بدھ، 22 جنوری، 2025

زرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا-حب ندی اور میرا شوق

 

زرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

 ہمارے زمانے کے دستور آج کے دور کی نسبت  کچھ نرالے ہوا کرتے  تھے ،یعنی آج کے دور کی طرح نرسری یا پری نرسری سے بچّوں کو اسکول بھیجنے کا کوئ تصوّر تک نہیں تھا بلکہ یہ نام ہی ہمارے لئے بیگانے تھے،اس زمانے کےرواج میں شامل تھا کہ بچّہ گھر سے تیسری یا چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرچکا ہو تب اسکول میں داخلہ دلوایا جائے  اور یہ بات معاشرتی اعتبار سے بڑی مستحسن جانی جاتی تھی ,,میری والدہ ان دنوں مجھے تیسری جماعت کا کورس گھر پر پڑھا رہی تھیں اور میرا داخلہ اسکول میں نہیں ہواتھا  اور میرے اندرکی جستجو نےکیا ہے ؟ کیوں ہے  جیسے سوالوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا شوق واضح ہونے لگے تھے ،


 اور پھر بچپن کے شوق کے کیا کہنے جبکہ فطرت میں شوق کی تکمیل کی خاطر اندر ہی اندر نافرمانی کا جزبہ موجزن ہو ،بچپن کی ایسی ہی جھلمل یادوں کے درمیان کبھی میرا زہن ہر سوچ سے دامن بچا کر بچپن کے اس دورمیں جا نکلتا ہے جہان میں اسی عمر میں سفر کرتی ہوں جو میرے بچپن کا انوکھا دور تھا اور پھر شیریں و تلخ یادوں کی برسات کی رم جھم میں میرا دل جھومتا چلا جاتا ہے ،میرے بچپن کی انوکھی  یادون میں مجھے اپنا سیلابی پانی سے بھری ندّی کے کنارے  جانا  اور دیر تک ندّی کے پانی کا بہاوُ دیکھتے رہنا آج بھی اچھّی طرح سے یاد ہے میں ندّی کو بہتا دیکھ کر سوچتی تھی کہ آخر اتنا پانی آتا کہاں سے ہے ،


اس موسم میں میری صبح بہت جلدی ہو جایا کرتی تھی کیونکہ میری بے قرار فطرت کے سبب میری والدہ مجھ پر خاص نگاہ سرپرستی رکھتی تھیں ،لیکن وہ ہے ناں شوق کا کوئ مول نہیں ہوتا چنانچہ ایک صبح ایسا ہوا کہ رات کوبرسنے والی  گھنگھور گھٹا وُں نے  ساری فضاء کو جل تھل کر رکھّا تھا اور میں صبح سویرے  گھرکے افراد سے آنکھ بچا کر ندّی کے کنارے پہنچ  کر سیلابی پانی کو دیکھنے میں محو کھڑی تھی ،ندّی کناروں تک لبالب  بھری ہوئ تھی اور پانی طغیان کھاتا ہواغرّا تا ہوا ندّی کے کناروں پر سر پٹختا ہوا چلا جا رہا تھارہا تھا،


،اچانک مجھے اپنی پشت پر ایک بڑی مردانا ہیبت ناک آواز سنائ دی اس کے بعد اس نے میرے قریب آکر میری گردن دبوچ لی اور مجھ سے غراتے ہوئے بولا دیکھ ادھر اس نے جس جانب اشارہ کیا تھا میں اسی جگہ کچھ دیر پہلے کھڑی ندی کا نظارہ کر رہی تھی  اور پھر میں نے دیکھا اسی جگہ سے کچھ پیچھے زمین کا کنارہ کٹنے لگا تھا جو زرا سی دیر میں ندی میں جا گرا وہ پر میری گردن چھوڑتے ہوئے بولا اگر میں تجھے ابھی نا ہٹاتا  تو تو ابھی  ندی میں بہ جاتی اب اگر تو یہاں نظر آئ تو تجھے مارڈالوں گا -دفع ہو وہ دھاڑا اور میں نے گرتے پڑتے گھر کی جانب دوڑ لگا دی -چپکے سے گھر میں داخل ہوئ تو سامنے امی جان نظر آئیں صبح 'صبح کا وقت تھا اس لئے امی جان خاموش رہیں لیکن ان کی نگاہوں سے سخت ترین خفگی کا اظہار ہو رہا تھا


 پھر جب دوپہر ہوئ تو امی جان نے مجھے کچن میں بلایا اور انگاروں پر رکھا ہوا لوہے کا دست پناہ جس سے وہ توے پر روٹیاں الٹنے کا کام لیتی تھیں اسے مجھے دکھایا جو انگاروں سے نکل کر سرخ ہو کر دہک رہا تھا امی جان نے مجھ سے کہا اگر اب تم نے دوبارہ یہ حرکت کی تو میں تمھارے دونوں پیر داغ دوں گی  'پھر شام ہو گئ ابا جان بنک سے واپس آ کر کھانا چکے تب ہمارے دروازے پر کسی نے آ کر ابا جان کو آواز دے کر باہر بلایا جب کچھ دیر کے بعد ابا جان گھر کے اندر واپس آئے تب مجھے معلوم ہوا کہ جس شخص نے میری جان بچائ تھی وہ ابا جان کے دوست تھے اور انہوں نے اباجان سے میری کارگزاری کی شکائت کی تھی -ابا جان نے بھی  مجھے کافی سخت تنبیہ کی تھی پھر میں نے بھی کبھی دوبارہ ندی  جانے کا ارادہ نہیں کیا 


ازبکستان میں اخروٹ کے جنگل کیسے پروان چڑھے پارٹ /1


 ازبکستان میں اخروٹ کے جنگل کیسے پروان چڑھے- آئیے  یہ کہانی پڑھتے ہیں - ہر  سال ارسلان بوب کے ان باغوں سے ایک ہزار سے 15سو ٹن تک اخروٹ پیدا ہوتا ہے۔اپنی گہرے رنگ کی گِری کے لیے مشہور ان اخروٹوں کی پیداوار کیڑے مار ادویات سے پاک، قدرتی ماحول میں ہوتی ہے۔ یہاں کے اخروٹ دنیا کے بہترین اخروٹ سمجھے جاتے ہیں اور ہر سال یورپ اور ایشیا بھر کو برآمد کیے جاتے ہیں۔یہ چھوٹا سا قصبہ اس قدر اخروٹ کی پیداوار سے مالا مال کیسے ہوا اس بارے میں کئی داستانیں مشہور ہیں۔کچھ مقامی لوگوں کے خیال میں یہ بات پیغمبرِ اسلام کے دور سے شروع ہوئی جب انھوں نے ایک تجربہ کار مالی کو بیج دیا اور یہ نصیحت کی کہ وہ اسے کسی مناسب جگہ پر اس طرح کاشت کر ے کہ جنگل اُگ آئے۔وہ مالی، اس نصیحت کی روشنی میں، دور دراز سے سفر کرتے ہوئے ارسلان بوب پہنچا۔


مالی نے برفانی پہاڑیوں کے دامن واقع ایک ایسی جگہ تلاش کی جہاں کا موسم بہترین اور جہاں صاف ستھری بہتی ندیاں اور زرخیز زمین موجود تھی۔اس شخص کو یقین ہو گیا کہ یہ بہترین مقام ہے اور پھر اس نے پیغمبرِ اسلام کا دیا ہوا بیج بویا اور کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی یہاں اخروٹ کے جنگلات پھل پھول رہے ہیں۔یوں تو مغزیات کا استعمال صدیوں سے جاری ہے، مگر جدید سائنس کے ان کی افادیت پر مُہرِ تصدیق ثبت کرنے کے بعد سے ان سے استفادہ کیونکر کیا جاسکتا ہےجسمانی وزن میں کمی : اخروٹ میں کیلوریز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر اعتدال میں رہ کر اسے کھانے سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔ اخروٹ کھانے سے کھانے کی اشتہا کم ہوتی ہے جس سے جسمانی وزن میں کمی لانا آسان ہوتا ہے۔ المختصر یہ کہ اخروٹ انسانی جسم کے جملہ افعال میں مفید ہے ۔


 اخروٹ کا روغن:اخروٹ میں تیل کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔ اس تیل کی مالش سے دورانِ خون میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے سردی کے باعث جسم کے کسی بھی حصّے میں ہونے والے درد اور فالج و لقوے میں افاقہ دیکھا گیا ہے۔ اخروٹ کے چِھلکے:تازہ اخروٹ کے چِھلکوں سے تیار کردہ منجن دانتوں کو صاف و چمک دار بناتا اور مسوڑھے مضبوط کرتا ہے۔ اسی طرح پائیوریا کے لیے اخروٹ کی جڑ کی مسواک مفید ہے۔ نیز، اخروٹ کے درخت کی چھال سے تیار کردہ جوشاندے سے کُلّیاں کرنا دانتوں کی حسّاسیت کے لیے مؤثر ہے۔ چوٹ کا نشان:اخروٹ کے مغز کے لیپ سے چوٹ کا نشان بھی جاتا رہتا ہے۔٭ پیٹ کے کیڑے:دس گرام اخروٹ کے درخت کی چھال کو نصف گلاس پانی میں جوش دینے کے بعد چھان کر پلانے سے پیٹ کے کیڑے مَرجاتے ہیں-


ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید : ذیابیطس کے مریضوں یا بلڈ شوگر کے شکار افراد کو روزانہ اخروٹ کھانے سے امراض قلب میں مبتلا ہونے سے تحفظ ملتا ہے۔ روزانہ اخروٹ کھانے سے خون کی شریانوں کے افعال بہتر ہوتے ہیں جبکہ کولیسٹرول کی سطح کم ہوتی ہے۔ اخروٹ کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں ممکنہ مدد مل سکتی ہے۔ اس کے باقاعدگی کے استعمال سے مردوں میں بانجھ پن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اخروٹ کھانے سے مردوں کی تولیدی صحت بھی بہتر ہوتی ہے : اخروٹ کھانے سے اسپرمز کی صحت بہتر ہوتی ہے جس سے بانجھ پن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور : اخروٹ میں وٹامن ای، میلاٹونین اور پولی فینولز نامی نباتاتی مرکبات موجود ہوتے ہیں جو صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں۔غذا میں اخروٹ کو شامل کرنے سے تکسیدی تناو¿ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جس سے خون کی شریانوں کے امراض سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔


دل کی صحت : خون میں چکنائی یا کولیسٹرول کی مقدار بڑھنے سے امراضِ قلب، فالج اور دیگر طبی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔روزانہ کچھ مقدار میں اخروٹ کھانے سے کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔ اخروٹ کھانے سے امراضِ قلب کا خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر کی روک تھام ہوتی ہے۔اخروٹ کے استعمال سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے، پیٹ نکلنے کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ بلڈپریشر اور خون میں چکنائی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔کینسر سے تحفظ: اخروٹ کھانے کی عادت سے معدے کے کینسر سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔اخروٹ میں موجود پولی فینولز سے کینسر کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ازبکستان کی سرحد سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر مغربی کرغزستان کی ایک وادی میں تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل ارسلان بوب نامی قصبہ چاروں طرف سے بلندوبالا باباشاتا کی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے۔


منگل، 21 جنوری، 2025

عزم و ہمت کا پیکر ڈاکٹر فاطمہ شاہ

     

فاطمہ شاہ 21 جنوری 1914ء میں پنجاب کے شہر بھیرہ،  موجودہ  پنجاب پاکستان میں  ایک انتہائ اعلیٰ تعلیم یافتہ  گھرانے  میں  پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پروفیسر عبد المجید قریشی علی گڑھ یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کے چئیرمین تھے۔  فاطمہ شاہ نے 1928 میں چودہ سال کی عمر علی گڑھ یونیورسٹی کی زیر نگرانی میٹرک کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اس کے بعد لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج دہلی سے فاطمہ شاہ نے ایم بی بی ایس کیا۔ یہاں بھی انھیں میکڈونلڈ اسکالر شپ ملا۔فاطمہ شاہ کو ڈاکٹر کی ڈگری پالینے کے بعد لکھنؤ کے ڈفرن ہسپتال میں ہاؤس سرجن کی نوکری مل گئی۔1937 میں ان کی شادی گورکھپور ہندوستان کی ایک مشہور شخصیت جواد علی شاہ سے ہو گئی۔ اب وہ دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھیں  اسی زمانہ میں وہ کچھ دنوں کے لیے پاکستان گھر خریدنے آئیں تو یہا ں کی مٹی نے انہیں واپس نہیں جانے دیا  1947 ء کے بعد انھوں نے مہاجر خواتین کی صحت اور آباد کاری کے سلسلے میں خدمات انجام دینا شروع کیں۔ انھوں نے اپوا کے تحت کام کیا اور سول ہسپتال، کراچی میں کافی عرصہ تک خدمات انجام دیں۔ 1952 میں وہ اپنی آنکھوں میں الرجی اور موتیا کے باعث دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئیں۔ 


حالانکہ فاطمہ اس وقت ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ لیکن ایک دن صبح چار بجے ان کی آنکھ کھلی تو انھیں لگا کہ اب وہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔ بینائی سے محرومی کے صدمہ کی وجہ سے انھوں نے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر فاطمہ شاہ سے ملنے ازبیلا گرانٹ نامی ایک 60 سالہ امریکی خاتون آئیں اور انھوں نے ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ انھیں پاکستان میں نابیناؤں کی اپنی ایک جماعت بنانی ہو گی ۔ اس جماعت کی لیڈر فاطمہ شاہ ہوں گی۔ جو نابینا افراد کے لیے سماجی کام ( سوشل ورک ) کریں گی۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو بچپن سے ہی سوشل ورک کا شوق تھا لہذا انھیں اپنی اس صلاحیت کو آزمانے کا موقع مل گیا۔ انھوں نے اس سلسلے میں نہ صرف ملکی سطح پر ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں بلکہ بہت سے بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسز میں بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے اپنے کسی بھی سفر کے دوران میں کسی گائیڈ کو ساتھ نہیں لیا۔فاطمہ  شاہ نے آدھی زندگی تو دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، مگر ایک روز وہ بصارت سے محروم ہوگئیں



!پیدائشی طور پر اندھے پن کا شکار افراد کے مقابلے میں تن درست انسان کا اچانک بینائی سے محروم ہوجانا اس کے لیے کرب ناک حقیقت ہوتا ہے، ڈاکٹر فاطمہ شاہ ایسی ہی نابینا خاتون تھیں جن کی معذوری کے بعد زندگی کسی معجزے سے کم نہیں۔ فاطمہ شاہ نے پاکستان میں ڈاکٹر کی حیثیت سے سول اسپتال میں‌ نوکری کا آغاز کیابعد میں جب وہ بینائی سے محروم ہوگئیں تو نابینا افراد کی مدد اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول رہیں۔ اس کے لیے وہ متعدد تنظیموں سے وابستہ ہوئیں، اور مختلف اداروں کی بنیاد رکھی۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان میں آزادی کے ابتدائی زمانہ ہی میں‌ ایک رضا کار کی حیثیت سے متحرک ہوگئی تھیں۔ 1947 کے بعد وہ مہاجر خواتین کی صحت اور آباد کاری کے سلسلے میں خدمات انجام دیتی رہیں فاطمہ شاہ کو سماجی خدمات پر ملکہ الزبتھ دوم کی تاج پوشی کے موقع پر ایم بی ای (برطانوی سلطنت کی رکن) کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ سول اسپتال، کراچی میں کافی عرصہ تک کام کرنے والی فاطمہ شاہ کی بینائی 1952 میں اچانک آنکھوں میں الرجی اور موتیا کے باعث متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ مکمل طور پر دونوں آنکھوں‌ کی روشنی سے محروم ہو گئیں۔


 ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے 1960 میں ملک میں پاکستان ایسویسی ایشن آف دی بلائنڈ ‘‘ قائم کی۔ اور 1984 تک اس کی سربراہ رہیں-وہ ’’ انٹرنیشنل فیڈریشن آف دی بلائنڈ، نیویارک، امریکا ‘‘ کی بانی رکن تھیں۔انھوں نے ڈس ایبلڈ پپلز فیڈریشن آف پاکستان ( Disabled People’s Federation of Pakistan ) کو منظم کیا۔ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انھیں ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی کی موقع حکومتِ برطانیہ سے پر ایم بی ای (Member of the British Empire) کا اعزاز ملا۔وہ ’ ’ ورلڈ بلائنڈ یونین ‘‘ کے علاوہ ’’فیڈرل کونسل نیشنل پارلیمنٹ ‘‘کی ممبر بھی رہیں۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے اپنی جدوجہد سے پاکستانی حکومت کا یہ قانون ختم کروا دیا جس کی وجہ سے باوجود صحت مندی، ذہانت اور قابلیت کے معذور لوگ کام نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے تعلیمی اداروں میں بریل طریقہِ تعلیم شروع کروایا۔اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی سفر کرنے والے بینائی سے محروم افراد کے کرایوں میں پچاس فیصد رعایت کی پابندی بھی کروائی۔ایک عالمی ادارے ورلڈ بلائنڈ یونین (World Blind Union )کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان کی پہلی رکن دستور ساز اسمبلی تھیں جو بصارت سے محروم تھیں

 

انہوں  نے 1960 میں پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ کی بنیاد بھی رکھی جو ایک قومی سطح‌ کی تحریک ثابت ہوئی جس میں فاطمہ شاہ نے 25 سال تک بحیثیت صدر خدمات انجام دیں۔ وہ پہلی خاتون بھی تھیں‌ جو انٹرنیشنل فیڈریشن آف بلائنڈ کی صدر رہیں ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی کوششوں سے پاکستان میں حکومت نے یہ قانون ختم کیا کہ ذہنی صحت، ذہانت اور قابلیت کے باوجود جسمانی معذور لوگوں کو نوکری نہیں دی جاسکتی۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے تعلیمی اداروں میں بریل طریقۂ تعلیم متعارف کروانے کی تجویز دی اور اس کا آغاز کروایا۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ پاکستان کی بصارت سے محروم پہلی رکن دستور ساز اسمبلی بھی تھیں۔ تحریکِ آزادی کی عظیم راہ نما بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ڈاکٹر فاطمہ شاہ کو ایک کورس کرنے کے لیے امریکہ بھیجا تھا جہاں‌ انھوں نے بصارت سے محروم افراد کی عالمی تنظیم کے ساتھ بھی کام کیا اور وہیں سے واپس آنے کے بعد ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے حکومت کو معذور افراد کی نوکری سے متعلق شق ختم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ۔88 سال کی عمر میں ڈاکٹر فاطمہ شاہ طویل علالت کے بعد 12 اکتوبر 2002ء کو کراچی میں وفات پاگئی تھیں۔ وہ ڈیفنس کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔


پیر، 20 جنوری، 2025

کراچی سے بچوں کے اغوا اور ان کے قتل کے ہولناک نتائج

 

 کراچی سے بچوں کے اغوا اور ان کے قتل کے ہولناک نتائج   کو سامنے رکھتے ہوئے میری گزارش ہے کہ  جہاں تک ممکن ہو اپنے جگر گوشوں کی خود حفاظت کا انتظام کیجئے - نارتھ  کراچی سے سات سالہ صارم سات جنوری کو مدرسے جانے کے بعد لاپتہ ہو گیا تھا۔ صارم کے والد محسن پرویز نے مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایا ’میرا بیٹا مدرسے سے چھٹی کے بعد واپس آتا تھا، لیکن اس دن وہ نہیں آیا۔ مسجد کی سیڑھیوں پر صارم کے دستانے ملے۔ مجھے یقین ہے کہ کسی نے اسے اغوا کر لیا ہے۔‘ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل انیل حیدر کے مطابق صارم کے والد کو پانچ لاکھ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی ہے۔ یہ کال سعودی عرب اور ملتان کے نمبروں سے کی گئی ہے۔ واقعہ کے وقت فلیٹس میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے  جائےوقوعہ  کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں مل سکی تاہم اطراف کی فوٹیجز سے تفتیش جاری ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو فوری کارروائی کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس بچوں کے والدین سے مسلسل رابطے میں رہے اور فوری طور پر بچوں کو بازیاب کر کے رپورٹ پیش کرے۔ پولیس نے بچوں کی بازیابی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔


کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں اغوا کے بعد قتل ہونے والے بچے صارم سے زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔ زیادتی کی تصدیق ابتدائی پوسٹ مارٹم میں ہوئی ہے۔پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ نے صارم سے زیادتی کی تصدیق کردی -انکا کہنا تھا کہ بچے کے جسم پر مختلف زخموں کے نشانات بھی موجود تھے، اب تک کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچے سے زیادتی ہوئی۔ایس ایس پی انیل حیدر کے مطابق صارم کی گردن کی ہڈی ٹوٹی پائی گئی، گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔ صارم کو پانچ روز قبل قتل کیا گیا تھا اور پھر لاش پھینکی گئی۔ صارم کے والد جعلی میسیج کو تاوان کا مطالبہ سمجھ بیٹھے: ایس پی انویسٹی گیشنانکا کہنا تھا کہ شک کی بنا پر بچے کے قریبی رشتے دار کوحراست میں لے لیا ہے، زیر حراست ملزم کا ڈی این اے بھی کروایا جارہا ہے۔واضح رہے کہ نارتھ کراچی سے لاپتہ ہونے والے 7 سالہ صارم کی لاش 18 جنوری کو پانی کی ٹینکی سے ملی تھی۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ کا کہنا تھا کہ 7 سے 8 سال کے بچے کی لاش عباسی شہید اسپتال لائی گئی، بچے کے جسم پر متعدد زخموں کے نشانات موجود ہیں

۔کراچی کے علاقے گارڈن سے اغوا کیے گئے دو بچوں کی تلاش کے دوران پولیس نے 19 مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان سے ٹھوس شواہد اکھٹے کیے گئے ہیں۔ڈان ڈاٹ کام کے مطابق چند روز قبل گارڈن ویسٹ سے 5 سالہ علیان عرف علی اور 6 سالہ علی رضا لاپتا ہوگئے تھے۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل ساؤتھ سید اسد رضا نے بتایا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلا ہے کہ انہیں موٹر سائیکل پر سوار ایک مرد اور خاتون اپنے ساتھ لے گئے تھے۔پولیس نے بچوں کے والدین کی مدعیت میں اغوا کا مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ اغوا ہونے والے بچوں کے پڑوسی محمد آصف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں بچوں کے والدین انتہائی غریب ہیں۔ ایک کے والد دیہاڑی دار مزدور ہیں جبکہ دوسرے کے والد چوکیداری کرتے ہیں۔بچوں کے والدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم نے ہر ممکن جگہ ڈھونڈا، لیکن بچوں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ کسی قسم کی دشمنی نہیں اور نہ ہی تاوان کے لیے کوئی کال موصول ہوئی ہے۔‘پولیس نے اغواکاروں کے روٹ کا تعین کرنے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مرد اور خاتون بچوں کو لے جا رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق بچوں کو گھر سے مسجد چوک کی طرف لے جایا گیا، جہاں سے ایک راستہ میوہ شاہ اور دوسرا گارڈن کی طرف جاتا ہے۔ اغواکار مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے بچوں کو چیل چوک میں اندرونی گلیوں کی طرف لے گئے

گارڈن پولیس نے علیان کی والدہ زینب یونس کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 364 اے (14 سال سے کم عمر بچے کا اغوا) اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ایکٹ 2018 کی دفعہ 3 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔بعد ازاں، ایس ایس پی عارف عزیز کی سربراہی میں دونوں لاپتا بچوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کیا گیا، اس آپریشن میں گارڈن، نبی بخش، کالاکوٹ، چاکیواڑہ، کلری اور دیگر تھانوں کے ایس ایچ اوز سمیت لیڈی کانسٹیبلز اور انٹیلی جنس اسٹاف نے حصہ لیا۔پولیس ترجمان کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران 19 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کردیا گیا جب کہ ملزمان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ایس ایس پی عارف عزیز کا کہنا تھا ’کچھ شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں جس سے پولیس کو بہت جلد بچوں کی بازیابی میں مدد ملنے کا امکان ہے۔دوسری جانب پولیس نے لاپتا بچوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کو 3 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے-خیال رہے کہ 2 روز قبل کراچی میں نارتھ کراچی کے علاقے میں 11 روز سے لاپتا 7 سالہ بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیرزمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔


پولیس کا کہنا ہے کہ 7 سالہ صارم 11 روز قبل پراسرار طور پر لاپتا ہوا تھا، پولیس اور اہلخانہ اس کی بازیابی کے لیے کوششیں کررہے تھے۔بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی اگست کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے کل 1630 کیسز رپورٹ ہوئے۔اس کے علاوہ سال 2024 کے ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 862، اغوا کے 668، گمشدگی کے 82 اور کم عمری کی شادیوں کے 18 کیسز رپورٹ ہوئے۔6 ماہ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے 962 متاثرین میں 59 فیصد لڑکیاں تھیں جب کہ 668 یعنی 41 فیصد لڑکے تھے۔

اتوار، 19 جنوری، 2025

رعشہ کی بیماری میں مچھلی اور کاڈ لیور آئل مددگار

  کیا کبھی آپ  کا سامنا کسی ایسے فرد سے  ضرور ہوا  ہو گا جس کے ہاتھ مستقل لرز ہو ں گےطبی سائنس کی   تحقیق کے مطابق  رعشہ کا مرض  انسانی جسم میں  اعصابی کمزوری  کے بعد پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے قویٰ مضمحل ہونے کے  سبب  ان میں کپکپاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دماغ کے اندر کمزور اعصاب کی وجہ سے بدنی حرکات و سکنات بھی متاثر ہونے لگتی ہیں۔ زیادہ تر انسان اس مرض میں پچاس سال کی عمر کے بعد مبتلا ہوتے ہیں لیکن اب تازہ ریسرچ سے یہ معلوم کیا گیا ہے کہ اس مرض میں نوجوان بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔ امریکی نژاد کینیڈین اداکار مائیکل فوکس کو رعشہ تیس سال کی عمر میں لاحق ہوگیا تھا۔رعشہ'یا  کوریا CHOREA  کیا رعشہ دنیا کی سب سے بڑی  نا اقابل علاج بیماری ہے  رعشہ کا معنی کانپنا ہے چونکہ اس مرض میں مریض کے ہاتھ اور بازو کے عضلات کانپتے ہیں اس لیے اسے رعشہ کہا جاتا ہے۔

 

 اختیاری عضلات میں بلا ارادہ حرکت ہونے لگتی ہے جن میں کوئی نظم نہیں ہوتا۔ سر اور ہاتھوں کا بلا وجہ کانپنا رعشہ کہلاتا ہے۔ یہ بیماری دماغ اعصاب پٹھوں کی کمزوری سے ہوتی ہے ۔جسم کے ایک جانب یا دونوں جانب کے اختیاری عضلات کی غیر منتظم حرکات ہوتی ہیں ہاتھ اورپاوں کے ساتھ چہرے کے عضلات میں پھڑ کن  بھی واقع ہوتی ہیں ا ۔ ابتدائی مرض میں جسم سر زبان اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں، بے اختیار اور بے قاعدہ حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ مریض ہاتھ میں کسی چیز کا پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لکھ نہیں سکتا گلاس پکڑنا اور پانی پینا مشکل ہو جاتا ہے۔ رعشہ پٹھوں کی کمزوری کی علامت ہے۔مریض چلنے پھرنے میں لڑکھڑاےاگر وہ کوئی چیز پکڑتا ہے تو ہاتھ کانپتا ہےشدید مرض میں چہرے کے عضلات پھڑکنے لگتے ہیں -بازو اور ٹانگیں خود بخود عجیب طرح سے حرکت کرتے ہیں-بولنا کھانا پینا دشوار ہوجاتا ہے-مریض اپنے ارادے سے کوی کام نہیں کرسکتا۔ ور سوتے یہ شکائتیں بستر پر جانے سے   وقتی طور پر دور  ہو جاتی ہیں -

 


عام مچھلی کی طرح کوڈ لیور آئل بھی اومیگا 3 سے ہوتا ہے تاہم اس میں اے اور ڈی کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید تصور تیل ہو جاتا ہے۔کا تیل عمری طور پر تیل والی مچھلیوں جیسے ٹونا، ہیرنگ اینکوویز اور میکریل سے نکالا جاتا ہے لیکن لیور آئل اٹلانٹک کوڈ کے جگر سے جانا جاتا ہے جو بحر اوقیانوس کے سرد اور گہرے پانی میں جانے والی پائی والی ایک خاص مچھلی۔وٹامن اے اور ڈی سے بھرپورکوڈ لیور کا تیل صدیوں سے جوڑوں کے درد اور بچوں میں ہڈیوں کی کمزوری یا رکٹس کے علاج کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ کوڈ لیور آئل نا قابل یقین حد تک غذائیت سے بھرپور ہے جو آپ کی روزانہ کی تقریباً تمام وٹامنز بالخصوص اے اور ڈی کی ضروریات پوری کرتا ہے۔وٹامن اے جسم میں کئی اہم امور سرانجام دیتا ہے، یہ آنکھوں، دماغی صحت اور جلد کے لیے انتہائی مفید ہے۔ اسی طرح وٹامن ڈی بھی جسم میں کیلشیم کی مقدار کو ریگولیٹ کرکے ہڈیوں کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

 

مچھلی انسانی صحت کے لیے بہت اہم غذا ہے لیکن اس قیمتی غذا کی ہمارے دماغوں کو بھی از حد ضرورت ہوتی ہے ۔ اس میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو کسی اورگوشت میں نہیں پائے جاتے۔  لیکن ہم جیست ترقی پذیر ملکوں میں اس قیمتی غذا کو روزانہ استعمال کرنا نا ممکن ہے لیکن ہم اس غزاء جنس کی کمی کو کاڈ لیور آئل سے مکمل کر سکتے ہیں -رمیوٹائیڈ آرتھرائٹس یا گٹھیا کی بیماری کا مجموعی طور پر جسم پر اثر پڑتا ہے اور یہ جوڑوں کے درد کا بھی باعث بنتی ہے ۔ اس کا فی الوقت کوئی علاج نہیں ہے لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کوڈ لیور رمیوٹائیڈ آرتھرائٹس کی جوڑوں کی اکڑن اور سوجن جیسی علامات کو دور کر سکتا ہے جوڑوں کے درد کو کم کرتا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ دراصل مچھلی کے تیل میں پایا جانے والا اومیگا 3 ایسڈ دماغ کے لئے بہت مفید ہے۔ اومیگا 3 دل کے فنکشن اوراس کی مضبوطی کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔


 آسٹریا ، آسٹریلیا اورسوئٹزرلینڈ کے طبی ماہرین کی ٹیم نے 81 ایسے افراد کو دو گروپس میں تقسیم کیا جن کے اندرنفسیاتی امراض پیدا ہونے کے خطرات پہلے ہی سے موجود تھے۔ ایک گروپ کو ایک عشاریہ دو گرام کے اومیگا 3 ایسڈ سے بنے کیپسولزبارہ ہفتوں تک کھلائے جبکہ دوسرے گروپ میں شامل افراد کو ایک خالی کیپسول اتنے ہی عرصے تک کھانے کو دیا گیا۔ دونوں گروپوں میں سے کسی کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ انہیں کس قسم کی ادویات دی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹر Paul Amminger اوران کی ٹیم نے ایک سال تک ان افراد کا بغورجائزہ لیا۔ مچھلی کے تیل سے بنی دوا استعمال کرنے والے گروپ میں سے محض دو افراد کے اندر ذہنی بیماریوں کے آثار پائے گئے جبکہ دوسرے گروپ کے گیارہ افراد میں دماغی عارضے جنم لے چکے تھے۔ اس تجربے کی روشنی میں طبی ماہرین نے یہ جائزہ پیش کیا کہ ایک سال تک مچھلی کے تیل کا استعمال کرنےوالے چار میں سے کم از کم ایک ایسے مریض کا علاج ممکن ہو سکتا ہے جس کا دماغی مرض کافی بڑھا ہوا ہو۔دنیا میں انسانوں کی اموات کا باعث سب سے زیادہ قلب کے شریانوں کی بیماری بنتی ہے۔ ماہرین کی متعدد تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مچھلی کا تیل قلب کے عارضوں کو کم کرنے میں نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ مچھلی کے تیل میں موجود چربیلے مادے اومیگا 3 ایسیڈ سے پیرگی کے امراض اور انسانوں کی بوسیدگی کی علامات بھی کم ظاہر ہوتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھنڈے پانی کی مچھلیاں، خاص طور سے ٹونا، سامن اور دیگر چکنی مچھلیوں میں اومیگا تھری ایسڈ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو دماغی اور دل کے امراض کے علاوہ انسانی جسم کے مختلف اعضاء کے لئے بہت فائدے مند ہے۔

 مضمون انٹرنیٹ  سے مدد لے کر تیار کیا گیا ہے

جمعہ، 17 جنوری، 2025

کراچی کے مین ہول- معصوم بچوں کے لئے موت کے کنوئیں

 


کراچی کےگٹر بچوں کے لئے موت کے کنوئیں - چند ہفتے پہلے کراچی کے  علاقے شاہ فیصل کالونی کے گٹر میں گر کر ننھا عباد جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، والدین کی آنکھوں کا تارہ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد پہلوان گوٹھ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔شاہ فیصل کالونی نمبر دو میں گزشتہ روز مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے والے 8 سالہ عباد کی موت کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی، یا یہ کیس بھی ہمیشہ کی طرح داخل دفتر ہوجائے گا۔کراچی: شاہ فیصل کے نالے میں گرنے والے بچے کی لاش، کورنگی پل کے بہتے نالے سے برآمد-عباد کے والد دبئی میں نوکری کرتے ہیں جو صبح 5 بجے کراچی پہنچے، گزشتہ روز عباد اپنی والدہ کے ساتھ رشتہ داروں کے ہاں عقیقے کی دعوت میں گیا تھا جہاں کھیلنے کے دوران وہ گٹر میں گر گیا، بچے کی لاش دو گھنٹوں کے بعد نالے سے ملی۔نماز جنازہ میں رشتہ داروں، اہل محلہ سمیت سیاسی شخصیات نے بھی بھاری دل اور نم آنکھوں کے ساتھ شرکت کی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے کہا کہ واقعہ کے ذمہ دار میئر کراچی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ فوری استعفیٰ دیں-میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ کراچی کی ہر گلی میں گٹر کے ڈھکنوں کی حفاظت کرنا ان کا کام نہیں ہے۔کے ایم سی میں گفتگو کرتے ہوئے میئر کراچی نے کہا کہ گٹر کے ڈھکن وہ یا ڈپٹی میئر سلمان مراد نہیں چراتے ہیں


کراچی: شاہ فیصل کے نالے میں گرنے والے بچے کی لاش، کورنگی پل کے بہتے نالے سے برآمدمیئر کراچی  نے کہا کہ شاہ فیصل کالونی میں بچے کی جان کے جانے پر بہت افسوس ہے، اس واقعے سے زیادہ افسوسناک اس پر سیاست کیا جانا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں 6 سالہ بچہ کھُلے گٹر میں گر گیا تھا، جس کی لاش کورنگی پل کے نیچے بہتے نالے سے ملی تھی۔ریسکیو حکام کے مطابق 2024 میں 19 بچے گٹر اور نالوں میں گر کر جاں بحق-کچھ اور دکھ بھری کہانیا ں’بیٹا ایک سال پہلے گٹر میں گِرا، آج تک اس کی لاش نہیں ملی‘ ایک دن بینش عاطف کے دونوں بیٹے اپنے معمول کی طرح کرکٹ کھیلنے عمارت سے نیچے گلی میں گئے۔ مگر اس بار 15 منٹ کے بعد ہی ان کا بڑا بیٹا دوڑتا ہوا آیا اور بولا ’امی! ابیہان گٹر میں گر گیا ہے۔‘کراچی کے علاقے گلشن اقبال 13 ڈی کی رہائشی بینش کے بڑے بیٹے نے بتایا کہ ابیہان ہاتھ ہلا کر مدد کے لیے پکار رہا تھا لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔2023 میں ان کے چھ سالہ بیٹے ابیہان ایک کُھلے گٹر میں گر گئے تھے۔ واقعے کو ایک سال گزر چکا ہے مگر اس کے باوجود بینش عاطف اور ان کے شوہر عاطف الدین کسی معجزے کے منتظر ہیں۔


بینش کہتی ہیں کہ ’ابھی تک لاش نہیں ملی۔ دل میں سکون ہی نہیں۔ بس بے چینی ہے، جیسے وہ واپس آئے گا۔‘کراچی میں ہر سال متعدد افراد گٹروں میں گِر کر ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق رواں سال کے چار ماہ کے دوران کم از کم 15 افراد گٹروں اور نالوں میں گِر کر ہلاک ہوئے جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد 60 سے زائد تھی۔ اکثر اموات کہ وجہ گٹروں پر ڈھکن نہ ہونا تھی۔اس دن کو یاد کرتے ہوئے ابیہان کے والد عاطف الدین بتاتے ہیں کہ کئی گھنٹوں کے بعد ریسکیو والے آئے لیکن ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ گٹر لائن کہاں جاتی ہے۔انھوں نے چند گھنٹوں کے بعد ریسکیو آپریشن بند کر دیا۔ جب انھوں نے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر علاقے میں احتجاج کیا تو آپریشن دوبارہ شروع ہوا اور سڑک کھودی گئی۔ لیکن ابیہان کا پتہ نہیں چل سکا۔عاطف اور بینش آج بھی اس تکلیف اور غم میں مبتلا ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ ان کا بچہ گٹر میں گرنے سے ’لاپتہ ہوا یا قتل؟‘میرے بچے کو ڈھونڈ کر دیں یا تو بتا دیں کس قبرستان میں جا کر ڈھونڈوں۔‘ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ قتل ہے تو اس کے ذمہ دار وہ ادارے ہیں جن کی غفلت کی وجہ سے گٹر کھلے رہتے ہیںمئی 2023 کو ابیہان کے گٹر میں گرنے کے بعد یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ جاری رہا۔



گلشن اقبال 13 ڈی سے 23 کلومیٹر دور واقع شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک دوسرے واقعے میں رواں سال مارچ کے دوران تین سالہ بچہ محسن گٹر میں گِر کر ہلاک ہوا۔رخسانہ لاشاری کے چار بچے تھے لیکن اب صرف تین بچے ہیں۔ وہ دوپہر کو دو بجے کے قریب سامان لینے نکلا تھا اور شام کو گٹر میں تیرتی ان کی لاش ملی تھی۔ملیر کی شاہ لطیف ٹاؤن کی رہائشی رخسانہ لاشاری بتاتی ہیں کہ ’محسن گھر میں کھیل رہا تھا اور کھیلتے کھیلتے اس نے چیز کے لیے دس روپے مانگے۔ وہ اس وقت گھریلو کام کاج میں مصروف تھیں۔ اسی دوران وہ گھر سے باہر نکل گیا۔‘’میں نے اس کی بہن کو کہا کہ دیکھو بھائی کہاں چلا گیا ہے۔ اس نے یہاں وہاں دیکھا جس کے بعد خود نکل کر دیکھا تو میرا بیٹا کسی بھی گلی میں نہیں تھا۔ اس کی پھوپھی بھی ڈھونڈ رہی تھیں۔‘اس دوران اس کی ’پھوپھی کا پیر پھسلا تو اس نے گٹر میں لال کپڑا دیکھا۔ اس نے مجھے کال کی کہ ’بھابھی مُنے نے کون سے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ میں نے بتایا کہ لال شرٹ اور بادامی پینٹ ہے۔‘انھیں گٹر میں ہاتھ چلانے پر محسن کی لاش ملی جسے فوراً وہاں سے نکلا گیا۔محسن جس گٹر میں گرے وہ گلی کے بالکل درمیان میں واقع تھا۔ اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے اس گٹر کو بند تو کر دیا مگر اسی گٹر سے صرف دس قدم دور ایک اور گٹر واقع ہے جو تین فٹ چوڑا اور دس فٹ گہرا تھا۔بچہ تو کیا، اگر کوئی بڑا شحص بھی اس میں گِر جائے تو اس کا وہاں سے نکلنا مشکل ہوگا۔ صرف اسی علاقے میں درجنوں گٹر موجود ہیں جن پر ڈھکنوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔رخسانہ لاشاری کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد بھی شاہ لطیف ٹاؤن میں گٹر ابھی تک بند نہیں ہوئے ہیں۔ ’حکام مہربانی کر کے انھیں بند کرائیں کیونکہ میرا بیٹے چلا گیا۔ اس کا دُکھ درد کیا ہے، وہ تو مجھے ہی پتہ ہے۔‘محسن کی والدہ رخسانہ لاشاری کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کی ہلاکت کے بعد بھی علاقے میں تاحال گٹر بند نہیں ہوئے ہیں


کراچی میونسپل کارپوریشن کے دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر لائٹ ہاؤس پر واقع مین ہول میں گِرنے والے شہری سمیر مندھرو نے اپنی زندگی کے تین ماہ بستر پر گزارے ہیں۔جب وہ ہمیں گٹر دکھانے پہنچے تو اس وقت بھی وہاں کوئی ڈھکن موجود نہیں تھا۔ سامنے موجود دکاندار نے بتایا کہ دو روز قبل ہی دو لوگ اس میں گِر گئے تھے۔ یہ اب سب کے لیے معمول کی بات ہے۔سمیر مندھرو بتاتے ہیں کہ وہ دس سالہ بیٹے کے ہمراہ سائیکل کی مرمت کرانے آئے تھے۔ ’انسان عام طور پر بھیڑ والی مارکیٹ میں چلتے ہوئے آگے پیچھے دیکھتا ہے۔ نیچے تو کوئی نہیں دیکھتا ہے۔ میں چلتے چلتے اچانک سے گٹر کے اندر چلا گیا جس میں کچرا، لکڑیاں موجود تھیں۔‘انھیں یاد ہے کہ لوگوں نے انھیں گٹر سے کھینچ کے باہر نکالا۔ ’فریکچر ہونے سے تو بچ گیا لیکن ہڈیوں پر رگڑیں آئیں۔ کندھا اتر گیا، ایک مہینے تو چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔‘

منگل، 14 جنوری، 2025

خطبہ مولائے کائنات -اشاعت مکرر

 


مولائے کائنات نے اپنے پیرو کاروں کے لئے نہج البلاغہ جیسی بلند مرتبہ کتاب تخلیق کی اس کتاب میں مولا نے اپنے خطبات کے زریعہ  انسان کی فلاح و بہبود کے اور اخلاقی کو سنوارنے  کے  نکات بیان کئے ہیں -اگر اس کتاب کو دنیا کے تمام مکاتب فکر کے لوگ  زیر مطالعہ لائیں تو بلا مبالغہ وہ جینے کا ایسا   انداز اختیار کر لیں جس  سے دنیا عش عش کر اُٹھے -یہاں میں اپنے مولا کا ایک خطبہ تحریر کر رہی ہوں -ہاں سنو! تمھارے زمانے میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اس وقت اپنے سیدھے  راستوں پر چلنے والوں کے پاؤں لڑکھڑا جائیں گے اور سیدھے راستے پر چلنے والے لوگ بہک جائیں گے جب اس فتنے کا حملہ ھو گا تو لوگوں کی خواہشوں میں ٹکڑاؤ ھو گا -لوگ خدا کے احکامات کی کھلم کھلا نافرمانیوں کے مرتکب ہو کر اس کے غیض کو آواز دینےلگیں گے- ان کی رائے میں اختلاف ھوگا جو سر اٹھا کر دیکھے گا اس فتنے کو اس کا سر توڑ دے گا جو اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا یہ اسے جڑ سے اکھاڑ دے گا لوگ ایک دوسرے کو اس طرح نوچیں گے جیسے    گدھ ایک دوسرے کو نوچتے ھیں

 دین کی بٹی ھوئی رسی کے بل کھل جائیں گے زمین   میں اندھیرا چھا جائے گاعلم عقل چپ سادھ لیں گے اور ظالموں کی زبانیں کھل جائیں گی یہ فتنہ بیابانوں میں رھنے والوں کو ہتھوڑوں سے کوٹے گا اور اپنے سینے سے دبا کر انھیں ریزہ ریزہ کر دے گا اس سے اٹھنے والی دھول میں اکیلے دو مسافر برباد ھو جائیں گے اور راستوں میں چلنے والے قافلے راہ میں ہی مارے جائیں گے مقدر میں کڑواہٹ بھر جائے گی دودھ کے بدلے تازہ خون دوہا جائے گا دین کے معیار گر جائیں گے یقین کے دھاگے ٹوٹ جائیں گے عقل مند اس سے دور بھاگیں گے اور شر پسند اس کے برابر شریک ھونگے یہ فتنے گرج چمک کے ساتھ آئں گے اور اسقدر سخت اور تیز ھو ں گے کہ تمام رشتے ٹوٹ جائیں گے اور دین کا دامن چھوٹ جائے گا اس سے الگ تھلگ رھنے والا بھی اس میں الجھ جائے گا اور بھاگنے والا اپنے قدم باہر نا نکال سکے گا

 ،بہت سے لوگ قتل ھو جائیں گے   اور کچھ اتنے ڈرے ھوئے ھوں گے کہ پناہ ڈھونڈتے پھریں گے انھیں ایمان کے نام پر قسم دے دے کر دھوکہ دیا جائے گا تم نئی نئی رسموں کے بانی نا بننا اس راستہ پر قدم جمائے رکھنا جس پر ایمان والوں کی جماعت چل رھی ھوگی اور جس پر اللہ کا حکم اور ماننے والوں کا عمل اور کردار قائم ھو گا-دیکھو اللہ کے پاس منصف  بن کر جانا ظالم بن کر نا جانا شیطان کے ٹھکانوں سے بچنا اپنے پیٹ میں حرام لقمے نہیں ڈالنا کیوں کہ تم اس کی نگاہوں کے سامنے ھو جس نے خطا کو تمھارے لئے  منع کیا ھے اور فرمانبرداری کی راھیں آسان کر دی ھیں آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جا سکتے ھے کہ مولا علی کا فرمان حرف با حرف درست ھے ، یہی فرمان وصی رسول اللہ کا1400 سال پہلے کا ھےسامنا کرنا پڑا اور باعث حیرت ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ فتنے اور فتنہ پرور کوئی غیر مسلم نہیں تبلکہ مسلمان ہیں اور اسوقت کے مسلمان تھے جنہوں نے اللہ کے حبیب رحمت عالمین کو دیکھا بھی تھا انکی محفلوں میں بھی رہے تھے اور انکی زبان مبارک سے علی کے بارے میں فرمودات سنے بھی تھے۔ یہ آج کے فتنہ پرور اور فتنہ پروری بھی اسی کا تسلسل ہے۔۔۔۔۔ یہ بات اللہ کے رسول کے بعد فقط باب العلم ہی کہہ سکتے ہیں کہ ۔ سوچو کے لوگ اندھیروں میں بھٹک رھے ھیں تھے جہالت حد سے گزر چکی تھی اور مزاج میں سختی آگئی تھی لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال اور سمجھ دار کر زلیل سمجھنے لگے تھے

یہ فتنے شروع شروع میں خفیہ راستوں سےآتے ھیں جیسے چھوٹے بچوں کی اٹھان ھوتی ھے لیکن پھر اپنے آثار پتھر پر بننے والے نشان کی طرح چھوڑ جاتے ھیں دنیا کے ظالم گٹھ جوڑ کر کے ان کے وارث ھو جاتے ھیں ان میں جو پہلا ھوتا ھے وہی آخری والے کا رہنما ھوتا ھے اور ان میں جو آخر ھوتا ھے وہ پہلے والے کے راستے پر ہی چلتا ھے یہ لوگ گھٹیا دنیا پر جان دیتے ھیں اور گلے سڑے جانور پر ٹوٹ پڑتے ھیں   -یہ بہت جلد  آپس میں دشمن بن کر ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور آمنا سامنا ھو گا تو ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ جو لوگوں کے سکھ چین کو مٹا دے گا ہر طرف تباہی مچا دے گا اور اللہ کے بندوں پر سختی کے ساتھ حملہ آور ھو گا -


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کا تاریخی سیٹھی ہاؤس معماروں کے زوق تعمیر کا اظہار

   پشاور کا تاریخی محلہ سیٹھیاں اور سیٹھی ہاؤس جسے دیکھ کر اس کے معماروں کا زوق تعمیر عروج پر نظر آتا ہے - اس بے نظیر محلے کی آباد کاری  اس ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر