بدھ، 29 اکتوبر، 2025

جودھ پور میں راجہ جی کی ریل

  بھارت کے   لوگ جودھ پور اور آس پاس کی ریاستوں کے راجاؤں کے تعاون سے بنی جودھ پور سے حیدرآباد تک 650 کلومیٹر طویل پٹری پر اس ٹرین میں سفر کرتے رہتے، اس ٹرین کو (راجا کی ریل) بھی کہا جاتا تھا۔نوابی ریاست کا پایہ تخت  جودھ پور تاریخی طور پر سلطنت مارواڑ کا دار الحکومت تھا، جو موجودہ راجستھان کا حصہ ہے۔  یہ شہر ایک مشہور سیاحت گاہ ہے جس کی خاصیت اس کے محلات، قلعے اور منادر ہیں۔بھارت کی ریاست راجستھان کسی زمانے میں وادیٔ سندھ کی تہذیب کا حصہ رہی ہے۔  راجستھان کے کچھ علاقے وادیٔ سندھ کی تہذیب میں ہڑپا کے زیر نگیں تھے۔ 1998ء میں شمالی راجستھان کے کالی بنگا میں کھدائی کے دوران میں کچھ ایسی نشانیاں ملی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہاں ایک ندی تھی جو اب خشک ہو چکی ہے اور اسی ندی کے ساحل پر ہڑپا کی بستیاں آباد تھیں۔ کچھ لوگ اسے سرسوتی ندی کہتے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا ماننا ہے کہ سرسوتی کے ذریعے ماضی بعید کے کئی راز افشا ہو سکتے ہیں۔


 راجستھان کا جغرافیہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کئی بادشاہوں نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے ادھر کا رخ کیا۔ راجستھان 321 تا 184 ق م موریا سلطنت کا بھی حصہ رہ چکا ہے۔ یہ  اپنی نیلی عمارات کی نسبت”نیلی نگری“ اور ”سوریہ نگری“ کے طور پر بھی مشہور ہے-جودھ پور کے گھومر رقص اور جیسلمیر کے کالبیلیا رقص کو بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی ہے۔ لوک موسیقی بھی راجستھانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ بھوپا، چانگ، تیراتلی، گھندر، کچیگھوری، تیجاجی اور پارتھ ڈانس روایتی راجستھانی ثقافت کی مثالیں ہیں۔ لوک گیت عام طور پر گانٹھ ہوتے ہیں جو بہادری کے کاموں اور محبت کی کہانیوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ اور مذہبی یا عقیدتی گیت جنہیں بھجن اور بنیاں کہا جاتا ہے (اکثر آلات موسیقی جیسے ڈھولک، ستار اور سارنگی کے ساتھ) بھی گائے جاتے ہیں جودھ پورکی شاہی ریاست، برطانوی ہندوستان میں بمبئی اور کراچی کے درمیان چلتی ’سِندھ میل‘ نام کی مسافر ریل گاڑی کے راستے میں آتی تھی۔سنہ 1947میں جب برصغیر برطانوی تسلط سے آزاد ہو کر انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہوا تو جودھ پور برصغیر کے رقبے میں ایک تہائی اور آبادی میں چوتھا اورلگ بھگ 600 شاہی ریاستوں میں شامل تھا جنھیں فیصلہ کرنا تھا کہ آزاد رہیں یا کسی ایک ملک سے جُڑیں۔


تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اگر وائسرائے لوئی ماؤنٹ بیٹن کا دباؤ نہ ہوتا تو جودھ پور شاید پاکستان سے الحاق کر لیتا اور اس سے جڑی کئی اور ریاستوں کو بھی اس پر آمادہ کیا جا سکتا۔’راجستھان میں تقریباً ہر چار سال بعد خشک سالی آتی تھی، اور قحط زدہ لوگ اناج کی تلاش میں اسی ٹرین پر زرخیز سندھ آتے۔ کچھ یہیں آباد ہو جاتے جبکہ کچھ اپنے گھروں کے لیے چاول اور گندم خرید کر واپس چلے جاتے۔‘انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کی تحقیق ہے کہ سنہ 1818 میں برطانوی عمل داری میں آئی جودھ پور، انتظامی اکائی راجپوتانہ ایجنسی کی سب سے بڑی ریاست تھی۔     سب سے اہم ریاست جودھ پور  جو جغرافیائی طور پر پاکستان کے ساتھ متصل تھی اورتقسیم کے وقت  یہ ریاست  بآسانی پاکستان میں شامل ہو سکتی تھی۔‘’جودھ پور کو انڈیا میں شامل کرنا ایک نازک معاملہ تھا کیونکہ اس کے ہندو حکمران نے انڈیا میں شمولیت پر آزادی سے ایک ہفتہ قبل ہی رضامندی ظاہر کی۔ یہ فیصلہ اس وقت ممکن ہوا جب انڈین حکومت کی طرف سے کچھ اہم رعایتیں دی گئیں اور آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے سخت دباؤ ڈالا گیا۔‘


راجستھان بھارت کی ایک ریاست ہے جو اپنی بھرپور تاریخ، ثقافت اور صحرائی علاقوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کا دارالحکومت جے پور ہے، جسے 'گلابی شہر' بھی کہا جاتا ہے۔راجستھان کی سابق ریاست اور موجودہ شہر الور میں موجود ناروکا کشواہا راجپوت خاندان کا تعمیر کردہ خوبصورت تجارہ محل یہاں کے شاہی خاندان کا شاندار ماضی بیان کرتا ہے ‘زُبرزسکی لکھتے ہیں کہ ’ریاست نے اپریل 1947 میں دستور ساز اسمبلی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور مہاراجا اُمَید سنگھ پُرعزم تھے کہ ان کی ریاست کا مستقبل انڈین یونین کےساتھ ہے مگر دو ماہ بعد ان کی اچانک موت سے اقتدار ان کے بیٹے ہنونت سنگھ کو منتقل ہوا۔‘’نوجوان، کم تجربہ کار، وجیہہ مگر ضدی ہنونت سنگھ کو ہوا بازی، رقص کی محفلوں اور جادوگری سے خاص شغف تھا۔ جادوگری کا شوق اتنا سنجیدہ تھا کہ وہ بعد میں لندن کے معروف میجک سرکل کے رکن بھی منتخب ہوئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر