حضرت بی بی ام البنین سلام اللہ علیہا کا خواب
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ مولا علی علیہ السلام کا رشتہ آنے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک سرسبز اور گھنے باغ میں بیٹھی ہوں۔ وہاں بہتی ہوئ نہریں اور بے شمار پھل درخت موجود ہیں ۔ آسمان پر چمکتا ہوا چاند اور ستارے روشن ہیں اور میں انہیں دیکھ رہی ہوں ۔ میں اللہ کی تخلیق کی عظمت اور بغیر ستون کے مظبوط آسمان، چاند کی روشنی اور ستاروں کے بارے میں غور و فکر کر رہی تھی۔ اسی دوران اچانک چاند آسمان سے زمین پر اترا اور میری گود میں آ گیا۔ اس چاند سے ایک ایسی روشنی نکل رہی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ میں حیرت اور تعجب میں مبتلا تھی کہ اسی وقت چار روشن ستارے اور میری گود میں آ گرے۔ بی بی ام البنین نے خواب کا زکر اپنی مادر گرامی سے کیا اور انہوں اس خواب کا زکر اپنے شوہر سے کیا حضرت ام البنین کے والد حزام بن خالد نے اپنی قوم کے خوابوں کی تعبیر بیان کرنے والے عالم کے پاس گئے اور ان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ معبر نے کہا یہ خواب کسی کو مت بتائیں اور یقین رکھیں کہ آپ کی بیٹی کے لیے عرب و عجم کے کسی بڑے عظیم الشان شخص کا رشتہ آئے گا، اور اللہ تعالیٰ اسے چار بیٹے عطا کرے گا۔
عقیل، علم انساب میں بہت آشنائی رکھتے تھے اور ان کی بات اس سلسلہ میں حجت مانی جاتی تھی۔ ان کے لیے مسجد النبی (ص) میں ایک چٹائی بچھائی جاتی تھی جس پر وہ نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد عرب قبائل علم انساب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ ایک حاضر جواب شخص تھے۔ بی بی سیدہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد حضرت عقیل کی جانب سے اصرار تھا کہ ان کے چھوٹے بھائ مولا علی علیہ السلام دوسرا عقد کریں اسی لیے حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام نے اپنے ماہر انساب بھائی سے مخاطب ہو کر فرمایا: میرے لیے ایک ایسی خانون کا انتخاب کریں کہ، جو شجاع اور دلیر مرد عربوں کی نسل سے ہو جو کر بلا میں میرے حسین کے لئے ایک بہادر اور شہسوار بیٹے کو جنم دے۔"حضرت عقیل بن ابیطالب نے ، بنی کلاب کے خاندان سے ام البنین کا انتخاب کیا،جو شجاعت میں بے مثال خاندان تھا، اور اپنے بھائی کے جواب میں کہا:" آپ فاطمہ کلابیہ سے شادی کریں، کیونکہ ان کے آباء و اجداد سے شجاع تر عربوں میں کوئی نہیں ہے۔ حضرت عقیل نے بنی کلاب خاندان کی دوسری خصوصیات بھی بیان کیں اور مولا علی علیہ السلام نے اس انتخاب کو پسند فرمایا اور اپنے بھائ عقیل کو رشتہ لینے کے لیے ام البنین سلام اللہ علیہا کے باپ کے ٍپاس بھیجا۔
جب حضرت علی علیہ السلام کے بھائی حضرت عقیل خواستگاری کے لیے حزام بن خالد کے پاس آئے، تو حزام نے اپنی بیٹی کے خواب کو یاد کرتے ہوئے انہیں خوشخبری دی اور کہا: میری بیٹی! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ دنیا اور آخرت کی خوش بختی کی بشارت ہو! پھر حزام نے اپنی اہلیہ ثمامہ سے مشورہ کیا اور کہا کہ کیا تم ہماری بیٹی فاطمہ (ام البنین) کو امیرالمومنین علی علیہ السلام کے نکاح کے لائق سمجھتی ہو؟ جان لو کہ ان کا گھر وحی، نبوت، علم، حکمت، ادب اور اخلاق کا مرکز ہے۔ اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کے لائق سمجھتی ہو تو ہم اس مبارک رشتے کو قبول کریں گے۔تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا نے جب حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں قدم رکھا تو انہوں نے امام علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ انہیں ان کے اصل نام فاطمہ کے بجائے "ام البنین" کے لقب سے پکارا جائے۔ یہ اس لیے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا نام سن کر اپنی والدہ کی یاد میں غمگین نہ ہوں اور ان کے دلوں میں یتیمی کا درد تازہ نہ ہو۔
حضرت ام البنین علیہ السلام نے نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کی بہترین زوجہ ہونے کا حق ادا کیا بلکہ حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور بی بی زینب علیہا السلام کے لیے ایک شفیق اور محبت کرنے والی ماں کی حیثیت سے بھی اپنی مثال قائم کی۔ اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام کے مشن کے لیے قربان کر دینا ان کی وفاداری اور ایمان کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حضرت ام البنین علیہا السلام سے خواستگاری کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک خوبصورت واقعہ ہے جو اس عظیم خاتون کی شرافت، ایمان اور بلند مقام کو واضح کرتا ہے۔ حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کے امام علی علیہ السلام سے چار بیٹے تھے: حضرت عباس علیہ السلام، عبد اللہ، عثمان اور جعفر۔ ان سب میں سب سے بڑے حضرت عباس علیہ السلام تھے، جو 4 شعبان 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئےاور یہ چاروں میدان کارزار کربلا میں داد شجاعت دیتے ہوئے مولا حسین پر قربان ہوگئے ۔