیندی آ- فخر پاکستان لوک گلوکارعالم لوہار

  محمد عالم لوہار خطۂ پنجاب پاکستانی حصہ کے ایک مشہور پنجابی لوک موسیقی فنکار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی اصطلاح  میں جگنی کو متعارف کرایا جو پنجابی لوک موسیقی میں بہت مقبول ہے۔ 

جگنی

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

اب خدائی روشنی کا مشاہدہ کریں۔

شبنم کے قطروں کی طرح

میں نے پیار کی دعا مانگی ہے۔

اور سارے غم دور ہو جاتے ہیں۔

تو میں جگنی گاتا ہوں۔

میں آپ کی جگنی گاتا ہوں۔

میں گاتا ہوں تیری جگنی اپنے محبوب کی

اللہ بسم اللہ تیری جگنی

ہاں! تیری جگنی، میرے محبوب

 عالم لوہار کی پیدائش 01 مارچ 1928ء میں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے ایک قصبہ  میں ہوئی۔ ان کے والد ان کی خوش الحانی کی وجہ سے انہیں قاری بنانا چاہتے تھے مگر ان کا اپنا رجحان لوک داستانیں گانے کی طرف تھا چنانچہ وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور نہایت کم عمری میں بہت مقبول ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن سے بھی اپنے فن کا جادو جگایا اور پاکستان کے مقبول ترین لوک گلوکاروں میں شمار ہونے لگے۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال فن حاصل تھا ۔ ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے ۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا ۔ انہوں نے چمٹے کوبطور میوزک انسٹرومنٹ  دنیا کو ایک نئے ساز سے متعارف کرایا۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔ ان کی گائی ہوئی "جگنی "آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔


" جگنی "اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔ جگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی "جگنی "کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ جگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی ۔ "جگنی "کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اورمنفرد دھنیں بھی تخلیق کیں جن میں"دھرتی پنج دریاں دی" بہت مقبولیت ہوئی ۔عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے ۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔


عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا،وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے، ان کی گائی ہوئی جگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔جک گنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔جگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔عالم لوہار کی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے، خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے


 اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیت آج بھی سماعتوں پر وجد طاری کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔عالم لوہار کا’’چمٹا‘‘ بھی ان کی ایک الگ پہچان بنا۔ان کی گائی ہوئی جُگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔ان کی گائی ہوئی جُگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکاجُگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔ خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ انہوں نے عالم لوہار کو’’شیر پنجاب‘‘ کا خطاب بھی دیا۔حکومت پاکستان نے ان کی فنی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دی-ہمارا یہ ہونہار فنکار  لالہ موسیٰ کی  خاک میں محو آرام ہے اللہ کریم مرحوم کو اپنی رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں عطا فرمائے آمین

کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا

    

 کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا  -کچھ مہینے پہلے بھی  کراچی ہی میں  ایک معصوم بچہ کھلے گٹر میں جاں بحق ہوا تھا اور جب مئر کراچی پر انگلیاں اٹھیں تو انہوں نے بیان دیا تھا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں گلیوں میں گٹر کے دھکن لگواؤں-پیپلز  پارٹی سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر آپ کے ایجنڈےمیں کراچی کی فلاح شامل نہیں ہے  تو برائے مہربانی اس  شہر کو 100 سال کیلیز پر چائنا کو دے دیجئے  کراچی پاکستان کا معاشی انجن، تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر اور ساحلی خطّے کا اہم ترین معاشی و ماحولیاتی مرکز آج بنیادی شہری انفرااسٹرکچر کے انہدام کا ایسا شکار ہے کہ یہاں رہائش، نقل و حمل، نکاسی آب، صحتِ عامہ اور ماحول کے ہر شعبے میں سنگین بحران جنم لے چکے ہیں۔ یہی بگاڑ بالآخر ایسی دل دہلا دینے والی خبروں میں ڈھلتا ہے "بچّہ گٹر میں گر کر جاں بحق۔”گزشتہ دنوں کمسن ابراہیم کا گٹر میں گر کر موت کے منہ میں چلے جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا، اور یہی اس شہری سانحے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کراچی میں کھلے مین ہولز، ٹوٹے ڈھکن، غیر تسلی بخش نکاسی آب اور برسوں سے نظرانداز کردہ شہری منصوبہ بندی نے بچوں کی زندگیوں کو روزانہ کی بنیاد پر خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ابراہیم کی موت ایک سوال ہے، آخر کراچی جیسا شہر، جس کی معیشت پورے ملک کو سہارا دیتی ہے، اپنے بچوں کے لیے بھی محفوظ کیوں نہیں؟آج کھلے مین ہولزایک خاموش قاتل کا روپ دھار چکے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں اور گلیوں‌ کے سیکڑوں مین ہولز کے ڈھکن نہیں ہیں۔ کچھ برساتی پانی میں چھپ جاتے ہیں، کچھ چوری ہو جاتے ہیں، اور کچھ محکمہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہی


 بدقسمتی سے یہ صورتحال کوئی عارضی بے ترتیبی کی نہیں بلکہ شہر کے پورے نکاسی آب کے نظام میں موجود دیرینہ بدانتظامی کی علامت ہے۔ کے یم سی، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، ڈی ایم سیزاور دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی صورتحال کے بگاڑ میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔ غیر مربوط شہری منصوبہ بندی، سڑکوں اور سیوریج لائنوں کی مرمت میں بے حد تاخیر، بارشوں کے بعد ہنگامی اقدامات کا فقدان یہ تمام عوامل مل کر ایسے سانحات کو مسلسل جنم دیتے ہیں جن کا شکار وہ بچے بنتے ہیں جن کے کندھوں پر قوم کا مستقبل رکھا جاتا ہے۔ابراہیم کے ساتھ ہونے والا اور اس جیسے دوسرے حادثات صرف بدانتظامی نہیں بلکہ موسمیاتی بحران کے بڑھتے اثرات سے بھی جڑے ہیں۔ کراچی سمندر کے ساتھ واقع ایک کم بلندی اور گنجان آبادی والا شہر ہے جہاں بارشیں معمول سے کہیں زیادہ اور شدید ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں شہری سیوریج سسٹم کا بار بار اوور فلو ہونا معمول بن چکا ہے۔ شہر کے کئی علاقے عارضی جھیلوں میں بدل جاتے ہیں اور مین ہولز کے ساتھ کھلے نالے پانی میں ڈوب کر موت کے جال بن جاتے ہیں۔ ماہرین پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ کراچی جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی خطرات کے مرکز میں داخل ہو چکے ہیں۔


یعنی اگر شہری انفرااسٹرکچر پہلے ہی بوسیدہ ہو تو ماحول اور موسم میں ہر معمولی تبدیلی بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر کم از کم دو دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ سیوریج لائنیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے، غیر رسمی بستیوں میں بغیر نقشے کے تعمیرات کھلے عام ہو رہی ہیں اور کوئی ادارہ انہیں روکنے والا نہیں، نالوں پر تجاوزات اور ان پر بنے غیر سائنسی ڈھانچے شہری انفرااسٹرکچر کا منہ چڑا رہے ہیں، کچرے اور پلاسٹک کے بوجھ سے بند ہوتی ڈرینج اور سولڈ ویسٹ کے مسائل، ان سب عوامل نے مل کر پاکستان کے معاشی حب کو ناقابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسے شہر میں مین ہول کا کھلا ہونا محض ایک غفلت نہیں بلکہ انتظامی ذمے داریوں کے پورے نظام کا انہدام ہے۔کیا یہ ماحولیاتی مسئلہ ہے یا انتظامی؟ اصل میں دونوں۔ یہ امر اب حقیقت بن چکا ہے کہ کراچی کے شہری مسائل اب ایک اجتماعی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں، موسمیاتی تبدیلی، سمندر کی سطح میں اضافہ، اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ، سیلابی بارشیں اور شہری اداروں کی بدانتظامی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی چپقلش یہ سب ایک ہی لڑی میں جڑ چکے ہیں۔ ابراہیم کی موت اسی بڑے ماحولیاتی و شہری بحران کی ایک المناک مثال ہے۔


اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہر سانحے کے بعد یہی سوال اٹھتا ہے، مین ہول کس نے کھلا چھوڑا؟ ذمہ دار کون ہے؟ اداروں نے بروقت کارروائی کیوں نہ کی؟ احتیاطی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ لیکن ان سوالات کے جواب کبھی نہیں ملتے، اور کچھ دن بعد زندگی معمول پر آ جاتی ہے، تاوقتیکہ کوئی نیا ابراہیم ایک اور کھلے مین ہول میں گر کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔اگر کراچی کو محفوظ شہر بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہو چکے ہیں جن میں سیوریج سسٹم کی مکمل آڈٹ اور ری ڈیزاننگ، پرانی اور ٹوٹی لائنوں کی ہنگامی تبدیلی، مین ہول مانیٹرنگ سسٹم، GPS ٹیگ شدہ، لاکڈ کور، اور موبائل ایپ رپورٹنگ سسٹم۔شہری اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت، کے یم سی، ڈی ایم سیز، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے درمیان مربوط حکمت عملی۔ بارشوں کے دوران ایمرجنسی رسپانس یونٹ، ہر علاقے میں مین ہول کور کی مستقل نگرانی کے ساتھ شہر کی ماحولیاتی منصوبہ بندی، کلائمیٹ رسک بیسڈ اربن پلاننگ، تاکہ شہر کو آنے والے موسمیاتی واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے۔عوامی آگاہی کی مہمات، گلی، محلے، اسکول، کالونی سطح پر کھلے مین ہولز کی فوری رپورٹنگ اور حفاظتی علامات کی تنصیب شامل ہے۔ابراہیم کی موت شہر کے لیے آخری وارننگ ہونی چاہیے۔ یہ سانحہ ایک بچے کی موت نہیں، یہ کراچی کے شہری نظام کے لیے ریڈ الرٹ ہے۔ اگر یہ شہر آج بھی نہیں جاگتا، اگر شہری ادارے اور شہر میں متحرک سیاسی جماعتیں اب بھی اپنی ترجیحات کا تعین اور درست سمت کا اںتخاب نہیں کرتے، اگر ماحولیاتی اور موسمیاتی حقیقتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ 

پیر، 8 دسمبر، 2025

پروٹوکول دورغلامی کی یادگار ہے

 

    بخت آور کا بیٹا اپنی ٹرائیسکل پر اسلام آباد کی سڑک پر نکلا تو اس کے پروٹوکول میں لاتعداد   قیمتی گاڑیا ں خراماں 'خراماں  اس  کی ٹرائیسکل کی رفتار سے   اسکے پیچھے چل رہی تھیں' پروٹو کول کی لعنت دراصل دور غلامی کی یادگار ہے آج صورتحال یہ ہے کہ جس شخص کے پاس کچھ وسائل ہیں یاپاکستان کا کے ایک شہری نے بتایا کہ     ہمارے حاکم جن کے پاس  اختیارات ہیں وہ اس بات میں فخر محسوس کرتے ہیں  کہ اپنے ساتھ دس‘ بارہ مسلح ملازم اور کم ازکم پانچ سات گاڑیاں لے کر چلیں اور جہاں سے وہ گزریں  ہٹو بچو کی صدا دینے والے لوگ آگے آگے ہوں اور حضرت گردن اکڑا کر اور سینہ تان کر گزریں۔ ایم این ایز،سرکاری افسران اور انتظامی عہدہ داران سب اس بیماری کا شکار ہیں اور وزراءتو جب کہیں سے گزریں تو وہاں پر عوام کے کئی گھنٹے سخت اذیت میں گزرتے ہیں کیونکہ عوام کی آمدورفت اس علاقہ میں ممنوع ہو جاتی ہے اور کئی ایسے واقعات بھی ہو چکے ہیں بھی ہو چکے ہیں کہ پروٹوکول کی وجہ سے لائنوں میں لگی ہوئی ایمبولینس یا گاڑی میں موجود مریض بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نا رینگی

 اور یہ کلچر آج بھی جاری ہےبح یو نیو رسٹی کے لئے جلدی نہ اٹھ سکا کیونکہ رات کو دیر تک جاگتا رہا کام زیادہ تھا ۔جب اٹھا تو کافی دیر ہو چکی تھی تیا ر ہوا اور کھانا کھائے بغیر یو نیو رسٹی کی راہ لی جب میں جی ٹی روڈ پہ پہنچا تو دیکھا کہ ٹریفک جام ہے پہلے تو میں نے سوچا کہ کسی نے روڈ بلاک کیا ہوا ہے لیکن میری سوچ غلط تھی۔ میں نے بائیک کو گھساتے ہوئے پاکستانی طریقہ استعمال کیا اور سب سے آگے جا کھڑا ہوا اس دورانئیے میں مجھے بیس منٹ لگ گئے میں نے ہمت کر کے ٹریفک وارڈن سے پوچھا کہ سر کیا وجہ ہے جواب ملا کہ کام سے کام رکھو میں خاموش ہو گیا ۔لیکن مجھے بہت غصہ آیاخیر مزید ٹائم گزرنے کے بعد دو پولیس کی گاڑیاں گزریں تب معلوم ہوا کہ یہاں سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا گزر ہونا ہے ۔ان گاڑیوں کے پیچھے ریسکیوایمبولینس اور تین بلٹ پروف گاڑیاں جو کہ بالکل ایک ہی طرح کی بنی ہوئی تھیں ان میں سے کسی ایک گاڑی میں بیٹھے ہوئے میاں صاحب اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے ان کے پیچھے مزید چالیس سے پچاس گاڑیاں اور تھیں

 میں اتنا پروٹوکول دیکھ کر حیران ہو گیا جو کہ کوگوں کے منہ سے سن رکھا تھا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ۔میاں صاحب کو اسمبلی سے گھر جانے کے لئے کم ازکم چار سے پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہوں گے جو کہ ایک معمولی سی بات ہے ۔جب آپ سگنل توڑتے ہیں تو آپ چالان کی صورت میں پیسے ادا کرتے ہیں جو کہ درست بھی ہے لیکن اگر آپ اپنے پیچھے ایمبولینس کی آواز سنیں تو آپ سگنل توڑ کریمبولینس کو رستہ دیتے ہیں کیونکہ انسان کی جان قیمتی ہے ۔ اگر فارن ملکوں کی بات کریں تو وہ لوگ ایک جانور کی جان بچانے کے لئے لا کھوں خرچ کر دیتے ہیں کیونکہ جان تو جان ہوتی ہے چاہے انسان کی ہو یا جانور کی ۔سائرن کی آواز بڑی دیر سے سنائی دے رہی تھی لیکن ہر ایک کو اپنی پڑی ہوئی تھی آوازایمبولینس کی تھی جس میں ایک مریض اپنی زندگی اور موت کی سانسیں گن رہا تھالیکن کوئی رستہ دینے کو تیا ر نہ تھا وہ تو خدا کی رحمت تھی اس مریض کی جان بچنی تھی ایمبولینس ٹائم سے ہسپتال پہنچ گئی اورعلاج وقت پہ شروع کر دیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے تو اس کی جان لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔

 اگر وزیر اعلیٰ صاحب کے گھر پہنچنے تک پروٹوکول کے لئے قوم کے لاکھوں روپے خرچ کئے جا سکتے ہیں تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سڑکیں بلاک ہونے میں ایک طالبعلم کا یونیورسٹی سے دیر ہونے کو تو آپ نظر انداز کیجئے اگر وہ مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تو اس کا ذمہ دار کون تھا ایمبولینس کو رستہ نہ دینے والے یا وزیر اعلیٰ فرض کریں اگر وہ مر جاتا تو کیا ہوتا اس کے لواحقین احتجاج کرتے تویہ خبر نیوذ چینل کا حصہ بنتی اس پہ تجزئے ہوتے میاں صاحب کی طرف سے افسوس کیا جاتا ارو اس کے لواحقین کو دو چار لاکھ روپے نواز دئیے جاتے ان کا منہ بند کرنے کے لئے کچھ دن سوگ کے بعد لواحقین بھی اپنے معمولات میں مصروف ہو جاتے۔یہ ہے پاکستان میں انسان کی قیمت صرف کچھ پیسے کیا ہم اپنی قدر بھول چکے ہیں ہم کیوں قیمتی جانو ں سے کھیل رہے ہیں ؟؟؟؟ہم کیوں اس قدر لالچی ہو گئے ہیں ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟عوام یا عوام کے مقرر کردہ حکمران جو سانپ کی طرح اس ملک کو لوٹتے جا رہے ہیں کیا اس نظام کو 

اتوار، 7 دسمبر، 2025

آ تینوں موج کراواں‘ آ

 

پنجابی لوک گلوکار عارف لوہار  اپنے والد عالم لوہار کی طرح چمٹا لے کر  پاکستان کے  اسٹیج پر  ظاہر ہوئے  اور بہت کم وقت میں اپنی خداداد  صلاحیت اور اپنے والد  کے نقش قدم پر چلتے ہوئے   اپنی فوک گائکی کا لوہا منوا لیا  -وہ ٍچمٹے کی دھن پر کئی مشہور گانے گا چکے ہیں۔ پنجاب کی ثقافت کو اپنے گانوں کے ذریعے سامنے لانے والے عارف لوہار نے  کچھ مہینوں  قبل ایک گانا گایا ’آ تینوں موج کراواں‘ جسے خاصا پسند کیا جا رہا ہے۔اس گانے کو ایسی مقبولیت ملی کہ چاہے انسٹاگرام رِیلز ہوں یا پھر ٹک ٹاک ویڈیوز، ہر جگہ ہی یہ گانا سننے کو ملتا ہے۔اس گانے کی خاص بات اس کے الفاظ اور دو پنجابی گلوکار ہیں۔ روچ کِلا اور دیپ جنڈو کینیڈین پنجابی ریپر ہیں۔ روچ کِلا سبھا لیبیا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والدین پاکستانی ہیں جبکہ دیپ جنڈو ایک پنجابی پروڈیوسر اور ریپر ہیں جن کا تعلق بھی کینیڈا سے ہے۔اس اشتراک اور گانے کی دلچسپ کہانی سناتے ہوئے عارف لوہار نے بتایا ’ میں ایک دن لندن میں تھا۔ میری ٹیم اور میں گانے بنا رہے تھے تو میں نے بچوں کو کہا کہ وہ جا کر دکان سے چپس لے آئیں۔ جب وہ لے کر آئے تو میں نے گُنگنا کر اُنھیں کہا کہ ’آ تینوں چیپس کِھلاواں۔‘’اب مجھے نہیں علم تھا کہ یہ دھن بن جائے گی۔


پھر میری ٹیم نے دو سال بعد مجھے یاد کروایا کہ وہ جو دھن آپ نے بچوں کے ساتھ بنائی تھی اُس کا کچھ کریں۔عارف لوہار نے مزید بتایا کہ اس گانے کو جو بعد میں مقبولیت ملی اس کا اُنھوں نے تصور نہیں کیا تھا۔عارف لوہار کا کہنا ہے کہ جب کوئی چیز تخلیق ہونے والی ہوتی ہے، تو وہ اس طرح ہی بن جاتی ہے۔اپنے والد کی مشہور ’جُگنی‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُس کا نیا ورژن بھی ایسے ہی اچانک بن گیا تھا۔’مجھے کہا گیا کہ فِلر کے لیے کچھ چاہیے۔ جو پہلے سے گایا ہوا کلام ہے اُسی کو نیا کر کے بنا دیں تو میں نے پھر ایسے ہی بیھٹے بیٹھے بنا دیا۔‘لوک داستانیں، لوک گیت، گانے والا انسان ہوں‘عارف لوہار کے ماضی کو دیکھیں تو اُنھوں نے اپنے فن کو اپنی محنت اور لگن سے عروج پر پہنچایا۔ انھوں نے موسیقی کی دنیا میں تیز رفتاری سے ہوتی ہوئی ترقی کا ساتھ بھی دیا اور روایات کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔چمٹا ہاتھ میں لیے پنجاب کا روایتی دھوتی کرتا پہنے عارف لوہار نے جدید موسیقی اور روایتی انداز کو ساتھ ساتھ رکھا ہوا ہے۔ پہلے ان کی جگنی ہر جگہ سنائی دیتی رہی تو آج کل چرچے ’آ تینوں موج کراواں‘آ کے ہیں عارف لوہار کا یہ نیا روپ دنیا بھر میں ان کے مداحوں کو خوب پسند آیا


مگر ساتھ ساتھ یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کی پسند کو دیکھتے ہوئے لوک موسیقی کی جانب کم توجہ دی جا رہی ہے۔اسی بارے میں عارف لوہار کا کہنا تھا ’میں خالص فوک میوزک، لوک داستانیں، لوک گیت، گانے والا انسان ہوں، ایسا کچھ ہونا چاہیے کہ سب ایک ساتھ لے کر چلیں۔‘بچوں میں گانے کا ہنر قدرتی طور پر موجود تھا‘عارف لوہار کے تین بیٹے ہیں جن کے نام علی، عامر اور عالم ہیں۔ ان میں سے سب سے چھوٹے بیٹے عالم کو ’عارف لوہار جونیئر‘ بھی کہا جا رہا ہے۔عارف لوہار کا کہنا ہے کہ ’میں ان بچوں کا والد بھی ہوں اور ماں بھی۔‘ چند سال قبل عارف لوہار کی اہلیہ کی وفات ہوئی تھی۔ جس کے بعد اب وہ عام طور پر اپنے بیٹوں کو جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کو اس وقت بھی قریب رکھنا پسند کرتے ہیں جب وہ پرفارم کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کل سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں اُن کے تینوں بیٹے اُن کے ساتھ کانسرٹس اور مختلف تقریبات میں نظر آتے ہیں۔بی بی سی کی ٹیم جب عارف لوہار کے گھر پہنچی تو اُن کے ساتھ اُن کے تینوں بیٹے بھی موجود تھے۔


 سب سے چھوٹے بیٹے عالم لوہار نے بتایا کہ ’مجھےکبھی بھی بابا نے نہیں بولا کہ گانا گاؤ۔ یہ شوق مجھ میں پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں بابا کے گانے کا سٹائل پسند ہے۔‘ان کے بیٹے عامر کا کہنا تھا کہ وہ موسیقی کے ساتھ ساتھ پڑھائی پر بھی اُتنی ہی توجہ دیتے ہیں۔عارف لوہار اپنے بچوں کے بارے میں آبدیدہ ہو گئے اور اُنھوں نے کہا ’یہ تین بچے ہیں جو میرے تین پہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان بچوں کو میں نے کچھ نہیں کہا کہ یہ کرو یا وہ کرو، گانے کا ہنر اُن میں قدرتی طور پر موجود تھا۔‘’اپنے والد کا عاشق ہوں‘عارف لوہار کے بچے والد کی طرح نہ صرف چمٹا بجانا جانتے ہیں بلکہ اُن کو دیگر آلات بجانے میں بھی مہارت حاصل ہے۔عارف لوہار نے بتایا کہ اُن کے بیٹوں کو گائیکی کا شوق ہے مگر انھوں نے کبھی ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی۔اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ وہ اپنے دادا اور باپ کی میراث کو آگے بڑھائیں گے۔‘عارف لوہار کے والد عالم لوہار کی شہرت بھی سرحد کے دونوں پار تھی۔ عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی دھنوں پر وہ لوگ بھی جھوم اٹھتے تھے، جنھیں اردو یا پنجابی کی سمجھ نہیں تھی۔ انھیں ’جُگنی کا خالق‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی آواز میں گائے گئے پنجابی گیت آج بھی مقبول ہیں۔ اس وقت وہ اپنے  ہونہار بیٹوں سمیت  یورپ کے کئ ملکوں میں اپنی پرفارمنس پیش کر کے ڈھیرساری داد وصول کر

ہفتہ، 6 دسمبر، 2025

تین زبانوں میں گیت گانے والی پاکستانی فوک گلو کارہ نصیبو لال

 

 تین زبانوں میں گیت گانے والی پاکستانی  فوک گلو کارہ نصیبو لال ۔  نصیبولال کی والدہ کلورکوٹ کی مشہور "ببلی گڈوی والی" تھیں۔1970 میں اسی ببلی گڈوی والی کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام نصیبولال رکھا گیا اور واقعی وہ نصیبولال ثابت ہوئی۔ نصیبولال نے بھی کلورکوٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ گانے بجانے کا کام کیا اور کلورکوٹ میں ان کو گڈوی والی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ نصیبولال کے خاندان کے لوگ کلورکوٹ سے باہر بھی گانا گانے جاتے تھے اور کچھ ان کے لوگ مستقل طور پر بڑے شہروں میں چلے گئے۔ ایک محفل میں نصیبولال کو گانے کا موقع دیا گیا جس کی آواز کو اتنا پسند کیا گیا کہ ان کو بہت سے شادی کے گانے کے پروگرام میں بلایا گیا۔ اسی طرح نصیبولال ریڈیو پاکستان تک پہنچ گئی جہاں انہوں نے اپنی آواز کے ایسے سُر بکھیرے کہ لوگ نصیبولال کو ڈھونڈنے لگے۔ انھوں نے کوک اسٹوڈیو کے نویں سیزن میں بطور نمایاں فنکار کے طور پر کام کیا،  انہوں نے   راجپوتانہ ، ہندوستان   میں ایک خانہ بدوش گھرانے میں جنم لیا ۔  بچپن کی ابتدائی عمر میں ہی گلوکاری کا آغاز کیا اور مشہور ہوگئیں۔ ان کے کریڈٹ میں ان کے بہت سے گانے ہند و پاک دونوں ملکوں میں یکساں مقبول ہیں ۔آپ کو بین الاقوامی میوزک شوز میں بھی مدعو کیا جاتا ہے-پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ نصیبولال کا خاندان 1947 سے پہلے انڈیا علاقہ راجھستان میں رہتے تھے۔


ان کا خاندان                                 گلی              محلوں میں                             ہونے والی تقریبات میں بالخصوص شادی بیاہ  میں گیت گا کر   اپنی                           معاشی ضروریات پوری  کرتا تھا            ۔ یہ راجھستان کے ثقافتی گلوکار تھے جو راجھستانی لباس کے ساتھ راجھستانی گانے بھی گایا کرتے تھے۔  لوک موسیقی بھی راجستھانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ لوک گیت عام طور پر بہادری کے کاموں اور محبت کی کہانیوں سے متعلق ہوتے ہیں  اس وقت راجپوتوں کے محلوں میں انگریزوں کو عشایہ رکھا جاتا تو ان مقامی گلوکارں کو بھی بلایا جاتا جن کے لباس اور گانوں سے انگریز بہت خوش ہوتے اور ان کو کچھ انعامات سے بھی نواز دیتے۔ 1947 کی تقسیم کے وقت نصیبولال کا خاندان نے بھی انڈیا سے پاکستان ہجرت کی ۔ وہ ٹرین ان کو اس وقت کے ضلع میانوالی اور آج کا ضلع بھکر کے شہر کلورکوٹ میں لے آئی۔کلورکوٹ میں آجانے کے بعد نصیبولال کے خاندان نے گلوکاری کو جاری رکھا اور شروع میں ان کے خاندان نے اپنے راجھستان لباس پہنے رکھا جس میں مرد کرتی لنگی اور رنگ برنگی پگڑی اور عورتیں کسی بڑی محفل میں ساڑی پہنتی تھی اور محفل میں ان کے لباس سے مزید نکھار پیدا ہو جاتا اور یہ لباس ان کی ایک پہچان بھی تھی۔ فلم انڈسٹری نے نصیبولال سے بہت گانے رکارڈ کیے لیکن فلمانڈسٹری کے حلات خراب ہونے کے بعد نصیبولال نے لاہور تھیٹر کے لیے گانے رکارڈ کرئے مگر وہ گانے  ان کو راس  نہیں آئے۔ تو پھر وہ اپنے  ٹریک پر واپس آگئیں  اللہ نے نصیبو لال کی قسمت میں بے پناہ شہرت بھی رکھی اور دولت بھی رکھی   -نصیبو لال جو اپنے بچپن کی عمر سے اپنی ماں کی مددگار بن کر کھڑی ہوئیں  تو اللہ نے بھی ان کا ہاتھ تھام کر بتا دیا کہ ہم کسی کی محنت کو رائگاں نہیں کرتے ہیں 


اب نصیبو لال اور ان کے خاندان کے کچھ فرد لاہور شاہدرہ کے گڈوی ولے محلے میں رہتے ہیں۔ نصیبولال ساڑی پہنتی ہیں اور ایک انٹرویو میں ان سے سوال ہوا کہ آپ زیادہ ساڑی کیوں پہنتی ہیں انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا خاندان 1947 سے پہلے راجھستان سے تھا اور وہاں کا ہمارا لباس ساڑی تھا اور پاکستان آنے کے بعد ہم نے یہی اپنا لباس رکھا۔ کلورکوٹ میں پیدا ہونے والی نصیبولال نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اپنے سُر کے جادو جگا چکی ہیں اور بہت سے ملکی اور غیر ملکی عزاز اپنے نام کیے۔نصیبو لال چنگڑ قوم سے تعلق رکھتی ہے بھکر کے علاقے کلور کوٹ سے اسکا تعلق ہے لیکن یہ لوگ خانہ بدوش لوگ تھے جن کو پکھی واس جھونپڑوں والے کہا جاتا ہے تو یہ لوگ نگر نگر گھوما کرتے تھے۔کبھی کہاں جھونپڑیاں لگا لیں تو کبھی کہاں۔۔نصیبو گھڑوی بجاتی تھی اور اسکی ماں اور اسکی بڑی بہن تینوں مل کر گانا گاتی تھیں۔۔نصیبو کی ماں کی آواز بھی بہت سریلی تھی اور نصیبو کی بڑی بہن فرح کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی۔ یہ تینوں ماں بیٹیاں ٹرک اڈوں پر دوکانوںپر  گھڑوی پر گانے سنا کر پانچ پانچ روپے وصول کرتی تھیں۔1998 /99 کے زمانے میں پانچ روپے کی بڑی قدر ہوتی تھی۔نصیبو کے خاندان نے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کے نواحی قصبہ آدھی والی کھوئی میں اپنی جھونپڑیاں لگائی تھیں اور قصبے   میں  تینوں ماں بیٹیاں گھڑوی پر گانا بھی سناتی تھیں۔ 


وہاں پر ایک بڑا زمیندار تھا جس کا نام تھا پیر پپو چشتی۔ پیر پپو نے جب نصیبو کا گھڑوی پر گانا سنا تو اسے نصیبو کی آواز  دل کو لگی اور اس نے اپنے خرچہ پر لاہور کی ایک کیسٹ کمپنی میں نصیبو کا پہلا البم ریکارڈنگ کروایا جس کا گیت تھا۔وے توں وچھڑن وچھڑن کرنا ایں جدوں وچھڑے گا پتہ لگ جاو گا۔اسی البم کا دوسرا گیت تھا۔ جِنے ٹکڑے ہونے دل دے وے ہر ٹکڑے تے تیرا ناں ہونایں۔یاد رہے پہلے البم کے وقت یہ صرف نصیبو ہی تھی نصیبو لال نہیں تھی۔پہلا البم نصیبو کا اتنا ہٹ ہوا کہ سپرہٹ ہوگیا۔ انہی دنوں ملکہ ترنم نورجہاں کی وفات کو تھوڑا وقت ہوا تھا اور نورجہاں کے پرستار بہت بے چین تھے کہ نصیبو نے پہلا البم ریلیز کیا تو نورجہاں کے سب پرستار نصیبو کی طرف لپک پڑے اور نصیبو واحد سنگر ہے جو پہلے البم پر ہی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔بعد میں نصیبو نے اپنے نام کے ساتھ نصیبو لال لگا دیا اور موسیقی کی دنیا میں چھا گئی-نصیبو لال نے نورجہاں کی کمی پوری کر دی تھی بلکہ نورجہاں سے بھی زیادہ شہرت پا گئی۔نصیبو لال جھونپڑیاں چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگئی۔نصیبو نے اپنی ماں کو بھی سنگر بنانا چاہا مگر اس نےمعذرت کرلی کہ میری اب عمر ڈھل گئی ہے اپنی بہن کو سنگر بنا دیں۔نصیبو لال نے اپنی بہن فرح کو بھی سنگر بنا دیا جو فرح لال کے نام سے مشہور ہے

جمعہ، 5 دسمبر، 2025

ٹورانٹو کنیڈا کا اہم ترین شہر ہے

  ٹورنٹو کنیڈا کا  اہم ترین شہر ہے جس میں  آدھے شہری امیگرنٹس ہیں یہاں کے ریسٹورنٹس انہی  کے دم قدم سے بھرے رہتے ہیں  بس آپ گوگل پر دیسی ریسٹورینٹ لکھئے اور بے شمار نام آ پ کے سامنے آ جائیں گے-بسوں میں سفر کے دیکھئے اسی فیصد ڈرائیورز دیسی ملیں گے -زبان کا کوئ مسئلہ نہیں اردو ہندی پنجابی  انگلش جو آپ بولنا پسند کیجئے گا وہی زبان آپ کو بولنے والا مل جائے گا ٍ-اس کا کل رقبہ 630 مربع کلومیٹر ہے۔ شمالاً جنوباً کل 21 کلومیٹر جبکہ شرقاً غرباً 43 کلومیٹر لمبا ہے۔ جھیل اونٹاریو کے کنارے اس کا ساحل کل 26 کلومیٹر طویل ہے اور ٹورنٹو کے کچھ جزائر اس جھیل کے اندر بھی موجود ہیں۔ اس شہر کی جنوبی حد جھیل اونٹاریو، ایٹوبیکو کی کھاڑی اور ہائی وے نمبر 426 شمال میں، سٹیلز ایونیو شمال میں جبکہ روگ دریا مشرق میں حد بندی کا کام دیتا ہے۔شہر کے درمیان سے دو دریا اور ان کی ڈھیر ساری شاخیں گذرتی ہیں۔ ہمبر دریا مغربی حصے سے جبکہ ڈون دریا مشرق سے گذرتا ہے۔ شہر کی بندرگاہ قدرتی طور پر جھیل اونٹاریو کی لہروں کے نتیجے میں ریت وغیرہ کے جمع ہونے سے بنی ہے۔ اسی عمل کے نتیجے میں بندرگاہ کے پاس موجود جزائر بھی بنے تھے۔ جھیل میں گرنے والے بہت سارے دریاؤں نے اپنی گذرگاہوں میں گھنے جنگلات سے بھری ہوئی کھائیاں بنا دی ہیں۔ تاہم یہ کھائیاں شہر کے نقشے میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ تاہم ان کھائیوں کی مدد سے شہر میں بارش وغیرہ کے سیلابی پانی کی نکاسی بہت آسان ہو جاتی ہے۔


پچھلے برفانی دور میں ٹورنٹو کا نشیبی حصہ گلیشئر کی جھیل اروکوئس کے نیچے تھا۔ آج بھی شہری حدود اس جھیل کے کناروں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اگرچہ ٹورنٹو زیادہ تر پہاڑی نہیں تاہم جھیل سے اس کی بلندی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ جھیل اونٹاریو کا کنارہ سطح سمندر سے 75 میٹر جبکہ یارک یونیورسٹی کے مقام پر یہ بلندی 209 میٹر ہو جاتی ہے۔جھیل کا کنارہ زیادہ تر 19ویں صدی کے اواخر میں کی گئی منصوعی بھرائی سے بنا ہے۔کینیڈا کے جنوبی حصے میں واقع ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو کا موسم معتدل نوعیت کا ہے۔ ٹورنٹو کی گرمیاں گرم اور نم جبکہ سردیاں سرد تر ہوتی ہیں۔ شہر میں 4 الگ الگ نوعیت کے موسم پائے جاتے ہیں اور روز مرہ کا درجہ حرارت سردیوں میں بالخصوص کافی فرق ہو سکتا ہے۔ شہری آبادی اور آبی زخیرے کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو میں دن اور رات کے درجہ حرارت میں کافی تغیر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں رات کا درجہ حرارت سردیوں میں بھی نسبتاً کم سرد رہتا ہے۔ تاہم بہار اور اوائل گرما میں سہہ پہر کا وقت کافی خنک بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ جھیل سے آنے والی ہوائیں ہیں۔ تاہم بڑی جھیل کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے برفباری، دھند اور بہار اور خزاں کا موسم تاخیر سے بھی آ سکتا ہے۔ٹورنٹو میں موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کچھ وقت کے لیے منفی 10 ڈگری سے نیچے رہ سکتا ہے جو ہوا کی رفتار کی وجہ سے زیادہ سرد محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس صورت حال میں برفباری یا بارش بھی شامل ہو جائے تو روز مرہ کی زندگی کے کام کاج رک جاتے ہیں اور ٹرینوں، بسوں اور ہوائی ٹریفک میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نومبر سے وسط اپریل تک ہونے والی برفباری زمین پر جمع ہو جاتی ہے۔


 تاہم سردیوں میں اکثر درجہ حرارت کچھ وقت کے لیے 5 سے 12 ڈگری تک بھی چلا جاتا ہے جس سے برف پگھل جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہو جاتا ہے۔ ٹورنٹو میں گرمیوں کا موسم نم رہتا ہے۔ عموماً درجہ حرارت 23 سے 31 ڈگری تک رہتا ہے اور دن کے وقت درجہ حرارت 35 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے جو ناخوشگوار بن جاتا ہے۔ بہار اور خزاں موسم کی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔بارش اور برفباری سال بھر ہوتی رہتی ہیں تاہم گرمیوں میں بارش کی مقدار کافی زیادہ رہتی ہے۔ اگرچہ بارشوں میں طویل وقفہ بھی آ جاتا ہے تاہم قحط سالی جیسی صورت حال سے کبھی کبھار ہی واسطہ پڑتا ہے۔ سال بھر میں 32 انچ سے زیادہ بارش جبکہ 52 انچ سے زیادہ برف گرتی ہے۔ ٹورنٹو میں اوسطاً 2038 گھنٹے سورج چمکتا ہے۔وِل السوپ اور ڈینیئل لیبیس کائنڈ جیسے ماہرین کے نزدیک ٹورنٹو میں کوئی ایک طرزِ تعمیر نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی عمارات کا طرزِ تعمیر بدلتا رہتا ہے۔ٹورنٹو کے افق پر سب سے اہم عمارت سی این ٹاور ہے جو 553 میٹر سے زیادہ بلند ہے۔ برج خلیفہ کی تعمیر سے قبل یہ دنیا کی سب سے اونچی آزاد کھڑی عمارت تھی۔ٹورنٹو میں فلک بوس عمارات کی تعداد 2000 سے زیادہ ہے جن کی بلندی 90 میٹر یا اس سے زیادہ ہے۔ اونچی عمارات کی تعداد کے لحاظ سے  شمالی امریکا میں نیو یارک اس سے آگے ہے۔ٹورنٹو کا سب سے اہم سیاحتی مرکز سی این ٹاور ہے۔ اس ٹاور کے خالقین کے لیے یہ بات خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ ان کے اندازوں کے برعکس 30 سال سے زیادہ عرصے تک یہ عمارت دنیا کی بلند ترین عمارت شمار ہوتی رہی ہے


۔ اونٹاریو کا شاہی عجائب گھر بھی سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے جہاں دنیا کی ثقافت اور مظاہر قدرت کے متعلق چیزیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 5000 سے زیادہ حیوانی نمونے موجود ہیں جو 260 سے زیادہ انواع کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مختلف نوعیت کے کئی عجائب گھر یہاں موجود ہیں۔یارک ولے نامی مضافاتی علاقہ ٹورنٹو بھر میں اپنے ریستورانوں اور خریداری کے مراکز کی وجہ سے مشہور ہے۔ اکثر اس علاقے میں شمالی امریکا کے فلمی ستارے اور اہم شخصیات خریداری کرتی یا کھانا کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں سالانہ اوسطاً 5 کروڑ سے زیادہ سیاح آتے ہیںگریک ٹاؤن میں موجود ریستورانوں کی تعداد فی کلومیٹر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ٹورنٹو کاروباری اور معاشی لحاظ سے اہم بین الاقوامی مرکز ہے۔ عموماً اسے کینیڈا کا معاشی مرکز مانا جاتا ہے۔ ٹورنٹو سٹاک ایکسچینج کو کاروباری سرمائے کے اعتبار سے دنیا بھر میں 8ویں بڑی مارکیٹ مانا جاتا ہے۔ کینیڈا کے پانچوں بڑے بینکوں اور دیگر بڑے کاروباری اداروں کے صدر دفاتر ٹورنٹو میں قائم ہیں۔اس شہر کو میڈیا، پبلشنگ، مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فلمی صنعت کا اہم مرکز مانا جاتا ہے۔اگرچہ یہاں کی زیادہ تر مینو فیکچرنگ کے مراکز شہر کی حدود سے باہر واقع ہیں تاہم ٹورنٹو ہول سیل اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے اہم حیثیت رکھتا ہے۔ کیبویک اور ونڈسر کی راہداری میں اپنے اہم جغرافیائی محلِ وقوع اور ریل اور سڑکوں کے بہترین نظام کی بدولت آس پاس موجود گاڑیاں بنانے، فولاد، سٹیل، خوراک، مشینری، کیمیکل اور کاغذ کی مصنوعات ٹورنٹو سے ہی آگے بھیجی جاتی ہیں

موسم سرما کے پھلوں کے فوائد

 





موسم سرما کے پھلوں کے کیا فوائد ہیں؟کینو، مالٹے، فروٹر، انار، انگور، سیب، ناشپاتی، امرود اور کیلے یہ تمام وہ پھل ہیں جن کا شمار سردی کےخاص پھلوں میں ہوتا ہے، ماہرینِ غذائیت کا کہنا ہے کہ جسمانی نظام کے لیے منرلز اور وٹامنز بہت ضروری ہیں جن کو قدرتی طور پر حاصل کرنے کے لیے پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بنانا لازمی ہے۔کینو، ما لٹا، فروٹرمالٹے کی کئی اقسام موجود ہیں جیسے کہ نارنجی، کینو، فروٹر اور مالٹا، ان پھلوں کے جوس کے استعمال سے دنوں میں وزن کم کرنے سمیت متحرک رہنے میں مدد ملتی ہے اور قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔ہمارے ہاں عام طور سے یہ پھل ’کینو ‘ کہلاتاہے، جو صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کا شمار مالٹےاور کینو پیدا کرنے والے چھٹے بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے۔موسمی پھلوں کے استعمال سے ناصرف صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ اس کے براہِ راست مثبت اثرات خوبصورتی پر بھی آتے ہیں جس کے نتیجے میں جِلد، ناخن اور بالوں کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور خوبصورت میں اضافہ ہوتاانار دل، دماغ، گردوں اور نظام ہاضمہ کے لیے ایک قدرتی ٹانک ہے اور یہ خون کی کمی دور کرنے، کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے دیگر فوائد میں نظامِ ہاضمہ کو مضبوط کرنا، قوتِ مدافعت میں اضافہ، جلد اور بالوں کی صحت میں بہتری، اور وزن کم کرنے میں مدد شامل ہیں۔ یہ پھل وٹامن سی اور کے، فلیوونائڈز اور دیگر اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا  ہے۔


مالٹے اور کینو نظام ہضم کو بہتر بناتے، وزن میں کمی کرتے، وٹامن سی کی زائد مقدار کے باعث جینیاتی بوسیدگی اور عمر رسیدگی کے اثرات سے بچاتے اور آیورویدک علاج میں بلغم و کھانسی کو کم کرتے ہیں۔انار، موسم سرما کا خاص پھل ہے جو تقریباً ہر ایک کا ہی پسندیدہ ہوتا ہے۔ یہ فائبر ، پوٹاشیم ، وٹامن سی اورB6سے بھرپور ہے۔اس کے استعمال سے دل اور جگر کو طاقت ملتی ہے، متعدد بیماریوں جیسے کہ پھیپھڑوں، چھاتی کے سرطان، امراضِ قلب، الزائمر، ذیابیطس، موٹاپے اور جوڑوں کی سوزش میں انار مفید ثابت ہوتا ہے۔اس کے علاوہ انار کا روزانہ استعمال رنگت بھی نکھارتا ہے۔انگورپاکستان میں مختلف رنگوں کے انگور پائے جاتے ہیں جن میں سرخ، جامنی، ہرے اور پیلے انگور شامل ہیں، انگور میں وٹامن اے کا خزانہ پایا جاتا ہے جبکہ انگوروں میں دیگر وٹامنز یعنی، ڈی 3، ای، سی، ڈی، بی12، بی 6 اور کے بھی پایا جاتا ہےماہرینِ غذائیت کے مطابق انگور کا استعمال دل کے امراض دور کرتا ہے اور کارکردگی بہتر بناتا ہے، اس کے علاوہ ذیابیطس، کینسر، جوڑوں کے درد، وائرل، انفیکشن اور الرجی سے بچاتا ہے۔کیلے سے بلڈپریشر کا علاج ممکن ہے؟


سیب-سیب میں موجود کاپر، پوٹاشیم اور وٹامن سی کی زائد مقدار جِلد کو قدرتی چمک، نکھار اور جسم پر نکلنے والے دھبوں کے نشان ختم کرنے میں جادوئی تاثیر رکھتی ہے۔سرخ سیب کے علاوہ سبز سیب میں فائبر، منرلز اور وٹامنز کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ جِلد کے کینسر سے بچائو کے لیے ہرے سیب کا استعمال کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ اس کے استعمال سے جِلد صحت مند رہتی ہے۔ ناشپاتی کا شمار سیب کے خاندان سے ہے۔ سیب کے بعد یہ سب سے بہترین پھل ہے، جسے سیب کی طرحہی کھایا جاتا ہے۔ یہ امریکا و پاکستان کا اہم پھل ہے جو سبز، زرد اور سرخ رنگوں میں پایا جاتا ہے۔اس کے غذائی اجزا اور نشاستوں میں پروٹین 0.38گرام اور کولیسٹرول کی صفر مقدار ہے جبکہ یہ وٹامن اے، سی، ای اور کے سے بھرپور ہے۔ معدنیا ت میں کیلشیم، کاپر، آئرن، میگنیشیم، میگنیز، فاسفورس اور زنک شامل ہیں۔ناشپاتی جلد کے لیے ہمیشہ سودمند اور نشاستوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ اس میں وٹامن کے کی کثیر مقدار خون کو جمنے سے روکتی ہے ، ساتھ ہی بلند اور کم فشار خون کی شکایت کو دور رکھتی ہے۔موسم سرما میں بچوں کی صحت کی حفاظت کیسے کریں؟


امرود-فائبر اور وٹامن اے، بی6 اور سی سے بھر پور امرود کو بھی سپر فوڈز میں شمار کیا جاتا ہے، اس پھل کا سلاد اور چاٹ بنا کر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق امرود کو غذا میں شامل کر لینے سے قبض سے نجات ملتی ہے، ٹھنڈ اور کھانسی میں افاقہ ہوتا ہے، وزن میں کمی، کینسر کے خدشات کم کرتا ہے اور ہارمونز کی افزائش میں کردار ادا کرتا ہے۔امرود ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ایک ذہین انتخاب ہے۔ اس میں فائبر کا اعلیٰ مواد شوگر کے جذب کو کم کرکے خون میں شکر کی سطح کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مزید برآں، امرود کے پتوں کے فوائد میں خون کی شکر کو کم کرنے کی صلاحیت شامل ہے جب اسے چائے یا عرق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، ادویات میں اس کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے۔کیلے میں فائبر اور تین اقسام کی شکر (سکروز، فرکٹوز اور گلوکوز) پائی جاتی ہے، کیلا فوراً انرجی بحال کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔ماہرینِ غذائیت کے مطابق ایک وقت میں 2 کیلے کھانے سے 90 منٹ تک انسان خود کو تر و تازہ اور توانا محسوس کرتا ہے اسی لیے یہ دنیا بھر کے ایتھلیٹس کی خوراک کا اہم حصہ ہوتا ہے۔کیلے میں ایک مخصوص پروٹین پایا جاتا ہے جو انسان کو تھکاوٹ میں سکون پہنچاتا اور موڈ کو بہتر بناتا ہے، اسے کھانے سے نیند کی کمی کی شکایت دور ہوتی ہے۔وٹامنز اور منرلز کے لحاظ سے کیلے میں آئرن اور پوٹاشیئم بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر