اتوار، 9 مارچ، 2025

خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور جدید ترکی کا سفر

 

تر کی  میں عثمانی خلافت د م توڑ رہی تھی -غیر شرعئ طور پر کنیزیں تو  جائداد اور خلافت کے حقدار  اپنے وقت کے خلفاء کے  لئے وارثین پیدا کر رہی تھیں تو دوسری جانب  نکاح کے بندھن میں آنے والی شرفاء کی بیٹیوں کو خلیفہ کی اولاد پیدا کرے کی اجازت نہیں تھی 'پھر ظلم اپنے عروج پر پہنچا جب تخت کا وارث تو ایک بیٹا تھا باقی ۱۹ بیٹے گونگے اور بہرے  حبشی غلاموں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے -خلیفہ کے محل میں دردنا ک موت مارے جانے والے بعض  بچے بہت چھوٹی عمر کے تھے  ان میں سے عمر میں سب سے بڑے شہزادے نے جو خوبصورت اور صحت مند جسامت کا مالک تھا التجا کی کہ ’میرے آقا، میرے بھائی  ابتم میرے والد کی جگہ ہو میری زندگی اس طرح مت ختم کرو- غم سے نڈھال سلطان نے اپنی داڑھی نوچ لی لیکن جواب میں ایک لفظ نہ بولا۔اور پھر  کی گلیوں میں یہ جنازے جاتے ہوئے دیکھ کر استنبول کے شہریوں کے دل ہل گئے تھے۔اور پھر خلافت ایک بیٹے کے حصے میں آ گئ -اب کوئ بھی خلیفہ کی ہمسری کا دعویدار نہیں تھا 'سب قبروں میں سلا دئے گئے تھے اور دوسری جانب استعماری قوتیں در پردہ خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے دنیا کا نقشہ بدلنے کے لئے تیار تھیں اور اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا اب مصطفےٰ کمال پاشا  کی زمہ داری بنادی گئ تھی اپنے ہدف تک رسائی کے لئے اس نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ دمشق فوجی ہیڈ کوارٹر سے اس نے اپنی عسکری ملازمت کا آغاز کیا۔


 اس دوران جمعیت اتحاد و ترقی کے ان رہنماﺅں سے اس نے مراسم بڑھا لئے جو نئے ترکی کی تشکیل کے لئے خفیہ یا اعلانیہ پروگرام رکھتے تھے ، دوسری طرف جنگ بلقان میں اپنی عسکری مہارت کا بھرپور مظاہرہ کر کے خود کو اس نے ایک جرات مند اور بہادر کمانڈر کے طور پر منوا لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر وہ ملٹری اتاشی کے طور پر کام کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا فوجی اگلے محاذوں کے لئے بے تاب تھا۔ 1915ءمیں اس نے سربراہان سے درخواست کی کہ مجھے فوج کے کسی دستے کی کمانڈ دے کر اگلے محاذوں پر بھیج دیا جائے۔ مصطفی کمال کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے درخواست منظور کر لی گئی۔ اس کی تعیناتی آبنائے باسفورس کی طرف کر دی گئی، جہاں انگریز اور فرانسیسی افواج سے سخت معرکہ درپیش تھا۔ اسی سال یعنی 1915ءکے وسط میں چند ماہ کی مدت میں مصطفیٰ کمال نے فرانسیسی افواج کو پسپا کر دیا۔ آبنائے باسفورس کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔مصطفےٰ کمال نے سوچ لیا تھا کہ اب  ترکی کو اس   اپنے ہدف تک رسائی کے لئے اس نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ دمشق فوجی ہیڈ کوارٹر سے اس نے اپنی عسکری ملازمت کا آغاز کیا۔ اس دوران جمعیت اتحاد و ترقی کے ان رہنماﺅں سے اس نے مراسم بڑھا لئے جو نئے ترکی کی تشکیل کے لئے خفیہ یا اعلانیہ پروگرام رکھتے تھے ، دوسری طرف جنگ بلقان میں اپنی عسکری مہارت کا بھرپور مظاہرہ کر کے خود کو اس نے ایک جرات مند اور بہادر کمانڈر کے طور پر منوا لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر وہ ملٹری اتاشی کے طور پر کام کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا فوجی اگلے محاذوں کے لئے بے تاب تھا۔

 

 1915ءمیں اس نے سربراہان سے درخواست کی کہ مجھے فوج کے کسی دستے کی کمانڈ دے کر اگلے محاذوں پر بھیج دیا جائے۔ مصطفی کمال کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے درخواست منظور کر لی گئی۔ اس کی تعیناتی آبنائے باسفورس کی طرف کر دی گئی، جہاں انگریز اور فرانسیسی افواج سے سخت معرکہ درپیش تھا۔ اسی سال یعنی 1915ءکے وسط میں چند ماہ کی مدت میں مصطفیٰ کمال نے فرانسیسی افواج کو پسپا کر دیا۔ آبنائے باسفورس کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔مصطفےٰ کمال نے سوچ لیا تھا کہ اب  ترکی کو اس    د ستور سے آزادی دلانا ہے-اس کی ترقی کی رفتار تیز تر ہو گئی۔ فرانسیسی افواج کو شکست سے دوچار کرنے پر مصطفی کمال کو جنرل رینک پر پروموٹ کر دیا گیا۔ اپنی پروموشن کے پہلے ہی سال اس نے روسی افواج کو شکست دے کر ترکی کا مقبوضہ علاقہ بھی آزاد کروا لیا۔ اس کارنامے پر 1917ءمیں مصطفی کمال کو اہم محاذوں پر برسر پیکار ساتویں فوج کا کور کمانڈر لگا دیا گیا۔ 30 اکتوبر 1918ءکو جب معاہدہ امن پر دستخط ہوئے تو مصطفی کمال کو تمام ذمہ داریوں سے فارغ کر کے نئی ذمہ داریاں دینے کے لئے استنبول بلوا لیا گیا۔سلطنت عثمانیہ کے چھتیسویں فرما نروا خلیفہ وحید الدین سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ خلیفہ کی نظر مصطفی کمال اتا ترک پر پڑی تو اس کی عسکری مہارت اور انتظامی صلاحیت پر رشک کرتا۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بات پر فخر کرتا کہ مصطفی کمال جیسا بہادر اور محبت وطن سالار اسے نصیب ہوا ہے، مگر اسے خبر نہیں تھی کہ ترکی کی محبت کا دم بھرنے والے مصطفی کمال کے دماغ میں سلطنت عثمانیہ کے لئے نفرت کس ڈگری پر ہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے دربار کا ایک وفادار ہے، اسی بے خبری میں خلیفہ وحید الدین نے مصطفی کمال کو انسپکٹر جنرل بنا دیا۔مصطفی کمال کو اور کیا چاہئے تھا؟اس کی تو جیسے من کی مراد بر آئی، کیونکہ مصطفی کمال معاہدہ امن کے بعد دل گرفتہ تھا۔ امن کا یہ معاہدہ ایسے حالات میں ہوا تھا کہ یونانی افواج نے ایشیائے کوچک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جمائے رکھا تھا۔ازمیر اور اناطولیہ ترکی کے قبضے سے نکل گئے۔


  فوج کے انسپکٹر جنرل کے طور پر اتا ترک کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ افواج سے باقی ماندہ اسلحہ واپس لے کر اسلحہ ڈپو کے حوالے کر دے،مگر اسی ذمہ داری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اتا ترک نے فوج کو پھر سے منظم کرنا شروع کر دیا۔ فوج سے باہر بھی کئی قوتیں جو معاہدہ امن سے خوش نہیں تھیں، اتا ترک نے ان کی سرپرستی شروع کر دی۔  د ستور سے آزادی دلانا ہے-اس کی ترقی کی رفتار تیز تر ہو گئی۔ فرانسیسی افواج کو شکست سے دوچار کرنے پر مصطفی کمال کو جنرل رینک پر پروموٹ کر دیا گیا۔ اپنی پروموشن کے پہلے ہی سال اس نے روسی افواج کو شکست دے کر ترکی کا مقبوضہ علاقہ بھی آزاد کروا لیا۔ اس کارنامے پر 1917ءمیں مصطفی کمال کو اہم محاذوں پر برسر پیکار ساتویں فوج کا کور کمانڈر لگا دیا گیا۔ 30 اکتوبر 1918ءکو جب معاہدہ امن پر دستخط ہوئے تو مصطفی کمال کو تمام ذمہ داریوں سے فارغ کر کے نئی ذمہ داریاں دینے کے لئے استنبول بلوا لیا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے چھتیسویں فرما نروا خلیفہ وحید الدین سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ خلیفہ کی نظر مصطفی کمال اتا ترک پر پڑی تو اس کی عسکری مہارت اور انتظامی صلاحیت پر رشک کرتا۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بات پر فخر کرتا کہ مصطفی کمال جیسا بہادر اور محبت وطن سالار اسے نصیب ہوا ہے،مگر اسے خبر نہیں تھی کہ ترکی کی محبت کا دم بھرنے والے مصطفی کمال کے دماغ میں سلطنت عثمانیہ کے لئے نفرت کس ڈگری پر ہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے دربار کا ایک وفادار ہے، اسی بے خبری میں خلیفہ وحید الدین نے مصطفی کمال کو انسپکٹر جنرل بنا دیا۔مصطفی کمال کو اور کیا چاہئے تھا؟اس کی تو جیسے من کی مراد بر آئی، کیونکہ مصطفی کمال معاہدہ امن کے بعد دل گرفتہ تھا۔ امن کا یہ معاہدہ ایسے حالات میں ہوا تھا کہ یونانی افواج نے ایشیائے کوچک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جمائے رکھا تھا۔ازمیر اور اناطولیہ ترکی کے قبضے سے نکل گئے۔  فوج کے انسپکٹر جنرل کے طور پر اتا ترک کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ افواج سے باقی ماندہ اسلحہ واپس لے کر اسلحہ ڈپو کے حوالے کر دے، مگر اسی ذمہ داری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اتا ترک نے فوج کو پھر سے منظم کرنا شروع کر دیا۔



 فوج سے باہر بھی کئی قوتیں جو معاہدہ امن سے خوش نہیں تھیں، اتا ترک نے ان کی سرپرستی شروع کر دی۔ مصطفےٰ کمال اتاترک نے 29 اکتوبر سنہ 1923 کو قانون سازوں کے ایک گروپ کے ساتھ عشائیے میں یہ اعلان کیا اور اگلے روز ووٹنگ کے بعد، ترک پارلیمنٹ نے حکومت کی نئی شکل اختیار کی اور اتاترک ترکی کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔’جمہوریہ زندہ باد! مصطفی کمال پاشا زندہ باد!ترکی کے درو بام میں  فلک شگاف نعروں کی گونج میں اتاترک نے ترکی کے شرق و غرب میں  اعلان عام کیا -اب ترکی کے لوگ اپنے بچوں کو مساجد اور مدارس  بھیجنے کے بجائے جدید تعلیمی ادار و ں میں تعلیم حاصل کریں گے ۔  اذان عربی زبان میں نہیں ہو گی   ۔ حج اور عمرے  پر کو ئ نہیں جائے گا  ۔ حجاب و ٹوپی اور داڑھی  سب قدیم عاد تیں چھوڑ نا ہو ں گی ۔ مصطفی کمال نے مذہبی امور کا ایک محکمہ بھی قائم کر دیا، مگر اس محکمے کا کام یہ تھا کہ مذہب پسند لوگوں کی کڑی نگرانی کرے۔ اسی محکمے کے تحت اتا ترک نے ترکی کے انشا پردازوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ترکی زبان میں شامل ہو جانے والے عربی الفاظ کو ختم کر کے نہ صرف اس کا ترکی متبادل پیش کرے، بلکہ اس کو ہر صورت میں رائج بھی کرے۔ مسلمان اگر اذان دینا چاہتے ہیں تو ان کے لئے اذان کے عربی الفاظ کی جگہ ترکی الفاظ منتخب کئے جائیں۔  ،  ۔’جمہوریہ زندہ باد! مصطفی کمال پاشا زندہ باد!‘ترکی کے در وبام گونج اٹھے ۔  اس معاشرے کو ایک روشن خیال اور آزاد خیال معاشرہ بننا چاہئے۔ہمیں اس مقصد کے لئے ”ماڈرن ترکی“ کی طرف سفر کرنا ہوگا۔

1 تبصرہ:

  1. خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور جدید ترکی کا سفر تمام عالم اسلام کے لئے بہت برا صدمہ ثابت ہوا -کیونکہ خلیفہ بے سروسامانی کے عالم میں ترکی بدر کئے گئے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر