جمعہ، 2 مئی، 2025

محمد صدیق سے بریگیڈئر صدیق سالک تک کا سفر

   محمد صدیق سے صدیق  سالک تک کا سفر  کیسے ممکن ہواسالک  بتاتے ہیں کہ جب انکی عمر صرف ڈھائ برس تھی کہ  ان کے والد خدا کے گھر چلے گئے ' اورگھر میں غربت کا  عالم تھا اور والدصاحب  ایک تیسرے درجے  کے کاشتکار تھے وہ تین بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے اور ہماری بہادر  ماں کا امتحان تھا اور پھر ہماری ماں نے ماں اور باپ دونوں  کی زمہ داری کمال ہمت سے اٹھا لی  -اس دور میں   ہمارے  گاؤں میں کوئی پرائمری اسکول نہ تھا۔  اور نا  سماجی زندگی میں  اسکول جانے آنے کا رواج  تھا  ۔ والدہ پر چار بچوں کی کفالت کا بوجھ ہی بہت تھا چنانچہ میرے  اسکول بھیجنے پر کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا تھا۔ "پھر ایک مرتبہ یوں ہوا کہ شہر میں  شدید  طوفانی بارش ہوئی  جھکڑ چلے اور میں اس باد وباراں میں گم ہو گیا ہمارے گھر کے علاوہ پاس پڑوس میں بھی شور مچ گیا کہ بچہ گم ہو گیا ہے  تلاش بسیار کے بعد  بالآخر گھر والوں نے ٹھوٹھہ رائے بہاد ر اسکو کا رخ کیا جہاں میں کلاس روم میں موجود تھا  یہ محض ایک اتفاق تھا لیکن بعد میں وتیر ہ ہو گیا کہ جب بھی موقع ملتا میں بھاگ کر اسکول چلا جاتا مجھے پڑھتے ہوئے بچے اچھے لگتے تھے۔


  میرا بھی  جی  چاہتا تھا کہ میں بھی ان  بچوں کی طرح پڑھوں میرے شوق اور لگن کو دیکھ کر گھر والوں نے لکڑی کی تختی ،سرکنڈے کا قلم اور ایک کتا ب دلاکر اسکول بھیج دیا۔ بچے تو پڑھائی کے خوف سے اسکول سے بھاگتے ہیں۔ میں پڑھنے کے شوق میں گھر سے بھاگا۔  منگلہ کے چوہدری رحمت خان کا بیٹا محمد صدیق سے صدیق سالک کیسے بنا یہ بھی ایک دلچسب کہانی ہے۔ یہ کہانی ان کی اپنی زبانی   - ان دنوںمیں   آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور سالانہ امتحان کے داخلہ فارم پر کیے جا رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کو ایک مشکل پیش آ رہی تھی۔ ایک ہی کلاس میں آدھ درجن سے زیادہ لڑکے "محمد صدیق" نام کے تھے۔ انھوں نے ایک حل تلاش کیا اور تمام صدیقوں کو کہا کہ ہر ایک اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی اضافہ نام جوڑے -   سالانہ امتحان کے داخلہ فارم   محمد صدیق جومستقبل میں صدیق سالک کہلایا اور اس نے اپنے نام کا لاحقہ بنا لیا اور محمد صدیق، محمدصدیق سالک ہو گیا۔ اس کی نشاندھی انھوں نے اپنے دوستوں اور اپنے بچوں کے سامنے کئی مرتبہ کی۔


 انھوں نے کہیں عبدالمجید سالک کا نام پڑھ رکھا تھا اور وہی سالک ان کے ذہن کے نہا ں خانے میں محفوظ تھا جو انھیں سالک  -انھیں اسلامیہ پرائمری اسکول ملکہ میں داخل کروایا گیا۔ اس دوران انھوں نے اسکول کے اوقات کے بعد حافظ محمد حیات سے قرآن کی تعلیم بھی حاصل کی۔ یہاں سے انھوں نے چار جماعتیں پاس کیں پھر ڈی سی ہائی اسکول ٹھوٹھہ رائے بہادر میں چلے گئے جہاں سے مڈل کا امتحان پاس کیا اس وقت یہ تعلیمی ادارہ مڈل تک ہی تعلیم دیتا تھا۔ اس کے بعد ڈی بی ہائی اسکول ککرالی نزد کوٹلہ عرب علی خان میں داخلہ لیا لیکن مالی مجبوریوں نے اسکول سے ناتا توڑنے پر مجبور کر دیا اوروہ اپنے بہنوئی چوہدری اقبال کے پاس چلے گئے جو اس وقت بہاولپور میں تھانیدار تھے۔ میڑک کا امتحان پرائیویٹ پاس کیا۔ ساڑھے آٹھ سو میں سے چھ سو چھیالیس نمبر حاصل کیے۔ ننھیال نے ان کی ذھانت دیکھتے ہوئے مد د کافیصلہ کیا اور انھیں زمیندارہ کالج میں سال اول میں داخل کروا دیا جہاں سے انھوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور پھر ڈی بی ہائی اسکول میں عارضی طور معلم کی حیثیت سے ملازمت کرلی جو دوسال تک جاری رہی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے انھوں نے 1955ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا


،وہاں سے انگریری ادب میں بی اے آنرز کیا اور پھر ایم اے انگریزی ادب کی ڈگری 1959ء میں مکمل کی۔ ابھی ایم اے کے نتائج کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ لائل پور(فیصل آباد) کے اسلامیہ کالج سے انھیں ملازمت کی پیشکش ہوئی جو انھوں نے قبول کر لی۔ اس ووران پبلک سروس کمیشن سے بھی ملازمت مل گئی اور ان کی بطور لیکچرر پہلی تعینا تی گورنمنٹ کالج مانسہرہ میں ہوئی ۔چنانچہ ایک نئی اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ایک ہفت روزہ "پاک جمہوریت" کو نائب مدیر کی حیثیت سے جائن کر لیا۔ ملازمت کا یہ عرصہ مختصر ثابت ہوا کیونکہ ایک سال بعد یہ پرچہ بند ہو گیا اور اس کے تمام ملازمین کو مختلف شعبوں میں کھپانے کا فیصلہ کیا گیا انھیں محکمہ اطلاعات و نشریات میں پی۔ آر۔ او مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران فوج کی ایک مشتہر اسامی کے لیے انٹرویو دیا اور کامیاب ہو گئے ۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز کے 16سال بعد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ عموماً نثر نگار لکھنے کا آغاز افسانوی نثر سے کرتے ہیں لیکن سالک نے ناول اس وقت لکھا جب وہ اڑتالیس(48) برس کے ہو چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ناول کی صنف کسی خاص مقصد کو پانے کے لیے اپنائی ورنہ وہ اتنی تاخیر سے اس طرف مائل نہ ہوتے۔ 


گزشتہ صفحات میں سالک کی زندگی کے اس پہلو پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے کہ سقوط ڈھاکہ نے ان کے دل و دماغ کو شدید متاثر کیا تھا۔وطن سے محبت سالک کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی،بھارتی قید نے اس میں کئی گنا اضافہ کیا تھا۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد جب وہ واپس وطن آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اہل اقتدار طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوا اسی بددلی میں وہ فوج بھی چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں ملازمتی مجبوریوں کے تحت ایسے اقدامات میں شریک ہونا پڑتا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اس پس منظر میں سالک نے ”پر یشر ککر“ تخلیق کیا جس میں انہوں نے عام پاکستانی کو معاشرے میں در پیش مسائل ‘ ناانصافی کی تصویر پیش کیہے۔ صدیق سالک افسانوی نثر میں مہارت نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود یہ ناول قارئین میں مقبول ہوا کیونکہ اس کی بنیاد حقیقت پر رکھی گئی ہے۔


منگل، 29 اپریل، 2025

ماحولیاتی نظام کے محافظ ''ننھے پرندے ''پارٹ- 1

  

 ویسے تو اللہ  کریم و کارساز نے  دنیا میں ہر تخلیق   ہی بے مثال بنائ  لیکن   حقیقت  یہ ہے کہ روئے زمین پر   پرندے  اس کی تخلیق اعلٰی  کی   بے مثل ' مثال ہیں  پرندے ہماری زندگی کا لازمی جزو ہیں اور اللہ پاک  نے ان کو یہ سمجھ بوجھ عطا کی ہے کہ  یہ موسم کے لحاظ سے اپنے مسکن تبدیل کر لیتے ہیں  اور موسمی   سختیوں کی زد میں آنے کے بجائے وہاں سے   ہجرت کر جاتے ہیں ۔ اس ہجرتی   راہداری  کو پرندوں کا انڈس فلائ روٹ   کہا جاتا ہے، جو دنیا کی اہم ہجرتی گزرگاہوں میں شامل ہےجیسا کہ روس کے برفانی صحرا  سائبیریا میں جب  ہر طرف برف کا راج ہوتا ہے  یہ پرندے پاکستان کی جانب  ہجرت کرکے   منگلا ڈیم اور ہیڈ رسول پر  اپنے ڈیرے ڈالتے ہیں   جس کی وجہ سے  ان علاقون کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے ۔ ، مہمان موسمی پرندوں جن میں کونج، شاہین، تلور، بٹیر اور مرغابیاں شامل ہیں ان کی آمد کا سلسلہ ماہ کے آخر تک جاری رہتا ہے ۔اسی طرح پنجاب میں مختلف ہیڈورکس جن میں ہیڈبلوکی ، خانکی، سدھنائی ، سلیمانیکی ، قادرآباد اورمرالہ شامل ہے یہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں مہمان پرندے قیام کرتے ہیں۔اسی طرح مختلف جھیلیوں پر بھی ان پرندوں کی اچھی خاصی تعداد ڈیرے ڈالتی ہے، بد قسمتی سے گزرتے وقت کے ساتھ قدرتی حسن کو دوبالا کرنے والے ان مہمان پرندوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔


کیا آپ جانتے ہیں  کہ ایک براعظم سے دوسرے براعظم ہجرت کر نے والے یہ پرندے زمین پر اترے بغیر مسلسل دس ماہ تک اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کمی آئی ہے جس کی ایک وجہ ان پرندوں کا بڑے پیمانے پر ہونے والا غیرقانونی شکار ہے۔سائبیریا  کے سرد ترین برفانی  علاقے سے ہجرت کرنے والے پرندے ہر سال سردیوں میں گرم  ممالک  کی جانب محو  پرواز ہوتے ہیں ۔ یہ پرندے اکتوبر سے مارچ تک پاکستان کے دریاؤں، جھیلوں اور دلدلی علاقوں میں قیام کرتے ہیں اور موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی واپس سائبیریا چلے جاتے ہیں ۔ اس سال یہ دن ''پانی: پرندوں کی زندگی قائم رکھنے کا ضامن'' کے موضوع کے تحت منایا جائے گا جس سے ہجرتی پرندوں اور ان کے مساکن کے تحفظ کے لئے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔13 اور 14 مئی کو ہجرتی پرندوں کا عالمی دن دنیا کی توجہ ان پرندوں کی زندگی کو لاحق خطرات کی جانب مبذول کراتا ہے۔


ہجرتی پرندے ہجرت، موسم سرما گزارنے، نسل کشی اور گھونسلے بنانے کے لئے پانی اور اس سے منسلک مساکن جیسا کہ جھیلوں، دریاؤں، ندیوں، تالابوں اور ساحلی نم دار جگہوں پر انحصار کرتے ہیں اور طویل موسمی ہجرتوں کے دوران ان مقامات پر آرام کرتے اور تازہ دم ہوتے ہیں۔تاہم دنیا بھر میں یہ آبی ماحولی نظام خطرے سے دوچار ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی انسانی طلب، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سے اس بیش بہا ماحولی نظام اور ان پر انحصار کرنے والے ہجرتی پرندوں کو خطرہ لاحق ہے-پرندوں کو عام طور پر ہماری زمین کی صحت کا پیمانہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ''ماحولی نظام کے انجینئر'' ہوتے ہیں جو پودوں کی افزائش کے لئے بیج پھیلاتے، زیرگی کرتے اور مردہ جانداروں کو کھا کر ماحول کو صاف رکھتے ہیں۔معدومیت کا خطرہ  تاہم جیسا کہ دنیا میں پرندوں کی صورتحال کے بارے میں 2022 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے، پرندے اور ہماری زمین خطرے سے دوچار ہیں۔ آٹھ میں سے ایک پرندے کی نسل کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے اور دنیا بھر میں پرندوں کے حوالے سے صورتحال بگڑ رہی ہے۔


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی آبی پرندوں کی انواع کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ انہیں سب سے بڑے خطرے کا سامنا شمالی کرے میں موسم گرما کے نسل کشی کے مقامات اور جنوب میں خوراک کے حصول کی جگہوں کے مابین سالانہ دو طرفہ ہجرتوں کے دوران ہوتا ہے۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے رکن ممالک، بین الحکومتی ادارے کے نمائندوں اور این جی اوز نے متعدد قراردادوں اور رہنما ہدایات کی منظوری دی جس کا مقصد حیاتیاتی تنوع کے نقصان میں کمی لانا اور ان 255 آبی پرندوں کو تحفظ دینا تھا جنہیں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی حمایت سے طے پانے والے افریقین یوریشین واٹر برڈ ایگریمنٹ (اے ای ڈبلیو اے) کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی پرندوں کی بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔ONU News PT سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہجرتی پرندوں کی بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔بڑا ماحولیاتی چیلنج -تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ حیاتیاتی تنوع کا نقصان اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑے ماحولیاتی مسائل میں سے ایک ہے۔2019 میں 'حیاتیاتی تنوع اور ماحولی نظام کی خدمات پر بین الحکومتی سائنس۔پالیسی پلیٹ فارم' (آئی پی بی ای ایس) کے عالمگیر جائزے میں خبردار کیا گیا تھا کہ انسان حیاتیاتی تنوع کو جس شرح سے کھو رہا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔اگر اس حوالے سے موجودہ رحجانات کا رخ واپس نہ موڑا گیا تو مستقبل قریب میں جانداروں کی دس لاکھ انواع معدوم ہو جائیں گی۔


جنگلی جانوروں کی ہجرتی انواع کے تحفظ سے متعلق کنونشن (سی ایم ایس) نے اس رحجان کی تصدیق کی ہے۔ یہ ہجرتی جانوروں، ان کے مساکن اور ہجرتی راستوں کے تحفظ سے متعلق واحد مخصوص عالمی کنونشن ہے۔اس کنونشن کے فریقین کی 13ویں کانفرنس (کاپ-13) میں پیش کردہ سی ایم ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیان کردہ انواع میں سے 73 فیصد ایسی ہیں جو ختم ہو رہی ہیں۔ حیاتیاتی تنوع اور ماحولی نظام انسانیت کی بقا کے لئے ضروری ہیں اور ان دونوں کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔عالمگیر تعاون-کنونشن کی ایگزیکٹو سیکرٹری ایمی فرینکل نے کہا ہے کہ ''ہجرتی جانور اس ماحولی نظام کا لازمی حصہ ہوتے ہیں جن میں وہ پائے جاتے ہیں۔ وہ صحت مند ماحولی نظام کی فعالیت، توازن اور اس کی بناوٹ میں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں جو ہمیں پودوں کی زیرگی، خوراک، فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو ختم کرنے اور کئی طرح کی معاشی منفعت جیسے بے شمار فوائد پہنچاتا ہے۔''چونکہ ہجرتی انواع قومی، علاقائی حتٰی کہ براعظمی حدود کے بھی آر پار آتی جاتی ہیں اس لیے سی ایم ایس نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا ہے جو اس معاملے میں عالمگیر تعاون میں مدد دیتا ہے۔ ماحولیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلی جیسے کثیررخی عالمگیر مسائل سے نمٹنے کے لئے یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوم پیچ » ماحولیات » سندھ: 2023 کے بعد مسافر پرندوں کی آمد میں مسلسل کمیانڈپینڈنٹ اردو گفتگو کرتے ہوئے محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو نے کہا کہ 2023 کے بعد مسافر پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔


ماحولیاتی نظام کے محافظ ''ننھے پردے ''پارٹ -2

 

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق صوبے میں آنے والے مسافر آبی پرندوں کی آمد میں 2023 کے بعد مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے جس کی وجہ پانی کی قلت ہے۔محکمہ جنگلی حیات نے 11 اپریل کو صوبے کی آب گاہوں و آبی گذرگاہوں پر موسم سرما میں انڈس فلائی وے کے مسافر آبی پرندوں کے اعدادوشمار ’اینئوئل واٹرفاؤل سروے‘ کے نتائج کا اعلان کردیا ہے۔تازہ ترین اعداوشمار کے مطابق 2022 میں سندھ میں آنے والے شدید سیلاب کے باعث جھیلوں کو میٹھے پانی کی فراہمی اور شکار پر پابندی کے باعث 2023 میں صوبے میں 12 لاکھ مہمان پرندوں کی آمد کا نیا ریکارڈ قائم ہوا تھا-مگر 2024 میں یہ تعداد کم ہوکر چھ لاکھ 39 ہزار ہوگئی۔ حالیہ سال اس تعداد میں مزید کمی  آئ آئی  ' ایک زمانے میں یہاں دو لاکھ تک پرندے آتے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے چند سو رہ گئے ہیں،' انہوں نے بتایا۔ موسم سرما کے آغاز پر  ہررس ہالیجی  جھیل پر سائبیریا سے نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی لیکن اب یہاں ڈھونڈنے سے بھی صرف مقامی پرندے ہی ملتے ہیں۔


ان پرندوں میں کنگ فشر، چہکنے والے پرندے ( چیٹ)، گرے شرائک، ایک طرح کا کوا (سندھی میں گگھ پکھی)، ایک طرح کی چڑیا( جنگل بیبلر) ، یورپی کوا ( میگپائی)، اور دیگر پرندے شامل ہیں۔اور اس سال محکمے نے اپنے سالانہ سروے کے دوران صوبے میں پانچ لاکھ 45 ہزار آبی پرندوں کا شمار کیا۔سندھ میں آنے والے مسافر آبی پرندوں کی سالانہ شماریات کی رپورٹ محکمہ جنگلی حیات سندھ کی جانب سے 13 مئی کو دنیا بھر میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا عالمی دن  (ورلڈ مائیگریٹری برڈ ڈے) سے پہلے جاری کیے گئے ہیں۔اس عالمی دن کو منانے کا مقصد نقل مکانی کرنے والے پرندوں کو درپیش مسائل اور خطرات، پرندوں کی ماحولیاتی اہمیت اور ان کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی طور پر شعور پیدا کرنا ہے۔انڈپینڈنٹ اردو گفتگو کرتے ہوئے محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو نے کہا کہ ’آبی پرندے ایک ملک سے دوسرے ملک خوراک کی تلاش، شدید موسمی اثرات سے بچنے کے لیے عارضی طور پر آتے ہیں۔


پاکستان دیگر خطوں کی نسبت سندھ حیاتاتی تنوع کے لحاظ سے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے جہاں آب گاہیں، لگون، جھیلیں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ سندھ کے حیاتیاتی تنوع کی اہیمت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بھی میں رامسر کے عالمی کنوینشن کے تحت 19 آب گاہوں کو رامسر سائیٹ ڈکلیئر کیا گیا ہے، ان میں سے 10 صرف سندھ صوبے میں ہیں۔‘عالمی سطح کی اب گاہیں سندھ میں ہونے کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں مسافر آبی پرندے سندھ میں اترتے ہیں مگر 2023 کے بعد ان مسافر پرندوں کی تعداد میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔اس کمی کا سب سے بڑا سبب پانی کی مسلسل کمی، خشک سالی ہے اور کم پانی کے باعث پرندوں کی تعداد میں کمی دیکھی جارہی ہے۔‘ممتاز سومرو کے مطابق سندھ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، مگر آبی پرندوں کی گنتی کے لیے صوبے کے 40 فیصد حصے میں ہر سال سروے کیا جاتا ہے۔


اس سال محکمہ جنگلی کی آبی پرندوں کو شمار کرنے والی ٹیمز نے سندھ کی مشہور آب گاہوں بشمول کینجھر جھیل، منچھر جھیل، حمل جھیل، ہالیجی جھیل، رن آف کچھ، لنگھ جھیل اور نریڑی لیگون سمیت 30 کے قریب مقامات پر سروے کیا۔محکمہ جنگلی حیات کے رپورٹ کے مطابق اس سال گذشتہ سال کی نسبت اس سال مسافر پرندوں کے روایتی ٹھکانے بشمول رن آف کچھ وائلڈ لائف سینچری کے دلدلی علاقے پانی کی شدید کمی و خشک سالی دیکھی گئی۔محکمہ جنگلی حیات سندھ کے اعدادوشمار کے مطابق سب سے زائد پرندے بدین کی نریڑی لیگون میں ایک لاکھ 22 ہزار دیکھے گئے۔ اس کے علاوہ بدین ہی کے قریب رن آف کچھ کے مقام پر ساڑھے 91 ہزار مسافر پرندے رکارڈ کیے گئے۔ جب کہ اسی مقام کے قریب رن پور ڈیم ننگر پارکر کے مقام پر 22 ہزار 826 پرندے مہمان بنے۔موجودہ سال کے سروے میں اعداد و شمار جمع کرنے کے علاوہ مہمان پرندوں کے فوٹوگرافک شوائد بھی جمع کیے گئے، جیسا کہ گرے لیگ گوز، کاٹن پگمی گوز، انڈین اسپاٹ بلڈ ڈک، اوریئنٹل ڈارٹر، لیسر فلیمنگو کے علاوہ 57 مختلف اقسام کے ایسے واٹر فائولز جو روایتی طور آتے رہتے ہیں رکارڈ ہوئے جن میں سب سے زیادہ تعداد کامن ٹیل اور شاولر کے علاوہ،انڈین اسپاٹ بلڈ ڈک اور کاٹن پگمی گوز کی کچھ تعداد بھی دیکھی گئی۔


سروے سندھ کی مختلف سول ڈویژنز سکھر لاڑکانہ، حیدرآباد، میرپور خاص، شہید بےنظیر آباد اور کراچی میں کیا گیا۔دوران سروے لیسر فلیمنگوز اور خطرے سے دوچار نسل گریٹ وائیٹ پیلکن کی خاصی تعداد دیکھنے میں آئی۔سروے ٹیم میں زولوجیکل سروے آف پاکستان سے مہربان علی جب کہ سندھ وائیلڈ لائف ڈپارٹمینٹ کی طرف سے وائیلڈ لائف فوٹوگرافر یاسر پیچوہو، محرم کچھی اور رشید احمد خان شامل

پیر، 28 اپریل، 2025

مانسہرہ میں چائے کے پھلتے 'پھولتے باغات


 یہ میرے بچپن کی بات ہے جب مجھےمعلوم ہوا کہ پہلے وقتوں میں معاشرے میں چائے کا چلن نہیں تھا-ظاہر ہے اس بات پر میری حیرت بجا تھی -میں نے اپنی دادی جان سے سوال کیا پھر اس کا نعم البدل کیا تھا دادی جان نے بتایا سردیوں میں گرم دودھ کے ساتھ مختلف میوہ جات شامل کر کے استعما ل کیا جاتا تھا اور گر میوں میں لسی اور مختلف مشروبات ہوتے تھے -میرا اگلا سوال تھا پھر چائے  نے  کب رواج پایا -دادی جان نے بتایا بدیسی قومیں آ ئیں اور اپنے ساتھ چائے کی سوغات بھی ساتھ لائیں 'شروع شروع میں مفت تقسیم کی گئ جب مزہ مزاج میں سرائت کر گیا تب قیمت کے ساتھ دی جانے لگی اور اب یہ حال ہے کہ اس بار 52 کروڑ ڈالر کی چائے درآمد  کر کے ہم  پی چکے ہیں  ، پاکستانی قوم    مانسہرہ کے باغات جن کی چائے کو چینی کالج نے ’بہترین‘ چائے قرار دیا-سی پیک روٹ کے متصل ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری میں چائے کے باغات کے ساتھ ہی چائے بنانے کی فیکٹری بھی لگائی گئی ہے جہاں کی چائے چینی ایوارڈ جیت چکی ہے۔خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری میں میلوں دور تک چائے کے باغات پھیلے ہوئے ہیں جن سے ملنے والی چائے کو چین کے ایک ادارے کی جانب سے بہترین چائے قرار دیے جانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔شنکیاری میں 1986 میں قائم کیے گئے نیشنل ٹی اینڈ ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر عبدالوحید کے مطابق پاکستان میں کاشت کی گئی چائے کو چین کے ٹین فو ٹی کالج نے 2008، 2009 اور 2013 میں بہترین چائے کا ایوارڈ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ٹین فو ٹی کالج دنیا کا واحد کالج ہے جہاں چائے پر تحقیق کی جاتی ہے۔ یہاں کے طالب علم صرف چائے سے جڑے پہلوؤں پر  تحقیق کرتے ہیں اور کالج ایم ایس، پی ایج ڈی اور پوسٹ ڈاک بھی کرواتا ہے۔انہوں نے بتایا: ’اس کالج نے ہماری چائے کو بہترین چائے قرار دیا ہے اور سرٹیفیکٹ ہمارے پاس موجود ہے۔


‘سی پیک روٹ کے متصل شنکیاری میں ترکی کے تعاون سے چائے کے باغات کے ساتھ ہی چائے بنانے کی فیکٹری بھی لگائی گئی ہے۔ایک اندازے کے مطابق شمالی علاقہ جات، کشمیر، مانسہرہ، بٹگرام اور سوات میں کل ایک لاکھ ایکڑ کے قریب زمین چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ تاہم ملک میں اب تک صرف پانچ سو ایکڑ رقبے پر کی چائے کاشت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں استعمال ہونے والی زیادہ تر چائے درآمد ہوتی ہے۔چائے جو مبینہ طور پر کرونا سے بچائےڈاکٹر عبدالوحید کہتے ہیں کہ کسان کو چائے کی فصل اگانے کے لیے پانچ سے چھ قربانی دینی ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ و کسانوں کو  کسانوں کو معاوضہ دے تاکہ وہ اسے کاشت کرنے پر آمادہ ہوں۔انہوں نے کہا: ’اگر ہم چائے کا ایک ایک پیالہ بھی پینا چھوڑ دیں تو ہماری بچت ہو جائے گی۔‘ڈاکٹر عبدالوحید نے قوم کو مشورہ دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ سبز چائے پیئں۔ان کا کہنا تھا کہ ’بازار میں زیادہ تر چائے ملاوٹ شدہ ہے جسے پینے سے معدے کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ اس میں رنگ اور باقی کیمیکل ہوتے ہیں۔


نعمت خان مانسہرہ میں قائم چائے کے باغ میں گذشتہ پانچ سال سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے بہترین روزگار ہے کیونکہ چائے کے باغات میں سال بھر کام کرنا ہوتا ہے۔نعمت خان نے بتایا کہ انہوں نے میٹرک کے بعد ہی چائے کے باغات میں کام شروع کردیا اور یہ انہیں بہت پسند ہے۔انہوں نے کہا: ’میں دیگر زمینداروں سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ جتنا زیادہ ہو سکتا ہے چائے کی پیداوار کو زیادہ کریں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ نوکریوں کے مواقع ملیں -شاہراہِ ریشم پر واقع ہزارہ ڈویژن کا کُل رقبہ 17064 مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی 61 لا88 ہزار 736 افراد پر مشتمل ہے۔موسمی اعتبار سے یہ علاقہ چائے اور زیتون کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہے۔ 1982میں پاکستان اور چین کے زرعی ماہرین نے ایک سروے کیا تھا، جس کا مقصد جائزہ لینا تھا کہ کون کون سے علاقے چائے کی کاشت کے لیے موزوں ہو سکتے ہیں۔اس میں جو علاقے سامنے آئے ان میں ہزارہ کا علاقہ پہلے نمبر پر تھا،


جس کی وجہ سے حکومتِ پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے یہاں چائے کی کاشت کو فروغ دینے میں سرگرم ہے، مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکے۔پاکستان سالانہ کتنی مالیت کی چائے درآمد کرتا ہے؟دنیا میں چائے کی پیداوار کی سالانہ مالیت 122.2 ارب ڈالر ہے، جو 2028 تک بڑھ کر 160ارب ڈالر ہو جائے گی۔اس میں چین 24 لاکھ ٹن کے ساتھ پہلے، انڈیا نو لاکھ ٹن کے ساتھ دوسرے اور کینیا تین لاکھ پانچ ہزار ٹن کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، پھر سری لنکا، ترکی اور انڈونیشیا کا نمبر آتا ہے۔2022 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان سالانہ 707 ملین ڈالر کی درآمد کے ساتھ پہلے، امریکہ 522 ملین ڈالر کے ساتھ دوسرے اور متحدہ عرب امارات 388 ملین ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔چائے کی پیداوار صدیوں پہلے چین میں شروع ہوئی تھی، جو آج بھی 38 فیصد کے ساتھ چائے کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔


تقریباً 200 سال پہلے ہندوستان میں چائے کی کاشت نہیں ہوتی تھی مگر آج وہ نہ صرف چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے بلکہ چائے کی پوری دنیا کی پیداوار کا 23 فیصد پیدا کرتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ انڈیا 200 سال میں چائے کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر کیوں اور کیسے آیا اور پاکستان جو 78 سال پہلے ہندوستان کا ہی حصہ تھا وہ چائے کی پیداوار میں نہ صرف پیچھے ہے بلکہ دنیا میں چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بھی ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی 1820 میں چین سے ایک جاسوسی مشن کے ذریعے پودے چرا کر ہندوستان لائی، جن کو آسام اور دارجیلنگ میں کاشت کیا گیا۔تب ہزارہ کے علاقے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملکیت میں تھے، وگرنہ شاید ایسٹ انڈیا کمپنی ہزارہ کو بھی موزوں خیال کرتے ہوئے یہاں چائے کاشت کرتی اور آج ہزارہ کا معاشی منظر نامہ مختلف ہوتا۔ہزارہ میں چائے کی کاشت کیوں ناکامی سے دوچار ہے؟جبکہ مانسہرہ  میں چائے  پھل پھول رہی ہے -یہ بلاگ  انٹر نیٹ پر  لکھا ہوا ہے  میری  اپنی  تلخیص شامل ہے ۔  

 

ہفتہ، 26 اپریل، 2025

بٹالہ انڈسٹری پاکستان کی صنعتی ایمپائر کس طرح تباہ کر دی گئ

   ء1907انیس سو سات  میں مشرقی پنجاب  کے شہر بٹالہ کے ایک رہائشی    مہر میراں  بخش کے آنگن میں ایک  بچے نے جنم لیا  بچے کے والد اپنے اس نومولود کو آ گے چل کر ایک اعلی ٰ تعلیم یافتہ روپ میں دیکھنا چاہتے تھے لیکن مہر  میران بخش   کی بے وقت موت  نے  ان کو یہ خوبصور ت  دن دیکھنے سے محروم کر دیا    -لیکن  اس ہونہار بیٹے نے  اپنے باپ کی خواہش کو عملی جامہ پہنا کر اعلی ٰ تعلیم حاصل کی اور 1930ء میں مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے  ساتھ ہی  انہوں نے دو کمروں اور ایک برآمدے  کے گھر میں اپنی پہلی صابن  مل لگائی‘ یہ صابن بناتے تھے‘ان کے چھوٹے بھائی محمد صدیق چودھری بھی ان کے ساتھ تھے‘‘ لطیف اور صدیق دونوں نے دن رات کام کیا اور ان کی فیکٹری چل پڑی‘ یہ ہندو اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کی پہلی انڈسٹری تھی‘ یہ صابن فیکٹری کے بعد لوہے کے کاروبار میں داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے علاقے میں چھا گئے اور لاکھوں میں کھیلنے لگے‘


پاکستان بنا تو ان کے پاس دو آپشن تھے‘ یہ اپنے کاروبار کے ساتھ ہندوستان میں رہ جاتے یا یہ کاروبار‘ زمین جائیداد اور بینک بیلنس کی قربانی دے کر پاکستان آ جاتے‘ سی ایم لطیف نے دوسرا آپشن پسند کیا‘ یہ بٹالہ سے لاہور آ گئے‘ لاہور اور بٹالہ کے درمیان 53 کلو میٹر کا  فاصلہ ہے‘آزادی نے سی ایم لطیف کا سب کچھ لے لیا‘ یہ بٹالہ سے خالی ہاتھ نکلے اور خالی ہاتھ لاہور پہنچے‘ بٹالہ میں ان کی فیکٹریوں کا کیا سٹیٹس تھا؟ آپ اس کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگا لیجئے‘ ہندوؤں اور سکھوں نے ان کی ملوں پر قبضہ کیا‘ کاروبار کو آگے بڑھایا اور آج بٹالہ لوہے میں بھارتی پنجاب کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے‘ سی ایم لطیف بہرحال پاکستان آئے اور 1947ء میں نئے سرے سے کاروبار شروع کر دیا‘ انہوں نے لاہور میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے نام سے ادارہ بنایا‘


یہ ادارہ آنے والے دنوں میں ”بیکو“ کے نام سے مشہور ہوا‘ 1932ء میں انہوں نے اپنے آبائی شہر کے نام پر ”بٹالہ انجینئرنگ کمپنی (بیکو BECO )“ کی بنیاد رکھی۔جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا سی ایم لطیف چاہتے تو بھارت میں رہ کر اپنا کاروبار بچا سکتے تھے مگر انہوں نے اپنی فیکٹریاں اور اپنا سب کچھ بھارت میں ہی چھوڑا اور پاکستان کی محبت میں ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔سی ایم لطیف نے لاہور میں بیکو کمپنی کے نام سے صنعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ دسمبر 1947ء کو انہوں نے لاہور کے پسماندہ  علاقے بادامی باغ میں پھر سے کمپنی کو زیرو سے آغاز کیا کاروباری دنیا میں  وہ   چودھری محمد لطیف ہو گئے لیکن دنیا انہیں ”سی ایم لطیف“ کے نام سے جانتی تھی‘ور  محض تین سال کی انتھک محنت کے بعد کمپنی کے قیام کو مضبوط بنیاد پر کھڑا کر دیا۔ محمد لطیف اب سی  ایم لطیف کے نام سے جانے جاتے تھے  -اورکمپنی میں انہوں نے سٹیل ورکس، سٹیل فاؤنڈری، سٹیل رولنگ ملز، آئرن فاؤنڈری، مشین ٹول شاپ، ڈیزل انجن شاپ، سٹرکچرل شاپ اور جنرل انجینئرنگ شاپ سمیت 8 شعبے قائم  کئے جن میں دن اور رات کا م ہوتا تھا ۔


 بیکو میں اس وقت مشینوں کے پرزہ جات، واٹر پمپس، پاور لومز، کرینیں، الیکٹرک موٹرز اور سائیکل تیار کیے جاتے تھے۔ بیکو 60ء اور 70ء کی دہائی میں ایک بین الاقوامی اور پاکستان کا قابل فخر ادارہ بن چکا تھا۔ مختلف ممالک کے سربراہان بیکو کا دورہ کرنے کے لئے بادامی باغ آیا کرتے تھے اور اپنے انجینئرز کو بھی بیکو میں ٹریننگ کے لئے بھیجا کرتے تھے۔ چین کے اس وقت کے وزیراعظم چو این لائی نے بیکو کا دورہ کیا اور اپنے انجینئرز بیکو میں ٹریننگ کے لئے بھیجا، چو این لائی نے بیکو کے سٹرکچر اور انتظامی امور کی طرز پر چین میں باقاعدہ ادارے اور فیکٹریاں قائم کی۔وہ پاکستان کے پہلے وژنری انڈسٹریلسٹ تھے اور انڈسٹریلسٹ بھی ایسے کہ چین کے وزیراعظم چو این لائی‘ شام کے بادشاہ حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ ان کی فیکٹری دیکھنے کیلئے لاہور آتے تھے‘ چو این لائی ان کی فیکٹری‘ ان کے بزنس ماڈل اور ان کے انتظامی اصولوں کے باقاعدہ نقشے بنوا کر چین لے کر گئے اور وہاں اس ماڈل پر فیکٹریاں لگوائیں‘



چو این لائی کے علاوہ شام کےسر  براہ مملکت حافظ الاسد اور تھائی لینڈ کے بادشاہ بھی بیکو کا دورہ کر چکے ہیں۔ چین کے ساتھ ساتھ جاپان اور جرمنی کے انجینئرز بھی بیکو میں ٹریننگ کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ آج ان تینوں ممالک کے انجینئرنگ نے اپنا لوہا منوایا۔ اپنے عروج کے زمانے میں بیکو میں 6000 لوگ ملازمت کیا کرتے تھے۔ سی ایم لطیف دوراندیش انسان تھے۔ انہوں نے ایک ایسا مثالی ادارہ قائم کر دیا تھا جو اپنے وقت کا شاہکار اور پاکستان کا قیمتی اثاثہ تھا۔ مگر کیا کیجئے کہ بدقسمتی چپکے سے ان کے ادارے کا پیچھا کر رہی تھی۔یکم جنوری 1972ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اقتصادی اصلاحات نافذ کرتے ہوئے 31 اہم صنعتی اداروں کو nationalize کرنے یعنی قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا جس میں بیکو بھی شامل تھا۔ ایک ہی رات میں سی ایم لطیف سے سب کچھ چھین لیا گیا، ان کے سالوں کی محنت ضائع کردی گئی اور ان کو ان کے اپنے ہی ادارے سے نکال کر ادارے کو حکومت پاکستان نے اپنی تحویل میں لے لیا۔


جمعرات، 24 اپریل، 2025

ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کیا ہے



    ہر زمانے میں  اللہ  پاک مجبور مخلوق  کی داد رسی کے لئے کسی کا انتخاب کرتا ہے    شنتا راتری   بھی  انڈونیشا  کی ٹرانس جنڈر  کمیونٹی کے لئے سایہ دار  درخت کی مانند تھیں لیکن مارچ     2025 کا مہینہ  انڈونیشیا  کی ٹرانسجنڈر  کمیونٹی کے لئے  ایک بڑے نقصان کا مہینہ رہا  جب ان کی مذہبی  راہنما  اور مدد گار شنتا راتری  ہسپتال میں داخل ہونے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے 60 سال کی عمر میں فوت ہوگئیں ۔ان کی موت کے نقصان کو الفتح اسلامی سینٹر کے ارکان  اب اپنے آپ کو بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں ۔اور خواتین ٹرانسجینڈر کے واحد اسلامی کمیونٹی سینٹر کا مستقبل خطرے میں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ٹرانسجینڈرز کے الفتح کمیونٹی سنٹر میں 63 خاتون ٹرانسجینڈرز باقاعدگی سے آتی ہیں اور یہاں وہ عبادت کرتی ہیں، قرآن سیکھتی ہیں، دیگر ہنر سیکھتی ہیں اور یہ جگہ انھیں ان کی شناخت پر وضاحت دیے بنا سماجی طور پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔رینی کالینگ ان خواتین ٹرانسجینڈرز میں سے ایک ہیں۔نور آیو کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے لیے ایک روشنی کی مانند رہنما تھیں، اور بطور خاندان سب سے قریب تھیں۔


انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں -ہر صبح جاگنے کے بعد، وہ ہینڈ بیگ پکڑ کر تاریخی شہر یوگیکارتا کی سڑکوں پر گھومنے سے پہلے میک اپ اور اپنی پسندیدہ کالی وگ پہنتی ہیں۔وہ روزانہ میلوں پیدل چلتی ہیں، اپنے بلیو ٹوتھ سپیکر سے موسیقی بجاتی ہیں اور روزی کمانے کے لیے گاتی ہیں۔ لیکن اتوار کو وہ دوپہر کو قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے الفتح سینٹر آتی ہیں۔سنہ 2014 سے یہاں آنے والی رینی کہتی ہیں کہ ’یہ وہ محفوظ جگہ ہے جہاں ہم اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔‘رینی بچپن میں ہمیشہ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ آرام محسوس کرتی تھیں۔ وہ لڑکیوں جیسا لباس زیب تن کرتی، باورچی خانے کے کھلونوں سے کھیلتیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں دلہن بننے کا روپ دھارتی تھیں۔ٹرانس ویمن کی شناخت اختیار کرنے کے بعد ان کے والدین اور نو بڑے بہن بھائیوں نے ان کی شناخت کو قبول کیا۔ اب سڑکوں پر لوگ انھیں پہنچانتے ہیں جو اسے گاتے اور ناچتے دیکھتے ہیں۔وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یہاں کی سلیبرٹی ہوں۔


رینی نے پہلی مرتبہ ٹرانس خواتین کے لیے الفتح اسلامی سینٹر کا ذکر اپنی ایک دوست سے سنا تھا جو خود بھی مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس وقت رینی کو یہ علم ہوا کہ ان کی برادری کی تمام خواتین میں ہی ایسا جذبہ موجود ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب کبھی وہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں تو اکثر انھیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا، ’لازمی نہیں کہ وہ ہمیں قبول کریں لہٰذا میں نے شنتا راتری کے گھر جانا شروع کر دیا۔‘اس مرکز کی نگران نور آیو کہتی ہیں کہ ’بہت سے اسلامی سینٹرز ٹرانسجینڈرز کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن یہاں ہمیں آزادی حاصل ہے، ہم یہاں مرد و عورت یا جس میں بھی پرسکون محسوس کریں اس شناخت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘شنتا راتری الفتح کمیونٹی سینٹر کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔ سنہ 2014 سے ایک مشہور کارکن اور مرکز کی رہنما شنتا راتری نے انڈونیشیا میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔  ان کے بغیر سینٹر ’ویران اور خالی محسوس ہوتا ہے۔‘شنتا راتری کی موت نے کمیونٹی سینٹر کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔


یہ عمارت مرحوم رہنما کے خاندان کی ملکیت ہے اور انھوں نے الفتح مرکز کو یہاں سے ختم کرنے کا کہا ہے۔ نور کہتی ہیں کہ ’ہمیں شنتا کے بغیر رہنے کے قابل اور خود مختار ہونا ہو گا۔اسلامک سنٹر کے سیکریٹری، وائی ایس البوچری بتاتی ہیں کہ انھیں مقامی اور عالمی سطح پر کمیونٹی کے دوستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے کچھ تعاون حاصل ہوا ہے۔لیکن انڈونیشیا کے مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ٹرانس کمیونٹی کی قبولیت بہت مشکل اور محدود ہے۔چار برس قبل پارلیمان سے منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر دوبارہ شور کیوں؟اگر آفس کارڈ نہ ہوا تو مجھے دوبارہ سیکس ورکر سمجھا جائے گا‘ملک میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ریاست کبھی ان کی مخالف نہیں رہی اور اس نے انھیں اپنے وجود کی اجازت دی ہے، لیکن وہ براہ راست کوئی مدد فراہم نہیں کرتی ہے۔


انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور میں اسلامی مراکز کے ڈائریکٹر واریونو عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وہ اس مرکز کی حالت زار سے آگاہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لیکن حکام اس سینٹر کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ریاستی ضوابط کے تحت ایک جائز اسلامی مرکز کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔انھوں نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا سے فون کال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وسیع نقطہ نظر میں ریاست ’تمام مثبت سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔ لوگ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کیوں منع کیا جائے؟‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے‘۔ وزارت مذہبی امور کبھی بھی الفتح کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی اور نہ ہی اس کی کسی بھی سرگرمی میں سہولت فراہم کی ہے۔اس سینٹر کی ایک اور رہنما رولی مالے کا کہنا ہے کہ الفتح سینٹر کو جو بھی قانونی حیثیت دی گئی ہے اس کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔‘وہ پرامید ہیں کہ ایک دن، ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو انڈونیشیا جیسے متنوع ملک میں زیادہ قبولیت ملے گی اور یہ امید انھیں اور ان کے دوستوں کو مرکز کو چلانے کی ترغیب دیتی ہے                                             

بدھ، 23 اپریل، 2025

کپاس کی فصل سے ہمارا بے رحم رویہ

 کپاس  کی تباہی کا آغاز اس وقت سے ہوا جب  کپاس کی  پیداوار دینے والی زرخیز زمینوں پر  گنے کی کاشت شروع کی گئ  اور گنے کی کاشت زاتی  منافع کی بنیاد پر تھی  کیونکہ صاحب اقتدا ر طبقے  نے چینی  کا   منافع بخش کاروبار شروع کیا   اس کاروبار میں  ارب پتی خاندان کے خاندان  ملوں کے مالک بن گئے او رقومی مفاد پر زاتی مفاد غالب آ گیا- طرفہ تماشہ   کاشتکاروں  پربھاری ٹیکسز  لاگو کئے گئے  اور بجلی کی مہنگائ   نے کپاس کی فصل   اور فوائد سے  قوم کو محروم کر دیا  -اس وقت صورت حال یہ ہے    کہ ذرائع  وزارت خوراک و تحقیق کے مطابق، وزیراعظم کو رپورٹ دی گئی کہ پچھلے دس سالوں میں نہ کوئی نئی کپاس کی اقسام متعارف کرائی گئیں اور نہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے تحقیق کی گئی۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار 2012-13 میں 1 کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں سے گھٹ کر 2024-25 میں صرف 50 لاکھ گانٹھوں پر آ گئی ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ذرائع نے بتایا کہ "کپاس   کے اوپر  ہونے کی وجہ سے PCCC فنڈز سے محروم رہی، جبکہ PARC       ہونے والی  فیصلہ سازی سے روک دیا گیا۔ وزیراعظم کو زراعت سے جڑے افراد اور تنظیموں کی جانب سے بارہا شکایات موصول ہوئیں کہ ادارے زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم نے متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کی، مگر کوئی قابل عمل منصوبہ پیش نہ کیا جا سکا، جلہ جیم (نامہ نگار )مثالی کاشتکار میاں محمد عاصم ارائیں نے کہا کہ کپاس کی نقد آور فصل صرف کاشتکار کی ہی ضرورت نہیں بلکہ زر مبادلہ کا باعث ہے۔کپاس کی فصل کی بربادی پر حکومت فوری توجہ کر ے  جننگ فیکٹریوں میں اس وقت چارلاکھ  گانٹھ روئی موجود ہے مگر ان کا کوئی خریدار نہیں  زراعت ملکی مجموعی آمدنی کا خاطر خواہ حصہ ہے مگر ہر فصل پر کسانوں کو تحفظات ہیں  جو قومی المیہ ہے۔


انہوں نے وزیر اعظم سے  کاٹن کی عدم  فروخت کا نوٹس لے کر کسانوں کے مسئلے کے حل کا مطالبہ کیا ہے ۔پاکستان کی آدھی ٹیکسٹائل ملز بند کیوں پڑی ہیں؟سندھ میں کپاس کی 100 فیصد فصل تباہ: محکمہ زراعت سندھ کیا پاکستان 21 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف حاصل کر پائے گا؟پاکستانی کسانوں نے کپاس کی کاشت سے منہ موڑ لیا، آخر وجہ کیا ہے؟آل پاکستان کسان اتحاد کے جزل سیکریٹری رانا محمد ظفر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کپاس کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی ہے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن سرکار آج تک پاکستانی ماحول کے مطابق بیج تیار نہیں کر سکی ہے۔ پھول اور گوڈی کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں تقریباً چھ سو سے زیادہ بیج کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے اکثر جعلی اور ناقص معیار کا بیج تیار کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار بھی کم ہے اور معیار بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ لیکن سرکار ایکشن نہیں لے رہی۔’ہندوستان میں صرف 50 کمپنیاں کپاس کا بیج بناتی ہیں اور وہ معیاری ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے چار گنا زیادہ ہے اور معیار بھی بہتر ہے۔ انڈین پنجاب میں کسان کو بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں کسان کی آمدن کا بڑا حصہ صرف بجلی کے بلوں میں خرچ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ جعلی پیسٹی سائیڈ اور ادویات کی بھرمار ہے اور کسان کی تعلیم و تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جعلی ادویات استعمال کرکے نقصان اٹھا رہے ہیں۔‘ایپٹما پنجاب کے چیرمین اسد شفیع نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹیکسٹائل اور کسان کی تباہ حالی میں بیوروکریسی کا بڑا کردار ہے۔ بیوروکریسی نے دھاگے کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کر دی ہے۔جس کی وجہ سے درآمد سستی ہو گئی ہے اور کپاس کے کاشت کار نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ ایسا کسی ملک میں نہیں ہوتا۔


 اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان دبئی  کے راستے بھارتی دھاگہ درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے‘جبکہ چائنا  سے بھی امپورٹ  جاری ہے - (اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان اس وقت امریکی کپاس کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ تقریباً 11لاکھ 92 ہزار بیلز امریکہ سے خریدی گئی ہیں۔ پوری دنیا کے دس سے زیادہ ممالک سے ابھی تک 30 سے 35 لاکھ بیلز درآمد کرنے کے معاہدے ہو چکے ہیں اور ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے 55 لاکھ بیلز درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔’اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی سفید لنٹ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ جبکہ بیرون ملک سے سفید لنٹ درآمد کرنے پر ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔ایسے فیصلوں کو حادثاتی نہیں کہا جا سکتا بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔  ایک وقت تھا کہ پاکستان کپاس کا تقریبا سب سے بڑا برآمدکندہ تھا۔ لیکن آج حالات 180 ڈگری سے تبدیل ہو گئے ہیں۔‘ان کے مطابق ’مکمل قصور سرکار کا نہیں ہے، کچھ غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں کپاس کے بیج اور فصل پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کام نہیں ہو سکا۔ ملز مالکان نے ادارے بنائے، چائنیز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کام آگے نہیں بڑھ سکا۔ (پی سی جی اے)کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امپورٹڈ روئی(درآمدی روئی)ڈیوٹی فری اور ٹیکس فری ہے جبکہ پاکستانی روئی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے۔


امریکن کاٹن کو پاکستان میں امپورٹ کے لیے فری ہینڈ حاصل ہے جب کہ پاکستانی کاٹن پر  ایک درجن سے زائد ڈیوٹیز اور ٹیکس عائد ہیں۔بھاری ٹیکسوں نے کاشتکاروں اور کاروباری طبقات کو کپاس کی فصل سے بہت دور کر دیا ہے جبکہ کپاس لاوارث فصل ہو کر رہ گئی ہے۔ملکی جننگ فیکٹریوں میں اس وقت چار لاکھ گانٹھ سے زائد روئی غیر فروخت شدہ سٹاک میں موجود ہے جس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ پی سی جی اے نے بطور ایسوسی ایشن    کے بھرپور مہم، تحریک  اور عہدے داروں،ممبران  کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کپاس کی بقا و بحالی کے لیے حکومتی اقدامات اور نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومتی سطح پر  سود مند اقدامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔کپاس کی بقا و بحالی کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہ ہے۔ہمارا اور ہمسایہ ملک کا موسم، کلچر، کاشتکاری کے طریقہ کار اور دیگر عوامل یکساں ہیں۔گزشتہ 20 سال میں ہمسایہ ملک میں کپاس کی فصل 35 ملین (تین کروڑ 50 لاکھ) گانٹھ سے زائد ہے جبکہ وطن عزیز میں کپاس کی پیداوار پانچ سے آٹھ ملین (5080 لاکھ) گانٹھ  سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔پاکستان کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر سے آٹھویں نمبر پر چلا گیا ہے ٹیکسٹائل اور کپاس کی فصل کی تباہی کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر *کپاس کی پیداوار میں 60 فیصد کمی: تحقیق و ترقی میں عدم توجہی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ*پی سی جی اے کی جانب سے آج جاری کردہ کپاس کے اعدادوشمار کے مطابق یکم ستمبر 2024 تک کل کپاس کی آمد 1,225,946 گانٹھیں ہیں جبکہ گزشتہ سال 2023 میں  آج کی تاریخ میں کپاس کی آمد 3,041,104 گانٹھیں تھیں۔ یعنی کے گزشتہ برس کے مقابلے میں امسال 60% کپاس کی گانٹھیں کم ہوئی ہیں۔ اگر پنجاب کی بات کی جائے تو امسال ابتک 4 لاکھ 52 ہزار 855 گانٹھیں پیدا ہوئیں


 جبکہ گزشتہ سال آج کی تاریخ میں 10 لاکھ 68 ہزار 796 گانٹھیں حاصل ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں پنجاب میں 58% کم پیداوار ہوئی۔ جبکہ سندھ میں امسال ابتک 7 لاکھ 73 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں جبکہ گزشتہ سال 19 لاکھ 72 ہزار 308 گانٹھیں پیدا ہوئیں یعنی گزشتہ برس کے مقابلے میں سندھ میں 60% کم پیداوار حاصل ہوئی۔ جبکہ بلوچستان میں امسال ابتک 34 ہزار گانٹھیں پیدا ہوئیں ہیں -کپاس کی اگیتی کاشت میں ایک ماہ کی تاخیر، جون و جولائی میں گرمی کی لہر کے طویل دورانیہ کی وجہ سے فروٹ شیڈنگ، اگست میں شدید بارشوں اور سفید مکھی و گلابی سنڈی کا حملہ کپاس کی پیداوار میں کمی وجوہات ہیں۔ اسی طرح اگر کپاس کے رقبہ میں کمی کی بات کی جائے تو اس کی بنیادی وجوہات میں حکومتی سطح پر کپاس کی امدادی قیمت کا اعلان نہ ہونا، دیگر مسابقتی فصلات کے مقابلہ میں کپاس کی فصل کا منافع بخش نہ ہونا، مارکیٹ میں مڈل مین کی مناپلی کی وجہ سے قیمت میں مصنوعی گراوٹ کی وجہ سے کپاس کے کاشتکاروں کو نقصان ہورہا ہے۔کپاس کی پیداوار اور رقبہ میں 2016 سے مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ہمیں اپنی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور سفید مکھی اور گلابی سنڈی کے چیلنجز سے بچاؤ کے لیے کپاس کی جدید جینیاتی اقسام تیار کرنا ہوں گی جس کے لیے کپاس کی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر کثیر فنڈنگ درکار ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے قومی سطح پر پاکستان کے سب سے بڑے کپاس کے تحقیقی ادارے پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی کو ٹیکسٹائل انڈسٹری اور حکومت کی جانب سے سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات پورے ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔ 2016 سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی ایماء پر تقریباً 80 فیصد ٹیکسٹائل ملوں نے کاٹن سیس دینا بند کر دیا ہے اور تب سے کپاس کی پیداوار جمود کا شکار ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر