اتوار، 10 اگست، 2025

راک فیلر-جو مرتے مرتے بھی جی گیا حصہ اول





  جان ڈی راک فیلر سینئر 33 سال کی عمر میں لکھ پتی بن چکا تھا اور 43 سال کی عمر میں اس نے دنیا میں تیل کی سب سے بڑی کمپنی، سٹینڈرڈ آئل کمپنی، قائم کرلی تھی۔لیکن 53 ویں سال وہ کہاں تھا؟ 53 سال کی عمر میں پریشانیاں اس پر غالب آچکی تھیں۔ تفکرات اور اعصاب زدگی کی زندگی اس کی صحت کا پہلے ہی دیوالیہ نکال چکی تھی۔ اس کے ایک سوانح نگار جان کے ونکر کے الفاظ میں،''53 سال کی عمر میں وہ ایک حنوظ شدہ نعش کی مانند نظر آتا تھا۔'' 53 سال کی عمر میں ہاضمے اور معدے کی عجیب و غریب اور پراسرار بیماریوں نے راک فیلر پر حملہ کیا اور پلکوں سمیت اس کے سارے بال گرادیئے۔ صرف اس کی بھنوؤں کی ہلکی سی لکیر باقی رہ گئی۔ ونکر لکھتا ہے،''اس کی حالت اس قدر خطرناک ہوچکی تھی کہ وہ صرف دودھ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔''عالم شباب میں راک فیلر کی جسمانی بناوٹ آہنی تھی۔


 اس نے ایک زراعتی فارم پر پرورش پائی تھی اور اس زمانے میں اس کے بازو تنومند، اس کی کاٹھی مضبوط اور سیدھی، اس کی ٹانگیں لکڑی کی طرح سخت اور چال میں چستی چالاکی اور بندر کی سی پھرتی تھی۔ لیکن صرف53 سال کی عمر میں، جب اکثر لوگ بھرپور صحت مند زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، اس کے کندھے خمیدہ ہوگئے اور اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوگئی۔ حالت اس قدر خطرناک ہوچکی تھی کہ وہ صرف دودھ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوگیاراک فیلر 53 سال کی عمر میں موت کے قریب پہنچ کر بھی وہ 97 برس کیسے زندہ رہا؟ اس کا ایک دوسرا سوانح نگار جان۔ ٹی۔ فلین کہتا ہے،''جب اس نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو اسے ایک بوڑھا آدمی نظر آیا۔ مسلسل کام، پیہم پریشانیاں، بے خواب راتیں، گالیوں کی بوچھاڑ، ورزش اور آرام کی عدم موجودگی اپنا رنگ دکھانے لگے۔'' انہوں نے اس کے جسم کا رس نکال لیا اور اسے گھٹنوں پر جھکا دیا۔



 وہ اب دنیا کا امیر ترین شخص تھا۔ پھر بھی اسے ایسی خوراک پر گزر بسر کرنی پڑتی جسے ایک بھکاری بھی ٹھکرا دے۔ اس کی ہفتہ وار آمدنی 10 لاکھ ڈالر تھی۔ لیکن جو کچھ وہ کھاتا تھا، اس پر ایک ہفتے میں غالباً دو ڈالر سے زیادہ خرچ نہیں آتا تھا اور وہ کھاتا کیا تھا؟ دودھ اور چند بسکٹ۔ ڈاکٹروں نے اسے صرف یہی کھانے کی اجازت دی تھی۔ اس کی جلد کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اسے سوائے معجزاتی علاج کے دنیا کی ایسی کوئی چیز نہ بچا سکتی تھی، جسے پیسوں سے خریدا جا سکتا ہو۔یہ سب کیسے ہوا؟ پریشانیاں، تفکرات، صدمات، دباؤ اور کشمکش کی زندگی اور اعصابی تناؤ اس چیز کے ذمہ دار تھے۔ سچ پوچھیے تو وہ موت کی آغوش میں پہنچ چکا تھا۔ 23 سال کی عمر میں بھی راک فیلر اتنے آہنی عزم کے ساتھ اپنے نصب العین کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ اس کے جاننے والوں کے الفاظ میں ''اچھے سودے کی خبر کے سوا کوئی چیز اس کے چہرے کو گداز نہ کرسکتی۔'' جب اسے کہیں سے معقول منافع ہوتا تو وہ ایک عجیب و غریب قسم کا جنگی رقص کرتا۔


 اپنی ٹوپی اتار کر فرش پر پھینک دیتا اور ناچنے لگتا۔ لیکن اگر اسے خسارہ ہوتا تو وہ بیمار پڑجاتا۔ اس نے ایک دفعہ گریٹ لیکس کے راستے 40 ہزار ڈالر کا اناج ایک دخانی جہاز پر باہر بھیجا۔ اس کا بیمہ نہیں کرایا گیا تھا کیونکہ رقم ''بہت زیادہ'' تھی۔ کتنی؟ ایک سو پچاس ڈالر۔ اس رات جھیل ایری میں خوفناک طوفان آیا۔ راک فیلر جہاز کے تباہ ہونے کے متعلق اس قدر متردد اور پریشان تھا کہ جب اس کا شریک کار جاج گارڈنر صبح کے وقت دفتر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ راک فیلر نہایت بے قراری سے فرش پر ٹہل رہا ہے۔جلدی کرو،'' اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا،''اگر دیر نہ ہوگئی ہو تو جلد از جلد جہاز کا بیمہ کرا لو- گارڈنر شہر کی طرف بھاگا اور بیمہ کرا آیا۔ لیکن وہ واپس دفتر پہنچا تو اس نے راک فیلر کو پہلے سے بھی بدترین حالت میں دیکھا۔ گارڈنر کی عدم موجودگی میں ایک تار آیا تھا کہ جہاز لنگر انداز ہوچکا ہے اور طوفان سے بالکل صحیح سلامت نکل آیا ہے۔


اس کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی کیونکہ اس نے ڈیڑھ سو ڈالر خوامخواہ ضائع کردیئے تھے۔ اسے اس ''نقصان عظیم'' کا اس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ شدید بخار میں مبتلا ہوگیا اور اسے گھر جاکر آرام کرنا پڑا۔جب ڈاکٹروں نے راک فیلر کی زندگی بچانے کی ذمہ داری قبول کی، تو انہوں نے اسے تین اصول بتائے، جن پر وہ آخری دم تک حرف بہ حرف عمل کرتا رہا اور وہ اصول مندرجہ ذیل ہیں1 فکر و تردد سے گریز کریں۔ کسی حالت میں بھی کسی چیز کے متعلق پریشان نہ ہوں۔-2 اپنے جسم کو آرام پہنچائیے اور کھلی ہوا میں کافی دیر تک ہلکی ورزش کریں۔-3 اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں۔ جب ابھی تھوڑی سی بھوک باقی ہو، کھانے سے ہاتھ کھینچ لیں۔جان ڈی راک فیلر ان اصولوں پر عمل کرنے لگا اور غالباً انہی نے اس کی جان بچائی، وہ کام سے سبکدوش ہوگیا۔ اس نے گولف کھیلنا سیکھا۔ وہ باغبانی میں دلچسپی لینے لگا اور اپنے پڑوسیوں سے ہنسی مذاق کرنے لگا۔ وہ مختلف قسم کے کھیل کھیلنے اور گیت گنگنانے لگا۔ لیکن اس نے اس کے علاوہ بھی کچھ کیا۔ ونکلر لکھتا ہے،''اذیت کے ایام اور بے خوابی کی راتوں کے دوران میں جان کو سوچنے کا موقع ملا۔ وہ دوسرے لوگوں کے متعلق سوچنے لگا۔ اس نے فوراً سوچنا چھوڑ دیا کہ وہ کس قدر روپیہ کما سکتا ہے، اس کے بجائے وہ سوچنے لگا کہ وہ روپے کے عوض کس طرح انسانی مسرت خرید سکتا ہے۔

 

لال سوہانرا نیشنل پارک، صوبہ پنجاب ضلع بہاولپور

 




  کیا  نہیں ہے میرے وطن میں شور مچاتے دریا   گنگناتے آبشار فلک بوس پہاڑ'گھنے جنگل  طویل ساحل بس اگر کمی ہے تو ایمان دار لوگوں کی جو اس وطن کوسنوار دیں -چلئے اس موضوع کو پھر کبھی دیکھیں گے ابھی تو میں بھاولپور کے ضلع میں واقع ایک خوبصور ت پارک  کی بابت بتانا چاہوں گی اس پار ک کا نام ہے  لال سوہانرا نیشنل پارک،یہ صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولپور میں32کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔اس کا رقبہ ایک لاکھ24ہزار480ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔ بتایا جاتا ہے کیونکہ اس میں مقامی آبادی بھی ہے ،صحرائی اور میدانی علاقے بھی ہیں اور گھنے جنگل اور بنجر علاقے بھی۔نہریں بھی ہیں اور بے آباد  ویرانے بھی۔بتایاجاتا ہے کہ لال سوہانرا نیشنل پارک کو کالے ہرن کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا تھا جو اس علاقے سے نا پید ہوچکے تھے۔ ورلڈ وائلڈ فنڈ فارنیچر کی اپیل کے جواب میں امریکہ سے جنگلی حیات کے حامیوں نے دس کالے ہرنوں کو ان کے اصل مسکن چولستان کے صحرائی علاقے میں بھیجا     



:سفاری پارک:یہ حقیقت بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی فضائیہ کا ایک افسر بہاولپور سے سیاہ ہرنوں کا تحفہ امریکہ لے گیا تھا اور اب وہاں ان کی تعداد 50ہزار سے زائد ہوچکی ہے جبکہ پاکستان میں اندھا دھند شکار کے باعث اس کی نسل ختم ہو گئی ہے۔ دراصل امریکہ سے کالے ہرنوں کا تحفہ امریکی فضائیہ کے افسر کو دئیے گئے تحفے کی واپسی تھی۔ ورلڈ وائلڈ فنڈ کی ایک اور اپیل کے جواب میں ہالینڈ کے بچوں نے اپنا جیب خرچ چندے میں دے کر12فٹ بلند اور70کلومیٹر طویل تار کی جالیاں تحفے میں دیں تاکہ کالے ہرن کی قیمتی اور نایاب نسل کی مزید افزائش کے لئے لال سوہانرا نیشنل پارک میں حفاظتی جنگلے بنائے جاسکیں۔ چنانچہ اس عطیے سے 18 کلو میٹر، 9کلومیٹر اور 8 کلو میٹر کے رقبے کے چار بڑے انکلوژر بنائے گئے۔ ان محفوظ باڑوں میں کالے ہرن کی تعداد اپریل1996 ء میں325 کے لگ بھگ تھی۔سیاہ ہرن کی افزائش نسل گھنے جنگل میں ممکن نہ تھی اس طرح شکاری ان کو ہر گز نہ چھوڑتے۔ حالانکہ انکلوژر میں بھی وہ شکاریوں کے دست برد سے محفوظ نہیں ہیں



حکومت پنجاب نے منصوبہ بنایاہے کہ یہاں معیاری قسم کا سفاری پارک قائم کیاجائے یہاں شیروں کے لیے قدرتی ماحول بنایاجائے گا تاکہ سیاح شیروں کو ان کے اصلی مسکن میں قریب سے دیکھ سکیں اس کے علاوہ نیپال سے لائے گئے گینڈوں کے لیے نسل میں اضافہ کے لیے ایک مرکز بھی ہے جو پاکستان میں معدوم ہے تقریباََ400 سے زائد جنگلی جانوروں اور پرندوں کی نسل افزائش کے لیے کام کیاجا رہاہے مثلاََ کالا ہرن، جو پاکستان میں خطرناک حد تک کم ہو رہاہے۔ یہ پارک آبی حیا ت سے مالا مال ہے  -ان میں سے کچھ کا تعارف اس طرح ہےیہ پارک جنگلی حیات (جنگلی پرندوں اور جنگلی جانوروں) سے بھر پور ہے۔ جنگلی بلی،خرگوش،تلور،ہرن، چھپکلیاں، سانپ، کوبرا، عقاب،شاہین،گدھیں،روسی عقاب،چڑیاں،الو یہاں بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں،اس کے علاوہ تالابوں اور جھیلوں میں پانی کےجانور(مچھلیاں،کچھوے) بھی پائے جاتے ہیں یہاں تقریباََ 10 ہزار سے 30 ہزار تک آبی پرندوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے

 


لیکن اس طرح پھر بھی ان کی حفاظت اور دیکھ بھال نسبتاً آسان ہو گئی ہے۔ سیاہ ہرن کو ان وسیع و عریض انکلوژرز میں چنکاراGazellاور نیل گائے کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اس پارک میں جنگلی حیات کی اقسام میں کالے ہرن کے علاوہ ہرن کے سہیہ، بھیڑیا، لومڑی، صحرائی لومڑی، گورپٹ، مشک بلاؤ،سرمئی نیولا،قراقال،بلی،صحرائی بلی،کلغی والاخارپشت، بڑے خرگوش، کالا تیتر، بھورا تیتر، کونک، بڑااُلو،چتی دار چھوٹا الو، کچھوے،چتی سانپ، سنگھاڑاور کھگا مچھلی شامل ہیں۔لال سوہانرا نیشنل پارک میں داخل ہوں تو ایک پختہ سڑک دور تک بل کھاتی جاتی ہے۔ تھوڑے فاصلے پر بہاول نہر ایک پیڈ ریگولیٹر کی مدد سے کئی شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے جس کے بائیں جانب چلڈرن پارک ہے جہاں جھولوں اور سبزہ زار کے علاوہ مختلف حیوانوں کے جنگلے ہیں جن میںہندوستان نسل کے گینڈے، چنکارا، مختلف پرندے اور بندروغیرہ رکھے گئے ہیں۔

ہفتہ، 9 اگست، 2025

ہائے ! پیاسی ہے سکینہ

 




 


سرکا دو عالم صلی اللہ علیہ واِ لہ وسلم  کی آنکھوں کی ٹھنڈک بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور اما م حسین علیہ السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک بی بی سکینہ ہیں ،حبیبِ خدا، رحمت العالمین، محمد مصطفٰی    صلی اللہ علیہ واِ لہ وسلم  کے چھوٹے اور لاڈلے نواسے ، علی و فاطمہ (س) کے دل کا چین، نورِ عین شافیِ محشر حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ سکینہ میری نمازِ شب کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔بی بی سکینہ (س) ۲۰ رجب ۵۶ ھجری میں اس جہانِ فانی میں متولد ہوئیں سکینہ کے معنی ہیں قلبی و ذہنی سکون۔ پر یہ بچی سکون سے نہ رہ سکی ناز و نعم سے پلی، باپ کے سینے پر سونے والی اپنی پھوپیوں کی چہیتی                                            پیاری سکینہ - سال ہی میں یتیم ہو گئیں   ہمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشور کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی چچا پانی لائیں گے۔ معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے چچا عباس تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے۔عصرِ عاشور سے پہلے جنابِ عباس کی شہادت کے بعد سکینہ خاموش ہوگئی اور پھر موت کے وقت تک پانی نہ مانگا کیونکہ سکینہ کو آس تھی کہ چچا عباس ہی پانی لائیں گے تاریخ گواہ ہے کہ شہادتِ جنابِ عباس علمدار   کے بعد العطش العطش (ہائے پیاس ہائے پیاس) کی صدائیں نہیں آئیں۔مقتل میں لکھا ہے کہ جب ۱۱محرم 61 ھجری کو آلِ اطہار کو پابندِ سلاسل کر بازاروں سے گزارا گیا و اس معصوم کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور ۔۔ پھر زندانِ شام کہ آخری آرامگاہ بھی وہی قیدخانہ بن گیا۔ ایک روز جب بی بی سکینہ اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور بہت آہ و بکا کیا ۔  تمام بیبیاں رو رہی تھیں یزید نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین ابنِ علی کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔


  یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین (ع) زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ، پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین علیہ السلام  زندان میں لایا گیا ۔۔۔ اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں۔سید سجاد ، عابدِ بیمار طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین کے سر کو لینے آگے بڑھے سکینہ کی گود میں جب بابا کا سر آیا بے چینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیں۔بابا ۔بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔ بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے  ۔ بابا ہمیں بازاروں میں گھمایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔  پیاسی سکینہ روتی رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج ھم ہوتی گئی ۔ ۔ پھربالآخر خاموشی چھاگئی  ۔ سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا:                      انا للہِ وانا الیہِ راجعون سکینہ ہمیشہ کے لیئے خاموش ہو گئی شام میں یزید کے محل کے ساتھ اس چھوٹے سے قید خانہ میں ہی اس معصوم بچی کو اسی خون آلود کرتے میں دفنا دیا گیا جو لوگ شام میں زیارات کے لیے جاتے ہیں اس بی بی کے مزار پر ضرور دیا جلاتے ہیں


۔اے پروردگار اس معصوم سکینہ  کی یتیمی کے صدقے کسی بچی کو اس کم سنی میں یتیم نہ کرنا ۔۔آمین۔روائت ہے کہ شام غریباں میں زوجہء حر کچھ اناج اور پانی لے کر لٹے ہوءے قافلے کو دینے آئین اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ایک کوزہ پانی بی بی سکینہ کو دیا تو وہ کوزہ لے کر مقتل کی جانب جانے لگیں -بی بی زینب نے آگے بڑھ کر بی بی سکینہ کو روک کر پوچھا کہاں جا رہی ہو  تو بی بی سکینہ نے کہا پھوپھی اماں آ پ ہی نے تو کہا پہلے چھوٹوں کو پانی پلاتے ہیں میرا اصغر بھی پیا ساہے میں اس کو پانی پلانے جا رہی ہوں -ہائے سکینہ پیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینہ بچوں کا تمہیں واسطہ یہ بھول نہ جانا پیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینہ یہ سوچ کے جی -کھول کے تم اشک بہاناپیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینپیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینہ ہاۓ مجلس جہاں ہوگی وہاں ارے آتی ہے سکینہارے پانی نہ ملا آج بھی پیاسی ہے سکینہ پیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینہاللہ کرے آۓ کبھی ایسا زمانہ ہو شام کے زنداں کی طرف آپ کا جاناارے پھٹ جاۓ گا دل دیکھ کے وہ غم کا ٹھکانہارے بے حال ہوئ قبر میں ارے سوتی ہے -سکینہ ارے پانی نہ ملا آج بھی پیاسی ہے سکینہ پیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینہ'ارے یوں جانب دریا گۓ عباس دلاوراور دریا سے مشکیزہ بھرا با دل مضطردریا کی ہر اک موج یہ کہتی تھی تڑپ کرہے تیسرا دن ہاۓ ارے تڑپتی ہے سکینہارے پانی نہ ملا آج بھی پیاسی ہے سیکنہ پیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینہ'ارے شام آگئی جب چھانے لگا بن میں اندھیرازینب نے کیا بھائ کے لاشے پہ یہ نوحہ - کیا تم نے سکینہ کو کہیں دیکھا ہے بھیا-اک کونے میں سہمی ہوئ ارے بیٹھی ہے سکینہ  ارے پانی نہ ملا آج بھی پیاسی ہے سکینہ پیاسی ہے سکینہ ہاۓ پیاسی ہے سکینہ

جمعرات، 7 اگست، 2025

جوش ملیح آبادی اردو ادب کا ایک مظبوط ستون

 

 ۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔ نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔   حسین اور انقلاب“  جو 68بندوں پر مشتمل ہے۔ اس مرثیے کا آغاز حیات کی ناپیداری کے فسانے، آہ وفغاں اور تلخیِ حیات کی ہولناک داستان کے بیان سے ہو تا ہے- دسمبر 1898ء کو اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔جوش ملیح آبادی کا نام اردو ادب کا بلند پایہ نام ہے-تعارف جوش ملیح آبادی 5دسمبر 1898ء کو ملیح آباد میں پیدا ہوئے، اصل نام شبیر حسن تھا۔ 1914میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ چھ ماہ ٹیگور یونیورسٹی میں گزارے،1916ء میں والد کی ناگہانی وفات کی وجہ سے کالج کی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر، دادا محمد احمد خاں احمد اور پردادا فقیر محمد خاں معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔شعر کہنے کا آغاز کیا تو عزیز لکھنوی سے اصلاح لی۔ دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت سے فنی زندگی کا آغاز کیا ، کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آگئے اور رسالہ ’’کلیم‘‘ جاری کیا۔



 آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے، سرکاری رسالہ ’’آج کل‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔جوش نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور انہیں ’’شاعرانقلاب‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ جوش کے شعری مجموعوں میں ’’شعلہ و شبنم‘‘،’’جنون و حکومت‘‘،’’فکر ونشاط‘‘،’’سُنبل و سلاسل‘‘،’’حرف و حکائیت‘‘، ’’سرود و خروش‘‘ اور’’ عرفانیاتِ جوش‘‘ قابل ذکر ہیں۔نثر میں اُن کی خود نوشت’’یادوں کی برات‘‘ مقبول ہوئی۔نظم ’’حسین اور انقلاب‘‘ لکھنے پر انہیں ’’شاعرِانقلاب‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ جوش ملیح آبادی  کا اصل نام  شبیر حسن خان تھا،آپ1894 یا      1898میں ملیح آباد، ہندوستان میں نوابوں کے خاندان میں پیدا ہوئے. آپ   نے عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی تعلیم ابتدائی طور پر گھر پر ہی حاصل کی اور اس دور کی روایات کے مطابق سینئر کیمبرج 1914 میں کیا۔ اگرچہ جوش نے بعد میں عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ 1916 میں ان کے والد بشیر احمد خان کی موت نے انہیں کالج کی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا۔ریاست حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران انہوں نے حیدرآباد کے نظام (حکمران) کے خلاف ایک طویل نظم لکھی جس کے نتیجے میں جوش کو حیدرآباد سے جلاوطن کردیا گیا۔



 وہ ایک بے خوف، دلیر اور بے باک انسان  تھے اس لیے انھوں نے اپنے لبرل خیالات کے اظہار میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ فوراً بعد، انہوں نے کلیم نامی رسالہ قائم کیا، جس میں انھوں نے ہندوستان میں برطانوی راج سے آزادی کے حق میں کھل کر مضامین لکھے۔ ان کے انقلابی افکار اور خیالات کا اظہار ان کی شاعری میں ہوا،خاص طور پر ان کی نظم  (حسین اور انقلاب) کے حوالے سیجس نے ان کے انقلابی افکار اور تصورات کی تصدیق کی۔جیسے جیسے ان کی شہرت پھیلی، انہیں شاعر انقلاب کہا جانے لگا۔ اس کے بعد، وہ آزادی کی جدوجہد میں زیادہ فعال طور پر شامل ہو گئے اور اس دور کے کچھ سیاسی رہنماؤں، خاص طور پر جواہر لال نہرو (بعد میں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم) کے قریب ہو گئے۔جوش 1956 میں پاکستان آگئے تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہندو اکثریت والے ہندوستان میں اردو کا کوئی مستقبل نہیں، اردو زبان سے ان کی محبت نے انہیں ایک ایسے ملک میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور کیا جہاں اس زبان کا روشن مستقبل تھا۔ ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ا ر جوش کے پرستار تھے، لیکن انہوں نے نہرو کی مخالفت کے باوجود پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیاتھا۔پاکستان منتقل ہونے کے بعدجوش ملیح آبادی مسلسل شاعری لکھنے اور ادبی کانفرنسوں کے انعقاد میں شامل رہے۔ معروف دانشور اور ادبی نقاد پرویز ہودبھائی نیجوش ملیح آبادی کے بارے میں کہا تھا کہ شاعری جوش کے قلم سے اس طرح بہتی ہے جیسے چشمے سے پانی۔جوش فطرتاً باغیانہ تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے اور زندگی بھر دولت کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف ہر فورم پر اپنی تحریروں میں زبردست طریقے سے سرمایہ داروں کی مذمت کرتے رہے۔



جوش کے الفاظ کا انتخاب ایسا تھا کہ ان کی اردو نثر یا شاعری پڑھتے ہوئے تعریف  ہی کی جا سکتی ہے، کیونکہ ان کے پاس اردو الفاظ کا خزانہ تھا۔ہندوستان سے آپ کے پسندیدہ شعرا اور لکھاریوں میں کنور مہندر سنگھ بیدی، فراق گورکھپوری، ساحر لدھیانوی اور کرشن چندرتھے۔وہ ایک نرم دل اور ہمدرد دل کے مالک تھے اور معاشرے کے غریب طبقے کے دکھوں اور پریشانیوں سے باخبررہا کرتے تھے، ملک کے پسماندہ حالات اور معاشرے کے امیر طبقے کے لاتعلق رویوں سے رنجیدہ ہوا کرتے  تھے۔جوش زندگی سے بھرپور تھے اور زندگی کو قدرت کا سب سے قیمتی تحفہ مانتے تھے۔آپ نیکہاتھا کہ اردو زبان میں گرامر کی سنگین خلاف ورزیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ آپ علاقائی زبان کے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں لیکن آپ کو گرامر کا خیال رکھنا چاہیے لسانی بگاڑ ناخواندگی کی وجہ سے ہے۔ یونیورسٹی کی ڈگری نوکری کی التجا کرنے والے بھکاری کے پیالے سے زیادہ نہیں۔علم اور علم اب صرف پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے دماغ کو پالنے کے لیے نہیں۔وہ مزیدکہتے ہیں کہ  میں سچ بولتا ہوں اور سچ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ایک خطرناک چیز ہے۔ لیکن میں نے اپنے نظریات اور اپنے نظریے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔جوش نے ایک بار فیض پر تبصرہ کیا تھا، ’’میں اردو شاعروں کی پیش گوئی کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتا،وہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں صرف تین چار اچھے شاعر دیکھے ہیں اور فیض ان میں سے ایک ہیں۔جوش کو میر تقی میر کے بعد اردو زبان کی لغت اور ذخیرہ الفاظ میں بھرپور اضافے کے لیے دوسرے نمبر پر سمجھا جاتا ہے۔جوش نے ادب کی ہر صنف میں خود کو بہترین ثابت کیا۔ اپنے ابتدائی سالوں میں انہوں نے خوبصورت غزلیں لکھیں تاہم بعد کی زندگی میں انہوں نے نظم کو اپنی پسندیدہ صنف کے طور پر منتخب کیا۔



جوش نے اپنی مرثیہ نگاری کے ذریعے ایک مقام بنایا، وہ اس صنف کو جدید بنانا چاہتے تھے۔انہوں نے ایک اندازے کے مطابق اپنی زندگی میں 100,000 سے زیادہ خوبصورت اشعار اور 1,000 سے زیادہ رباعیات لکھیں۔ ان کی سوانح عمری ''یادوں کی برات'' کو اردو میں اب تک کی بہترین کتابوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ بے تکلفانہ انداز میں لکھی گئی ہے۔ماہرالقادری جوش کے بارے میں کہتے ہیں، میرے محدود علم کے مطابق کوئی بھی بڑا شاعر اپنی زندگی کو قلمبند کرنے میں اتنا صاف گو نہیں ہوا۔وہ شاید واحد جنوبی ایشیائی شاعر ہیں جنہوں نے اپنی خدمات کے لیے پدم بھوشن (1954) اور ہلال امتیاز (2013) جیتا ہے۔اردو ادب کا یہ درخشاںستارہ 22 فروری 1982 کو انتقال کر گیا۔ اردو شاعری کے حوالے سے ان کی خدمات ادبی شائقین کے تخیل کو ہمیشہ روشن کرتی رہیں   //جوش کو زبان پر زبردست قدر ت حاصل تھی، اس لیے مراثی میں بھی ان کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ یو ں تو جوش نے کئی مراثی لکھے ہیں لیکن ان کا مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ ایک الگ انداز کا مرثیہ ہے۔

 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔



زیارت اربعین مومن کی نشانیوں میں ہے۔

 

 


20 صفر کا دن وہ دن ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم شام سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹے، اور اسی روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے صحابی جابر ابن عبد اللہ انصاری، سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی نیت سے مدینہ سے کربلائے معلی پہنچے اور جابر وہ پہلی شخصیت ہے جنہوں نے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کا شرف اپنے نام کیا۔ (رضی الدین علی بن یوسف مطہر حلی، العدد القویہ، ص 219)شور کے دن نواسۂ رسول اور آپ کے اصحاب کی شہادت کے بعد گیارہ محرم کو یزیدی کارندے اہلبیت رسول کو اسیر کرکے کوفہ اور وہاں سے شام لے گئے تھے ۔ اس سفر اور اسیری کے دوران جناب سید سجاد اور جناب زینب کے خطبوں نے شامیوں میں رسول و آل رسول کے سلسلے میں بیداری کی جو فضا پیدا کردی تھی اس سے مجبور ہوکر یزید کو اسیروں کی رہائی کا حکم دینا پڑا تھا اور قید سے رہائی کے بعد جس دن یہ لٹا ہوا خاندان کربلا پہنچا تھا وہ دن اربعین کا دن تھا۔ یہی وہ دن تھا جب پہلی بار صحابی رسول جناب جابر ابن عبداللہ انصاری عطیہ بن سعید کے ہمراہ کربلا پہنچے تھے ۔ بعض علما کا خیال ہے کہ یہ واقعہ دوسرے سال کے اربعین کا ہے ۔زیارت اربعین :حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مومن کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ 



اربعین کی عظیم  ریلیاں-آئمہ معصومین (ع) کی زیارت اربعین پر تاکید کی بناء پر لاکھوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک، بالخصوص عراق اور ایران کے شہروں اور قصبوں سے ننگے پیر کربلا کی طرف نکلتے ہیں ۔ سن 2013 عیسوی کے اربعین میں یہ تعداد دو کروڑ سے زیادہ تھی اور اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی خطرناک حالات کے باوجود شیعوں نے زیارت اربعین کا یہ سلسلہ جاری رکھا تھا۔زیارت اربعین کو امام حسن عسکری علیہ السلام نے مؤمن کی نشانیوں میں بتایا ہے ۔ اسے واجب اور مستحب نمازوں کی صف میں قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح نماز ستون دین ہے اسی طرح  سانحۂ کربلا  اور زیارت اربعین بھی ستون دین ہے۔ انی تارک فیکم الثقلین کتاب ﷲ و عترتی ، رسول خدا کے اس قول پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کتاب الہی کا نچوڑ یا عصارہ دین الہی ہے اور عترت کا عصارہ زیارت اربعین ہے ۔



 اس زیارت میں قیام حسینی کے مقصد کو بیان کیا گیا ہے جو نبی اکرم کی رسالت کا ہدف و مقصد تھا یعنی تعلیم علم و حکمت اور تزکیۂ نفوس ۔ حسین نے بھی اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں نثار کردیا تاکہ جہالت و نادانی سے بندگان خدا کو نکال کر انہیں پاکیزہ بنا سکیں۔جس وقت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پر اور اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کر کے شام لے جایا گیا، اسی وقت سے کربلا میں حاضری کا شوق اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کا عشق ممکن ہونے سے بالکل باہر سمجھا جاتا تھا کیونکہ اموی ستم کی حاکمیت نے عالم اسلام کے سر پر ایسا گہرا سیاہ پردہ بچھا رکھا تھا کہ کسی کو یقین نہیں آ سکتا تھا کہ ظلم کا یہ پردہ آخر کار چاک ہو سکے گا اور کوئی نفاق کے اس پردے سے گزر کر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلا میں حاضری دے سکے گا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی محبت کی آگ اس طرح سے ان کے عاشقوں کے قلب میں روشن تھی کہ اموی اور عباسی طاغوتوں کی پوری طاقت بھی اسے ٹھنڈا نہ کر سکی۔


جی ہاں ! یہی محبت ہی تو تھی جو عاشق اور دلباختہ انسانوں کو کربلا تک لے گئی اور امام سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کے چالیس روز نہیں گزرے تھے کہ عشق حسینی جابر ابن عبداللہ انصاری کو کربلا کی طرف لے گیا۔ جابر جب کربلا پہنچے تو سب سے پہلے دریائے فرات کے کنارے چلے گئے اور غسل کیا اور پاک و مطہر ہو کر ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی قبر منور کی طرف روانہ ہوئے اور جب پہنچے تو اپنا ہاتھ قبر شریف پر رکھا اور اچانک اپنے وجود کی گہرائی سے چِلّائے اور بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش میں آئے تو تین بار کہا: یا حسین ! یا حسین ! یا حسین اور اس کے بعد زیارت پڑھنا شروع کی۔اربعین کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام کی تأکید:اسلامی تعلیمات میں جن اعمال کو مقدس ترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی بجا آوری پر بہت تاکید کی گئی ہے ان میں اولیائے الہی اور آئمہ معصومیں علیہم السلام کی زیارت بھی شامل ہے۔



معصومین علیہم السلام کی زیارات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو ایک خصوصی اہمیت دی گئی ہے، چنانچہ کسی بھی امام معصومؑ کی زیارت پر اتنی تأکید نہیں ہوئی جتنی کہ سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت پر ہوئی ہے۔امام صادق علیہ السلام نے ابن بکیر  جو امام حسین علیہ السلام کی راہ میں خوف و ہراس کے بارے میں بتا رہے تھے، سے ارشاد فرمایا:اما تحب ان یراک اللّٰہ فینا خائفا اما تعلم انہ من خاف لخوفنا اظلہ اللّٰہ فی عرشہ،کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ خداوند تمہیں ہماری راہ میں خوف و ہراس کی حالت میں دیکھے؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جو ہمارے خوف کی بناء پر خائف ہو، اللہ تعالی اپنے عرش پر اس کے سر پر سایہ کرے گا؟ چونکہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو امام حسین علیہ السلام کے عشق سے پر نور کیا ہے اور عشق ہر صورت میں عاشق کو دوست کی منزل تک پہنچا ہی دیتا ہے لہذا عاشقان حسینی نے پہلے اربعین سے ہی اموی ستم کی حکمرانی اور ہر خفیہ اور اعلانیہ دباؤ کے باوجود سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی راہ پر گامزن ہوئے اور آج تک ہر مسلمان مرد اور عورت کی دلی آرزو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے۔

بدھ، 6 اگست، 2025

ایک درویش سپاہی ابراہیم تراورے

 ا

ابراہیم تراورے نے  عنان حکومت سنبھالتے ہی اپنی قوم سے  خطاب میں کہا 'یاد رکھو اگر غلامی کی زنجیریں توڑ نا ہیں تو ان بیگانے آقاوں سے جان چھڑانی ہو گی 'یہ تم کو ہتھیار صرف اس لئے دیتے ہیں کہ تم اپنے ہی ہم وطنوں کے گلے کاٹتے رہو اور یہ سکون سے تمھاری معدنیا ت کی دولت لوٹ'لوٹ کر اپنے اپنے ملکوں میں پہنچاتے رہیں  -یاد رکھو برکینا فاسو کی معدنی دولت تمھاری ہے - تمھارے ملک میں  دنیا کے سب سے قیمتی معدنی وسائل چھپے ہوئے ہیں جن میں  سونے کے ذخائر بھی شامل ہیں۔تمھارے  ملک کے اِن وسائل کی مدد سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری  کر کے یہ خود امیر ہوتے ہیں اور تم سب ننگے بدن  بھوکے بچے اور علم کی روشنی سے دور رکھے جاتے   ہو دنیا بھر کی سیاست بیوروکریسی یا بیرونی مفادات سے جڑی ہوئی اشرافیہ کے ہاتھوں میں سمٹی دکھائی دیتی ہے، تو مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان کیپٹن ان تمام روایتوں کو چیلنج کر رہا ہے۔ ابراہیم تراورے، برکینا فاسو کے 36 سالہ عبوری صدر، نے ستمبر 2022 میں اس وقت اقتدار سنبھالا جب ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اُس وقت کے رہنما پال ہینری سانڈاگو ڈامیبا کو ہٹا دیا گیا۔ آج تراورے صرف افریقہ میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں خودمختاری، بیداری، اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان کا چرچا روز بروز بڑھ رہا ہے۔ انسٹاگرام سے ٹوئٹر (ایکس) تک، ان کی تقاریر، عوامی منصوبے، اور نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کی کوششوں پر مبنی ویڈیوز لاکھوں صارفین کو متاثر کر رہی ہیں۔ ان کے نام سے جڑے ہیش ٹیگز عالمی رجحانات کا حصہ بن چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ابراہیم تراورے ہیں کون، وہ ایسا کیا مختلف کر رہے ہیں، اور آخر دنیا ان پر اتنی توجہ کیوں دے رہی ہے؟


ابراہیم تراورے ایک جرات مند اصلاح پسند کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ ان کا وعدہ تھا کہ وہ ملک میں سلامتی بحال کریں گے، قومی وقار کو بلند کریں گے، اور برکینا فاسو کو حقیقی معنوں میں خودمختار بنائیں گے۔ اب تک کے اقدامات اس وعدے کی سچائی کی جھلک دکھاتے ہیں۔ انہوں نے صرف الفاظ نہیں بلکہ عملی پالیسیاں اپنائی ہیں جن کا مقصد غریب اور پسے ہوئے عوام کو مرکز میں لانا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے دو سو مساجد تعمیر کرنے کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے ترقی، تعلیم، اور صحت پر زور دیا اور کہا کہ "ہمیں مزید مساجد نہیں، بلکہ ترقی کی ضرورت ہے"۔ ان کے اس واضح موقف نے انہیں کئی حلقوں میں پسندیدگی دلائی اور کچھ حلقوں میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا، لیکن وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔انہوں نے پورے تعلیمی نظام کو فیس سے آزاد کر دیا، پرائمری سے یونیورسٹی تک تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ سرکاری اسپتالوں میں زچگی کو مفت کر دیا گیا تاکہ ماؤں کی شرح اموات میں کمی آئے اور صحت کی سہولت ہر کسی کی دسترس میں ہو۔ کمزور اور بے گھر افراد کے لیے حکومتی تعاون سے مکانات کی فراہمی کا منصوبہ بھی جاری ہے۔ ان تمام پالیسیوں کا مقصد صرف امداد نہیں بلکہ وقار کے ساتھ جینے کا حق دینا ہے۔ٹیکنالوجی اور خود انحصاری کے میدان میں بھی برکینا فاسو نے پہلا سولر پاور سے چلنے والا مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرک وہیکل متعارف کرایا، جسے چینی کمپنیوں کے تعاون سے تیار کیا گیا۔ یہ علامت ہے کہ ملک صرف ماضی کے زخم نہیں سہلا رہا، بلکہ مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔



ثقافتی بیداری بھی تراورے کی حکومت کا اہم جز ہے۔ برکینا فاسو کی عدالتوں میں اب وکلاء یورپی طرز کی  گاؤنز کی بجائے افریقی لباس میں پیش ہوتے ہیں۔ یہ فیصلہ صرف علامتی نہیں بلکہ اس سوچ کی عکاسی ہے کہ ثقافت کو خود اعتمادی کے ساتھ اپنانا ہی اصل آزادی ہے۔ ہم جنس شادی پر پابندی کا اعلان، جسے انہوں نے "روایتی افریقی اقدار کے تحفظ" کے طور پر بیان کیا، دنیا بھر میں مختلف آراء کو جنم دے چکا ہے۔ کچھ اسے ثقافتی خودمختاری کہتے ہیں، جبکہ کچھ حلقے اسے انسانی حقوق کے زاویے سے دیکھتے ہیں بین الاقوامی تعلقات میں بھی تراورے ایک نیا رخ دکھا رہے ہیں۔ برکینا فاسو نے فرانس اور امریکہ سے فاصلہ اختیار کر کے روس کے ساتھ دفاع، تعلیم، اور ترقیاتی شعبوں میں شراکت داری قائم کی ہے۔ ملک میں روسی افریقی کور کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں تاکہ ممکنہ بغاوتوں یا تخریب کاری کی کوششوں سے نمٹا جا سکے۔ ساتھ ہی، مالی اور نائجر کے ساتھ مل کر ایک نیا مالیاتی اتحاد قائم کیا گیا ہے تاکہ سی ایف اے فرانک سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے جو اب بھی فرانسیسی خزانے سے جڑا ہوا ہے۔



ان اقدامات کے نتیجے میں برکینا فاسو کے وہ ماہرین، انجینئرز، اور سائنسدان جو بیرون ملک مقیم تھے، واپس آ کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ نئے STEM اسکول، روس کے ساتھ علمی تعاون، اور سائنسی ترقی کی نئی راہیں ملک کو خطے میں ایک جدت انگیز مرکز بنانے کی طرف گامزن کر رہی ہیں۔تجزیاتی سطح پر دیکھا جائے تو تراورے کا ابھار صرف ایک مقامی انقلاب نہیں بلکہ براعظم افریقہ میں ازسرِ نو شعور کی بیداری ہے۔ ان کی قیادت کو کچھ لوگ کوامی نکرومہ، تھامس سنکارا، اور پیٹریس لوممبا کی فکری وراثت کا تسلسل سمجھتے ہیں، جو ایک آزاد اور متحد افریقہ کا خواب دیکھتے تھے۔ دنیا کے کئی خطے اب ایک کثیر قطبی عالمی نظام کی جانب بڑھ رہے ہیں، جہاں مغرب کا غلبہ تنقید کی زد میں ہے اور نئی شراکت داریاں عالمی سفارتکاری کو نئی جہت دے رہی ہیں۔


بعض حلقے تراورے کو ایک ولولہ انگیز رہنما مانتے ہیں جو افریقہ کو بااختیار بنا رہے ہیں، جبکہ کچھ انہیں ایک سخت گیر فوجی حکمران تصور کرتے ہیں جن کی پالیسیاں ملک کو تنہائی میں دھکیل سکتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کی شخصیت نے دنیا کو متوجہ کیا ہے اور افریقہ کے نوجوانوں کو ایک نئی امید دی ہے۔حال ہی میں ایک اور ممکنہ بغاوت کی افواہوں کے بعد دنیا بھر میں تراورے کے حق میں مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ گھانا، گیمبیا، برطانیہ، اور امریکہ سمیت کئی ممالک میں عوام سڑکوں پر نکلے اور ان کے خلاف کسی بھی سازش کے خلاف آواز بلند کی۔ کچھ پوسٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ لوگ خود ان کے قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہیں تاکہ ان کی حفاظت کر سکیں۔ یہ سیاست نہیں، بلکہ عوامی طاقت کی علامت ہے۔ابراہیم تراورے صرف برکینا فاسو کے صدر نہیں بلکہ ایک نئے افریقی عہد کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی، بیباکی، اور روایت شکن سوچ نے عالمی سیاسی منظرنامے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ لیکن طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اندرونی استحکام، بین الاقوامی دباؤ، اور طویل مدتی قیادت کے امتحان میں کیسے پورا اُترتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ افریقہ دیکھ رہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے، اور ابراہیم تراورے سب کی توجہ کا مرکز ہیں۔

اتوار، 3 اگست، 2025

آج کی دنیا میں سولر انرجی کا انقلاب





۔سورہ شمس میں اللہ  تعالیٰ  فرما رہا ہے'  قسم  ہے سورج کی اور اس کی  دھوپ  کی ۔ جس نعمت کا زکر خداوند عالم خود اپنے کلام بلاغت میں اعتراف کر رہاہو آئیے کچھ  سورج  اور اس کی دھوپ کے بارے میں جانتے ہیں 'سورج کی دھوپ اپنے آپ میں آلودگی سے پاک ہے اور بہ آسانی میسر ہے۔ برصغیر کے خطے  کو یہ سہولت حاصل ہے کہ سال کے 365 دنوں میں 250 سے لے کر 320 دنوں تک سورج کی پوری دھوپ ملتی رہتی ہے۔ دن میں سورج چاہے دس سے بارہ گھنٹے تک ہی ہمارے ساتھ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سورج کی گرمی ہمیں رات دن کے 24 گھنٹے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ دھواں ہے، نہ کثافت اور نہ آلودگی۔ دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی روشنی سے 36 گنا زیادہ توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ سورج کی روشنی کرنوں کی شکل میں صرف چوتھائی حصہ ہی زمین پر آتی ہے  ۔ دھوپ سے حاصل ہونے والی توانائی ”سولر انرجی“ یا ”شمسی توانائی“ کہلاتی ہے۔



 دھوپ کی گرمی کو پانی سے بھاپ تیار کرکے جنریٹر چلانے اور بجلی بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دھوپ قدرت کا عطیہ ہے، ہر روز دنیا پر اتنی دھوپ پڑتی ہے کہ اس سے کئی ہفتوں کے لیے بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ سورج زمین سے تقریباً 15کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔ چونکہ آفتاب میں صرف تپتی ہوئی گیس پائی جاتی ہے، اس لیے اس کی کثافت (Density) کم ہے۔ اس کا وزن زمین سے سوا تین لاکھ گنا زیادہ ہے۔ سورج کی باہری سطح کا درجہ ¿ حرارت تقریباً 6ہزار ڈگری سیلسیس ہے۔ اس کے مرکزی حصے کا درجہ  حرارت ایک کروڑ ڈگری Celcius ہے۔ اس کے چاروں طرف روشنی اور حرارت نکلتی رہتی ہے۔ سورج کی سطح کے فی مربع سینٹی میٹر سے پچاس ہزار موم بتیوں جتنی روشنی نکلتی ہے اور زمین سورج سے نکلی ہوئی طاقت کا محض دوسو بیس کروڑواں حصہ ہی اخذکر پاتی ہے۔ شمسی توانائی کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں۔    



بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں سولر انرجی دو سو برس پہلے ہی دریافت ہو چکی تھی لیکن چونکہ بجلی کےدوسرے زرائع میسر تھے اس لئے سولر کی جانب کسی کا دھیان بھی نہیں گیا لیکن اب پوری دنیا میں بجلی کی کھپت کے بڑھ جانے کی وجہ سے    سولر انرجی نے دنیا بھر کوخصوصاپاکستان کو اپنی جانب متوجہ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سولر انرجی لوگوں کی ضرورت سے زیادہ مالی سہولت کاری کا باعث بن گئ  اور یوں دنیا بھر میں سولر انرجی آج توانائی کے شعبے میں معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ قابل عمل حل بن کر سامنے آئ ہے-       سورج کی دھوپ اپنے آپ میں آلودگی سے پاک ہے اور بہ آسانی میسر ہے۔ برصغیر کے خطے  کو یہ سہولت حاصل ہے کہ سال کے 365 دنوں میں 250 سے لے کر 320 دنوں تک سورج کی پوری دھوپ ملتی رہتی ہے۔دن میں سورج چاہے دس سے بارہ گھنٹے تک ہی ہمارے ساتھ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سورج کی گرمی ہمیں رات دن کے 24 گھنٹے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ دھواں ہے، نہ کثافت اور نہ آلودگی۔



 دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی روشنی سے 36 گنا زیادہ توانائی حاصل ہو سکتی ہے۔پاکستان دنیا میں شمسی توانائی کے سب سے تیز ترین انقلاب کا مشاہدہ کر رہا ہے۔  چین سے سستے ترین سولر پینلز کی آمد نے پاکستان کو شمسی توانائی کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ بنا دیا ہے، جہاں 2024 میں 17 گیگاواٹ سولر پینلز درآمد کیے گئے۔ امریکی ٹی وی چینل سی این این نے پاکستان میں شمسی توانائی کے انقلاب کے حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے اوراس سٹوری کو اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ٹاپ پر جگہ دی ہے۔آج پیپلز پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کراچی سمیت غریب لوگوں کو پورے سندھ میں سستے ترین سولر سسٹم مہیا کیے جائیں گےسندھ حکومت نےعالمی بینک کے اشتراک سے 7 ہزار روپے میں پورا سولر سسٹم عوام کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق صوبے میں 2 لاکھ گھرانوں کو 7 ہزار روپے میں پورا سولر سسٹم فراہم کیا جائے گا جس سے ایک پنکھا اور 3 ایل ای ڈی بلب جلائے جاسکیں گے۔


ڈائریکٹر سندھ سولر انرجی کے مطابق صوبے کے ہر ضلع میں 6 ہزار 656 سولر سسٹم دیئے جائیں گے،منصوبے کا آغاز اکتوبر سے متوقع ہے۔ پراجیکٹ کیلئے ورلڈ بینک نے 3 کروڑ 20 لاکھ ڈالر جاری کیے ہیں ۔ واضح رہے کہ سندھ میں شمسی توانائی سے 400 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے ،منصوبے کے آغاز کے بعد پیداوارمیں مزید اضافہ متوقع سے زیادہ نرخوں نے عام لوگوں کو براہ راست اس ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا،آج شمسی توانائی سے بہت سے کام لیے جا رہے ہیں۔ چاہے کھانا پکانا ہو، پانی گرم کرنا ہو یا مکانوں کو ٹھنڈا یا گرم رکھنا ہو۔ فصلوں کے دنوں میں دھان سکھانا ہو یا پائپوں کے ذریعے سینچائی۔ ملک کے دیگر حصوں میں Solar Photovoltaic Centres قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک بجلی پیدا کرتے ہیں۔ گھروں، ڈیریوں، کارخانوں، ہوٹلوں اور اسپتالوں میں پانی گرم کرنے کے لیے ایسے آلات لگے ہیں جو 100 لیٹر سے لے کر سوا لاکھ لیٹر تک پانی گرم کر سکتے ہیں۔ شمسی چولھے کم سے کم دو کلو لکڑی کی بچت کر سکتے ہیں۔ ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ملک غیر روایتی توانائی کے میدان میں داخل ہو چکا ہے اورتوانائی حاصل کرنے کا مستقبل اب دھوپ، سمندر کے پانی اور ایک قسم کی ایٹمی توانائی جو Nuclear Fusion کہلاتی ہے جیسے ذرائع سے وابستہ ہوتا جا رہاہے۔پاکستان دنیا میں شمسی توانائی کے سب سے تیز ترین انقلاب کا مشاہدہ کر رہا ہے۔  چین سے سستے ترین سولر پینلز کی آمد نے پاکستان کو شمسی توانائی کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ بنا دیا ہے، جہاں 2024 میں 17 گیگاواٹ سولر پینلز درآمد کیے گئے۔ امریکی ٹی وی چینل سی این این نے پاکستان میں شمسی توانائی کے انقلاب کے حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے اوراس سٹوری کو اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ٹاپ پر جگہ دی ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر