ہفتہ، 15 نومبر، 2025

پاکستان میں چھوٹے صوبے کیوں ضروری ہیں'پارٹ 1

   کچھ عرصہ پہلے ایبٹ آباد کے مقام پر ہمارے محترم  ایسے ماہرین کا سیمینار ہوا اس سیمینار میں ا نہوں  نے پاکستان کے موجودہ شہری مسائل پر بہت فراخدلانہ تجزیہ کیا اور ساتھ میں وطن کے حالات کو بتدریج بہتری کی جا نب   لے جانے کی بات کی  تو دیکھتے ہیں  کہ          ان کی رپورٹ کیا ہے-   پاکستان میں پہلی مردم شماری ء1951میں ہوئی اس وقت آبادی 3کروڑ30لاکھ تھی، آج پاکستان کی آبادی 25کروڑ کے قریب ہے، پنجاب آج 13کروڑ آبادی کا صوبہ بن چکا ہے، سندھ 6ملین سے شروع ہوا، آج صرف کراچی کی آبادی 3کروڑ سے زیادہ ہے۔پنجاب ملک ہوتا تو دنیا کا 13 واں بڑا ملک ہوتاانہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف 12ایسے ملک ہیں جو پنجاب سے بڑے ہیں،پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوگا، صرف 31ملک ہیں جن کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے، دنیا میں 41ممالک ایسے جن کی آبادی خیبرپختونخوا سے زیادہ ہے، بلوچستان کو دیکھیں تو 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز ہے سندھ کے7ڈویژن ہیں اس کو 7حصوں میں تقسیم کیا جائے، کراچی اورحیدرآباد کیلئے تحریک بہت دیر سے چل رہی ہے، خیبرپختونخوا کے بھی 7ڈویژن ہیں، ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی الگ صوبے کی تحریک چل رہی ہے۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ یواین نے ایک سروے کیا، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول میں 193ممالک کا سروے کیا گیا اور ہمارا نمبر 140واں ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک کا سروے کیا گیا ہم 168نمبر پر ہیں، قانون کی بالادستی کے حوالے سے سروے میں ہم142 ممالک میں 129نمبر پر ہیں، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 127ممالک کا سروے ہوا،ہمارانمبر109واں ہے۔ دنیا میں 172 ممالک بلوچستان سے رقبہ میں چھوٹےان کا کہنا تھا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 52فیصد ہے، دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ ایک فیڈریٹنگ یونٹ باقی تمام سے بڑا ہو،

 

 دنیا میں 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں، بلوچستان رقبے میں سب سے بڑا اورآبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے، آپ کوئٹہ میں بیٹھ کر اتنے بڑے رقبے پر گورنمنٹ کی رٹ قائم نہیں کرسکتےان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کی آبادی آج 150کروڑ ہے اس کے 31صوبے ہیں، امریکا نے خود کو 17صوبوں سے شروع کیا آج 50 ہیں، انڈونیشیا کی آبادی 27کروڑ ہے اور اس کے 34صوبے ہیں، پاکستان کی آبادی 25کروڑ ہونے والی ہے اور 4 صوبے ہیں، نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے،اس کے 27صوبے ہیں، برازیل 20کروڑ آبادی کا ملک اوراس کے 36صوبے ہیں، میکسیکو کی آبادی 13کروڑ اورصوبے 31ہیں۔عوام کی اقتصادی فلاح ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت خود ایسی پالیسی لاتی ہے جس سے عوام معاشی طور پر ترقی کرسکیں، سرحدوں کی حفاظت بھی فیڈرل گورنمنٹ کی ذمہ داری  ہے

 

 ورلڈبینک کے ایک گروپ نے پاکستان کے بارے میں سٹڈی کی، ورلڈبینک نے ایک رپورٹ شائع کی کہ پاکستان 100سال کا ہونے پر کیسا ہوگا، ہمارے 44فیصد بچوں کو متوازن غذا نہیں ملتی، ان44فیصد بچوں کی ذہنی اورجسمانی نشوونما ٹھیک نہیں ہوگی، یہ 44فیصد بچے 20سال بعد کوئی کام نہیں کرسکیں گے، یہ 44فیصد بچے جب بڑے ہوں گے تو پاؤں کی سب سے بڑی زنجیر ہوگی، ہم نے اپنے 20سال بعد کا مستقبل بھی برباد کرلیا۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو کوئی کام نہیں کرسکیں گے-یبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج میں ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان کے زیراہتمام ’’2030 کا پاکستان، چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں‘ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اوراس میں صوبوں کی تعداد 4 ہے، ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے صوبوں کو چھوٹا نہیں کیا۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان کے 4صوبوں کو دیکھا جائے تو کوئی ترتیب نظر نہیں آئے گی، لوکل گورنمنٹس کو بنتے اورٹوٹتے ہوئے دیکھا،

اور ہمارا وطن پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ارباب اقتدار بار ' بار سوچیں

ازبکستان وسط ایشیا کا قدیم اور خوبصورت ملک ہے

 

ازبکستان 'وسط ایشیا کا سب سے زیادہ آبادی والاملک سمجھا جاتا ہے 'اس  میں شاہراہ ریشم پر آباد سمرقند اور بخارا جیسے شہروں میں بڑی بڑی مساجد اور مقبرے ہیں -لاکھوں ازبک باشندوں کے لیے یہ مقدس مقامات ہیں جبکہ دہائیوں کی تنہائی اور مطلق العنان دور سے باہر آنے کے بعد وہاں کی حکومت کے لیے یہ تاریخی وراثت سیاحت کو فروغ دینے کا بڑا موقع فراہم کرتی ہے۔سمرقند میں درجنوں خوبصورت مزار ہیں جن میں بادشاہ تیمور لنگ، ماہر فلکیات الغ بیگ اور قثم ابن عباس شامل ہیں۔ قثم جنھیں ازبکستان میں زندہ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے وہ حضرت محمد کے چچازاد بھائی عباس کے بیٹے تھے اور اس علاقے میں انھوں نے ہی پہلے پہل اسلام سے لوگوں کو متعارف کرایا۔ایران کے مشہور بادشاہ تیمور لنگ کا مزار-اس کے علاوہ سمرقند میں بہت سے معروف عالم فاضل اور  مسلم سائنسدانوں کے مزار ہیں-یہ ایک مزار ایسا ہے جو دوسروں سے یکسر مختلف ہے۔ ہر صبح سنکڑوں افراد شہر کے باہر پہاڑی پر موجود عجیب طرز تعمیر کے مزار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔


 یہ مزار پستے اور خوبانی کے درختوں کے درمیان پرانے شہر میں موجود ہے۔یہاں کی فضا میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور دعا و مناجات کی آوازیں گونجتی ہیں۔ یہاں آنے والے زائرین اہل خانہ کے ساتھ بینچوں پر کھاتے پیتے نظر آتے ہیں جبکہ نوجوان اس کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں۔ازبکستان وسطی ایشیا کے وسط میں  اس مقام پر واقع ہے جہاں اس کی سرحد یں ترکمانستان ، قازقستان ، کرغزستان ، تاجکستان اور افغانستان سے ملتی ہے۔ اس کا دو تہائی سے زیادہ حصہ صحرا اور مغرب میں  ہے۔ صرف امدادی ڈیلٹا ہی ہے جہاں امو دریا دریائے ارل کے باقی حصوں میں خالی ہوجاتا ہے۔ تاہم ، مشرق میں ، ازبکستان اپنے پڑوسیوں کے پہاڑوں کی طرف اوپر کی طرف جھکا ہوا ہے۔ یہیں سے ملک میں زندگی بخشنے والے دریا نکلتے ہیں۔امیر ترین کھیتوں (اور اس وجہ سے زیادہ تر آبادی) پہاڑوں کے خلاء میں ، ان کے اڈے پر ملنے والے جہازوں پر اور اس ملک کے دو بڑے دریا - امو دریا اور سریر دریا کے ساتھ بسی ہوئی ہے۔ ازبکستان میں دنیا کا کچھ حصہ موجود ہے سمرقند ، بخارا اور خیوا سمیت قدیم ترین ، انتہائی تاریخی شہر۔آب و ہواازبکستان میں انتہائی براعظم آب و ہوا موجود ہے۔


یہ عام طور پر جنوب میں گرم اور شمال میں سب سے زیادہ سرد ہوتا ہے۔  اگر آپ ٹریکنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ، تو گرمیوں کے موسم جولائی اور اگست کے بہترین وقت ہیں کیونکہ گرمیاں تقریبا خشک ہوتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ازبکستان خاص طور پر گرمی اور ڈرائر گرمیاں اور سرد اور لمبی سردیوں کے نتیجے میں بحر ارال سے خشک آؤٹ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر متاثر ہوا تھا۔ازبکستان ایک خشک ، دوہری سرزمین ملک ہے جس میں 11 فیصد انتہائی کاشت کی جانے والی ، سیراب دریا کی وادیوں پر مشتمل ہے۔ اس کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی گنجان آباد دیہی معاشروں میں رہتی ہے۔ ازبکستان دنیا کا دوسرا بڑا کپاس برآمد کرنے والا اور پانچواں سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ برآمدی آمدنی کے بڑے ماخذ کے طور پر ملک کاٹن کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ دیگر بڑے برآمد کناروں میں سونا ، قدرتی گیس اور تیل شامل ہیں۔لوگ اور ثقافت ازبکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ دو اہم زبانیں ازبک اور روسی ہیں لیکن آپ کو دوسری کئی زبانیں بھی سنیں گی جن میں کورین ، انگریزی ، جرمن ، تاجک اور ترکی بھی شامل ہیں۔


 ازبک آبادی کے علاوہ ، ازبکستان میں بہت سی دوسری قومیتیں ہیں ، جن میں سب کی اپنی طرز زندگی ہے۔ازبکستان میں لوگ طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں۔ دیہات میں آپ روایتی لباس پہننے والی خواتین کو لمبے رنگ کے لباس اور اسکارفس کا مشاہدہ کریں گے۔ شہروں میں وہ کم روایتی اور زیادہ جدید ہیں۔ مرد جینز   پتلون پہنتے ہیں۔ شارٹس کو شاذ و نادر ہی پہنا جاتا ہے اور عام طور پر صرف شہر کے لوگ۔ازبک عوام بہت مہمان نواز ہیں اور انہیں اپنے گھر میں مہمان رکھنا اعزاز کی بات ہے۔ یہاں تک کہ مہمانوں کے لئے بیٹھنے کے خصوصی انتظامات ہیں۔ سب سے بڑے فرد یا معزز مہمان کو عام طور پر دروازے سے دور میز کے سر پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ نوجوان یا میزبان دروازے کے پاس بیٹھے بیٹھے "ویٹر" کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وہ برتن لاتے اور لے جاتے ہیں ، چائے ڈالتے ہیں اور دوسرے کام کرتے ہیں۔ صحراؤں اور پہاڑوں کے درمیان ، نخلستانوں اور زرخیز وادیوں کے بیچ انہوں نے اناج اور پالنے والے مویشی پالے ہیں۔موسموں نے قومی کھانے کی ترکیب کو بہت متاثر کیا۔ گرمیوں میں پھل ، سبزیاں اور گری دار میوے بڑے پیمانے پر کھانا پکانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ازبیکستان میں پھل بہت زیادہ بڑھتے ہیں جیسے انگور ، خربوزے ، خوبانی ، ناشپاتی ، سیب ، چیری ، انار ، لیموں ، انجیر اور کھجور۔ سبزیاں بھی بہت ہوتی ہیں ،  

جمعہ، 14 نومبر، 2025

دریائے ہگلی پر ہاؤڑا برج کیوں بنایا گیا

 

ہندوستان کا عظیم الشان           د  ریائے گنگا مغربی ہمالیہ سے شروع ہوتا ہے اور اپنے سفر طے کرتا ہوا جیسے ہی  مغربی بنگال  کی جانب آتا ہے۔ ایک ہی وقت میں یہ دو الگ الگ دریاؤں،دریائے  پدما اور دریائے ہگلی  میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دریائے پدما بنگلہ دیش سے گزر کر خلیج بنگال اور دریائے ہگلی میں گرتا ہے،شاہجہاں کے عہد  میں   ایسٹ  انڈیا کمپنی  دریائے ہگلی کے پاس ایک کوٹھی بنا چکی تھی۔ اورنگزیب کے عہد میں انہوں نے 3 گا          ؤں  بھی خرید لئے جو ہگلی کے نسبت دریائے گنگا کے کنارے سے اور بھی قریب تھے۔ ان میں سے ایک کا نام کالی گھاٹ تھا یہ وہی مقام تھا جو اب کلکتہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں 1690ء میں انگریزوں نے ایک قلعہ تعمیر کیا اور فورٹ ولیم اس کا نام رکھا۔فرانسیسی بھی ہند میں انگریزوں کیساتھ ساتھ ہی آئے تھے انہوں نے بھی اپنے مقامات تجارت بنا رکھے تھے۔ ان میں سے بڑے بڑے یہ تھے ''مہی‘‘ مغربی ساحل پر، ''پانڈی چری‘‘ مدراس کے جنوب میں مشرقی ساحل پر، ''چندرنگر‘‘ بنگال میں کلکتہ سے کوئی 20 میل کے فاصلے پر۔لیکن کمپنی کو اب دریا کے دوسری جانب بھی اپنی تجارت کو وسعت دینا تھا جس کے لئے ہاؤڑا برج کا منصوبہ زیر غور آیا ۔ 


مغربی بنگال اس وقت کے بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی۔1860 میں بنگال کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے کولکاتا اور ہاوڑو ضلع کو جوڑنے کے لئے ہگلی ندی کے اوپر برج بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔اس سلسلے میں متعدد تجاویز پیش کی گئی لیکن کسی وجہ سے تجاویز سرد خانے کی زینت بن گئیں۔1880 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک بار دونوں ضلع کو جوڑنے کے لئے برج بنانے کے لئے سرگرم ہوئی۔ ۔1943 میں برٹش حکومت نے ایک ایسا پل بنانے کا فیصلہ کیا جو تاریخ کا حصہ بن سکے۔تاہم کمپنی کا بنایا ہوا یہ پل  پوری دنیا میں مشہور ہے  ۔ 1943ء میں تعمیر شدہ اس پل کا اصل نام نیا ہاوڑہ پل (New Howrah Bridge) تھا کیونکہ اسے ہاوڑہ اور کولکاتا کو ملانے والے قدیم پیرک تختہ پل (Pontoon bridge) کی جگہ بنایا گیا تھا۔14 جون 1965ء کو اس کا نام تبدیل کر کے نوبل انعام یافتہ بھارتی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کے نام پر رابندر سیتو (Rabindra Setu) رکھ دیا گیا، تاہم اسے اب بھی ہاوڑہ پل کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔


 ہاوڑہ پل کی خصوصیت یہ ہے کہ دریائے ہگلی پر واقع 1،500 فٹ لمبے اس پل میں ایک بھی ستون نہیں ہیں ۔ بغیرکسی ستون کے یہ پل ندی کے دونوں کناروں کے سہارے کھڑا ہے۔ہدوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے۔اس کا ہر ایک حصہ ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے


۔اس کے تمام پارٹس ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے۔اس کا ہر ایک حصہ ایک دوسرے جڑا ہوا  ہے۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز کے  پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں



 


جمعرات، 13 نومبر، 2025

منوڑہ بیچ پرقوم کا سرمایہ تین ڈاکٹرز ڈوب گئے

  



کراچی میں منوڑہ ہمالیہ ساحل پر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے فائنل ایئر کے طلبہ کی پکنگ سانحہ میں تبدیل ہو گئی،  7 طلبا سمندر میں ڈوب گئے  تھے، تین کو بچا لیا گیا،  تین کی میتیں نکال لی گئیں جبکہ  ایک طالب علم ابھی تک مسنگ ہے مستقبل کے 15 ڈاکٹروں کا ایک گروپ پکنک کے لئے منوڑہ کے ساحل گیا تھا، جہاں تند وتیز لہریں 7طلبا کو بہا کر لے گئیں، ساحل پر موجود ریسکیو عملے نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین طلبا کی لاشیں نکال لیں۔جاں بحق ہونے والوں میں احمد کاشف، اشارب منیر اور اشہد شامل ہے جو میڈیکل کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے، لاشیں جب گھر پہنچیں تو جوان میتیں دیکھ کر گھر اور محلے میں کہرام مچ گیا۔ترجمان یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کی پکنک ہاکس بے ساحل پر تھی، جس 150 طالبعلم شامل تھے، جبکہ حادثے کا شکار ہونے والے طلبہ (15 کے گروپ میں) ذاتی حیثیت میں منوڑہ تفریح کے لئے گئے تھے، مذکورہ 15 طلبا کی پکنک کے بارے میں کالج انتظامیہ یا پرنسپل ڈاؤ میڈیکل کو مطلع نہیں کیا تھا، ہاکس بے پر پکنک منانے والے طلبہ بخیریت واپس کالج پہنچ گئے جبکہ منوڑہ پر یہ افسوسناک حادثہ پیش آیا۔


 فائنل ائیر ڈی 26 بیج کے ہی 15 طلباء نے اپنے طور پر پی این ایس ہمالیہ منوڑا پر پکنک منانے کا پروگرام ایک شہید طالب علم کے والد کے ذریعے ترتیب دیا تھا جہاں یہ طلبا کالج انتظامیہ کو مطلع کیے بغیر پکنک منانے گئے تھے ۔فائنل ائیر ڈی 26 بیج کے مذکورہ طلباء نے بڑے گروپ سے علیحدہ ہو کر اپنے طور پر پی این ایس ہمالیہ منوڑا پر پکنک منانے کا پروگرام ترتیب دیا تھا ۔کالج انتظامیہ نے 150 طلبا وطالبات کو سیکیورٹی گارڈز اور تمام تر احتیاطی اور حفاظتی انتظامات کے ساتھ ڈاؤ میڈیکل کالج سے روانہ کیا جبکہ مذکورہ 15 طلباء کی پکنک کے بارے میں کالج انتظامیہ یا پرنسپل ڈاؤ میڈیکل کالج کو مطلع نہیں کیا گیاتھا ۔ہاکس بے پر پکنک منانے والے طلبہ بخیریت واپس کالج پہنچ گئے ہیں جبکہ منوڑہ پر یہ افسوس ناک حادثہ پیش آیا جب دوپہر کے وقت کسی بے رحم موج نے ایک طالب علم کو اپنی گرفت میں لے لیا تو باقی طلبہ اسے بچانے کے لیے بھاگے جس کے نتیجے میں احمد کاشف ،محمد اشارب منیر اور سید اشہد عباس فاطمی ڈوب کر شہید ہو گئے جن کی میتیں سول اسپتال کے مردہ خانے لائی گئیں ۔


 تین طلبہ کو ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں دو طلبہ رضوان اور ربیع کو طبی امداد دے کر داخل کر لیا گیا جبکہ ایک طالب علم عبدالمجید کو میڈیکل آئی سی یو منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ نے زیر علاج طلبہ کی طبی نگہداشت کے لیے خصوصی ہدایت جاری کر دی ہیں اور سول اسپتال کی انتظامیہ ان کی خصوصی نگہداشت کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے شہید ہونے والے طلبہ کے لیے جمعہ کے روز تعزیتی اجلاس معین آڈیٹوریم میں صبح 9 بجے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ منوڑہ پر یہ افسوس ناک حادثہ پیش آیا جب دوپہر کے وقت کسی بے رحم موج نے ایک طالب علم کو اپنی گرفت میں لے لیا تو باقی طلبہ اسے بچانے کے لیے بھاگے جس کے نتیجے میں احمد کاشف ،محمد اشارب منیر اور سید اشہد عباس فاطمی ڈوب کر شہید ہو گئے جن کی میتیں سول اسپتال کے مردہ خانے لائی گئیں ۔ تین طلبہ کو ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں دو طلبہ رضوان اور ربیع کو طبی امداد دے کر داخل کر لیا گیا جبکہ ایک طالب علم عبدالمجید کو میڈیکل آئی سی یو منتقل کر دیا گیا ہے۔


 ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ نے زیر علاج طلبہ کی طبی نگہداشت کے لیے خصوصی ہدایت جاری کر دی ہیں اور سول اسپتال کی انتظامیہ ان کی خصوصی نگہداشت کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کی جانب سے شہید ہونے والے طلبہ کے لیے جمعہ کے روز تعزیتی اجلاس معین آڈیٹوریم میں صبح 9 بجے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔اںتدائی طور پر حادثے کا شکار ہونے والے طالبعلموں نے بتایا ہے کہ وہ بیچ پر بال سے کھیل رہے تھے کہ بال بال سمندرکی لہروں کے ساتھ چلی گئی جسے لینے کے لیے ایک طالب علم گیا توتیز اور اونچی لہروں کی نذر ہو گیا،باقی طالب علم اسے بچاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئے۔ ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر خالد بخاری نے بتایا کہ حادثے میں جاں بحق تین طالب علموں کی میتیں سول ٹراما سینٹر لائی گئیں تھی جبکہ تین 3 متاثرہ طالب علموں کولایا گیا تھا جن میں سے 2 طالب علموں کی حالت خطرے سے باہر اور ایک کی حالت تشویشناک ہے۔پولیس کے مطابق متوفی طالبعلم اشارب منیر نے اپنے والد کے ذریعے ہٹ بک کروایا تھا۔

بدھ، 12 نومبر، 2025

شہنشاہ نیرؔو ' کیا رومن ایمپائر کا بد بخت بادشاہ تھا؟

 


        


دسمبر 37 بعد از مسیح میں لوسیئس ڈومیٹیئس آہنوباربس خاندان میں پیدا ہونے والا نیرؔو روم کا پانچواں شہنشاہ بنا۔ روم کے پہلے چار شہنشاہوں-اَوگُوستُس ، تِبریس، کیلیگولا اور کلَودیُس-کے ساتھ مل کرنیرؔو نےروم کے اُس شاہی سلسلے کو تشکیل دیا جو آج جولیو-کلاؤڈین شاہی سلسلہ کہلاتا ہے۔ نیرؔو کو اس کے چچا کلَودیُس نے اپنا جانشین ہونے کے لیے گود لیا اور 54 بعد از مسیح میں کلَودیُس کی موت کے بعدنیرؔو 16 سال کی عمر میں سب سے کم عمر شہنشاہ بن گیا۔ اُس کا دور حکومت 68بعد از مسیح تک تقریباً چودہ سال رہاجب اُس نے 30 سال کی عمر میں خودکشی کر لی تھی ۔نیرؔ و نے مسیح کے مصلوب ہونے کے تقریباً دو دہائیوں بعد تخت سنبھالا ۔ اگرچہ مسیحیت ابھی اپنی ابتدائی حالت میں تھی لیکن اِس دوران مسیحیت بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ درحقیقت، نئے عہد نامے کی ستائیس میں سے تقریباً چودہ کتابیں مکمل یا جزوی طور پرنیرؔو کی سلطنت کے دوران قلمبند ہوئی تھیں ۔ نیرو کے دور حکومت کے دوران ہی پولس رسول کو روم میں نظربند رکھا گیا تھا


(60-63بعداز مسیح)جہاں اُس نے افسس،فلپی،کلسے کی کلیسیا کے نام اور فلیمون کے نام خط لکھے تھے ۔ نیرؔو وہ "قیصر" تھا جس سے پولس رسول نے قیصریہ میں قید کے دوران اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران انصاف کی درخواست کی تھی (اعمال 25باب 10-12آیات)۔نیرؔو کے دورِ حکومت کے ابتدائی سالوں میں رومی سلطنت کی ثقافتی زندگی میں نمایاں طور پر ترقی ہوئی ۔اُس کے مشیروں بالخصوص پریٹورین پریفیکٹ بروس اور مشہور رومی فلسفی سینیکا کی رہنمائی کی بدولت اُسکی بادشاہی کے ابتدائی سالوں کے دوران روم نےایک مستحکم حکومت برقرار رکھی۔نیرو کو فنون لطیفہ سے بڑا لگاؤ تھا اور وہ ایک ماہر گلوکار اور موسیقار تھا۔ وہ کھیلوں کے مقابلوں سے بھی لطف اندوز ہ ہوتا تھا اوراُس نے رتھوں کی کئی دو ڑوں میں حصہ لیا، حتیٰ کہ یونان میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کے دوران ایک دوڑ میں جیتا بھی تھا ۔تاہم نیرؔو کی میراث کوئی خوشگوار نہیں ہے۔ گوکہ اُس کے دورِ حکومت  کاآغاز بڑی ا عتدال پسندی اور مثالی حالت میں ہوا تھالیکن اُس کا اختتام نہایت ظلم اور بربر یت  کے ساتھ ہوا یرومی سلطنت کے زوال کی کئی وجوہات تھیں، جن میں سیاسی بدعنوانی، اقتصادی مسائل، اور فوجی حملے شامل ہیں


 اُس نے ہر اُس شخص کو قتل کرنا شروع کر دیا جو اُس کی راہ میں رکاوٹ بنا؛ اُس کے متاثرین میں اُس کی اپنی بیوی اور والدہ کے ساتھ ساتھ اُس کا سوتیلا بھائی بریٹینیکس - شہنشاہ کلَودیُس کا سگابیٹا بھی شامل تھا۔جولائی 64 بعد از مسیح میں روم میں بڑے پیمانے پر آگ لگی جو چھ دن تک جاری رہی۔روم کے چودہ میں سے صرف تین اضلاع آگ سے ہونے والے نقصان سے بچ سکے۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اِس آگ کاذمہ دارنیرؔو ہو سکتا ہےحالانکہ اِس میں اُسکا ملوث ہونا واضح طور پر ثا بت نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ نیرؔو نے توجہ کو خود سے ہٹانے کے لیے اُس آگ کا الزام مسیحیوں پر لگا دیا جن میں سے بہت سے لوگوں کو اُس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر ڈالا۔ تاریخ دان ٹیسی ٹس اُس ظلم و بربریت کو یوں بیان کرتا ہے: "جانوروں کی کھالوں میں سلے ہوؤں   کو کتوں نے پھاڑ ااور ہلاک کیا یا اُنہیں کیلوں سےصلیب پر لٹکایا گیا یا سور ج غروب ہونے پر اُنہیں شعلوں کی نذر کیا گیاتاکہ رات کو روشنی کے لیے مشعلوں کا کام دیں"۔ اپنی شام کی محفلوں کو روشن کرنے کے لیےنیرؔو کا مسیحیوں کو انسانی مشعل کے طور پر استعمال کرنا ایک واضح حقیقت ہے ۔ بنیادی طور پرنیرؔو کو ابتدائی مسیحیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے باعث زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔


نیرؔو کے دور حکومت کا اختتام تصادم سے بھرپورتھا۔ رومی رہنماؤں کے درمیان تناؤ بالآخر اتنا بڑھ گیا کہ پریٹورین محافظوں نے اپنی وفاداری نیرؔو سے گالبا کو منتقل کر دی اور رومی سینٹ نے نیرؔو کو عوام الناس کا دشمن قرار دے دیا۔ نیرؔو کو روم سے بھاگ جانے پر مجبور کیا گیا ۔ اپنے بعد کوئی جانشین مقرر نہ کرنے کے باعث نیرؔو جولیو-کلاؤڈین شاہی سلسلے میں آخری شہنشاہ ثابت ہوا۔ نیرؔو کی موت کے بعد خانہ جنگی کا ایک مختصر دور آیا جس کے بعد ایک ہی سال میں چار شہنشاہوں کا عروج و زوال دیکھنے کو ملا۔ یہ پُر آشوب سال "چار شہنشاہوں کا سال"کہلاتا ہے ۔’’روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ اس ضرب المثل کا نیرو ایک حقیقی کردار ہے ،جو روم کا پانچواں اور Julio-Claudin خاندان کا آخری شہنشاہ تھا۔ نیرو کے بارہ میں تاریخ دانوں نے لاتعداد کہانیاں بیان کی ہیں ۔کچھ نے لکھا ہے کہ اس نے اقتدار کے لئے اپنی والدہ، بھائی اور دونوں بیویوں کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب نیرو کو رومن کابینہ کی جانب سے عوام دشمن قرار دیا گیا ،تو اس دکھ میں اس 9 جون 68ء میں اس نے خود کشی کر لی  :  


کراچی کے مضافاتی جزائرکی اہمیت'پارٹ 2

 

اس وقت وفاقی حکومت نے ایک وفاقی ادارے، پورٹ قاسم اتھارٹی، کو عمار کے ساتھ دونوں جزیروں کی خرید و فروخت کا معاہدہ کرنے کا مکمل اختیار دیا تھا حالانکہ، محمد علی شاہ کے مطابق، اس ادارے کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ یہاں کی زمین کا مالک ہے۔تاہم عمار اور پورٹ قاسم اتھارٹی میں معاہدہ طے پانے کے بعد پاکستان فشر فوک فورم، سندھی دانشور اور سیاستدان رسول بخش پالیجو کی تنظیم عوامی تحریک اور اس وقت کی اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کو پیچھا ہٹنا پڑا اور عمار کے ساتھ کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ چند روز پہلے انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ٹویٹس میں سندھ حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت کو بھیجے گئے ایک خط کی نقل شائع کی    تاہم سندھ حکومت نے بعد ازاں اس دعوے کی تردید کر دی اور کہا کہ اس کی طرف سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ جزائر سندھ حکومت کی ملکیت ہیں جن سے وہ کسی طور پر بھی دستبردار نہیں ہوگی



  وفاقی حکومت کو ان کے استعمال کی اجازت اس شرط پر دی گئی کہ وفاقی حکومت یک طرفہ طور پر اور صوبائی حکومت کی مرضی کے بغیر وہاں کوئی قدم نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ وہاں بسنے والے ماہی گیروں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔اس تنازعے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے سندھ حکومت نے کابینہ کے ایک تازہ ترین اجلاس میں اس خط میں دی گئی اجازت کی تنسیخ ہی کر دی ہے اور آئینی اور قانونی حوالے دے کر کہا ہے کہ بھنڈار اور ڈنگی دونوں صوبائی حکومت کی ملکیت ہیں جنہیں آئین میں تبدیلیاں کیے بغیر وفاقی حکومت کی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے کراچی اور بلوچستان کےسنگم پرواقع چرنا آئی لینڈ کو پاکستان کا دوسرا میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے پر حکومت بلوچستان کوسراہا، بلوچستان کی کابینہ نے بدھ 4 ستمبر 2024 کو ہونے والے اپنےاجلاس میں چرنا آئی لینڈ کو دوسرا میرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دینے کی منظوری دی۔حکومت بلوچستان نےجون 2017میں استولا جزیرے کو پہلا مرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا تھا چرنا جزیرہ، استولاجزیرے کی طرح پاکستان کے ان محدود سمندری علاقوں میں سے ایک ہے جہاں مرجان کا مسکن ہے اور اسے حیاتیاتی تنوع کا ہاٹ اسپاٹ کہا جاتاہے۔


کراچی کے قرب میں واقع چرنا آئی لینڈماہی گیری کا ایک اہم مقام سمجھاجاتاہے جہاں سندھ و بلوچستان کے ماہی گیر بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں اور  ان ہی وجوہات کے سبب چرنا جزیرے میں بسنے والے سمندری ماحولیاتی نظام اور متنوع آبی حیات کو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔دیگر عوامل میں پاورپلانٹس، سنگل پوائنٹ مورنگ، قریبی علاقے میں آئل ریفائنری کے ساتھ دیگر تفریحی سرگرمیاں بھی شامل ہیں ڈبیلو ڈبیلوایف کا خیال ہے کہ چرنا آئی لینڈ کو محفوظ سمندری علاقہ قرار دینے کا اعلان اس بات کویقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہےا ڈبیلوڈبیلوایف پاکستان بلوچستان کی کاوشوں کو سراہتا ہے اور دوستین جمالدینی، سیکریٹری جنگلات وجنگلی حیات اور شریف الدین بلوچ، چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف کے کردار کا معترف ہے کہ اس چرنا کو اس مقام دینا ان کی مخلصانہ کاوشوں کی مرہون منت ہے۔اس جزیرے کو اسکوبا ڈائیونگ، اسنارکلنگ، کلف چمپنگ اور جیٹ اسکیئنگ سمیت دیگر تفریحی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہاہے   



پاکستان حیاتاتی تنوع کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہے اور اس کے گلوبل بائیوڈائیورسٹی فریم ورک کے مطابق سن 2030 تک  سمندر کا 30 فیصد حصہ محفوظ علاقہ قرار دینے کی ضرورت ہے۔ماہی گیری  گزرے دنوں سے آج تک ماہی گیروں کے لئے اچھی آمدن کا وسیلہ رہا ہے۔   لیکن  جو قوم مچھلیاں پکڑتی ہے  ان پر ترقی  کا کوئ راستہ کیوں نہیں کھلتا ہے اس پر حکومت کو ضرور سوچنا چاہئے -آپ آج بھی اگر ان ماہی گیر بستیوں میں جائیں گے تو ان کی بیچارگی، معصومیت اور غریبی پر آپ کو رحم آئے گا۔ مجھے ریڑھی میان، ابراہیم حیدری یا بابا جزیرے کی گلیوں میں چلتے ہوئے یہ کبھی نہیں لگا کہ یہ بستیاں کراچی کے آنگن میں بستی ہیں۔ ڈائریکٹر،بائیوڈائیورسٹی پروگرامز ڈبیلو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق حکومت بلوچستان کی طرح وفاق اور سندھ حکومت بھی نئے سمندری محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرکے انہیں ایم پی اےکرنے کا اعلان کرے۔ناقص منصوبہ بند ، ترقیاتی سرگرمیوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہم اپنے سمندری وسائل کھو رہے ہیں، ڈبلیو ڈبیلو ایف پاکستان کے تیکنیکی مشیر محمد معظم خان کے مطابق چرنا جزیرہ مرجان کی 50 سے زائد ،مچھلیوں کی 250 سے زائد اقسام کا اہم مرکز ہے۔محفوظ سمندری علاقہ قرار دینے سے یہاں کی آبی حیات کو لاحق خطرات سے بچانے کا اہم اور تعمیری اقدام ہے

تحریر انٹر نیٹ کی  مدد سے تلخیص کی ہے


 

کراچی کے مضافاتی جزائر کی اہمیت پارٹ1

 



 

  ماہی گیروں کی زبان میں                               درخت کے بڑے تنے کو بھنڈ کہا جاتا ہے جس کی مناسبت سے، اس جزیرے کا نام بھنڈار پڑا۔حیرت اس پر ہوتی ہے کہ نمکین پانی کے درمیان واقع اس جزیرے پر میٹھے پانی میں پیدا ہونے والے درخت موجود ہیں جس میں دیوی اور بھو سمیت کئی اقسام کے درخت اور پودے ہیں۔مچھیروں کا کہنا تھا کہ یہ جزیرہ ایک ڈیلٹا ہے جو دریائے سندھ کے میٹھے پانی سے وجود میں آیا جس کی وجہ سے یہاں میٹھے پانی میں اگنے والے درخت اور میٹھے پانی کی ریت پائی جاتی ہے۔کراچی کی ترقی میں ماہی گیر کہاں ہے؟ روشنیوں کا شہر بننے سے ماہی گیروں کو کچھ نہیں ملا ،جزائر پر جدیدشہربننے سے بھی کچھ نہیں ملے گا،چیئرمین پاکستان فشر فوک فورم -جزیرے پر بہت بڑی سرما یہ کاری  کے بعد ماہی گیروں کو جزیرے کے قریب بھی نہیں جانے دیاجائے گا،،جس کے نتیجے میں لاکھوں ماہی گیروں کا روزگار ختم ہوجائے گا،ناخدا طارق کچھی  مچھلیاں پکڑ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں،جزیرہ  کو جدید زہر بن جانے سےماہی گیروں کومچھلیاں پکڑنے کی اجازت نہیں ہوگی ، ہم چاہتے ہیں ہمارے بچوں کو بھی تعلیم اور روزگار ملے، حکومت روزگار دے توکوئی اعتراض نہیں ،ماہی گیر عبداللہ   نے بتایا کہ مینگروز کے جنگلات میں ایک لاکھ سے زائد درخت تھے ،  ناجانے کیوں 30 ہزار سے زائد کاٹ دیئے گئے ،


ان جنگلات کے نیچے جھینگے اور مچھلیوں کی افزائش ہوتی ہے،درخت کٹنے سے مچھلیاں چلی جائینگی ، انچارج کوسٹل میڈیا سینٹر-دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد ماضی کے تجربات کی بنیاد پر قائم رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب ان کی حکومتیں عوام کی فلاح وبہبود کا دعویٰ کرکے کوئی فیصلہ کرتی ہیں تو عوام کی بھرپور تائید ملتی ہے مگر افسوس کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس کے عوام کو عموماً حکمرانوں کی جانب سے دھوکہ ہی کا سامنا کرنا پڑایہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت حکومتی فیصلوں پر تحفظات کا شکار ہوجاتی ہے۔گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پاکستان آئی لینڈ ڈ ویلپمنٹ اتھارٹی 2020ء جاری کیا ۔اس صدارتی آرڈینیس کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر قائم جزائر کو وفاق کے زیرانتظام لیاگیا ۔وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے کہ کچھ جزائر کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر سیاحتی مقام میں تبدیل کیاجائے جس سے ملک میں سرمایہ کاری آئے گی جبکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا تاہم سندھ حکومت کو خدشہ ہے کہ وفاق اس طرح سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جبکہ مقامی ماہی گیرماضی کے تجربات کی بنیاد پر وفاق کی حمایت کرنے سے گریزاں ہیں۔


بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی تاریخ کے محقق گل حسن کلمتی نے اپنی کتاب ’سندھ کے سمندری جزائر‘ میں کراچی کے لاپتہ ہونے والے سمندری جزائر، زمین پر قبضوں، ماہی گیروں کے وسائل محدود ہونے اور سہولیات کے فقدان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔کراچی کی سمندری حدود میں صرف 9 ایسے جزائر ہیں جو آباد ہیں۔دنیا اخبار کی ۔ابراہیم حیدر ی ،مبارک ولیج ،ریڑھی گوٹھ سمیت متعدد علاقوں پر مشتمل شہر قائد کی ساحلی پٹی تقریباً129کلومیٹر طویل ہے۔لاکھوں افراد ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ ہماری ٹیم ابراہیم حیدری سے بذریعہ کشتی ایک گھنٹے کا سفر کرکے بھنڈار جزیرے پہنچی ۔ دوران سفر سمندر کے اطراف حسین نظارے ،دور تک پھیلے مینگروز کے جنگلات ،رنگ برنگے جھنڈوں سے اپنی انفرادیت جتانے والے جہاز اور چھوٹی چھوٹی کشتیاں دلفریب لگ رہی تھیں، مچھیروں کے بچے تک تھرموپول کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سمندر کے کافی اندر کشتی چلارہے تھے۔ ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ ان کے جزائر پر اگر جدید شہر آباد ہوگئے تو ان کا روزگار ان سے چھن جائے گا تاہم محسوس ہوا کہ نوجوان ماہی گیروں کے خیالات مختلف ہیں ،اگرحکومت سیاحتی مراکز قائم کرکے ہمیں روزگار دیتی ہے تو ہمیں خوشی ہوگی۔


شہر  کراچی سے صرف   8کلومیٹر دور بھنڈار جزیرہ  نہایت دلکش مناظر سے معمور ہے تھا جو آنکھوں   میں چکا چوند کیے دیتا  ہے۔نیلے سمندر کے درمیان 12000ایکٹر پر موجود بھنڈار جزیرے پر قدرتی نباتات اور چمکیلی ریت نہایت خوبصورت   نظر آتی ہے۔کوسٹل میڈیا سینٹر کے انچارج کمال شاہ نے بتایا کہ ہمارے بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پہلے دریائے سندھ کا میٹھا پانی آتا تھا جس کی وجہ سے یہاں ہریالی ہے اور ریت چکنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس جزیرے پر جنگلی کتے،بھیڑیے ،سانپ اور نیولے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ماہی گیر شکار کیلئے یہاں آتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں قیام کرتے ہیں۔ہم نے بھی ایک ماہی گیر کی جھونپڑی میں کچھ دیر گزاری جبکہ جزیرے پر دور دراز تک سفر کیلئے اونٹ کا سفر کیاجاتا ہے۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین  یقین دلایا کہ وزیراعظم کراچی کے 2جزائر پر نئے شہر آباد کرنا چاہتے ہیں ، بھنڈار جزیرہ سندھ کا ہی حصہ رہے گانئے شہر آباد ہونے سے ڈیڑھ لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گے۔ سالانہ 50لاکھ تک سیا ح  آ ئیں گے جس سے سندھ کو ہی ریونیو ملے گا۔                   مجھے یاد ہے کہ   وزیر اعظم شوکت عزیز  نے  جب بھنڈار اور ڈنگی کو دبئی کی ایک نجی تعمیراتی کمپنی عمار کو بیچنے کی منظوری دی تھی'۔ لیکن ماہی گیر ان سہانے خوابوں پر یقین کرنے تیار نہیں ہیں


تحریر انٹر نیٹ  سے  تلخیص کی ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر