پیر، 6 جنوری، 2025

بندر گاہ کیٹی بندر کے مکین کہاں جائیں ؟

  

کیٹی بندر ماضی میں درآمد و برآمد کا مرکز رہا ہے-کیٹی بندر سے کراچی اور گجرات تک اناج جاتا تھا-اب یہاں بیوپار کا کوئی جہاز نہیں آتا، بس مچھلیوں کے پکڑنے کی کشتیاں ہیں جن پر بادبانوں کی جگہ رنگین جھنڈے لہراتے ہیں اور شور کرتے انجن ہیں جو دریا کے پانی پر چنگھاڑتے پھرتے ہیں۔ اگر آپ ان میں کبھی بیٹھے ہیں تو آپ کو ضرور اندازہ ہوگا کہ آپ وہاں آپس میں بات نہیں کرسکتے۔ البتہ چیخ و پکار کے بعد بھی جو بات کریں گے وہ آدھی ادھوری ہی سمجھ میں آئے گی۔ایمرجنسی سینٹر کی چھت پر میرے ساتھ اس علاقے ’جھالُو‘ کے مشہور زمیندار محترم عثمان شاہ صاحب بھی کھڑے ہیں۔ 65 سال کی حیات میں انہوں نے ڈیلٹا کے اس مشہور مرکزی علاقے کے بہت سارے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہیں ابھی تک کیکر کے گھنے جنگل یاد ہیں۔ ان کیکر کے درختوں پر سردی کے دنوں میں پیلے پھول لگتے اور ہلکے پیلے سونے کے رنگ جیسا ان کیکروں میں سے گوند نکلتا جس کو طاقت کے لیے مختلف طریقوں سے پکا کر کھایا جاتا۔ ان درختوں پر لگی پھلیاں دودھ دینے والے جانوروں کے لیے ایک طاقتور خوراک ہوتی تھی۔ ان جنگلوں میں دن کو تیتر بولتے اور صبح کو سورج اگنے کے ساتھ فاختائیں بیٹھ کر اپنی مخصوص آواز میں بولتیں اور جب تیز ہواؤں کے دن آتے تو درختوں سے گزرتی ہوئی ہوا سیٹیاں بجانے لگتی۔کیکر کا وہ گھنا جنگل وہاں تھا، میلوں میں پھیلا ہوا‘، عثمان شاہ نے شمال مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ ’اس چھت سے وہ فاصلہ کوئی 2 میل سے زیادہ نہیں تھا۔ اس جنگل کے قریب سے کبھی ’اوچتو دریا‘ بہہ کر کیٹی بندر کے قریب سمندر کی کھاڑی میں گرتا تھا مگر اب وہاں کچھ تمر کی جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور زمین کی سطح پر نمک کی سفید تہہ جمتی ہے


کیٹی بندر شاہ بندر کے زمین میں دھنس جانے اور دریائے سندھ کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے تعمیر کیا گیا تھا، ’سندھ کے بندر اور بازار‘ کے مصنف دادا سندھی لکھتے ہیں کہ شاہ بندر کی تعمیر حیدرآباد شہر کے بانی میاں غلام شاہ کلہوڑو نے 1659 میں کی تھی اس سے قبل ارونگ بندر کے ذریعے تجارت ہوتی تھی جس کی تعمیر اورنگزیب عالمگیر نے کرائی تھی، شاہ بندر کی تعمیر کے بعد ارونگ بندرگاہ کی اہمیت ختم ہوگئی اور لوگ نقل مکانی کرکے شاہ بندر آگئے جہاں قلعہ بھی تعمیر کرایا جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔شاہ بندر 1819 میں اجڑنا شروع ہوا تھا جس کے بعد کیٹی بندر قائم کیا گیا تھا، جہاں سے بمبئی، مدراس، خلیج فارس اور سون میانی و مکران سے تجارت ہوتی تھی، نائو مل اپنی یادداشتوں کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس بندر سے کچھ بہج اور کاٹھیاواڑ سے یہ عمارتی لکڑی اور بھاری اشیا کی تجارت ہوتی تھیی۔


 کیٹی بندر تو دھان کی وجہ سے مشہور تھا مگر ہمارا گاؤں جھالو جو کیٹی بندر  میں آج سے 15 برس پہلے کیلے، خربوزے اور کھیرے کی اتنی شاندار فصل ہوتی تھی کہ، ہماری زمین سے ان اشیا سے لدے 11 ٹرک روز نکلتے تھے۔ کراچی، ملتان، فیصل آباد، لاہور اور پشاور تک ہماری فصلوں کی مارکیٹ ہوتی تھی، بلکہ یہاں تک کہ بیوپاری جھالو کے کھیرے اور خربوزے کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔ان دنوں ہماری 200 ایکڑ زمین آباد ہوتی تھی مگر اب نہروں میں میٹھے پانی کی بہت کمی ہے، ، جس کی وجہ سے سیم و تھور کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہوگیا ہے۔ جہاں پہلے 200 ایکڑ پر فصلیں ہوتی تھیں اب 20 ایکڑ بھی مشکل سے کر پاتے ہیں۔ اب یہاں نہ کیلا ہوتا ہے، نہ خربوزے اور نہ کھیرے۔ بس دھان ہوتی ہے جس کے لیے بھی کھاد اور اسپرے پر اتنی رقم لگ جاتے ہے کہ نام کا ہی منافع کما پاتے ہیں۔ پھر جس زمین میں 2 برس دھان لگاتے ہیں تو ان 2 برسوں میں میٹھا پانی سمندری پانی کو نیچے دھکیل دیتا ہے یوں تیسرے برس پھر کپاس یا سورج مکھی لگاتے ہیں تو دو پیسے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ اس ڈیلٹائی بیلٹ کا ہر کاشتکار اور عام آدمی اجڑتی زمینوں کے ساتھ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے سخت پریشان ہے-اگر کاشتکار کو میٹھا پانی اتنا ملے جتنی ہماری زمینیں ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور جو زمینیں ہیں ہم ان کو بچا لیں گے۔ کیونکہ میٹھے پانی کی نہروں میں پانی کی موجودگی اور فصلوں کے لیے پھرپور پانی ہونا اس حقیقت کو یقینی بناتا ہے کہ سمندر کا پانی میٹھے پانی کی وجہ سے اوپر نہیں آئے۔دوسرا یہ کہ دریا میں جو پانی ہر برس چھوڑنے کو کہا گیا ہے وہ آنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا رہے تو مجھے نہیں لگتا کہ سمندر کی بربادی اتنی تیزی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ مگر آب پاشی نظام میں رشوت خوری اپنے عروج پر ہے۔ یہاں سب برباد کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔


 یہاں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں سے بھی میں ملا ہوں، یہاں کیلے اور کھیروں کی شاندار فصلوں کو بھی میں نے دیکھا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو 15 یا 18 برس اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔ مگر ان برسوں میں، میں نے جو سمندر کی بربادی دیکھی ہے وہ ان لوگوں نے بھی ضرور دیکھی ہوگی جو مسلسل یہاں آتے رہے ہیں۔ میٹھے پانی کے لیے اتنی چیخ و پکار کے بعد بھی یہاں کچھ بہتری نہیں آئی۔انڈس ڈیلٹا فقط سمندر کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں آب گاہیں، قدرتی جنگل اور زراعت بھی شامل ہے۔ 1980ء تک ریوینیو ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 12 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کے نذر ہوگئی تھی اور اب 2020ء تک ڈیلٹا کی 41 لاکھ ایکڑ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا۔ ساتھ میں لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے سندھ کا ڈیلٹا شاید دنیا کی جہازرانی والی بندرگاہوں میں سب سے بڑا دفن ہونے والا ڈیلٹا ہے۔ یہ ڈیلٹا سندھ کی تہذیب کی ابتدا سے گزشتہ صدی کے آخر تک وادئ سندھ اور دور دراز ملکوں مصر، عرب، سمیر، ایران، مشرقی افریقا، مہاراشٹر، سری لنکا اور چین کے باہمی بیوپار کا مرکز رہا ہے۔  دریا کا میٹھا پانی اُس دھرتی سے کبھی بیوفائی نہیں کرتا جس پر سے وہ گاتا گنگناتا، زمین کو مالا مال اور خوشحالی کے پھول بانٹتا بہتا سمندر کی گود میں تو سما جاتا ہے۔جہاں جہاں سے سمندر سے ملتا ہے وہاں اپنے ساتھ لائی ہوئی مٹی اور ریت سے زمین بُننا شروع کردیتا ہے بالکل ایسے جیسے ننھی منی چڑیائیں گھاس کے تنکوں سے گھونسلے بُنتی ہیں


۔ دریا اور سمندر مل کر جو زمین بناتے ہیں اُس زمین کو ’ڈیلٹائی زمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔انڈس ڈیلٹا کی موجودہ زمینی پٹی جو 16,000 مربع میل یعنی 41,440 مربع کلومیٹرز کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، اس پٹی کی زمین سمندر کے ساتھ 130 میل یعنی 210 کلومیٹرز تک ساتھ چلتی ہے۔دریائے سندھ 3000 کلومیٹر کا سفر کرتا یہاں جنوبی سندھ تک آتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اب برائے نام پانی آتا ہے اس شہنشاہ دریا میں وہ زمانہ کب کا گزر گیا جب 350 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا تھا اور سمندر سے مل کر ڈیلٹا کی اس زرخیز زمین کی تخلیق کرتا۔ ساتھ میں جنم دیا اُس کلچر کو جو اپنی الگ، خوبصورت اور حیاتیاتی تنوع سے بھرپور پہچان رکھتا ہے۔آپ کوہستان، کاچھو یا تھر جائیں، وہاں کے لوگ اس ڈیلٹائی پٹی کو 'سندھ' کے نام سے جانتے ہیں۔ خشک سالی میں جب تھر سے یہاں کی طرف نقل مکانی زیادہ ہوتی ہے۔ ان دنوں میں آپ اگر تھر جائیں اور اُن کے خالی گھروں کو دیکھ کر مقامی لوگوں سے پوچھیں کہ، ’یہ لوگ کہاں گئے ہیں؟‘ تو فوری جواب ملے گا ’سندھ‘  ۔ان کے سامنے سندھ کی زمین وہ ہے جسے دریائے سندھ کی مٹی اور ریت نے بنایا ہے۔ جہاں کا منظر نامہ اور ساری سندھ سے مختلف ہے کہ یہاں جھیلوں کی بہتات ہے اور کیوں نہ ہو آخر دریائے سندھ کا ہزاروں کلومیٹرز کا سفر یہاں اس ساحلی پٹی پر آکر جو ختم ہوتا۔


 


میں نے یہ مضمون جناب ابوبکر شیخ کے مضامین سے تیار کیا ہے

اتوار، 5 جنوری، 2025

آنکھیں خالق کائنات کی بہت بڑی نعمت ہیں

 

یوں تو انسان کے لئے حواس خمسہ  خالق کائنات کی بہت بڑی نعمت ہیں لیکن ان تمام اعضا میں آنکھوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، بلاشبہ  اگر انسان بینائی سے محروم ہو جائے تو زندگی  ہی بے معنی لگنے لگتی ہے-آس مضمون میں آپ کو ایک ایسے باہمت بچے کی  علمی کاوش پڑھنے کو ملے گی جو اپنے بچپن میں اپنی بینائ کی نعمت سے محروم ہو گیا تھا - یہ 1812 کی بات ہے۔ ایک دن فرانس کے شہر پیرس کے قریب کوپورے میں ننھا لوئس بریل ورکشاپ میں کھیل رہاتھا جہاں اس کے والد نے ’زِین‘ بناتے تھے۔ (زِین یعنی چمڑے کی وہ بیلٹ جس سے گھوڑے یا کسی بھی اور جانور کو قابو میں رکھنے کے لیے اُس کے چہرے کو بندھا جاتا تھا)۔تین سال کی عمر میں اس کے لیے چمڑے کے کام کے لیے استعمال ہونے والے اوزاروں کی طرف راغب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کیونکہ وہ یہ سب دیکھتارہتا تھا کہ اسکے والد کیسے اس کی مدد سے زِین بناتے تھے۔ بس ایک دن اس نے اپنے والد کی نقل کرتے ہوئے ورکشاپ میں سے چمڑے میں سوراخ کرنے والا ایک انتہائی تیز دھار اوزار اْٹھایا اور اْس سے کھیلا شروع کر دیا۔شاید یہ پہلی بار نہیں تھا جب وہ ایسا کر رہاتھالوئس بریل ابھی اس سب میں مشغول ہی تھا کہ اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ جس نے اس کی زندگی بدل دی۔جیسے لوئس نے اس تیز دھار اوزار سے چمڑے میں سوراخ کرنے کی کوشش کی، اس کے ہاتھ سے وہ اوزار پھسل گیا اور اس نے آنکھ پر گہری ضرب لگائی۔آنکھ متاثر ہوئی اور انفیکشن نے نہ صرف زخمی ہونے والی آنکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ انفیکشن دوسری آنکھ تک پھیل گیا۔لوئس پانچ سال کا ہواتو وہ مکمل طور پر نابینا ہو چکاتھا


اگرچہ مقامی سکول میں نابینا افراد کے لیے کوئی خاص پروگرام موجود نہیں تھا لیکن اس کے والدین کی یہ کوشش تھی کہ وہ تعلیم سے محروم نہ ہواور اسے پڑھنے کا موقع ملنا چاہیے، لہٰذا انھوں نے اسے مقامی تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا۔ اب بریل 7 سال کاہو چکا تھا اور اس نے باقاعدہ طور پر کلاسز لینا شروع کر دیں تھیں۔اگرچہ اس کا تعلیم حاصل کرنے کا انداز مختلف تھا یعنی وہ بس سن کر تعلیم حاصل کر رہاتھا، لیکن وہ ایک ہونہار شاگرد ثابت ہوا۔ تاہم جو مشکل اس کی راہ میں حائل رہی وہ یہ تھی کہ وہ پڑھنے یا لکھنے کے قابل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے اسے نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔آخر کاراس کی یہ تمام مشکلات تب ختم ہوئیں کہ جب اسے فرانس کے رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ (آر آئی جے سی) میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ مل گئی۔بریل 10 سال کاتھا جب وہ پیرس اور آر آئی جے سی پہنچا۔اس وقت، اس ادارے میں بھی پڑھنے کا جو نظام استعمال کیا جاتا تھا وہ بہت بنیادی تھا، ان چند کتابوں کو ابھرے ہوئے حروف کے ساتھ چھاپا گیا تھا، ایک ایسا نظام جسے سکول کے بانی ویلنٹین ہائے نے ایجاد کیا تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ طالب علموں کو ہر حرف میں آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں چلانی پڑتی تھیں تاکہ الفاظ کی بناوٹ کو وہ سمجھ سکیں مگر ایک جملہ بنانے میں اور لفظ کی بناوٹ سمجھنے میں اْنھیں خاصی مْشکل ہوتی تھی۔


1821 میں فرانسیسی فوج کے ایک کیپٹن چارلس باربیئر انسٹی ٹیوٹ میں ایک چھونے والے ریڈنگ سسٹم کو شیئر کرنے کے لیے آئے تاکہ فوجی اندھیرے میں میدان جنگ میں فلیش لائٹس آن کر کے دشمن کو خبردار کیے بغیر پیغامات پڑھ سکیں۔لوئس کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ ان کی ’’نائٹ رائٹنگ‘‘، شاید بینائی سے محروم ان افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ایمبوسڈ خطوط استعمال کرنے کے بجائے، ابھرے ہوئے حروف والی تحریر، نقطوں اور دھبوں کا استعمال کیا گیا تھا۔طالب علموں نے تجربات کیے لیکن جلد ہی جوش و خروش کھو دیا کیونکہ اس نظام میں نہ صرف سرمایہ کاری اور نہ ہی نشانات شامل تھے، بلکہ الفاظ معیاری فرانسیسی ہجے کے بجائے اس طرح لکھے گئے تھے جیسے وہ بولے گئے تھے۔تاہم لوئس بریل نے اصرار کیا۔اس نے کوڈ کو ایک بنیاد کے طور پر لیا اور اسے بہتر بنایا۔تین سال بعد جب وہ 15 سال کاتھا تو اس نے اپنا نیا نظام مکمل کر لیا تھا۔اس کی تحریر کے نظام کا پہلا شمارہ 1829 میں شائع ہوا۔اس میں حروف کے ساتھ نقطوں کے ساتھ اشارے دیے گئے تھے۔بریل نے بابیئر کے نظام کو آسان بنایا تھا اور ابھرے ہوئے نقطوں کو کم کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ اس مناسب سائز کے ہوں تاکہ آپ انھیں اپنی انگلی کے پور سے ایک ہی بار میں چھو کر محسوس کر سکیں۔


اس نے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطے بنانے کے لیے اسی ستالی (سوراخ کرنے کے لیے نوکدار اوزار) کا استعمال کیا جس سے اس کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ لکیریں سیدھی اور درست ہیں اس نے ایک ہموار گرڈ کا استعمال کیا۔جیسا کہ لوئس بریل کو موسیقی پسند تھی لہٰذا اس نے موسیقی کے نوٹس لکھنے کے لیے بھی ایک طریقہ متعارف کروایاوقت گزرتا گیا۔طب کی دنیا بریل کی ایجاد کو اپنانے میں بہت قدامت پسند اور سست تھی۔ یہاں تک کہ اس کی موت کے دو سال بعد بینائی سے محروم افراد کو اس طریقہ کار کے ذریعے پڑھایا جانے لگا۔ اور اس کا آغاز بھی اسے ادارے میں ہوا جہاں سے اس نے تعلیم حاصل کی تھی۔وہ 43 برس کی عمر میں تپ دق کے باعث اس دنیا سے رخصت ہو اتھا۔


یہ حقیقت ہے کہ خدا کی طرف سے سب سے قیمتی تحفہ اس رنگین اور خوبصورت دنیا کو دیکھنے کی صلاحیت ہے! افسوس کی بات ہے کہ ہر کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم 1829 میں لوئس بریل نے بریل ایجاد کر کے اپنے نابینا معاشرے کو ایک عظیم تحفہ دیا۔ ہر سال 4 جنوری کو بریل کا عالمی دن اپنے موجد لوئس بریل کی پیدائش کی یاد میں منایا جاتا ہے(جو گزشتہ روز منایا گیا)۔ لوئس نے اپنی زندگی میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اس رسم الخط کو نابینا افراد کی زبان کے طور پر منظوری دی جائے لیکن اس وقت اسے منظوری نہ دی گئی۔یہ لوئس کی بدقسمتی رہی کہ اس کی کوششوں کو کامیابی نہیں مل سکی اور معاصر ماہرین تعلیم نے اسے زبان کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔لوئس کی موت کے بعد 2 برس ماہرین تعلیم نے اسے اس وقت سنجیدگی سے دیکھنا شروع کیا جب اس کی مقبولیت نابینا افراد کے درمیان میں مسلسل بڑھتی رہی، یہ دیکھ کر اسے منظوری دینے پر غور و فکر ہونے لگا۔ 1854 میں اسے صرف پیرس تک مقبولیت حاصل ہوئی پھر آہستہ آہستہ 1965 تک اسے دنیا کے دیگر ممالک میں کافی غور و فکر اور تبدیلیکےبعد اسے تسلیم کر لیا گیا -یہ طریقہ ء تعلیم نابینا افراد کے لئے  علمی کائنات کا درجہ رکھتا ہے

 یہ مضمون   میں نے انٹرنیٹ سے لے کر  یہاں  کاپی پیسٹ کیا ہے

ہفتہ، 4 جنوری، 2025

ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ -قابل فخر مادر علمی

 

        


صوبے بلوچستان میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے  ہزارہ قبیلے کو تاریخ میں ایک خاص حیثیت حاصل رہی ہے جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ چنگیز خان کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔مورخین کہتے ہیں کہ  اس قبیلے  کا جنم مشرق وسطیٰ  سےہوا ہے جبکہ اس کی  جڑیں چین، افغانستان، پاکستان اور  ایران  سمیت یورپ کے دھانے پر  واقع ترکی تک پھیلی ہوئی ہیں۔  ہزارہ قبیلے میں اثنا عشری، اسماعیلی اور محدود تعداد میں اہل سنت مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی بھی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ منگول نسل سے نکلا ہے یعنی ہزارہ چنگیز خان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔’ جب چنگیز خان کے پوتے نے اسلام قبول کیا اور یہیں سے ہزارہ قوم کی ابتداء ہوئ ‘بتایا جاتا ہے کہ یکم رجب 660ھ کو چنگیزخان کے پوتے برقائی خان نے اپنے  زمانے  کے ایک شیعہ عالم دین کے ہاتھوں  مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کرتے ہوئے  مصر کے  سلطان رکن الدین بیبرس کو  ایک خط کے زریعے اپنے اور اپنے قبیلے کے مسلمان ہونے کی  اطلاع دی تھی 

 

اور آج یہ قوم  پوری دنیا میں اپنی  قابلیت کے جھنڈے گاڑ رہی ہے -اور اب ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے درمیان نصابی ،سائنسی، تکنیکی اور ثقافتی تعاون کو بڑھانے کے لئے معاہدہ طے پا گیا ۔ معاہدے پر وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے دستخط کیے۔تین سالہ معاہدے کے تحت دونوں ادارے فیکلٹی ممبرا ن اور ریسرچ سکالرز سمیت ،سائنسی مقالہ جات اور نصابی موادکے تبادلے اور مشترکہ تحقیقی مقالہ جات کی اشاعت کر سکیں گے جبکہ جوائنٹ ریسرچ پراجیکٹس اور مختلف تعلیمی شعبہ جات میں طلباء کی رہنمائی کے لئے دوطرفہ کوششوں کو فروغ دیا جائے گا۔مذکورہ معاہدے کے تحت دونوں ادارے باہمی تعاون کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف تعلیمی شعبوں کے طلباء کے نصاب اورکورسزمیں بہتری اور جدت لانے کے حوالے سے اقدامات کریں گے جبکہ آن لائن کتب کی فراہمی ، سیمینارز،اور کانفرنسز کے انعقاد سمیت نصابی مواد تک رسائی بھی معاہدے کا حصہ ہیں ۔


 اس موقع پر وائس  چانسلر ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد نے کہا کہ ہزارہ یونیورسٹی اپنے جغرافیائی محل وقوع ، پرفضا اور پر امن تعلیمی ماحول کی بدولت ملکی جامعات میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے جبکہ تاریخی شاہرا ہ قراقرم اور سی پیک کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ہزارہ یونیورسٹی بین الاقوامی اہمیت حاصل کر چکی ہے ۔وائس چانسلر نے کہا کہ ہزارہ یونیورسٹی اس وقت ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کئے گئے کئی معاہدوں پہ عمل پیرا جس سے یونیورسٹی میں پہلے سے جاری تعلیمی سرگرمیوں میں مزید وسعت آئی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد نے کہا کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ساتھ ہونے والے آج کے معاہدے سے ہزارہ یونیورسٹی ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے جس میں تحقیق اور تخلیق کی نئی راہیں کھلیں گی اور دونوں اداروں کے طلبا اورمحققین ایک دوسرے کے تجربات اور علمی بصیرت سے بھرپور استفادہ کریں گے۔


 اس موقع پر وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام اباد پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم نے کہا کہ دنیا بھر میں تعلیم کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے جس سے اس شعبے میں بہت تیزی آئی ہے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے اداروں کو سائنٹفک بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے دیگر اقوام سے قدم ملائیں تاکہ عصری تقاضوں کو پورا کیا جا سکے ۔انھوں نے کہا کہ ہمیں کورونا وباء کے دوران درپیش چیلنجز کو موقع جان کر فاصلاتی نظام تعلیم کے فروغ اور اسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں تک پہنچانے کے لئے اپنی توانیائیاں صرف کرنی چاہیئں اور اس مقصد کے حصول کے لئے مختلف تعلیمی اداروں کو ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے بھرپور کوششیں کرنا ہونگی ۔ اس موقع پر ہزارہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ORICپروفیسر ڈاکٹر محسن نواز، منیجر ر یونیورسٹیز لینکجز زبیر عالم خان، رجسٹرار علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی رانا سہیل ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ORICڈاکٹر لطیف گوندل،ایڈیشنل ڈائریکٹر ORICڈاکٹر صائمہ ناصر اور مینجر آپریشن محمد مشتاق بھی موجود تھے۔-


ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے ہونہار سٹوڈنٹ عمر صدیق Fully Funded Italian Scholarshipsحاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ کے طالب علم عمر صدیق جنہوں نے سال 2023ء میں مذکورہ شعبے سے بی ایس کی ڈگری حاصل کی، اب مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے اٹلی کی University of Naples Federico IIروانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ  فوڈ بائیو ٹیکنالوجی میں دو سالہ ماسٹرز ڈگری مکمل کریں گے۔عمر صدیق نے اطالوی حکومت کی Regional Scholarshipاور  Merit Scholarshipحاصل کی ہیں ہے جس کے تحت انہیں تعلیم مکمل کرنے کے لئے مجموعی طور پر  19000یورو سالانہ دیئے جائیں گے۔عمر صدیق ہزارہ یونیورسٹی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی یکساں متحرک تھے اور بلڈ ڈونیشن ، تھیلیسیمیا کے بارے میں عوامی آگاہی سمیت دیگر سماجی خدمات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔مانسہرہ کے دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں دانئی بٹل سے تعلق رکھنے والے عمر صدیق بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے لیکن اعلیٰ تعلیم کے حصول کا شوق اور کچھ کر گذرنے کے جذبے سے انہیں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ عمر صدیق کا یورپ میں ماسٹرز پروگرام اور بین الاقوامی سکالر شپس حاصل کرنا نوجوان طلباء کے لئے مشعل راہ ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی سخت کیوں نا ہوں، محنت، لگن اور جستجو سے ہر چیلنج پر قابو پاکر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

 

جمعہ، 3 جنوری، 2025

بقراط اپنے زمانے کا زہین ترین حکیم

 

بقراط   نے فلسفہ طب کی وجہ سے شہرت پائی۔ مورخین اسے  طب کا سائنسدان بھی کہتے ہیں ۔یہ 460 قبل مسیح یونان کے شہر کوس میں پیدا ہوا۔اس نے علم حاصل کرنے میں سولہ برس صرف کئے جبکہ باقی عمر اس نے تحریر و تصنیف میں گزار دی ۔ طب کی باقاعدہ ترویج وترقی کا سہرا بقراط کے سر جاتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا تاریخی کارنامہ زمانہ قدیم سے مروجہ روایتی طریقے سے علاج کی جگہ سائنسی بنیادوں پر علاج کو رواج دینا ہے اور شاید اسی وجہ سے اسے ''بابائے طب‘‘کا لقب بھی دیا گیا ہے ۔طب میں بقراط کی گراں قدر خدمات اور ان مٹ بنیاد کے سبب بعد میں آنے والے جالینوس تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ہیپوکریٹس 460 ق م میں جزیرہ کوس میں پیدا ہوا۔ عرب اسی ہیپو کریٹس کو بقراط کہتے ہیں۔ 


تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیپوکریٹس نامی طبیب اور سرجن نے اپنے علم و تجربہ کے حوالے سے شہرت دوام حاصل کی۔ بقراط کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس کی موت کے صدیوں بعد متعدد سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی انسان اور حکیم تھا۔ اس پر لکھا بھی گیا۔ افسس کاسورانوس نے دوسری صدی عیسوی میں یونان کے زیرانتظام افسس شہر میں ماہرامراض مخصوصہ (گائناکالوجسٹ) کے طور پر شہرت پائی۔ یہی سورانوس بقراط کا اولین سوانح نگار تھا۔ سورانوس نے بقراط کے بارے میں بیرونی ذرائع سے بہت سی معلومات کو اکٹھا کیا اور ان معلومات سے استفادہ کرنے کے علاوہ اس نے ارسطو کی تحریروں میں سے بھی بقراط کے بارے میں مواد حاصل کیا۔ دسویں صدی عیسوی میں سوداس اور بارہویں صدی عیسوی میں جان ٹزٹیز نے بھی بقراط کی سوانح لکھیں۔


سورانوس کا کہنا ہے کہ بقراط کے باپ کا نام ہیراگلاڈیس تھا۔ ہیرا کلاڈیس اپنے زمانے کا نامور طبیب تھا۔ بقراط کی ماں کا نام پراکشٹیلا تھا جو کہ اپنے دور کے نامی گرامی شخص فینا ریٹنس کی بیٹی تھی۔ بقراط کے دو بیٹے تھے ایک کا نام تھیسایس اور دوسرے کا ڈراکو تھا۔ بقراط کی ایک بیٹی تھی جس کے خاوند کا نام پولی بس تھا۔ بقراط کے دونوں بیٹے اور داماد اس کے شاگرد تھے۔ انہوں نے علم طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت شہرت پائی۔ حکیم جالینوس کا کہنا تھا کہ بقراط کے علم و تجربے کا حقیقی جانشین پولی بس تھا کیونکہ اس نے تمام قواعد صحیح طور پر سیکھے اور ان سے مکمل استفادہ کیا تھا۔ بقراط کے دونوں بیٹوں تھیالیس اور ڈراکو کے ایک ایک بیٹے کا نام اپنے دادا کے نام پر بقراط تھا۔ سورانس کا کہنا ہے کہ بقراط نے علم طب اپنے باپ اور دادا سے سیکھا تھا جبکہ دوسرے علوم ڈیموکریٹس اور گور جیاس سے حاصل کیے۔


 افلاطون نے مقالات حکمت میں لکھا ہے کہ بقراط نے اسکلیپیون کی شفا بخش درس گاہ سے تعلیم حاصل کی اور طب کی تربیت لی تھی۔ بقول افلاطون بقراط نے اسکلیپیون میں تھیرس کے حکیم اعظم ہیروڈیکوس آف سیلیمبریا سے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔بقراط کی بعض تصانیف میں نرمی، شفقت، انکسار، تواضع و محبت جیسی ہدایات ملتی ہیں چونکہ ہمارے ہاں اس کی تصانیف کا سب سے پہلے ترجمہ ہوا اور یہ دنیا کا کامل ترین طبیب تھا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فن طب پر لوگوں کی رائے یہاں نقل کروں۔فن طب کی اختراع و مخترع کے مختلف علماءمیں اختلاف ہے۔ اسحق بن حنین اپنی تاریخ میں کہتا ہے کہ ایک قوم اہل مصر کو فن طب کا موجد سمجھتی ہے اور ساتھ ہی ایک حکایت بھی سناتی ہے کہ پرانے زمانے میں مصر کی ایک عورت ہمیشہ رنج و غم اور غیض و غضب کا شکار رہا کرتی تھی اور ساتھ ہی چند بیماریوں مثلاًضعف معدہ، فساد خون، احتباس حیض میں مبتلا تھی۔ 


ایک دفعہ اتفاقاً نرنجیل شامی (ایک پودا) کو کھا بیٹھی اور تمام روگ دور ہوگئے اس تجربے سے اہل مصر نے فائدہ اٹھایا اور فن طب کا آغاز ہوگیا۔ بعض علماءفلسفے، طب اور دیگر صنائع کا موجد ہرمس (حضرت ادریسؑ) کو قرار دیتے ہیں۔ بعض اختراع کا سہرا اہل قوس (یاقولوس) کے سرباندھتے ہیں۔ بعض ساحروں کو اس کا موجد قرار دیتے ہیں بعض کے ہاں اس کی ابتداءبابل، بعض کے ہاں ایران، بعض کے ہاں ہندوستان، بعض کے ہاں یمن اور بعض کے ہاں مقلب سے ہوئی -یحییٰ نحوی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ جالینوس کے زمانے تک8 بڑے بڑے طبیب گزرے ہیں۔ اسقلیبوس اول، غورس،مینس، برمانیذس، افلاطون الطبیب، اسقلیبیوس دوم، بقراط اور جالینوس۔اسقلیبوس اول اور جالینوس کے درمیان 5560 سال کا عرصہ حائل ہے اسی طرح ہر طبیب کی وفات اور دوسرے کی ولادت تک سینکڑوں سال کے لمبے لمبے وقفے ہیں۔بقراط اپنے زمانے میں ریئس الاطباءتھا۔

اس مضمون کی تیاری میں نے انٹر نیٹ کے مضامین کی مدد سے کی ہے

جمعرات، 2 جنوری، 2025

تاریخ انسانی کا امیر ترین حاکم-منسا موسیٰ

  


جس طرح کھیلوں کی دنیا میں ہر کچھ عرصہ بعد کھلاڑیوں کی کارکردگی کی رینکنگ (درجہ بندی)متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری ہوتی رہتی ہے اسی طرح دولت کی دنیا میں بھی مختلف تنظیموں کی طرف سے دنیا بھر کے دولت مندوں کے اثاثوں کی درجہ بندی جاری ہوتی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف بین الاقوامی جریدے ''فور بز‘‘ نے دنیا کے موجودہ دس امیر ترین لوگوں کی درجہ بندی کی ایک فہرست جاری کی تھی جس کے مطابق'' ایمیزون‘‘ کے مالک جیف بیزوز 131 بلین ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص قرار پایا ہے جبکہ مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس 96.5بلین ڈالرز کے ساتھ دوسرے نمبر پر،برک شائیر ہیتھ وے کے واران بفے 82.5 بلین ڈالرز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے پر ایسے لوگوں کا پتہ بھی ملتا ہے جو دور جدید کے ارب پتیوں سے کہیں زیادہ اثاثہ جات کے مالک رہے ہیں۔مثال کے طور پر لیبیا کے آنجہانی صدر معمرقذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کے اثاثے عالمی طور پر منجمد کر دئیے گئے تھے جنکی مالیت 200بلین ڈالر بنتی ہے، اسی طرح رومن سلطنت کے مارکس لیسینس کراسس کے اثاثوں کی مالیت آج کے حساب کے مطابق 201ملین ڈالر بنتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ سنکر حیرت ہوگی کہ موجودہ دور کے ارب پتیوں کے مقابلے میں تاریخ میں ایک ایسے مسلم حکمران کا نام بھی ملتا ہے جس کی دولت کا اندازہ موجودہ اور سابقہ ادوار کے اشخاص سے کئی گنا زیادہ بتایا جاتا ہے۔


تاریخ کے اس امیر ترین شخص کا اصل نام موسیٰ کیٹا تھا لیکن تخت نشینی کے بعد یہ منسا موسیٰ کہلایا ۔منسا مقامی زبان میں بادشاہ کو کہتے تھے۔ یہ سن 1312 سے 1337 تک سلطنت مالی کا حکمران تھا۔ منسا موسی تاریخ کا امیر ترین شخص مانا جاتا ہے۔اس نے مالی سلطنت پر جس زمانے میں حکومت کی اس وقت سلطنت مالی معدنیات کے خزانوں جن میں گرینائیٹ ، یورینیم، فاسفورس چونا،نمک اور سونے سے مالا مال تھی بالخصوص سونے کے ذخائر کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چودھویں صدی کے اوائل میں سلطنت مالی دنیا میں سونے کی کل ترسیل کے نصف کی مالک تھی۔یہی وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں سونے کی مانگ عروج پر تھی۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ بقول بی بی سی ، منسا موسیٰ کی سلطنت کی حد کسی کو معلوم نہیں تھی۔اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ آج کے موریطانیہ، سینی گال، گیمبیا ، گنی، برکینیا فاسو، مالی، نائیجیر ، چاڈ اور نائیجیریا وغیرہ کے علاقے اس زمانے میں منسا موسی کی سلطنت کا حصہ ہوا کرتے تھے۔


اس زمانے میں ٹمبکٹو Tomboucto مالی کا سب سے بڑا علاقہ تھا جو سلطنت کے شمال میں واقع تھا اور دنیا کے سب سے بڑے صحرا صحارا کے جنوب مغرب میں واقع تھا۔ٹمبکٹو کی وجۂ شہرت زمانہ ء قدیم میں افریقہ سے ہونے والی سونے کی ساری تجارت تھی اور یہی شہر سونے کی تجارت کا مرکز تھا۔منسا موسیٰ ایک دویش صفت،نیک اور سخی حکمران کی شہرت رکھتا تھا۔اس کے عدل و انصاف کے متعدد قصے تاریخ میں درج ہیں۔منسا موسی کے دور حکومت کا مشہور ترین واقعہ سن 1324 میں اس کا منفرد سفر حج تھا۔مؤرخین لکھتے ہیں کہ منسا موسیٰ کی حج کی تیاری کو لگ بھگ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ سونے کی تاروں سے مرصع شاہی خیمے بنائے گئے۔اہل خانہ کے لئے سفری محل بنایا گیا۔موسیٰ کے ذہین ترین درباریوں نے ہزاروں خیموں پر مشتمل ایک بے مثال چلتا پھرتا شہر بنا ڈالا۔منسا موسیٰ کو سب سے زیادہ شہرت اس سفر حج کی وجہ سے ملی۔یہ سفر اس قدر پر شکوہ تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسیٰ کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک اس کے نام کے چرچے ہونے لگے۔
 
۔لوگوں نے دیکھا کہ منسا موسیٰ کے قافلے کے ہمراہ ساٹھ ہزار افراد تھے۔جن میں سے بارہ ہزار اس کے غلام اور پیروکار تھے جنہوں نے چار چار پاؤنڈ سونا اٹھا رکھا تھا بقول ابن خلدون منسا موسیٰ کے قافلے میں اتنے زیادہ لوگ تھے کہ ان کاشمار مشکل تھا۔منسا موسی جس گھوڑے پر سوار تھا اس کے لئے سونے کی خصوصی لگامیں تیار کی گئی تھیں۔اسی طرح منسا موسیٰ کے آگے 500 افراد کا دستہ تھا جنہوں نے خوبصورت ریشمی لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور ہر ایک کے ہاتھ میں سونے کی ایک ایک چھڑی تھی۔ اس کیساتھ ساتھ اس قافلے میں 80 اونٹوں کا ایک کارواں بھی تھا جس کے ہر اونٹ پر 136کلو سونا لدا ہوا تھا۔دراصل اس وسیع سلطنت میں سلطنت مالی دنیا کے آدھے سونے کی مالک تھی اور ان سب کا مالک منسا موسیٰ تھا۔ایک اندازے کے مطابق منسا موسیٰ نے 125ٹن سونا راہ خدا میں خرچ کیا تھا۔اس سفر کے دوران یہ جہاں سے گزرتا غرباء کی مدد کرتا ہر جمعہ کووہاں ایک مسجد تعمیر کراتا اور وہاں کے حاکم اور تاجروں کو ملتا اور انہیں سونے سے مالا مال کر دیتا۔ کہتے ہیں کہ قاہرہ اور مدینہ کے لوگوں نے اتنا سوناشاید خواب میں بھی نہ دیکھا ہو گا جتنا منسا موسیٰ اپنے ساتھ سفر میں لایاتھا۔


 منسا موسیٰ اس سفر کے دوران مختلف ریاستوں کے بادشاہوں سے بھی ملتا ہوا جاتا۔مصر کے مملوک سلطان اور النصر محمد سے اس کی ملاقات تاریخ کے اوراق میں آج بھی زندہ ہے۔ابن خلدون کہتا ہے النصر محمد جیسا بادشاہ منساموسیٰ کے جاہ و جلال اور دولت کو دیکھ کر ششدر رہ گیا ‘‘۔اس سفر کے دوران اس نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی برسوں تک گری رہیں۔اس زمانے میں غالباً مغربی افریقہ کے اس علاقے میں سونے کی کثیر تعداد پائی جاتی تھی۔منسا موسی اس قدر فراخ دل، سخی اور شاہ خرچ تھا کہ جب مصر سے گزرا تو کہتے ہیں کہ اس نے غریبوں کو اتنے عطیات دئیے کہ علاقے میں افراط زر کی کیفیت ہو گئی۔ منسا موسیٰ مناسک حج سے جب واپس آ رہا تھا تو اس  نے اپنے  عوام کو یہ باور کروایا کہ  میں ان علاقوں کی معیشت کیسے بہتر کر سکتا ہوں کیونکہ میرا ارادہ تو  بس   لوگوں کی ناداری دور کر کے ان کی  مدد کرنا تھا۔  

ہمارے ہنی مون کا پہلا پڑاؤ،ہنہ جھیل کوئٹہ

 

انیس سو پینسٹھ  اپریل کا مہینہ  موسم بہار کے دن تھے اور آخری ہفتے میں میری شادی انجام پائ اور میرے شوہر نے مجھ سے کہا چلو کوئٹہ چلتے ہیں انہوں نے اس مقصد کے لئے آفس سے چھٹیا ں بھی لے لی تھیں -یہ سفر  میری زندگی میں     پاکستان ہجرت کے سولہویں برس پر آیا تھا اور میری عمر بھی تقریباً اتنی ہی تھی -ہم نے کراچی کینٹ سے دن کے دو بجے اپنے اس خوبصورت سفر کا آغازکیا اور اگلے روز کا وقت یاد نہیں  کہ کس وقت کوئٹہ پہنچے -کوئٹہ میں میرے ماموں جو سارے جگ کے منے ماموں تھے اور ہمارے منے ماموں  میرے شوہر کے خالو تھے -انہوں نے ہماری رہائش کا انتظام کیا ہوا تھا وہاں ہم دونوں نے ناشتہ کیا اور چند گھنٹے آرام کیا پھر  ہم نے  سب سے پہلے ہنہ جھیل کی سیر  کا پروگرام بنا لیا -میں راستے کی خوبصورتی میں محو ہو گئ -میں نے تازہ خوبانیوں سے اور دیگر پھلوں سے لدے باغات دیکھے جو ہمارے دو رویہ سفر میں کافی دیر ہمارے ساتھ رہے پھر جھیل آگئ   -


  پھلوں کے باغات سے آراستہ اس وادی کے بیچوں بیچ زندگی بخش، ہنّہ ندی رواں دواں ہے، جس کا پانی ہنّہ جھیل میں جمع ہوتا ہے اور جب کوہِ زرغون کی اوٹ سے طلوع ہونے والا سورج ہنّہ جھیل کے گرد واقع پہاڑیوں میں غروب ہونے لگتا ہے، تو اس کی کرنیں نیلگوں پانی میں سنہرا رنگ بَھر دیتی ہیں۔ ہنّہ جھیل کی سیر کے لیے سیّاح دُور دُور سے آتے ہیں۔گرچہ ہنّہ جھیل کی تاریخ کے حوالے سے کوئی مستند حوالہ دست یاب نہیں۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ پہاڑپر پگھلنے والی برف اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کر کے چھائونی میں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی حکومت نے ایک بند تعمیر کر کے اسے جھیل کی شکل دی۔ بند کی تعمیر 1901ء میں شروع ہوئی اور 1908ء میں اس کی تکمیل کے بعد اسے جھیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ بند کے ساتھ ہی موجودہ کلی حاجی عطا محمد کے مقام پر ایک ہیڈ ورکس بھی تعمیر کیا گیا، جسے ’’سرپل‘‘ کہا جاتا ہے ۔ یہاں سے تقریباً ایک کلو میٹر طویل نہر کے ذریعے ہنّہ ندی کا پانی جھیل تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ وادیٔ اُڑک کی ہنّہ جھیل قدرتی حُسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مشرق میں کوہِ زرغون ہے۔


۔ برطانوی حکومت نے ہنّہ ندی سے پائپ لائن کے ذریعے چھائونی کو پانی مہیا کیا تھا اور اس پائپ لائن کا ذکر بلوچستان کے تاریخی گزیٹیر میں بھی موجود ہے۔ ماضی میں ہنّہ ندی کوئٹہ کے مضافات میں واقع، نواں کلی سے ملحقہ کلی کوٹوال اور کلی ترین شار میں موجود باغات کو سیراب کرتی تھی۔ ندی کے ارد گرد 20سے 25آٹے کی چکّیاں بھی موجود تھیں، جو کوئٹہ کے عوام کی آٹے کی ضروریات پوری کرتی تھیں ہنّہ جھیل کے درمیان ایک ٹیلے نُما چھوٹا سا مصنوعی جزیرہ بھی بنایا گیا ہے اور اس کی چوٹی پر نگرانی کے لیے ایک چھوٹی سی عمارت تعمیر کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں جھیل کی خُوب صُورتی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سڑک اور جھیل کے درمیان ایک جنگلا نصب کیا گیا ہے۔ہنّہ جھیل میں سیّاحوں کے لیے واٹر اسپورٹس کی سہولتیں اور جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کشتیاں بھی موجود ہیں۔ ہنّہ جھیل اور وادیٔ اُڑک کے قدرتی نظّاروں کو دیکھنے کے بعد عقلِ انسانی اپنے پروردگار کے جمالیاتی ذوق پر دنگ رہ جاتی ہے۔ جھیل کی چاروں جانب بلند و بالا پہاڑ واقع ہیں، جن کے درمیان یہ ایک بہت بڑے پیالے کی مانند دِکھائی دیتی ہے۔ موسمِ سرما میں ہونے والی بارشوں اور برف باری کی بہ دولت یہ سارا سال پانی سے بَھری رہتی ہے، جسے اطراف میں پھیلے کھیتوں اور باغات تک پہنچایا جاتا ہے۔ یوں اس جھیل کو سیّاحت کے علاوہ زراعت اور باغ بانی کے لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔ گرچہ ہنّہ جھیل، مشہور جھیل سیف الملوک سے ملتی جلتی ہے، لیکن اس کے گرد سبزے سے ڈھکے پہاڑ موجود نہیں۔ تاہم، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جھیل کنارے شجرکاری کی گئی ہے اور یہاں کافی تعداد میں کوئٹہ پائن، چنار اور ایش کے درختوں کے علاوہ پَھل دار درخت بھی لگائے گئے ہیں، جس کی بہ دولت جھیل کی دِل کَشی میں مزید اضافہ ہواہے۔ اپنے اس خوبصور سفر کے دوران میرے شوہر مجھے دو بار ہنہ جھیل لے کر گئے اور بوٹ کی سواری بھی کروائ اور جھیل کے قلب میں  جزیرے کی سیر بھی کروائ


 اصل جھیل سڑک سے تقریباً 30فٹ نیچے واقع ہے اور سڑک اور جھیل کے درمیان موجود ڈھلوان سطح پر سیّاحوں کے لیے سیڑھیاں، راہ داریاں اور ایک پختہ سائبان بنایا گیا ہے۔ ہنّہ جھیل کو ایک قدرتی سیر گاہ اور سیّاحتی مرکز کے طور پر ترقّی دینے کے لیے باضابطہ ترقّیاتی ادارہ قائم کیا گیاہے۔ اس ادارے نے سیّاحوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ جھیل کی صفائی کا بھی خصوصی انتظام کیا اور اس سلسلے میں جدید مشینز کے ذریعے خطرناک جھاڑیوں اور دلدلی مٹی کا صفایا کیا گیا۔ یوں غرقابی کا خطرہ ختم ہو گیا اور جھیل، پیراکی کا شوق رکھنے والوں کی توجّہ کا مرکز بن گئی۔ جھیل میں کشتی رانی کا انتظام بھی کیا گیا ہے، لیکن نجی کشتیاں چلانے کی بہ جائے ترقّیاتی ادارے ہی کے زیرِ اہتمام کشتیاں اور موٹر بوٹس چلائی جاتی ہیں ، جو سیّاحوں کو نہ صرف جھیل بلکہ اُس کے وسط میں واقع جزیرے کی بھی سیر کرواتی ہیں۔ جھیل پر ہر موسم میں سیّاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ موسمِ گرما میں سیّاح یہاں نسبتاً سرد اور خوش گوار ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے آتے ہیں، جب کہ موسمِ سرما میں برف باری کے نظارے کے لیے یہاں کا رُخ کرتے ہیں، کیوں کہ برف باری کے موسم میں اس جھیل کی دِل کشی مزید بڑھ جاتی تھی ۔-ہنی مون سے واپس آ کر بڑے عرصے ہنہ جھیل میرے دل میں بسیرا کئے رہی

منگل، 31 دسمبر، 2024

پاکستان کی ہیلن کیلر صائمہ سلیم

 

    اکتوبر 15کوبصارت سے محرومین کا عالمی دن تمام دنیا میں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس دن کا اغاز  1964ءمیں اکتوبر کی 15 یو۔ این۔ او۔  ایک قرارداد سے ہوا تھا، جس کا مفہوم یہ ھے کہ وہ لوگ جو بینائی سے محروم ہیں ان کی ہمتیں بڑھائی جائیں۔ انہیں زیور علم سے آراستہ کیا جائے اور اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسی طرح جی سکیں جیسے سب ذی حیات جیتے ہیں۔ " وائٹ کین سیفٹی ڈے" اسی عہد کی یاد دہانی ہے۔یاد رہے کہ یہ تصور محض کسی دیوانے کی بڑ نہیں۔ بینائی سے محروم افراد نے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے وہ جھنڈے گاڑے ہیں کہ کبھی کبھی بینائی بھی ان سے شرمندہ ہو جاتی ہے۔ ہیلن کیلر  جو اپنے بچپن کے ابتدائ دور میں ہی نابینا ہو گئ تھی  انہوں نے  اپنے سماج میں ایسے نقش قدم چھوڑے جو رہتی دنیا تک ایک مثال بن گئےپاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ، ڈاکٹر اقبال نے 1979ءسے قائم کر رکھی ہے، جس کا ہیڈ آفس 13۔لالہ زار پارک فاروق کالونی یونیورسٹی روڈ سرگودھا میں ہے۔ یہ ضلع بھر کے نابیناؤں کی نمائندہ اور رجسٹرڈ تنظیم ہے جو گزشتہ 45 برس سے نابینا افراد کی تعلیم، بحالی اور ان کے مختلف مسائل کو حل کرنے کی حتی المقدور کوشش جاری رکھے ہوئے ہے -اس ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ، ڈاکٹر اقبال نے 1979ءسے قائم کر رکھی ہے


 - ۔ اب میں قارئین کو ایک ایسی پاکستانی باہمت  بیٹی کے متعلق  بتانا چاہوں گی جس کو دنیا  پاکستان کی ہیلن کیلر کہتے ہیں  صائمہ سلیم اگست 1984ء کو پیدا ہوئی۔ انہیں بچپن سے ہی پڑھائی کا بہت شوق تھا مگر ایک موروثی مرض نے ان کی آنکھوں کی بینائی چھیننا شروع کردی اور وہ 13 سال کی عمر میں دیکھنے جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوگئیں۔ان کے والدین اپنی بیٹی سے بے پناہ پیار کرتے تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور عزیز جہاں ٹرسٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم دلوائی۔ انہوں نے بی اے کا امتحان انگلش لٹریچر میں فرسٹ ڈویژن میں کنرڈ کالج فار وومن یونیورسٹی سے پاس کیا اور وہیں سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے اپنے ملک کی خدمت کا خواب دیکھا۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہیں بہت جدوجہد کرنی پڑی۔سی ایس ایس کے امتحانات کا انعقاد کروانے والے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) نامی ادارے نے کمپیوٹر کے ذریعے ان کا امتحان لینے سے انکار کردیا۔

 تاہم ان کی کاوشیں رنگ لائیں اور 2005ء میں صدرِ پاکستان کی طرف سے ایک آرڈیننس منظور ہوا جس میں نابینا افراد کو کمپیوٹر کے ذریعے امتحان دینے کی اجازت دے دی گئی۔اسی قانون کے تحت انہوں نے سی ایس ایس 2007ء کا امتحان دیا اور انہوں نے مجموعی طور پر چھٹی اور خواتین میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اس کے بعد جب ان کی تعیناتی کا مرحلہ آیا تو ایف پی ایس سی نے صرف 4 گروپس (اکاؤنٹس، کامرس، انفارمیش اور پوسٹل) میں تعیناتی کا آپشن دیا۔ مگر وہ تو فارن سروس میں جانا چاہتی تھیں، جس کا یہاں کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔انٹرویو کے دوران پینل کی طرف سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ، 'کیا وہ ان کی تعیناتی کے لیے پیش کیے گئے گروپس سے مطمئن ہے؟' تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ ’نہیں، میں مطمئن نہیں ہوں۔ مقابلے کے امتحان کے بعد حاصل کردہ پوزیشن کی بنا پر مجھے گروپ میں تعینات کیا جائے'۔ان کی درخواست کو اس وقت کے وزیرِاعظم نے منظور کرلیا۔ اس طرح وہ 2009ء میں پاکستان کی پہلی قوتِ بینائی سے محروم سفارت کار بن گئیں۔

 آج کل وہ سیکریٹری برائے انسانی حقوق جنیوا، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور ہم انہیں 'صائمہ سلیم' کے نام سے جانتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقعے پر انہوں نے پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات کا جواب بھرپور طریقے سے دیا۔ جنرل اسمبلی میں پہلی بار کسی پاکستانی نے 'بریل' کے ذریعے پڑھ کر جواب دیا۔ بے شک پاکستان کو صائمہ سلیم جیسی باہمت خاتون پر فخر ہے۔ انہیں پاکستان کی 'ہیلن کیلر' بھی کہا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے جسمانی معذوری کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ہمیں ایسے رول ماڈلز کی تشہیر ملکی و غیر ملکی سطح پر کرنی چاہیے تاکہ دیگر لوگوں کا بھی حوصلہ بڑھے۔ صائمہ سلیم کی تعلیم کے ساتھ لگن جاری رہی اور 2019ء میں انہوں نے ایل ایل ایم کی ڈگری بین الاقوامی قانون (اسپیشلائزیشن اِن انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لا اینڈ انٹرنیشنل ہیومنٹیرین لا) میں یونیورسٹی آف جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حاصل کی۔

اس سے پہلے وہ 2012ء میں فل برائٹ اسکالر شپ پر جارج ٹاؤن یونیورسٹی آف فارن سروس بھی گئیں۔ وہ لکھاری اور موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ انہیں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر فاطمہ جناح گولڈ میڈل اور بہترین تعلیمی کارکردگی پر قائدِاعظم گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔بے شک پاکستان کو صائمہ سلیم جیسی باہمت خاتون پر فخر ہے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اوورسیز میں پاکستانی گداگرایک صوبے میں منظم مافیا

      آج ہی یہ تحریر انٹرنیٹ سے ملی ہے غور سے پڑھئے سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سخت اقدامات کیے ہیں، جن ک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر