جمعرات، 7 اگست، 2025

زیارت اربعین مومن کی نشانیوں میں ہے۔

 

 


20 صفر کا دن وہ دن ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم شام سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹے، اور اسی روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے صحابی جابر ابن عبد اللہ انصاری، سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی نیت سے مدینہ سے کربلائے معلی پہنچے اور جابر وہ پہلی شخصیت ہے جنہوں نے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کا شرف اپنے نام کیا۔ (رضی الدین علی بن یوسف مطہر حلی، العدد القویہ، ص 219)شور کے دن نواسۂ رسول اور آپ کے اصحاب کی شہادت کے بعد گیارہ محرم کو یزیدی کارندے اہلبیت رسول کو اسیر کرکے کوفہ اور وہاں سے شام لے گئے تھے ۔ اس سفر اور اسیری کے دوران جناب سید سجاد اور جناب زینب کے خطبوں نے شامیوں میں رسول و آل رسول کے سلسلے میں بیداری کی جو فضا پیدا کردی تھی اس سے مجبور ہوکر یزید کو اسیروں کی رہائی کا حکم دینا پڑا تھا اور قید سے رہائی کے بعد جس دن یہ لٹا ہوا خاندان کربلا پہنچا تھا وہ دن اربعین کا دن تھا۔ یہی وہ دن تھا جب پہلی بار صحابی رسول جناب جابر ابن عبداللہ انصاری عطیہ بن سعید کے ہمراہ کربلا پہنچے تھے ۔ بعض علما کا خیال ہے کہ یہ واقعہ دوسرے سال کے اربعین کا ہے ۔زیارت اربعین :حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مومن کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ 



اربعین کی عظیم  ریلیاں-آئمہ معصومین (ع) کی زیارت اربعین پر تاکید کی بناء پر لاکھوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک، بالخصوص عراق اور ایران کے شہروں اور قصبوں سے ننگے پیر کربلا کی طرف نکلتے ہیں ۔ سن 2013 عیسوی کے اربعین میں یہ تعداد دو کروڑ سے زیادہ تھی اور اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی خطرناک حالات کے باوجود شیعوں نے زیارت اربعین کا یہ سلسلہ جاری رکھا تھا۔زیارت اربعین کو امام حسن عسکری علیہ السلام نے مؤمن کی نشانیوں میں بتایا ہے ۔ اسے واجب اور مستحب نمازوں کی صف میں قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح نماز ستون دین ہے اسی طرح  سانحۂ کربلا  اور زیارت اربعین بھی ستون دین ہے۔ انی تارک فیکم الثقلین کتاب ﷲ و عترتی ، رسول خدا کے اس قول پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کتاب الہی کا نچوڑ یا عصارہ دین الہی ہے اور عترت کا عصارہ زیارت اربعین ہے ۔



 اس زیارت میں قیام حسینی کے مقصد کو بیان کیا گیا ہے جو نبی اکرم کی رسالت کا ہدف و مقصد تھا یعنی تعلیم علم و حکمت اور تزکیۂ نفوس ۔ حسین نے بھی اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں نثار کردیا تاکہ جہالت و نادانی سے بندگان خدا کو نکال کر انہیں پاکیزہ بنا سکیں۔جس وقت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پر اور اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کر کے شام لے جایا گیا، اسی وقت سے کربلا میں حاضری کا شوق اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کا عشق ممکن ہونے سے بالکل باہر سمجھا جاتا تھا کیونکہ اموی ستم کی حاکمیت نے عالم اسلام کے سر پر ایسا گہرا سیاہ پردہ بچھا رکھا تھا کہ کسی کو یقین نہیں آ سکتا تھا کہ ظلم کا یہ پردہ آخر کار چاک ہو سکے گا اور کوئی نفاق کے اس پردے سے گزر کر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلا میں حاضری دے سکے گا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی محبت کی آگ اس طرح سے ان کے عاشقوں کے قلب میں روشن تھی کہ اموی اور عباسی طاغوتوں کی پوری طاقت بھی اسے ٹھنڈا نہ کر سکی۔


جی ہاں ! یہی محبت ہی تو تھی جو عاشق اور دلباختہ انسانوں کو کربلا تک لے گئی اور امام سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کے چالیس روز نہیں گزرے تھے کہ عشق حسینی جابر ابن عبداللہ انصاری کو کربلا کی طرف لے گیا۔ جابر جب کربلا پہنچے تو سب سے پہلے دریائے فرات کے کنارے چلے گئے اور غسل کیا اور پاک و مطہر ہو کر ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی قبر منور کی طرف روانہ ہوئے اور جب پہنچے تو اپنا ہاتھ قبر شریف پر رکھا اور اچانک اپنے وجود کی گہرائی سے چِلّائے اور بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش میں آئے تو تین بار کہا: یا حسین ! یا حسین ! یا حسین اور اس کے بعد زیارت پڑھنا شروع کی۔اربعین کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام کی تأکید:اسلامی تعلیمات میں جن اعمال کو مقدس ترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی بجا آوری پر بہت تاکید کی گئی ہے ان میں اولیائے الہی اور آئمہ معصومیں علیہم السلام کی زیارت بھی شامل ہے۔



معصومین علیہم السلام کی زیارات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو ایک خصوصی اہمیت دی گئی ہے، چنانچہ کسی بھی امام معصومؑ کی زیارت پر اتنی تأکید نہیں ہوئی جتنی کہ سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت پر ہوئی ہے۔امام صادق علیہ السلام نے ابن بکیر  جو امام حسین علیہ السلام کی راہ میں خوف و ہراس کے بارے میں بتا رہے تھے، سے ارشاد فرمایا:اما تحب ان یراک اللّٰہ فینا خائفا اما تعلم انہ من خاف لخوفنا اظلہ اللّٰہ فی عرشہ،کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ خداوند تمہیں ہماری راہ میں خوف و ہراس کی حالت میں دیکھے؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جو ہمارے خوف کی بناء پر خائف ہو، اللہ تعالی اپنے عرش پر اس کے سر پر سایہ کرے گا؟ چونکہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو امام حسین علیہ السلام کے عشق سے پر نور کیا ہے اور عشق ہر صورت میں عاشق کو دوست کی منزل تک پہنچا ہی دیتا ہے لہذا عاشقان حسینی نے پہلے اربعین سے ہی اموی ستم کی حکمرانی اور ہر خفیہ اور اعلانیہ دباؤ کے باوجود سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی راہ پر گامزن ہوئے اور آج تک ہر مسلمان مرد اور عورت کی دلی آرزو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر