بدھ، 19 نومبر، 2025

شہرت کی بلندیوں پر مسند نشین ''عابدہ پروین''

 

عابدہ پروین (ولادت: 20 فروری 1954ء)  پاکستانی صوفی مسلم گلوکارہ، کمپوزر اور موسیقار ہیں۔گائیکی کے ذریعے صوفیانہ کلام کوپھیلانے کی بات کی جائے تو شاید اس وقت پورے برصغیر میں عابدہ پروین سے بڑا کوئی نام نہیں۔ انھوں نے صرف پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں صوفی شعراکے پیغام کو پھیلایا۔ عابدہ پروین کاایک موسیقار گھرانے سے ہے۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔2012ء میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا، اسی برس انھیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔2015ءمیں بھی پاکستان اور بیرونِ ممالک میں عابدہ پروین نے کئی شوز کیے اور موسیقی کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل رہیں۔

 عابدہ پروین کو پاکستان اور بھارت کے مقابلہ موسیقی پروگرامسر چھترا میں بطور جج بھی رکھا گیا تھا   استاد غلام حیدر کا اپنا میوزیکل اسکول تھا،  ۔جہاں سے عابدہ پروین نے موسیقی کی تربیت حاصل کی-عابدہ پروین کو آرٹس میں بھی دلچسپی ہے۔عابدہ پروین کی گائیکی اور موسیقی کی وجہ سے ان کو 'صوفی موسیقی کی ملکہ' بھی کہا جاتا ہے۔ 2012 کو ان کو پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا سویلین اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔  اور 23 مارچ 2021 کو انھیں صدر پاکستان کی طرف سے پاکستان کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا گیاعابدہ پروین کی پیدائش پاکستان کے سندھ کے علاقے لاڑکانہ کے محلہ علی گوہرآباد میں ہوئی تھی۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت ابتدا میں اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کی، جنھیں عابدہ بابا سائیں اور گاوایا کے نام سے پکارتی ہیں۔پروین نے 1970ء کی دہائی کے اوائل میں درگاہوں اور عرس میں نغمے پیش کرنا شروع کیا تھا۔

 1971ء میں، جب نصیر ترابی نے مشرقی پاکستان کے خاتمے پر گہرے دکھ کا اظہار کرنے کے لیے وہ ہم سفر تھا لکھا تو پروین نے اس غزل کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔اگرچہ عابدہ پروین ایک انتہائی ساکھ والی گلوکارہ ہیں، لیکن انھوں نے کبھی فلموں میں اپنی آواز نہیں دی۔ عابدہ پروین کے شائقین اور فاروق مینگل کے اصرار پر ان کے پہلے سے ریکارڈ شدہ گانوں کو فلموں میں استعمال کیا گیا ہے۔ پروین اپنی شرمیلی شخصیت کی وجہ سے انٹرویوز اور ٹیلی ویژن مارننگ شوز میں کم سے کم دکھائی دیتی ہیں۔ پروین نے اعتراف کیا کہ انھیں بالی ووڈ کے فلم سازوں یعنی سبھاش گھئی اور یش چوپڑا کی طرف سے پیش کش ملتی رہتی ہیں لیکن وہ ان سے انکار کردیتی ہیں کیونکہ انھوں نے خود کو تصوف میں ڈھا لیا ہے ہے۔  یہاں تک کہ انھیں را.ون کے لیے شاہ رخ خان کی طرف سے پیش کش بھی آئیں اور میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان نے بھی انھیں کچھ گانوں کی پیش کش کی ہے

عابدہ پروین کے والد خود بھی ایک صوفی  سنگر ہیں اور انہوں نے عابدہ پروین کی خود تربیت کی پھر ان کو اساتذہ کی تربیت کے سپرد کیا   انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد غلام حیدر سے حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔2012   استاد غلام حیدر کا اپنا میوزیکل اسکول تھا،  ۔جہاں سے عابدہ پروین نے موسیقی کی تربیت حاصل کی-عابدہ پروین کو آرٹس میں بھی دلچسپی ہےء میں عابدہ پروین کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلالِ امتیازسے نوازا گیا، اسی برس انھیں بھارت کی بیگم اختر اکیڈمی آف غزل کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈبھی دیا گیا۔ عابدہ پروین کو اس سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔2015ءمیں بھی پاکستان اور بیرونِ ممالک میں عابدہ پروین نے کئی شوز کیے اور موسیقی کی دنیا میں منفرد شناخت کی حامل رہیں۔ عابدہ پروین کو پاکستان اور بھارت کے مقابلہ موسیقی پروگرامسر چھترا میں بطور جج بھی رکھا گیا تھا۔ 

منگل، 18 نومبر، 2025

ون ویلنگ کیا ہے ؟وہ جرم جس میں پورا سماج شامل ہے

 



 ون ویلنگ کیا ہے ؟ میرے خیال میں  وہ جرم جس میں پورا سماج شامل ہے-            مستند خبر ہے کہ اسلام آباد کی ایک ون ویلر لڑکی ون ویلنگ ریس کے دوران حادثے کا شکار ہو کر دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھی ہے - ون ویلنگ موٹر سائیکل ریس محض جان لیوا کھیل ہی نہیں بلکہ بعض مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد نے اسے ناجائز کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ ایسے افراد نہ صرف ون یلنگ پر ریس لگواتے ہیں بلکہ اس ریس پر جوا بھی کھیلتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے وہ ون ویلنگ کے جنون میں مبتلا نوجوان لڑکوں کا استعمال کرتے ہیں، ان موٹر سائیکلوں کی چین گراریاں بدل کر موٹر سائیکل کووزن میں ہلکا اور مزید خطرناک بنایا جاتا ہے۔موٹر سائیکل میکنک اچھی خاصی رقم کے عوض موٹر سائیکل کی ازسر نو مرمت کرتے ہیں اور اس میں خطرناک پرزے نصب کر کے اس کی رفتار کو بڑھا دیتے ہیں۔آلٹرموٹر سائیکل میکینکس کا کہنا ہے کہ انکے پاس موٹر سائیکل کا کام کروانے کیلئے بچے، بڑے اور نوجوان سب ہی آتے ہیں،  جو ریسیں لگائی جاتی ہیں یا ون ویلنگ کی جاتی ہے ان ریسوں میں اصل کردار میکینک کا ہوتا ہے، میکینک کی طرف سے ریس کی موٹر سائیکل تیار کی جاتی ہے 



اور پھر اسے چلانے کے لیے جسے مقرر کیا جاتا ہے اسے رائیڈر کہتے ہیں وہ رائیڈر اپنی زندگی کی پرواہ  کیے بغیر اپنے گروپ اوراپنے میکینک کا نام روشن کرنے کے لیے ریس لگاتا ہے جوبعض اوقات جان لیوابھی ثابت ہوجاتاہے  اگر موٹر سائیکل قابو سے باہر ہوجائے یا سلپ ہوجائے تو سر کی چوٹ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو بہادر دکھانے کے لیے ون ویلنگ کرتے ہیں، جب کہ بعض نوجوان شرطیں بھی لگاتے ہیں۔ اس شرط کے چکر میں زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں.، موٹر سائیکل کی ریس کے لیے مختلف شاہراہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے. موٹر سائیکل کی ریس پر گروپس کے درمیان شرطیں بھی لگائی جاتی ہیں،ون ویلنگ اور ریس کے بعد جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو بعض اوقات ان گروپوں کے درمیان تصادم بھی ہوجاتا ہے اور فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے. ایسے مستریوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چایئے جو موٹر سائیکل کو ون ویلنگ کے لیے تیار کرکے دیتے ہیں


۔والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ون ویلنگ جیسے خونی کھیل کا حصہ بننے سے روکیں۔جو والدین اپنے بچوں کو موٹر سائیکل خرید کر دیدیتے ہیں، مگر ان کی سرگرمیوں پرنظر نہیں رکھتے وہ بھی قابل گرفت ہیں۔ والدین کئی جتن کرکے اپنے بچوں کو موٹر سائیکل دلاتے ہیں کہ ان کے بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں پریشانی کا سامنا نہیں ہو، مگر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ موٹر سائیکل کے ساتھ ہیلمیٹ بھی دلائیں کیوں کہ ہیلمیٹ سے سر محفوظ رہتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں ہیڈ انجری نہیں ہوتی اور بچنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔ عموماً نوجوان ہیلمیٹ کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ ہر والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے مقام پر فائز ہو اور والدین کا نام روشن کریں، لیکن ون ویلنگ کے دوران زخمی ہونے یا معذور ہوجانے کے سبب وہ، والدین پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ 


جوان اولاد کی معذوری والدین کی موت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول میں مثبت سوچ کو فروغ دیں کیونکہ اگر منفی سوچ کا شکار ہو کر بچے نے آزاد سانس لینے کاسوچ لیا تو وہ ون ویلنگ سمیت کسی بھی جرم میں ملوث ہو سکتا ہے۔گھر کے بعد کسی کی بھی انسان کی دوسری تربیت گاہ اس کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں آپ کے پاس بہت سے آپشن ہوتے ہیں اگر مثبت سوچ کے حامل اساتذہ کی شاگردگی میسر ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ خود ہر برائی سے بچ سکتے ہیں۔ وقت ہم سے یہ تقاضا چاہتا ہے کہ ون ویلنگ کے مضمر اثرات کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کیا جائے ان کو بتایا جائے کہ یہ کھیل ہر گز نہیں یہ جرم کا راستہ ہے

پیر، 17 نومبر، 2025

پاکستان میں چھوٹے صوبے کیوں ضروری ہیں'پارٹ 2

 



 2001ء میں جو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس بنا وہ لوکل گورنمنٹ   کی تاریخ میں اچھا نظام قراردیا گیا۔لوکل گورنمنٹ نے عوام کی حقیقی خدمت کیانہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میئر ڈسٹرکٹ کا ایگزیکٹو ہیڈ تھا، وہ سسٹم صرف 8سال پاکستان میں چل سکا، سیاسی گورنمنٹس اورصوبائی اسمبلی وجود میں آئیں تو لوکل گورنمنٹ نظام کو ختم کر کے ایک ڈمی مئر  کی غلام  ایسی حکومت بنا دی گئ  جس کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں حکومت کے تین ستون ہیں،وفاق،صوبے اورلوکل گورنمنٹ، جس نے عوام کی حقیقی خدمت کی ہے وہ لوکل گورنمنٹ ہے۔میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے لوکل گورنمنٹ کو پاکستان میں کبھی مستحکم نہیں رہنے دیا گیا،  ۔دنیا میں 172 ممالک بلوچستان سے رقبہ میں چھوٹےان کا کہنا تھا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 52فیصد ہے، دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ ایک فیڈریٹنگ یونٹ باقی تمام سے بڑا ہو، دنیا میں 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں، بلوچستان رقبے میں سب سے بڑا اورآبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے،


 چین کی آبادی آج 150کروڑ ہے اس کے 31صوبے ہیں، امریکا نے خود کو 17صوبوں سے شروع کیا آج 50 ہیں، انڈونیشیا کی آبادی 27کروڑ ہے اور اس کے 34صوبے ہیں، پاکستان کی آبادی 25کروڑ ہونے والی ہے اور 4 صوبے ہیں، نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے،اس کے 27صوبے ہیں، برازیل 20کروڑ آبادی کا ملک اوراس کے 36صوبے ہیں، میکسیکو کی آبادی 13کروڑ اورصوبے 31ہیں۔۔عوام کی اقتصادی فلاح ریاست کی ذمہ داری ہےمیاں عامر محمود نے بتایا کہ وجود میں آنے کے بعد کسی بھی گورنمنٹ کی 7ذمہ داریاں ہوتی ہیں، عوام کی اکنامک ویلفیئر ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت خود ایسی پالیسی لاتی ہے جس سے عوام معاشی طور پر ترقی کرسکیں، سرحدوں کی حفاظت بھی فیڈرل گورنمنٹ کی ذمہ داری  ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ورلڈبینک کے ایک گروپ نے پاکستان کے بارے میں سٹڈی کی، ورلڈبینک نے ایک رپورٹ شائع کی کہ پاکستان 100سال کا ہونے پر کیسا ہوگا، ہم نے اپنے علاقوں کو ایک جیسی ترقی نہیں دی، ہم نے 79سالوں میں صرف 5کیپیٹل سٹیز کو ڈویلپ کیا ہے،-


 پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوگا۔کراچی سے نکلیں تو پورا سندھ کچی آبادی کا منظر پیش کرتا ہےچیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے بتایا کہ خیبرپختونخوا چلے جائیں تو ساری ترقی پشاور میں نظر آئے گی، پشاور کی بھی حالت اتنی اچھی نہیں، لاہور سے باہر نکلیں گے تو پنجاب میں ویسی ترقی نظر نہیں آئے گی، پنجاب گورنمنٹ نے اب لاہور سے باہر بھی ترقی کا کچھ کام شروع کیا ہے، کراچی سے باہر نکلیں تو پورا سندھ کچی آبادی کا منظر پیش کرے گا۔میاں عامر محمود نے کہا کہ جب ایک شہر کو ترقی دیتے ہیں تو وہ بھی زیادہ نقل مکانی ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کرتا، لاہور میں ہر سال انسان بڑھتے ہیں، لاہور میں ہر سال لوگوں کی نقل مکانی بہت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951میں ہوئی اس وقت آبادی 3کروڑ30لاکھ تھی، آج پاکستان کی آبادی 25کروڑ کے قریب ہے، پنجاب آج 13کروڑ آبادی کا صوبہ بن چکا ہے، سندھ 6ملین سے شروع ہوا، آج صرف کراچی کی آبادی 3کروڑ سے زیادہ ہے۔پنجاب ملک ہوتا تو دنیا کا 13 واں بڑا ملک ہوتا


انہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف 12ایسے ملک ہیں جو پنجاب سے بڑے ہیں،پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوگا، صرف 31ملک ہیں جن کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے، دنیا میں 41ممالک ایسے جن کی آبادی خیبرپختونخوا سے زیادہ ہے، بلوچستان کو دیکھیں تو 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز ہے سندھ کے7ڈویژن ہیں اس کو 7حصوں میں تقسیم کیا جائے، کراچی اورحیدرآباد کیلئے تحریک بہت دیر سے چل رہی ہے، خیبرپختونخوا کے بھی 7ڈویژن ہیں، ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی الگ صوبے کی تحریک چل رہی ہے۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ یواین نے ایک سروے کیا، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول میں 193ممالک کا سروے کیا گیا اور ہمارا نمبر 140واں ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک کا سروے کیا گیا ہم 168نمبر پر ہیں، قانون کی بالادستی کے حوالے سے سروے میں ہم142 ممالک میں 129نمبر پر ہیں، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 127ممالک کا سروے ہوا،ہمارانمبر109واں ہے۔44 فیصد بچوں کو متوازن غذا نہیں ملتی، ان44فیصد بچوں کی ذہنی   ہمارا وطن پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ارباب اقتدار بار ' بار سوچیں


اتوار، 16 نومبر، 2025

بخارا قدیم تاریخ میں

 


ماوراء النہر (نہر یا دریا سے پار کا علاقہ) وسط ایشیا کے ایک علاقے کو کہا جاتا ہے جس میں آج ازبکستان، تاجکستان، جنوبی کرغیزستان اور جنوب مغربی قازقستان شامل ہیں۔ جغرافیائی طور پر اس کا مطلب آمو دریا اور سیر دریا کے درمیان کا زرخیز علاقہ ہے۔ ماوراء النہر کے اہم ترین شہروں میں سمرقند و بخارا، فرغانہ، اشروسنہ اور ترمذ شامل ہیں۔پانچ صدیوں تک یہ خطہ ایران اور عالم اسلام کا متمدن ترین خِطہ رہا ہے۔ یہ علاقہ بہت سے مشہور بزرگانِ دین، علما، دانش وروں، درویشوں اور اولیاء اللہ کا مدفن و مسکن رہا۔معروف شاعر فردوسی کے شاہنامے میں بھی ماوراء النہر کا ذکر ہے-ازبکستان  کا مشہور و معروف شہر بخارا  اس خطہ کا اہم ترین شہر ہے؎-اس       شہر میں سادات کی آمد  اس طرح ہوئ کہ حجاز میں عباسی حکمرانوں کے سادات پر ظلم کے سبب سادات نے حجاز کو خیر باد کہ کر  بخارا کو  اپنا مسکن بنایا  -بخارا آنے والوں میں امام علی نقی علیہ السلام کے فرزندان سید عرب اور سیداحمد و سید محمد شامل تھے -
 
اور یہ خطہ کیونکہ عباسی سلطنت کا حصہ نہیں تھا اس لئے  سادات یہاں ان کی دسترس سے دور ہو جاتے تھے اور جو سندھ آتے تھے  عباسی حکمراں ان کو شہیدکروادیتے تھے جیسے  حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کروایا تھا -اب کچھ بخارا کی ثقافت کے بارے میں -بخارا صدیوں سے تہذیبی اور ثقافتی مرکز تو رہا ہی ہے لیکن اس شہر کی تاریخ کا ایک نہایت اہم پہلو، اس شہر کا تجارتی ورثہ بھی ہے۔ شاہراہِ ریشم کے اہم مقام پر موجود ہونے کے سبب، تجارتی قافلے یہاں آتے، منڈیاں سجتی اور خوب خرید و فروخت ہوتی۔ یہ روایت آج بھی چلی آرہی ہے۔بخارا کے قدیم بازار، اسی طرح آباد ہیں اور یہاں ہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے سیاح یہاں مقامی طور پر بنی اشیا میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ ازبکستان کے دیگر ٹؤرسٹ مقامات کی طرح یہاں بھی لگائے جانے والے اسٹالز اور موجود دکانوں کا انتظام خواتین نے ہی سنبھال رکھا ہے

 
 ۔بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے  ۔ اس اہم فن کے راز کو نسل در نسل نہایت جانفشانی کے ساتھ منتقل کیا گیا۔ ابتدا میں صرف مرد ہی یہ کام کرسکتے تھے لیکن وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ اس ہنر کی تعلیم خواتین کو بھی دی گئی، اور پھر انہوں نے اپنی ذہانت اور لگن سے اس فن میں اس حد تک مہارت حاصل کرلی کہ پھر یہ کام فقط خواتین کے لیے ہی مختص ہوگیا۔ آج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں بخارا میں کی جانے والی سنہری کڑھائی کی دھوم بھی دُور دُور تک ہےآج بھی بخارا کی اس فیکٹری میں خواتین اپنے اس ہنر کو استعمال کرتی نظر آتی ہیں لیکن اب بھی ایک فن ایسا ہے جس کے لیے مرد ہی زیادہ موزوں ہیں۔ لوہے اور مختلف دھاتوں کو محنت اور مہارت سے مختلف شکلوں میں ڈھالنے اور پھر استعمال میں لانے کا ہنر۔ نسل در نسل منتقل ہونے والا یہ ہنر بھی بخارا کے قدیمی شہر کا ورثہ ہے اور آج بھی یہاں ایسے کارخانے موجود ہیں جہاں ماہر کاریگر اس فن کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔  

 
یہاں  پر ایک عظیم  الشان   وسیع و عریض اور خوبصورت تاریخی مسجد ہے جس کو کلیان مسجد کہتے ہیں  ۔ اس مسجد کو 1514 میں تعمیر کیا گیا اور یہاں 12 ہزار سے زائد افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ جبکہ اس  مسجد کے ساتھ ہی 2   منزلہ مدرسے بھی ہے  جس  میں 114 حجرے جبکہ 4 ایوان اور 2 بڑے ہال بھی موجود ہیں۔ ایک ہال کو عبادات اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے ہال میں عبیداللہ خان، شیخ عبداللہ یمنی اور دیگر کے مقبرے موجود ہیں۔مدرسے سے متعلق نہایت اہم بات یہ ہے کہ دیگر کئی تاریخی مدارس کے برعکس اس مدرسے میں آج بھی تدریس کا عمل جاری ہے اور یہاں بچوں اور نوجوانوں کو دینی علوم کی تعلیم دی جارہی ہے۔ گائیڈ کے توسط سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ مدرسہ ان چند مدارس میں شامل تھا جہاں تدریس کا سلسلہ سویت دور میں بھی منقطع نہیں ہوا۔پوئی کلیان اسکوائر کی تیسری اہم یادگار، کلیان مینار ہے۔   مینار کی اونچائی تقریباً 50 میٹر ہے اور اس کے اوپر جانے کے لیے 148 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں، جو یقیناً ایک مشقت طلب کام ہے، لیکن اوپر پہنچ کر، یہاں سے شہر کا نظارہ لاجواب ہے

ہفتہ، 15 نومبر، 2025

پاکستان میں چھوٹے صوبے کیوں ضروری ہیں'پارٹ 1

   کچھ عرصہ پہلے ایبٹ آباد کے مقام پر ہمارے محترم  ایسے ماہرین کا سیمینار ہوا اس سیمینار میں ا نہوں  نے پاکستان کے موجودہ شہری مسائل پر بہت فراخدلانہ تجزیہ کیا اور ساتھ میں وطن کے حالات کو بتدریج بہتری کی جا نب   لے جانے کی بات کی  تو دیکھتے ہیں  کہ          ان کی رپورٹ کیا ہے-   پاکستان میں پہلی مردم شماری ء1951میں ہوئی اس وقت آبادی 3کروڑ30لاکھ تھی، آج پاکستان کی آبادی 25کروڑ کے قریب ہے، پنجاب آج 13کروڑ آبادی کا صوبہ بن چکا ہے، سندھ 6ملین سے شروع ہوا، آج صرف کراچی کی آبادی 3کروڑ سے زیادہ ہے۔پنجاب ملک ہوتا تو دنیا کا 13 واں بڑا ملک ہوتاانہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف 12ایسے ملک ہیں جو پنجاب سے بڑے ہیں،پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوگا، صرف 31ملک ہیں جن کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے، دنیا میں 41ممالک ایسے جن کی آبادی خیبرپختونخوا سے زیادہ ہے، بلوچستان کو دیکھیں تو 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز ہے سندھ کے7ڈویژن ہیں اس کو 7حصوں میں تقسیم کیا جائے، کراچی اورحیدرآباد کیلئے تحریک بہت دیر سے چل رہی ہے، خیبرپختونخوا کے بھی 7ڈویژن ہیں، ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی الگ صوبے کی تحریک چل رہی ہے۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ یواین نے ایک سروے کیا، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول میں 193ممالک کا سروے کیا گیا اور ہمارا نمبر 140واں ہے، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک کا سروے کیا گیا ہم 168نمبر پر ہیں، قانون کی بالادستی کے حوالے سے سروے میں ہم142 ممالک میں 129نمبر پر ہیں، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 127ممالک کا سروے ہوا،ہمارانمبر109واں ہے۔ دنیا میں 172 ممالک بلوچستان سے رقبہ میں چھوٹےان کا کہنا تھا کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 52فیصد ہے، دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ ایک فیڈریٹنگ یونٹ باقی تمام سے بڑا ہو،

 

 دنیا میں 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں، بلوچستان رقبے میں سب سے بڑا اورآبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے، آپ کوئٹہ میں بیٹھ کر اتنے بڑے رقبے پر گورنمنٹ کی رٹ قائم نہیں کرسکتےان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین کی آبادی آج 150کروڑ ہے اس کے 31صوبے ہیں، امریکا نے خود کو 17صوبوں سے شروع کیا آج 50 ہیں، انڈونیشیا کی آبادی 27کروڑ ہے اور اس کے 34صوبے ہیں، پاکستان کی آبادی 25کروڑ ہونے والی ہے اور 4 صوبے ہیں، نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے،اس کے 27صوبے ہیں، برازیل 20کروڑ آبادی کا ملک اوراس کے 36صوبے ہیں، میکسیکو کی آبادی 13کروڑ اورصوبے 31ہیں۔عوام کی اقتصادی فلاح ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت خود ایسی پالیسی لاتی ہے جس سے عوام معاشی طور پر ترقی کرسکیں، سرحدوں کی حفاظت بھی فیڈرل گورنمنٹ کی ذمہ داری  ہے

 

 ورلڈبینک کے ایک گروپ نے پاکستان کے بارے میں سٹڈی کی، ورلڈبینک نے ایک رپورٹ شائع کی کہ پاکستان 100سال کا ہونے پر کیسا ہوگا، ہمارے 44فیصد بچوں کو متوازن غذا نہیں ملتی، ان44فیصد بچوں کی ذہنی اورجسمانی نشوونما ٹھیک نہیں ہوگی، یہ 44فیصد بچے 20سال بعد کوئی کام نہیں کرسکیں گے، یہ 44فیصد بچے جب بڑے ہوں گے تو پاؤں کی سب سے بڑی زنجیر ہوگی، ہم نے اپنے 20سال بعد کا مستقبل بھی برباد کرلیا۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو کوئی کام نہیں کرسکیں گے-یبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج میں ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان کے زیراہتمام ’’2030 کا پاکستان، چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں‘ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اوراس میں صوبوں کی تعداد 4 ہے، ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے صوبوں کو چھوٹا نہیں کیا۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان کے 4صوبوں کو دیکھا جائے تو کوئی ترتیب نظر نہیں آئے گی، لوکل گورنمنٹس کو بنتے اورٹوٹتے ہوئے دیکھا،

اور ہمارا وطن پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ارباب اقتدار بار ' بار سوچیں

ازبکستان وسط ایشیا کا قدیم اور خوبصورت ملک ہے

 

ازبکستان 'وسط ایشیا کا سب سے زیادہ آبادی والاملک سمجھا جاتا ہے 'اس  میں شاہراہ ریشم پر آباد سمرقند اور بخارا جیسے شہروں میں بڑی بڑی مساجد اور مقبرے ہیں -لاکھوں ازبک باشندوں کے لیے یہ مقدس مقامات ہیں جبکہ دہائیوں کی تنہائی اور مطلق العنان دور سے باہر آنے کے بعد وہاں کی حکومت کے لیے یہ تاریخی وراثت سیاحت کو فروغ دینے کا بڑا موقع فراہم کرتی ہے۔سمرقند میں درجنوں خوبصورت مزار ہیں جن میں بادشاہ تیمور لنگ، ماہر فلکیات الغ بیگ اور قثم ابن عباس شامل ہیں۔ قثم جنھیں ازبکستان میں زندہ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے وہ حضرت محمد کے چچازاد بھائی عباس کے بیٹے تھے اور اس علاقے میں انھوں نے ہی پہلے پہل اسلام سے لوگوں کو متعارف کرایا۔ایران کے مشہور بادشاہ تیمور لنگ کا مزار-اس کے علاوہ سمرقند میں بہت سے معروف عالم فاضل اور  مسلم سائنسدانوں کے مزار ہیں-یہ ایک مزار ایسا ہے جو دوسروں سے یکسر مختلف ہے۔ ہر صبح سنکڑوں افراد شہر کے باہر پہاڑی پر موجود عجیب طرز تعمیر کے مزار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔


 یہ مزار پستے اور خوبانی کے درختوں کے درمیان پرانے شہر میں موجود ہے۔یہاں کی فضا میں چڑیوں کی چہچہاہٹ اور دعا و مناجات کی آوازیں گونجتی ہیں۔ یہاں آنے والے زائرین اہل خانہ کے ساتھ بینچوں پر کھاتے پیتے نظر آتے ہیں جبکہ نوجوان اس کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں۔ازبکستان وسطی ایشیا کے وسط میں  اس مقام پر واقع ہے جہاں اس کی سرحد یں ترکمانستان ، قازقستان ، کرغزستان ، تاجکستان اور افغانستان سے ملتی ہے۔ اس کا دو تہائی سے زیادہ حصہ صحرا اور مغرب میں  ہے۔ صرف امدادی ڈیلٹا ہی ہے جہاں امو دریا دریائے ارل کے باقی حصوں میں خالی ہوجاتا ہے۔ تاہم ، مشرق میں ، ازبکستان اپنے پڑوسیوں کے پہاڑوں کی طرف اوپر کی طرف جھکا ہوا ہے۔ یہیں سے ملک میں زندگی بخشنے والے دریا نکلتے ہیں۔امیر ترین کھیتوں (اور اس وجہ سے زیادہ تر آبادی) پہاڑوں کے خلاء میں ، ان کے اڈے پر ملنے والے جہازوں پر اور اس ملک کے دو بڑے دریا - امو دریا اور سریر دریا کے ساتھ بسی ہوئی ہے۔ ازبکستان میں دنیا کا کچھ حصہ موجود ہے سمرقند ، بخارا اور خیوا سمیت قدیم ترین ، انتہائی تاریخی شہر۔آب و ہواازبکستان میں انتہائی براعظم آب و ہوا موجود ہے۔


یہ عام طور پر جنوب میں گرم اور شمال میں سب سے زیادہ سرد ہوتا ہے۔  اگر آپ ٹریکنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ، تو گرمیوں کے موسم جولائی اور اگست کے بہترین وقت ہیں کیونکہ گرمیاں تقریبا خشک ہوتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ازبکستان خاص طور پر گرمی اور ڈرائر گرمیاں اور سرد اور لمبی سردیوں کے نتیجے میں بحر ارال سے خشک آؤٹ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر متاثر ہوا تھا۔ازبکستان ایک خشک ، دوہری سرزمین ملک ہے جس میں 11 فیصد انتہائی کاشت کی جانے والی ، سیراب دریا کی وادیوں پر مشتمل ہے۔ اس کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی گنجان آباد دیہی معاشروں میں رہتی ہے۔ ازبکستان دنیا کا دوسرا بڑا کپاس برآمد کرنے والا اور پانچواں سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ برآمدی آمدنی کے بڑے ماخذ کے طور پر ملک کاٹن کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ دیگر بڑے برآمد کناروں میں سونا ، قدرتی گیس اور تیل شامل ہیں۔لوگ اور ثقافت ازبکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ دو اہم زبانیں ازبک اور روسی ہیں لیکن آپ کو دوسری کئی زبانیں بھی سنیں گی جن میں کورین ، انگریزی ، جرمن ، تاجک اور ترکی بھی شامل ہیں۔


 ازبک آبادی کے علاوہ ، ازبکستان میں بہت سی دوسری قومیتیں ہیں ، جن میں سب کی اپنی طرز زندگی ہے۔ازبکستان میں لوگ طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں۔ دیہات میں آپ روایتی لباس پہننے والی خواتین کو لمبے رنگ کے لباس اور اسکارفس کا مشاہدہ کریں گے۔ شہروں میں وہ کم روایتی اور زیادہ جدید ہیں۔ مرد جینز   پتلون پہنتے ہیں۔ شارٹس کو شاذ و نادر ہی پہنا جاتا ہے اور عام طور پر صرف شہر کے لوگ۔ازبک عوام بہت مہمان نواز ہیں اور انہیں اپنے گھر میں مہمان رکھنا اعزاز کی بات ہے۔ یہاں تک کہ مہمانوں کے لئے بیٹھنے کے خصوصی انتظامات ہیں۔ سب سے بڑے فرد یا معزز مہمان کو عام طور پر دروازے سے دور میز کے سر پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ نوجوان یا میزبان دروازے کے پاس بیٹھے بیٹھے "ویٹر" کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وہ برتن لاتے اور لے جاتے ہیں ، چائے ڈالتے ہیں اور دوسرے کام کرتے ہیں۔ صحراؤں اور پہاڑوں کے درمیان ، نخلستانوں اور زرخیز وادیوں کے بیچ انہوں نے اناج اور پالنے والے مویشی پالے ہیں۔موسموں نے قومی کھانے کی ترکیب کو بہت متاثر کیا۔ گرمیوں میں پھل ، سبزیاں اور گری دار میوے بڑے پیمانے پر کھانا پکانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ازبیکستان میں پھل بہت زیادہ بڑھتے ہیں جیسے انگور ، خربوزے ، خوبانی ، ناشپاتی ، سیب ، چیری ، انار ، لیموں ، انجیر اور کھجور۔ سبزیاں بھی بہت ہوتی ہیں ،  

جمعہ، 14 نومبر، 2025

دریائے ہگلی پر ہاؤڑا برج کیوں بنایا گیا

 

ہندوستان کا عظیم الشان           د  ریائے گنگا مغربی ہمالیہ سے شروع ہوتا ہے اور اپنے سفر طے کرتا ہوا جیسے ہی  مغربی بنگال  کی جانب آتا ہے۔ ایک ہی وقت میں یہ دو الگ الگ دریاؤں،دریائے  پدما اور دریائے ہگلی  میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دریائے پدما بنگلہ دیش سے گزر کر خلیج بنگال اور دریائے ہگلی میں گرتا ہے،شاہجہاں کے عہد  میں   ایسٹ  انڈیا کمپنی  دریائے ہگلی کے پاس ایک کوٹھی بنا چکی تھی۔ اورنگزیب کے عہد میں انہوں نے 3 گا          ؤں  بھی خرید لئے جو ہگلی کے نسبت دریائے گنگا کے کنارے سے اور بھی قریب تھے۔ ان میں سے ایک کا نام کالی گھاٹ تھا یہ وہی مقام تھا جو اب کلکتہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں 1690ء میں انگریزوں نے ایک قلعہ تعمیر کیا اور فورٹ ولیم اس کا نام رکھا۔فرانسیسی بھی ہند میں انگریزوں کیساتھ ساتھ ہی آئے تھے انہوں نے بھی اپنے مقامات تجارت بنا رکھے تھے۔ ان میں سے بڑے بڑے یہ تھے ''مہی‘‘ مغربی ساحل پر، ''پانڈی چری‘‘ مدراس کے جنوب میں مشرقی ساحل پر، ''چندرنگر‘‘ بنگال میں کلکتہ سے کوئی 20 میل کے فاصلے پر۔لیکن کمپنی کو اب دریا کے دوسری جانب بھی اپنی تجارت کو وسعت دینا تھا جس کے لئے ہاؤڑا برج کا منصوبہ زیر غور آیا ۔ 


مغربی بنگال اس وقت کے بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی۔1860 میں بنگال کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے کولکاتا اور ہاوڑو ضلع کو جوڑنے کے لئے ہگلی ندی کے اوپر برج بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔اس سلسلے میں متعدد تجاویز پیش کی گئی لیکن کسی وجہ سے تجاویز سرد خانے کی زینت بن گئیں۔1880 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک بار دونوں ضلع کو جوڑنے کے لئے برج بنانے کے لئے سرگرم ہوئی۔ ۔1943 میں برٹش حکومت نے ایک ایسا پل بنانے کا فیصلہ کیا جو تاریخ کا حصہ بن سکے۔تاہم کمپنی کا بنایا ہوا یہ پل  پوری دنیا میں مشہور ہے  ۔ 1943ء میں تعمیر شدہ اس پل کا اصل نام نیا ہاوڑہ پل (New Howrah Bridge) تھا کیونکہ اسے ہاوڑہ اور کولکاتا کو ملانے والے قدیم پیرک تختہ پل (Pontoon bridge) کی جگہ بنایا گیا تھا۔14 جون 1965ء کو اس کا نام تبدیل کر کے نوبل انعام یافتہ بھارتی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کے نام پر رابندر سیتو (Rabindra Setu) رکھ دیا گیا، تاہم اسے اب بھی ہاوڑہ پل کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔


 ہاوڑہ پل کی خصوصیت یہ ہے کہ دریائے ہگلی پر واقع 1،500 فٹ لمبے اس پل میں ایک بھی ستون نہیں ہیں ۔ بغیرکسی ستون کے یہ پل ندی کے دونوں کناروں کے سہارے کھڑا ہے۔ہدوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے۔اس کا ہر ایک حصہ ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے


۔اس کے تمام پارٹس ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس ہاڑوہ پل کے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ڈیزائن ہر زاویہ سے مثلث ہی ہے اور یہی ستون کے نہ ہونے کا اصل اور تاریخی رازہے۔اس کا ہر ایک حصہ ایک دوسرے جڑا ہوا  ہے۔ اپنے طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ دنیا کا چھٹا سب سے لمبا پل ہے۔ امریکہ،انگلینڈ،جرمنی ،فرانس اوراٹلی میں ہاوڑہ برج کے طرز کے  پل ہیں۔ان چھ ملکوں کے پل دنیا کے قدیم ترین پلوں میں سے ہیں



 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر