جمعرات، 25 جولائی، 2024

خیرپور کا فیض محل-قابل دید عمارت


 خیرپور ریاست تالپور خاندان کی اہم ترین ریاست تھی  اور جس وقت پاکستان کا قیام عمل میں آیا خیر پور میں پچاس سے زیادہ صنعتی یونٹس کام کر رہے تھے جس میں صرف مقامی افراد کا روزگار با آسانی مہیا تھا تعلیمی نظام سو فیصد تھا چوری ڈکیتی کوئ جانتا ہی نہیں تھا  کسانو کے چہرے مسکراتے تھے  -غرض یہ کہ خیرپور ایک مکمل فلاحی ریاست تھی-پھر ایک حکم کے زریعہ شب خون مارنے والوں نے صنعتی یونٹس کو تالا لگوا دیا اور خیر پور سے اس کی فلاحی شناخت چھین لی۔ چلئے ماضی کی بات پھر کبھی ابھی ہم بات کرتے ہیں خیر پور کے فیض محل کی’فیض محل‘‘ 200سالہ قدیم عمارت کو ’’لکھی پیلس ‘‘ بھی کہتے ہیں -تالپور حکم راں فن تعمیر سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی عمل داری میں بہترین معمار اور فن نقاشی کے ماہرین رہائش پذیر تھے ۔ ان کے دور حکومت میں قبو یعنی خوب صورت مقابر تعمیر کرائے، جن میں میران تالپورکے مقبرے شامل ہیں۔ ۔ تالپور حکم رانوں کا ایسا ہی ایک قدیم اور فن تعمیر کا شاہکار’’ فیض محل‘‘ بھی ہے، جو خیرپور کی ایک شان دار تاریخی عمارت ہے۔ خیرپور شہرکے شمال مغرب میں واقع فیض محل سابقہ خیرپور ریاست کے تالپور حکمرانوں کی وہ عظیم یادگار ہے، جس کی مثال پورے برصغیر پاک و ہند میں کم ہی ملے گی۔فیض محل پاکستان کے شاندار فن تعمیر کے نمونوں میں سے ایک ہے۔، اس خوب صورت محل کی تاریخ دو سوسال پرانی ہے، اس کی تعمیر خیرپور کے شاہی خاندان تالپور میرس نے 1798 میں کروائی ۔اسے آرام گڑھ اور ’’لکھی محل ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ یہ مغلیہ طرز تعمیر اور آرٹ ورک کا بہترین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

میر فیض محمد خان تالپور ریاست خیرپور کےچوتھےحکم ران تھے، جنہوں نے اپنی خدادادصلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا حسین محل تعمیر کروایا، جو آج بھی دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک بادشاہ، سیاست دان، جنگجو، سپاہی، شہسوار اور باغبان، میر فیض محمد خان تالپور وہ باغ و بہار شخصیت تھے، جن کو فنون لطیفہ سے بے حد لگائو تھا، اسی ذوق و شوق کا لازوال عکس فیض محل میں دکھائی دیتا ہے، جو اپنے حسن اور طرز تعمیر کے باعث میران خیرپور کے تاریخی ورثے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ میر فیض محمد خان تالپور 1894ء سے 1909تک ریاست خیرپور کے حکمران رہے۔ان کے اس تعمیری شاہ کار کو ان کے نام کی مناسبت سے فیض محل کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ اس دور میں اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی اس لیے اسے ’’ لکھی محل ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ 1843ء میں جب چارلس نیپئر نے سندھ کا خطہ فتح کیا، تو سندھ کے آخر ی حکم راں، مبر جارج علی مراد خان تالپورکے ہاتھوں سے اقتدار چلا گیا اور انتظامی طورپر سندھ انگریزوں کی عمل داری میں آگیا


تالپور حکم رانوں کا تعمیر کرایا ہوا، فیض محل دو منزلہ عمارت ہے، جو لال اینٹوں سےتعمیر کی گئی ہے، جب کہ اس کا اگلا حصہ ہندوستان کے شہر جے پور سے منگوائے گئے زرد پتھروں سے سجایا گیا ہے، ان پتھروں کی سجاوٹ اور چمک دمک میں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی فرق یا تبدیلی نہیں آئی ۔ فیض محل کا مرکزی ہال سرکاری تقاریب اور دربار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، روشن دانوں سے سجائے گئے اس خوب صورت ہال میں اس دور کا فرنیچر، جھولے اور نایاب اشیاء آج بھی موجود ہیں، دروازوں، کھڑکیوں سمیت جتنی بھی چیزیں اس میں ہیں وہ سب دیال، ساگوان، پرتل اور چلغوزے کی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ اشیاء آج بھی نئی لگتی ہیں۔ فیض محل میں ڈائننگ ہال بھی قائم ہے، ہال کے دونوں اطراف اخروٹ کی لکڑی سے بنوائی گئی ، ڈریسنگ ٹیبل بناوٹ کے لحاظ سے بے حد عمدہ اور بے مثال ہے میں اپنی عزاداری اور محرموں کے  سلسلے میں شہرہ آفاق ہیں


اس شان دار محل کے آگے مغلیہ طرز کا ایک باغ بھی بنایا گیا ہے، جو تقریباً بیس ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے، کشادہ باغ میں املتاس، شیشم، کھجور کے درخت فضاء کو اور بھی خوش گوار بنادیتے ہیں۔ محل کی دائیں اور بائیں جانب توپیں نظر آتی ہیں۔ مرکزی ہال کی دیواروں پر تالپور حکمرانوں سے لے کر ان تمام شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ، جنہوں نےفیض محل کے دورے کیے۔ ان میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بھی شامل ہیں۔اگرچہ حکومت اور محکمہ قدیم آثار و محکمہ ثقافت کی عدم توجہی کے باعث ہمارا تاریخی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہے، مگر کچھ عمارتیں وقت کے ستم کےباوجود اپنا وقار اور شناخت برقرار رکھی ہوئی ہیں۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔ آ

اس محل میں ایک عجیب سی کشش ہے، جو خیرپورکی سیر کے لیے آنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس محل کی بناوٹ اور فن تعمیر کی مہارت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اس کے مختلف حصوں میں گھومنے کے دوران اس خوب صورت محل کا سحر انسان کو جکڑ لیتا ہے۔مغلیہ فن تعمیر کا نمونہ ، یہ عمارت خیرپور ریاست کی سب سے نمایاں عمارت رہی ہے۔ خیرپور ریاست کے دفاع کے لیے فوج بھی تھی مگر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اس ریاست کو 1955ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا اور اس طرح خیرپور ریاست کا وجود ختم ہوا اور اس نے ایک شہر کی حیثیت حاصل کرلی۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے

 

 

 

 

منگل، 23 جولائی، 2024

گوند کتیرا کیوں فائدہ مند ہے

 


گوند کتیرا کو کتیرا سفید بھی کہا جاتا ہے، جب کہ کچھ علاقوں میں اسے براؤن یا بھوری گوند کہتے ہیں۔ گوند کتیرا ایک کانٹے دار درخت سے حاصل کیا جانے والا گوند ہے جو عام طور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے، گوند کتیرا کے درخت کی اونچائی پندرہ میٹر تک ہو سکتی ہے۔ گوند کتیرا سب سے زیادہ ایران میں پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ یہ سوڈان، پاکستان، بھارت، ویتنام، اور انڈونیشیا میں بھی پایا جاتا ہے۔کانٹے دار درخت سے حاصل ہونے والے اس گوند کی کوئی خوشبو نہیں ہوتی جب کہ یہ بے ذائقہ ہوتا ہے۔ گوند کتیرا کو پودے کی اندرونی رطوبت کو خشک کر کے حاصل کیا جاتا ہے، اور اس کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ گوند کتیرا کا مزاج اول درجے میں سرد ہوتا ہے، اس لیے اسے زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔گوند کتیرا کو سینکڑوں سالوں سے صحت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، کیوں کہ گوند کتیرا کے غذائی اجزاء بہت مفید ہیں۔ ان اجزاء میں کیلشیم، پروٹین، میگنیشیم، اور کچھ خاص قسم کے الکلائڈز پائے جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ گوند کتیرا میں اینٹی آکسیڈنٹ، اینٹی بیکٹیریل، اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

گوند کتیرا میں پائے جانے والے مفید غذائی اجزاء میتھی دانہ کی طرح قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ قوتِ مدافعت مضبوط ہونے سے جسم میں اضافی توانائی جمع ہوتی ہے اور طاقت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کی وجہ سے انسان کے چہرے پر جھریاں آنا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گوند کتیرا کو بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ گوند کتیرا جِلد میں موجود خلیوں کو صحت مند رکھتا ہے اور ان جراثیم کو ختم کرتا ہے جو جِلد کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ اینٹی آکسیڈنٹس اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات کی بنیاد پر چہرے پر ظاہر ہونے والے دانوں اور داغ دھبوں سے بھی بچاتا ہے۔مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ-جِلد کے لیے بہترین-ناک سے خون بہنا-کمزوری کا خاتمہ-ہیٹ اسٹروک کا بہترین علاج-شوگر کے لیے مفید-دل کی صحت میں بہتری-قبض کا خاتمہ-وزن میں کمی کے لیے بھی مفید-گوند کتیرا کے فوائد-گرمیوں کے موسم میں گوند کتیرا کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔جِلد کے لیے بہترین-بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کی وجہ سے انسان کے چہرے پر جھریاں آنا شروع ہو جاتی ہیں، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے گوند کتیرا کو بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ گوند کتیرا جِلد میں موجود خلیوں کو صحت مند رکھتا ہے اور ان جراثیم کو ختم کرتا ہے جو جِلد کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔


اس کے ساتھ ساتھ یہ اینٹی آکسیڈنٹس اور سوزش کو کم کرنے والی خصوصیات کی بنیاد پر چہرے پر ظاہر ہونے والے دانوں اور داغ دھبوں سے بھی بچاتا ہے۔مدافعتی نظام کی مضبوطی میں اضافہ-اگر آپ کے ناک سے اکثر خون بہتا ہے یا نکسیر پھوٹتی ہے تو گوند کتیرے کا پانی نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ عام طور گرم مزاج والی غذائیں وافر مقدار میں استعمال کرنے یا شدید گرمی کے موسم میں ناک سے خون بہنا شروع ہوتا ہے۔ گوند کتیرا کے پانی استعمال کرنے سے جسم کا درجہ حرارت معتدل رہتا ہے، جس کی وجہ سے نکسیر پھوٹنا بند ہو جاتی ہے۔گوند کتیرا بھی گنے کے رس کی طرح کمزروی کو دور کرنے کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے جو کافی عرصے سے طویل بیماری کا شکار رہے ہوں یا اینٹی بائیو ٹکس استعمال کر رہے ہوں۔ گوند کتیرا میں دوا جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو بیماری کے بعد ہونے والی کمزروی کو ختم کرتی ہیں۔اس کے علاوہ جو لوگ سگریٹ اور شراب نوشی سے چھٹکارا حاصل کرنے چاہتے ہوں، ان کے لیے بھی گوند کتیرا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔شدید گرمی کے موسم میں بہت سے لوگوں کو ہیٹ اسٹروک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ گوند کتیرا کو ہیٹ اسٹروک کا بہترین علاج سمجھا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں گوند کتیرا کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے آپ سخت گرمی اور لو سے محفوظ رہتے ہیں۔


طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کو گرمی کے موسم میں باقاعدگی کے ساتھ گوند کتیرا استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ  گوند کتیرا خون میں شوگر کی سطح کو بڑھنے نہیں دیتا اور شوگر لیول کو متوازن رکھتا ہے۔دل کی صحت میں بہتر-جسم میں میٹابولزم سست ہونے کی وجہ سے فالتو چربی سے چھٹکارا پانے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گوند کتیرا کے استعمال سے میٹابولز تیز ہوتا ہے جس کی وجہ سے فالتو چربی ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ چربی ختم ہونے کی وجہ سے وزن میں بھی کمی آنا شروع ہوتی ہے۔گوند کتیرا کو بھی سنا مکی کی طرح دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ ایسے افراد جو کولیسٹرول کی بیماری میں مبتلا ہوں، ان میں دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کولیسٹرول کا لیول بڑھنے کی وجہ سے فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ گوند کا بااعدگی کے ساتھ استعمال کولیسٹرول کی سطح کو متوازن رکھتا ہے، جس کی وجہ سے ان تمام جان لیوا بیماریوں کے خطرات کم ہو جاتے ہیں -قبض کا خاتمہ-اگر آپ کو قبض کی علامات کا سامنا ہے تو گوندے کتیرے کو استعمال کرنا شروع کر دیں، کیوں کہ یہ قبض کا قدرتی علاج ہے، اس کے استعمال سے اس مرض کی علامات میں کمی آئے گی اور بواسیر کی علامات کی صورت میں بھی افاقہ ہو گا۔ یہ علامات ختم ہونے سے آپ کا معدہ اچھے طریقے سے افعال سر انجام دے گا اور ہاضمہ کے نظام میں بھی بہتری آئے گی۔وزن میں کمی کے لیے بھی مفیدخواتین کے لیے بھی مفیدایسی خواتین جن کو چھاتی کے مسائل-ہیٹ اسٹروک کا بہترین -شوگر کے لیے مفید-کمزوری کا خاتمہ-پیشاب کی بے قاعدگی میں انتہائ فائدہ مند ہوتا ہے

آ ٹزم کو سمجھنے کی ضرورت ہے

۔عموماً آٹِزم سے متاثرہ بچے کئی دوسرے طبی مسائل کاشکار بھی ہوجاتے ہیں۔ یہ مسائل آٹِزم کی نوعیت کے حساب سے ہرفرد میں مختلف ہوتے ہیں۔ایسے حالات میں آٹِزم کے اثرات زیادہ نمایاں ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان بیماریوں اور آٹِزم کے ساتھ ان کے تعلق کو سمجھنا نہایت اہم ہےبائی پولر ڈِس آرڈر (Bipolar Disorder)اس مرض کا شکار افرادڈپریشن اور جنون کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ آٹِزم کے شکار افراد میں یہ مرض زیادہ عام ہوتا ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آٹِزم کو بائی پولر ڈس آرڈر سمجھ لیا جاتاہے یا بالکل اس کا الٹ ہوجاتاہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ ان دونوں کی علامات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔

ڈپریشن-آٹِزم سے متاثرہ افراد میں عمر کے ساتھ ساتھ ڈپریشن کے امکانات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔آٹِزم سے متاثرہ زیادہ کام کرنے والے افرد میں بھی ڈپریشن زیادہ ہو سکتا ہے۔ ڈپریشن کی ان علامات کا خیال رکھنا چاہیے:آٹِزم سے متاثرہ فرد کی ان چیزوں میں دل چسپی ختم ہوجانا جو اسے کسی وقت بہت دل چسسپ لگتی تھیں۔  ذاتی صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھ پانا -مسلسل اداس رہنا -خود کو بےکار سمجھنا -ناامید رہنا چڑچڑاپن -شدت پسند ہوجانا اور اکثر موت یا خودکشی کے بارے میں سوچتے رہنا آبسیسوکمپلسو ڈس آرڈر (OCD)محققین کے مطابق(OCD)  آٹِزم سے متاثرہ بچوں اور بڑوں میں زیادہ عام ہے لیکن اس کو آٹِزم والی چیزوں کو دہرانے والی عادات سے نہیں ملانا چاہیے بلکہ اس کی باقاعدہ تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔



 (Anxiety)آٹِزم کا شکار افراد میں سے 42 فیصد الجھن کا شکار رہتے ہیں۔ مسلسل الجھن دل کی دھڑکن میں اضافے، پٹھوں میں کچھاؤ، معدے میں تکلیف اور سر درد کی وجہ بن سکتی ہے۔ معاشرتی حالات بھی آٹِزم سے متاثرہ افراد میں الجھن کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہی کام نئی جگہوں، ہجوموں اور نئے لوگوں میں رہنے سے بھی ہو سکتا ہے۔مرگی-اس کا بھی آٹِزم سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ لوگوں کو خصوصاً بچوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ انھیں ہو کیا رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے آس پاس کے لوگوں کو بھی دورے پڑنے کے دوران سمجھ نہ آ سکے۔ دورے پڑنے کی نشانیوں کو ذہن نشین کر لینا چاہیے اور جلد از جلد مدد حاصل کرنی چاہیے۔ یہ نشانیاں درج ذیل ہیں:لمبے دورانیے کے لیے بلا وجہ گھورتے رہنا -شدید سر درد بے حد گھبراہٹ -بے ارادہ حرکات -معدے اور آنتوں میں خرابی (یہ خرابی آٹِزم سے متاثرہ بچوں میں  کئ  گنا زیادہ ہوتی ہے) معدے اور آنتوں میں خرابی-معدے اور آنتوں کی خرابی میں درج ذیل شامل ہیں:


آنتوں کی سوزش، پیٹ میں درد، دائمی قبض، معدے کے تیزاب کا خوراک کی نالی اور منہ میں آنا۔کھانے کے مسائل-یہ بھی آٹِزم سے متاثرہ بچوں میں بہت عام ہے۔ بچے کھانے کے معاملے میں بہت ہی نقطہ چیں ہو جاتے ہیں۔ کچھ چیزوں کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں اور بہت ہی محدود چیزیں کھاتے ہیں۔ کچھ تو مستقل طور پر ضرورت سے زیادہ کھانے لگتے ہیں۔ کچھ بچے نہ کھانے والی چیزیں بھی کھانے لگتے ہیں۔یہ کچھ ایسی بیماریاں ہیں جن کا تعلق آٹِزم سے ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ خرابیاں ہو سکتی ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آٹِزم سے متعلقہ کسی بیماری کا شکار ہے تو یہ جاننے کے لیے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں کہ کیا یہ واقعی آٹِزم کی وجہ سے ڈاون‮ ‬سنڈروم‮ ‬ایک‮ ‬نسلی‮ ‬کفیت‮ ‬ہے۔‮ ‬یہ‮ ‬تب‮ ‬واقع‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے‮ ‬جب‮ ‬بچہ‮ ‬46‮ ‬کی‮ ‬جگہ‮ ‬47‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے-‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دراصل‮ ‬کروموسوم‮ ‬21‮ ‬ہوتا‮ ‬ہے۔‮ ‬یہ‮ ‬زائد‮ ‬کروموسوم‮ ‬دماغ‮ ‬کی‮ ‬نشونما‮ ‬میں‮ ‬تاخیر‮ ‬اور‮ ‬جسمانی‮ ‬معذوری‮ ‬کا‮ ‬سبب‮ ‬بنتا‮ ‬ہے۔‮ ‬ڈاون‮ ‬کروموسوم‮ ‬کے‮ ‬ساتھ‮ ‬پیدا‮ ‬ہونے‮ ‬والے‮ ‬بچے‮ ‬تمام‮ ‬سماجی‮ ‬و‮ ‬اقتصادی‮ ‬حثیت‮ ‬سے‮ ‬بالاتر‮ ‬ہوتے‮ ‬ہیں۔


آٹزم کی حتمی وجوہات کا تعین ابھی غیر واضح ہے۔ یہ عارضہ آپ کے دماغ کے ان حصوں میں مسائل سے پیدا ہوسکتا ہے جو حسیات سے آنےوالی معلومات اور زبان کی ترجمانی کرتے ہیں۔لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں آٹزم کا رجحان چار گنا زیادہ پایا جاتاہے۔ یہ کسی بھی نسل یا سماجی پس منظر کے لوگوں میں ہو سکتا ہے۔ خاندانی آمدنی، طرز زندگی، یا تعلیمی درجہ بچے کو آٹزم کےلا حق خطرے کو متاثر نہیں کرتے،تاہم چند خطرے والے عوامل درجہ ذیل ہیں:

جینز کے کچھ امتزاج بچوں میں آٹزم کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں کیونکہ یہ نسل در نسل بھی منتقل ہوتا ہے-بڑی عمر کےوالدین کے بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ایسی حاملہ خواتین جو بعض ادویات یا کیمیکلز جیسے الکحل یا اینٹی سیزر ادویات کا استعمال کرتی ہیں، ان کے بچے کےآٹسٹک ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ دیگر قابلِ فکر عوامل میں زچگی کے میٹابولک حالات جیسے ذیابیطس اور موٹاپا شامل ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق آٹزم کو غیر علاج شدہ phenylketonuria جسے PKU بھی کہا جاتا ہے، ایک خاص انزائم کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہونے والا میٹابولک عارضہ اور روبیلا (جرمن خسرہ) سے بھی جوڑا جاتاہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ویکسین لگوانا آٹزم کا سبب بنتی ہےعام طور پر آٹزم کی علامات 3 سال کی عمر سے قبل ظاہر ہوتی ہیں۔جبکہ کچھ بچوں میں اس کی علامات پیدائش کے ساتھ ہی ظاہر ہوجاتی ہیں۔

آٹزم کی عمومی علامات درجہ ذیل ہیں:

• نظریں نہ ملا سکنا۔• محدودمشاغل یا بعض موضوعات میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی۔ ایک ہی عمل بار بار کرنا، جیسے الفاظ یا جملے دہراتے رہنا، آگے پیچھے ہلنامخصوص آوازوں، چھونے، بو، یا منا ظر سے خاص حساسیت جو دوسرے لوگوں کو عام لگتی ہیں۔ دوسروں کو دیکھنے اور سننے سے لا تعلقی۔ جب کوئی دوسرا شخص کسی چیز کی طرف اشارہ کرے تو اس چیز سے نظریں چرانا ۔ ملنے یا گلے لگانےسے گریز کرنا۔• بولنے، اشاروں، چہرے کے تاثرات، یا آواز کے لہجے کو سمجھنے یا استعمال کرنے میں دشواری• گانا گانے کے انداز میں یا سپاٹ اور مشینی آواز میں بات کرنا۔• روٹین میں تبدیلیوں کو اپنانے میں دشواریآٹزم کے شکار کچھ بچوں کو دورے بھی ہو سکتے ہیں ۔

اتوار، 21 جولائی، 2024

جون بن حوی' بہشت جاودانی کے خریدار


 جون بن حوی' بہشت جاودانی کے خریدارکیسے بنے -اللہ نے ان کی قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی کہ  وہ بالآخر امام عالی مقام تک پہنچ ہی گئے جون بن حوی  کا آبائ وطن  افریقہ  تھا لیکن  ان کی سکونت  علاقے نوبہ  میں تھی جہاں سے وہ  اپنے  وقت کے رواج کے مطابق بحیثیت غلام  فروخت کر دئے گئے اور اب  وہ فضل بن عباس بن عبد المطلب کے غلامی میں  تھے جنہیں مولا ئے کائنات  حضرت علیؑ نے  150 دینا میں خرید کر حضرت ابوذر  غفاری  رحمۃ اللہ علیہ کو بخش دیا پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوزر   غفاری  رحمۃ اللہ علیہ کو شہر بدر کیا تو جون بھی ان کے ہمراہ چلے گئے اور حضرت ابوزر  غفاری  رحمۃ اللہ علیہ  کی وفات تک ان کے ساتھ رہے  حضرت ابوذر  غفاری  رحمۃ اللہ علیہ کے سن وفات 32 ہجری کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور اہلبیتؑ کے ساتھ رہنے لگے۔

 وہ اسلحہ بنانے اور اسے مرمت کرنے کی مہارت رکھتے تھے چونکہ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے کہ وہ شب عاشور حضرت امام حسینؑ کے خیمہ میں آپؑ کی تلوار جنگ کیلئے تیار کر رہے تھے۔ امام حسین  علیہ السلام کے اصحاب کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ کا وہ مبارک کلام نقل کیا جائے کہ جس میں آپ اپنے اہلبیت اور اصحاب کی تعریف میں فرماتے ہیں: میں نے کسی کے اصحاب کو اپنے اصحاب سے بہتر اور باوفا نہیں پایا    حضرت ابوذر غفاری کی رحلت کے بعد مدینہ واپس چلے آئے اور حضرت علی علیہ السلام  کی خدمت میں رہنے لگے۔مولا علی علیہ السلام کی    شہادت کے بعد حضرت امام حسن مجتبٰی    علیہ السلام کی خدمت میں رہے۔ ان کی شہادت کے بعد  جون بن حوی حضرت امام حسین    کے پاس آئے، پھر یہ آپ کے ساتھ مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کربلا تک آپ کے ہمراہ رہے

۔ روز عاشورجون بن حوی'حضرت   امام حسین        علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، امام نے فرمایا میں تمہیں اس سرزمین سے جانے کی اجازت دیتا ہوں، تم اپنی جان کی حفاظت کرو، کیونکہ تم ہمارے ساتھ آئے تھے،   اب اپنی جان خطرے میں نہ ڈالو۔ حضرت جون نے عرض کی: اے فرزند پیغمبر میں خوشی و مسرت کے زمانے میں تو آپ کے ساتھ رہوں اور جب آپ پر مشکل وقت آن پہنچا ہے تو آپ کو تنہا چھوڑ کر چلا جائوں!خدا کی قسم اگرچہ میرا جسم بدبودار ہے، میرا حسب نسب پست اور میرا رنگ سیاہ ہے، لیکن آپ مجھ پر رحم فرمائیں اور مجھے جن کی جادووانی زندگی سے بہرہ مند فرمائیں، تاکہ میرا جسم خوشبوادر ہو جائے، میرا حسب و نسب شریف اور میرا چہرہ نورانی ہو جائے، خدا کی قسم میں آپ سے اس وقت تک دور نہیں ہوں گا، جب تک میرا سیاہ خون آپ کے پاک خون کے ساتھ غلطان نہ ہوجائے۔ اس کے بعد حضرت جون نے جنگ شروع کی۔ جب میدان جنگ میں اترے تو ایسے آئے جیسے ایک غضبناک شیر اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے۔اور لاتعداد یذیدی سپاہ کو جہنم واصل کیا 

آخر کار دشمن کی فوجوں نے آپ کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ آپ تیر و تبر کے بے شمار  زخم کھا کر زمین پر گرے۔ امام ، جون کے پاس پہنچے اور جون کا سر اپنے دامن پر رکھا اور بہت گریہ فرمایا اور اپنا مبارک ہاتھ، جون کے چہرے اور جسم پر پھیرا اور دعا فرمائی، اے پروردگار! جون کے چہرے کو سفیدی عطا فرما۔ اس کی بو کو پسندیدہ بنا اور اسے خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ محشور فرما۔ واقعہ عاشورا کے دس روز بعد بنو اسد کی ایک جماعت نے حضرت جون  کی لاش مطہر کو تلاش کیا۔ اتنے عرصہ کے باوجود ان کا جسم مبارک معطر اور نورانی تھا   س کے بعد انہیں دفن کر دیا گیا۔،    

ہفتہ، 20 جولائی، 2024

جب حر نے جنت کا انتخاب کیا

 

کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو کب توبہ کی توفیق میسر آجاءے تو ہوا یوں کہ امام عالی مقام نے جب سفر کربلا کے دوران زبالہ نامی قریہ کی جگہ میں قیام فرمایا اور کچھ آرام کے بعد دوبارہ سفر شروع کرنے کا ارادہ کیا تب حضرت عباس سے فرمایاپانی کا وافرذخیرااپنے ساتھ لے لو اطاعت گزار بھائ  نےفوراً   تعمیل کی اور بہت بڑی تعداد میں پانی سے بھرے مشکیزے اونٹوں پر لاد دئے گئے اور یہ قافلہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا  -درمیان راہ اچانک آپ  علیہ السلا م  کے اایک صحابی نے نعرہ تکبیر بلند کیاامام  نے بھی اپنی زبان الہام بخش پر تکبیر کے الفاظ دہرائے اورتکبیر بلند کرنے کا سبب دریافت کیا  انہوں  نے جواب دیا:مولا میں کچھ کھجورکے درخت دیکھ رہاہوں، ؛دوسرے ہمراہیوں نے تعجب خیز !لہجے میں کہا کہ ہم اس جنگل سے آشنا ہیں یہاں پر تو کوئی کھجور کاباغ ہی نہیں ہے ،امام  نے فرمایا: غور سے دیکھو!،کچھ دکھائی دے رہا ہے ؟صحابیوں نے جواب دیا:مولا ہمیں تو گھوڑوں کی کچھ گردنیں دکھائی دے رہی ہیں ،حضرت نے بھی ان لوگوں کے قول کی تائید کی ،یکایک ابن زیاد کالشکر آنکھوں کے سامنے تھا،اور شدت تشنگی سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں امام سے یہ منظر کربناک دیکھا نہ گیاآپ نے حکم دیاکہ ان کو سیراب کرو! ہاں ! ان کے گھوڑے بھی پیاسے نہ رہ جائیں -اس لشکر کا کمانڈر ابن زیاد کی فوج کا ایک جری جرنیل  جس کانام حر بن یزید تمیمی تھا


اس دشت میں اس جرنیل کا تمام لشکر بہت پیاسا تھا اور تمام جانور بھی  پیاسے تھے  امام عالی مقام نے فوراً  اس لشکر کی پیاس بجھانے کے لئے کہا اصحاب امام نے اس  پانی سے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے  دشمن کے لشکر اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلانا شروع کیا، پانی سے بھرے برتن گھوڑوں کے سامنے رکھے گئے یہاں  تک کہ جانور بھی سیراب ہوگئے علی ابن الطعان کہتا ہے :کہ میں لشکر حر میں تھااور اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ گیاتھاجب میں پہونچا تمام لشکر والے اپنے جانوروں سمیت سیراب ہو چکے تھے اور مجھ پر پیاس کاشدید غلبہ تھا جیسے ہی امام حسین نے میری حالت قریب المرگ دیکھی تو پانی کی مشکوں سے لدے ایک اونٹ کی طرف میری رہنمائی فرمائی اور مزید فرمایا:کہ جاؤ !اور اس اونٹ کو بیٹھا کر اس سے پانی اتار کر پی لو !لہذا میں اونٹ کے قریب گیااور اس کو بیٹھاکر پانی اتار کر جیسے ہی پینا چاہتاتھاپانی میرے منھ سے نکل کر زمین پر بہنے لگا حضرتؑ نے یہ منظر دیکھا  بنفس نفیس خود تشریف لائے اور مشک کو اپنے ہاتھوں سے پکڑا اور مجھے پانی پلانا شروع کیایہاں تک کہ میں سیراب ہوگیا،اور میرے گھوڑے نے بھی جی بھر کر پانی پیا-ابن زیادکا یہ لشکر   پانی پی کر آرام کرنے لگے یہاں تک کہ نماز ظہر کاوقت ہو  گیا

یہ وہ مقام ہے کہ جہاں حر بن یزید ریاحی قوت ادب و تہذیب کے ذریعے ایک قدم حق کی طرف آگے بڑھا ؟جیسے ہی ظہر کاوقت ہواسر کار سیّد الشہدآ ءنے اپنے قافلے کے مؤذن جناب  حجاج بن مسروق جعفی سے فرمایا :اذان دو! پھر اس کے بعد حر کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا:کہ کیا تم پنے لشکر کے ہمراہ نماز پڑھو گے؟لیکن خلاف توقع لشکر دشمن کے سپہ سالار نے جواب دیا:فرزند رسول میں تو آپ  کی معیت  میں فریضہ ظہر ادا کروں گا  -یہ ادب و تہذیب سے مملوء نماز کہ جس کو وہ فرزند رسول کی اقتداء میں پڑھنا چاہتا تھا در واقع یہ تہذیب دشمن سے بے نیازی اور پشت دکھانے کے مترادف ہے یہ چیز ان کو ایک قدم خالق حقیقی سے نزدیک لے گئی اور یہی وہ بنیادی قدم تھاکہ جو ان کے اوپر باب رحمت کھلنے کاسبب قرار پایاغرض تمام لشکر نے امام  کی اقتداء میں نماز پڑھی 

امام روؤف نے جواباً ارشاد فرمایا:" نعم ،یتوب اللہ علیک "ہاں تمہارے لئے بھی امکان  توبہ ہے اپنے سر کو زمین سے اٹھاؤاللہ نے تمہاری توبہ کو قبول کر لیا ہے   اور جیسا کہ ابن نمای حلی اپنی کتاب مثیر الاحزان میں نقل کرتے ہیں کہ حر نے امام حسین کی خدمت میں عرض کی  یابن رسول اللہ!جس وقت میں کوفہ سے باہر آیا تو میری پشت کی جانب سے ایک آواز آئی کہ اے حر!تجھے جنت مبارک ہو !حضرت نے فرمایا:"لقد اصبت اجراً و خیراً"،حر تم نے خدا کی بشارت کو اچھی طرح پہچان لیااور یزیدیوں کو چھوڑ کر اہل بیت رسول سے ملحق ہو گئے اور خود کو اس بشارت تک پہونچا دیا-حر کوفہ کے مشہور ترین جنگی دلاوروں میں سے تھے  بعض منابع نے اشتباہ کی وجہ سے انہیں عبید اللہ بن زیاد کے شُرطہ ہونے کے عنوان سے ذکر کیا ہے   پس اس بنا پر وہ صاحب شرطہ کے عنوان سے نہیں بلکہ وہ ایک فوجی منصب کے حامل تھے اور انہیں عبیداللّه بن زیاد کی طرف سے تمیم و ہمْدان کے جوانوں پر مشتمل فوج کی سپہ سالاری کے فرائض کے ساتھ امام حسین علیہ السلام  کو روکنے کیلئے مامور کیا گیا 


 اگرچہ حر بن یزید ریاحی امام سے جنگ کرنے کیلئے مامور نہیں تھا لیکن وہ شروع سے ہی امام حسین ؑ کو ممکنہ جنگ کی تنبیہ کرتا رہا یہانتک کہ کہتے ہیں کہ اس نے امام کو تنبیہ کی کہ اگر جنگ ہوئی آپ یقینا قتل ہو جائیں گے ۔ جب موقع ملتا پاتا تو امام سے خدا کیلئے آپ اپنی جان کی حفاظت کریں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپ کا قتل ہونا یقینی ہے ۔لیکن امام نے اسے اس شعر میں جواب دیا:خدا کی راہ میں موت سے کوئی ڈر و خوف نہیں ہے پھر اس کے بعد حر نے امام  سے اجازت لی اور میدان کارزار کی طرف روانہ ہوئے کوفیوں سے شدید قتال کیا آخر میں  جا شہادت نوش کرکے اس بشارت کو پالیا   صحاب امام حسین  نے ان کے زخموں سے چور چور بدن کو زمین سے اٹھایا اور قریب خیمہ لاکر امام کے سامنے رکھ دیامولا حر کے سرہانے بیٹھ گئے اور ان کے خون آلود رخسار پر اپنا دست مبارک پھیرا چہرے سے غبار کربلا کو ہٹایا اور اس جملے کو فرمایا:"انت الحرّ کما سمتک امّک حرّاً فی الدنیا و سعید فی الآخرۃ ِ"اے حر!تو دنیا میں آزاد ہے جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام حر رکھا تھا اور آخرت میں نیک بخت اور خوش نصیب ہے  -اور حر نے دنیا کو ٹھکرا کر آخرت کی منزل مراد پالی


جمعہ، 19 جولائی، 2024

اسیران حرم دربار ابن زیاد میں

 

 چشم دید گواہوں  کے مطابق اسیران آل  رسول  اور شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ کے شہر میں پھرانے کے بعد جب ابن زیاد دربار میں لایا گیا تو عوام کو دربار میں داخل ہونے کی اجازت دی اور امام حسینؑ کے سر کو اس کے سامنے رکھا گیا اور پھر اسیر خواتین اور امام حسینؑ کے بچوں کو دربار میں لایا گیا۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا  دیگر اسیر خواتین کے حصار میں تھیں اور دربار میں آنے کے بعد کونے میں بیٹھ گئیں۔عبیداللہ ابن زباد نے پوچھا: یہ عورت جو کونے میں خواتین کے درمیان ہے کون ہے؟ جناب زینب  سلام اللہ علیہا نے جواب نہیں دیا۔عبیداللہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔ تو کسی کنیز نے کہا: وہ پیغمبر کی نواسی زینب ہیں۔عبيدالله بن زیاد: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔


زینب سلام اللہ علیہا   نے اس بد بخت کو جواب دیا-- تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازااور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی، اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا، اور بدکار ہم نہیں تم اور تمہارے پیروکار بدکار ہیں اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔ابن زیاد: دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟زینب  سلام اللہ علیہا : اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کے مقدر میں اللہ تعالی نے شہید ہونا قرار دیا تھا اور انہوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمہاری شکایت کریں گے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے، اے ابن مرجانہ کے بیٹے تم پر تمہاری ماں روئے!ابن زیاد: اللہ نے تمہارے نافرمان بھائی حسین، اس کے خاندان اور سرکش لشکر کو مار کر مرے دل کو ٹھنڈک دی۔


زینب سلام اللہ علیہا : خدا کی قسم تم نے ہمارے بزرگ کو مارا، ہمارے درخت کو کاٹا اور جڑ کو اکھاڑا، اگر یہ کام تمہاری دلی تسکین کا باعث ہو تو تم نے شفا کو پایا ہے۔ابن زیاد غصہ اور توہین آمیز حالت میں یہ بھی اپنے باپ علی کی طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمہارا باپ بھی شاعر تھا اور  قافیے میں بات کرتا تھازینب سلام اللہ علیہا نے جب کہا: «ہم نے اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا..... اے ابن مرجانہ تمہاری ماں تم پرروئے.....ان جملوں اور جناب زینب (س) کی نپی تلی اور باوقار گفتگو کو سن کر ابن زیاد غصہ میں آ گیا اوراس نے جناب زینب  کو سزا دینا چاہی لیکن وہ اس پر قادر نا ہو سکا۔۔

اس کے بعد ابن زیادہ ملعون  نے امام سجا دعلیہ السلام  کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ یہ علی بن حسین علیہ السلام ہے۔ تو ابن زیادہ لعین کہتا ہے: علی بن حسین کو تو اللہ نے قتل نہیں کردیا؟ یہ سننا تھا کہ امام سجادعلیہ السلام  نے نہایت شجاعت اور بغیر کسی خوف و ڈر کے گرجتی ہوئی آواز میں اس ملعون سے کہا: میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی بن حسین ہے لوگوں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ اس لہجے میں یہ جواب سن کر ابن زیادہ ملعون نے کہا:لوگوں نے نہیں بلکہ اسے اللہ نے قتل کیا ہے۔ امام سجادعلیہ السلام نے رسول خدا(ص) سے ورثے میں ملنے والی دانائی اور امیر المومنین علیہ السلام کی شجاعت کے ساتھ اس ملعون کو اپنے دلیرانہ لہجے میں کہا

: اللہ تو موت کے وقت روحوں کو قبض کرلیتا ہے،اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔ ابن زیادہ ملعون نے جب یہ جواب سنا تو اس نے کہا: تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھے جواب دیتے ہو، پھر اس ملعون نے جلادوں سے کہا: اسے لے جا کر اس کی گردن اڑا دو۔ اس ملعون کی یہ بات سنتے ہی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے بڑھ کر فرمایااے ابن زیاد تو ہم سے میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا، اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ مجھے بھی قتل کر دو۔ امام سجادعلیہ السلام  نے فرمایا -اے میری پھوپھی جان آپ مجھے اس سے بات کرنے کی مہلت دیں۔ پھر امام سجادعلیہ السلام  نے ابن زیاد ملعون کو مخاطب کر کے  فرمایا: اے ابن زیاد کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دیتے ہو؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ قتل ہو جانا تو ہماری عادت ہے اور شہادت تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے عطا کردہ سعادت ہے۔اسیران کربلا کے سامنے اپنی بے بسی دیکھ کراس ملعون نے دربار برخاست کر دیا 

جمعرات، 18 جولائی، 2024

جب ہنگام عصر تمام ہوا

 

ہنگام عصر تمام ہوا تو ایک جانب  صحرائے کربلا میں لاشہء ہائے شہدا ء بے گوروکفن تھے تو دوسری جانب یزید ی ملعون فوج کی انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئ تھی چنانچہ شمرلعیں نے اپنے بدخو ساتھیوں کے ہمراہ غشی کے عالم میں بے ہوش جناب سیّد سجّاد بیمار کربلاکے خیمے پر دھاوا بولا کسی سپاہی نے بیمار کربلا کا بستر کھینچا کسی نے نیزے کی انی چبھوئ اورشمر لعین اپنی تلوار سونت کر اپنے سپاہیوں سے چلّا کر کہنے لگا خبردار حسین کی نسل سے ایک مرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا ہئے اور اسی لمحے جناب زینب سلام اللہ علیہا جو بیمار بھتیجے سے لمحے بھر کو بھی غافل نہیں تھیں اپنی بے ردائ کی پرواہ نا کرتے ہوئے اسی لمحے شمر کی تلوار اور سیّد سجّاد کے درمیا ں آ گئیں اور پھر آپ سلام اللہ علیہا نے شمر کو للکار کر کہا او سنگ دل ! تف ہئے تیری اوقات پر کہ تو ایک مریض کو قتل کرنے چلا ہئے ,,,,,جناب زینب کی تنبیہ وہ بیمار کربلا کے خیمے سے جھلّایا ہوا باہر نکلا اور اپنی ناکامی پر اپنے ساتھیوں سے چلّا کر کہنے لگا ،،خیمو ں میں جلدی آگ لگاؤ تاکہ حسین کا بیمار اور باقی سب بھی جل راکھ ہو جائیں اور بی بی زینب تو ابھی بیمار کربلاکی دلداری میں مصروف تھین کہ خیام اہلبیت سے ننھے بچّوں اور مخدرات کی فلک شگاف چیخیں بلند ہونے لگیں بی بی زینب بیمارکربلا کو چھوڑ کر جیسے ہی باہر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ خیام اہلبیت میں آگ لگائ جا چکی تھی اور ننھے بچّے اور بیبیاں اپنی جانیں بچانے کو ادھر سے ادھر تک بھاگ رہئے اور ان بھاگتے ہوئے ننھے بچّوں پر اور بیبیوں پر فوج اشقیاء تازیانے برسا رہی تھی


ایسے وقت میں بی بی زینب سیّد سجّاد کو خیمے میں چھوڑ کر چھوٹے بچّوں کوایک جگہ جمع کرنے کے لئےجیسے ہی سیّد سجّاد کے خیمے سے باہرآ  کر بچّون کی جانب متوجّہ ہوئیں ویسے ہی شمر لعیں اور اس کے ساتھیوں نے بیمار کربلا کے خیمے کو آگ لگا دی اور پھر بی بی زینب سب کو چھوڑ کر وارث امامت کی جان بچانے کے لئے بھڑکتے اورآگ اگلتے شعلوں کی پروا نا کرتے ہوئے بیمار کربلا کےخیمے میں داخل ہو کر جناب سیّد سجّاد کو اپنی پشت پر اٹھا کرجلتے ہوئے خیمے سے باہر لےآ ئیں اور اپنے وارث امامت بھتیجے کو صحرائے کربلا کی گرم ریت پر لٹا دیا ,,,اور آج کی قیامت خیز رات میں بھی نماز شب کا وقت بتانے والے ستاروں نے اپنی پرنم آنکھوں سے صحرا کی گرم ریت پربے وارثوں کے قافلے کی حفاظت پر معمو رایک بی بی کو سر بسجود  یہ منظردیکھا،جس کے لب ہائے حزین پر مناجات پروردگار تھی ،،پروردگارا تو ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما ،،اور ہمیں کبھی بھی اپنی حمائت سے محروم نا رکھنا ،،ہمیں ہماری منزل مقصود تک ضرور پہنچا دے ،وہ منزل جس کے لئے ہم آل محمّد کو تو نے خلق فرمایا


،،زینب حزیں کی دعائے نیم شب تمام ہوئ تو صبح کے اجالے پھیل رہئے تھے اور زینب نے اپنی جگہ ایستادہ ہو کر منظر دیکھا ایک جانب مقتل کربلا تھا جس میں آل محمّد کے سر بریدہ بے گوروکفن لاشے گرم ریت پر بکھرے ہوئے تھے دوسری جانب نگاہ اٹھی تو جلے ہوئےخیام اہلبیت اپنی جلی ہوئ راکھ اڑاتے ہوئے  گریہ کناں تھے تیسری جانب دیکھا تو بے ردا بیبیا ں تھیں جن کی گودیاں اجڑ چکی تھیں اور سر سے وارث کا سایہ بھی اٹھ چکا تھا اور ننھے ننھے بچّے جنکے وارث کربلا کے بن میں شہید کئے جاچکے تھے اور پھر جو نگاہ ایک اور سمت گئ تو زینب نے اپنے بہتّر پیارون کے بہتّر کٹے ہوئےسر چمکتے ہوئے نیزوں پر آویزاں دیکھے تو آپ سلام اللہ علیہا نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور آپ کے لب ہائے مقدّس پر دعاء آئی ,,اے مالک ہماری قربانیوں کو قبول فرما۔ قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی ایک اور صبح غم طلوع ہوئ اور آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں ا


ور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب  حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین,,اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ  فوج اشقیاء کے حکم سے  پس گردن بندھوائے  ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ( آپ ) کہ قیدی اپنے قافلے کی  مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا،،میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیا 


اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ آپ سلام اللہ علیہا خیال کیا کہ کہیں امام سجّاد کو صدمے سے کچھ ہو ناجائے اور اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا ،،امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہئے تھے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے زمین پر گرتے ہی پھو پھی کی جانب جلدی سے آگئے اور اپنے نحیف ہاتھوں سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو سہارا دیتے ہوئے سوال کیا پھو پھی ا مّاں کیا ہوا ?بی بی زینب نے جناب امام سجّاد کو جواب دیا ،بیٹا سجّاد تم امام وقت ہو ،خدائے عزّو جل تمھین اپنی امان میں رکھّے تمھارا عہد اما مت بہت ہی کڑی منزلون سے شروع ہوا ہئے ،


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

بابا بلھے شاہ کی شاعری شرح عشق اور شرع کی مالا

  بلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 3 مارچ 1680ء (1091ھ) میں مغلیہ سلطنت کے عروج میں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہو ئے۔...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر