ہفتہ، 1 نومبر، 2025

سوڈان کیوں لہو لہان ہے

 

  سوڈان کیوں  لہو لہان ہے وسائل پر قبضہ اس کا بہت سادہ سا جواب ہے خانہ جنگی سے تباہ حال جنگ زدہ سوڈان سے پاکستانیوں کی بحفاظت وطن واپسی کا پلان کامیاب       جنگی کے باعث سوڈان سے غیر ملکی سفارتکاروں اور شہریوں کے انخلا کا عمل جاری ہے دوسری جانب427  پاکستانیوں کو بھی سوڈانی بندرگاہ پر پہنچا دیا گیا البتہ ایک خاندان دارالحکومت خرطوم میں پھنس گیا،  پاکستان میں موجود گھر والوں نے مدد کی اپیل  کردی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کے سفر کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔وزیراعظم آفس کے ترجمان نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف خود سوڈان سے انخلا آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں ۔شہباز شریف کی جانب سے انخلا کی جامع حکمت عملی تیار کرنے پر ائیر چیف ظہیر بابر سدھو اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔خیال رہے کہ سوڈان میں فوج اور پیرا ملٹری فورس کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 400 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

 


 

 وہ تمام ممالک جن کے شہری اس وقت سوڈان میں محصور ہو گئے ہیں  وہ سب اپنے شہریوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لئے متحرک ہو گئے ہیں سوڈان سے مختلف ممالک کی جانب سے شہریوں کو ہنگامی طور پر نکالنےکا سلسلہ جاری ہے۔سعودی عرب، امریکا، فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی یورپی اور افریقی ممالک نے اپنے سفارتی عملے اور شہریوں کو سوڈان سے نکال لیا۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق سعودی عرب نے ہفتے کو اپنے 91 اور دیگر ممالک کے 66 شہری سوڈان سے نکالے جبکہ امریکا نے اتوار کی شب خرطوم سے 100 کے قریب سفارتی عملے کو نکالا۔سوڈان: کا قضیہ کیاہے؟؟؟امن سے تباہی تک ایک وقت تھا جب سوڈان کو “افریقہ کا اناج گھر” کہا جاتا تھا۔ دریائے نیل کی زرخیز گندم کی فصلیں اگلتی ہو ئ  زمینیں، سونا، تیل، مویشی اور کھجور کے باغات اس ملک کو خوشحالی کی علامت بناتے تھے۔ مگر آج وہی سوڈان بھوک سے بلک رہا ہے ، خانہ جنگی اور تباہی کا استعارہ بن چکا ہے۔


 لاکھوں لوگ بے گھر، ہزاروں ہلاک اور کروڑوں قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال یہ ملک آج خاک و خون میں کیوں نہا رہا ہے؟یہ المیہ اپریل 2023 میں شدت اختیار کر گیا، جب سوڈانی فوج (SAF) اور نیم فوجی ملیشیا “ریپڈ سپورٹ فورسز” (RSF) کے درمیان اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ آرمی چیف جنرل عبدالفتاح البرہان اور حمیدتی کے درمیان طاقت کی کشمکش دراصل 2019 کے بعد سے بڑھتی جا رہی تھی، جب عوامی احتجاج نے صدر عمرالبشیر کی 30 سالہ حکومت کا خاتمہ کیا۔ عبوری دور میں فوج اور سویلین قیادت کے درمیان اشتراک تو ہوا، مگر مفادات اور بالادستی کی جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔آج خرطوم، دارفور اور الفاشر جیسےپھلتے پھولتے  شہر کھنڈر بن چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ملیشیا گروہوں نے عام شہریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ اسپتال، اسکول اور بازار ملبے  اور کھنڈرات میں بدل چکے ہیں۔


بتانے والے بتاتے ہیں کہ صورتحال کو مزید خطرناک بنانے میں بیرونی قوتوں کا بھی ہاتھ ہے۔متحدہ عرب امارات پر الزام ہے کہ وہ سونا اور وسائل کے بدلے میں ریپڈ سپورٹ فورسز کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ مصر سوڈانی فوج کی حمایت میں ہے، جبکہ روس ریڈ سی پر اپنا بحری اڈہ بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بھی اس خطے کو اپنے مفادات کے توازن میں رکھنا چاہتے ہیں۔یہ سب طاقتیں اپنے اپنے ایجنڈے کے لیے سرگرم ہیں، مگر قیمت سوڈان کے عوام ادا کر رہے ہیں۔ جن کے گھر اجڑ گئے، بچے بھوک سے مر رہے ہیں، اور ملک ایک بار پھر تقسیم کے خدشے میں ہے۔قرآن کریم کی یہ آیت آج کے سوڈان کی حقیقت بیان کرتی ہے:جب ان سے کہا جاتا ہے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں” (البقرہ: 11)ایک ایسی جنگ جو اقتدار کے نام پر انسانیت کو نگل رہی ہے۔پاکستان اور افغانستان کے حکمرانوں کو سوڈان سے سبق حاصل کرنا چاہیئے،۔جنگ تباہی اور بربادی ہے،امن خوشحالی اور ترقی ہے۔خانہ جنگی کے شکار سوڈان میں آج سے تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سوڈان میں فوج اورپیراملٹری فورس کے درمیان جاری خانہ جنگی میں آج سے 3 روز تک کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔

انٹر نیٹ کی مدد سے تحریر لکھی گئ ہے

جمعہ، 31 اکتوبر، 2025

چنیوٹ پاکستان کا خوبصورت روحانی شہر

 


ہمارے وطن پاکستان میں کیا کیا نعمتیں  موجود ہیں اس کا اندازہ تب ہی ہوتا ہے جب ہم اپنی زات کے باہر جھانکتے ہیں  تو آج پیارے وطن کے انتہائ اہم شہر سرگودھا اور فیصل آباد کے درمیان، دریائے چناب کے کنارے ایک خُوب صُورت شہر ’’چنیوٹ‘‘ کی بابت جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چنیوٹ کے نواحی علاقے چناب نگر میں واقع پہاڑی سلسلے کو سرگودھا ہی کا ایک حصّہ مانا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں۔ تاہم ارباب اختیار  کی  عدم توجہی کے باعث اسمگلنگ مافیا بلا روک ٹوک ان قیمتی نوادرات کی چوری میں مصروف ہے۔ دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں پتھر کے حصول کے لیے کی جانے والی کٹائی اور بارود کے ذریعے ہونے والی توڑ پھوڑ سے بھی اس قدیم تاریخی ورثے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔مغل تاج دار، شاہ جہاں کے عہد میں مقامی وزیر، سعد اللہ خان کا تعلق بھی چنیوٹ سے تھا،یہاں نواب عنایت اللہ خان مگھیانہ سیال کی حکومت تھی نواب عنایت اللہ خان سیال نے جھنگ سے لے کر چنیوٹ تک حکومت قائم کر رکھی تھی احمد شاہ ابدالی کا حملہ اتنا زبردست تھا کہ نواب عنایت اللہ سیال نے ہتھیار ڈال دیے اور قلعہ ریختی پٹھانوں کے حوالے کر دیا اور خود واپس  چلا گیا   -


احمد شاہ ابدالی  نےاپنے پوتے اور بہادر جرنیل مقصود خان درانی کو چنیوٹ کا گورنر مقرر کیا اس طرح درانی پٹھانوں کی حکومت قائم ہو گئی چنیوٹ پر درانی خاندان نے تقریباً چالیس سال حکومت کی 1805مقصود خان درانی کو  ا ن کے انتقال کے بعد چنیوٹ میں واقع پہاڑی کے دامن میں  دفن کیا گیا جسے اب محلہ مقصود آباد کہتے ہیں آپ کا مزار پہاڑی کے دامن میں بنایا گیا ہے آپ کو قطب شہید کہتے ہیں یعنی بڑا شہید سردار مقصود خان کے دو بیٹے تھے سردار عنایت اللہ خان اور سردار جمشیر خان جن کی اولاد اب بھی چنیوٹ میں موجود ہےتاریخ داں بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں نواب عنایت اللہ خان مگھیانہ سیال کی حکومت تھی نواب عنایت اللہ خان سیال نے جھنگ سے لے کر چنیوٹ تک حکومت قائم کر رکھی تھی احمد شاہ ابدالی کا حملہ اتنا زبردست تھا کہ نواب عنایت اللہ سیال نے ہتھیار ڈال دیے اور قلعہ ریختی پٹھانوں کے حوالے کر دیا اور خود واپس  چلا گیا   -احمد شاہ ابدالی  نےاپنے پوتے اور بہادر جرنیل مقصود خان درانی کو چنیوٹ کا گورنر مقرر کیا اس طرح درانی پٹھانوں کی حکومت قائم ہو گئی چنیوٹ پر درانی خاندان نے تقریباً چالیس سال حکومت کی 1805قصود خان درانی کو چنیوٹ میں واقع پہاڑی پر دفن کر دیا گیاجسے اب محلہ مقصود آباد کہتے ہیں آپ کا مزار پہاڑی کے دامن میں بنایا گیا ہے آپ کو قطب شہید کہتے ہیں یعنی بڑا شہید سردار مقصود خان کے دو بیٹے تھے سردار عنایت اللہ خان اور سردار جمشیر خان جن کی اولاد اب بھی چنیوٹ میں موجودہے  



چنیوٹ کے ولی کامل، حضرت شاہ برہان کا عالی شاہ مزار اسی شہر میں  مرجع خلائق ہے۔ مغلیہ طرزِ تعمیر کا یہ مزار آج بھی ماضی کے دل کش دَور کی یاد دلاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مذہبی، ثقافتی اورتاریخی مقامات ہیں، لیکن بادشاہی مسجد چنیوٹ، عمر حیات کا محل، دریائے چناب کا پل اور حضرت بوعلی قلندر کا مزار یہاں کے مشہور مقامات ہیں۔ یوں تو چنیوٹ شہر مختلف حوالوں سے معروف ہے، تاہم یہاں کا فرنیچر اپنی مثال آپ ہے، جو دنیا بھر میں اپنی خاص بناوٹ اور خُوب صورتی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تعزیہ سازی کے فن نے بھی چنیوٹ میں جنم لیا۔ جب کہ انواع و اقسام کے مزے دار کھانے پکانے اور کیٹرنگ کے حوالے سے بھی یہ شہر ایک خاص شناخت رکھتا ہے۔ یہاں کے باورچی کھانے پکانے میں یکتا ہیں۔ کُنّے کا گوشت (مٹکے کا گوشت) اپنی لذّت کی بناء پر خاص سوغات میں شمار ہوتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کے لیے شہر میں متعدد انجمنیں قائم ہیں۔جن میں انجمنِ اسلامیہ، انجمنِ اصلاح المسلمین، مفادِ عامّہ کمیٹی سمیت مختلف طبی، تعلیمی اور فلاحی ادارے شامل ہیں۔



یہاں کے تاریخی مقامات میں بادشاہی مسجد، شیش محل، دربار بُو علی قلندر المعروف شاہ شرف، دربار شاہ برہان، عُمر حیات محل وغیرہ شامل ہیں۔جب کہ تفریحی مقامات میں دریائے چناب، چناب پارک، قائد اعظم پارک، شاہی باغ، لاہوری گیٹ شامل ہیں۔ شہر کے لوگ خوش مزاج ہیں، دُکھ سُکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے اورہمہ وقت ایک دوسرے کی مدد کرنے میں کمربستہ رہتے ہیں۔چنیوٹ شہر کے عین وسط میں واقع پہاڑوں کی اوٹ اور قبرستان سے ملحقہ علاقے میں موجود میناروں سے نکلنے والی روشنیاں پورے علاقے کو جگ مگ کرتی ہیں۔ یہ روشنی محلہ مسکین پورہ میں موجود حضرت احمد ماہی المعروف سائیں سُکھ کے ساڑھے دس کنال پر پھیلے مزار میں لگے برقی قمقموں کی ہوتی ہے۔ جب یہ روشنی محل کی دیواروں میں نصب شیشے پر منعکس ہوتی ہے، تو عمارت کے اندرونی حصّے میں انعکاس کی وجہ سے بلوریں چمک پیدا ہوتی ہے، جو مزار کی خُوب صُورتی کو مزید بڑھا دیتی ہے۔


جمعرات، 30 اکتوبر، 2025

دیپالپور کی مذہبی سرگرمیوں میں شیعہ سنی کا ذکر نہیں

 


ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور  کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس شہر میں صدر بازار سے ملحقہ محلہ گیلانیاں میں سید فیملی کے گھرانے قیامِ پاکستان سے پہلے سے سکونت پذیر ہیں۔سید روشن علی گیلانی کون تھے؟سید روشن علی گیلانی آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکن تھے۔ اُن کی وفات 49 برس کی عمر میں سنہ 1961میں ہوئی۔اِن کے بیٹے سید ناصر محمود گیلانی بتاتے ہیں کہ 'ضلع منٹگمری میں آل انڈیا مسلم لیگ کی نمایاں شخصیات میں سید روشن گیلانی شامل تھے۔'سید روشن علی بانی پاکستان محمد علی جناح کے رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کا ممتاز دولتانہ کے ساتھ بھی قریبی تعلق تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد فاطمہ جناح سے سیاسی تعلق اُستوار رکھا۔سید ناصر محمود بتاتے ہیں کہ 'قیامِ پاکستان کے بعد یہ زیادہ عرصہ حیات نہ رہ سکے، مگر فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے رہے اور ایوب خان کی مخالفت کرتے رہے، اس کی سزا بھی انھیں دی گئی۔تقسیمِ ہند کے وقت سید روشن گیلانی، دیپالپور میں مہاجرین کے معاملات کی نگرانی کرتے رہے۔سید ناصر محمود کہتے ہیں کہ 'انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کو دیپالپور میں بسانے کی ذمہ داری سید روشن شاہ کے سپرد تھی۔'محرم کی مجالس اور جلوس میں کس مسلک کے لوگ شریک ہوتے ہیں؟


مسجد غوثیہ گیلانیہ مسلکی ہم آہنگی کا کئی دہائیوں سے مرکز بنی ہوئی ہے۔عام دِنوں میں بھی اس میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد نماز پڑھ لیا کرتے ہیں، جبکہ محرم کے دِنوں میں تو یہ جامع طور پر مسلکی ہم آہنگی کی ایک بڑی علامت بن جاتی ہے۔نو محرم کا دن اور دس محرم کی رات مسجد کے احاطے میں تعزیے اور عَلم تیار کیے جاتے ہیں۔اس دوران دِن اور رات بھر ایک طرف دسویں محرم کی مجالس اور جلوس کے لیے اشیا تیار ہوتی رہتی ہیں تو دوسری طرف سنی مسلک کے افراد اپنی عبادات میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ تعزیے و عَلم کی تیاری میں مدد بھی فراہم کرتے رہتے ہیں۔مسجد گیلانیہ غوثیہ میں تیار ہونے والے تعزیے اور عَلم دس محرم کی صبح سید روشن علی گیلانی کے ڈیرے پر پہنچا دیے جاتے ہیں۔یہاں سے پھر ایک جلوس برآمد ہوتا ہے جو صدر بازار سے ہوتا ہوا، پاک پتن گیٹ پر پہنچتا ہے اور وہاں سے غلہ منڈی روڈ پر امام بارگاہ سجادیہ کے سامنے سے گزرتا ہوا دربارسخی سیدن شاہ پر اختتام پذیر ہوتا ہےدسویں محرم کی مجلس اور جلوس میں ہر مسلک کے افراد شریک پائے جاتے ہیں، 


حتیٰ کہ مقامی مسیحی برادری کے افراد بھی مجالس اور جلوس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔سید احمد رضا گیلانی جو مسجد غوثیہ گیلانیہ کے متولی ہیں کہتے ہیں کہ 'دسویں کے جلوس میں مسیحی برادری کے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں، زیادہ تر یہ لوگ ملازم ہیں، جو ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ بعض تو صرف ماتم دیکھنے کی غرض سے بھی آ جاتے ہیں۔'مقامی رہائشی واجد مسیح سے جب یہ پوچھا کہ وہ خود اور ان کی کمیونٹی کے کتنے لوگ مجالس و دیگر مذہبی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا 'میرے خیال میں ہماری کمیونٹی کے تیس سے چالیس فیصد لوگ محرم کی مجالس اور جلوس میں شریک ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ 'اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں کی مسلم برادری نے چرچ بنوانے میں مدد کی اور سید ناصر محمود گیلانی اور دیگر اہم لوگ ہمارے لیے نیک خیالات رکھتے ہیں، مددبھی کرتے رہتے ہیں۔'


شعیہ مسلک کے مقامی رہائشی غلام حُر کا کہنا تھا کہ 'مسجد غوثیہ کے اندر تعزیہ کی تیاری کے لیے مسجد کے اندر مخصوص جگہ بنی ہوئی ہے۔'یہاں گیلانی خاندان جو سنی بھی ہیں اور بعض گھرانے شیعہ بھی کا باہمی الحاق ہے۔ حتیٰ کہ مسجد کے مرکزی دروازہ کی پیمائش کے لیے بھی اہل سنت نے شیعہ برادری کے مرکزی افراد سے پوچھ کر اس کو بنایا کیونکہ تعزیہ باہر نکالنے کے لیے مرکزی دروازہ کا اُونچا ہونا ضروری تھا۔جہاں اہلسنت مجالس اور جلوس میں شرکت کرتے ہیں وہاں بعض جگہوں پر لنگر کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔'سنی مسلک کے حامل مقامی رہائشی عامر حسین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اہلسنت اور شیعہ مسلک میں ہم آہنگی کیوں ہے اور کب سے ہے؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ 'یہاں سنی شیعہ والا کوئی سوال نہیں۔ میں نے تو یہاں تک دیکھا کہ دیوبند مکتبہ فکر کے لوگ بھی یہاں کے سید خاندان اورمحرم کی سرگرمیوں کا احترام کرتے ہیں۔میری عمر پینتالیس سال ہونے والی ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو یہاں ایسا ہی دیکھ رہے ہیں ہمارے بزرگ بھی یہی بتاتے ہیں۔'اہلسنت کی مسجد مسلکی ہم آہنگی کا نمونہ کیسے؟اب سوال یہ ہے کہ مسلکی ہم آہنگی کی موجودہ فضا کیسے اور کیونکر قائم ہوئی؟اس سوال کے جواب میں سید ناصر محمود شاہ کا کہنا تھا 'یہاں کی مذہبی سرگرمیوں میں شیعہ سنی کا ذکر نہیں

بدھ، 29 اکتوبر، 2025

جودھ پور میں راجہ جی کی ریل

  بھارت کے   لوگ جودھ پور اور آس پاس کی ریاستوں کے راجاؤں کے تعاون سے بنی جودھ پور سے حیدرآباد تک 650 کلومیٹر طویل پٹری پر اس ٹرین میں سفر کرتے رہتے، اس ٹرین کو (راجا کی ریل) بھی کہا جاتا تھا۔نوابی ریاست کا پایہ تخت  جودھ پور تاریخی طور پر سلطنت مارواڑ کا دار الحکومت تھا، جو موجودہ راجستھان کا حصہ ہے۔  یہ شہر ایک مشہور سیاحت گاہ ہے جس کی خاصیت اس کے محلات، قلعے اور منادر ہیں۔بھارت کی ریاست راجستھان کسی زمانے میں وادیٔ سندھ کی تہذیب کا حصہ رہی ہے۔  راجستھان کے کچھ علاقے وادیٔ سندھ کی تہذیب میں ہڑپا کے زیر نگیں تھے۔ 1998ء میں شمالی راجستھان کے کالی بنگا میں کھدائی کے دوران میں کچھ ایسی نشانیاں ملی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہاں ایک ندی تھی جو اب خشک ہو چکی ہے اور اسی ندی کے ساحل پر ہڑپا کی بستیاں آباد تھیں۔ کچھ لوگ اسے سرسوتی ندی کہتے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ سرسوتی کے ذریعے ماضی بعید کے کئی راز افشا ہو سکتے ہیں۔


 راجستھان کا جغرافیہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کئی بادشاہوں نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے ادھر کا رخ کیا۔ راجستھان 321 تا 184 ق م موریا سلطنت کا بھی حصہ رہ چکا ہے۔ یہ  اپنی نیلی عمارات کی نسبت”نیلی نگری“ اور ”سوریہ نگری“ کے طور پر بھی مشہور ہے-جودھ پور کے گھومر رقص اور جیسلمیر کے کالبیلیا رقص کو بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی ہے۔ لوک موسیقی بھی راجستھانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ بھوپا، چانگ، تیراتلی، گھندر، کچیگھوری، تیجاجی اور پارتھ ڈانس روایتی راجستھانی ثقافت کی مثالیں ہیں۔ لوک گیت عام طور پر گانٹھ ہوتے ہیں جو بہادری کے کاموں اور محبت کی کہانیوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ اور مذہبی یا عقیدتی گیت جنہیں بھجن اور بنیاں کہا جاتا ہے (اکثر آلات موسیقی جیسے ڈھولک، ستار اور سارنگی کے ساتھ) بھی گائے جاتے ہیں جودھ پورکی شاہی ریاست، برطانوی ہندوستان میں بمبئی اور کراچی کے درمیان چلتی ’سِندھ میل‘ نام کی مسافر ریل گاڑی کے راستے میں آتی تھی۔سنہ 1947میں جب برصغیر برطانوی تسلط سے آزاد ہو کر انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہوا تو جودھ پور برصغیر کے رقبے میں ایک تہائی اور آبادی میں چوتھا اورلگ بھگ 600 شاہی ریاستوں میں شامل تھا جنھیں فیصلہ کرنا تھا کہ آزاد رہیں یا کسی ایک ملک سے جُڑیں۔


تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اگر وائسرائے لوئی ماؤنٹ بیٹن کا دباؤ نہ ہوتا تو جودھ پور شاید پاکستان سے الحاق کر لیتا اور اس سے جڑی کئی اور ریاستوں کو بھی اس پر آمادہ کیا جا سکتا۔’راجستھان میں تقریباً ہر چار سال بعد خشک سالی آتی تھی، اور قحط زدہ لوگ اناج کی تلاش میں اسی ٹرین پر زرخیز سندھ آتے۔ کچھ یہیں آباد ہو جاتے جبکہ کچھ اپنے گھروں کے لیے چاول اور گندم خرید کر واپس چلے جاتے۔‘انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سنہ 1818 میں برطانوی عمل داری میں آئی جودھ پور، انتظامی اکائی راجپوتانہ ایجنسی کی سب سے بڑی ریاست تھی۔     سب سے اہم ریاست جودھ پور  جو جغرافیائی طور پر پاکستان کے ساتھ متصل تھی اورتقسیم کے وقت  یہ ریاست  بآسانی پاکستان میں شامل ہو سکتی تھی۔‘’جودھ پور کو انڈیا میں شامل کرنا ایک نازک معاملہ تھا کیونکہ اس کے ہندو حکمران نے انڈیا میں شمولیت پر آزادی سے ایک ہفتہ قبل ہی رضامندی ظاہر کی۔ یہ فیصلہ اس وقت ممکن ہوا جب انڈین حکومت کی طرف سے کچھ اہم رعایتیں دی گئیں اور آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے سخت دباؤ ڈالا گیا۔‘


راجستھان بھارت کی ایک ریاست ہے جو اپنی بھرپور تاریخ، ثقافت اور صحرائی علاقوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کا دارالحکومت جے پور ہے، جسے 'گلابی شہر' بھی کہا جاتا ہے۔راجستھان کی سابق ریاست اور موجودہ شہر الور میں موجود ناروکا کشواہا راجپوت خاندان کا تعمیر کردہ خوبصورت تجارہ محل یہاں کے شاہی خاندان کا شاندار ماضی بیان کرتا ہے ‘زُبرزسکی لکھتے ہیں کہ ’ریاست نے اپریل 1947 میں دستور ساز اسمبلی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور مہاراجا اُمَید سنگھ پُرعزم تھے کہ ان کی ریاست کا مستقبل انڈین یونین کےساتھ ہے مگر دو ماہ بعد ان کی اچانک موت سے اقتدار ان کے بیٹے ہنونت سنگھ کو منتقل ہوا۔‘’نوجوان، کم تجربہ کار، وجیہہ مگر ضدی ہنونت سنگھ کو ہوا بازی، رقص کی محفلوں اور جادوگری سے خاص شغف تھا۔ جادوگری کا شوق اتنا سنجیدہ تھا کہ وہ بعد میں لندن کے معروف میجک سرکل کے رکن بھی منتخب ہوئے

منگل، 28 اکتوبر، 2025

ہم بیٹیوں کے جنم کی مٹھائ نہیں لیتے ہیں -میری مطبوعہ ناول 'میں سہاگن بنی 'مگر سے اقتباس

  



 


ایسے  میں چپکے سے اس کے ہاتھ پر کچھ دے آؤں گی پچھلی قسط یہاں ختم ہوئ تھی -یہ اگلی قسط ہے 'اور پھر اگلے روز دوپہر سے پہلے اماں منجھلی آپا کے گھر چلی گئیں  لیکن میرے لئے بڑی انہونی بات تھی کہ جب اماں منجھلی آپا کے گھر سےواپس آئیں خوشی سے ان کا چہرہ تمتما  رہا تھا اور میرا دل بہت گھبرایا اور میں نے سوچا ابا کہ رہے ہیں منجھلی مر جائے گی اور اماں کی خوشی دیدنی ہے 'کیا اماں چاہتی ہیں کہ منجھلی آپا مر جائیں 'لیکن میری ساری غلط فہمی اس وقت دور ہو گئ جب میں نے اماں کو جائے نماز پر روتے ہوئے اور  دعاء کرتے ہوئے سنا اماں اللہ میاں سے کہ رہی تھیں 'میرے پالن ہار مجھے میری منجھلی بھی سلامت چاہئے اور دوجی جان بھی سلامت چاہئے اب اماں اکثر منجھلی آپا کے گھر چلی جاتی تھیں پھر ایک روز صبح نور کے تڑکے رفاقت بھائ نے ہمارے دروازے پر آ کر خوشخبری سنائ کہ منجھلی آپا کے یہاں بیٹی پیدا ہوئ ہے  - اب اماں نے مجھے تیار ہونے کو کہا  نرگس آپی اور فریال بجّو نے بھی امّاں کے ساتھ جانے کے لئے  پر تولے  لیکن امّاں نے ان کو منع کرتے ہوئے کہا آج میں نگین کو اور کل تم دونوں کو لے جاؤں گی

 

 پھر امّاں نے منجھلی آپا کی بیٹی کے لئے سلے ہوئے کپڑے اورکھلونے اور دیگر تحائف ساتھ لئے راستے سے مٹھائ کا ڈبّہ خریدا اورجب ہم تقریباً گھنٹے بھر کا سفر کر کے ہسپتال پہنچے تو وارڈ میں سامنے ہی منجھلی آپا نے سونے کی شکل میں اپنی آنکھوں پر ایک بازو رکھّا ہوا تھاحالانکہ وہ سو نہیں رہی تھیں اور ان کی ساس کرخت چہرہ بنائے ہوئے منجھلی آپا کے بیڈ کے قریب  بنچ پر بیٹھی رفاقت بھائ سے سرگوشی میں باتیں کر رہی تھیں ،امّان نے  وارڈ میں داخل ہو کر بس ایک سلام کیا جس کا جواب نا تورفاقت بھائ نے دیا اور ناہی ان کی امّاں نے دیا پھر امّاں نے آگے بڑھ کرجب ان کو مٹھائ کا ڈبّہ دینا چاہا تو وہ کہنے لگیں ہمیں اس کی ضرورت نہیں  ہے ،،ہم بیٹیوں کے جنم کی مٹھائ نہیں لیتے ہیں اورپھر کہنے لگیں بیٹی کی  پیدائش پر میرا بیٹا ڈیڑھ ہاتھ زمین میں  دھنس گیا ہے  اس کے ساتھ امّاں نےمٹھائ کا ڈبّہ اور اپنے ساتھ لے گئے تحائف منجھلی آپا کے بیڈ کے سائیڈبورڈ پر رکھّے اورآ گے بڑھ کر جھولے سے بچّی کو نکال کر اپنی گود میں  لیتے ہوئے بولیں

 

تو دیر کس بات کی ہے جائیے شہر میں کسی لاوارث جھولے میں ڈال آئیے اورامّاں کی اس بات پر میرادل اندر سے لرز گیا ،پھر امّاں زیادہ  دیر رکیں نہیں اور ہم گھر واپس آ گئےاور پھر اگلے دن کی دوپہر کو منجھلی آپا کے شوہر  رفاقت بھائ منجھلی آپاکو ہمارے گھر پہنچا نے آئے لیکن انہوں نے گھر کے اندر قدم بھی نہیں رکھّاباہر باہر ہی یہ کہ کر چلے گئے کہ جب آ نا ہو اپنے بھائ کے ساتھ آجانا،میں نے دیکھا منجھلی آپا امّاں  سے لپٹ کر رونے لگیں اور بولیں امّاں    میں خود نہیں آئ ہوں ،امّا ں نے منجھلی آپا کو گلے سے جدا نہیں کیا بلکہ کہنےلگیں کوئ ضرورت نہیں آنسو بہانے کی زچّہ خانے میں ،،دنیا اسی کا نام ہے،، تو میری جائ ہے کھڑی ہو جا' نامرادوں کے سامنے چٹان بن کر دکھا دے کہ تو ہمّت والی ہے یا وہ ہمّت والے ہیں جا جا کر آرام کر میں تیرے لئےپرہیزی کھانا بنا لوں پھرمنجھلی آپ کی گڑیا سی بیٹی ہم سب کی آنکھوں کاتارابن کر پلنے لگی لیکن منجھلی آپا اب کو اب بلکل چپ لگ گئ تھی

 

 کیونکہ ان کی سسرال سے اب کوئ بھی رفاقت بھائ سمیت  ان سے رابطے میں نہیں تھا ان حالات میں منجھلی آپا کا دلگرفتہ ہونا اپنی جگہ بلکل درست تھا اور کسی کسی وقت وہ ہم سب سےچھپ کر اکیلے میں روتی بھی تھیں ایسے میں ایک دن فریال بجّو نے امّاں سےآ کر کہا امّاں وہ 'منجھلی آپا رو رہی ہیں  ،،بس امّاں فوراً  سارے کام چھوڑ کر منجھلی آ پا کے پاس پہنچ گئیں  اور انہوں نے منجھلی آپا سے پیاربھری ڈانٹ کے لہجے میں کہا  تجھے پہلے بھی کہ چکی ہوں مت رویا کر  ابھی تو زچّہ ہے  تیرا بال بال کچّا ہے  زچّہ خانے میں رونے سے "پربال" ہوجاتے ہیں آنکھوں میں ،،امّاں کی بات کے جواب میں میں نے چپکے سے قریب بیٹھی نرگس آپی سے پوچھا  نرگس آپی پر بال کیا ہوتے ہیں ،نرگس آپی نے کہا مجھےنہیں معلوم لیکن فریال بجّو نے چپکے سے جواب دیا ڈلیوری کے دنوں میں رونےسے پلکیں جھڑ جاتی ہیں اوردوبارہ نہیں آتیں  میں نے فوراً اپنے کمرے میں آ کر آئینہ میں اپنی پلکیں دیکھیں مجھے لگا بیٹی منجھلی آ پا کے یہان نہیں بلکہ میرے یہاں ہوئ ہے اور میں رو رہی ہوں اور میری پلکیں جھڑ گئ اورپھرمنجھلی آپا کے دکھ پر میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے  اور مجھے امّا ں کی آوز آئ ارے نگین کہاں ہو آ کر زرا کام میں تو ہاتھ لگاؤ اور میں امّاں کی آوازپر فوراً ان کے پاس چلی گئ-


کسی کے پیار کی جادو گری-تاج محل

 

 آگرہ میں  دریائے جمنا کے کنارے سنگ مر مر سے تعمیر کردہ تاج محل مغل فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ یونیسیف نے اسے ’انڈیا میں مسلم فن تعمیر کا نگینہ اور دنیا کا ایک عظیم شاہکار‘ قرار دیا ہے۔مورخین کے مطابق تاج محل 1632 سے 1648 میں تعمیر ہوا تھا۔ سوشل میڈیا پر مورخ رانا صفوی نے ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ بادشاہ کے سرکاری مورخ عبدالحمید لاہوری نے اپنی کتاب 'بادشاہ نامہ' میں اس کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ(تاج محل) کی تعمیر کا کام اس کی بنیاد رکھنے کے ساتھ شروع ہو گیا ہے۔'رانا صفوی نے مزید لکھا ہے کہ مورخ آر ناتھ نے اپنی کتاب 'تاج محل: ہسٹری اینڈ آرکیٹکٹ' میں لکھا ہے کہ 'شہنشاہ نے ممتاز محل کی قبر کے اوپر ایک بڑے گنبد کے ساتھ ایک ایسی شاندار عمارت تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا جو  اس کی محبت کی یادگار کے طور پر  باقی رہے  ۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ممتاز محل کی وفات کے بعد شاہ جہاں نے دو برس تک اپنا شاہی لباس نہیں پہنا اور دنیا ترک کر دی تھی 


 


اپنے فنِ تعمیر کی خوبیوں اور خصوصیات  کی بنا پر دنیا بھرکے عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس کو دیکھنے  کے لیے آتے ہیں۔شاہ جہاں آگرہ کے جنوب کی طرف زمین کی خوبصورتی  پر دل و جان سے فدا  تھا لیکن  جو جگہ شاہ جہاں کو پسند تھی وہاں  راجہ جئے سنگھ اول کی حویلی  موجود  تھی۔ اس نے ممتاز کے مقبرے کی تعمیر کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا جس کے بعد جئے سنگھ نے آگرہ کے وسط میں ایک بڑے محل کے بدلے اسے شہنشاہ شاہ جہاں کو دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس طرح  دنیا کا نادر روزگار    تاج محل وجود میں آیا -دنیا کی مختلف زبانوں کے نظم و نثر میں تاج محل اور اس کے عجائب پر اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ ان سب کا احاطہ بے حد مشکل ہے۔تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزاء کا انوکھا ملاپ ہے۔ 1983ء میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا۔

 



 اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا۔ تاج محل کو بھارت کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، لیکن بادشاہ نامے میں لکھا ہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کا خاکہ تیار کیا۔ یہ عمارت 1632ء سے 1650ء تک کل25 سال میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔ تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔

 



 عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے، سنگ سرخ کا ہے۔ اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے۔دیگر باغ: تاج محل کے چاروں اطراف مختلف نوع کے چار باغ ہیں - یہ خوبصورت  باغات انتہائ ترتیب سے   لگائے گئے ہیں   لیکن کو ئ  باغ بہت بڑا ہے کوئ درمیانہ اور کوئ چھوٹا ہے ،  اور یہ سب باغات    تاج محل کا   اہم حصہ ہیں  اور  تاج محل کو خوبصورتی اور دلکشی فراہم کرتے ہیں ۔ہر سال اس تاریخی یادگار کو50 لاکھ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ یہ تعداد بھارت کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے اور ایک ایسی بے مثال عمارت ہے جو تعمیر کے بعد ہی سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی۔ محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں، ادیبوں، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان کا محرک رہی ہے لیکن حقیقت میں ایک مقبرہ ہے۔یہ مقبرہ 17-ہیکٹر (42-ایکڑ) کا عظیم الشان کمپلیکس ہے، جس میں ایک مسجد اور ایک گیسٹ ہاؤس شامل یہ تین طرف سے باغات  سے گھرا ہوا ہے۔ تاج محل اور اس کی ترتیب، ارد گرد کے میدان، اور ڈھانچے قومی اہمیت کی ایک یادگار ہیں، جو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے زیر انتظام ہیں۔


تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی

ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں

اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی

میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے

کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں

کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار

مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور

جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل

ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود

آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل

یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

 میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے



 






پیر، 27 اکتوبر، 2025

ہم بچھڑے ہوؤں کی سن لوٍ-طورتک کی آنسوؤں بھری داستان پارٹ- 2

 



 






 طور تک  بلتی  علاقہ1971/16 دسمبر  تک پاکستان کا حصہ تھا جس کے بعد اس پر بھارت  قبضہ ہوا۔۔بلتی برادری زیادہ تر شیعہ مسلمان ہے۔ ان کی زبان، ثقافت اور خوراک مختلف ہے۔ ہرداسی نے بتایا کہ شیرین فاطمہ جیسی ہماری بلتی آرٹسٹ سرحد کی دوسری جانب بہت مشہور ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے منظور بلتستانی کے گانے یہاں بہت ہٹ ہیں۔ ایک ہمہ موسمی سڑک علاقے کو قریبی شہر دسکیت سے جوڑتی ہے۔ یہ شہر بھی سو کلومیٹر دور ہے۔ گرمیوں میں روزانہ سو سے زیادہ سیاح اس گاؤں کا رخ کرتے ہیں۔گلگت بلتستان کے حافظ وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن سے گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں کسی نجی ٹی وی کے رپورٹر نے کرگل سڑک کی بحالی کے حوالے سے سوال کیا، تو اُنہوں ناقابل یقین انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ خواہش تو ہماری بھی ہے لیکن اس سڑک کی بحالی کیلئے 100 ارب کا بجٹ چاہیئے وہ ہم کہاں سے لائیں۔ حالانکہ اسکردو کرگل شاہراہ ماضی میں آل ویدھر روڈ رہے ہیں اور بالکل آخری گاؤں (ہندرمو) تک سڑک بھی تیار ہے اور یہ اس شاہراہ کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور وسیع انداز میں بنایا جارہا ہے 100ارب کےبجٹ کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے



 یہی صورتحال خپلو کی طرف کی بھی ہے (فرانو ) گاؤں تک سڑک تیار ہے، آگے صرف چند میل کی دوری پر بھارت کے زیر قبضہ بلتستان کا گاؤں تورتک آتا ہے۔کارگل کی بات کریں تو وہاں کے صحافی دانشور سیاست دان اس حوالے سے زیادہ فعال نظر آتے ہیں لیکن وہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی کے آگے بےبس ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ سال جموں کشمیر کی وزیراعلٰی محبوبہ مفتی نے کرگل میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کرگل اسکردو اور تورتک خپلو سڑک کھولنے کی بات کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ اس سٹرک سے زمانہ قدیم کے تاریخی روابط پھر سے بحال ہو جائیں گے اور کرگل سنٹرل ایشیا کا گیٹ وے بنے گا۔محترم قارئین اپنے لوگوں کی جدائی کی تکلیف اور بچھڑ جانے کا غم تو وہی لوگ محسوس کر پائیں گے، جس کا بھائی لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب ہو اور ایک بھائی کی شادی اس جانب ہو رہی ہو اور وہ اس میں شامل نہ ہو پارہا ہو


، یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی ماں بلتستان میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی سالوں بعد اس کے بیٹے کو کرگل میں ملے، غرض یہ کہ لائن آف کنٹرول صرف دو علاقوں کو تقسیم ہی نہیں کرتی بلکہ رشتوں، جذبات اور انسانیت کا بھی قتل کرتی ہے۔  یہاں تک کہ مظفر آباد اور سری نگر کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باوجود ان علاقوں کے عوام کو آپس میں ملوانے کی غرض سے مظفر آباد سری نگر سٹرک کھول دی گئی ہے۔پونچھ اور راولاکوٹ کا رابطہ بھی کسی حد تک بحال کیا گیا،   قارئین افواج پاکستان کا گلگت بلتستان کی ترقی اور تعمیر میں جو کردار رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔ مختلف قدرتی آفات کے مواقع  پر افواج پاکستان کا عوام کی خدمت اور سہولت کیلئے جو ناقابل فراموش خدمات ہیں اُسے عوام بہتر انداز میں محسوس کرتے ہیں لیکن بتایا جاتا ہے کہ عوام کے کچھ افسران کے حوالے سے شکوے بھی ضرور تھے۔


 یقینا مقتدر حلقوں نے اس پر نوٹس لیا ہوگا اور آج کل گلگت بلتستان میں ایک ایسے درویش صفت انسان کو فورس کمانڈر گلگت بلتستان کی ذمہ داری ملی ہوئی ہے نہ صرف اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اُنہوں نے گلگت بلتستان پر عسکری تربیت سے ہٹ کر تاریخی اور علمی سٹڈی بھی کی ہوئی ہے۔ وہ گلگت بلتستان کے مسائل کو بالکل اسی طرح سمجھتے ہیں جس طرح یہاں کے عوام محسوس کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس میں گلگت بلتستان کی تاریخ اور یہاں کی محرومیوں کو بالکل ایسے بیان کیا ہے جیسے ہم ہمیشہ سے لکھتے بولتے رہے ہیں۔ فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود نے گذشتہ ہفتے بلتستان ریجن کا دورہ کیا، اور اپنے اس اہم دورے میں وہ چھوربٹ سے لیکر کھرمنگ گنگنی تک گئے عوامی مسائل سُنے، فوج کے زیراستعمال عوامی املاک عوام کو واپس کی۔ ساتھ اُنہوں نے دہائیوں سے حکومتوں سے مایوس عوام کو کرگل، اسکردو ور خپلو تورتک سڑک کی بحالی کے حوالے سے بڑی خوشخبری سُنانے کا بھی اعلان کردیا۔  خدا کرے کہ طورتک کے آنسوؤں کی زبان حکومت ہند بھی سمجھ جائے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر