تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہوئے پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کلفٹن کا وسیع و عریض علاقہ پاکستان بننے سے پہلے ایک پارسی معزز شخصیت کی ملکیت میں ہوا کرتا تھا جن کا نام جہانگیر ایچ کوٹھاری تھا۔اس عمارت کی اہمیت کیا ہے۔ در اصل یہ لیڈی لائیڈ تھیں جو ہر سہ پہر کو جب سمندر سے خنک ہوا کلفٹن کی ریت سے گذرتی، تو وہ وکٹوریہ میں سوار، اندھیرا پھیلنے سے پہلے پہلے ایک چکر لگاتی تھیں۔ سمندر کو جانے والی راہ پتھریلی تھی اور کہیں بھی ہموار نہیں تھی۔ پانی تک فاصلہ بھی بہت طویل تھا۔ جہانگیر کوٹھا ری پریڈ کی تعمیر سے پہلے جب ہم ہم کلفٹن کراچی کے ساحلی علاقے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے - درحقیقت یہ سمندر اتنا قریب بھی نہیں تھا جتنا نظر آتا تھا ۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے سب سے پہلے کوٹھاری پریڈ کی خوب صورت اور تاریخی عمارت کے پاس سے گزر کر تھوڑا نیچے اترنا پڑتا تھا۔
کوٹھاری پریڈ کی عمارت کی تعمیر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ تھی ۔ جہانگیر کوٹھاری پریڈ جوبرطانوی عہد کی ایک شاندار یادگارہےاان دنوں کلفٹن کے علاقے میں گورنر کی اہلیہ لیڈی لائیڈ اپنی خوبصورت سواری وکٹوریہ میں سوار ہو کر کلفٹن کی خنک ہوا سے لطف اندوز ہونے ساحل کا چکر لگایا کرتی تھی - ایک دن سیر کے دوران لیڈی لائیڈ کو پارسی رئیس سے ملنے کا اتفاق ہوا جن کا نام سر جہانگیر ہرمز جی کوٹھاری تھا۔ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔ کوٹھاری صاحب سمندر کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر تعمیر شان دار بنگلے میں رہتے تھے۔ لیڈی لائیڈ اور سر جہانگیر اس بنگلے کی بالکونیوں میں چائے پیتے۔ یہاں ہوا کا بہت زور ہوتا تھا۔ ایک دن دونوں یہیں بیٹھے تھے، لیڈی لائیڈ پتھریلے راستے پر لوگوں کو چلتے دیکھ رہی تھیں، اس نا خوشگوار نظارے کے بعد انھوں نے سر جہانگیر سے کہا کہ اگر یہاں باقاعدہ سڑک ہو تو ان بے چارے بے شمار لوگوں کو تکلیف نہ ہو، جو یہاں تازہ ہوا کی تلاش میں آتے ہیں۔قابل احترام پارسی نے لیڈی کی بات مان لی۔ اب وہ اس فکر میں تھے کہ یہ سب کچھ کیسے ہو۔
لیڈی نے سمجھایا کہ صرف ایک پریڈکی ضرورت ہے جو نیچے ساحلِ سمندر تک جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہوگی اور اُن کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔سر جہانگیر کو یہ تجویز پسند آ گئی حد نگاہ تک چوکڑیاں بھرتے سمندر کے کنارے یہ پریڈ ایک تفریح گاہ کے طور پر تعمیر ہونا شروع ہو ئ تھی۔پریڈ کی تعمیر کے لئے جودھ پور راجستھا ن سے سرخ پتھر لائے گئے اور کوٹھاری صاحب نے تین لاکھ روپے کی لاگت سے پیویلین بھی تعمیر کروایا-ور اس کا نام اپنے نام کی بجائے اپنی دوست کے نام پر رکھا۔یہ پریڈ1921 کو کھول دی گئی جہاں سے قدرتی ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساحل سمندر کے دلفریب نظارہ بھی کیا جا سکتا تھا۔کلفٹن کے ساحل کو جاتے راستے پر ایک کتبے پر سیاح یہ الفاظ پڑھ سکتے ہیں، "Lady Lloyd Piar"۔
جودھ پور، راجستھان کے سرخ پتھروں سے تعمیر کردہ ’جہانگیر کوٹھاری پریڈ‘ کی افتتاحی تقریب کی مہمان خصوصی گورنر جارج لائیڈ کی اہلیہ تھیں،جنہوں نے اس کا افتتاح21 مارچ 1921 میں کیا۔ سنگ بنیاد کے موقع پر نصب کی جانے والی تختی آج بھی یہاں نصب ہے۔ لیکن یہاں آنے والے لاکھوں لوگوں میں سے کچھ ہی کی نگاہ اس پر پڑی ہوگا- اسی جگہ قدیم تختی کے قریب ایک جدید تختی بھی لگی ہے ،جس پر آج کے دور کی تاریخ لکھی ہے۔ بعد ازاں ساحل دور ہوتے ہوتے کافی آگے چلا گیا تو جون 2005 میں کراچی کی ضلعی حکومت نے اس تاریخی تفریح گاہ کی مرمت اور دیکھ بھال کی طرف توجہ کرتے ہوئے تعمیری پراجیکٹ کا آغاز کیا اور عمارت کے رقبے میں توسیع کرتے ہوئے اطراف کی جگہ بھی شامل کرتے ہوئے بن قاسم پارک بنیاد رکھی۔
جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی طرز تعمیر سیاحوں کو اپنی طرف کھنچ لاتی ہے۔ اس کے سامنے بنی ہوئی خوبصورت سڑک دل میں اترتی ہے۔ یہ جگہ باغ ابن قاسم کلفٹن کراچی کی تزئین وآرائش کے بعد رات کو دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔اس کے وسیع و عریض چبوترے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں لگی تھیں جو نیچے سڑک تک آتی تھی -چبوترے کے باقی حصے کے اطراف میں ڈھلوانی پتھروں کی ٹائلیں جو نیچے سڑک تک آتی ہیں ۔ اسی عمارت کے دوسری طرف سے چوڑی پتھریلی سیڑھیاں نیچے ایک وسیع و عریض راہداری پر اترتی ہیں ، جو آہستہ آہستہ آگے چلتی جاتی ہیں ۔ کچھ فاصلے کے بعد ایک بار پھرچند سیڑھیاں کچھ اور نیچے اترتیں اور پھر راہداری کا اگلا حصہ شروع ہو جاتا تھا ۔ یہ بہت ہی خوب صورت راہداری تھی، جس کے دونوں طرف دلکش باغات اور گھاس کے تختے لگے ہوئے ہوتےتھے۔ آہستہ آہستہ نشیب میں اترتی ہوئی یہ راہ گزر اپنے سفر کے اختتام پر بالکل ہی سمندر کے قریب پہنچا دیتی تھی، جہاں سے لوگ آخری سیڑھی سے ساحل کی ریت پر چھلانگ لگا دیتے تھے۔