پیر، 22 اپریل، 2024

سیالکوٹ توجہ کا طالب ہے


   بتایا جاتا ہے کہ سیالکوٹ کی کم و بیش چار ہزار سال پرانی تاریخی حیثیت ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق تحریک آزادی اور ختم نبوت کے ایک نامور مجاہد مولانا ظفر علی خان بھی سیالکوٹ میں ہی پیدا ہوئے۔سیالکوٹ نے میدان کرکٹ اور ہاکی کے بھی بے شمار نامور اور بڑے کھلاڑی پیدا کئے،جن میں ظہیر عباس، اعجاز احمد، شعیب ملک، شہناز شیخ اور منظور جونیئر جیسے درخشندہ ستارے شامل ہیں۔ سیالکوٹ کی علمی، ادبی، ثقافتی اور تاریخی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر صرف سیالکوٹ کی تجارتی اور کاروباری حیثیت کو ہی معیار بنا لیں تو پھر بھی یہ شہر اقبال پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔قیام پاکستان کے وقت جن دو تین شہروں سے ہندو کاروبار چھوڑ گئے، اُن میں سیالکوٹ بھی شامل تھا۔ بارڈر کے اُس پار  بھارت کا ضلع جموں تھا جس کی حیثیت صرف گیٹ وے ٹو کشمیر کی تھی مگر بھارت نے جموں کو اُس کے  کافی سال پہلے ڈویژن کا درجہ دے کر یہ ثابت کیا کہ یہ صرف ایک سرحدی علاقہ نہیں ہے جو جنگوں میں سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے بلکہ وہاں باقاعدہ ریڈیو سٹیشن بھی قائم کیا تاکہ سٹرٹیجک اہمیت بھی اجاگر ہو سکے۔  سیالکوٹ کے پاس ہلال استقلال کا منفرد اعزاز ہو یا سیالکوٹ میں ڈرائی پورٹ کا قیام ہو یا پھر ایئر پورٹ کا، سیالکوٹ کے دلیر اور فراخ دل کاروباری لوگوں نے سود و زیاں سے بے فکر ہو کر خالصتاً انسانی جذبوں سے لیس ہو کر نہ صرف شہر اقبال بلکہ ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں وہ تاریخی کردار ادا کیا کہ عصر حاضر میں پاکستان تو کیا دنیا کے کسی دیگر شہر کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ایئر پورٹ کا منفرد منصوبہ اِس قدر جامع اور ہمہ گیر ہے اور حکومت سے ایک پائی وصول کیے بغیر اتنا بڑا پراجیکٹ اپنی مدد آپ کے تحت پایہ تکمیل کو پہنچنا،پھر یہاں کی بزنس کمیونٹی کی جانب سے ”ائیر سیال“ کے نام سے اپنی ایئر لائن کامیابی سے چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

 اسی طرح نوآبادیاتی طرز کے بنے ہوئے بیرکوں میں پرانی آرمی ویلفیئر شاپس کی کھڑکیوں، کلاسک برآمدے، اونچی چھتوں اور کشادہ لان میں اب وی مال کی تجارتی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ تمام  مالز میں مقبول ریٹیل برانڈز موجود ہیں جبکہ یہاں فوڈ چینز، گروسری اور بچوں کے لیے پلیئنگ ایریا بھی موجود ہے۔کمرشلائزیشن اور مال کلچر کے اس پہلو پر تو افسوس کیا جاسکتا ہے کہ یہ متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے لیے بنایا گیا ہے (جس سے طبقات میں فرق ہوگا) لیکن اس کے قطع نظر ان شاپنگ مالز میں خواتین ملازمین کی موجودگی ایک مثبت امر ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے خواتین ریٹیل افرادی قوت میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے بیوٹی سیلون انڈسٹری کے علاوہ خواتین بطور سیلز پرسن، کیشئرز، کیوسک آپریٹر اور انٹرپرونیورز بھی کام کررہی ہیں۔سیالکوٹ مال کے میک اپ سٹی میں کام کرنے والی ایک خاتون سیلزپرسن سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر کی کفالت کرتی ہیں جبکہ ان کے والد بھی چمڑے کی فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔لیکن سیالکوٹ کے نظرانداز شدہ شہر ہونے کا اس وقت شدت سے احساس ہوتا ہے جبموٹر وے سے اترنے کے بعد لگتا ہے کہ ہم کسی پسماندہ علاقے مکی حڈود میں داخل ہو گئے ہیں- شہر میں کسی بھی راستے سے داخل ہوں، شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،بیکار اور تعفن شدہ سیوریج،شکست و ریخت سے بھرپور در و دیوار اور بڑے بڑے پائپ، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم سیالکوٹ جیسے صنعتی ہب میں ہیں یا کسی علاقہ غیر میں داخل ہو چکے ہیں۔واٹر فلٹریشن پلانٹ کے غیر ضروری منصوبے کے لئے ہمارے علاقے کی200ایکڑ سے زائد نہایت بہترین زرعی اراضی چھوٹے کاشتکاروں کو اونے پونے داموں دے کر حاصل کی گئی اور صرف کمیشن کھانے کے لیے ایک بے کار منصوبہ شروع کرتے ہوئے سارے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سیالکوٹ کی حالت زار پر تو اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر کالم کی تنگ دامانی کا سامنا ہے، لہٰذا بات کو مختصر کرتے ہوئے سیالکوٹ کے ساتھ ہونے والی سیاسی اور انتظامی نا انصافیوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ 

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت مقامی کاروباری برادری کی جانب سے بنائے گئے ایس آئی اے ایل کے اس تاریخی میگا پروجیکٹ کے بارے میں پہلے بھی متعدد بار بات کی جاچکی ہے۔ اسے اکثر دیگر شعبوں اور شہروں کے لیے سرکاری مدد کے بغیر خالصتاً سول سوسائٹی کی اجتماعی طاقت کی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ایس آئی اے ایل کی کامیابی کے بعد سیالکوٹ نے اپنی ایئرلائنز، ایئر سیال کی سروسز کا آغاز کیا۔ ایئر سیل جسے ابتدائی طور پر بڑی مقامی نجی ایئرلائنز کی کم ہوتی سروسز اور قومی ایئرلائن کی پروازوں کو درپیش مسائل کے باعث شروع کیا گیا تھا، اب ایئر سیال کو اس کی سروسز اور معیار کی وجہ سے مسافروں میں خوب پسند کیا جارہا ہے۔نومبر 2007ء میں اپنے آغاز کے بعد سے سیالکوٹ ایئرپورٹ کے اثرات دور رس رہے پھر چاہے وہ معاشی مواقع کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، اس کے سماجی اور ثقافتی اثرات کا دائرہ کار کافی وسیع ہے۔ سب سے پہلے تو کسی بھی ایئرپورٹ کی طرح سیالکوٹ ایئرپورٹ نے ملازمین کے لیے مواقع پیدا کیے۔ ایئرپورٹ کے لیے متنوع افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جن میں منصوبہ سازوں اور انجینئرز، تعمیراتی عملے، گراؤنڈ ہینڈلنگ کا عملہ جیسے کار پارکنگ، سامان کی ریپنگ، سامان کی اسکیننک، مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کا عملہ اور ایئر ٹریفک کنٹرول شامل ہیں۔ ایس آئی اے ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے قوائد کے مطابق ملازمتوں کے لیے سب سے پہلے مقامی آبادی کو ترجیح دی جاتی ہے اور ان ملازمتوں کے مواقعوں نے علاقے کی معاشی ترقی میں اپنا کلیدی حصہ ڈالا ہے۔

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق کارگو ہیوی ایئرپورٹ نے سیالکوٹ کی اسپورٹس اور سرجیکل سامان کی صنعتوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان دیگر صنعتوں کو بھی ابھرنے کا موقع ملا ہے جوکہ اس سے پہلے صرف برائے نام موجود تھیں، بالخصوص کپڑوں کی صنعت اس کی واضح مثال ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سیالکوٹ کے زیادہ تر حصوں میں فی کس آمدنی کا تناسب بھی قومی اوسط سے زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بہتر معیارِ زندگی کی تلاش میں لوگوں کو سیالکوٹ ایک پُرکشش مقام لگنے لگا ہے۔ معاشی ترقی کی کشش کی وجہ سے شہر میں لوگ ہجرت کرکے آرہے ہیں اور یوں افرادی قوت میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔فی الوقت سندھ کی ہندو برادری کے بہت سے لوگ سیالکوٹ کی کپڑوں کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ چونکہ ان صنعتوں میں بہتر معاوضے والی ملازمتیں موجود ہیں اس لیے گھریلو کام جیسے صفائی اور تعمیرات کے کام کرنے والے لوگوں کی کمی ہوگئی ہے۔ اس کمی کو اب وہ افرادی قوت پورا کر رہی ہے جوکہ جنوبی اور وسطی پنجاب حتیٰ کہ خیبرپختونخوا سے ہجرت کرکے آئی ہے۔شاپنگ مالز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی شہر کی صورت کو تبدیل کردیا ہے۔ ایک وقت میں سیالکوٹ جو بازاروں کی چہل پہل کے لیے جانا جاتا تھا، اب اس نے مقبول برینڈز، فوڈ چینز اور کھانے کی شاندار مقامات کی موجودگی کے ساتھ ہی جدید شاپنگ کے تصور میں بھی خود کو ڈھال لیا ہے۔ یہ مالز کنٹونمنٹ کے اردگرد بنائے گئے ہیں جہاں پہلے گھنٹہ گھر کے ساتھ صدر بازار ایک تجارتی مرکز تھا۔ سیالکوٹ مال، وی مال، سینٹرل مال اور برینڈز ولیج، یہ تمام ایک مخصوص دائرے ہی میں کھلے ہیں جس کی وجہ سے انگریزوں کی ایک بہت پرانی فوجی چھاؤنی جوکہ نوآبادیاتی دور کی میراث تھی، اسے اب ایک جدید تجارتی مرکز میں تبدیل کردیا گیا ہے۔سیالکوٹ کا  گھنٹہ گھر جسے شہر کا ورثہ کہا جاتا ہے اب اس سے متصل سیالکوٹ مال واقع ہے جہاں دکانیں، ملٹی پلیکس سینما اور گیمنگ آرکی موجود ہے۔ 

1 تبصرہ:

  1. سیالکوٹ ایک ایسا تاریخی شہر ہے جس میں ہمارے کئ قومی ہیروزپیدا ہو ہوئے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر