محمد صدیق سے صدیق سالک تک کا سفر کیسے ممکن ہواسالک بتاتے ہیں کہ جب انکی عمر صرف ڈھائ برس تھی کہ ان کے والد خدا کے گھر چلے گئے ' اورگھر میں غربت کا عالم تھا اور والدصاحب ایک تیسرے درجے کے کاشتکار تھے وہ تین بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ہماری بہادر ماں کا امتحان تھا اور پھر ہماری ماں نے ماں اور باپ دونوں کی زمہ داری کمال ہمت سے اٹھا لی -اس دور میں ہمارے گاؤں میں کوئی پرائمری اسکول نہ تھا۔ اور نا سماجی زندگی میں اسکول جانے آنے کا رواج تھا ۔ والدہ پر چار بچوں کی کفالت کا بوجھ ہی بہت تھا چنانچہ میرے اسکول بھیجنے پر کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ "پھر ایک مرتبہ یوں ہوا کہ شہر میں شدید طوفانی بارش ہوئی جھکڑ چلے اور میں اس باد وباراں میں گم ہو گیا ہمارے گھر کے علاوہ پاس پڑوس میں بھی شور مچ گیا کہ بچہ گم ہو گیا ہے تلاش بسیار کے بعد بالآخر گھر والوں نے ٹھوٹھہ رائے بہاد ر اسکو کا رخ کیا جہاں میں کلاس روم میں موجود تھا یہ محض ایک اتفاق تھا لیکن بعد میں وتیر ہ ہو گیا کہ جب بھی موقع ملتا میں بھاگ کر اسکول چلا جاتا مجھے پڑھتے ہوئے بچے اچھے لگتے تھے۔
میرا بھی جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان بچوں کی طرح پڑھوں میرے شوق اور لگن کو دیکھ کر گھر والوں نے لکڑی کی تختی ،سرکنڈے کا قلم اور ایک کتا ب دلاکر اسکول بھیج دیا۔ بچے تو پڑھائی کے خوف سے اسکول سے بھاگتے ہیں۔ میں پڑھنے کے شوق میں گھر سے بھاگا۔ منگلہ کے چوہدری رحمت خان کا بیٹا محمد صدیق سے صدیق سالک کیسے بنا یہ بھی ایک دلچسب کہانی ہے۔ یہ کہانی ان کی اپنی زبانی - ان دنوںمیں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور سالانہ امتحان کے داخلہ فارم پر کیے جا رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کو ایک مشکل پیش آ رہی تھی۔ ایک ہی کلاس میں آدھ درجن سے زیادہ لڑکے "محمد صدیق" نام کے تھے۔ انھوں نے ایک حل تلاش کیا اور تمام صدیقوں کو کہا کہ ہر ایک اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی اضافہ نام جوڑے - سالانہ امتحان کے داخلہ فارم محمد صدیق جومستقبل میں صدیق سالک کہلایا اور اس نے اپنے نام کا لاحقہ بنا لیا اور محمد صدیق، محمدصدیق سالک ہو گیا۔ اس کی نشاندھی انھوں نے اپنے دوستوں اور اپنے بچوں کے سامنے کئی مرتبہ کی۔
انھوں نے کہیں عبدالمجید سالک کا نام پڑھ رکھا تھا اور وہی سالک ان کے ذہن کے نہا ں خانے میں محفوظ تھا جو انھیں سالک -انھیں اسلامیہ پرائمری اسکول ملکہ میں داخل کروایا گیا۔ اس دوران انھوں نے اسکول کے اوقات کے بعد حافظ محمد حیات سے قرآن کی تعلیم بھی حاصل کی۔ یہاں سے انھوں نے چار جماعتیں پاس کیں پھر ڈی سی ہائی اسکول ٹھوٹھہ رائے بہادر میں چلے گئے جہاں سے مڈل کا امتحان پاس کیا اس وقت یہ تعلیمی ادارہ مڈل تک ہی تعلیم دیتا تھا۔ اس کے بعد ڈی بی ہائی اسکول ککرالی نزد کوٹلہ عرب علی خان میں داخلہ لیا لیکن مالی مجبوریوں نے اسکول سے ناتا توڑنے پر مجبور کر دیا اوروہ اپنے بہنوئی چوہدری اقبال کے پاس چلے گئے جو اس وقت بہاولپور میں تھانیدار تھے۔ میڑک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا۔ ساڑھے آٹھ سو میں سے چھ سو چھیالیس نمبر حاصل کیے۔ ننھیال نے ان کی ذھانت دیکھتے ہوئے مد د کافیصلہ کیا اور انھیں زمیندارہ کالج میں سال اول میں داخل کروا دیا جہاں سے انھوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور پھر ڈی بی ہائی اسکول میں عارضی طور معلم کی حیثیت سے ملازمت کرلی جو دوسال تک جاری رہی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے انھوں نے 1955ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا
،وہاں سے انگریری ادب میں بی اے آنرز کیا اور پھر ایم اے انگریزی ادب کی ڈگری 1959ء میں مکمل کی۔ ابھی ایم اے کے نتائج کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ لائل پور(فیصل آباد) کے اسلامیہ کالج سے انھیں ملازمت کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی۔ اس ووران پبلک سروس کمیشن سے بھی ملازمت مل گئی اور ان کی بطور لیکچرر پہلی تعینا تی گورنمنٹ کالج مانسہرہ میں ہوئی ۔چنانچہ ایک نئی اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ہفت روزہ "پاک جمہوریت" کو نائب مدیر کی حیثیت سے جائن کر لیا۔ ملازمت کا یہ عرصہ مختصر ثابت ہوا کیونکہ ایک سال بعد یہ پرچہ بند ہو گیا اور اس کے تمام ملازمین کو مختلف شعبوں میں کھپانے کا فیصلہ کیا گیا انھیں محکمہ اطلاعات و نشریات میں پی۔ آر۔ او مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران فوج کی ایک مشتہر اسامی کے لیے انٹرویو دیا اور کامیاب ہو گئے ۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز کے 16سال بعد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ عموماً نثر نگار لکھنے کا آغاز افسانوی نثر سے کرتے ہیں لیکن سالک نے ناول اس وقت لکھا جب وہ اڑتالیس(48) برس کے ہو چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ناول کی صنف کسی خاص مقصد کو پانے کے لیے اپنائی ورنہ وہ اتنی تاخیر سے اس طرف مائل نہ ہوتے۔
گزشتہ صفحات میں سالک کی زندگی کے اس پہلو پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے کہ سقوط ڈھاکہ نے ان کے دل و دماغ کو شدید متاثر کیا تھا۔وطن سے محبت سالک کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی،بھارتی قید نے اس میں کئی گنا اضافہ کیا تھا۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد جب وہ واپس وطن آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اہل اقتدار طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوا اسی بددلی میں وہ فوج بھی چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں ملازمتی مجبوریوں کے تحت ایسے اقدامات میں شریک ہونا پڑتا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اس پس منظر میں سالک نے ”پر یشر ککر“ تخلیق کیا جس میں انہوں نے عام پاکستانی کو معاشرے میں در پیش مسائل ‘ ناانصافی کی تصویر پیش کیہے۔ صدیق سالک افسانوی نثر میں مہارت نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود یہ ناول قارئین میں مقبول ہوا کیونکہ اس کی بنیاد حقیقت پر رکھی گئی ہے۔