بدھ، 14 مئی، 2025

فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی'

  



فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کے خاندان کو جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہوئے  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت کے انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔


فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی

 فیڈرل بی ایریا 'کراچی میں تعلیم یافتہ شہریوں کی بستی' یہ میرا   تجزیہ نہیں بلکہ کراچی میں تعلیم کا اوسط نکالنے والی ٹیم کا کہنا ہے  -میرے شوہر بتاتے تھے کہ جب پاکستان بن  چکا اور  ان کے خاندان کو جانیں بچانے کے لئے پاکستان وارد ہوئے  'اس وقت  میرے شوہر کی عمر دس برس تھی اور وہ پانچویں جماعت کے انگلش اسکول میں پڑھ رہے تھے  لیکن  پاکستان آنے کے بعد ان  کا  داخلہ بھی نہیں کیا جاسکا  کیونکہ اب گھر بھر کی کفالت  کے لئے میرے شوہر کو کریانہ کی  دکان سنبھالنی پڑی  اس دوران میرے شوہر کی والدہ  ہجرت کی افتاد برداشت  نہیں کر سکیں اور ہجرت کے  دو برس بعد  ہی خدا کے گھر چلی گئیں لیکن اپنی آخری سانس سے پہلے انہوں نے میرے شوہر کو اپنے پاس بلایا  اور سونے کے  وہ دو گنگن    جنہیں وہ بچا کر ساتھ لائیں تھیں  ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے وصیت کی کہ ان کنگنوں کی لاج رکھنا اور  انہیں بیچ کر  اسکول میں داخلہ لے لینا -میرے شوہر نے ان کی وصیت کی لاج رکھی اور خود بھی تعلیم حاصل کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ پروفیشنل تعلیم دلوائ


    اگست  1947 میں قیام  پاکستان  کے وقت مختلف ہندوستانی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم مہاجرین نوزائیدہ ملک پاکستان ہجرت کرکے آئے۔  ہندوستان  میں پنجاب سے  ہجرت   کر کے آنے والے پاکستان کے پنجاب میں آباد ہوئے جبکہ تھر پار کر سے آ نے والے کراچی  میں  آباد ہوئے    ان دنوں شہر کراچی میں  ایک لاکھوں مہاجرین    نے بے سر و سامانی کے عالم   میں سر چھپانے کے لئے  جھگیوں   سے اپنے نشیمن بنا کر ان میں  پناہ لی   - لیکن  یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے  اپنی بے سروسانی کے باوجود  مہاجرین نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ  دی  اس خصوصی توجہ کا یہ ثمر کہ آج الحمد للہ مہاجروں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے -اور انکی تعلیم میں اس دور کے تمام اسا تذہء کرام کا -بھرپور کردار ہے جنہوں نے رنگ نسل کے امتیاز کے بغیر ہماری نسلوں کی تعلیمی آبیاری کی علی کوچنگ سنٹر سیفی کوچنگ سینٹر  عزیز آباد کے علاقے کے نامور کوچنگ سینٹر ہوا کرتے تھے  دہلی کالج کریم آباد  کمپری ہنسیو  اسکول  کے اساتذہ  کی      تعلیمی خدما ت کے بغیر  ہمارے طالب علم نامور ہو ہی نہیں سکتے تھے  ان اساتذہ نے ہمارے قوم کے بچوں  تراشہ  'سنوارا  اور ان کو مستقبل کا معمار بنا دیا اور بلا شبہ بچوں نے بھی ان کی محنت کا بھر پور صلہ دیا-انہوں نے بہترین رزلٹ کے لئے  اپنے کھیلنے کی شامیں کوچنگ سینٹرز کو دے  دیں 


   اب کچھ ضلع وسطی کی آبادیوں کے بارے میں   قیام پاکستان کے وقت  شہر سے  گزرنے والی  حب ندی کے کنارے  آبادی صرف تین ہٹی تک تھی  پھر جو مہاجروں کا سیلاب بے کراں وارد ہوا  تو  آبادی لالو کھیت نمبر دس تک آ پہنچی ۔ سنہء 1953 وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ    کے بینر تلے     بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری کے لئے "منصورہ" کے نام سے مختلف قطعات پر مشتمل ایک عظیم رہائشی منصوبہ تشکیل دیا ۔جو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ منصورہ کے بجائے فیڈرل بی ایریا کے نام سے زیادہ معروف ہوگیا اس رہائشی منصوبے کا باقاعدہ آغاز صدر پاکستان کے حکم نمبر ۵مجریہ دسمبر ۱۹۵۷کے تحت قائم کئے جانے والے ادارہ ترقیات کراچی کو سونپا گیا تھا اس وقت یہ ادارہ  کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ ، کراچی جوائنٹ واٹر بورڈ ۔پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ ، اور وزارت بحالیات کا جانشین تھا فیڈرل بی ایریا کا رقبہ  ہزاروں ایکڑ پر ہے اور کئ ہزار قطعات پر مشتمل ہے 


یہ قطعات 120 گز سے لیکر ایک ہزار گز تک ہیں ان میں سے 353قطعات صنعتی علاقے کے لئے اور  707قطعات تجارتی مراکز کیلئے اور ۱۰۱قطعات شہری سہولتوں کے لئے مختص کئے گئے تھے    ۔1985   میں علاقے کے نوجوانوں نے فیڈرل بی ایریا کا نام گلستان مصطفی رکھنے کی تحریک چلائی تھی -اس وسیع علاقہ کو بھی دارالحکومت کے لحاظ سے بسایا گیا تھا ۔ لیکن 1960 میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو دارالحکومت کا درجہ دینے کے باعث یہ علاقہ وہ مقام نہ پاسکا جس مقصد کے تحت اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے بسایا گیا تھا۔ فیڈرل بی ایریا  کو انتظامی لحاظ سے 22مختلف بلاکوں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس میں بلاک21/22 صنعتی علاقوں کی حیثیت سے مختص ہیں۔اس کے علاوہ یہان 102سوسائٹیاں بھی ہین جن میں الاعظم ، کریم آباد، دستگیر کالونی ،عزیز آباد نمایاں ہین کے ڈی اے اسکیم نمبر ۱۶فیڈرل بی ایریا میں بلاک نمبر ۱اور 2میں پہلے تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تھا


یہان ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے  گز120کے  مکانات تعمیر کئے گئے تھے دوکمروں باورچی خانہ ،غسل خانہ اور بیت الخلاء پر مشتمل کوارٹر کی قیمت پہلے 7500اور پھر کم کرکے5500کردی گئی تھی بلاک نمبر ایک کے مکانات ایک پرائیوٹ تعمیراتی  کمپنی نے تیار کئے تھے اس کمپنی کے مالک شریف چوہان اسی علاقے کے رہائشی تھے لہذ ا انھوں نے 1966میں ازخود اس  کا نام  شریف آباد رکھ دیا ابتداء میں صرف ان کے بنائے ہوئے مکانات ہی اس نام سے پہچانے جاتے تھے پھر آہستہ آہستہ اس نام سے پورا علاقہ مشہور ہوگیا  انچولی (انگریزی: Ancholi)، پاکستان کا ایک رہائشی علاقہ جو کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے، یہ رہائشی علاقہ ضلع وسطی میں شامل ہے اور گلبرگ ٹاؤن کا بھی حصہ تھا۔


انچولی شاہراہ پاکستان کے نزدیکی علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 17 اور 20 کو کہا جاتا ہے۔ ان دونوں بلاکس کے درمیان انچولی روڈ بھی واقع ہے، جو شاہراہ پاکستان سے النور موڑ کو جاتی ہے۔ انچولی روڈ پر شاہراہ پاکستان کے سرے پر انچولی بس اسٹاپ ہے جبکہ دوسرے سرے پر النور موڑ ہے۔ عام طور پر انچولی کا نام فیڈرل بی ایریا بلاک 20 کو دیا جاتا ہے، لیکن اہلیانِ بلاک 20 اپنے علاقے کا نام سادات سوسائٹی بتاتے ہیں۔ ۲ کا نام مولانا محمد علی جوہر کے نام ہر جوہر آباد ہوگیا بلاک نمبر ۳کا نام حسین آباد "حسین ٹیکسٹائل مل کے گجراتی مالک حسین سیٹھ کے نام پر رکھ دیا گیا اسی طرح بلاک۲ اور آٹھ نمبر کا نام عزیز آباد کے ڈی اے کے ممبر لینڈ عزیزالحق  تھانوی کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے اس بستی کو بسانے میں بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا تھا عزیز الحق تھانوی ممتاز عالم دین جامع مسجد جیکب لائن کے خطیب وامام احتشام الحق تھانوی کے عزیز تھے عزیز الحق تھانوی کا انتقال دسمبر 1975 میں انکی نماز جنازہ احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی ۔



 اسی طرح بلاک نمبر 9،14اور 15کی دستگیر کالونی کہلاتی ہے ان علاقون میں مکانات تعمیر کرنے والے ادارے کانام  دستگیر کوآپریٹیو سوسائٹی تھا اور  ان کی کنسٹرکشن کمپنی کا نام دستگیر کنسٹرکشن کمپنی تھا جو پیران پیر دستگیر حضرت عبدالقادر جیلانی رح  کے نام سے منسوب کیا گیا تھا 1966کے بعد گلبرگ،سمن آباد، نصیر آباد، انچولی وغیرہ نام رکھے گئے 1970میں بلاک 16فیڈرل ایریا میں الاعظم لمٹیٹڈ نے یوسف پلازہ کے نام سے ایک بڑا رہائشی منصوبہ شروع کیا تھا ۔31سال قبل1985 میں  یہان معروف سماجی شخصیت مولانا عبدالستار ایدھی نے ایدھی میت خانہ ، غسل خانہ قائم کیا تھا فیڈرل بی ایریا کی مرکزی شاہراہ پاکستان ( سپر ہائی وے) کا شمار ملک کی قومی شاہراہ میں ہوتا ہے۔ اس سڑک کا افتتاح 29؍ اپریل  1970ء کو سابق صدر مملکت یحییٰ خان نے کیا تھا 


افتتاحی تقریب  میں گورنر مغربی پاکستا ن لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمان ، وزیر صنعت حفیظ الدین، کمشنر کراچی مسعود نبی نور۔ڈپٹی کمشنر کنور ادریس، ڈی آئی جی پولیس محمد یوسف سمیت چاروں مسلح افواج کے سربراہان شریک تھے۔ افتتاحی تقریب کے بعد شاہراہ پاکستان کو کراچی اور حیدرآباد کے درمیان عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا تھا . سڑک لیاقت آباد نمبر ۱۰ مسجد شہدا سے شروع ہوکر براستہ کریم آباد، عائشہ منزل، واٹر پمپ، انچولی سوسائٹی سہراب گوٹھ پرختم ہوتی ہے۔ سہراب گوٹھ الاآصف اسکوائر سے حیدرآباد کے درمیان گزرنے والی سپر ہائی وےکو ایم نائین کا نام دیا گیا ہے ۔ شاہراہ پاکستان پر کریم آباد ،واٹر پمپ ، عائشہ منزل اور سہراب گوٹھ کے مقام پر فلائی اوور تعمیر کئے گئے ہیں شہر میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے، قوانین پر عمل اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں واٹر ٹینکرز اور آئل ٹینکرز کو رات ۹ بجے سے صبح ۶ بجے تک جب کہ دیگر ہیوی ٹریفک رات  سے صبح ۶ بجے تک چلائے جانے کا قانون بنایا تھا لیکن اس  پر عمل درآمد نہیں ہوسکا      


 پورے ضلع وسطی کا ایک  منفرد گراؤنڈ   ہوتا تھا جس کو سنگم گراؤنڈ کہا تھا  - اپنے ماضی میں اتوار کے دن   علاقے کے نوجوان سنگم گراؤنڈ میں کر کٹ کھیلتے تھے -سابقہ مکہ چوک، اور اب لیاقت علی خان چوک، سے تھوڑے فاصلے پر واقع 3200 سکوائر میٹر پر پھیلا یہ میدان ماضی میں سنگم سپورٹس کرکٹ کلب کے نام سے منسوب  تھا -     ۔اس گراؤنڈ میں  ایک دن کے لئے   کئ سو دکانوں کا سستا بدھ بازار بھی لگتا تھا      -پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے ضلع وسطی میں 6پارکوں کا افتتاح کر دیااخوت فیملی پارک کے افتتاح کے بعد بلدیہ وسطی کے محکمہ باغات کی جانب سے تعمیرِ نو کے بعد بحال کئے جانے والے باغات کی گولڈن جوبلی ہوگئی اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ سیاست سے بالا تر ہوکر ضلع وسطی کی خدمت کر رہا ہوں عوام بھی ضلع کی بحالی کے کاموں میں تعاون کریں،


پیپلز پارٹی عوامی جماعت ہے اور عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود اس کا اوّلین ہدف ہے انہوں نے کہا کہ ضلع وسطی میں نتیجہ خیز منصوبوں اور خدمات پر ڈپٹی کمشنر طہٰ سلیم خراجِ تحسین کے مستحق ہیں اس موقع پر طحہٰ سلیم نے ڈاکٹر عاصم کی جانب سے ضلع وسطی کے عوام اور بلدیہ وسطی کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے تعاون پرشکریہ ادا کیابعد ازاں ڈاکٹر عاصم حسین نے ڈپٹی کمشنر و ایڈمنسٹریٹر ضلع وسطی طحہٰ سلیم کے ہمراہ بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار و شہنشاہ غزل مہدی حسن کے نو تعمیر مقبرے پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی اور مہدی حسن کے لواحقین سے ملاقات بھی کی۔افتتاح کیے جانے والے پارکس میں راہ عمل پارک ناظم آباد نمبر3،رانی باغ نارتھ ناظم آباد بلاک H،عثمان غنی پارک گلبرگ بلاک 9،شریف شہید پارک سیکٹر 5E نیو کراچی، اخوت فیلمی پارک ناظم آباد نمبر1،KDA چورنگی پارک نارتھ ناظم آباد اور بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار مہدی حسن کے مقبرے کی تعمیر نو بھی شامل ہیں۔

 

اتوار، 11 مئی، 2025

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ اور راہب اعظم part-2

 


راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو 

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ 

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو 

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4کا  حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں ) 

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دیا

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

 راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے

  راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃ کیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

 راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2 

 راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

     راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں 

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں

  راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے 

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ

 سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی 

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی 

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی 

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے 

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض

حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام 

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا 

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا     

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر

خرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111 

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں 

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں 

   راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے 

بایزید: بلبل کہتی ہے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ ْراہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطالراہب اعظم :مور کیا کہتا ہے 

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحلراہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہے 

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

 راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے 

 بایزید : لعن اللہ العشار

 راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہے 

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہے اور پھر طلوع ہوتا ہےراہب اعظم : طامّہ کیا ہے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے 

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے 

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں 

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئےبایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیابایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں-راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیںبایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیںراہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہےراہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہےبایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہے

 جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہے اور ان چاروں کا مرکز مغز ہے جو کاسہء سر میں بند ہے      راہب اعظم :جب دن ہوتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے اور جب رات چلی آتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہےبایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہے راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کے ہیں اور تین پھول سائے میں ہیں بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہے 

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں    راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن علیہالسّلام  اور امام حسین علیہالسّلام  ہیں  اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا--- ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔

جمعہ، 9 مئی، 2025

حضرت بایزید بسطامی رح اور راہب اعظم

 


 

حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ  اللہ تعالٰی  کے ایک نیک اور حق پرست مسلمان گزرے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن سفر کرتے ہوئے جبکہ تنہائی بھی میری رفیق سفر بھی تھی استغراق اورغنودگی کے عالم میں چلا گیا ،ایسے میں میرے قلب پر الہام ہوا کہ ائےبا یزید درّ سمعان کی جانب چلے جاؤ اورعیسائیوں کے ساتھ انکی عید اور قربانی میں شریک ہو ، اس وقت وہاں تمھاری شرکت سے ایک شاندار واقعہ ظہور پزیر ہو گا ۔حضرت بایزید فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اپنے آپ کو ہوشیار کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ سے کہا کہ میں اب ایسا شیطانی وسوسہ اپنے دل میں نہیں آ نے دوں گا لیکن رات کو پھر مجھے الہامی آواز نے متنبہ کیا اور وہی کچھ دہرایا جو دن میں میرے عالم استغراق میں کہا گیا تھا اس آواز کے سننے کے بعد میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئ اور اور پھر میں نے بار بار اپنے دل سے پوچھا کہ اس حکم کی تعمیل کروں یا ناکروں میرے اس طرح سوچنے سے مجھے منجانب پروردگارعالم ایک ڈھارس سی بندھی اور ساتھ  یہ بھی الہام ہوا کہ مین راہبوں کے لباس و زنّار کے ساتھ شرکت کروں ۔


 چنانچہ میں نے عیسا ئیوں کی عید کے دن بحکم ربّ العالیمن راہبانہ لباس زیب تن کیا ساتھ ہی زنّار بھی پیوسطہ ء لباس کی اور انکی عید منانے کے مقدّس مذہبی مقام پر  پہنچ گیاوہ تمام اپنی عید کا دن  ہونے کی مناسبت سے اپنی مقدّس محفل سجائے ہوئے بیٹھے تھے ،ان راہبوں میں دنیا کے مختلف ملکوں اور جگہوں کے راہب بھی تھے اور یہ سب کے سب اب راہب اعظم کے منتظر تھے ،میں چونکہ راہبانہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے مجھے کوئی بھی ایک علیحدہ شخصیت کے روپ میں پہچاننے سے قاصر تھا اب میں  بھی انہی کی محفل عید کا ہی حصّہ شمار ہو رہا تھا ،لوگ بہت مودّبانہ لیکن مدّھم آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام تھے اور پھر راہب اعظم کی آمد ہوئ اور تمام لوگ حدّ ادب سے بلکل خاموش ہو گئے،راہب اعظم  نے ممبرپر جاکر جونہی  بولنے کا ارادہ کیا ممبر ویسے ہی لرزنے لگا اورراہب کی قوّت گویائ سلب ہو گئی۔


راہب اعظم کو سننے کے لئے آئے ہوئے تمام راہب ,راہب اعظم کی کیفیت کی جانب متوجّہ ہوئے اور ایک راہب نے کہا اے ہمارے مقدّس اور  بزرگ پیشوا ہم تو بڑی دیر سے آپ کے حکیمانہ ارشادات سننے کے متمنّی ہیں اور آ پ خاموش ہو گئے ہیں تب جوا ب میں راہب اعظم کی قوّت گویائی واپس ہوئی اور اس نے کہا تمھارے درمیاں ایک محمّدی شخص تمھارے دین کی آزمائش کے لئے آ کر شامل ہوا ہئے  راہب اعظم کے اس انکشاف سے تمام راہب طیش میں آگئے اور انہوں نے راہب اعظم سے کہا کہ ائے ہمارے محترم پیشوا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کر ڈالیں ،راہبوں کی بات سن کر راہب اعظم نے کہا نہیں ! دین عیسوی میں یہ بات جائز نہیں ہئے کہ کسی شخص کو بغیر کسی دلیل و حکائت کے قتل کر دیا جائے تم لوگ زرا توقّف کرو میں اس شخص کی خود آزمائش کر نا چاہتا ہون اگر وہ شخص میری آزما ئش میں ناکام ہوجا ئے تو یقیناً تم لوگ اسے قتل کر دینا ،


راہب اعظم کی بات کے جواب میں تمام راہبو ں نے کہا اے ہمارے معزّز پیشوا ہم تو آپ کے ماتحت ہیں آپ جیسا کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے اور پھر وہ سب خاموش ہو کر راہب اعظم کے ا گلے اقدام کی جانب متو جّہ ہو گئے اس کے بعد راہب اعظم نے سر ممبر کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا اے محمّدی تجھے قسم ہئے محمّد (صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم )کی کہ تو جہاں ہئے وہیں کھڑا ہو جا ،راہب اعظم کی قسم کے جواب میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے نام  کی تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور راہب اعظم نے کہا اے محمّدی تم نے ہماری محفل میں شرکت کر کے ہمارے دین کو آزمانا چاہا ہئے اب میں تم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے میرے علم الادیان کے سوالوں کے جواب بطور آزمائش صحیح، صحیح دے دیئے تو تمھاری جان بخش دی جائے گی ورنہ تو تم واجب القتل ہی ہو گے۔ حضرت بایزید بسطامی نے تحمّل کے ساتھ جواب دیا اے محترم راہب اعظم آ پ سوال کیجئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا 

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئ دوسرا نا ہو 

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

 عالم ہئے جس کا کوئ شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے 

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئ تیسرا نہیں ہئے 

 با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے 

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئ چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں 

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں 

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں 

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہوبایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا  

   اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہوبایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دیا (جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

 راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں نا ہو 

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے 

  اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئ فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

 راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہو راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حو الہ دیا

جاری ہے

بدھ، 7 مئی، 2025

بورے والا ٹیکسٹائل مل -جو مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئ

 قیام پاکستان کے  ساتھ ہی   حکومت   پاکستان نے  ملک میں صنعتی زون بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے  پاکستان انڈسٹریل بورڈ تشکیل دیا گیا۔ اسی ادارے نے بورے والا ٹیکسٹائل مل کی  بنیاد رکھی اور پھر کراچی کی  میمن برادری  کی  ایک مشہور کاروباری   شخصیت   سیٹھ داؤ د نے اس کا انتظام و انصرام سنبھال کر  اس کی حیثیت کو   عروج دیا   -سیٹھ داؤد چاہتے تھے  اس مل   سے   نہ صرف مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئیں بلکہ وہ ملکی ترقی میں بھی بھر پور کردار ادا کر سکے۔سیٹھ  داؤد  نے بوریوالا ٹیکسٹائل ملز پر شبانہ روز محنت کر کے  مل کو  صنعتی  زون کی  ایک روشن مثال بنا دیا تھا   ۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت ایشیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مل تھی۔  اس کے نام  کو مختصر  کر کے   صرف تین الفابٹ

    B-T- Mمیں بہت بڑی جسامت میں مل کی بلند ترین عمارت کی ٹنکی پر نصب کیے گئے تھے،


جو دن کو تو اتنے نمایاں نہ ہوتے لیکن رات کو سرخ رنگ کی برقی روشنی میں نہا کر یہ دور دور تک لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھتے۔یہ سینکڑوں ایکڑ پر محیط ایک ایسا صنعتی منصوبہ تھا جو نہ صرف مدتوں ملک کی صنعتی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کرتا رہا۔ بلکہ یہ مقامی آبادی کو روزگار مہیا کرنے کا بھی ذریعہ تھا۔ تقریباً چار ہزار کے قریب اس مل کے باقاعدہ ملازم تھے۔ جن میں اکثریت تو مقامی لوگوں کی تھی۔ لیکن کئی خاندان وطن عزیز کے دور دراز علاقوں سے آ کر اسی مل کے وسیلے سے یہاں پر مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے تھے۔اس دور میں جب کہ لوگوں کو ابھی روٹی کپڑا، مکان، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے متعلق کوئی خاص آگاہی نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس مل کے مالکان اپنے ملازمین کی یہ تمام بنیادی ضروریات بغیر کسی تشہیر کے پوری کر دیا کرتے تھے۔ ملازمین کی رہائش کے لیے چھوٹے چھوٹے کواٹرز اس طرح تعمیر کیے گئے تھے کہ ہر کوارٹر کا دروازہ ڈیڑھ دو ایکڑ رقبے پر مشتمل ایک پارک میں کھلتا تھا۔


 جہاں پر ان ملازمین کے بچے کھیل کود اور دوسری جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہتے اور مختلف اجتماعات کے لیے بھی انہی پارکس کو کام میں لایا جاتا۔اپنے ملازمین کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مل مالکان نے یہاں پر ہی ایک بوائزز ہائی سکول اور ایک گرلز ہائی سکول قائم کیا ہوا تھا۔ جہاں پر بچوں کو دسویں جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ اپنے ملازمین کی صحت سے متعلق ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں باقاعدہ طور پر ایک ہسپتال موجود تھا۔ جہاں ہمہ وقت دو ڈاکٹر اور بقیہ عملہ مل ملازمین کا علاج کرنے کے لیے موجود رہتا۔اس زمانے میں بورے والا شہر میں بھی غالباً دو ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوا کرتے تھے۔اس طرح بی ٹی ایم کے ملازمین کو صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولتیں میسر ہوا کرتی تھیں۔ کپڑے کے سلسلے میں ہر مزدور کو سال میں 20 میٹر کپڑا انتہائی سستے داموں میں دستیاب ہوا کرتا تھا۔بی۔ ٹی۔ ایم اپنے استعمال میں آنے والے خام مال کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے علاقے بھر کے زمینداروں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری بھی کیا کرتی تھی۔


یہاں پر موجود جیننگ فیکڑی کے دو افسران عزیز بھائی اور ادریس بھائی کمال کے لوگ تھے۔ آڑے وقت میں قرضوں کی شکل میں مقامی زمینداروں کی مدد کرنا اُن کا عام وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ زمیندار کو کپاس کا ریٹ پورا دیا جاتا ادائیگی وقت پر کی جاتی۔ کچھ زمیندار گھرانے ایسے بھی تھے کہ جیسے جیسے اُن کی کپاس اترتی جاتی وہ اس کی قیمت کا تعین کیے بغیر ہی اُسے مل میں پہنچاتے جاتے اور آخر پر اس سیزن کے بلند ترین ریٹ کے مطابق اپنی مہیا کی گئی کپاس کی قیمت وصول کر لیتے۔یہ ایک بہت بڑی سہولت تھی۔ جو کپاس کے کاشت کاروں کو بی۔ ٹی۔ ایم کی بدولت میسر ہوا کرتی تھی۔ لین دین میں دیانت داری، شرافت اور شفافیت کے اصولوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ بعض لوگ ان کے ساتھ کھل کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ دو چار سو بوری کھل خرید کر اس کی قیمت ادا کر دیا کرتے اور کھل وہاں سے اٹھانے کی بجائے گیٹ پاس کی صورت میں خرید شدہ کھل کی بوریوں کی تعداد کا اجازت نامہ صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے کی شکل میں حاصل کر لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد کھل مہنگی ہونے کی صورت میں وہ کھل اُن کو ہی فروخت کر کے اپنا منافع حاصل کر لیا کرتے۔ اس دوران انہیں کھل یہاں سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ پر سٹور کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔


اس زمانے میں بورے والا میں اور بھی چھوٹی موٹی جیننگ فیکڑیاں موجود تھیں۔ بی۔ ٹی۔ ایم کی تقلید میں کھل کی خرید و فروخت کے لیے گیٹ پاس سسٹم کو وہ بھی استعمال میں لایا کرتی تھیں۔ لیکن وہاں پر بیوپاریوں کو اکثر و بیشتر اُن سے شکایات ہی رہا کرتی تھیں۔ کہیں پر اُن کے پیسے ہی مار لیے جاتے۔ کہیں پر ریٹ مارکیٹ کے مطابق نہ ملتا اور کہیں پر ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر کر دی جایا کرتی تھی۔بی۔ ٹی۔ ایم میں کام کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے پورے دن کو آٹھ آٹھ گھنٹوں کی تین شفٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی شفٹ صبح چھ بجے سے لے کر دو بجے تک دوسری دو سے دس تک اور نائٹ شفٹ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک جاری رہا کرتی تھی۔ ہر شفٹ کے آغاز سے ایک گھنٹہ پہلے مل میں سائرن بجایا جاتا تھا۔ جسے اس زمانے میں سبھی لوگ سائرن کی بجائے گھگھو کہا کرتے تھے اور اس گھگھو کی آواز پورے شہر میں بآسانی سنائی دیا کرتی تھی۔ گویا کہ مل ملازمین کے لیے یہ گھگھو مل میں بلاوے کا اعلان ہوا کرتا تھا۔ آدھ گھنٹہ بعد ایک بار پھر یاد دہانی کے لیے گھگھو بجایا جاتا اور پھر اس کے آدھ گھنٹہ بعد گھگھو کے ذریعے شفٹ کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا جاتا۔


 اس کے علاوہ ماہِ رمضان میں روزے کی افطاری اور اختتام سحری کا اعلان بھی اسی گھگھو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ جو اس وقت سب سے مستند اور درست ذریعہ مانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آٹھ سے چار بجے تک جنرل شفٹ ہوا کرتی تھی  ہر شفٹ کے آغاز سے آدھ گھنٹہ پہلے اور آدھ گھنٹہ بعد مل کو جانے والی سڑک پر سائیکل سوار مل مزدوروں کی آمد و رفت سے خوب چہل پہل رہتی۔ کچھ مزدور خاندان تو بی۔ ٹی۔ ایم کے کوارٹرز میں رہائش پذیر ہوا کرتے تھے لیکن بہت سے مزدور شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں سے بھی آیا کرتے تھے۔پہلی تاریخ کو جب لوگوں کو تنخواہ ملتی تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی اور اس کے مثبت اثرات شہر بھر کی دکانوں پر اُن کی سیل میں اضافے کی صورت میں نظر آیا کرتے تھے۔ یہیں پر ایک سوئمنگ پول اور ایک عدد بہت اچھے معیار کا کلب بھی موجود تھا۔ جہاں پر مل ملازمین اور اُن کے بچے اس سہولت سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہاں پر ایک معیاری ریسٹ ہاؤس بھی موجود تھا۔ جو بی۔ ٹی۔ ایم کے افسران کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ سرکار کے اعلیٰ افسران کے قیام کے لیے بھی استعمال میں لایا جایا کرتا تھا۔ اس موقع پر سیٹھ سلیمان اور اس کی جوان سال، خوش خصال، خوش شکل اور نیک دل اہلیہ کے ذکر کے بغیر یہ کہانی ادھوری رہے گی۔


احمد داؤد خاندان سے تعلق رکھنے والے سیٹھ سلیمان اپنی اہلیہ کے ہمراہ یہاں پر جنرل منیجر کی حیثیت سے تعینات ہو کر آئے تو رومانوی اور افسانوی شخصیت رکھنے والے اس جوڑے نے یہاں پر اپنے حُسن ِ سلوک سے افسروں اور مزدوروں کا دل موہ لیا۔ یہاں پر گرمی کی شدت کے پیشِ نظر انہوں نے اپنے گھر پر ائرکنڈیشنر لگوایا تو اُن کی انصاف پسند اور وضع دار طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ اُن کی ماتحتی میں کام کرنے والے افسران گرمی کی شدت سے جھلستے رہیں۔ چنانچہ افسران کے گھروں میں بھی اے سی لگوا کر دیے گئے۔ انہوں نے یہیں پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مل کے اندر بھی جن کھاتوں میں ائرکنڈیشنر کی ضرورت تھی انہیں بھی مرکزی طور پر ائرکنڈیشنڈ کیا گیا۔مزدوروں کے بونس کی وقت سے پہلے ہی ادائیگی کے لیے خصوصی انصرام و انتظام کیا کرتے۔ اپنے افسران کے ساتھ ساتھ مزدوروں سے بھی خوشگوار برتاؤ کیا کرتے تھے۔ اُن کی اہلیہ بھی اس معاملے میں اُن سے کسی بھی طور پر پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ وہ تقریباً ہر مہینے ایک دعوت کا اہتمام کیا کرتیں۔ جس میں افسران کے بیوی بچوں کے علاوہ مزدوروں کے کچھ خاندانوں کو مدعو کیا جاتا۔ مزدور طبقے کی خواتین کے ساتھ رسم و راہ رکھنا اس کی اولین ترجیح ہوتی۔ وہ ہفتے میں ایک دو دن لیڈی پارک میں جایا کرتی۔ جہاں وہ مزدور گھرانوں کی خواتین کے ساتھ گھل مل جاتیں اور اُن کو درپیش مختلف مسائل کو حل کرنے میں اُن کی ممد و معاون ہوتیں۔ غرض کہ یہ خوب صورت خوب سیرت اور جواں سال جوڑا تمام مل ملازمین کو ایک خاندان کی طرح جوڑے رکھتا۔ 


یہ بات مزدور یونین کے لیڈروں کو کسی طور بھی گوارا نہیں تھی۔ انہوں نے مزدوروں کو مل مالکان کے خلاف بھڑ کانا شروع کر دیا۔ نفرت ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو بہت تیزی سے وائرس کی طرح پھیلتا ہے۔ مزدوروں کو اُن کے استحصال کے متعلق جھوٹی سچی کہانیاں جوڑ کر سنائی گئیں۔اس سازش کی آبیاری میں حسبِ معمول مقامی سیاست نے بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالا اور مل مزدوروں اور مل مالکان کے درمیان نفرت کی ایک دیوار بلند ہوتی گئی۔ مزدور کو اُن کے حقوق دینے کی باتیں ہونے لگیں تو اُن میں کام چوری بلکہ سینہ زوری کی علتیں آ موجود ہوئیں۔ آئے روز ہڑتال کی دھمکی زندہ باد مردہ باد کے نعرے بدبو دار سیاسی رویے اور مداخلت نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ مل کو چلائے رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ اربوں سے لگائے گئے اس منصوبے کا منافع نامساعد حالات کی وجہ سے تقریباً صفر پر آ چکا تھا۔ لیکن سیٹھ سلیمان کا خیال تھا کہ پانچ سات ہزار خاندانوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ اس لیے اسے ان حالات میں بھی چلتے رہنا چاہیے۔


اس نے اس منصوبے کے باقی حصہ داروں کو بھی اس بات پر راضی کر لیا تھا۔ لیکن عاقبت نا اندیش مزدور یونین کے رہنماؤں کو یہ بات ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے باقاعدہ سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ایک دن صبح فارغ ہونے والے مزدوروں کی پوری شفٹ کو روکے رکھا اور آٹھ بجے جب سیٹھ سلیمان مل کے اندر جانے کے لیے گیٹ پر آئے تو ان تمام مزدوروں نے مردہ باد کے نعروں کی گونج میں سیٹھ کو حقیقی معنوں میں ننگے ہو کر دکھا دیا۔ اس کے بعد سیٹھ وہیں سے واپس لوٹ آیا۔ گھر آ کر اپنا سامان سمیٹا اور دونوں میاں بیوی واپس کراچی لوٹ گئے۔ بلکہ وہ یہاں بھی نہیں رکے اور لندن جا کر دم لیا اور اپنی بقیہ زندگی وہیں پر گزار دی۔اُن کے جانے کے بعد مل کو بند کر دیا گیا۔ مزدوروں کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ مشینری بیچ دی گئی اور آج وہ علاقہ جہاں پر ایک دنیا آباد ہوا کرتی تھی، سینکڑوں خاندان جہاں رہائش پذیر تھے، ہزاروں خاندانوں کا رزق جس کے ساتھ وابستہ تھا، جہاں رہائشی کالونیوں میں بچوں کی کلکاریاں اور بڑوں کے مسرت و شاد مانی سے بھرپور قہقہے سنائی دیا کرتے تھے وہاں پر آج کل ویرانی کےڈیرے ہیں -کہاں گئے وہ بدبخت جنہوں نے ہزاروں لوگوں کا روزگار چھین  کر ایک لہلہاتی صنعتی بستی اجاڑ کر ہی دم لیا 


اتوار، 4 مئی، 2025

کینیڈا دنیا کا کثیر قومی ملک

    البرٹا مغربی کینیڈا میں واقع ہے اور اس کی سرحد مغرب میں برٹش کولمبیا، مشرق میں سسکیچیوان، شمال میں شمال مغربی علاقے اور جنوب میں امریکی ریاست مونٹانا سے ملتی ہے۔ البرٹا کینیڈا کے تین صوبوں میں سے ایک ہے جس کی سرحد صرف ایک امریکی ریاست سے ملتی ہے۔ دیگر دو یوکون اور نیو برنسوک ہیں۔ سسکیچیوان اور البرٹا دونوں کی زمینی سرحدیں ہیں۔ البرٹا کا دارالحکومت ایڈمونٹن ہے، جو صوبے کے جغرافیائی مرکز کے بالکل جنوب میں واقع ہے۔ کیلگری کا مشہور شہر اس سے 300 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ کیلگری البرٹا کا سب سے بڑا شہر ہے اور کینیڈا کے بڑے تجارتی مراکز میں سے ایک ہے۔کینیڈا کو غیر ملکی سیاحوں اور سیاحت کے شعبے میں ملازمین کی کمی کا سامنا قامی سیاحتی تنظیم کو ملازمین کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اس ایک جگہ کا نہیں ہے بلکہ کینیڈا میں سیاحت کے شعبے میں ہزاروں ملازمین کی کمی ہےکینیڈا نے حال ہی میں غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا آغاز کیا ہے۔


 تاہم اس کام میں چین سے تنازع کے ساتھ ساتھ جنگلات کی آتشزدگی اور ملازمین کی کمی آڑے آ رہی ہے۔جیک ریورز سیاحوں کے گائیڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کینیڈا میں سیاحوں کے لیے تین چیزیں موجود ہیں جن میں قدرتی نظارے، مقامی تہذیب اور تاریخ شامل ہیں۔جیک کا تعلق کینیڈا کی مقامی آبادی سے ہے جو اب اونٹاریومیں وکویمکونگ خطے کے ایک جزیرے کی سیر کرواتے ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں جھیل کنارے گھنے جنگلات موجود ہیں اور قدرتی حسن کی بہتات ہے۔ جیک سیاحوں کو کینیڈا میں بسنے والی مقامی آبادی کی تاریخ اور ان کے علاقے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ان کو اپنا کام پسند ہے لیکن وہ مانتے ہیں کہ ’ہر کوئی یہ نہیں کر سکتا۔ یہ آٹھ گھنٹے کی نوکری نہیں ہے اور اس میں ہفتے اور اتوار کے دن کام کرنا پڑتا ہے، گھر والوں سے دور رہنا پڑتا ہے۔‘اور اسی وجہ سے مقامی سیاحتی تنظیم کو ملازمین کی قلت کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اس ایک جگہ کا نہیں ہے بلکہ کینیڈا میں سیاحت کے شعبے میں ہزاروں ملازمین کی کمی ہے۔یہ کمی اس صورت میں پوری ہو سکتی ہے اگر کینیڈا کی حکومت ملک میں سیاحوں کی تعداد بڑھانے کی کوششوں میں کامیاب ہو جاتی ہے۔


 کینیڈا میں کورونا وبا سے قبل 2019 میں دو کروڑ 20 لاکھ سیاحوں کی تعداد تھی جو گزشتہ سال ایک کروڑ 80 لاکھ یعنی 17 فیصد تک کم رہی۔تام نئی حکمت عملی، جسے ’ورلڈ آف اپارچیونٹی‘ کا نام دیا گیا ہے، کا مقصد ہے کہ سیاحت کے شعبے سے آمدن کو بڑھایا جائے اور اسے گزشتہ سال 109 ارب کینیڈیئن ڈالر سے 2030 تک 160 ارب ڈالر تک پہنچا دیا جائے۔اس حکمت عملی کے تحت کینیڈا کو دنیا میں سیاحوں کی ساتویں بڑی منزل بنانا مقصود ہے۔ اس وقت کینیڈا 13ویں پوزیشن پر موجود ہے۔کینیڈا نے حال ہی میں غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی کا آغاز کیا ہے-البرٹا کے مشہور سیاحتی قصبے جاسپر میں گزشتہ سال جولائی میں جنگلات میں لگنے والی آگ کو ’خطے میں صدی کی سب سے بڑی آتشزدگی‘ قرار دیا گیا تھا جس میں دو تہائی عمارات تباہ ہو گئی تھیں۔ان میں سے ایک عمارت اس ہوٹل کی تھی جو 1960 سے فعال تھا۔ اس ہوٹل کی مالک کیرن ڈیکور کے لیے یہ ’تباہ کن‘ واقعہ تھا۔لیکن انھوں نے ہوٹل کی انشورنس کروا رکھی تھی اور انھیں امید ہے کہ اگلے موسم گرما سے قبل یہ دوبارہ سے تیار ہو گا۔ لیکن قصبے کے باقی ہوٹلوں کو دوبارہ سیاحوں کے لیے مکمل تیار ہونے میں کتنا وقت لگے گا


مغربی البرٹا پہاڑوں سے چھایا ہوا ہے اور نسبتاً ہلکا درجہ حرارت ہے۔ جنوبی اونٹاریو کے بعد وسطی البرٹا کینیڈا کا واحد حصہ ہے جہاں بگولے آتے ہیں۔ موسم گرما کے طوفان عام ہیں، جن میں سے کچھ شدید ہیں۔ یہ طوفان کیلگری-ایڈمنٹن کوریڈور میں سب سے زیادہ عام ہیں۔ کینیڈا میں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ البرٹا نے حالیہ برسوں میں آبادی میں نمایاں اضافہ کا تجربہ کیا ہے۔ صوبے میں 2003 اور 2004 میں شرح پیدائش بہت زیادہ تھی اور نقل مکانی کی شرح بھی بہت زیادہ تھی۔ 81% آبادی شہروں میں اور 19% دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ کیلگری ایڈمنٹن کوریڈور میں سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ کینیڈا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ راکی پہاڑوں کی وجہ سے جنوب مغرب میں موسم بہت مختلف ہے۔ ان پہاڑوں کی وجہ سے زیادہ تر مغربی ہوائیں یہاں تک پہنچنے سے پہلے بارش پیدا کرتی ہیں۔ صوبے کے شمالی محل وقوع اور سمندر سے دوری کی وجہ سے، یہاں کا موسم معتدل نہیں ہے - شمالی البرٹا زیادہ تر بوریل جنگلات سے گھرا ہوا ہے اور، سبارکٹک آب و ہوا کی وجہ سے، جنوب کی نسبت صفر سے زیادہ درجہ حرارت کے ساتھ کم دن ہوتے ہیں۔ جنوبی البرٹا میں نیم خشک آب و ہوا ہے، جہاں پانی کی طلب رسد سے زیادہ ہے۔ جنوب مشرقی کونا، جسے پالسیئر مثلث کہا جاتا ہے، بہت گرم گرمیاں اور کم بارش ہوتی ہے۔ یہ اکثر فصل کی ناکامی کا سبب بنتا ہے اور شدید خشک سالی کا شکار ہوتا ہے۔کینیڈا کا ایک زرعی صوبہ ہے۔ اسے 1 ستمبر 1905 کو صوبائی درجہ دیا گیا تھا۔



 یہاں تین بڑی جھیلیں ہیں اور 260 مربع کلومیٹر سے چھوٹی متعدد چھوٹی جھیلیں ہیں۔ جھیل اتھاباسکا، ساسکیچیوان میں 7,898 مربع کلومیٹر پر واقع ہے۔ جھیل کلیئر کا رقبہ 1,436 مربع کلومیٹر ہے اور یہ جھیل اتھاباسکا کے مغرب میں واقع ہے۔مانیٹوبا کے بعد، 2٪ پر۔ فرانسیسی بولنے والے لوگ صوبے کے شمال مغربی اور وسطی حصوں میں رہتے ہیں۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق اس صوبے میں چینی آبادی بھی 4% ہے۔ ایڈمنٹن اور کیلگری میں شروع سے ہی چائنا ٹاؤنز ہیں۔ کیلگری کینیڈا میں تیسری سب سے بڑی چینی آبادی کا گھر ہے۔ چینی یہاں ریلوے کی تعمیر کے دوران 1880 کی دہائی میں آنا شروع ہوئے۔ مقامی لوگ کل آبادی کا صرف 3% بنتے ہیں۔ البرٹا میں، مورمن صوبے کے انتہائی جنوب میں رہتے ہیں اور کل آبادی کا تقریباً 2.5% بنتے ہیں۔ البرٹا میں مسلمان، سکھ اور ہندو بھی رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کا تقریباً 2.5 فیصد، سکھ 0.8 فیصد اور ہندو 0.5 فیصد ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ حال ہی میں کینیڈا ہجرت کر گئے ہیں۔ شمالی امریکہ کی قدیم ترین مسجد البرٹا میں ہے۔

ہفتہ، 3 مئی، 2025

بھری بہار کے بچپن میں غربت کا آسمان

 

  مارچ 2025/24ء

پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے میں لے لیا گیا تھا لیکن عمائدین کی مداخلت کے بعد افغانستان واپس بھیج دیا گیا-مقامی قبائلی عمائدین نے بی سی کو بتایا کہ ان کے بچوں میں نوعمر اور بچے شامل ہیں اور یہ سرحد پر مختلف قسم کا سامان سمگل کرتے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقے ایک ماہ تک بند رکھنے کے لیے افغانستان کو بدھ کو کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان تجارت اور سفر کے لیے مرکزی گزرگاہ سمجھی جاتی ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے پیدل افراد کو جمع کرنے کی اجازت دی گئی۔


طورخم سرحد پر زیرو پوائنٹ یا مرکزی گزرگاہ گاہ کے آس پاس کے کمرے سے تعلق رکھنے والے کم عمر بچے جن کی عمریں آٹھ سال سے 14 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے کہ اکثر سامان بھرے ہوتے ہیں افغانستان سے پاکستان اور افغانستان کی طرف سے سمگل کرتے ہیں۔ان بچوں کی گاڑیوں کے نیچے یا اوپر سے خفیہ طور پر سرحد پار کرتے ہیں اور اس سے روزگار حاصل کرتے ہیں لیکن بڑے وزیر کا کہنا ہے کہ سمگلرز کی طرف سے ان کا استحقاق بھی کیا جاتا ہے اور کم اجرت پر انتہائی پُرخطر اور غیرقانونی کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔


سنہ 2023 کی یونیسیف کی رپورٹ کے ادارے میں افغانستان کے ننگرہار صوبے میں چائلڈ پروٹیکشن کمیشن نے کہا کہ ’’سروے کے مطابق سال مارچ میں 2500 بچے زیادہ طور پر سرحد پر انتہائی چائلڈ لیبر کر رہے ہیں‘‘۔ویڈیو چلائیں، "چلتے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر پاکستان سامان سمگل کرنے والے افغان بچے"،  چلتے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر پاکستان کا سامان سمگل کرنے والے افغان بچے  پاکستان والے افغان بچوں کو کیسے کیسے لیا گیا؟لنڈی کوتل کے ایس ایچ اور عدنان خان آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ پچاس کے لگ بھگ غیر بچے اور نوعمر قانونی طور پر سرحد پر لگنے پر باڑ توڑ کر داخل ہو گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے غیر قانونی طریقے سے مختلف قسم کے سامان سمگل کرتے ہیں جن میں سگریٹ اور دیگر اشیا شامل ہوتی ہیں۔


پولیس نے ان بچوں کے خلاف جا کر 14 فارن ایکٹ کے تحت نامزد کیا تھا لیکن مقامی عمائدین اور نمائندوں کی کوششوں سے درخواست نہیں کی تھی۔عدنان خانریدی نے بتایا کہ ان بچوں کو تنبیہ کر دیا گیا ہے کہ اگر اس طرح سے آپ کے خلاف درج کیا جائے گا۔ بچے بڑی گاڑیوں کے نیچے یا گاڑیوں کے اوپر سے سرحد پار کرتے ہیں۔ لنڈی کوتل تحصیل کے چیئرمین شاہ خالد شنواری نے بتایا کہ پچاس بچوں کو تو آپ نے لے لیا تھا لیکن 30 بچے اور بھی تھے جنھوں نے اتوار کی رات افغان صوبائی وزیر کو خطاب کر دیا۔عدنان آفریدی نے بتایا کہ طور خم سرحدپر کوئی 700 لوگ لگتے ہیں جو سرحد پر اِدھر کا سامان اُدھر اور اُدھر کا ساما ن ا دھر ادھر  کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مقامی عمائدین اور جرگہ بااختیار نے ان کی واپسی کے لیے کوششیں کیں اور ماہِ رمضان میں جذبۂ خیر سگالی کے تحت جرگہ کے موقع پر بات چیت کی۔


مقامی قبائلی رہنما ملک تاج الدین نے بی سی کو بتایا کہ ’’سرحد کھلنے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے جس پر عصمت دری کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے بعد ان بچوں کو زیرو پوائنٹ پر افغان وزیر خارجہ کو دیا  گیا‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے بچوں میں 17 بچے شامل ہیں جبکہ 33 بچے اور نوعمر بچے شامل ہیں۔پاک افغان پر ماضی میں بڑے پیمانے پر مختلف اشیا کی سمگلنگ کی سرحد تھی لیکن سرحد پر سمگلنگ میں کمی واقع ہوئی لیکن اب بھی سرحد پر مختلف بچے اشیا سمگلنگ کرتے ہیں جن میں سگریٹ، نشہ آور اشیا، قسم کی اشیا اور دیگر اشیا شامل ہیں۔


یہ بچے ماضی میں بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے اوٹ میں چھپ کر یا ان کنٹینرز اور ٹرکوں کے نیچے سامان سمگل کرتے ہیں۔لنڈی کوتل تحصیل کے چیئرمین شاہ خالد شنواری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’ایک المیہ ہے کہ بڑی تعداد میں انتہائی بچے راستے یا ان کی بڑی گاڑیوں کے نیچے اور ان گاڑیوں کے ساتھ افغانستان کے چھپے ہوئے ہیں اور ان بچوں کے پاس مختلف قسم کا سامان ہوتا ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’اکثر یہ بچے جب اس طرف آکر واپس نہیں جاسکتے تو پھر یہ عورتیں اپنے ہوٹلوں پر آس پاس یا بازار میں چھپ کر گزارتے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا بھی ہوا ہے کہ ان کے نیچے بڑی ڈیکلیوں کے ساتھ ساتھ چھپ کر بچے زخمی بھی ہوئے ہیں لیکن اس گاڑی کو اس کام سے منع کیا گیا ہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اب یہ بچے باڑ کر رہے ہیں اور ان بچوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کو سامان دیا جاتا ہے اور اس سے مقامی سطح پر مسائل بڑھ رہے ہیں۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر