منگل، 14 جنوری، 2025

ولادت با سعادت مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام

 

ولادت باسعادت  اما م دنیا 'امام عقبیٰ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام  جناب حضرت عبد المطّلب و جناب حضرت ابو طالب اور بی بی فاطمہ بنت اسد کو جناب رسول خدا حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم اور بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا و امامین کریم علیہم السّلام اور خانوادہء بنو ہاشم کے صاحب تکریم اراکین کو تمام کائنات کی مومن مخلوقات کو صد ہزار مبارک ہو - تیرہ رجب  کے دن حرم پاک کے اندر کائنات  کی مظہر العجائب  ہستی خدا کا عظیم ترین ولی  و نائب رسول   خدا  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم   حرم کعبہ  میں جلوہ  گر ہوئے  - جس نے اس دنیا میں آتے ہی پہلی نظر رسول خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے رخ انور پہ ڈالی جس کے  دہن  مبارک سے پہلا کلام ہی کلام الٰہی نکلا جس نے ہجرت کی رات اپنی جان رسول  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  پہ قربان کرتے ہوئے خدا کو بیچ دی اور بدلے میں جنت خرید لی جو دین و دنیا میں رسول  خدا صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا بھائی وصی و جانشین ہے وہ خدا کا شیر ہے جس نے بڑے بڑے بڑے ناموروں کی بہادری  کے غرور  کو مٹی میں ملا دیا-جس نے ایک ہاتھ سے خیبر اکھاڑ پھینکا جو رسول   حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم    کے علم کا دروازہ ہے جو سیدہ کائنات سلام اللہ علیہ کا شوہر نامدار ہے جو جنت کے سرداروں امام حسن ع امام حسین ع کے والدماجد ہیں 


 روائت ہے طواف  کعبہ جاری تھا  اور بی بی فاطمہ بنت اسد کے اوپر ولادت کے آثار نما یاں ہو رہے تھے  جبکہ  حضرت ابو طالب شہر سے باہر گئے ہوئے   تھےبی بی فا طمہ بنت اسد نے خانہ کعبہ کی دیوار تھام کر اللہ تعالیٰ سے مناجات شروع کی اور اس کے ساتھ ان کے ہاتھ کے نیچے سے ہی دیوار کعبہ شق ہو گئ یہ دیوار کا کنارا تھا اس جگہ  کو مستجار کہتے ہیں بی بی فاطمہ بنت اسد خانہ ء کعبہ کے اندر تشریف لے گئیں اور دیوار برابر ہو گئ  طواف کعبہ میں مشغول لوگ حیران ہو گئے اور مختلف طریقوں سے کعبہ کے دروازے پر پڑا ہوا بند قفل کھولنے کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر ایک بزرگ نے ان سے کہا  کہ یہ اللہ کے بھید ہیں ان میں دخل مت دوتب لوگ وہاں سے چلے گئے -بی بی فاطمہ بنت اسد کی زچگی کے فرائض انجام دینے حوران جنّت 'جنّت سے تشریف لائیں دنیا کے بد بختوں نے لاکھ لاکھ کوششیں کی ہیں کہ اس نشانی کو مٹا دیا جائے لیکن ملعونوں کی ہرکوشش  رائگاں ہی جا تی رہی -بعد از ولادت حضرت ابو طالب واپس آئے انہوں نے فاطمہ بنت اسد کو گھر میں موجود نہیں پایا تب آپ خانہء کعبہ  آئے اور قفل کھول کر اندر گئے اور  اپنے نومولود فرزند کو اپنی آغوش میں لیا -بی بی  فاطمہ  بنت اسد نے جناب ابو طالب کو بتا یا کہ دن گزر گیا ہے لیکن فرزند نے آ نکھیں نہیں کھولی ہیں -اتنے میں جناب رسول اللہ حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  تشریف لائے اور اپنے عم زاد کو اپنی آ غوش میں جیسے  ہی لیا نومولود نے آ نکھیں  کھول دیں اور چہرہء انور  حضرت محمّد  مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  کی زیارت کی اور پھر توریت زبور 'انجیل کے بعد قران کریم کی تلاوت کا شرف حاصل کیا 


 طب  امیرالمومنین

 اسعد ابنِ ابراہیم اودبیلی مالکی جو علمائے اہلسنت سے ہیں، وہ عمار ابن یاسِر اور زید ابن اَرقم سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ایک روز ایوانِ قضا میں تشریف فرما تھے ہم سب آپ کی خدمت میں موجود تھے کہ ناگہاں ایک شوروغُل کی آواز سُنائی دی۔ امیرالمومنین نے عمّا ر سے فرمایا کہ باہر جا کر اِس فریادی کو حاضر کرو۔ عمار کہتے ہیں میں باہر گیا اور ایک لڑکی کو دیکھا جو اونٹ پر بیٹھی فریاد کر رہی تھی۔ اور خدا سے کہ رہی تھی ۔ اے فریاد رسِ بیکساں ! میں تجھ سے انصاف طلب ہوں اور تیرے دوست کو تجھ تک پہونچنے کا وسیلہ قرار دے رہی ہوں۔ مجھے اس ذِلت سے نجات دے اور تو ہی عِزّت بخشنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک کثیر جماعت اُونٹ کے گِرد شمشیر برہنہ جمع ہے۔ کچھ لوگ اس کی موافقت اور حمایت میں اور کچھ اس کی مخالفت میں گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا ، امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا حکم ہے کہ تم لوگ ایوانِ قضا میں چلو۔


 وہ سب لوگ اس عورت کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے۔ ایک مجمع کثیر تماشائیوں کا جمع ہو گیا۔ امیرالمومنین کھڑے ہو گئے۔ اور حمد و ثناء خدا و ستائشِ محمد مصطفٰی کے بعد فرمایا! بیان کرو کہ کیا واقعہ ہے اور یہ عورت کیا کہتی ہے۔ مجمع میں سے ایک شخص نے کہا، یا امیرالمومنین ! اِس قضیہ کا تعلق مجھ سے ہے۔ میں اِس لڑکی کا باپ ہوں، عرب کے نامی گرامی معزز و متموّل مجھ سے اِسکی خواستگاری کرتے تھے مگر اِس نے مجھے ذلیل کر دیا۔امیرالمومنین نے لڑکی کی طرف ’رُخ ‘ کیا اور فرمایا کہ جو کچھ تیرا باپ کہتا ہے کیا یہ سچ ہے؟ لڑکی روئی اور چِلائی، یا حضرت! پروردگار کی قَسم میں اپنے باپ کی بے عزتی کا باعث نہیں ہوئی ہوں۔ بوڑھا باپ آگے بڑھا اور بولا یہ لڑکی غلط کہتی ہے۔ یہ بے شوہر  کے حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تو، حاملہ نہیں ہے اور کیا تیرا باپ جھوٹ بول رہا ہے۔ آقا یہ سچ ہے کہ میں شوہر نہیں رکھتی لیکن آپ کے حق کی قسم، میں کسی خیانت کی مرتکب نہیں ہوں۔ 


پھر امیرالمومنین نے کوفہ کی ایک مشہور ’دایہ‘ کو بُلوایا اور کہا کہ اس کو پَسِ پردہ لے جا کر جائزہ لو اور مجھے صحیح حالات سے مطلع کرو۔ ’دایہ ‘ لڑکی کو پسِ پردہ لے گئی بعدِ تحقیق خدمت ِ امیرالمومنین میں نہایت حیرت سے عرض کرنے لگی۔ مولا! یہ لڑکی بے گناہ ہے کیونکہ ’باکرہ‘ ہے مگرپھر بھی حاملہ ہے۔ امیرالمومنین لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، تم میں سے کوئی شخص ایک برف کا ٹکڑا کہیں سے لا سکتاہے۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ ہمارے شہر میں اس زمانہ میں بھی برف بکثرت ملتا ہے مگر اس قدر جلد وہاں سے نہیں آ سکتا۔۔! امیرالمومنین نے بہ طریقِ اعجاز ہاتھ بڑھایا اور قطعہ برف ہاتھ میں تھا۔’دایہ‘ سے فرمایا کہ لڑکی کو مسجد سے باہر لے جاوٴ اور ظَرف میں بَرف رکھ کر لڑکی کو برہنہ اس پر بٹھا دو اور جو کچھ خارج ہو مطلع کرو۔ ’دایہ‘ لڑکی کو تنہائی میں لے گئی، برف پر بٹھایا، تھوڑی دیر میں ایک سانپ خارج ہوا۔ ’دایہ ‘ نے لے جا کر امیرالمومنین کو دِکھلایا۔ لوگوں نے جب دیکھا تو بہت حیران ہوئے۔ پھر امیرالمومنین نے لڑکی کے باپ سے فرمایا کہ تیری لڑکی بے گناہ ہے۔ کیونکہ ایک کیڑہ تالاب میں اس کے نہاتے وقت ’داخل رحم‘ ہو گیا۔ جس نے اندر ہی اندر پرورش پا کر یہ صورت اختیار کی ( یہ تھی بغیر ایکسرے کے طبیبِ روحانی و جسمانی کی مکمل تشخیص)   ا 


حضرت قنبرؓ   کو حضرت علیؑ کے ہاں بہت اعلی منزلت حاصل تھی اسی لیے امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ قنبرؓ حضرت علیؑ کے غلام تھے اور حضرت علیؑ سے شدید محبت کرتے تھے۔ آپ کو امیر المومنین ؑ نے ولایت اہل بیتؑ کی معرفت کی وجہ سے ایک خاص خطاب سے نوازا آپ نے فرمایا اے قنبرؓ اللہ نے ہماری ولایت کو آسمان و زمین کے جن و انس اور دیگر کے سامنے پیش کیا۔ ہماری ولایت کو نیک اور طاہرلوگوں نے قبول کیا اور کینہ پرور،بغض و عداوت رکھنے والوں اور فضول لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا۔عدالت اور تقوی کی وجہ سے قنبرؓ نے کئی مواقع پر حضرت علیؑ کے لیے گواہی دی۔ مشہور واقعہ ہے جب ایک یہودی کے ساتھ آپ کا ذرہ کا معاملہ ہوا تو آپ کا کیس قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا تو امام حسن ؑ اور حضرت قنبر ؓ نے حضرت علی علیہ السلام کے حق میں گواہی دی۔آپ حضرت علیؑ کی عدالت کے اعلی معیار پر ایمان رکھتے تھے ایک بار حضرت علیؑ نے آپ کو حکم دیا کہ ایک مجرم کو کوڑے ماریں۔ جب آپ نے کوڑے مارے تو تین کوڑے زیادہ مار دیے۔ حضرت علیؑ نے حکم دیا کہ قنبرؓ کو تین کوڑے مار کر اس سے قصاص لیا جائے۔ قنبرؓ کو اس کی مرضی کے ساتھ یہ کوڑے مارئے گئے۔للہ رب عزت سے دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں مولا علی علیہ سلام کے اسوہ حسنہ پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو حب علی  علیہ السّلام  و آل علی علیہ السّلام سے ہمیشہ منور رکھے الھی آمین بحق محمد و آل محمد


اتوار، 12 جنوری، 2025

نابینا بچہ جو دنیا کو علم کی آ نکھیں دے گیا

   دنیا بھر میں ہر سال 4 جنوری کے روز عالمی بریل کا دن منایا جاتا ہے۔ بریل چھ نقاط پہ مبنی ایک ایسا منفرد رسم الخط ہے جسے دنیا بھر کی زبانوں نے نابینا افراد کی سہولت کے لیے اختیار کیا ہے۔1824ء میں بریل کی ابتداء لوئی بریل نے رکھی تھی جو بچپن میں ایک حادثے کے شکار ہو کر اپنی بینائی کو کھو بیٹھے تھے۔ لوئی بریل نے یہ رسم الخط فرانسیسی فوج کے پیغام رسانی کے طریقے سے متاثر ہو کر اپنایا تھا جس میں چھ نقاط کے بجائے بارہ نقاط کا استعمال کیا جاتا تھا۔لوئی بریل نے اس رسم الخط کو بدل کر آسان اور سہل بنایا اور اسے نابینا افراد تک پہنچانا شروع کیا۔ لوئی بریل کی ان ہی اہم خدمات کے پیشِ نظر ہر سال ان کی یومِ پیدائش کے روز عالمی بریل کا دن منایا جاتا ہے۔ نابینا اور بینا افراد کے درمیان حائل دوریوں کو مٹانے کے لیے "بولتے حروف” پاکستان میں 2021 سے اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔بولتے حروف جامع بریل بنانے والا ایک پروجیکٹ ہے جو عام زبان میں لکھی ہوئی تحریر کو اس کے بریل رسم الخط کے ساتھ اس طرح سے طبع کرتی ہے کہ ایک ہی صفحے سے ایک نابینا اور بینائی رکھنے والے افراد ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ بولتے حروف نے اپنے قیام سے اب تک 0.2 ملین دستاویزات کو جامع بریل میں منتقل کیا ہے جس میں قرآنِ پاک، نورانی قائدہ، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت مختلف بینکوں کے دستاویزات شامل ہیں۔

    اس نظام  کا خالق وہ  نیک انسان ہے جس نے خود نابینا ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی بلکہ دنیا بھر کے نابینا افراد کی زندگی علم کی روشنی سے منور کرکےانہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنایا۔یہ بچہ جس کا نام لوئس بریل تھا، 4 جنوری 1809 کوپیرس کے نواحی قصبے’’ کوئے پورے ‘‘ میں پیدا ہوا ۔وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔اس کے دالدکی گھوڑے زین بنانے کی دکان تھی۔لوئی کے گھرمیں تعلیم کا حصول ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا ،لیکن لوئی کی ذہانت دیکھ کر والدین نے اسے تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا ۔ لوئی اپنے والد’’سائمن بریل‘‘ کے ساتھ اکثر دکان پرجاتا ، جہاں وہ چمڑے کےکھلونوں سے کھیلتا رہتا تھا جو اس کےوالدنے اس کے لئے بنائے تھے۔ ایک دن سائمن اسے دکان پراکیلا چھوڑ کر کسی کام سے باہر گیا۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر لوئی ایک نوکیلا تیز دھار اوزار ہاتھ میں لے کر اپنے ابا کی طرح چمڑے میں سوراخ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔اچانک اوزارہاتھ سے پھسلا اور اس کا نوکیلا حصہ تین سالہ لوئی کی بائیں آنکھ میں گھس گیا۔ وہ تکلیف کی شدت سے رونے لگا۔ اس کی چیخ و پکار سن کر اس کے والد دوڑتے ہوئے آئے۔ قصبہ میں کوئی اچھا ڈاکٹر نہ تھاجب کہ قریبی اسپتال بھی بیس میل کے فاصلے پر تھا۔اسے ایک خاتون طبیبہ کے پاس لے جایا گیا۔ لیکن اس کے علاج سےلوئی کو کوئی افاقہ نہیں ہوا بلکہ اس کی بینائی تیزی سے متاثر ہونے لگی۔اس دور میں اینٹی بایوٹکس یا اینٹی سیپٹک ادویات نہیں تھیں، اس لیے لوئی کی دوسری آنکھ میں بھی جراثیم پھیلنا شروع ہوگئےاور دو سال میں وہ مکمل طور سے اندھے پن کا شکار ہوگیا۔ بینائی ختم ہونے کے بعداس کےوالد نےاس کی تعلیم کے لیے لکڑی کے ابھرے حروف کاٹ کر انہیں کیلوں کی مدد سے ایک بورڈ پرلگا دیا، تاکہ وہ انہیں چھو کر اپنے نام کے ہجے کر سکے۔

کچھ عرصے بعد اسے اسکول میں داخل کرادیاگیا۔1818 میں جب لو ئی دس سال کا ہوا تواس کے استاد نے سائمن بریل کو مشورہ دیا کہ وہ لوئی کو نابینا بچوں کے اسکول،’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ چلڈرن‘‘ میں داخل کرادے۔بریل وہاں تعلیم حاصل کرتا رہا بعد میں اسی اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔کچھ عرصے بعد اسے ایسے طریقہ تعلیم کے بارے میں معلوم ہوا جو فوجیوں کو رات کی تاریکی میں پڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ تیکنک فرانسیسی ماہر تعلیم ’’چارلس باربیر‘‘کی ذہنی اختراع تھی جس میں 12ابھرے ہوئے نقطوں سے حروف کی پہچان بتائی جاتی تھی ۔بریل نے اس تیکنک کو نابینا افراد کے لیے سودمند بنانے کے لیے اس پر مزید محنت کی۔ اس نے حروف کی شناخت کے لیے چھ نقطوں پر مشتمل بورڈ بنایاجو بعد ازاں ’’بریل سسٹم‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔ 1837میں اس نےاپنے تخلیق کردہ سسٹم پر 600صفحات کی کتاب مکمل کی۔ ان تمام کارناموں کے باوجودبریل سسٹم کو حکومتی پذیرائی نہ مل سکی۔ 6 جنوری 1852 میں لوئی بریل کا انتقال ہو گیا۔ اس کی وفات کے دو برس بعد 1854ء میں اس کا ایجاد کردہ سسٹم نابیناؤں کی تعلیم کے لیے سرکاری سطح پر منظور کرلیا گیاجس کے بعد یہ فرانس کی سرحدوں سے نکل کر ساری دنیا میں مقبول ہوگیا۔آج ڈیڑھ صدیاں گزرنے کے بعدبھی بینائی سے محروم افراد بریل سسٹم کے ذریعے ہی تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں باعزت زندگی گزارتےہیں۔ 

 

ایسے جامع بریل مواد کی مدد سے نہ صرف والدین اور اساتذہ نابینا بچوں کی حصولِ علم میں مدد فراہم کرسکتے ہیں بلکہ اس جامع بریل مواد کے ذریعے نابینا افراد کے معاشی مسائل کا بھی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اور نجی دفاتر میں جامع بریل میں موجود دستاویزات کے استعمال سے ہم نابینا افراد کو اپنے بلبوتے پہ کھڑے ہونے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں جس سے نہ صرف ان کی معاشی حالت بہتر ہوگی بلکہ پاکستان کے سالانہ معاشی اور اقتصادی نقصانات میں بھی  کمی ممکن ہے۔

 

ہفتہ، 11 جنوری، 2025

امریکی تاریخ کی بدترین آگ

 

امریکی  تاریخ میں  لگنے  والی  آگ  جس نے شہر لاس اینجلس  کے ایک بڑے رقبے کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا 10 ہزار عمارتیں  اپنا وجود کھو بیٹھیں لوگوں کو اپنی عمر بھر کی کمائ سے محروم ہوجا نا پڑا ، اموات بڑھ گئیں امریکی صدر جو بائیڈن نے لاس اینجلس میں آگ لگنے سے ہونے والی تباہی پر اگلے چھ ماہ تک 100 فیصد اخراجات اٹھانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے آتشزدگی کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ قرار دیا ہے۔آتشزدگی پر بریفنگ کے دوران صدر جو بائیڈن نے کہا کہ فنڈنگ کی رقم سے متاثرہ علاقوں سے ​​ملبہ ہٹایا جائے گا اور عارضی پناہ گاہیں قائم کی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو ورکرز کی تنخواہوں سمیت جان و مال کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات پورے کیے جائیں گے۔صدر جو بائیڈن نے مزید کہا کہ تعمیراتی کام کے لیے اضافی فنڈز پاس کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے جس کے لیے وہ کانگریس سے اپیل کریں گے۔


دوسری جانب نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گورنر کیلیفورنیا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک جل کر راکھ ہوگیا جس کے زمہ دار ڈیموکریٹ گورنر نیوسم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ لاس اینجلس پورا مٹ گیا، تین دن میں آگ پر زرہ برابر بھی قابو نہیں پایا گیا،رپورٹ کے مطابق خوفناک آگ نے 32 ہزار سے زائد ایکڑ کا رقبہ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ متاثرہ علاقوں میں جھلس کر 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔ خشک اور تیز ہوا سے آگ میں خطرناک اضافے کا خدشہ برقرار ہے۔امریکی حکام کے مطابق اس وقت ہالی ووڈ ہلز، پاساڈیٹا سمیت 6 مقامات پر تاحال آگ لگی ہوئی ہے۔امریکہ کا  خوبصورت  ترین شہر  بھڑکتی آگ کی لپیٹ میں چار  دن سے جل رہا ہے-


کئی ہالی ووڈ شخصیات کے گھر بھی جل کر تباہ ہوگئے۔ آگ سے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ پچاس ارب ڈالر سے زائد ہوگیا۔امریکی جنگلات میں لگی آگ بے قابو، 5 افراد ہلاک، ایک لاکھ سے زائد افراد علاقہ چھوڑنے پر مجبور-واضح رہے کہ لاس اینجلس کے جنگلات میں منگل کو لگنے والی آگ پر اب تک مکمل قابو نہیں پایا جا سکا۔ متاثرہ علاقوں میں سے 2 لاکھ شہریوں کو انخلا کا حکم دیدیا گیا ۔ ملک میں ہزاروں صارفین بجلی سے محروم ہو کر رہ گئے۔لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کی وجہ کیا ہے؟لاس اینجلس کے جنگلات میں لگنے والی آگ میں اب کم از کم 10 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ شہر میں گھروں اور عبادت گاہوں سے لے کر ہر قسم کی 10 ہزار سے زیادہ عمارتیں جل کر خاک ہو گئی ہیں۔فائر فائٹرز آگ کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ کہیں آگ جان بوجھ کر تو نہیں لگائی گئی۔


 میری والدہ کی وفات ہو گئی تھی اور میں نے ان کی کچھ یادیں گھر میں سنبھال کر رکھی تھی، میری شادی کے جوڑے اور تصویروں والے البم سے لے کر گھر میں سب کچھ جل کر خاک ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس بس یہ ایک ایک جوڑا ہی بچا ہے جو ہم پچھلے دو دنوں سے پہنے ہوئے ہیں۔'یہ الفاظ اس جوڑے کے ہیں جو لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کے بعد آج اپنا جلا ہوا گھر دیکھنے پہنچے جس میں عمارت سمیت سب کچھ جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔جنگل کی آگ سے متاثرہ علاقوں سے اپنے گھر باہر چھوڑ کر جانے والے رہائشی آب جب واپس لوٹے تو انھیں ہر طرف تباہی کے مناظر ملے ہیں۔ ان کے گھر اور کاروبار راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں۔پاؤل بیرن 12 سال سے لاس اینجلس میں رہ رہے ہیں۔ انھیں اپنی پارٹنر اور پالتو جانوروں کے ساتھ گھر اور علاقہ چھوڑنا پڑا۔


پولیس نے آتشزنی کے شبہ میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جبکہ خالی کرائی گئی املاک لوٹنے کے الزام میں بھی 20 افراد کو پکڑا گیا ہے۔فائر فائٹرز کی کوششوں کے باوجود سب سے بڑی آگ اب تک بے قابو ہے۔ موسمی حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں تیز ہوا شعلوں کو مزید بھڑکائے گی۔۔یلیسیڈزَ میں منگل کو بھڑکنے والی پہلی اور خطے کی سب سے بڑی آگ ہے جو ریاستی تاریخ کی سب سے تباہ کن   ہے۔ اس آگ نے زمین کا ایک بڑا حصہ جھلسا دیا ہے جو تقریباً 20 ہزار ایکڑ پر محیط ہے۔ایٹن: اس آگ نے لاس اینجلس کے شمالی حصے کو تباہ کیا ہے اور اس وقت بھی الٹاڈینا جیسے شہروں میں آگ بھڑک رہی ہے۔  

جمعہ، 10 جنوری، 2025

نفس انسانی کا نفیس سرمایہ ''متعہ''از روئے قران

  بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَحیِمِْ۝

 فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَۃ وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِہ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَۃ إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا-"پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقیناً اللہ بڑا جاننے والا حکمت والا ہے۔" (سورہ نساء :۲۴)انسان ہر زمانے میں اپنے سماج  سے اپنی ضروریات  پوری کرتا چلا آیا ہے سب سے پہلی احتیاج  بھوک لے لیجئے 'پیدائش سے لے کر اپنی موت تک وہ اپنی اس احتیاج کو کسی نا کسی زریعہ سے پوری کرتا ہے-پھر  جوانی کی عمر آنے پر اس کو ایک شریک حیات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے   لیکن اگر وہ اتنا مجبور ہے کہ شادی کے اخراجات  پورے کرنے سے قاصر ہے تو اللہ نے اس کی اس شدید احتیاج کو پورا کرنے لئے اپنے کلام بلاغت قران کریم میں واضح لفظوں میں اس کو سمجھا دیا کہ تم حلال اور جائز راستہ  ا ختیار کر کے  اپنی زندگی کو بارونق بنا سکتے ہوٍاب یہاں میں قبلہ آیئۃ اللہ مکارم شیرازی کا فرما ن دے رہی ہوں     


١۔ضرورت اور احتیاج 
 بہت سے لوگ مخصوصا ًجوانوں کا طبقہ دائمی شادی کرنے سے معذور ہے ، اس لئے کہ دائمی شادی میں ، مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرنا اور دیگر آمادگیوں کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو بعض جوانوں کے لئے بہت مشکل ہے بعنوان مثال:١۔ بہت سے جوان پڑھائی کے دوران مخصوصا ہمارے دور میں تعلیم کا سلسلہ چونکہ طولانی ہوتاہے لہذا دائمی شادی سے معذور ہوتے ہیں اسلئے کہ ان کے پاس نہ مناسب  کمائ کا زریعہ ہوتاہے نہ ہی کوئی مکان اور نہ ہی شادی کے اخراجات کا انتظام ہوتا ہے، وہ اپنی شادیوں میں جس حدتک بھی اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کریں گے پھر بھی ضروری سامان مہیا کرنے سے بھی معذوررہتے ہیں۔٢۔ کچھ شادی شدہ لوگ ہیں جو بیرون ملک طولانی سفر کی وجہ سے ایک طرف نہ تو اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاسکتے ہیں اور نہ ہی دوسری شادی کر سکتے ہیں ، جس کی وجہ سےجنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں۔

٣۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کی بیویاں ایسی بیماریوں میں گرفتار ہوگئی ہیں کہ جن سے جنسی خواہش کو پورا نہیں کیا جاسکتا ۔٤۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو فوج میں کام کرتے ہیں جنہیں سرحدوں کی حفاظت اور دیگر ملاز متوں پر طولانی مدت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جنسی محرومیت کا شکارہوجاتے ہیں اور اگر ہم صدر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ مشکل متعہ کی تشریع کا باعث بنی تھی ۔٥۔ کبھی بیوی کے حاملہ ہونے کی وجہ سے ،شوہر اپنی جنسی خواہش کو پورا نہیں کرسکتا یاایسی ہی دوسری مشکلات جو جوانوں کے لئے درپیش ہیں۔ایسی اجتماعی ضرورتیں اور مشکلات ہمیشہ سے تھیں اور رہیں گی جو نہ صرف   پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کےدور سے مخصوص تھیں بلکہ ہمارے دور میں شدید ہوگئی ہیں۔


انسان ایسی مشکلات کے سامنے اپنے آپ کو دوراہے پر دیکھتا ہے ؛ وہ یا تو فحشاء میں مبتلا ہوجائے ) العیاذ باللہ ( یا ایک قسم کاوقتی نکاح کرے کہ جس میں ایک طرف دائمی شادی کی مشکلات نہ ہوں اوردوسری طرف جنسی خواہش بھی پوری ہوجائے۔دونوں طریقوں سے چشم پوشی کا مشورہ اچھاضرور ہے لیکن بہت سے لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہے بلکہ بعض لوگ اسے محض خیال باطل سمجھتے ہیں کہ جس پر عمل محال ہے۔نکاح کی دو قسمیں ہیں نکاح دائمی و -نکاح وقتی یعنی متعہ ۔ مذہب جعفریہ کے علماء کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ جائز ہے۔ نکاح دائمی و متعہ میں چند چیز مشترک ہیں۔
۱) عورت عاقلہ بالغہ راشدہ اور تمام موانع سے خالی ہو۔
۲) آپس کی رضا کافی نہیں بلکہ صیغہ شرعی پڑھنا ضروری ہے۔
۳) نکاح سے جو چیزیں عورت پر حرام ہو جاتی ہیں ان میں دونوں شریک ہیں
۴) اولاد کے سلسلہ میں دونوں برابر دائمی کی طرح متعہ میں بھی اولاد شوہر کی ہوتی ہے
۵ مہر دونوں میں ضروری ہے متعہ میں مہر کا ذکر نہ ہو تو نکا ح نہیں ہو گا۔
 ۶) نکاح میں طلاق کے بعد اور متعہ میں مقررہ مدت کے اختتام کے بعد عدت ضروری ہے۔
عقدِ متعہ اور عقدِ نکاح میں فرق
۱) نکاح متعہ میں مدت کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
۲) مہر۔ نکاح متعہ کا رکن ہے اس کے ذکر کے بغیر نکاح نہیں ہو گا
۳) نکاح دائمی میں نفقہ دینا واجب ہے اور نکاح متعہ میں اگر شرط کر لی جائے تو واجب ہے۔
۴ ) نکاح دائمی۔ طلاق کے بغیر ختم نہیں ہو تا متعہ۔مدت کے اختتام پر ختم ہو جاتا ہے۔ بہرَ حال دونوں ہی نکاح ہیں دونوں ہی شرعی ہیں-غلط فائدہ لینا صحیح چیزوں سے غلط فائدہ اٹھانے سے دشمنوں کی زبانیں کھل جاتی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بہانے آجاتے ہیں تاکہ اسے سندبناکر اس کے خلاف پروپیگنڈہ اور اس پر اپنے اعتراضات کی بوچھار کرسکیں۔متعہ انہیں بحثوں کا ایک حصہ ہے ۔نہایت افسوس کے ساتھ یہ حقیقت قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ بعض ہوس رانوں نے متعہ جو اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لئے تھا، اسے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بناکر کچھ بے خبر لوگوں کو فرصت دے دی کہ وہ ایسے حکیمانہ حکم پر اپنے اعتراضات کی بارش کریں۔لیکن یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ا س متعہ کے علاوہ کون سا حکم ہے کہ جس سے غلط فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو اور کون سا ایسا نفیس سرمایہ ہے کہ جسے نااہلوں نے بے جا استعمال نہ کیا ہو ؟!اگر ایک دن قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے ظالموں کی حکومت کی توجیہ کی جانے لگے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو ترک کردیا جائے؟


یا اگر منافقوں نے مسجد ضرار کی بنیاد ڈالی اور پیغمبر ۖ نے اسے منہدم یا جلا دینے کا حکم دیا تو کیا اس کا مطلب ہے کہ مسجد سے کنارہ کشی کرلی جائے؟بہرحال ہم اس بات کے معترف ہیں کہ بعض اسلامی احکامات سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہےلیکن کبھی بھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم چند بے نمازوں کی وجہ سے مسجد کے دروازوں کو بند کردیں یا ایک رومال کی وجہ سے پورے قیصریہ میں آگ لگادیں۔ہمیں ہوسرانوں کے سامنے دیوار کھڑی کرنی ہوگی اور متعہ کے لئے صحیح تدبیر سوچنی ہوگی ۔مخصوصاًہمارے زمانے میں کسی صحیح تدبیر کے بغیر امکان پذیرنہیں ہے لہذا اس ہدف کےلئے ضروری ہے کہ چند دانشمند حضرات اکٹھاہوں اور اس کے لئے ایک دستور العمل مرتب کریں تاکہ شیطان صفت لوگوں کے ہاتھ کٹ جائیں اور اس حکم الہی کی خوبیاں سامنے ابھر کرآئیں تاکہ اس طرح ہوسرانوں اور کینہ 
توزوں کے لئے راستہ مسدود ہوجائے۔
 

جمعرات، 9 جنوری، 2025

سری نگر میں فیض احمد فیض اور ایلس فیض کے نکاح کا پس منظر

  



 حقیقت میں یہ روایت مغلیہ دور سے چلی آ رہی ہے کہ موسم گرما میں کشمیر اکثر بادشاہوں یا مہاراجوں کا مسکن بنتا تھا بادشاہوں یا ان کے بعد راجے مہاراجوں نے اپنے زمانے میں باغات اور محل قائم کر کے خود بھی لطف اٹھایا اور عوام کی تفریح کے لیے بھی خوبصورت وراثت چھوڑ گئے ہیں جن سے وہاں کے عوام آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں جب سری نگر میں فیض احمد فیض کا 'ایلس جارج' سے نکاح ہوا-یہ 28 اکتوبر 1941 کی بات ہے۔فیض احمد فیض اور ایلس فیض کے رومان  پرور دن اپنے عروج پر تھے اور انہوں نے اپنے اس رومان کو دائمی رشتے میں بدلنے کا فیصلہ کر  لیا تھا -اس دن کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں موسم خوشگوار تھا   اور ڈوگرہ حکومت کے خلاف تحریک کے چوٹی کے رہنما تاریخی پری محل میں منعقدہ ایک تقریب میں جمع تھے۔دنیا بھر میں اپنے منفرد حسن و جمال کے لیے مشہور خطہ کشمیر میں یہ نکاح انجام پایا تھا۔فیض احمد فیض کا ایلس جارج (جن کا بعد میں نام  کلثوم رکھا گیا لیکن وہ ایلس فیض کے نام سے ہی یاد کی جاتی رہی ہیں) سے نکاح ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک آزادی کے روح رواں اور قدآور سیاسی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے پڑھا۔ نکاح نامے پر دستخط کرنے والوں میں غلام محمد صادق اور بخشی غلام محمد بھی تھے۔یہ دونوں (صادق اور بخشی) بعد ازاں کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے اور فیض احمد فیض کے گہرے دوست بھی تھے۔


نکاح خوانی کی تقریب میں ڈاکٹر نور حسین، خورشید حسن خورشید اور ایلس جارج کے بہنوئی ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر بھی شریک تھے۔فیض احمد فیض کے نکاح کا خطبہ کس نے پڑھا اور کس نے پڑھوایا اس بارے میں مورخین میں اختلاف رائے ہے۔ تاہم شیخ محمد عبداللہ کے قریبی ساتھی اور مورخ محمد یوسف ٹینگ کا  کہنا ہے کہ فیض کا نکاح شیخ عبداللہ نے کشمیر کے اس وقت کے بلند پایہ عالم دین مولانا سید احمد اللہ ہمدانی سے پڑھوایا تھا۔محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس نکاح کے بارے میں کہا: 'شیخ محمد عبداللہ نے فیض احمد فیض کا ایلس سے نکاح کا خطبہ خود نہیں پڑھا تھا بلکہ مولانا سید احمد اللہ ہمدانی سے پڑھوایا تھا۔'یہ پوچھے جانے پر کہ نکاح خوانی کی تقریب سری نگر میں منعقد کیوں ہوئی تو ان کا کہنا تھا: 'فیض احمد فیض ہر سال پنجاب سے موسم گرما گزارنے کے لیے کشمیر آیا کرتے تھے۔ جب انہیں محسوس ہوا کہ یہاں موسم خوشگوار ہے تو وہ نکاح خوانی کی تقریب انجام دینے کے لیے یہاں آئے۔ اُن دنوں     پنجاب سے   اکثر لوگ گرمیوں میں یہاں براستہ چناب ویلی آیا کرتے تھے۔'محمد یوسف ٹینگ کو فیض احمد فیض کے  ساتھ لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ پر 14 مارچ 1983 کو ملاقات کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے تاہم یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب شیخ محمد عبداللہ راہی ملک عدم ہوچکے تھے۔

چالیس برس پہلے ان کی بارات سری نگر محلہ میں آئی تھی۔ ایلس کہتی ہیں کہ''شادی پر فیض تو وہی روزمرہ کے گرم سوٹ میں تھے،کوئی خاص اہتمام نہیں تھا بس گلے میں گوٹے کا ایک موٹا ہار ڈال رکھا تھا، جو اُن کی والدہ نے لاہور سے بھیجا تھا۔ سہرے وغیرہ کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اس گوٹے کے ہار کو میں نے عمر بھر اس توجہ سے محفوظ رکھا کہ ان کی دونوں بیٹیوں کی شادی میں دلہوں کے گلوں میں باری باری یہی ہار بطور تبرک ڈالا گیا تھا۔''ایلس نے مزید لکھا ہے کہ '' اس موقعے پر میں نے لال رنگ کی بہت خوبصورت ساڑی پہنی تھی جس پر سنہرے تاروں کا شاندارکام کیا گیا تھا۔ یہ ساڑی فیض نے چند ماہ قبل شملہ سے میرے لیے خریدی تھی۔ شاہی محل میں یوں تو سب انتظام تھا، بس مہمان گنتی کے تھے۔ عورتیں محض چند ایک ہی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ پُرجوش تو تاثیر اورکرس کی چھوٹی بیٹی سلمیٰ تھی جو حیرت سے کبھی مجھے دیکھتی تھی اورکبھی فیض اور دوسرے لوگوں کو۔ اس کے لیے یہ سب کچھ عجیب اور عام زندگی سے کتنا مختلف تھا۔ ادھر تاثیرکی خوبصورت پرکشش اور ہنس مکھ والدہ تھیں جو الگ تھلگ بیٹھی اپنا چھوٹا سا حقہ گڑگڑا رہی تھیں۔ رفیع پیرکی بہن اور اس کی لڑکیاں بھی تھیں۔


عورتوں میں تو بس ایک ہی سرگوشی جاری تھی کہ لو بھلا یہ کیا شادی ہوئی؟ فیض اور ایلس کی شادی اور ایسی روکھی پھیکی ' نہ کوئی بارات ہے، نہ بینڈ باجا، نہ کہیں ڈھولک بجی ہے، نہ سہاگ کے گیت گائے گئے ہیں۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا۔ دروازے میں شیخ عبداللہ کھڑے تھے۔ چھریرے بدن کے قدر آور، اسمارٹ، چاق و چوبند اور جاذب نظر شیخ عبد اللہ نپے تُلے قدموں سے پہلے تاثیرکی والدہ کی طرف بڑھے اور بہت ادب سے جھک کر انھیں سلام عرض کیا۔انھوں نے بھی سر جھکا کر شیخ عبداللہ کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ میری طرف آئے اور مجھے بھی جھک کر تعظیم دی اور پھر بہت نرمی سے انگلش اور اردو میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ '' اسلام میں شادی کا بندھن دراصل ایک طرح کا باہمی معاہدہ ہوتا ہے، دلہا دلہن کے درمیان جس کی دونوں فریقوں کو لازماً پابندی کرنی ہوتی ہے۔ آپ کی شادی کی سب شرائط تحریری طور پر نکاح نامے میں شامل کرلی گئی ہیں اور اسلامی طریق کار کے مطابق اس نکاح کی کارروائی کو شروع کرنے سے پہلے مجھے آپ کی باقاعدہ اجازت کی ضرورت ہے۔ پھر انھوں نے نکاح کی جملہ شرائط مجھے انگلش میں سمجھائیں اور کہا کہ آپ کا نکاح نامہ آپ کی بہن کرس اور ایم ڈی تاثیرکے نکاح نامے کی بنیاد پر ہی تیار کیا گیا ہے جسے علامہ اقبال نے مرتب کیا تھا۔''


یوں ایلس اور فیض کی شادی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ تاثیر اورکرس نے براتیوں اور مہمانوں کے لیے کشمیری کھانوں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ دو ایک دن سری نگر میں قیام کیا گیا۔ دلہا دلہن نے ڈل جھیل پر بوٹ میں ہنی مون منایا ۔ دونوں بھائی اور بعض دوسرے لوگ شادی کے دوسرے ہی دن لاہورکے لیے روانہ ہوچکے تھے کہ یہاں پہنچ کر انھیں ولیمے کی دعوت کا اہتمام کرنا تھا ۔ واپسی میں فیض، ایلس، جوش اور مجاز بس کے ذریعے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سے بذریعہ ریل لاہورکا سفر اختیارکیا۔ جیب میں بس اتنی ہی رقم تھی جس میں تین انٹرکلاس کے ٹکٹ اور ایک سلیپر میرے لیے مخصوص کرائی جاسکی۔ سلیپرکا اہتمام اس لیے کیا گیا کہ مجھے راستے میں لیٹنے کی سہولت رہے۔یہ بھی نئی نویلی دلہن کا اعزاز تھا ورنہ پورا سفر ہی بیٹھے بیٹھے طے کرنا پڑتا۔ جیسا کہ فیض، جوش اور مجاز نے کیا۔ پروگرام کے مطابق ایلس کو راولپنڈی کے ویٹنگ روم میں گھس کر روزمرہ لباس کی جگہ دلہن کا شادی والا جوڑا بدلنا پڑا، کیونکہ یہاں سے روانہ ہوکر ٹرین کو لاہور ہی پہنچنا تھا جہاں پروگرام کے مطابق بارات کے خیر مقدم کا اہتمام تھا، وہاں فیض کے گھر والے، عورتیں اور بچے بھی جمع ہوں گے۔ ویٹنگ روم میں موجود عورتوں نے ایک گوری میم کو ہندوستانی دلہن کے روپ میں حیرت سے دیکھا اور ان میں سے جو ایک دو اسمارٹ اور نوجوان لڑکیاں تھیں،انھوں نے ایلس کے سنگھار میں اس کی خوب مدد بھی کی۔ انھیں بہرحال اس بات پر بہت حیرت تھی کہ یہ کیسی دلہن ہے جس نے نہ تو کوئی زیور پہنا ہے اور نہ کوئی بھڑ ک دار جھمکے وغیرہ، نہ میک اپ کی چمک دمک ہے، نہ سر پر دلہنوں والا گھونگھٹ ہے 'لیکن وہ دونوں دنیاوی رسومات سے آزاد ہو کر  اللہ کی شریعت کا راستہ اختیار کر کے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام چکے تھے 

فیض احمد فیض شعرو ادب کی دنیا کے بادشاہ

  

فیض احمد فیض    شعرو ادب کی دنیا میں اس طرح وارد ہوئے کہ اپنے تمام ہم عصروں کو کہیں پیچھے چھوڑ تے ہوئے کہیں آگےایسے  آ نکلے کہ ان کے ہم عصر شعراء  کے چہرے وقت کی دبیز دھند میں کہیں پیچھے  دھندلا گئے -  ان کو ویسے  تو  کئ زبانوں میں  مہارت حاصل تھی   ، لیکن  اردو کی رومانوی شاعری نے ان کو شہرت دوام  کے بام پر بٹھا دیا  اور ۔پھر ملک کے حالات دیکھتے ہوئے وہ جب  دل گرفتہ ہوئے  ان کی سوچ اور فکر نے سماج کو جگانے کے لئے جو شاعری کی اس شاعری نے ان کو  شاعر انقلاب  کے لقب سے سرفراز کیا  اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک آپ غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ میرزا غالب اور اقبال کے بعد جو داد و تحسین اور مقبولیت انکے حصے میں آئی وہ شاید ہی کسی دوسرے کے نصیب میں آئی ہو۔ وہ ایک بے مثال شاعر ہی نہیں بلکہ انکی نثر بھی باکمال اور منفرد اسلوب کی حامل ہے۔انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت بہت سے قد آور شعراءموجود تھے، جنکے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔ جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری اور جوش ملیح آبادی کے سامنے کسی کا چراغ نہ جلتا تھا۔ لیکن فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انکی شعری تصانیف میں نقش فریادی، میرے دل میرے مسافر ، دست تہ سنگ -دست  صبا، زنداں نامہ، ، شام شہریاراں،سرِوادی سینا، اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔


 فیض نے اپنی ابتدائی مذہبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔ بعد ازاں 1921ءمیں سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں داخلہ لیااویہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ایف اے مرے کالج سیالکوٹ ہی سے پاس کیا۔(سکاچ مشن سکول ہی کا نام تبدیل کر کے بعد میں مرے کالج رکھ دیا گیا تھا)انہوں نے سکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔ بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے 1932 ءمیں انگریزی میں ایم اے کیا۔ آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے۔ان کے علاوہ آپ کے اساتذہ میں شمس العلماءپروفیسر مولوی میر حسن کا نام بھی لیا جاتا ہے ، یہ بھی علامہ اقبال کے استاد رہے ہیں۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔ 1935ءمیں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ میں انگریزی و برطانوی ادب کے لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی اورپھر ہیلے کالج لاہور میں۔ 1936ءمیں آپ نے سجاد ظہیر اور صاحبزادہ محمودالظفر کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کی بنیاد ڈالی۔

فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اورعربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی انکی گہری نگاہ تھی۔ کلاسیکی شعراءکی گہری چھاپ انکے ہاںنظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کی تند و تیز آندھی میں بھی انکی شاعری کا معیار برقرار رہا۔فیض پر یہ حقیقت واضح تھی کہ روٹی، کپڑا، مکان وغیرہ کے مطالبات انسان کے جسم سے متعلق ہیں، اسکی روح کی طلب روٹی کپڑے کے بجائے روحانی تسکین کی متلاشی نظر آتی ہے، اور جسکی تسکین انہیں رومان ہی میں نظر آتی ہے۔ انکے ہاں  سطحی رومانیت نہیں ملتی، بلکہ انہوں نے بڑی خوبصورت تشبیہات کے ذریعے اپنے محبوب کا ذکر کیا ہے 
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراﺅں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
جہاں تک ”دست صبا“ کا تعلق ہے تو یہ ایک خاص عہد کی عکاسی کرتا ہے یہ فیض کے ایک خاص عہد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دست صبا کی نظموں میں فیض نے حقائق کو غم جاناں بنا کر پیش کیا ہے۔ فیض کے یہاں عشق ایک مسلسل رنگ ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مقصد کو بھی اس سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ دوسرے شعراء، جوش، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، مجاز، ساحر کے ہاں ہمیں ایک طرف خالص عشقیہ شاعری نظر آتی ہے اور دوسر ی طرف خالص انقلابی شاعری۔ یہ شعراءجب اپنے محبوب کا ذکر کرتے ہیں تو دنیا و مافہیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اپنے گرد حسن و کیف و سرور کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ اور جب اس ماحول سے نکل کر تلخ حقیقتوں کی جانب رجوع کرتے ہیں تو پھر صاف بغاوت، انقلاب اور رجز کے علاوہ کوئی دوسرا ذکر انکے لبوں پر نہیں آتا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان شعراءکے ہاں عشق اور انقلاب دو متضاد عناصر ہیں۔ شاعر جب ایک کا دامن پکڑتا ہے تو دوسرے کو بھول جاتا ہے۔ مگر فیض کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر چلتے ہیں اور جب ایک پر نظر پڑتی ہے تو دوسرا خود بخود نظر آجاتا ہے۔ فیض کا یہی انداز انکو اپنے ہم عصروں میں منفرد بناتا ہے :فیض اپنے کلام سے اپنے خشک زاہد اور ناصح ہونے کا تصور نہیں دیتے، بلکہ پھول اور تلوار کے ساتھ ساتھ چشم و لب کی کاٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ انکی افتاد طبع رومانی ہے- انکے سینے میں پیار بھرا دل دھڑکتا ہے، انکے کلام میں لطافت اور نزاکت کی روحانی فضاءچھائی رہتی ہے، وہ تصور جاناں پر سب کچھ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں :
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی و رخسار و ہونٹ
زندگی جنکے تصور میں لٹا دی ہم نے 
1941ءمیں آپ نے لبنانی نژاد برطانوی خاتون ایلس جارج سے شادی کی۔ 1942 ءمیں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1943 ءمیں میجر اور پھر 1944 ءمیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گئے۔7 194 ءمیں فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہور میں سکونت اختیار کر لی ۔1947ءمیں آپ لاہور کے انگریزی روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ، 9مارچ 1951ءکو حکومت وقت نے آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کر لیا، 4سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیلوں میں گزارنے کے بعد 2اپریل 1955ءکو رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد آپ نے جلا وطنی اختیار کی اور اپنے خاندان سمیت لندن میں رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ 1959ءمیں پاکستان آرٹس کونسل میں بطور سیکرٹری تعینات ہوئے اور 1962ءتک وہیں پر کام کیا۔ 1964ءمیں لندن سے واپسی پرآپ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔وہ اپنے زمانے کے معروف اشترکیت پسند کمیونسٹ تھے۔ فوج میں ملازمت اختیار کی اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ کر مستعفی ہو گئے۔ ان کی شاعری اپنے دور کی آمریت کے خلاف آوازہے۔ 13فروری 1911ءکو سیالکوٹ میں پید اہوئے۔ ا  نتقال 20نومبر1984ءکو لاہور میں ہوا۔جلاوطنی کے زمانے میں دلی کرب میں ڈوبی  ہوئ شاعری 
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں 
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں 
-
حدیثِ یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں 
تو  ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں 
-
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے 
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں 
-
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن 
تو چشمِ صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں 
-
وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری 
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں 
-
درِقفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے 
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں 
شاعر: فیض احمد فیض
اور پھر یہ سچا محب وطن فرزند بالآخر  اپنے وطن کی مٹی میں آ کر دفن ہو گیا 

بدھ، 8 جنوری، 2025

الکھ نگری کا مسا فر ''ممتاز مفتی''

 گیارہ ستمبر 1905کو بٹالہ ضلع گرداسپورمشرقی پنجاب میں  پیدا ہونے والے ممتاز مفتی نے میانوالی،اور ڈیرہ غازی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر 1929میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اےاور1933 میں سنٹرل کالج لاہور سے ایس اے وی کا امتحان پاس کیا۔ پھر  آل انڈیا ریڈیو اور ممبئی فلم انڈسٹری میں ملازمت کرتے  رہے۔ 1947میں پاکستان چلے گئے۔وہاں حکومت پاکستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہےپاکستان کے جید لکھاریوں میں صف اول کے لکھاری مانے جاتے ہیں ۔ان  کے افسانوی مجموعے ان کہی ، گہماگہمی،چپ، گڑیاگھر،روغنی پتلے، کے نام سے شائع ہوئے۔ انہوں نے انشائیے بھی لکھے جو بہت مشہور ہوئے اور شوق سے پڑھے گئے ۔ ’غبارے ‘ کے نام سے انشائیوں کا مجموعہ شائع ہوا۔’ کیسے کیسے لوگ‘  اور ’پیاز کے چھلکے‘ کے نام سے خاکوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔عمر کے آخری برسوں میں ممتاز مفتی سفر حج پر گئے اور واپسی پر’لبیک‘  کے نام سے سفر حج کی رودار  لکھی جو بے پناہ مقبول ہوئی اور ان کی کہانیوں کی طرح دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے موضوع، مواد اور تکنیک کی سطح پر کئی تجربے کیے۔ ان کے افسانے خاص طور پر گھمبیر نفسیاتی مسائل کو  موضوع بناتے ہیں۔ ممتاز مفتی نے ’علی پور کا ایلی ‘ کے نام سے ایک ضخیم ناول بھی لکھا ۔   اشاعت کے بعد اس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا گیا۔


 انہوں نے  روحانی طور پر سماج اور معاشرے کا جائزہ خارجی عوامل کی بنیادوں پر نہیں بلکہ ان کے داخلی عناصر کی بنیادوں پر لیا ہے۔انہوں نے  انسانی زندگی کا مشاہدہ اس کی گہرائی میں اتر کر کیا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کے لیے فرد کی ان داخلی کیفیات کی طرف رجوع کیا ہے جو خارجی عوامل کے دبائو کے تحت اظہار سے قاصر رہتی ہیں یا دب جاتی ہیں ۔ممتاز مفتی کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے لیکن جنس ، عورت اور انسانی نفسیات کو ان کے یہاں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔انسانی نفسیات کے مطالعے سے ان کو ہمیشہ گہرا شغف رہا۔ان کی بیشتر تخلیقات انسانی نفسیات کی بہترین عکاس ہیں ۔انھوں نے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوئوں کو جس سادگی اور بے تکلفی سے واضح کیا ہے اس کی مثال اردو کے دوسرے نثر نگاروں کے یہاں بہت کم ملتی ہیں۔انھوں نے سیاسی ،سماجی ، تہذیبی ،معاشرتی ،مذہبی اورقومی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے لیکن جنس، عورت اور انسانی نفسیات ان کے پسندیدہ اور بنیادی موضوعات ہیں۔

نھوں نے ہمیشہ اپنے گہرے اور سنجیدہ تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ہر چیز کو معمول سے ہٹ کر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔انہیں انسانی نفسیات اور اس کی فطرت کے ان سربستہ اسرار ورموز کی تلاش نے ہمیشہ محو سفر رکھاجو زمانۂ ازل سے ایک عام انسان کی فکر و نظر سے پوشیدہ ہیں ۔وہ ظاہر کی دنیا کے بجائے باطن کی دنیا کو دیکھنے کے تمنائی تھے اور اس کی وسعتوں کا اندازہ لگانے کا گہرا اشتیاق رکھتے تھے ۔

ممتاز مفتی کی ادبی خدمات ایک طویل عرصے پر محیط ہے۔انھوں نے اپنی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز ء1936سے کیا اور انتھک محنت کرتے ہوئے اپنے قلم کی روانی کو تادم حیات برقرار رکھا- ۔اس دوران ان کے قلم سے آٹھ افسانوی مجموعے، دو حصوں پر مشتمل ایک سوانح ناول،دو سفرنامے،خاکوں کے چار مجموعے،دو ڈرامے اور ایک رپورتاژ کے ساتھ ساتھ مضامین کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ممتاز مفتی کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں اپنے وقت کے کئی بڑے اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ان کو سب سے بڑاادبی ایوارڈ’’ستارہ امتیاز‘‘ 1987میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ملا۔اس کے بعد ان کو1987ءمیں’’نقوش ادبی ایوارڈ‘‘ ، 1988ءمیں ’’پریم چندایوارڈ‘‘اور1989میں ’’طفیل ادبی ایوارڈ‘‘جیسے اعزازی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ممتاز مفتی نے سفرنامے بھی لکھے ہیں ۔ان کا شمار اردو کے بہترین سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔انہوں نے دو سفرنامے یاد گار چھوڑے ہیں ۔’’لبیک ‘‘اور ’’ہند یاترا ‘‘۔

یہ دونوں سفر نامے اردو کے بہترین سفرنامے تصور کیے جاتے ہیں۔ممتاز مفتی نے 1968 ء میں قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ حج کیا ۔اس کے سات سال بعدانہوں نے اپنے سفرِ حج کی روداد کو ’ ’لبیک‘‘ کے عنوان سے1975ء میں التحریر ،لاہور سے شائع کیا۔اشاعت سے پہلے یہ سفرنامہ سیارہ ڈائجسٹ،لاہور میں قسط وارشائع ہواتھا۔اردو میں حج کے سفرناموں میں ’’لبیک ‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس نے حج کے سفر پر لکھے گئے سفرناموں میں جو شہر ت و مقبولیت حاصل کی وہ اس موضوع سے متعلق کسی سفرنامے کو نصیب نہیں ہوسکی ۔اس کی مقبولیت کا عالم دیکھ کر ممتاز مفتی نے اسے کاپی رائٹ کی پابندیوں سے یہ کہہ کر آزاد کردیا کہ انہیں اس کی رائلٹی کھانے کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے جس کا جی چاہے ،جب چاہے،جیسے چاہے ،جہاں سے چاہے اور جتنی بار چاہے اسے چھاپ سکتا ہے 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کا تاریخی سیٹھی ہاؤس معماروں کے زوق تعمیر کا اظہار

   پشاور کا تاریخی محلہ سیٹھیاں اور سیٹھی ہاؤس جسے دیکھ کر اس کے معماروں کا زوق تعمیر عروج پر نظر آتا ہے - اس بے نظیر محلے کی آباد کاری  اس ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر