ایسے میں چپکے سے اس کے ہاتھ پر کچھ دے آؤں گی پچھلی قسط یہاں ختم ہوئ تھی -یہ اگلی قسط ہے 'اور پھر اگلے روز دوپہر سے پہلے اماں منجھلی آپا کے گھر چلی گئیں لیکن میرے لئے بڑی انہونی بات تھی کہ جب اماں منجھلی آپا کے گھر سےواپس آئیں خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا اور میرا دل بہت گھبرایا اور میں نے سوچا ابا کہ رہے ہیں منجھلی مر جائے گی اور اماں کی خوشی دیدنی ہے 'کیا اماں چاہتی ہیں کہ منجھلی آپا مر جائیں 'لیکن میری ساری غلط فہمی اس وقت دور ہو گئ جب میں نے اماں کو جائے نماز پر روتے ہوئے اور دعاء کرتے ہوئے سنا اماں اللہ میاں سے کہ رہی تھیں 'میرے پالن ہار مجھے میری منجھلی بھی سلامت چاہئے اور دوجی جان بھی سلامت چاہئے اب اماں اکثر منجھلی آپا کے گھر چلی جاتی تھیں پھر ایک روز صبح نور کے تڑکے رفاقت بھائ نے ہمارے دروازے پر آ کر خوشخبری سنائ کہ منجھلی آپا کے یہاں بیٹی پیدا ہوئ ہے - اب اماں نے مجھے تیار ہونے کو کہا نرگس آپی اور فریال بجّو نے بھی امّاں کے ساتھ جانے کے لئے پر تولے لیکن امّاں نے ان کو منع کرتے ہوئے کہا آج میں نگین کو اور کل تم دونوں کو لے جاؤں گی
پھر امّاں نے منجھلی آپا کی بیٹی کے لئے سلے ہوئے کپڑے اورکھلونے اور دیگر تحائف ساتھ لئے راستے سے مٹھائ کا ڈبّہ خریدا اورجب ہم تقریباً گھنٹے بھر کا سفر کر کے ہسپتال پہنچے تو وارڈ میں سامنے ہی منجھلی آپا نے سونے کی شکل میں اپنی آنکھوں پر ایک بازو رکھّا ہوا تھاحالانکہ وہ سو نہیں رہی تھیں اور ان کی ساس کرخت چہرہ بنائے ہوئے منجھلی آپا کے بیڈ کے قریب بنچ پر بیٹھی رفاقت بھائ سے سرگوشی میں باتیں کر رہی تھیں ،امّان نے وارڈ میں داخل ہو کر بس ایک سلام کیا جس کا جواب نا تورفاقت بھائ نے دیا اور ناہی ان کی امّاں نے دیا پھر امّاں نے آگے بڑھ کرجب ان کو مٹھائ کا ڈبّہ دینا چاہا تو وہ کہنے لگیں ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ،،ہم بیٹیوں کے جنم کی مٹھائ نہیں لیتے ہیں اورپھر کہنے لگیں بیٹی کی پیدائش پر میرا بیٹا ڈیڑھ ہاتھ زمین میں دھنس گیا ہے اس کے ساتھ امّاں نےمٹھائ کا ڈبّہ اور اپنے ساتھ لے گئے تحائف منجھلی آپا کے بیڈ کے سائیڈبورڈ پر رکھّے اورآ گے بڑھ کر جھولے سے بچّی کو نکال کر اپنی گود میں لیتے ہوئے بولیں
تو دیر کس بات کی ہے جائیے شہر میں کسی لاوارث جھولے میں ڈال آئیے اورامّاں کی اس بات پر میرادل اندر سے لرز گیا ،پھر امّاں زیادہ دیر رکیں نہیں اور ہم گھر واپس آ گئےاور پھر اگلے دن کی دوپہر کو منجھلی آپا کے شوہر رفاقت بھائ منجھلی آپاکو ہمارے گھر پہنچا نے آئے لیکن انہوں نے گھر کے اندر قدم بھی نہیں رکھّاباہر باہر ہی یہ کہ کر چلے گئے کہ جب آ نا ہو اپنے بھائ کے ساتھ آجانا،میں نے دیکھا منجھلی آپا امّاں سے لپٹ کر رونے لگیں اور بولیں امّاں میں خود نہیں آئ ہوں ،امّا ں نے منجھلی آپا کو گلے سے جدا نہیں کیا بلکہ کہنےلگیں کوئ ضرورت نہیں آنسو بہانے کی زچّہ خانے میں ،،دنیا اسی کا نام ہے،، تو میری جائ ہے کھڑی ہو جا' نامرادوں کے سامنے چٹان بن کر دکھا دے کہ تو ہمّت والی ہے یا وہ ہمّت والے ہیں جا جا کر آرام کر میں تیرے لئےپرہیزی کھانا بنا لوں پھرمنجھلی آپ کی گڑیا سی بیٹی ہم سب کی آنکھوں کاتارابن کر پلنے لگی لیکن منجھلی آپا اب کو اب بلکل چپ لگ گئ تھی
کیونکہ ان کی سسرال سے اب کوئ بھی رفاقت بھائ سمیت ان سے رابطے میں نہیں تھا ان حالات میں منجھلی آپا کا دلگرفتہ ہونا اپنی جگہ بلکل درست تھا اور کسی کسی وقت وہ ہم سب سےچھپ کر اکیلے میں روتی بھی تھیں ایسے میں ایک دن فریال بجّو نے امّاں سےآ کر کہا امّاں وہ 'منجھلی آپا رو رہی ہیں ،،بس امّاں فوراً سارے کام چھوڑ کر منجھلی آ پا کے پاس پہنچ گئیں اور انہوں نے منجھلی آپا سے پیاربھری ڈانٹ کے لہجے میں کہا تجھے پہلے بھی کہ چکی ہوں مت رویا کر ابھی تو زچّہ ہے تیرا بال بال کچّا ہے زچّہ خانے میں رونے سے "پربال" ہوجاتے ہیں آنکھوں میں ،،امّاں کی بات کے جواب میں میں نے چپکے سے قریب بیٹھی نرگس آپی سے پوچھا نرگس آپی پر بال کیا ہوتے ہیں ،نرگس آپی نے کہا مجھےنہیں معلوم لیکن فریال بجّو نے چپکے سے جواب دیا ڈلیوری کے دنوں میں رونےسے پلکیں جھڑ جاتی ہیں اوردوبارہ نہیں آتیں میں نے فوراً اپنے کمرے میں آ کر آئینہ میں اپنی پلکیں دیکھیں مجھے لگا بیٹی منجھلی آ پا کے یہان نہیں بلکہ میرے یہاں ہوئ ہے اور میں رو رہی ہوں اور میری پلکیں جھڑ گئ اورپھرمنجھلی آپا کے دکھ پر میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور مجھے امّا ں کی آوز آئ ارے نگین کہاں ہو آ کر زرا کام میں تو ہاتھ لگاؤ اور میں امّاں کی آوازپر فوراً ان کے پاس چلی گئ-
ہمارے سماج میں آج بھی بیٹیوں کی پیدائش کو گالی بنا دیا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریں