اتوار، 28 مئی، 2023

پاکستا ن کا دل 'دریائے سندھ

 

 ر  وا ئت ہے کہ  حضر ت نو ح  علیہ  ا لسلا م    جب طو فا  ن    سے گھبر ا گ  ۓ تب آ پ نے اللہ سے نجا ت کی دعا کی تب اللہ نے سا ت بڑ ے در یا تخیق کر کے پا نی ان میں اتا ر د یا ان میں دریائے سندھ  بھی  شا مل  تھا –یہ  دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 2000 ہزار میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔ اس کا مجموعی نکاسی آب کا علاقہ 450,000 مربع میل یا 1,165,000 مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں سے یہ پہاڑی علاقہ ( قراقرم، ہمالیہ، اور ہندوکش) میں 175,000 مربع میل یا 453,000 مربع کلومیٹر بہتا ہے اور باقی پاکستان کے میدانوں میں بہتا ہے۔ چینی علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک زیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے۔ کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل مانسرور ہے۔ جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4 اہم دریا نکلتے ہیں۔ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے۔ اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811 میں ولیم مور کرافٹ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرو نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں۔ اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے سیون ہیڈن 1907ء میں جھیل سے 40 کلومیٹر اوپر سنگی کباب یا سینگے کباب کے علاقے میں جا پہنچا۔ جہاں بہنے والی ندی گارتنگ یا گارتانگ ہی جھیل مانسرو کو پانی مہیا کرتی ہے۔ اس لیے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے۔ سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا۔ اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے۔گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرو میں ملتی ہے۔ یہاں سے دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں۔ وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے۔ یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450 کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے۔

دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30 کلومیٹر مزید آگے جا کر سکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے۔ مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا ملتا ہے۔اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ہے تربیلا ڈیم۔ تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس آٹک کے مقام پر دریائے کابل اس میں آ ملتا ہے۔ دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے۔ کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے۔کالا باغ کے ہی مقام پر دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے۔ تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا اس میں شامل ہوتا ہے۔ مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ مظفرگڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں۔

گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں تک آتا ہے۔ حیدرآباد کے پہلو سے گذر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گذر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے۔اس دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان یا کا نام انڈیا پکارا گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاؤں کا باپ کہتے ہیں۔ اسی دریا کے کنارے آریاؤں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی۔ رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں۔ یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے۔ اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے۔ یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے۔

منبہ کی تلاش-یہ دریا جو کیلاش کے قریب سے نکلتا ہے اور اٹھارہ سو میل کا سفر طہ کرکے بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ہندووَں اور بدھووَں کا کوہ کیلاش کوہ میرو برہما کا نگر ہے اور جن دیوتاؤں اگنی، وایو اور اندر کو وہ پوجتے ہیں ان کا اصل مسکن یہیں ہے۔ اس علاقہ کو جھیلوں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہاں دو بڑی جھیلیں واقع ہیں۔ جن میں مان سرود کو مقدس اور راکش تال کو منحوس خیال کیا جاتا ہے۔تبتیوں کا کہنا تھا کہ اس جھیل سے دریائے سندھ اور تین اور دریا برہما پتر، کرنالی (گنگا کا ایک بڑ معاون دریا ) اور ستلج بھی نکلتے ہیں۔ ہندووَں اور بدھوں کا بھی یہی کہنا تھا اور ان کی مذہبی تصویروں میں اس جھیل میں ان چاروں دریاؤں کو چار جانوروں کے منہ سے نکلتے دیکھایا گیا تھا۔ مشرق میں سے برہما پتر گھوڑے کے منہ سے، کرنالی کو جنوب میں مور کے منہ سے، ستلج مغربی جانب سے ہاتھی کے منہ سے اور دریائے سندھ شمال میں ببر شیر یا سنگی کباب سے نکل رہا ہے۔ اس لیے یہ دریا تبت میں سنگی کباب یعنی شیر دریا کہلاتا ہے۔یورپی جغرافیہ دان تبتوں کی اس روایت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ جھیل مانسرور چار بڑے دریاؤں کا منبع ہے۔ ان کا خیال تھا کہ دریائے سندھ کا منبع کیلاش کے پہاڑی علاقے میں ہے۔ چنانچہ جب 1858ء میں جب برصغیر کے شمال مغرب کے علاقے میں ریلوے لائین تیار کی جارہی تھی تو اس کے لیے جو نقشہ تیار ہوا اس میں دریائے سندھ کو کوہ کیلاش سے نکلتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔ بہرحال انیسویں صدی کی ابتدا تک اس کا منبع مخفی رہا اور سطح مرتفع کے پیچیدہ اور وسیع علاقے کی وادیوں اور چوٹیوں کی نشادہی محض اندازے سے ہوتی رہی۔

انیسویں صدی کے آخر تک کئی یورپین نے جھیل مانسرور کا سفر کیا اور دریائے سندھ کے منبع کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تبتی احکام کسی یورپین کو اس جھیل کا سروے نہیں کرنے دیتے تھے۔ پھر بھی بہت سے یورپین بھیس بدل کر وہاں پہنچ گئے اور انیسویں صدی کے اختتام تک ستلج (ہاتھی دریا) اور کرنالی (مور دریا) کے منبع تلاش کر لیے گئے۔ یہ پندرہ میل دور جنوب مغرب کی طرف شیطانی یا راکش جھیل سے نکلتے ہیں جو ایک جھوٹی سی ندی کے ذریعہ مانسرور جھیل سے منسلک ہے۔ مگر گھوڑا دریا اور شیر ببر دریا ( برہما پتر اور سندھ ) کے منبع کا اب تک پتہ نہیں چلا تھا اور انہیں ان کے درست منبع کا ابھی تک پتہ نہیں تھا۔

یہ اعزاز ایک سویڈش سیاح سیون ہیڈن کو ملا۔ وہ اس سے پہلے مانسرور سے ساٹھ میل مشرق کی جانب برہما پتر کی ابتدائی ندی دریافت کرچکا تھا۔ وہ سنگی کباب یعنی شیر دریا کے دہانے کی تلاش میں 1907ء میں دوبارہ مانسرور جھیل پہنچا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دریائے سندھ کا منبع جھیل کے کہیں شمال کی جانب ہے اور برہما پتر رکس تال سے نکلتا ہے۔ اس لیے ہیڈن شمال مغرب کی طرف جانا چاہتا تھا۔ اسے۔ تبتی افسر نے بہت اصرار پر اجازت دی۔بالآخر ہیڈن چند چراوہوں کی مدد سنگی کباب پہنچا۔ وہ پہلا سفید آدمی تھا جس نے سندھ اور برہم بترا کے منبع کے مقام تک پہنچ سکا۔ لیکن حقیقت یہ ہے اس دریا کے کئی منہ ہیں اور اس میں سے کس کو دریائے سندھ کا منبع مانا جائے۔ لیکن چونکہ روایات سنگی کباب کے حق میں اس لیے اسے دریائے سندھ کا منبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اگرچہ سنگی کباب جھیل مانسرور سے صرف تیس میل دور ہے۔ لیکن تبتی احکام کو یقین تھا کہ دریائے سندھ جھیل مانسرور سے نکلتا ہے۔ کیوں کہ ایک بڑا طاقتور دریا کو اسی مقدس جھیل سے نکلنا چاہیے۔ اگرچہ یہ چارووں دریا اس جھیل سے نہیں نکلتے ہیں مگر اس جھیل سے زیادہ فاصلے پر نہیں نکلتے ہیں۔ اس طرح یہ روایات بہت زیادہ غلط بھی نہیں تھیں اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دریا ایک ہی مقام سے پھوٹ کر مختلف سمتوں میں رخ کرتے ہیں۔میں دریائے سندھ وہاں سے اپنے ساتھ مختلف ندی نالوں کا پانی لیتا ہوا آگے بڑھتا ہے جہاں بھورے ٹیلے اور برف سے ڈھکے سفید پہاڑ آسمانوں کو چھو رہے ہیں اور درمیان میں دریائے سندھ نیلے اور اٹھلے پھیلاوَ کے ساتھ بتا ہے۔ اس کا ایک دھارا جو جنوبی سرچشمہ ہے اور کیلاش کے نشیب کے کنارے سے ہوتی ہوئی گارٹنگ اور گیاتیما کے سامنے سے گزرتی ہے اور دوسری یعنی شمالی شاخ جو کیلاش سلسلے کے شمال میں سے نکلتی ہے اور بہتی ہوئی جنوبی شاخ کے ساتھ مل کر اور گلجیٹ کے قریب سے گزرتی ہے۔ یہاں دریائے سندھ کا پہلا معاون دریا گارتنگ ملتا ہے۔ گارتنگ دریا سندھ کے برابر ہی ہے اور ایک کھلی وادی جگہ بہتا ہوا آتا ہے۔ جس کے کنارے مغربی تبت کے صوبہ گارتنگ کا دالحکومت گارتنگ واقع ہے۔ جب کہ دریائے سندھ اپنے منبع کی وجہ سے پہاڑوں میں چکر لگانے پر مجبور ہے۔ یہاں دونوں دریا مل یا گارتنگ اور سندھ میں ارتصال کے بعد دریائے سندھ دس ہزار فٹ کی بلندی پر بہتا ہے اور سفر کرتا ہوا رواں دواں ہوجاتا ہے۔ یہاں اس پس منظر میں پہاڑوں کی سفید چوٹیاں سر نکالے کھڑی ہوئی ہیں۔ یہاں دریا سندھ کا رخ آہستہ آہستہ شمال مغرب کی طرف سے لداخ کا رخ کرتا ہے۔ یہاں تاشی گانگ جو تبت کا آخری گاءوں ہے۔ یہاں پہلے پتھریلے راستہ پر دعائیہ جھنڈے اور مقبرے بنے ہوئے۔ بے تراشیدہ پتھر اور لکڑی کے شہتیروں کے بنے مکانات دریائے سندھ کے ساتھ بنی ایک خانقاہ کے پس منظر میں دب جاتا ہے اور دیکھنے والوں صرف یہ خانقاہ ہی نظر آتی ہے۔

اس کی راہ میں ایسے گاؤں کم ہیں جو سارا سال آباد رہتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے پانچ میل سے پچیس میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہ غیر تراشہ پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنے ہوئے یہ دیہات عموماً دریائے سندھ کی معاون ندیوں کے کنارے زمین کے چھوٹے چھوٹے قابل کاشت ٹکروں پر آباد ہیں۔ سنگی کباب (دریائے سندھ) چل کر سطح مرتفع تبت کے مغرب میں واقع بلند و بالا وادیوں میں سفر کرتا ہوا شمال مغرب پھر مغرب کا رخ کرتا ہے اور اس نقشے میں دیکھیں تو اس کی شکل وہاں درانتی کا طرح یا ہلال کی شکل بناتا ہے۔ لہذا اس دریا ابتدائی سفر مغربی تبت میں ہوتا ہے۔ دریائے سندھ مغربی تبت کو چراہگاہیں مہیا کرتا ہوا کشمیر کا رخ کرتا ہے۔یہ میدانوں سے شروع ہوکر چٹانوں سے گذر کر دریا سندھ کے کنارے کنارے اوپر کی سمت جارہا ہوتا ہے۔ جس کے ایک طرف بلند و بالا پہاڑوں کی دیواریں اور دوسری سمت میں دریائے سندھ کی طرف جاتی ہوئی عمودی کھائیاں اور پھسلتے ہوئے برف کے تودے اور مٹی کی چٹانیں یعنی مسقل خطرہ منڈلا رہا ہوتا ہے۔

جمعرات، 25 مئی، 2023

مکئ آپ کی غذا بھی اور دوا بھی


گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی روز مرہ غذا کے شیڈول میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے لیکن اس موسم میں مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو‘ مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شاید ہی کوئی اور دکھاتا ہو۔ مکئی کا شمار اناج کی اس قسم میں ہوتا ہے جو سال کے آغاز سے اختتام تک مارکیٹ میں باآسانی دستیاب رہتی ہے۔مکئی کے چونکا دینے والے فوائد:اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے‘ بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے۔ بلغم صفرا اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے۔ دیر ہضم ہے‘ باہ کو قوت دیتی ہے‘ بدن کو قوت دیتی ہے‘ زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم‘ قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے۔ کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے۔ سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے۔ آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے۔ کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے۔ اس کے آٹے کا لپٹا بنا کر مریض کو پلانے سے صحت ہوتی ہے اور بھوک میں خوب اضافہ ہوتا ہے۔ مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے۔ اچھی مکئی کے کھانے سے بدن فربہ ہوتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سےدست آنے لگتے ہیں۔

 اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے۔ مکئی کی گلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کر دیں تو فوراً فائد ہوتا ہے۔ اس کی گلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت جلد فائدہ ہوتا ہے۔ اسے دن میں پانچ پانچ رتی تین مرتبہ دیتے ہیں۔ اس کی ڈاڑھی کا جوشاندہ  پلانے سے مثٓانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے اور پیشاب خوب آتا ہے۔ یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خون بستہ کو تحلیل کرتی ہے۔ دستوں کو روکتی ہے‘ سل میں مفید ہے۔ اس کا آتا سرکے میں ملا کر لیپ کرنے سے خارش اور ہاتھ پاؤں و ناخنوں کے پھٹنے کو مفید ہے۔ اس کے جوشاندہ کا حقنہ آنتوں کے زخم کو دور کرتا ہے اس میں غذائیت گیہوں سے کم ہے۔-نشاستہ سے بھرپور خوراک: خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر‘ کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کم کرنے کا موجب بنتی ہے۔ تحقیقی ماہرین کے مطابق جو لوگ مکئی کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈشوگر‘ انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول کی جاسکتی ہے۔

 اس حوالے سے ماہرین نے دو ایسے گروپس میں شامل افراد کا موازنہ کیا جو ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا تھے۔ ایک گروپ نے فائبر (نشاستہ) پر مشتمل غذا کا استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ نے کم نشاستہ والی غذا استعمال کی گئی۔ پہلے گروپ میں صحت کی جانب سے مثبت نتائج ظاہر ہوئے کیونکہ ان افراد نے چوبیس گرام تک فائبر روزانہ استعمال کیا جبکہ دوسرے گروپ میں کولیسٹرول اور بلڈشوگر کی شکایات بدستور جاری رہیں۔مکئی کو پاپ کارن‘ سوپ‘ سلاد اور سالن وغیرہ میں پکایا جاتا ہے اور ایک طرح سے اس کو گرمیوں میں باربی کیو کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مکئی کے بھٹے اور سٹے بچوں میں مقبول عام ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں میں اگر مکئی کو زیادہ ترجیح دی جائے تو زیادہ مفید ہے۔سردیوں کے آغاز میں ہی مکئی کی فصل تیار ہوچکی ہوتی ہے ۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جب بازاروں میں مکئی کے بھٹے فروخت کرنے والے اُمڈ آتے ہیں کوئی نمک میں بھون رہا ہے تو کوئی ریت میں پکا کر اُنہیں فروخت کررہا ہے ۔خوراک میں نشاستہ کی زیادہ مقدار قولون کینسر ،کولیسٹرول اور آئی بی ایس کے خطرات کو کم کرنے کا موجب بنتی ہے

ماہرین کی جانب سے  پیلے، ذائقے سے بھرپور چھوٹے چھوٹے دانوں پر مشتمل مکئی کے دانوں میں موجود غذائیت انتہائی صحت بخش قرار دی گئی ہے، اس میں موجود وٹامن B1 اور B5 توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ پٹھوں کے نئے خلیات بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، مکئی کے استعمال سے صحت پر متعدد طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا بیوقوفی ہو گا۔ غذائی ماہرین کے مطابق چھلی، بھٹہ یا مکئی میں وٹامن سی پایا جاتا ہے جو کہ بے شمار امراض سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتا ہے، اس میں موجود فائبر جسم کی توانائی بحال کرتا، کولیسٹرول لیول کی سطح متوازن بناتا اور نظامِ ہاضمہ کی کارکردگی درست رکھتا ہے جس کے نتیجے میں قبض کی شکایت سے نجات ممکن ہوتی ہے۔-مکئی کے استعمال سے کمزور بینائی کا علاج بھی ممکن ہے، مکئی میں موجود Carotenoid ناصرف بینائی تیز کرتا ہے بلکہ وٹامن اے کے حصول کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔


حالیہ امریکی تحقیق کے مطابق پاپ کارن صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں جن کا استعمال پھل اور سبزیوں کی طرح ہی مفید ہوتا ہے، تحقیق کے مطابق پاپ کارن میں بھی پھلوں میں پائے جانے والی صحت کے لیے مطلوب غذائیت موجود ہوتی ہے لہٰذا وہ افراد جو پھل اور سبزیاں کھانا پسند نہیں کرتے وہ پاپ کارن کھا سکتے ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔مکئ کے4 منفرد صحت کے فوائد جو آپ کو متعدد بیماریوں سے دور رکھتے مکئ ، جسے میز کے نام سے بھی جانا جاتا ہےاس کے پودے کا پتوں والا ڈنڈا جرگ کے پھول اور الگ الگ بیضوی پھول پیدا کرتا ہے جسے کارن یا مکئ کہتے ہیں جن سے گٹھلی یا بیج نکلتے ہیں، جو کہ اناج ہیں

مکئ ایک سبزی ہےیہ اصل میں ایک سبزی، ایک مکمل اناج، اور ایک پھل ہے. لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کس شکل میں آتا ہے یا یہ کس زمرے میں آتا ہے، مکئی آپ کے لیے اچھی ہے اور صحت مند غذا کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ سادہ پاپ کارن بھی صحت مند ہوسکتا ہے جب تیل، مکھن یا نمک کے بغیر تیار کیا جائےمیٹھی مکئ-میٹھی کارن- پیلے، سفید یا دو رنگوں کے امتزاج میں آتی ہے اور اس کا ذائقہ ہلکا سا میٹھا ہوتا ہے۔پاپ کارن، تیار کرنے سے پہلے، اس کا ایک نرم، نشاستہ دار مرکز ہوتا ہے جس کے چاروں طرف سنہرے رنگ کے سخت خول ہوتے ہیں۔ اندر پانی کا ایک چھوٹا سا قطرہ ہے۔ جب آپ پاپ کارن کو پین میں یا مائکروویو میں گرم کرتے ہیں، تو اندر کی نمی بھاپ چھوڑ دیتی ہے۔ بھاپ سے دباؤ اس مقام تک بنتا ہے جہاں دانا پھٹ جاتا ہے، اور مرکز ایک سفید سفید ڈلی میں کھل جاتا ہے۔ ڈائٹنگ کرنے والے افراد کے لیے بھی پاپ کارن ایک بہترین آپشن ہے کیونکہ یہ فائبر اور منرلز سے بھرپور بہترین غذا ہے جس کے استعمال سے تادیر بھوک محسوس نہیں ہوتی۔ڈینٹ کارن-ڈینٹ کارن، جو سفید اور پیلے رنگ میں آتا ہے، ہر دانے کے اوپر ایک ڈینٹ ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی استعمال جانوروں کی خوراک ۔

مکئی میں یہ خاصیت موجود ہے کہ اگر آپ دن میں ایک بھٹہ یا پھر ایک کپ مکئی کا استعمال کریں تو اس سے 18.4فائبر حاصل کر سکتے ہیں جس سے بلڈ شوگر کو مستحکم کرنے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔ مکئی کے بھٹے کے مترادف اور کوئی سبزی نہیں ہے جو اس موسم کے مطابق لذت اور غذائیت سے فیض یاب کرتی ہو مکئی کا ایک سٹہ بھی وہ کمال دکھاتا ہے جو شائد ہی کوئی اور دکھاتا ہو -اطباء کے نزدیک بادی اور قابض ہے بھوک بڑھاتی اور بدن کو فربہ کرتی ہے ۔بلغم صفر اور باد کے فساد کو دور کرتی ہے ۔زیادہ استعمال کرنے سے درد شکم قولنج اور بواسیر کی شکایت ہوجاتی ہے ۔کھانے کے بعد ہونے والی قے کو روکتی ہے ۔سل کے مریضوں میں اس کی روٹی اچھی ہے ۔آنکھوں کی بصارت بڑھاتی ہے ۔کمزور لاغر بدن کو قوت دیتی ہے ۔مکئی کا تیل بدن کو فربہ کرتا ہے لیکن جس کو موافق نہ آئے اس کو لگاتار کھانے سے دست آنے لگتے ہیں۔اس کے پومل یا کھیلیں مریض کو ہرگز نہ کھلائے جائیں اس کی گلی کا کوئلہ کرکے اور پیس کر پھانکنا حیض اور بواسیر کے خون کو بند کرتا ہے ۔مکئی کی گُلی چھ ماشہ ہیضہ کے مریض کو پیس کردیں تو فوراً فائد ہ ہوتا ہے ۔اس کی گُلی کی راکھ میں نمک ملا کر پھنکی لگانے سے کالی کھانسی اور زکام کی کھانسی کو بہت فائدہ وہتا ہے ۔اس کی داڑھی کا جوشاندہ یا خیساندہ پلانے سے مثانہ کے امراض اور پیشاب کی جلن دور ہوتی ہے ار پیشاب خوب آتا ہے ۔یونانی اطباء کے مطابق مکا بلغم اور خوبستہ کو تحلیل کرتی ہے ۔تیار شدہ کھانے ہیں، جیسے ٹارٹیلا چپس اور گرٹس۔تکنیکی طور پر یہ پورے اناج کے خاندان کا رکن ہے۔ یہ آپ کے لیے بہت اچھا ہو سکتا ہے۔ مکئی بھی قدرتی طور پر گلوٹین سے پاک ہے، جو اسے ان لوگوں کے لیے گندم کا ایک اچھا متبادل بناتی ہے جنہیں گلوٹین سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس ورسٹائل اناج کے صحت سے متعلق فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں مکئی کے چار اور منفرد صحت کے فوائد ہیں۔مکئ ایک مکمل اناج- مکئ کی روٹی - مکئ کا ساگ --بہترین صحت بخش کھانا

مکمل اناج کے طور پر، یہ صحت کے لیے حفاظتی خوراک  ہے۔ غذائی ماہرین کے مطابق جو لوگ اس  کا استعمال کرتے ہیں ان میں بلڈ شوگر، انسولین کی مقدار مناسب حد تک کنٹرول میں رہتی ہے۔اہم غذائی اجزاء سے بھرپورمکئی میں متعدد بی وٹامنز کے ساتھ ساتھ پوٹاشیم بھی ہوتا ہے۔ معدنیات صحت مند بلڈ پریشر، دل کے کام، پٹھوں کے درد کو روکتا ہے، اور پٹھوں کی طاقت کے بڑے پیمانے کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔یہ دیگر اناج کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ وٹامن اے فراہم کرتی ہے۔ یہ وٹامن اے مدافعتی نظام کی حمایت کرتا ہے، اور آپ کی سانس کی نالی میں چپچپی جھلیوں کو بنانے میں مدد کرتا ہے۔ مضبوط جھلی جراثیم کو آپ کے خون سے دور رکھنے کے لیے بہتر حفاظتی رکاوٹیں بناتی ہے۔مکئ حفاظتی اینٹی آکسیڈنٹس فراہم کرتی ہےاینٹی آکسیڈینٹ کیروٹینائڈز کے ایک اچھے ذریعہ کے طور پر، جیسے لوٹین اور زیزنتھین، پیلی مکئی آنکھوں کی صحت کو فروغ دے سکتی ہے۔ یہ بہت سے وٹامنز اور معدنیات کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے، پورے اناج والی مکئی کا اعتدال پسند استعمال، جیسے پاپ کارن یا سویٹ کارن، صحت مند غذا میں ایک بہترین اضافہ ہو سکتا ہے۔سوزش کو روکنے میں مددگار-ینلے اور جامنی مکئ میں دیگر اینٹی آکسیڈینٹ سوزش کو روکنے میں خاص طور پر اچھے ثابت ہوئے ہیں۔ 

بدھ، 24 مئی، 2023

بڑا اما م باڑہ لکھنو'یادگارآصف الدّولہ

 


نواب آصف الدولہ (پیدائش: 1748ء، وفات: 1797) اردو شاعر اور والی اودھ، نواب شجاع الدولہ کے بیٹے تھے۔ باپ کی وفات کے پر 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے۔ بعد ازاں لکھنؤ کو دار الحکومت بنایا۔ تعمیرات کا بہت شوق تھا ان کا تعمیر کردہ لکھنؤ کا شاہی محل اور امام باڑہ مشہور عمارتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شعر و شاعری اور دیگر علوم و فنون کے قدر دان تھے۔ دہلی کے مشہور شعرا مرزا رفیع سودا میر تقی میر اور سید محمد میر سوز انہی کے عہد حکومت میں لکھنؤ آئے اور دربار سے وابستہ ہوئے۔ اردو، فارسی، دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور میر سوز سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ لکھنؤ میں انتقال کیا ہوا اور اپنے بنائے ہوئے امام باڑے میں دفن ہوئے۔ ایک دیوان ان سے یادگار ہے۔ جن میں غزلیں، رباعیاں، مخمس اور ایک مثنوی ہے۔ 

آصف الدولہ نے فیض آباد کو اودھ کی راجدھانی ترک کرکے لکھنؤ کو اپنا دار الحکومت بنا لیا تھا۔ انہوں نے خوبصورت عمارتوں کی تعمیر کرائی،جن کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔آصف الدولہ کے اس امام باڑے،مسجد،اور بھول بھلیاں وغیرہ کی بنیاد1784 میں رکھی گئی۔کئی سال تک عمارت کی تعمیر جاری رہی اورجب مکمل ہوئی تو پوری دنیا نے واہ واہ کی صدا بلند کی۔بہرحال فراخ دل نواب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا کہ جس کو نہ دیں مولا۔اس کو دیں آصف الدولہ یعنی فراخدلی اور ترس خدائی کی وجہ سے نواب کی یہ شبیہ ابھری۔

امام باڑے کے وسیع دالان میں نواب آصف الدولہ کی قبر ہے، امام باڑے میں جھاڑ ،فانوس کی بڑی تعداد ٹوٹی اور پھوٹی حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاہ نشین پر علم و تعزیے ہیں،شیشہ آلات کافی ہیں مگر ان کی قلعی اتر چکی ہے، فرش جا بجا اکھڑا ہوا ہے ۔محرم میں یہاں برقی قمقموں سے عمارت کو سجایا جاتا ہے اور نواب کے دور کے محرم کی سجاوٹ کو دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مگر سب سے زیادہ افسوسناک پہلو امام باڑے کی آمدنی کا صحیح استعمال اور اس کے رکھ رکھاؤ کا فقدان ہے۔امام باڑے کی زمینون کو یو پی سرکار نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں۔ مجموعی طور سے آصف الدولہ کا امامباڑہ اور مسجد بہت اچھی حالت میں نہیں ہے۔مسجد کے گنبدوں،میناروں کا بھی جا بجا پلاسٹر ٹوٹا ہوا ہے اور کسی بھی ناگہانی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ہوبیگم کی ساس یعنی ابوالمنصور صفدر جنگ کی زوجہ نواب بیگم، جنہیں صفدر جہاں بیگم کا خطاب ملاتھا، محل میں انہیں نواب بیگم ہی کہاجاتا تھا، بہت ہوشیار اور اعلیٰ مرتبت خاتون تھیں، آصف الدولہ ان کے بیٹے تھے، ان کی شادی دیوان دلی کے امتیاز الدولہ کی دختر شمس النساء بیگم سے ہوئی تھی، جس میں 1749ء ؁ میں شاہ عالم باد شاہ خود نفس بہ نفیس شریک ہوئے تھے، بیگمات اودھ میں آخری تاجدار اودھ بیگم حضرت محل کا نام بھی درخشاں ہے جو اپنے بیٹے برجیس قدر کی ایک سال تک عہدۂ بادشاہت کی سرپرستی کرتی رہیں، اور جب انگریزوں کی شور ش حد سے بڑھ گئی تو کبھی ہاتھی، اور کبھی گھوڑے پر برجیس قدرکوساتھ لئے ہوئے مورچہ جماتی تھیں، جب ایک شہر ہاتھ سےنکل جاتاتھا تودوسرے شہر کی جانب رخ کرتی تھیں، انھوں نے جنگ ضرور ہاری ،مگرہمت نہیں ہاری تھی۔ 

لکھنو بڑے امام باڑے کی عمارت کی تعمیر پہلے کسی اور مقصد کے لئے کی گئ تھی جسے بعد میں امام بار گاہ کے لئے مختص کر دیا گیا-نواب آصف الدولہ کا تعمیر کردہ (بڑا امام باڑہ | امام بارگاہ) ابھی بھی لکھنؤ کی شان ہے۔یہ شہرہ آفاق امام بارگاہ ١٧٩٠ء میں ایک کروڑ کی لاگت سے تیار ہوا۔اس کا نقشہ حافظ کفایت اللہ مہندس نے تیار کیا ۔جنہیں کچھ لوگوں نے دہلوی اور بعض دیگر نے شاہ جہاں پوری لکھا ہے)اس کا وسطی ہال 303فٹ لمبا،53فٹ چوڑا اور 63فٹ اونچا ہے۔اس کی چھت دنیا کی اعلیٰ ترین چھتوں میں سے ہے جس میں لوہے لکڑی کے بغیر اتنی بڑی چھت کی ڈاٹ جوڑی گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ اس امام بارگاہ کے حدود میں ایک ضعیفہ کا مکان بھی آگیا تھا ۔(جس کا نام لاڈو شاخن بیان ہوا ہے۔)لیکن وہ مکان دینے پر راضی نہ تھی ۔چونکہ نوابین اودھ رعایا پرور تھے لہٰذا اس پر کسی طرح کی زور زبردستی نہیں کی گئی ۔خود نواب آصف الدولہ اس کے پاس جاتے ہیں اور وہ چند شرائط کے ساتھ اپنا مکان دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی پہلی شرط تھی کہ اسے کسی اور جگہ دوسرا مکان دیا جائے اور دوسری اہم شرط یہ تھی کہ امام باڑے میں اس کے نام کا تعزیہ رکھا جائے۔نواب نے یہ شرائط منظور کئے ۔اُس کا تعزیہ داہنی طرف کی صحنچی میں خود رکھوایا جو آج بھی اسی مقام پر رکھا جاتا ہے -

بہو بیگم کے اس فراخدل بیٹے آصف الدولہ کی اس عمارت میں کبھی کبھار کچھ مرمت کاری ہوجاتی ہے لیکن اوپری حصوں سے ان میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر داخلی حصے، شاہ نشین اور چھتوں کی حالت بد تر ہے۔ کہا جا تا ہے کہ دنیا کی یہ واحد عمارت ہے جس میں لکڑی یا لوہے کا کہیں استعمال نہیں ہواہے۔ روشن اور ہوادار امامباڑے کو دیکھنے روزانہ ہزاروں سیاح دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔امام باڑے کے پہلو میں شاندار وسیع آصفی مسجد ہے جہاں شیعہ حضرات عید ین کے علاوہ جمعہ اور پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں۔

جمعہ، 19 مئی، 2023

اردو زبان کی ضرورت اور اہمیت

head>

 دنیا آج کے دور میں ترقّی کی معراج پر پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف ہے-اس لئے آج کے دور کا تقاضہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھی جائیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی قومی زبان پر بھی پوری گرفت رکھّی جائے ، متعدد زبانوں میں بات چیت کرنے کے قابل ہونا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔  درحقیقت، بہت سی اچھی وجوہات ہیں کہ اپنی مادری زبان کو اچھی طرح جاننا کیوں ضروری ہے۔ کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی غیرملکی زبان سیکھی جائے۔ کیا اردو کا انتخاب کرنا بہتر نہیں ہوگا؟ (واضح رہے کہ اردو ہندوستان کے لیے بدیسی زبان نہیں ہے۔ شاہ زماں حق نے فرانسیسی عوام کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات لکھی ہےایک ۔۔ اس کلاسیکی زبان کی مدد سے، جس نے بارھویں صدی کے آس پاس ترقی کرنا شروع کی، آپ چودھویں صدی اور اس کے بعد کے شاندار ادبی ذخیرے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے اپنی مادری زبان میں مہارت رکھتے ہیں وہ ان بچوں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر تعلیمی کارکردگی دکھاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی مادری زبان میں پڑھنے اور لکھنے کی مضبوط بنیاد ہے، جو دوسرے مضامین میں بھی منتقل ہوتی ہے۔ آخر میں، اپنی مادری زبان جاننے سے ثقافتی فخر اور سمجھ کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔نیا کے مختلف میں کئی محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ بچہ جس کی بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہو دوسری زبانوں کو بھی آسانی سے سیکھ لیتا ہے۔ بچے میں کئی زبانیں سیکھنے کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے لیکن زبانوں پر اس کی گرفت تب مضبوط ہوتی ہے اگر اس کی بنیادی تعلیم کا ذریعہ مادری زبان ہو۔ اس لئے اگر پاکستان کے ہر علاقے میں بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تو اس سے نہ تو رابطے کی زبان اردو سیکھنے میں کوئی خلل پڑے گا اور نہ ہی قومی وحدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ہندوستان کی جنوبی ریاستوں نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ وہی ریاستیں ہی جہاں مادری زبانوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان ملکوں نے تیزی سے معاشی ترقی کی ہے جن میں مادری زبانوں کی ترویج کی گئی اور ان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ جاپان، چین، جنوبی کوریا اور صنعتی لحاظ سے ترقی کرنے والے کئی دوسرے ممالک میں مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اس کے الٹ پاکستان جیسے کچھ ملکوں میں مادری زبانوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ ملک ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر چہ زبان ہی اس کی واحد وجہ نہیں ہے لیکن زبان کے بارے میں پائے جانے والے مغالطے بھی اس کا ایک سبب ہیں۔

اردو دنیا کی بیس سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے۔ 160 ملین لوگ اس زبان کو دنیا کے 26 ممالک افغانستان، بحرین، بنگلہ دیش، بوٹسوانا، کینڈا، فیجی، فنلینڈ، جرمنی، گیانا، ہندوستان، ملاوی، موریشس، نیپال، ناروے، اومان، پاکستان، قطر، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، سویڈن، تھائی لینڈ، نیدرلینڈ، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور زمبیا میں بولتے ہیں۔ اگر آپ اردو سیکھتے ہیں تو اس میں شائع ہونے والے تقریبا چار ہزار اخبارات و رسائل، 70 ریڈیو اسٹیشن اور 74 ٹی وی چینل تک آپ کی رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ اردو دوسری زبانوں کے زیر اثر وجود میں آئی۔ اس نے عربی، ہندی، فارسی، پنجابی، ترکی اور سنسکرت سے بہت سارے الفاظ لیکر اپنے دامن کو وسیع کیا۔ اردو زبان سیکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ آپ مذکورہ بالا زبانوں سے بھی کچھ حد تک واقفیت بہم پہنچا سکتے ہیں۔ اردو اور ہندی کے بہت سے بنیادی محاورے ایک ہی ہیں۔ اردو نے تقریبا چالس فیصد الفاظ فارسی اور عربی سے ماخوذ کیے ہیں۔ سنسکرت سے 43 الفاظ لیے گئے ہیں جو روز مرہ کی اردو میں بولے جاتے ہیں۔

 اردو فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اگر آپ یہ زبان پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں تو آپ چھ دوسری زبانیں یعنی عربی، بلوچی، کشمیری، پشتو، فارسی اور پنجابی بھی لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ان زبانوں کے بہت سے الفاظ کے معنی و مفاہیم بھی سمجھ سکتے ہیں۔اردو ہندوستانی برصغیر کی سب سے کم اہمیت دی جانے والی عوامی رابطے کی زبان ہے۔ اردو پاکستان میں مقیم 45 فیصد سے زیادہ پنجابی بولنے والے، لسانی اور دیگر گروہی طبقات کی واحد رابطے کی زبان ہے۔ شمالی ہندوستان کے پولس تھانہ میں شکایت دہندگان اردو کا استعمال ایک دفتری زبان کی حیثیت سے کثرت سے کرتے ہیں۔

اردو زبان کا علم آپ کے کیرئیر میں چار چاند لگا سکتا ہے اگر آپ شمالی ہند، پاکستان، برطانیہ، عرب متحدہ امارات، اومان، قطر سعودی عرب، جنوبی افریقہ اور ان جیسی دوسری جگہوں پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ اردو کا علم روزگار تلاش کرنے اور آپ کے سماجی رابطہ کو وسیع کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔-اردو زبان کی اہمیت-اردو زبان اَدب ، دفتر،عدالت ،اور دینی اِداروں میں بولی جاتی ہے۔ اور یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ بھی لیے ہوئے ہے پوری دنیا میں اردو بولنے والے پائے جاتے ہیں ۔ عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ،امریکہ ،کینیڈا جرمنی اور آسٹریلیا میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔۔

ڈپلومیسی میں اردو زبان کی ضرورت-اردو برصغیر پاک و ہند میں سفارت کاری میں بھی ایک اہم زبان ہے۔ خطے کے بہت سے ممالک کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور اردو اکثر حکام کے درمیان رابطے کے ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اردو بین الاقوامی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم میں بھی استعمال ہوتی ہے۔سفارت کاری میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ سفارت کاری کے لیے موثر رابطے کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ اہلکار جو اردو میں مؤثر طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں، انہیں مذاکرات میں فائدہ ہوتا ہے۔ اردو بولنے والے سفارت کار خطے کی ثقافتی اور سیاسی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بھی بہتر طریقے سے لیس اردو برصغیر پاک و ہند میں میڈیا کی ایک اہم زبان ہے۔ اردو اخبارات، رسائل اور ٹیلی ویژن چینل پاکستان اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر پڑھے اور دیکھے جاتے ہیں۔ اردو نیوز چینلز خطے میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور ان کے ناظرین کی تعداد وسیع ہے۔میڈیا میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی اہمیت سے بھی آگے بڑھی ہوئی ہے۔ میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور اردو میڈیا کا استعمال برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کے لیے اہم مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اردو برصغیر پاک و ہند میں سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں ایک اہم زبان ہے۔ یہ خطہ متنوع ہے، بہت سی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے ساتھ، اور اردو ایک زبان کے طور پر کام کرتی ہے جو ان اختلافات کو ختم کر سکتی ہے۔ اردو بھی ایک ایسی زبان ہے جو مختلف پس منظر کے لوگوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔سماجی ہم آہنگی میں اردو کی اہمیت اس کی لسانی قدر سے باہر ہے۔ اردو کا استعمال بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے، مختلف برادریوں کے درمیان پل بنانے اور قومی شناخت کے احساس کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ اردو بولنے والی کمیونٹیز بھی بڑے معاشرے میں حصہ لیتے ہوئے اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں

منگل، 16 مئی، 2023

القادر یونیورسٹی-سوہاوہ

 

یہ پاکستانی عوام کی خوش نصیبی ہے کہ ان کو پہلا ایسا وزیراعظم ملا ہے جو علم دوست ہے۔ عمران خان پاکستان کے تدریسی نظام اور اس سے جنم لینے والے مسائل کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں اور اس کا تدارک ایک ایسے تعلیمی نظام کو قرار دیتے ہیں جہاں دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جائے۔اپنے اسی خیال کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، جہاں دنیاوی تعلیمات کو صوفی ازم اور سیرت النبی کے ساتھ نہ صرف ملا کر پڑھا جائے گا بلکہ اس پر ریسرچ بھی کی جائے گی۔اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جائے گی بلکہ آکسفورڈ ریذیڈینشل کالج کی طرز پر طلبہ کو مینٹورز بھی اسائن کیے جائیں گے جو نہ صرف کلاس ختم ہونے کے بعد بھی طلبہ کے ساتھ ہوں گے بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کریں گے۔ اس جامعہ میں ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا گیا ہے جس میں طلبہ و طالبات کو جدید علوم قرآن و سنت کی روشنی میں نہ صرف سکھائے جائیں گے بلکہ اصل روح کے مطابق ان تعلیمات پر عمل کرنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔بطور وزیراعظم عمران خان کا یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو ان کے ریاست مدینہ کے تصور کی تکمیل کے لیے ایک عملی قدم ہے۔ گلوبل سکوپ رکھنے والی یہ ٹرسٹ بیسڈ یونیورسٹی اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں کی فیکلٹی کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہے۔

القادر یونیورسٹی کی ایڈوائزری کمیٹی میں شیخ حمزہ یوسف، شیخ عبدالحکیم مراد، شیخ امین کھولوادیا اور ڈاکٹر رجب سینٹرک جیسے عالمی سطح پر مشہور نام شامل ہیں۔اس ٹرسٹ بیسڈ جامعہ کی فیکلٹی میں لمز، آئی بی اے اور کے ایس بی ایل جیسی پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ڈاکٹر ذیشان احمد، ڈاکٹر جمشید حسن خان، ڈاکٹر عارف زمان، ڈاکٹر انور خورشید اور ڈاکٹر عارف اقبال رانا شامل ہیں۔یہ ایک پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹی ہے اور اس کے انتظامات ایک ٹرسٹ کے تحت کیے گئے ہیں تاکہ حکومتوں کی تبدیلی کا اس پر کوئی اثر نہ پڑے۔ اس پراجیکٹ کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ خاتون اول بشریٰ بی بی اس پراجیکٹ کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کے ڈین ڈاکٹر ذیشان احمد کا کہنا تھا: ’یہ پراجیکٹ خان صاحب کا ایک بہت پرانا خواب تھا کہ وہ ایک ایسی یونیورسٹی بنائیں جہاں سیرت اور صوفی تعلیم کو سائنسی علوم کے ساتھ ملا کر پڑھایا جائے۔ یہ پراجیکٹ نہ صرف وزیراعظم کا خواب ہے بلکہ خاتون اول کے دل کے بھی بہت قریب ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اسلام کے نام پر بنا مگر عملی طور پر قردادِ مقاصد اور چند آئینی ترامیم کے علاوہ ایسے اقدامات نہیں کیے گئے، خاص طور پر جو چیز قوم میں داخل ہوتی ہے وہ ان کے نظام تعلیم اور میڈیا سے داخل ہوتی ہے مگر دونوں طرف دیکھیں تو واضح طور پر ایک دنیاوی اور سیکولر سوچ ہے جس میں اکثر اسلام کے آئیڈیاز شامل نہیں ہوتے۔ کم از کم مرکزی دھارے میں نہیں ہوتے تو ایک ایسی یونیورسٹی کی ضرورت محسوس کی گئی جہاں ہم قرآن، سنت، سیرت، علما و مشائخ کے اقوال اور تصوف پر تحقیق کریں اور اس کو ماڈرن سائنس اور ریسرچ کے ساتھ ملائیں۔‘ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  

اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ڈاکٹر ذیشان احمد نے یونیورسٹی کی فیکلٹی کے بارے میں بتایا: ’یہاں کی فیکلٹی کو منتخب کرنے میں ہماری پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ ان کا رجحان اسلامی ہو اور وہ اپنے مضمون کے بھی ماہر ہوں لیکن ان کی بنیاد اسلام میں ہو۔ اس ادارے کا سکوپ گلوبل ہے۔ ہم نے کچھ معاہدے ترکی اور ملیشیا کے ساتھ بھی کیے ہیں تاکہ طلبہ اور فیکلٹی ایکسچینج پروگرام ہو سکیں اور طلبہ اور اساتذہ اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔‘

’آہستہ آہستہ یہاں بیرون ممالک سے طلبہ اور اساتذہ آئیں گے۔ ابھی بھی کچھ بیرون ممالک کے اساتذہ کو آن بورڈ لیا گیا ہے جو آن لائن کلاسز بھی دیں گے اور کچھ یہاں آ کر بھی پڑھائیں گے۔‘مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ایک اور پلان ہے کہ مدرسے کے طلبہ کے لیے ماسٹرز کے کورس ڈیزائن کیے جائیں، جہاں پر سائنس اور انگریزی کے ساتھ ساتھ ریسرچ کے طریقے سکھائے جائیں تاکہ وہ موثر انداز میں اپنی دعوت دنیا تک پہنچا سکیں۔‘  اس سوال پر کہ کیا یہ یونیورسٹی صرف مسلمان طلبہ اور اساتذہ کے لیے ہی بنائی گئی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ یہ یونیورسٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہاں پر کئی پروفیسر بھی ہوں گے، جو کوئی مضمون پڑھا رہے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں۔ کئی طلبہ بھی ایسے ہوسکتے ہیں۔‘انہوں نے امید بھی ظاہر کی کہ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے تاثر کو زائل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔اکٹر ذیشان نے بتایا کہ ’کچھ اس طرح کے لوگ ہیں جو مجھے کہتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی چاہتے ہیں تو ہم انہیں کہاں بھیجیں۔ ابھی تک میرے پاس انہیں دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا، مگر اب میں انہیں کہوں گا کہ اپنے بچوں کو القادر یونیورسٹی بھیجیں۔‘

لمز یونیورسٹی چھوڑ کر القادر یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طالب علم عمار بشارت

 نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمرہ کرنے کے بعد میرا رجحان 

مذہب کی جانب زیادہ ہوگیا۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں نہ صرف دنیاوی

 بلکہ دینی تعلیم کی طرف بھی جاؤں۔ میں چاہتا تھا کہ ایسی صحبت والی جگہ ہو

 جہاں تربیت بھی دی جائے۔ آپ کے ساتھ اساتذہ ہوں جو آپ کو سب 

کچھ بتائیں اور بتانے کےساتھ کرکے بھی دکھائیں اور القادر یونیورسٹی ایک ایسا

 ہی ادارہ ہے۔‘ڈسٹرکٹ نارووال شکر گڑھ سے تعلق رکھنے والی القادر یونیورسٹی

 سکی طالبہ اقصیٰ نصرت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ایف ایس

سی میڈیکل کیا ہے اور یہاں اپنے شوق کی وجہ سے آئی ہیں۔ بقول اقصیٰ:

 ’میں پنے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں

کہ اپنے کیریئر کا راستہ میں خود بناؤں۔ جب میں نے القادر کا ویژن دیکھا تو اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔‘

القادر یونیورسٹی کے پہلے بیچ کے لیے تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔

 ابتدائی طور پر یونیورسٹی بی ایس آنرز (مینجمنٹ) کی ڈگری آفر کر رہی ہے اور

 پہلے بیج میں 16 طلبہ اور 21 طالبات یہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

پیر، 15 مئی، 2023

بدھ مت تہذیب کے انمول شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

 

 

بدھ مت تہذیب کے انمول  شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

بُدھ مت کا بانی سدھارتھا گوتم قریباً 600 سال قبل از مسیح میں نیپال کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ جیسا کہ اُسکی کہانی بیان کرتی ہے وہ کسی حد تک بیرونی دُنیا سے انجان عیش و عشرت بھری زندگی بسر کررہا تھا ۔ اُس کے والدین کا مقصد اُسے مذہب کے اثر سے بچانا اور اُسے دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاہم زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اُس کی آرام گاہ میں چھید ہو گیا اور اُس نے ایک عمر رسیدہ شخص، ایک بیمار شخص اور ایک لاش کے مناظر دیکھے ۔ چوتھے منظر میں اُس نے ایک پُرامن صوفی درویش(جو عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کو چھوڑ دیتا ہے) کو دیکھا ۔ درویش کی پُر امن حالت کو دیکھا کر اُس نے بھی درویش بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے خودضبطی/ نفس کشی کے عمل کے وسیلے سے روشن خیالی کی تلاش کے لئےمال ودولت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ خودضبطی/ نفس کشی اور گیان دھیان کرنے کی مشق میں ترقی کرتا گیا ۔ وہ اپنے ساتھیوں کا رہنما تھا۔ آخر کار اُس کی تلاش ایک خاص نکتے پر جا کر اختتام پذیر ہوگئی۔ ایک دن اُس نے ایک پیالہ چاول کھائے اور اس ارادے سے گیان دھیان کرنے کےلیے انجیر کے درخت(جسے بودھی درخت /مقدس درخت بھی کہا جاتا ہے)کے نیچے بیٹھ گیا کہ یا تو وہ اِس دھیان و گیان کی مشق کی بدولت" روشن خیالی " پا لے گا یا گیان دھیان کرتے کرتے مر جائے گا۔ اپنی تکلیفوں اور کئی ایک آزمائشوں کے باوجود اگلی صبح تک اس نے روشن خیالی حاصل کرلی ۔ اور اجنٹا کے غاروں میں بدھ مت کی پیدائش لے کر ان کے نروان تک کی تہذیب کو سمویا گیا ہے-اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا بے پناہ خوبصورت نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

 

جمعہ، 12 مئی، 2023

شاھ عبد اللطیف بھٹائی

 سندھ میں اولیائے کرام کی آمد جاری تھی انہی دنوں ایک عالی نسب سیّد زادے حبیب شاہ نے بھی سندھی کی پاکیزہ دھرتی پر قدم رکھے اور ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں اقامت گزیں ہوگئےشاھ عبد اللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء، 1101ھ میں ہوئ۔۔ اور موصوف کا شمار اس علاقے کی برگزیدہ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔

سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبد اللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبد اللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشین گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔شاہ عبد اللطیف بھٹائی کےآباؤ اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب علی المرتضی اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔امیر تیمور کے زمانے میں ہرات کے ایک بزرگ سید میر علی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1398، -801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔

تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے دو بیٹوں میر ابوبکر اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے ہندوستان لے آیا۔ یہاں آنے کےبعد میر ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیہون کا حاکم مقرر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعد کو سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاہ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے۔شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کردی۔چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا، اس لیے شادی کےبعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔ سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انہوں نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھاگیا۔ میر علی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئے، ان بزرگوں میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے علاوہ، شاہ عبد الکریم بلڑی وارو، سیدہاشم اور سید جلال خاص طور پر قابل ذکر ہیں

شاہ عبد الطیف بھٹائی کو "ست سورمیون کا شاعر" بھی کہا جاتا ہے۔وہ یورپی زبانوں کے ساتھ ساتھ سندھی ،پنجابی،بروہی اور پشتو زبانوںپر بھی عبور رکھتا تھا۔ جوگیوںاور گائیکوں کی آواز میں گایا جانے والا شاہ لطیف کا کلام اس پر سحر طاری کردیتا تھا۔ حیدر آباد میںقیام کے دوران اس نے گنج شاہ لطیف کی نقل تیار کی اورریٹائرمنٹکے بعد جرمنی لے جا کر لیپزگ Leipzig سے شائع کرواکےاسے ’’شاہ کے پیغام‘‘ کانام دیا ۔بعض بنیادی نقائص کے باوجود یہ نسخہ سندھی دانشوروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔اس کی اشاعت کے فوری بعدعلامہ آئی آئی قاضی کی جرمن اہلیہ، ایلسا قاضی نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کرایا۔شاہ لطیف کے مجموعہ کلام کی جرمنی میں اشاعت کے بعد ہی پوری دنیا پر یہ آشکار ہوا کہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ وہ عظیم ادبی شاہ کار ہے جسے دنیائے ادب میں بجاطور پر پیش کیا

 جا سکتا ہے۔ اس کا ایک قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں بھی محفوظ ہے۔شاہ جو رسالو کا سندھی سےاردو ترجمہ ،معروف شاعر شیخ ایاز نے کیا، اور اس کام میں ان کی معاونت پروفیسر آفاق صدیقی نے کی۔اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور تصوف کے حوالے سے لکھی جانے والی بہترین کتابوں پرشاہ عبداللطیف بھٹائی تصوف ایوارڈکا اجراء کیا گیا ۔شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سماع‘‘ کے بے حد شوقین تھے۔ برصغیر کی کی گائیکی کے انداز سے پوری طرح آشناتھے۔ گائیکی کے سروں کے آپ نے مختلف نام رکھے تھے، یہ سُر (آواز) داستانوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور ہر داستان کے پیچھے ’’وائی‘‘ ہے جوکہ عبداللطیف کی اپنی ایجاد ہے، اس کی ہیئت غزل سے ملتی جلتی ہے۔ ’’سُر حسینی‘‘ میں سسّی کی دردناک صدائیں سنائی دیتی ہیں، اسی طرح شاہ صاحب نے ماروی کو دیس کی محبت کی علامت کے طور پر نمایاں کیا ہے

شاہ بھٹائی جس ٹیلے پربیٹھ کریاد الٰہی میں مشغول رہتے اور اپنا صوفیانہ کلام مرتب کرتے تھے اس کے نزدیک ایک نہر بھی بہتی تھی،کمالِ فن دیکھئے کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اُس کے پانی کا شور یا آوازیں سُن کر موسیقی کے سُر دریافت کیے اور ایک آلہ موسیقی ایجاد کیا جسے ’’ طنبور‘‘ کہا جاتا ہے۔ان کا کلام گائیک یا جوگی صرف طنبورے پر ہی گاتے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا موسیقی کا آلہ استعمال نہیں کیا جاتا۔شاہ صاحب کا کلام سلیس و بلیغ انداز میں بیان کیا ہوا ہے۔ سندھ کے ہزاروں لوگ شہر، گاؤں اور پہاڑوں میں بسنے والے شاہ جو رسالو کے حافظ ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی شاعری اور موسیقی کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنے کلام سے کئی سر ایجاد کیے اور خود ایک ساز طنبورو بھی ایجاد کیا۔ عام طور پہ طنبورہ چار تاروں کا ہوتا ہے مگر شاہ صاحب نے ایک اضافی تار لگا کر پانچ تاروں والا طنبورہ بنایا، جس کو خود استعمال کرتے تھے اور اپنے فقیروں کو بھی اس کی تربیت دیتے تھے۔ ان کے پاس گوالیار سے کلاسیکل فنکار اٹل اور چنچل بھی لمبا سفر طے کر کے راگ سمجھنے آئے تھے۔ اکثر رات کے اوقات میں محفل سماع کرواتے تھے۔

شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ کے حکمران خود پیر و مرشد کی گدی والے، عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جن کے ہزاروں مرید شاہ لطیف کے عقیدت مند بن گئے۔ یہ بات ان کو بہت بری لگی اور شاہ لطیف سے عداوت کرنے لگ گئے۔ اس حوالے سے والیٔ سندھ میاں نور محمد کلہوڑو نے شاہ لطیف کو بار بار مارنے کی سازشیں بھی کیں۔ شاہ صاحب سیاست نہیں کرتے تھے البتہ اپنے کلام کے ذریعے انہوں نے حاکموں، ظالموں اور حملہ آوروں کے خلاف مزاحمتی انداز میں آواز بلند کی ہے۔ سر مارئی میں ان کا یہ انداز واضح نظر آتا ہے، وہ فرماتے ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا پیغام فقط ایک خطے کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ ان کی دعا سندھ کو سرسبز و شاداب کرنے کے ساتھ پورے عالم کو آباد کرنے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :”اے میرے مولا، میرے وطن سندھ، کو ہمیشہ خوشحال رکھ،اور سندھ کے ساتھ پوری دنیا کو بھی آباد رکھ۔ ”

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ شاہ میں ہی تدفین کی گئ

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر