منگل، 21 مئی، 2024

چاہ بہار منصوبہ اور ہم پارٹ 2



   ایرا ن بہت ہوشمندی سے اپنے پڑوسی ممالک سے تجارتی تعلقات بڑھا رہا ہے  اور چاہ بہار منصوبہ اسی  کی ایک کڑی ہے- چابہار منصوبے اور ایران کے روڈ ریل نیٹ ورک کے ذریعے، انڈیا چابہار سے افغانستان کراچی اور وسطی ایشیا، ترکی، آذربائیجان، جارجیا اور شام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بازرپاش نے انڈیا اور ایران کےدرمیان ایک مشترکہ شپنگ کمپنی کے قیام کا بھی اعلان کیابھارت کی جانب سے ایران کیساتھ چابہار بندرگاہ معاہدے پر امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا  کہ امریکا ایران سے تجارت کرنے والوں پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔نائب ترجمان امریکی وزارت خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا کہ بھارت کو پابندیوں سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں، بھارت بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے، ایران پر پابندیاں ہیں اور رہیں گی، ایران سے تجارت کرنے والوں کو باخبر رہنا ہوگا۔یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارت نے 10 سال کیلئے ایران کی چابہار بندر گاہ کا انتظام سنبھال لیا ہے،


 بھارت، ایران کے درمیان چابہار بندر گاہ کی تعمیر اور انتظامی امور کے معاہدے پر دستخط ہو گئے، دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر تہران میں دستخط ہوئے۔اس موقع پر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت چابہار منصوبے کیلئے 30 ارب 88 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرے گا، بھارت چابہار بندرگاہ کے ذریعے کراچی، گوادر بندرگاہوں سے گزرے بغیر وسط ایشیائی خطے تک جا سکتا ہے۔سربندا سونووال نے ایکس پر اس معاہدے کی تصاویر شائع کرتے ہوئے اسے دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کے لیے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیانھوں نے لکھا کہ ’اس معاہدے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ یہ انڈیا کے لیے عالمی سپلائی چین اور میری ٹائم سیکٹر میں قدم جمانے کے لیے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔‘وہ اس معاہدے کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ان تجارتی منصوبوں کا حصہ سمجھتے ہیں جن کے مطابق وہ ایران، افغانستان، یوریشیا اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے متبادل تجارتی راستہ بنانے کے خواہاں ہیں۔


ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق چابہار بندرگاہ کو جدید بنانے کے لیے انڈیا ’سٹریٹجک آلات کی فراہمی میں 120 ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ اس کے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کے لیے 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گا۔ایران عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر بندرگاہ کی ضرورت کے پیشِ نظر 1983 میں شهید بہشتی بندرگاہ کو چابہار کی دوسری اہم ترین بندہ طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔مہرداد بازارپاش نے بھی اس معاہدے کو ’دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات بڑھانے کے لیے بہت اہم‘ قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ آج جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ چابہار ایران کی ترقی کا مرکز بنے گا اور چابہار-زاہدان ریلوے سیکشن کے آپریشن (جو اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا) کے ساتھ اس معاہدے کی قدر میں اضافہ ہو گا 

چابہار بندرگاہ انڈیا ایران فلیگ شپ منصوبہ قرا دیا جا رہا ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ انڈیا چابہار بندرگاہ کی ترقی اور آپریشن میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔انڈین حکومت نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی ہے اور اسے افغانستان اور وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کے لیے ایک قابل عمل ٹرانزٹ روٹ بنانے والی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے میں شامل ہے۔ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے 2018 میں دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں میں چھوٹ کے باوجود بندرگاہ کی ترقی رک گئی تھی۔2019 میں کوویڈ کا وبائی مرض پھیلنے سے پہلے دونوں ممالک نے انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے تہران کے دورے کے بعد اس منصوبے کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔


چابہار بندرگاہ پاکستان کی سرحد سے تقریبا 100 کلومیٹر (62 میل) مغرب میں بحر ہند میں واقع ہے۔ارنا کے مطابق ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے محکمہ جہازرانی وبندرگاہ کے اعلی عہدیدار ناصر روان بخش نے اپریل میں 20 مارچ 2024 کو ختم ہونے والے گذشتہ ہجری شمسی سال کے دوران چابہار بندرگاہ پر کنٹینروں کی لوڈنگ اور ڈی لوڈنگ کی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ چابہار بندرگاہ سے چین، انڈیا اور متحدہ عرب امارات سےبراہ راست جہازوں کی آمد ورفت شروع ہونے اور اسی طرح بندرگاہ سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس شروع ہونے کے بعد، اس بندرگاہ کی کنٹینر سروسز میں تیزرفتار ترقی ہوئی اور گذشتہ سال ماضی کے مقابلے میں اس میں 155 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ چابہار سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس جنوری 2024 میں شروع ہوئی اور دو مہینے میں اس بندرگاہ  اور ملک کی دیگر بندرگاہوں کے درمیان 8 ہزار سے زائد کنٹینروں کی ٹرانشپ سرانجام پائی تھی 

عاشق تعلیم و تعمیر-سر گنگا رام


 یہ سر گنگا رام پر میری دوسری  تحریر ہے -یہ تحریر میں نےب اس وقت کرغیز ستان میں اپنے وطن کے طالبعلموں کی حالت زار  دیکھتے ہوئے تحریر کی ہے -اگر پاکستان میں  ہماری گزشتہ حکومتوں نے وہ پیسہ  جو منی لانڈرنگ کے زریعہ اپنے بیرونی خزانوں میں جمع کیا ہے  اس سے اعلی  تعلیمی یونیورسٹیز بن گئ ہوتیں تو ہہمارے ہونہار طالب علم  دوسرے ملکوں میں خطرات میں گھرے یوں در دبدر نا ہوتے - چلئے تو سر گنگا رام  کا تعارف   دیکھتے ہیں -  سر گنگا رام 13اپریل 1851 کو پاکستانی پنجاب کے گاؤں مانگٹا والا میں پیدا ہوئے تھے، ان کی وفات 10جولائی1927 کو لندن میں ان کے گھر ہوئی تھی، اس عرصہ میں سرگنگا رام نے جو کارہائے سرانجام دیئے وہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں زندہ رکھیں گے، ان کی ہمت، جدوجہد، ان کے سوچنے ، کام کرنے کی صلاحیت اور منفرد انداز تخلیق اور تحقیق نے ان کو انسانیت کے ایک عظیم مرتبہ اور مقام پر فائز کردیا ہے ۔ ان کا تعلق ایک ہندو گھرانے سے تھا لیکن ان کے کاموں اور کارناموں سے ہر مذہب و ملت اور قوم کے ہزاروں ، لاکھوں افراد نے فیض پایا ۔ وہ پیدائشی طور پر انسانی ہمدردی اور انسانی دوستی کے علمبردار تھے ۔اس علم دوست انسان کا  علمی تعارف یہ ہے کہ 1921 میں  انہوں نے لاہور کے وسط میں ایک زمین خریدی تھی جہاں انہوں نے ایک خیراتی ڈسپنسری قائم کی تھی۔ گنگا رام ٹرسٹ قائم ہوا تو انھوں نے اس ڈسپنسری کو ایک ہسپتال کا درجہ دے دیا جو صوبے کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال بن گیا۔ اب بھی اسے میو ہسپتال کے بعد لاہور کا سب سے بڑا ہسپتال تصور کیا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے قالب میں ڈھل گیا۔

ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے ہیں۔سر گنگا رام نوجوانوں کے لیے تجارت کو بہت اہمیت  دیتتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک کامرس کالج کا منصو حکومت کو دیا تو حکومت نے یہ کہہ کر جان چھڑانی چاہی کہ منصوبہ تو بہت اچھا ہے مگر ہمارے پاس اس کے لیے زمین اور عمارت موجود نہیں۔ گنگا رام اسی جواب کے انتظار میں تھے، انہوں نے فوری طور پر اپنا ایک گھر اس مقصد کے لیے پیش کردیا جہاں آج ہیلے کالج آف کامرس قاءم ہے ۔

لاہور کے مال روڈ کی بیشتر عمارات لاہور ہائی کورٹ، جی پی او، عجائب گھر، نیشنل کالج آف آرٹس، کیتھڈرل سکول، ایچیسن کالج، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ انھی سر گنگا رام کی بنوائی ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کیمسٹری لیبارٹری، میو ہسپتال کا البرٹ وکٹر وارڈ، لیڈی میکلیگن ہائی سکول، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی انہی کی رہین منت ہیں۔ انھی نے 1920 کی دہائی میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی پلاننگ کی اور انھی نے مال روڈ کو درختوں سے ٹھنڈک عطا کی جس کی وجہ سے آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتےانہوں نے زندگی بھر تعلیم ، زراعت اور صحت کے لئے عمارتوں کی اور ہسپتالوں کی تعمیر کی جس کی بدولت لاکھوں طلباء اور مریضوں اور انسانوں نے فائدہ اٹھایا ۔ چھ سال بعد2027 کو ان کی وفات کو ایک سو سال پورے ہو جائیں گے ۔ گنگا رام کو جدید لاہور کا بانی بھی کہا جاتا ہے، ان کو محسن لاہور بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔گنگا رام کے والد دولت رام اگروال کے پولیس اسٹیشن میں جونیئر سب انسپکٹر تھے، بعد میں وہ امرتسر شفٹ ہوگئے اور وہاں ایک دربار میں کاپی رائٹ ہوگئے تھے ۔ گنگا رام نے امرتسر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور1869 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا،دو سال بعد1871 میں روڑکی کے تھامسن کالج آف سول انجینئرنگ سے سکالرشپ حاصل کیا ۔ دوسال بعد اسی کالج سے سونے کے تمغہ کے ساتھ سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور ایک محکمہ میں اسسٹنٹ انجینئر لگ گئے،ان کی تعمیرات کی یادگاروں کا جال پھیلا ہوا ہے ۔ گنگا رام نے کھیتوں میں آبپاشی نظام کا نیا سلسلہ اپنے دور میں تعارف کراکر انقلاب برپا کردیا تھا ۔ گنگا رام نے 1900 کے ابتدائی سالوں میں نکاس آب اور واٹر ورکس کی ٹریننگ کے لئے انگلینڈ کا تعلیمی سفر کیا اور واپس آنے کے بعد لاہور میں ان کے تعمیراتی سنہری دور کا آغاز ہوا تھا ۔

موجودہ نوجوان نسل شاید گنگا رام ہسپتال کے حوالے سے ہی ان کو جانتی ہوگی لیکن یہ سچ نہیں ہے اور حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ گنگا رام نے آج کے پورے جدید لاہور کی تعمیر کی تھی اور لاہور کو ایک نیا حسن بخشا تھا ۔ آج لاہور کی جو عمارتیں سیاست، ثقافت اور علم کا ورثہ ہیں ان سبھی کی تعمیر و تخلیق کے بانی سر گنگا رام ہی تھے ۔ لاہور کی تاریخ میں گنگا رام کے تعمیراتی سنہری کارناموں میں گنگا رام ہسپتال، گنگا رام فلیٹس اور گنگا رام بلڈنگز قابل ذکر ہیں ۔ 1919 میں انہوں نے مال روڈ پر گنگا رام بلڈنگ تعمیر کی جس میں ایک لفٹ لگائی گئی تھی، بعد میں یہ بلڈنگ بھی ایک ٹرسٹ کے سپرد ہو گئی تھی ۔ انہوں نے ذاتی خرچے سے بحالی معذوراں اور دیگر فلاحی ادارے قائم کئے تھے ۔ مثال کے طور پر لاہور کا عجائب گھر جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے، وہ عمارت گنگا رام نے تعمیر کرائی تھی ۔ ایچی سن کالج کی وسیع و عریض عمارت جس نے بڑے بڑے بیوروکروٹیس، سیاستدان وغیرہ پیدا کئے، اس کو بھی گنگا رام ہی نے ڈیزائن کیا تھا ۔ 1921ء میں لاہور کا معروف و مشہور ہسپتال گنگا رام ہسپتال تعمیر کیا تھا جو اس وقت550بیڈ پر مشتمل تھا ۔اس کے علاوہ مال روڈ اور اس کے نواح میں واقع تاریخی عمارتیں جن کو گنگا رام نے ڈیزائن اور تعمیر کروایا تھا ان میں عجائب گھر، جنرل پوسٹ آفس، ایچی سن کالج، میواسکول آف آرٹس، میو ہسپتال کا سر البرٹ وکٹر ہال، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کمسٹری ڈیپارٹمنٹ ان کے ڈیزائن کردہ ہیں جبکہ سر گنگا رام ہسپتال، اسلامیہ کالج سول لائن( اولڈڈی اے وی کالج)، سر گنگا رام گرلز اسکول( موجودہ لاہور کالج فار وومن)، ادارہ بحالی معذوراں فیروز پور روڈ وغیرہ انہوں نے اپنے ذاتی خرچہ پر تعمیر کروائے تھے ۔ اسی طرح آج بھارت میں بھی ان کی متعدد تاریخی یادگاریں موجود ہیں جن میں سر گنگا رام ہسپتال دہلی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی روڑکی( گنگا بھون) قابل ذکر ہیں ۔ لاہور کا مشہور کامرس کا لج (ہیلی کالج آف کامرس) غریب طلباء کے لئے قائم کیا ۔ تعمیرات اور زراعت اور انسانی ہمدردی کی غیر معمولی کاموں کو دیکھتے ہوئے ان کو 1885ء میں رائے بہادر کا خطاب دیاگیا

سرگنگا رام نے زندگی کے آخری آیام لندن میں گزارے اور بالآخرمحسن اور معمار لاہور10 جولائی1927ء کو اپنے گھر میں انتقال کرگئے ۔ گنگا رام سے ایک بار ان کے کسی دوست نے ان کی دولت اور شہرت کےبارے استفسار کیا کہ کتنی ہے ؟ توانہوں نے جواب دیا کہ میں جب شہر آیا تھا تو میںنے ایک شراکت داری کی تھی جو پچاس پچاس فیصد کی تھی۔ اسی شراکت داری کے سبب مجھے یہ دولت ملی ہے۔ اس دوست نے حیرانی سے پوچھا کہ کس سے شراکت داری کی ؟ گنگا رام نے جواب دیا کہ بھگوان سے۔دوست نے حیرانی سے پوچھاکہ بھگوان سے ؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں !بھگوان سے۔انہوں نے بتایا کہ میںجو کچھ کماتا ہوں اس کا پچاس فیصد لوگوں پر خرچ کرتا ہوں ۔سرگنگا رام کی وفات کے بعد گنگا رام کی استھیاں دریائے راوی (بڈھا راوی) میں بہائیں گئیں تھیں اور بعد میں وہاں ایک انتہائی خوبصورت سمادھی تعمیر کردی گئی تھی جو اعلیٰ سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی تھی اور یہ آج بھی دریائے راوی کےکنارے موجود ہے ۔ لیکن افسوس کہ کسی بھی حکومت  کی طرف سے اس عظیم انسان اور محسن لاہور کو کبھی بھی اس کے شان شایان کے طور پریاد نہیں کیا گیا۔میں نے ا ن کے علمی کاموں کا بہت ہی مختصر تعارف پیش کیا ہے ورنہ تو انکے علمی کارناموں پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار ہو سکتا ہے   

اتوار، 19 مئی، 2024

بشکیک حملہ کیوں ہوا؟



کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک سے طلبا کو لانے والی پہلی پرواز لاہور پہنچ گئی۔اے آر وائی نیوز کے مطابق پرواز کے اے 571 لاہور ایئرپورٹ پر 180 سے زائد مسافروں کو لے کر پہنچی ہے، وزیر داخلہ محسن نقوی واپس آنے والے طلبا کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔چیف آپریٹنگ آفیسر لاہور ایئرپورٹ اور دیگر اعلیٰ حکام بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے۔دوسری جانب پاکستانی طلبا پر حملوں کے معاملے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو کرغزستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کے ہمراہ وفاقی وزیر امیر مقام بھی کرغزستان جائیں گے۔دونوں وزراء کل صبح خصوصی طیارے کے ذریعے بشکیک روانہ ہوں گے، وزیر خارجہ بشکیک میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریںگے،وزیرخارجہ زخمی طلباء کو علاج کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائیں گے اور پاکستانی طلبا کی وطن واپسی کےمعاملات کا جائزہ لیں گے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کرغزستان میں غیر ملکی طلبا مخالف فسادات پر گہری تشویش ہے، مشکل وقت میں پاکستان کے بیٹے اور بیٹیوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔

 وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ پاکستانی سفارتخانہ زخمی طلبا کو علاج و معالجے کی بہترین سہولیات میں معاونت یقینی بنائے اور جو طالب علم پاکستان آنا چاہیں سرکاری خرچ پر ان کی فوری واپسی یقینی بنائیں۔بشکیک : کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستانی طلبا کے ہاسٹل پر مشتعل افراد نے حملے کیے، جس کے نتیجے میں متعدد طلباء زخمی ہوگئے۔تفصیلات کے مطابق کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں مقامی اور غیر ملکی طلباء کے درمیان کشیدگی میں پاکستانی طلباء بھی زد میں آگئے۔اس حوالے سے کرغزستان میں زیر تعلیم ڈاکٹر ورشا نے روتے ہوئے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ ہمارے ساتھ بہت برا ہوا ہے، کل عرب ممالک کے کچھ طلبہ سے مقامی لوگوں کا جھگڑا ہوا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ہاسٹل پر حملہ کرنے والے بلوائی بہت بڑی تعداد میں تھے جنہوں نے آج یہاں بہت زیادہ توڑ پھوڑ کی اور پاکستانی طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا۔اکٹر ورشا نے بتایا کہ ہم نے باتھ روم میں چھپ کر اپنی جانیں بچائی، ہاسٹل میں 500کے قریب پاکستانی طلبہ و طالبات موجود ہیں۔

پاکستانی طالبہ نے بتایا کہ حملوں کے بعد کرغزستان کی فوج ہاسٹل کے باہر پہنچنا شروع ہوگئی ہے، محصور طلبہ کو تھوڑی دیر پہلے ریسکیو کرنے کا کام شرع کیا گیا ہے۔پاکستانی سفیر کا سوشل میڈیا پر پیغام-اس حوالے سے کرغزستان میں تعینات پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا ہے انہوں نے کہا کہ بشکیک میں موجود پاکستانی طلبہ حالات معمول پر آنے تک اپنے گھروں تک محدود رہیں۔پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ ہم مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں سےرابطے میں ہیں اور طلبہ کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، ایمرجنسی میں طلبہ 507567667-996پر رابطہ کریں پاکستانی طالبہ ڈاکٹر ورشا نے بھائی نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ میری کچھ دوستوں سے بات ہوئی ہے، انہوں نے بتایا  بلوائیو ن نے  لڑکیوں کے کمروں میں بھی بہت زیادہ توڑ پھوڑ کی۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک کے ہاسٹل میں مقیم پاکستانی طلباء و طالبات پر اس وقت بڑی مشکل آن پڑی جب ان پر ڈنڈوں لاٹھیوں سے لیس مقامی انتہا پسندوں نے اچانک حملہ کردیا۔یہ پُرتشدد واقعہ کب کیسے اور کیوں پیش آیا؟ اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ 17 مئی کو پیش آنے والے واقعے کا تعلق 13 مئی کو ہونے والے ایک واقعے سے ہے۔گزشتہ روز 17مئی کو ہونے والے واقعے میں شام کے وقت تقریباً 300سے زائد مقامی طلبہ نے غیر ملکی طلباء کے ہاسٹل پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں 29 سے زائد طلبہ شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچائے گئے۔

بشکیک کے جن ہاسٹلز پر دھاوا بولا گیا ان میں زیادہ تر پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے طلباء رہائش پذیر ہیں۔پس منظر کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ 13 مئی کو ایک کیفے میں بیٹھے چند مقامی اور غیر ملکی طلباء میں کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی جو بعد ازں باقاعدہ لڑائی کی صورت اختیار کرگئی۔اس واقعے میں مقامی باشندوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ غیر ملکی طلبہ نے مقامی طلبہ پر تشدد کیا اور اس واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائر ہوئیں۔بعد ازاں گزشتہ جمعہ کی رات متعدد شہری سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس پر الزام عائد کیا کہ وہ لڑائی میں ملوث غیرملکی طلبہ سے نرمی برت رہی ہے جس کے برعکس پولیس کا کہنا ہے کہ لڑائی کی رپورٹس موصول ہونے کے بعد انہوں نے 3 افراد کو حراست میں لیا تھا۔س کے بعد ان مشتعل افراد نے میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹلز پر حملہ کردیا جس میں پاکستانی، بھارتی اور بنگلہ دیشی طلبہ رہتے ہیں، ان مشتعل افراد نے لڑکوں کے ہاسٹل کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے ہاسٹل پر بھی پرتشدد حملہ کیا۔

ایک ہاسٹل بشکیک میں جبکہ دیگر ہاسٹلز شہر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے ہیں جہاں انتہا پسندوں نے وحشیانہ حملہ کیا۔اس حوالے سے صدر اسٹوڈنٹس کونسل ایشیئن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کرغزستان حسن شاہ آریانی نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کل سے ہم سب خوف کے باعث جاگے ہوئے ہیں اور اب تک کسی قسم کی یقین دہانی یا اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔بشکیک میں طلبا پر تشدد، کرغزستان کی وزارت خارجہ کا اہم بیان واضح رہے کہ کرغزستان کے تعلیمی ادارے ایم بی بی ایس کی تعلیم کے لیے طلبہ میں کافی مقبول ہیں یہاں میڈیکل کی معیاری تعلیم یورپ اور امریکا کی جامعات کے مقابلے میں انتہائی کم فیس ادا کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔کرغزستان کی جامعات میں تعلیم کے حصول کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ معیاری تعلیم کی وجہ سے ان یونیورسٹیز کی ڈگری کو عالمی ادارہ صحت سمیت عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

جمعرات، 16 مئی، 2024

چا بہار ایرانی بندر گاہ کا منصوبہ اور ہم

 کس قدر بدبختی کا مقام ہے پاکستان کے لئے کہ آس پڑوس کے ممالک ترقّی کی شاہراہ پر گامزن ہیں اورہم ہیں اپنے قیمتی اثاثے کوڑیوں کے مول بیچ کر ریاست کی گاڑی کو دھکّا لگا رہے ہیں -اور دوسری جانب منی لانڈرنگ کا یہ عالم ہے کہ روزانہ کی بنیا د پر اربوں روپئے غیر ممالک کی جھولی میں جا رہے ہیں -اور عام آدمی کی مہنگائ سے کمر توڑی جارہی ہے- ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پڑوسی ممالک ایک دوسرے کے تعاون اور دوستی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آ گے ترقّی کا سفر طے کر رہے ہیں اور ہمارے اوپر پابندیوں کا کوڑا لٹک رہا ہے -آئیے چا بہار منصوبہ پر ایک غارانہ نظر ڈالتے ہیں انڈیا نے ایران کے ساحلی شہر چابہار میں واقع شہید بہشتی بندرگاہ کو چلانے کے لیے 10 سالہ معاہدہ کیا ہے جس کےتحت اس بندرگاہ کے کنٹینر ٹرمینل میں سامان کی نقل و حرکت کو جدید طرز پر لایا جائے گا۔ایران کے شہر تہران میں شہری ترقی کے وزیر مہرداد بازارپاش اور انڈیا کے جہاز رانی کے وزیر سرباندا سونووال نے اس معاہدے پر دستخط کیے

۔اور چابہار کے راستے اپنا تجارتی سامان ایران، وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کو برآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔مہرداد بازارپاش کے مطابق گذشتہ سال تہران میں سہ فریقی اجلاس کے دوران انڈیا اور روس کو ’ایران راہ پروجیکٹ کا نقشہ‘ پیش کیا گیا تھا۔ا۔اس کے ساتھ ساتھ بازرپاش نے انڈیا اور ایران کےدرمیان ایک مشترکہ شپنگ کمپنی کے قیام کا بھی اعلان کیابھارت کی جانب سے ایران کیساتھ چابہار بندرگاہ معاہدے پر امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایران سے تجارت کرنے والوں پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔نائب ترجمان امریکی وزارت خارجہ ویدانت پٹیل نے کہا کہ بھارت کو پابندیوں سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں، بھارت بھی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے،

۔یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارت نے 10 سال کیلئے ایران کی چابہار بندر گاہ کا انتظام سنبھال لیا ہے، بھارت، ایران کے درمیان چابہار بندر گاہ کی تعمیر اور انتظامی امور کے معاہدے پر دستخط ہو گئے، دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر تہران میں دستخط ہوئے۔اس موقع پر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت چابہار منصوبے کیلئے 30 ارب 88 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرے گا،۔سربندا سونووال نے ایکس پر اس معاہدے کی تصاویر شائع کرتے ہوئے اسے دونوں ممالک کے تعلقات اور خطے کے لیے ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔انھوں نے لکھا کہ ’اس معاہدے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے ۔‘وہ اس معاہدے کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ان تجارتی منصوبوں کا حصہ سمجھتے ہیں جن کے مطابق وہ ایران، افغانستان، یوریشیا اور وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے متبادل تجارتی راستہ بنانے کے خواہاں ہیں۔ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق چابہار بندرگاہ کو جدید بنانے کے لیے انڈیا ’سٹریٹجک آلات کی فراہمی میں 120 ملین ڈالر کے ساتھ ساتھ اس کے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کے لیے 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرے گا۔‘

ایران عراق جنگ کے دوران آبنائے ہرمز اور خلیج فارس کے باہر بندرگاہ کی ضرورت کے پیشِ نظر 1983 میں شهید بہشتی بندرگاہ کو چابہار کی دوسری اہم ترین بندرگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔مہرداد بازارپاش نے بھی اس معاہدے کو ’دونوں ممالک کے درمیان کاروباری تعلقات بڑھانے کے لیے بہت اہم‘ قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ آج جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ چابہار ایران کی ترقی کا مرکز بنے گا اور چابہار-زاہدان ریلوے سیکشن کے آپریشن (جو اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا) کے ساتھ اس معاہدے کی قدر میں اضافہ ہو گا-چابہار بندرگاہ انڈیا ایران فلیگ شپ منصوبہ قرا دیا جا رہا ہے جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔۔

انڈین حکومت چابہار منصوبے کو افغانستان اور وسطی ایشیا جانے والے بھارتی سامان کے لیے ایک قابل عمل ٹرانزٹ روٹ بنانے والی سہولیات کو اپ گریڈ کرنے میں شامل ہے۔ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے 2018 میں دوبارہ عائد کی جانے والی پابندیوں میں چھوٹ کے باوجود بندرگاہ کی ترقی رک گئی تھی۔2019 میں کوویڈ کا وبائی مرض پھیلنے سے پہلے دونوں ممالک نے انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے تہران کے دورے کے بعد اس منصوبے کو تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔چابہار بندرگاہ پاکستان کی سرحد سے تقریبا 100 کلومیٹر (62 میل) مغرب میں بحر ہند میں واقع ہے۔۔ انہوں نے بتایا کہ چابہار بندرگاہ سے چین، انڈیا اور متحدہ عرب امارات سےبراہ راست جہازوں کی آمد ورفت شروع ہونے اور اسی طرح بندرگاہ سے ملک کی دیگر بندرگاہوں کے لیے ٹرانشپ سروس شروع ہونے کے بعد، اس بندرگاہ کی کنٹینر سروسز میں تیزرفتار ترقی ہوئی اور گذشتہ سال ماضی کے مقابلے میں اس میں 155 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ چابہار سے ملک کی دیگر بندرگاہوںکے لیے ٹرانشپ سروس جنوری 2024 میں شروع ہوئی اور دو مہینے میں اس بندرگاہ  اور ملک کی دیگر بندرگاہوں کے درمیان 8 ہزار سے زائد کنٹینروں کی ٹرانشپ سرانجام پائی/span>

بدھ، 15 مئی، 2024

بیجا پور میں عادل شاہی دور حکومت

بیجاپور قلعہ بھارتی ریاست کرناٹک کے بیجاپور ضلع کے بیجاپور شہر میں واقع ہے۔ بیجاپور قلعہ میں تعمیراتی اہمیت کی تاریخی یادگاروں کی بہتات ہے جو عادل شاہی خاندان کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ بیجاپور میں تقریباً 200 سال تک حکمرانی کرنے والے عادل شاہی سلطانوں نے اپنی پوری طاقت صرف فن تعمیر اور متعلقہ فنون پر صرف کی تھی، ہر سلطان نے اپنے تعمیراتی منصوبوں کی تعداد، سائز یا شان میں اپنے پیشرو سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجے کے طور پر، بیجاپور قلعہ اور قصبے کے اندر اور اس کے آس پاس نظر آنے والی عمارتوں کو بجا طور پر جنوبی ہندوستان کا آگرہ کہا جاتا ہےسلطان محمد شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں سلاطین عثمانیہ کا ایک جواں سال شہزادہ ایران سے دکن آیا اور وزیراعظم محمودگاوان کی وساطت سے ۱۴۸۱ء میں شاہی فوج کے سپاہیوں میں شامل کرلیا گیا، شہزادہ نہایت خوبرو، ذہن، بہادر اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل تھا اور اسی سبب، تیزی سے ترقی کرتے ہوئے سلطان محمود شاہ بہمنی کا مقربِ خاص بن گیا۔ شہزادہ نہ صرف شاہی خطابات اور عنایات سے بہرہ ور ہوتا رہا بلکہ ۱۴۸۵ء میں عادل خان کے خطاب سے سرفراز ہونے کے بعد بہمنی سلطنت کے صوبۂ بیجاپور کا حاکم مقرر کیا گیا۔


سلطان محمود شاہ بہمنی کے دورِ حکومت میں بہمنی سلطنت اپنے زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ ملک میں فسادات اور خانہ جنگیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پھر حکومت کے قدم جمنے نہیں پائے۔ اس افراتفری میں بہمنی سلطنت کے مختلف صوبے آزاد ہونے لگے، چنانچہ6 ۱۴۹۰ء میں یوسف عادل شاہ نے اپنی مطلق العنانی کا اعلان کرتے ہوئے، بیجاپور میں عادل شاہی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔سلطان یوسف عادل شاہ علماء اور اہل فن کا بڑا قدرداں تھا ، اس نے دور دراز کے ممالک سے اہل علم کو بیجاپور بلایا اور اُن کی ہمیشہ قدر و منزلت کرتا رہا۔ وہ خود بھی فارسی کا شاعر تھا۔ اس کا بیٹا سلطان اسمعٰیل عادل شاہ بھی نہایت علم دوست اور ہنر پرور تھا۔ اپنے باپ کی طرح اس نے بھی اہل علم و فن کی بڑی قدردانی اور سرپرستی کی۔ وہ بھی فارسی کا ایک اچھا شاعر تھا اور وفائی تخلص کرتا تھا۔ غرض عادل شاہی حکومت میں ابتدا ہی سے علم، ادب، شاعری اور فنونِ لطیفہ کو فیاضانہ سرپرستی حاصل رہی۔ یوسف عادل شاہ سے علی عادل شاہ ثانی تک بیجاپور کے جو چھ حکمرانگذرے ہیں، ان سبہوں نے شعر و ادب کی سرپرستی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور علم و ہنر کی اس قدردانی کے نتیجہ میں سرزمین بیجاپور کی ادبی فضاء اپنی ترقی کی معراج کو پہنچ گئی۔گجرات اور بیجاپور کا ادبی، تہذیبی ، ثقافتی اور مذہبی روایات کا تعلق ہمیشہ سے گہرا رہا ہے۔ دکنی زبان و ادب اپنے ابتدائی تشکیلی مرحلوں اور اس کے بعد گجری روایتوں سے گذر کر عادل شاہی دور میں داخل ہونے تک اپنی انفرادیت قائم کرچکی تھی۔

سلطنت بیجاپور کے قیام اور استحکام سے بہت پہلے گجرات کی ادبی روایات صوفیائے کرام کے ذریعہ بیجاپور پہنچ چکی تھیں۔ گجری زبان کے ذخیرۂ الفاظ ، طرزِفکر، مزاج ، لہجہ اور آہنگ پر سنسکرت اور ہندوی ادبی روایات کا بڑا گہرا رنگ اور اثر غالب رہا ہے، یہاں تک کہ فارسی طرز اور اس کے اثرات کا رنگ بھی تھا مدھم اور ماند پڑ گیا ہے، گویا گجری ادب اصل میں ہندوی اور سنسکرت کی ادبی روایات کی ایک طرح سے تجدید ہے۔ بہمنی دور کی ادبی اقدار اسی روایت کی ایک طرح سے توسیع ہے اور بیجاپور کا ادب بھی اس روایت اور مزاج کی تجدید اور توسیع مزید ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ جیسے جیسے فارسی طرز اور انداز گہرا ہوتا گیا ، قدیم ہندوی رنگ رفتہ رفتہ ہلکا اور پھیکا پڑتا گیا۔ یہہ وہ دور ہے جب کہ دکنی زبان اپنے عبوری اور صوفیانہ دور سے گذر کر ادبی دور میں داخل ہوچکی تھی۔شاہانِ دکن نے ہر دور میں ہمیشہ دکنی زبان و ادب کی سرپرستی اور خدمت کی ہے۔ سلاطین بیجاپور نے اس زبان کو واحد قومی زبان کی حیثیت سے قبول کرلیا تھا اور ابراہیم عادل شاہ کے دور میں دفتری اُمور بھی اسی زبان میں انجام دیئے جانے لگے۔

اِن بادشاہوں کے دربار میں جہاں فارسی شعرأ کا طوطی بولتا تھا دکنی زبان کے شعرأ بھی ان کے دوش بدوش اپنی فنی شخصیت کا لوہا منوارہے تھے۔ نہ صرف یہہ بلکہ ابراہیم عادل شاہ ثانی، جو خاص و عام میں ’’ جگت گرو‘‘ کے نام سے معروف تھا، اس کے طبعزاد ’’ کتابِ نورس‘‘ اور علی عادل شاہ ثانی شاہی کے کلیات اس باتکے واضح ثبوت ہیں کہ ان سلاطین بیجاپور کا فارسی زبان سے جو خاندانی رشتہ تھا ، وہ کم و بیش منقطع ہوچکا تھا، اور دکنی ہی اُن کی اپنی زبان ہوگئی تھی۔یوں تو عادل شاہی دور میں فنونِ لطیفہ نے ترقی کے اونچے زینے طے کئے لیکن ابتدا ہی سے شاعری کو خاصی اہمیت دی جاتی رہی، بیجاپور کے اولین ادبی دور میں اگرچہ کہ ہمیں موضوعات کا تنوع ملتا ہے لیکن اس عہد کی کم و بیش ساری تحریروں پر مذہب اور تصوف کی گھری چھاپ موجود ہے،

اس دور کے صوفیائے کرام میں یوں تو بہت سارے نام ملتے ہیں لیکن ان میں قابل ذکر حضرت میراں جی شمس العاشق، حضرت برہان الدین جانم اور حضرت امین الدین اعلیٰ کے نام نامی ہیں۔مذہب اور تصوف کے دور کے بعد شاعری کے اظہار و بیان میں ایک طرح کی باقاعدگی اور موضوعات کا تنوع اُجاگر ہوتا گیا ۔ اخلاقی اقدار کی اہمیت شعرائے بیجاپور کے ہاں ہمیشہ اہم اور واضح رہی ، اظہار و ابلاغ کے اس انداز کو اجاگر کرنے میں انہوں نے محیرالعقول عناصر کو شامل کیا۔ تخیل کی بلند پروازی نہ صرف عشقیہ مثنویوں کی حد تک محدود رہی بلکہ اُن مذہبی قصوں میں بھی یہہ انداز اور طور واضح ہوتا گیا، جو روایتی انداز کے حامل ہیں۔ مقیمیؔ کی ’’ چندر بدن اور مہ یار‘‘ اور صنعتیؔ کی مثنوی ’’قصۂ بے نظیر‘‘ اس کی واضح مثالیں ہیں۔عشقیہ مثنویوں میں یہی انداز ہاشمیؔ کی ’’یوسف زلیخا‘‘ اور نصرتیؔ کی ’’ گلشنِ عشق‘‘ میں بھی موجود ہے۔ عاجزؔ کی ’’ یوسف زلیخا‘‘ اپنی منظر نگاری کے اعتبار سے بیجاپور کی ایک نمائندہ مثنوی

منگل، 14 مئی، 2024

دشمنی کی آخری حد۔علم دشمن استاد

 


کراچی کے دو طالبعلموں نے اپنا فرسٹ ائر کا رزلٹ معلوم ہونے کے بعد خود کشی کر لی ۔دونوں طالب علم میٹرک کے امتحان میں 80 سے 90 فیصد مارکس حاصل کرنے والے بہترین طالب علم تھے لیکن ان ہونہار بچوں کو جان بوجھ کر فیل کر دیا گیا ہے۔ کراچی کے بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ کراچی کا مستقبل تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔بہت ہی افسوس کی بات ہے نوجوان نسل کو مایوسی کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے کراچی جو منی پاکستان ہے جو ملک کو ستر فیصد ریوینیو دیتا ہے اسی کراچی کی نوجوان نسل کے ساتھ ظلم جسے مشینی خرابی کا نام دے کر  اپنی نا اہلی اور کراچی دشمنی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے فرسٹ ایئر کے رزلٹ نے پورے شہر کے طالب علموں اور ان کے والدین سے ان کے سنہرے خواب چھینے ہیں ۔آخر کراچی کے  طالب علموں سے کیا دشمنی ہےجو وہ مایوس ہو کر خودکشی کی جانب راغب ہو رہے ہیں ۔ بہت ہی افسوس کی بات ہے ہمارے بچوں سے انکا روشن مستقبل چھینا جا رہا ہے

 ہماری نسلوں میں مایوسی اور بیگانگی پیدا کی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل میں تعلیم کے بغیر کیسے صلاحیت اور قابلیت پروان چڑھ سکتی ہے اعلیٰ سوچ و فکر کس طرح بیدار ہو سکتی ہے؟اھر یہی حالات رہے تو نوجوان نسل کے پاس سوائے مایوسی کے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا کیا کراچی کے تعلیمی بورڈز تباہ و برباد ہو چکے ہیں ؟  ہے کوئی پرسان حال؟ ۔کراچی ہائر سیکنڈری بورڈ کے انٹر فرسٹ ایئر  کےنتائج میں 70 فیصد بچوں کو فیل کر دیا گیا۔لیکن اندرون سندھ  میں95 فیصد بچوں کو پاس کر دیا گیا ہے ۔ یہ بات اہم اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ سندھ کے بیشتر لوگ جوتعلیم یافتہ نہیں ہی ان کے پاس  بھی جعلی تعلیمی اسناد موجود ہیں یعنی  اندھیر نگری چوپٹ تان اللہ رب العالمین نے اسلام کے لیے عطا کیا۔یہ ملک بہت خوبصورت اور بیش قیمت  وسائل سے مالامال ہے۔اس ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے  دیانتدار باصلاحیت اہل اور کرپشن سے پاک صالح حکمرانوں کی ضرورت ہے ۔ عوام کی بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں نا اہل اور کرپٹ ٹولے کا راج رہا ہے۔ صلاحیت اور صالحیت رکھنے والے حکمران آج تک منتخب ہی نہیں ہوئےہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ صورتحال میں متوقع  الیکشن  ایک بہترین موقع ہے  اور بہترین پاکستان بنائیں اس کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت 



۔ ملک کے تمام مسائل کا حل صرف نیک حکمران ہی حل کر سکتا قائداعظم محمد علی جناح کہتے تھے کہ ملک کو ترقی دینے کے لئے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں ملک کی تقدیر اور مستقبل بہتر بنانے کا راز مضمر ہے۔ہمیں نوجوانوں کو بے مقصد زندگی گزارنے سے روکنے کیلئے مؤثر اقدامات کرنے پڑیں گے۔ 8 فروری ملک بھر کی عوام کے لیے، ان کے بچوں یعنی پوری قوم کے مستقبل کے فیصلے کا اہم دن ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو حکومت میں نہ ہو کے باوجود ہر فلاحی کاموں میں مصروف نظر آتی ہے صرف ان کے پاس ہی دیانتدار کرپشن سے پاک  قبیلے برادری علاقائیت لسانیت کے تعصب  سے پاک باصلاحیت تعلیم یافتہ نمائندے موجود ہیں۔” جو پاکستان کے روشن مستقبل کی امید ہیں  اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔

مہنگائ کے بوجھ تلے والدین  کس طرح سے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور ان طالب علموں کو ایک نااہل استاد پرچہ چیک کئے بغیر ہر صفحہ پر کراس لگا رہا ہے۔۔  کوئ بتائے کہ طالب علم کے اس سال کا نقصان کون پورا کرے گا۔کیا ہمارے استاد اپنی فکری، شعوری،  دولت کو پیسے کے عوض بیچ چکے ہیں ۔ پاکستان میں ضمیر فروشوں کی منڈی لگی ہوئ ہے، ایوانوں، عدالتوں اور کچہری میں نوٹ پر ضمیر فروش جج، سینیٹر، وکیل سب بکتے ہیں۔ یہاں سود، رشوت، دھوکہ، فریب، جھوٹ، ملاوٹ، کو ہوشیاری عقلمندی سمجھاجاتا ہےاور پر آشوب دور میں ہمارے معصوم طالب علم جہد مسلسل میں لگے رہتے ہیں صرف اس امید پر کہ ان کی اچھی تعلیم ان کو اچھا مستقبل دے گی لیکن ہمارے تعلیمی اداروں کے اندر ایسے بے رحم بھیڑئے آ بیٹھے ہیں جو۔ قبر کے تاریک گڑھے کی ہولناکی سے بھی بے خبر ہیں 

 

پیر، 13 مئی، 2024

شاہ ایران کا جشن شہنشاہی ۔ایک ہوشربا داستان پارٹ2


     تقریب میں مہمان مغربی ممالک سے بھی تھے اور سوویت بلاک سے بھی۔ امریکی نائب صدر، سوویت یونین کی طرف سے نکولائی پوڈگورنی۔ آسٹریا، فن لینڈ، سویٹزرلینڈ کے سربراہانِ مملکت۔ فرانس، جنوبی کوریا اور سوازی لینڈ کے وزرائے اعظم۔ پاکستان کے صدر یحیٰی خان، انڈیا کے صدر گیری، ترکی، ہنگری، برازیل، چیکوسلواکیہ، انڈونیشیا، لبنان، جنوبی افریقہ، ماریطانیہ، سینی گال، زائرے، یوگوسلاویہ، رومانیہ کے صدور آئے۔کینیڈا اور آسٹریلیا کے گورنر جنرل آئے۔ چین، جرمنی، پرتگال، پولینڈ نے بھی اپنے وزرائے خارجہ یا سفیروں کو بھیجا۔ پوپ نے بھی اپنا خصوصی نمائندہ بھیجا۔لیکن سب سے زیادہ نظریں دوسرے بادشاہوں پر تھیں۔ اتنے زیادہ بادشاہ، ملکائیں، شہزادے اور شہزادیاں ایک جگہ پر کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوئے۔ ڈنمارک، بلجیم، نیپال اور گریس کے شاہی جوڑے۔ اردن، ناورے، ایتھیوپیا اور لیسوتھو کے بادشاہ۔ قطر، کویت، ابوظہبی کے امیر، عمان کے سلطان، افغانستان، لگزمبرگ، لیکٹنسٹائن، موناکو، فرانس، سویڈن، سپین، اٹلی، جاپان، مراکش، تھائی لینڈ، اردن اور ملیشیا سے شہزادے اور شہزادیاں۔برطانوی ملکہ الزبتھ نے اس میں شرکت نہیں کی کیونکہ بادشاہوں کے بادشاہ کہلانے والے کی میزبانی قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن انھیں نے اپنے شوہر فلپ اور شزادی این کو بھیجا۔ چند جگہوں سے مہمان اندرونی پریشر کی وجہ سے نہیں آئے کیونکہ شاہ کو کئی ممالک میں ڈکٹیٹر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مہمانوں کو ائیرپورٹ سے لانے کے لیے 250 بلٹ پروف لموزین گاڑیاں منگوائی گئی تھیں۔


تقریب کا آغاز سائرس کے مزار پر تقریب سے ہوا۔ ملکہ فرح اور ولی عہد رضا کے ساتھ سٹیج پر شاہ نے جذباتی تقریر کی اور سائرس سے وعدہ کیا کہ ان کے جانشین اس تابناک ماضی کی وراثت کا صحیح طور پر حق ادا کریں گے۔ پہلی شام کو شاہ نے مہمانوں کو پرتعیش ضیافت دی۔ یہ بندوبست بڑے خیمے میں کیا گیا تھا۔ یہاں کے فانوس اور سونے کا ملمع چڑھائی گئی کٹلری ایک صدی پہلے کے کسی یورپی دربار کا نظارہ پیش کر رہے تھے۔ کھانے کو 70 میٹر لمبی سانپ کی طرح بل کھاتی ایک میز پر پیش کیا گیا۔ اس کا میزپوش سینے میں 125 خواتین نے چھ ماہ تک کام کیا تھا۔ عام مہمانوں، جیسے کہ سفیر یا سربراہان کے ساتھ آئے وفود کے لیے خیمے میں الگ چھوٹی میزیں تھیں۔ مشرق و مغرب، کمیونسٹ اور کیپیٹلسٹ، ترقی یافتہ اور ترقی پزیر، بادشاہتیں، سابق کالونیاں، سب کھانے پر اکٹھے تھے۔ مینو فارسی اور فرنچ میں لکھا تھا۔ اس میں جو چیزیں پکائی گئی تھیں، وہ اپنی مثال آپ تھیں۔ ثابت مور، جن کو اپنے پروں کے ساتھ پیش کیا گیا، خاص توجہ کا باعث رہے۔ چھ سو مہمانوں کی یہ ضیافت چھ گھنٹے جاری رہی۔ مسلمان اکثریت والے ملک ایران میں الکوحل ناپسند کی جاتی تھی لیکن شاہ کی دعوت میں ڈھائی ہزار شمپین کی بوتلیں، ایک ہزار بورڈو کی بوتلیں، ایک ہزار برگنڈی کی بوتلیں شامل تھیں۔ شیمپین ساٹھ سال پرانی تھی جبکہ کوگنیک 1860 کی تھی۔ ان سب کو بحفاظت رکھنے کے لیے خاص سیلر تعمیر کروایا گیا تھا جہاں چار ہفتے انھیں محفوظ رکھا گیا تھا۔


 اس پارٹی میں ہر کوئی تھا لیکن ایرانی نہیں تھے۔ شاہ نے اپنے وزراء کو بھی نہیں بلایا تھا۔ صرف چند لوگ جو انتظامی امور دیکھ رہے تھے، موجود تھے۔ اگلے روز بڑا ایونٹ تھا۔ اس میں فارس کی عظیم سلطنت کے ڈھائی ہزار سال دکھانے کا شو ہوا۔ ایران کے پونے دو ہزار فوجیوں اور سینکڑوں گھوڑوں اور اونٹوں نے اس میں حصہ لیا۔ اس کی تفصیلات پر بہت توجہ دی گی تھی کہ تاریخ دکھانے میں ٹھیک ماحول پیدا کیا جائے۔ ہر دور کے اپنے کاسٹیوم، داڑھیاں، وگ، یونیفارم، سواریاں، ہتھیار، جنگی جہاز، ٹوپیاں۔ یہ سب بنانے کے لیے ملٹری مورخین کے ملٹی نیشنل ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ تہران کی ملٹری ورک شاپ نے کئی طرح کے کاسٹیوم بنائے تھے۔ قدیم باجے اور بھولے بسرے موسیقی کے آلات بنائے گئے تا کہ وہ آوازیں صحرا میں گونجیں جو صدیوں سے نہں سنی گئی تھیں۔ زورکسس کے تین قدیم بحری جہازوں کے ریپلیکا بھی تیار کیے گئے۔ غروبِ آفتاب کے بعد فارس کی تاروں بھری رات میں روشنی اور آوازوں کی پرفارمنس مہمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اس میں مختلف فارسی حکمرانوں کی آوازوں میں فارس کے تابناک ماضی کو یاد کیا گیا۔ اور آخر میں آتشبازی کے شاندار مظاہرے کے ساتھ روشن ہونے والے آسمان کے بعد تقریب اختتام پزیر ہوئی۔

 تیسرے روز وی آئی پیز کو تہران لے جایا گیا۔ یہاں پر کچھ پروگرام رکھے گئے تھے جس میں شاہِ ایران کی یاد میں تعمیر کردہ شاہ یاد ٹاور کی افتتاحی تقریب بھی تھی۔ تقریب خود میں بہت کامیاب شو رہا۔ شاہ نے دنیا کو دکھایا کہ پارٹی کیسے کی جاتی ہے۔ ملکہ فرح کے لباس اور زیور دنیا بھر کی خبروں میں رہے۔ ایک اور مشہور موضوع ایتھیوپیا کے بادشاہ کا پالتو کتا تھا جس کا ہیروں جڑا پٹہ کئی ملکاوٗں کے زیورات سے زیادہ قیمتی تھا۔ دنیا کے ہر میگیزین میں اس پارٹی کو بڑی کوریج ملی۔ “دعوتوں کی ماں”، “صدی کی سب سے بڑی تقریب” جیسے عنوانات دئے گئے۔ کچھ دیر ایران میں بھی اس کے کامیاب انعقاد کی خوشیاں منائی گئیں۔ ایرانی ٹی وی سکرین پر شاہ کو دنیا کے طاقتور ترین ممالک سے ملنے والی عزت دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ لیکن یہ سب زیادہ دیر نہیں رہا اور ایران کے اندر ان شاہ خرچیوں پر اعتراضات سامنے آنے لگے 


۔آیت اللہ خمینی، جو اس وقت عراق میں جلاوطن تھے، نے اس کو “شیطان کی دعوت” کہا۔ اس پارٹی میں استعمال ہونے والی شراب کی تفصیلات، ایرانیوں کی اس میں غیر موجودگی اور تقریب کی تفصیلات عام ایرانیوں کے لیے حیران کن تھیں۔ٹائم میگیزین نے اندازہ دس کروڑ ڈالر (آج 2020ءکے حساب سے 65 کروڑ ڈالر) لگایا۔ فرانس کے پریس نے اس سے دگنی لاگت کا اندازہ لگایا۔ شاہ کی انتظامیہ یہ اعداد سامنے آنے پر اس کی تردید کی اور کہا کہ خرچہ بہت کم ہوا ہے اور صرف ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر (آج کے حساب سے بارہ کروڑ ڈالر) ہے۔ شاہ نے کہا کہ خرچہ تو صرف وہ ہے جو کھانے پر آیا تھا۔ باقی تو ملک میں ہونے والی تعمیرات ہیں۔ اور ساتھ یہ کہ اس پارٹی میں آنے والوں نے جو عطیات دئے ہے اس سے ایران کے دیہاتوں میں تین ہزار سے زائد اسکول بنائے جائیں گے۔ یہ سب نیک مقصد کے لیے کیا گیا تھا۔ 


اس تقریب نے شاہ کی عوامی سپورٹ میں بہت کمی کر دی۔ اپوزیشن پارٹیاں، جو نظریاتی اعتبار سے بہت فرق رکھتی تھیں، شاہ کے خلاف متحد ہو گئیں۔ اس سے تین سال بعد شاہ نے عوام سے معذرت کی اور لوگوں سے معافی طلب کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ دہائیوں سے جاری غلط فیصلوں، کرپشن اور ظلم کا جاری طریقہ بدلیں گے۔ لیکن تاخیر ہو چکی تھی۔ ایران میں جاری بغاوت کامیاب ہوئی۔ ۔ 1979 میں پہلوی خاندان کو انقلاب کے نتیجے میں ایران چھوڑنا پڑاتقریب کے مقام موجودہ صورت حالتقریب کے بعد خیموں کا شہر استعمال کیا جاتا رہا۔ یہاں کرائے پر سرکاری اور نجی تقریبات منعقد ہوتیں۔ انقلاب کے دوران اس کو لوٹ لیا گیا۔ اب یہاں پر سڑکیں اور لوہے کی سلاخیں بچی ہیں۔ شاہ یاد مینار کا نام بدل کر آزادی ٹاور رکھ دیا گیا جو اب تہران کا ایک لینڈ مارک ہے ۔ ۔  

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کا تاریخی سیٹھی ہاؤس معماروں کے زوق تعمیر کا اظہار

   پشاور کا تاریخی محلہ سیٹھیاں اور سیٹھی ہاؤس جسے دیکھ کر اس کے معماروں کا زوق تعمیر عروج پر نظر آتا ہے - اس بے نظیر محلے کی آباد کاری  اس ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر