جان ڈی راک فیلر سینئر 33 سال کی عمر میں لکھ پتی بن چکا تھا اور 43 سال کی عمر میں اس نے دنیا میں تیل کی سب سے بڑی کمپنی، سٹینڈرڈ آئل کمپنی، قائم کرلی تھی۔لیکن 53 ویں سال وہ کہاں تھا؟ 53 سال کی عمر میں پریشانیاں اس پر غالب آچکی تھیں۔ تفکرات اور اعصاب زدگی کی زندگی اس کی صحت کا پہلے ہی دیوالیہ نکال چکی تھی۔ اس کے ایک سوانح نگار جان کے ونکر کے الفاظ میں،''53 سال کی عمر میں وہ ایک حنوظ شدہ نعش کی مانند نظر آتا تھا۔'' 53 سال کی عمر میں ہاضمے اور معدے کی عجیب و غریب اور پراسرار بیماریوں نے راک فیلر پر حملہ کیا اور پلکوں سمیت اس کے سارے بال گرادیئے۔ صرف اس کی بھنوؤں کی ہلکی سی لکیر باقی رہ گئی۔ ونکر لکھتا ہے،''اس کی حالت اس قدر خطرناک ہوچکی تھی کہ وہ صرف دودھ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔''عالم شباب میں راک فیلر کی جسمانی بناوٹ آہنی تھی۔
اس نے ایک زراعتی فارم پر پرورش پائی تھی اور اس زمانے میں اس کے بازو تنومند، اس کی کاٹھی مضبوط اور سیدھی، اس کی ٹانگیں لکڑی کی طرح سخت اور چال میں چستی چالاکی اور بندر کی سی پھرتی تھی۔ لیکن صرف53 سال کی عمر میں، جب اکثر لوگ بھرپور صحت مند زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، اس کے کندھے خمیدہ ہوگئے اور اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوگئی۔ حالت اس قدر خطرناک ہوچکی تھی کہ وہ صرف دودھ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیاراک فیلر 53 سال کی عمر میں موت کے قریب پہنچ کر بھی وہ 97 برس کیسے زندہ رہا؟ اس کا ایک دوسرا سوانح نگار جان۔ ٹی۔ فلین کہتا ہے،''جب اس نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو اسے ایک بوڑھا آدمی نظر آیا۔ مسلسل کام، پیہم پریشانیاں، بے خواب راتیں، گالیوں کی بوچھاڑ، ورزش اور آرام کی عدم موجودگی اپنا رنگ دکھانے لگے۔'' انہوں نے اس کے جسم کا رس نکال لیا اور اسے گھٹنوں پر جھکا دیا۔
وہ اب دنیا کا امیر ترین شخص تھا۔ پھر بھی اسے ایسی خوراک پر گزر بسر کرنی پڑتی جسے ایک بھکاری بھی ٹھکرا دے۔ اس کی ہفتہ وار آمدنی 10 لاکھ ڈالر تھی۔ لیکن جو کچھ وہ کھاتا تھا، اس پر ایک ہفتے میں غالباً دو ڈالر سے زیادہ خرچ نہیں آتا تھا اور وہ کھاتا کیا تھا؟ دودھ اور چند بسکٹ۔ ڈاکٹروں نے اسے صرف یہی کھانے کی اجازت دی تھی۔ اس کی جلد کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اسے سوائے معجزاتی علاج کے دنیا کی ایسی کوئی چیز نہ بچا سکتی تھی، جسے پیسوں سے خریدا جا سکتا ہو۔یہ سب کیسے ہوا؟ پریشانیاں، تفکرات، صدمات، دباؤ اور کشمکش کی زندگی اور اعصابی تناؤ اس چیز کے ذمہ دار تھے۔ سچ پوچھیے تو وہ موت کی آغوش میں پہنچ چکا تھا۔ 23 سال کی عمر میں بھی راک فیلر اتنے آہنی عزم کے ساتھ اپنے نصب العین کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ اس کے جاننے والوں کے الفاظ میں ''اچھے سودے کی خبر کے سوا کوئی چیز اس کے چہرے کو گداز نہ کرسکتی۔'' جب اسے کہیں سے معقول منافع ہوتا تو وہ ایک عجیب و غریب قسم کا جنگی رقص کرتا۔
اپنی ٹوپی اتار کر فرش پر پھینک دیتا اور ناچنے لگتا۔ لیکن اگر اسے خسارہ ہوتا تو وہ بیمار پڑجاتا۔ اس نے ایک دفعہ گریٹ لیکس کے راستے 40 ہزار ڈالر کا اناج ایک دخانی جہاز پر باہر بھیجا۔ اس کا بیمہ نہیں کرایا گیا تھا کیونکہ رقم ''بہت زیادہ'' تھی۔ کتنی؟ ایک سو پچاس ڈالر۔ اس رات جھیل ایری میں خوفناک طوفان آیا۔ راک فیلر جہاز کے تباہ ہونے کے متعلق اس قدر متردد اور پریشان تھا کہ جب اس کا شریک کار جاج گارڈنر صبح کے وقت دفتر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ راک فیلر نہایت بے قراری سے فرش پر ٹہل رہا ہے۔جلدی کرو،'' اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا،''اگر دیر نہ ہوگئی ہو تو جلد از جلد جہاز کا بیمہ کرا لو- گارڈنر شہر کی طرف بھاگا اور بیمہ کرا آیا۔ لیکن وہ واپس دفتر پہنچا تو اس نے راک فیلر کو پہلے سے بھی بدترین حالت میں دیکھا۔ گارڈنر کی عدم موجودگی میں ایک تار آیا تھا کہ جہاز لنگر انداز ہوچکا ہے اور طوفان سے بالکل صحیح سلامت نکل آیا ہے۔
اس کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی کیونکہ اس نے ڈیڑھ سو ڈالر خوامخواہ ضائع کردیئے تھے۔ اسے اس ''نقصان عظیم'' کا اس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ شدید بخار میں مبتلا ہوگیا اور اسے گھر جاکر آرام کرنا پڑا۔جب ڈاکٹروں نے راک فیلر کی زندگی بچانے کی ذمہ داری قبول کی، تو انہوں نے اسے تین اصول بتائے، جن پر وہ آخری دم تک حرف بہ حرف عمل کرتا رہا اور وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں1 فکر و تردد سے گریز کریں۔ کسی حالت میں بھی کسی چیز کے متعلق پریشان نہ ہوں۔-2 اپنے جسم کو آرام پہنچائیے اور کھلی ہوا میں کافی دیر تک ہلکی ورزش کریں۔-3 اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ جب ابھی تھوڑی سی بھوک باقی ہو، کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں۔جان ڈی راک فیلر ان اصولوں پر عمل کرنے لگا اور غالباً انہی نے اس کی جان بچائی، وہ کام سے سبکدوش ہوگیا۔ اس نے گولف کھیلنا سیکھا۔ وہ باغبانی میں دلچسپی لینے لگا اور اپنے پڑوسیوں سے ہنسی مذاق کرنے لگا۔ وہ مختلف قسم کے کھیل کھیلنے اور گیت گنگنانے لگا۔ لیکن اس نے اس کے علاوہ بھی کچھ کیا۔ ونکلر لکھتا ہے،''اذیت کے ایام اور بے خوابی کی راتوں کے دوران میں جان کو سوچنے کا موقع ملا۔ وہ دوسرے لوگوں کے متعلق سوچنے لگا۔ اس نے فوراً سوچنا چھوڑ دیا کہ وہ کس قدر روپیہ کما سکتا ہے، اس کے بجائے وہ سوچنے لگا کہ وہ روپے کے عوض کس طرح انسانی مسرت خرید سکتا ہے۔