جمعرات، 7 اگست، 2025

جوش ملیح آبادی اردو ادب کا ایک مظبوط ستون

 

 ۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔ نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔   حسین اور انقلاب“  جو 68بندوں پر مشتمل ہے۔ اس مرثیے کا آغاز حیات کی ناپیداری کے فسانے، آہ وفغاں اور تلخیِ حیات کی ہولناک داستان کے بیان سے ہو تا ہے- دسمبر 1898ء کو اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔جوش ملیح آبادی کا نام اردو ادب کا بلند پایہ نام ہے-تعارف جوش ملیح آبادی 5دسمبر 1898ء کو ملیح آباد میں پیدا ہوئے، اصل نام شبیر حسن تھا۔ 1914میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ چھ ماہ ٹیگور یونیورسٹی میں گزارے،1916ء میں والد کی ناگہانی وفات کی وجہ سے کالج کی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر، دادا محمد احمد خاں احمد اور پردادا فقیر محمد خاں معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔شعر کہنے کا آغاز کیا تو عزیز لکھنوی سے اصلاح لی۔ دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت سے فنی زندگی کا آغاز کیا ، کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آگئے اور رسالہ ’’کلیم‘‘ جاری کیا۔



 آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے، سرکاری رسالہ ’’آج کل‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔جوش نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور انہیں ’’شاعرانقلاب‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ جوش کے شعری مجموعوں میں ’’شعلہ و شبنم‘‘،’’جنون و حکومت‘‘،’’فکر ونشاط‘‘،’’سُنبل و سلاسل‘‘،’’حرف و حکائیت‘‘، ’’سرود و خروش‘‘ اور’’ عرفانیاتِ جوش‘‘ قابل ذکر ہیں۔نثر میں اُن کی خود نوشت’’یادوں کی برات‘‘ مقبول ہوئی۔نظم ’’حسین اور انقلاب‘‘ لکھنے پر انہیں ’’شاعرِانقلاب‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ جوش ملیح آبادی  کا اصل نام  شبیر حسن خان تھا،آپ1894 یا      1898میں ملیح آباد، ہندوستان میں نوابوں کے خاندان میں پیدا ہوئے. آپ   نے عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی تعلیم ابتدائی طور پر گھر پر ہی حاصل کی اور اس دور کی روایات کے مطابق سینئر کیمبرج 1914 میں کیا۔ اگرچہ جوش نے بعد میں عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ 1916 میں ان کے والد بشیر احمد خان کی موت نے انہیں کالج کی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا۔ریاست حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران انہوں نے حیدرآباد کے نظام (حکمران) کے خلاف ایک طویل نظم لکھی جس کے نتیجے میں جوش کو حیدرآباد سے جلاوطن کردیا گیا۔



 وہ ایک بے خوف، دلیر اور بے باک انسان  تھے اس لیے انھوں نے اپنے لبرل خیالات کے اظہار میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ فوراً بعد، انہوں نے کلیم نامی رسالہ قائم کیا، جس میں انھوں نے ہندوستان میں برطانوی راج سے آزادی کے حق میں کھل کر مضامین لکھے۔ ان کے انقلابی افکار اور خیالات کا اظہار ان کی شاعری میں ہوا،خاص طور پر ان کی نظم  (حسین اور انقلاب) کے حوالے سیجس نے ان کے انقلابی افکار اور تصورات کی تصدیق کی۔جیسے جیسے ان کی شہرت پھیلی، انہیں شاعر انقلاب کہا جانے لگا۔ اس کے بعد، وہ آزادی کی جدوجہد میں زیادہ فعال طور پر شامل ہو گئے اور اس دور کے کچھ سیاسی رہنماؤں، خاص طور پر جواہر لال نہرو (بعد میں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم) کے قریب ہو گئے۔جوش 1956 میں پاکستان آگئے تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہندو اکثریت والے ہندوستان میں اردو کا کوئی مستقبل نہیں، اردو زبان سے ان کی محبت نے انہیں ایک ایسے ملک میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور کیا جہاں اس زبان کا روشن مستقبل تھا۔ ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو ا ر جوش کے پرستار تھے، لیکن انہوں نے نہرو کی مخالفت کے باوجود پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیاتھا۔پاکستان منتقل ہونے کے بعدجوش ملیح آبادی مسلسل شاعری لکھنے اور ادبی کانفرنسوں کے انعقاد میں شامل رہے۔ معروف دانشور اور ادبی نقاد پرویز ہودبھائی نیجوش ملیح آبادی کے بارے میں کہا تھا کہ شاعری جوش کے قلم سے اس طرح بہتی ہے جیسے چشمے سے پانی۔جوش فطرتاً باغیانہ تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے اور زندگی بھر دولت کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف ہر فورم پر اپنی تحریروں میں زبردست طریقے سے سرمایہ داروں کی مذمت کرتے رہے۔



جوش کے الفاظ کا انتخاب ایسا تھا کہ ان کی اردو نثر یا شاعری پڑھتے ہوئے تعریف  ہی کی جا سکتی ہے، کیونکہ ان کے پاس اردو الفاظ کا خزانہ تھا۔ہندوستان سے آپ کے پسندیدہ شعرا اور لکھاریوں میں کنور مہندر سنگھ بیدی، فراق گورکھپوری، ساحر لدھیانوی اور کرشن چندرتھے۔وہ ایک نرم دل اور ہمدرد دل کے مالک تھے اور معاشرے کے غریب طبقے کے دکھوں اور پریشانیوں سے باخبررہا کرتے تھے، ملک کے پسماندہ حالات اور معاشرے کے امیر طبقے کے لاتعلق رویوں سے رنجیدہ ہوا کرتے  تھے۔جوش زندگی سے بھرپور تھے اور زندگی کو قدرت کا سب سے قیمتی تحفہ مانتے تھے۔آپ نیکہاتھا کہ اردو زبان میں گرامر کی سنگین خلاف ورزیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ آپ علاقائی زبان کے الفاظ استعمال کر سکتے ہیں لیکن آپ کو گرامر کا خیال رکھنا چاہیے لسانی بگاڑ ناخواندگی کی وجہ سے ہے۔ یونیورسٹی کی ڈگری نوکری کی التجا کرنے والے بھکاری کے پیالے سے زیادہ نہیں۔علم اور علم اب صرف پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے دماغ کو پالنے کے لیے نہیں۔وہ مزیدکہتے ہیں کہ  میں سچ بولتا ہوں اور سچ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ایک خطرناک چیز ہے۔ لیکن میں نے اپنے نظریات اور اپنے نظریے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔جوش نے ایک بار فیض پر تبصرہ کیا تھا، ’’میں اردو شاعروں کی پیش گوئی کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتا،وہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں صرف تین چار اچھے شاعر دیکھے ہیں اور فیض ان میں سے ایک ہیں۔جوش کو میر تقی میر کے بعد اردو زبان کی لغت اور ذخیرہ الفاظ میں بھرپور اضافے کے لیے دوسرے نمبر پر سمجھا جاتا ہے۔جوش نے ادب کی ہر صنف میں خود کو بہترین ثابت کیا۔ اپنے ابتدائی سالوں میں انہوں نے خوبصورت غزلیں لکھیں تاہم بعد کی زندگی میں انہوں نے نظم کو اپنی پسندیدہ صنف کے طور پر منتخب کیا۔



جوش نے اپنی مرثیہ نگاری کے ذریعے ایک مقام بنایا، وہ اس صنف کو جدید بنانا چاہتے تھے۔انہوں نے ایک اندازے کے مطابق اپنی زندگی میں 100,000 سے زیادہ خوبصورت اشعار اور 1,000 سے زیادہ رباعیات لکھیں۔ ان کی سوانح عمری ''یادوں کی برات'' کو اردو میں اب تک کی بہترین کتابوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ بے تکلفانہ انداز میں لکھی گئی ہے۔ماہرالقادری جوش کے بارے میں کہتے ہیں، میرے محدود علم کے مطابق کوئی بھی بڑا شاعر اپنی زندگی کو قلمبند کرنے میں اتنا صاف گو نہیں ہوا۔وہ شاید واحد جنوبی ایشیائی شاعر ہیں جنہوں نے اپنی خدمات کے لیے پدم بھوشن (1954) اور ہلال امتیاز (2013) جیتا ہے۔اردو ادب کا یہ درخشاںستارہ 22 فروری 1982 کو انتقال کر گیا۔ اردو شاعری کے حوالے سے ان کی خدمات ادبی شائقین کے تخیل کو ہمیشہ روشن کرتی رہیں   //جوش کو زبان پر زبردست قدر ت حاصل تھی، اس لیے مراثی میں بھی ان کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ یو ں تو جوش نے کئی مراثی لکھے ہیں لیکن ان کا مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ ایک الگ انداز کا مرثیہ ہے۔

 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔



1 تبصرہ:

  1. اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔ نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر