Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
ہفتہ، 2 اگست، 2025
ایک انگریز شیعہ مسلمان کی داستان زندگی
جمعہ، 1 اگست، 2025
زرا عمر رفتہ کو آواز دینا - پھر میرے نانا جان بیس دن زندہ رہے
جی ہاں! آزادئ ہند کی خونچکاں داستان دہلی میں انیس سو ستاون میں دہلی کے مسلمانوں کے خون سےرقم ہوئ -جب چشم فلک نے ایک صبح کی روشن کرنوں میں ایک دلخراش نظارہ دیکھا کہ دہلی کے تمام شہر میں کوئ درخت ایسانہیں تھا جس پر ایک مسلمان کی جھولتی ہوئ لاش نا ہو -اور دہلی کی گلیاں اور درو دیوار مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے اس سے اور آگے دیکھیں تو' توپ کے دہانوں سے باندھ کر مسلمانوں کے چیتھڑے بدن ہوا میں دور تک اچھلتے دیکھے جا سکتے تھے -پھر دہلی کے باسیوں نے اس ہولناک قتل عام کے بعد آزادی کے خواب کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا لیکن اس کے بعد دہلی کے بجائے یو پی میں آزادئ ہند کی لہر اٹھی جس نے آگے چل کر ایک تناور درخت کی حیثیت اختیار کر لی اوراس درخت سے نکلنے والی شاخوں نے آزادئ ہند کی فوج کا ایک ہراول دستہ تیار کیا لیکن اس مرتبہ تحریک کا مرکز لکھنؤ کا ایک بڑا مشہور مدرسہ غالباً مدرسہ نظامیہ تھا تحریک خلافت سنہ 1919 میں خلافت تحریک کا آغاز ہوا لیکن مولانا محمد علی جوہر کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی اور تحریک خلافت قصہء پارینہ ہو گیئ
وقت گزر کر اب انیس سو چالیس کا زمانہ آ لگا تھا اور لکھنؤ شہر میں آزادئ ہند کا ایک ہراول دستہ سر سے کفن باندھ کر پھر تیار تھا اس ہراول دستے میں میرے نانا جان سید صغیر حسین بھی شامل تھے- انگریز سر کار کو میرے نانا جان کی شکائت پہنچا دی گئ کہ وہ بھی آزادئ ہند کے ہراول دستے میں شامل ہو گئے ہیں مقدمہ درج ہوا اور پیشیاں پڑنے لگیں ایسے میں راجہ صاحب محمود آبا د اول ان کے مددگار کے طور پر سامنے آئے انہوں نے بڑی رقم ضمانت کے طور پر پیش کی یہاں تک کہ راجہ صاحب نے ایک مقام پر کہا کہ وہ اپنی پوری ریاست بطور ضمانے دینے کو تیار ہیں لیکن سرکار راضی نہیں ہوئ اور پھر آخری پیشی پر عدالت نے میرے نانا جان کو بیس برس کی قید کی سزا سنائ گئ عدالت نے ان سے کہا کہ وہ گھر جا کر اپنی روز مرہ ضرورت کی اشیاء لے کر آ جائیں نانا جان کو ایک پہریدار کے ساتھ گھر بھیجا گیا -ان دنوں میرے ناناجان کی دو بہنیں ضلع بہرائچ سے اپنے میکے یعنی میرے نانا جان کے گھر آئ ہوئ تھیں-نانا جان بلکل سکون کے ساتھ گھر آئے اور اپنی قید کے بارے میں بتایا تو گھر کے اندر ایک کہرام برپا ہو گیا لیکن نانا جان نے اپنا سامان رکھتے ہوئے گھر والوں سے کہا میری قید بیسویں روز پوری ہو جائے گی اور پھر میں تم لوگوں کے درمیا ن ہو ں گا -
نانا جان جیل جا چکے تھے اورگھر میں سوگ کا سماں تھا لیکن بیس دن کی مدت پوری ہونے میں اس دن بیسسواں ہی دن تھا دربان کے مطابق رات حسب معمول عبادت میں گزار کر میرے نانا جان سوئے تھے لیکن صبح نہیں اٹھ سکے دربان نے اس کو جگایا تو وہ خدا کے گھر جا چکے تھے اور اس طرح قید کے بیس روز مکمل بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ ان کی پیشین گوئ پوری ہو چکی تھی -اب نانا جان تو خدا کے گھر جنت مکین ہو چکے تھے اور ان کے پیچھے ان کے پسماندگان میں بے یارو مددگار ان کے پانچ بچے اور ایک بیوہ رہ گئ تھیں -/ جی ہاں آزادئ ہند کی خونچکاں داستان دہلی میں انیس سو ستاون میں دہلی کے مسلمانوں کے خون سےرقم ہوئ -جب دہلی کے تمام شہر میں کوئ درخت ایسانہیں تھا جس پر ایک مسلمان کی جھولتی ہوئ لاش نا ہو -اور دہلی کی گلیاں اور درو دیوار مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے اس سے اور آگے دیکھیں تو توپ کے دہانوں سے باندھ کر مسلمانوں کے چیتھڑے بدن ہوا میں دور تک اچھلتے دیکھے جا سکتے تھے -اس کے بعد دہلی کے بجائے یو پی میں آزادئ ہند کی لہر اٹھی جس نے آگے چل کر ایک تناور درخت کی حیثیت اختیار کر لی-اس درخت سے نکلنے والی شاخوں نے آزادئ ہند کی فوج کا ایک ہراول دستہ تیار کیا -
لیکن اس مرتبہ تحریک کا مرکز لکھنؤ کا ایک بڑا مشہور مدرسہ غالباً مدرسہ نظامیہ تھا تحریک خلافت سنہ 1919 میں خلافت تحریک کا آغاز ہوااب انیس سو چالیس کا زمانہ آ لگا تھا اور اس ہراول دستے میں میرے نانا جان سید صغیر حسین بھی شامل تھے- انگریز سر کار کو میرے نانا جان کی شکائت پہنچا دی گئ کہ وہ بھی آزادئ ہند کے ہراول دستے میں شامل ہو گئے ہیں -مقدمہ درج ہوا اور پیشیاں پڑنے لگیں ایسے میں راجہ صاحب محمود آبا د اول ان کے مددگار کے طور پر سامنے آئے انہوں نے بڑی رقم ضمانت کے طور پر پیش کی لیکن سرکار راضی نہیں ہوئ اور پھر آخری پیشی پر عدالت نے میرے نانا جان کو بیس برس کی قید کی سزا سنائ گئ عدالت نے ان سے کہا کہ وہ گھر جا کر اپنی روز مرہ ضرورت کی اشیاء لے کر آ جائیں نانا جان کو ایک پہریدار کے ساتھ گھر بھیجا گیا -ان دنوں میرے ناناجان کی دو بہنیں ضلع بہرائچ سے اپنے میکے یعنی میرے نانا جان کے گھر آئ ہوئ تھیں- نانا جان بلکل سکون کے ساتھ گھر آئے اور اپنی قید کے بارے میں بتایا تو گھر کے اندر ایک کہرام برپا ہو گیا لیکن نانا جان نے اپنا سامان رکھتے ہوئے گھر والوں سے کہا میری قید بیسویں روز پوری ہو جائے گی اور پھر میں تم لوگوں کے درمیا ن ہو ں گا -نانا جان جیل جا چکے تھے اورگھر میں سوگ کا سماں تھا لیکن بیس دن کی مدت پوری ہونے میں اس دن بیسسواں ہی دن تھا دربان کے مطابق رات حسب معمول عبادت میں گزار کر میرے نانا جان سوئے تھے لیکن صبح نہیں اٹھ سکے دربان نے انکو جگایا تو وہ خدا کے گھر جا چکے تھے اور اس طرح قید کے بیس روز مکمل بھی نہیں ہونے پائے تھے کہ ان کی پیشین گوئ پوری ہو چکی تھی -اب نانا جان تو خدا کے گھر جنت مکین ہو چکے تھے اور ان کے پیچھے ان کے پسماندگان میں بے یارو مددگار ان کے پانچ بچے اور ایک بیوہ رہ گئں تھیں
جمعرات، 31 جولائی، 2025
تلوردنیا کا ایک نایاب پرندہ
بدھ، 30 جولائی، 2025
نجاشی والئ حبشہ مسلمانوں کا غم گسار بادشاہ
منگل، 29 جولائی، 2025
ہم تمھارے پاس تا قیامت آئیں گے -امام عالی مقام -حصہ دوم
پیر، 28 جولائی، 2025
ہم تمھارے پاس تا قیامت آئیں گے-امام عالی مقام حصہ اول
نحمد ہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم واٰلہ الطّیبین الطا ہرین ۃ برّصغیر اپک وہند میں سندھ کے علاقے کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ دین اسلام کی روشنی یہاں سے داخل ہوئ اور پھر پورے برّصغیر کو اس روشنی نے اپنی پاکیزہ کرنو ں سے منوّر کیا اس کی ابتدااس طرح سے ہوئ کہ ساتویں صدی ہجری میں امام علی نقی علیہ اسّلام کی نسل سےایک بہت بڑے عالم و زاہد و متّقی صاحب کشف وکرامت بزرگ امیر سیّد محمّد مکّی ابن سیّد محمد شجاع 640 ء میں مشہد مقدّس سے تشریف لائے اورسنّت کے مطابق یہان کے حاکم سےزمین خریدی اور اس زمین پر جا گزیں ہو گئے۔یہاں آپ نے مدرسہ اور مسجد تعمیر کروائ اور اسی مدرسے اور مسجد سےتبلیغ دین اور ترویج اسلام و درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا ،ان کی رحلت کے بعد ان کے فرزندحضرت خطیب سید صدرالدّین نے بھی اپنے والد کی طرح درس وتدریس کا یہ سلسلہ قائم رکھّا خطیب سید صدرالدّین کا جائے مدفن سکھّراور روہڑی کے درمیان جزیرہ نما ء قلعہ بکھّر میں واقع ہے
سندھ کے علاقے میں تعزئیےداری و عزاداری کی ابتداء اسی شہر سے ہوئ اور یہ سلسلہ پھیلتا ہوا سندھ کے دیگر علاقوں میں پھیلااس وقت روہڑی شہر میں ماہ محرّم میں نکلنے والے تابوت کے لئے لے بتایاجاتا ہے کہ ہجری 1000 میں یہاں پر حضرت سید محمّدامیر مکّی کی پشت سے ایک بچّےنے جنم لیا ،یہ بچّہ آگے چل کر اپنے اجداد کی مانند بزرگ ،ولی ثابت ہوامحمد شریف اپنی ابتدائ عمر سے ہی غم حسین علیہ ا لسّلام میں سوگوار'واشکبار رہا کرتے تھےاسی مودّت امام حسین علیہ السّلام میں ہونے کی بناء پرنوجوانی آنے پر وہ ہر سال پیدل روضہ امام حسین علیہ اسّلام کی زیارت کو جایا کرتے تھے اورا س سفر میں ان کے کچھ خاص رفقاء بھی ساتھ ہوتے تھےان رفقاء میں ایک کھبّڑ فقیر بھی تھے یہ تمام افراد پا پیادہ کربلا عازم سفر ہوا کرتے تھے-یاد رہے کہ کھبڑ فقیر بھی سادات کے خوانوادے سے تھے جنہوں نے عشق امام میں اپنے آپ کو کھبڑ فقیر کہلانا پسند کیا -عاشقان امام کا یہ متبرّک سفر اسی طرح سے ہر سال عازم سفر ہوتا رہا اور بالآخر مور شاہ ضعیف العمرہوئے تو ان کے دیگر رفقاء طبعئ عمر کے ساتھ جنت مکین ہوتے گئےلیکن کھبڑ فقیر اور مور شاہ ایک دوسرے کے ہمرکاب رہے -ایک سال ماہ محرم سے پہلے مورشاہ روضہ ءاما م مظلوم علیہا لسّلام پر جاکر عرض گزار ہوئے
مولا میں اب ضعیف ہو گیا ہو ں 'آپ اجازت دیجئے کہ میں یہیں کربلا میں تا حیات قیام کروں اما م پاک علیہ السّلام نے فرمایا ،اے فرزند تم نےاپنی تمام عمر میری زیارت کے لئے وقف کر دی اب تم واپس اپنے شہر چلے جاؤاب ہم تمھارے پاس خود آئیں گےاور تا قیامت آئیں گے یہ بشارت ملتے ہی سیّد مور شاہ نے خاک کربلا کو الوداعی بوسہ دیا اورخوشی خوشی واپسی کے سفر کے لئے روانہ ہوئے تاکہ اپنے محبوب امام اور آقاکی میزبانی کا شرف حاصل کر سکیں روہڑی شہر پہنچ کر اپنی بشارت کا زکرپنے دوستوں ساتھیون ،بزرگوں اور سادات کو بھی سنایااور پھر بڑے اشتیاق سے محو انتظار ہوئےمور شاہ کی واپسی کے کچھ دنوں بعد ملک عراق کر بلا سےدو بزرگ حضرات مورشاہ کے پاس آئےاور انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئ بتایا کہ ہم بنی اسد قبیلے کے افراد ہیں اور ہمارے پاس میدان کربلا سےلاشہائے شہداء کی کچھ متبرّک نشانیا ن موجود ہیں یہ تبرّکات ہمارے بزرگون کو شہداء کی لاشوں کی تدفین کے وقت ملی تھیں ۔
اب ہمیں حضرت امام حسین علیہ ا لسّلام کی جانب سے بشارت ہوئی ہے کہ ہم یہ امانتیں آپ کے سپرد کر دیں پھر بزرگوں نے تابوت کا نقشہ اورامانتیں دیں اور کہا کہ اس تابوت کا نقشہ ہے جو قبیلہ بنی اسد کےلو گو ں نے پہلی مرتبہ امام مظلوم کی قبر پر سائے کے لئے بنایا تھا پھر ان دونو ں بزرگ حضرات نے کچھ عرصے روہڑی میں سیّد مور شاہ کے ہمراہ قیام کیا، اورتابوت کربلا کے حوالے سے کچھ اور بھی راز جو سینہ بہ سینہ چلے آ رہے تھے ان کےگوش گزار کئے ،ان میں وقت اور دن کا تعین بھی تھا ان دو بزرگوں میں سےایک کا انتقال ہوگیا جن کا مدفن سید مورشاہ کے مزار کےبرابر مسجد عراق روہڑی میں زیارت خاص و عام ہے۔اور دوسرے بزرگ عراق کربلا روانہ ہو گئےیہ ساری امانتیں اور احکامات ملنے کے بعد جب پہلی مرتبہ محرّم الحرام کاآغاز ہوا تو سیّد مورشاہ نےبتائے ہوئے طریقے اور نقشے کے مطابق ۹ محرّم الحرام کے دن اور۱۰ محرّم الحرام کی درمیانی رات کو تابوت بنانے کی تیّاری شروع کی گئ
اتوار، 27 جولائی، 2025
صاب جی !کیا چاہئے 'بیف'مٹن یا گدھا
دین اسلام بہت ہی خوبصورت دین ہے جس میں زندگی کو اعلیٰ و ارفع طریقے سے گزارنے بہت ہی زرین اصول موجود ہیں ۔ اگر اس نے ہمارے لئے بھیڑ بکری گائے بھینس جیسے جانوروں کا گوشت کھانا حلال رکھا تو گدھے کے گوشت کو حرام کر دیا - فقہ اسلامی میں متعدد چوپائے، بحری جانور اور پرندوں کے اجزاء کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے شیعہ امامیہ کے فقہی متون میں حرام گوشت جانوروں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں، ایک ذاتی دوسری عرضی۔بری (خشکی کے) جانوروں میں سے تمام درندے، تمام رینگنے والے جانور، تمام مسخ شدہ جانور، تمام کیڑے مکوڑے اور تمام پنجہ دار پرندے، حرام گوشت جانوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح چھلکے دار مچھلی کے علاوہ پانی کے تمام جانور حرام گوشت ہیں' جبکہ جھینگے مکروہ تحریمی کے زمرہ میں ہے۔ حرام گوشت جانور سے بنی ہوئی چیزیں جیسے چمڑا، دوائی، کاسمیٹک چیزیں اس صورت میں پاک ہیں جب جانور کا تذکیہ ہوا ہو اور نماز کے علاوہ دوسری جگہ پر ہی ان کا استعمال جائز ہے۔مسلمانوں کے لئے جن جانوروں کے اجزاء کا کھانا حرام ہے انہیں حرام گوشت کہا جاتا ہے۔ بعض فقہی کتب میں حرام گوشت جانوروں کی دو قسمیں کی گئی ہے۔
خر گوش کا گوشت کھانا شروع سے ہی حرام ہے، ۔ دوسری قسم ان جانوروں کو شامل ہوتی ہے ہو۔ قرآن نے چار سوروں سورہ بقرہ، سورہ مائدہ، سورہ نحل اور سورہ انعام میں حرام کھانوں کے تذکرہ کے ساتھ حرام گوشت جانوروں کا تذکرہ بھی کیا ہےاسلام آباد میں ’’گدھے کے گوشت‘‘ کی فروخت کا معاملہ، سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان -گدھے کا گوشت کھانے میں لاہور تنہا نہیں رہا کیونکہ اسلام آباد بھی اسی فہرست میں شامل ہوچکا ہےاسلام آباد کے ریسٹورنٹس میں گدھے کے گوشت کی فروخت کا انکشاف ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر میمز اور مزاحیہ تبصروں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔یاد رہے کہ کچھ برس قبل لاہور میں گدھے کا گوشت ہوٹلوں میں فروخت ہونے کی خبر نے پورے پاکستان میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
تب سے لے کر آج تک لاہور والے ’’گدھا گوشت پارٹی‘‘ کے طعنے سہتے آرہے ہیں۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ لاہور اس ’’اعزاز‘‘ میں تنہا نہیں رہا کیونکہ اسلام آباد بھی اسی فہرست میں شامل ہوچکا ہے!تازہ ترین خبروں کے مطابق اسلام آباد کے علاقے ترنول میں فوڈ اتھارٹی نے 25 ٹن گدھے کا گوشت پکڑ لیا جو مختلف ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کو سپلائی کیا جانا تھا۔ اس انکشاف نے عوام کو شدید حیران ہی نہیں بلکہ ششدر کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوام نے جہاں افسوس کا اظہار کیا، وہیں طنز و مزاح کا دروازہ بھی کھول دیا۔گدھوں کے گوشت کی خبر پر ردعمل میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔کچھ دلچسپ تبصرے پڑھیے: ایک صارف نے لکھا ’’مبارک ہو، اب اسلام آباد بھی لاہور بن چکا ہے!‘‘، ایک اور کمنٹ میں کہا گیا ’’اب لاہور والوں کو کچھ مت کہنا، اسلام آباد نے بھی گدھا گوشت کھا لیا‘‘، جبکہ ایک تیسرے صارف نے شاندار ترکیب پیش کی کہ ’’اسلام آباد والوں کےلیے نئی ڈش: گدھا شنواری تیار کریں!‘جب سے پاکستان میں اس غیر معمولی گوشت‘‘ کا کاروبار بے نقاب ہوا ہے، عوام ہوٹل اور ریسٹورنٹس کوشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
لاہور کی طرح اب اسلام آباد بھی اس مذاق کا حصہ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے تو یہاں تک کہنا شروع کردیا ہے کہ ’’ہوٹلوں میں نہ پوچھو کون سا گوشت ہے، پوچھو کہ کیا گوشت گدھے کا تو نہیں ہے؟‘‘اس خبر نے جہاں لوگوں کو تشویش میں مبتلا کیا، وہیں طنز و مزاح کا نیا در کھول دیا ہے۔ عوام یہ سوال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہوٹلوں میں دیسی کھانے کے ساتھ گوشت بھی دیسی ہے یا کسی اور نسل کا؟اگر آپ اسلام آباد کے کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جارہے ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ آپ کی پلیٹ میں ’’خالص گدھا گوشت‘‘ ہو... یا پھر کم از کم سوشل میڈیا پر یہی سمجھا جائے!پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس کے مطابق تھانہ سنگجانی کی حدود میں گدھے کے گوشت کی فروخت کی اطلاع ملنے پر ایک ہزار کلو گرام گدھے کا گوشت اور 45 کے قریب زندہ گدھے برآمد کیے گئے ہیں۔
ایک پولیس اہلکار نے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ اس معاملے میں ایک چینی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے اس حوالے سے تفتیش جاری ہے کہ یہ گوشت کہاں اور کیسے فروخت ہوتا تھا۔ تاہم اب تک تفتیش میں خاطرخواہ معلومات نہیں مل سکی ہے۔پولیس کے مطابق ان گدھوں کو پنجاب کے مختلف شہروں سے ایک فارم ہاؤس میں لایا جاتا تھا اور ان کو کاٹ کر گوشت فروخت کیا جاتا تھا جبکہ کھالیں گوادر کے راستے چین سپلائی کر دی جاتی تھیں جنھیں مبینہ طور پر کاسمیٹکس بنانے کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا۔گدھے کا گوشت اگرچہ کراہت آمیز ہے مگر دوستوں کے " پُر زور" اصرار پر لکھنا ضروری ۔ گدھے کا گوشت اسلامی نکتہء نظر سے حرام ہے ۔غیر مسلم ممالک میں اگرچہ بہت کم کھایا جاتا ہے مگر اٹلی اور چین میں کافی لوگ اسے پسند کرتے ہیں ۔ طبی لحاظ سے گدھے کا گوشت انسانی استعمال کیلئے ہرگز نقصان دہ نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ گائے بھینس کے گوشت کے مقابلے میں زیادہ نیوٹریشنل ویلیو رکھتا ہے ۔ گدھے کے گوشت میں کم چکنائی ، کم کولیسٹرول ، ہائی لیول پروٹین اور منرلز ، وٹامنز اور مفید فیٹی ایسڈز پائے جاتے ہیں ۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد
مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...