بدھ، 10 جولائی، 2024

مسلم بن عوسجہ کربلا کےمیدان کارزار میں

  زیارت ناحیہ کے مطابق مسلم بن عوسجہ ان پہلے شہداء میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے پیمان وفا کو پورا کیا-مسلم بن عوسجہ اسدی  حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی تھے۔  -   اسدی  قبیلے کے بہت سے افراد اہل بیت سے محبت رکھتے تھے۔ ہجرت سے 20 سال پہلے یمن میں پیدا ہوئے.  رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن اصحاب نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں مقام شہادت حاصل کیا ان میں سے ایک جناب مسلم بن عوسجہ بھی     ہیں-واقعۂ کربلا سے پہلے جناب مسلم بن عقیل کے قیام میں قبیلہ مذحج اور بنی اسد کی سربراہی ان کے ہاتھ میں تھی. آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلا میں موجود تھے اور آپ کا بیٹا بھی کربلا کے شہیدوں میں سے ہے۔آپ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ صدر اسلام کے ان شجاعان عرب میں سے ہیں جنہوں نے آذربائیجان اور دیگر علاقوں کی فتح میں مسلمان لشکر کی ہمراہی کی۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایات بھی نقل کی ہیں۔


مسلم بن عوسجہ کی صفاتِ کمال -مسلم بن عوسجہ شجاع ترین جنگجو اور جرأت و جوانمردی کا عظیم نمونہ تھے۔ آپ کا شمار اپنے زمانے کے معروف عابدوں زاہدوں میں ہوتا ہے۔ عبادت و زہد نے آپ کو خانقاہوں میں مقید نہیں کیا اور نہ امامؑ کی جانب سے وجود میں آنے والی سیاسی فعالیت سے غافل رکھا۔ شجاعت و عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ قاری قرآن اور عالم و فاضل تھے۔ کوفہ کے معاشرے میں آپ ان اہل شرف میں شمار ہوتے تھے جو اپنی فدا کاری اور ایثار میں نمایاں تھے۔سفیر حسینؑ مسلم بن عقیل کی جب کوفہ آمد ہوئی اور ان کے استقبال کے جو حالات تاریخی کتب میں وارد ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ امت اسلامیہ کی سیاسی و اجتماعی مسائل سے بھر پور واقف تھے اور امامت کی جانب سے برپا ہونے والے سیاسی و اجتماعی تحرکات کا باقاعدہ حصہ تھے۔بعض منابع کے مطابق جناب مسلم بن عقیل کوفہ میں پہلے مسلم بن عوسجہ کے گھر مقیم ہوئے اور ان کے گھر میں لوگ جناب مسلم بن عقیل سے ملنے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرتے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ کے اہل خانہ بھی کربلا میں موجود تھے ۔مؤرخین کے بقول خلف بن مسلم بن عوسجہ آپ کا ہی بیٹا تھا جو اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوا۔

شیخ مفید نے نقل کیا ہے: روز عاشورا حضرت امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب نے خیام کی حفاظت کیلئے خیام کی پشت پر خندق کھود کر آگ روشن کی ۔ شمر بن ذی الجوشن نے آگے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہا : اے حسین ! قیامت سے پہلے ہی آگ جلا لی ہے ۔امام نے فرمایا : یہ کون ہے لگتا ہے شمر ہے ؟ جواب دیا گیا ہاں وہی ہے ۔امام نے سورۂ مریم کی 70ویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اے چرواہے کے بیٹے!تو اس آگ کیلئے سزاوار ہے ۔ مسلم بن عوسجہ نے فرزند رسول سے اسے تیر مارنے کی اجازت طلب کی اور کہا وہ میرے تیر کی مار میں ہے اور میرا تیر خطا نہیں جائے گا۔ امام نے جواب میں فرمایا : میں جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتا لہذا تیر مت ماروکی قسم! تم میں سے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرزند کے راستے میں بصیرت و آگہی کے ساتھ جام شہادت نوش کرے گا وہ اعلٰی عِلِیّین (یعنی جنت کے اعلیٰ درجے لوگوں کے رتبے) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ ہوگا" جس شخص نے سب سے پہلے حبیب کی ندا پر لبیک کہا اور وفاداری کا اعلان کیا وہ "عبد اللہ بن بشر" تھے۔ عبد اللہ اور بنی اسد کے کچھ افراد حبیب کے گرد جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرف حضور پانے کا ارادہ کیا لیکن یزیدی فوج سے ازرق بن حرب صیداوی نے 4000 افراد کا لشکر لے کر ان پر حملہ کیا اور قبیلہ بنی اسد کو منتشر کردیا-اور یہی وہ وقت تھا جب مسلم بن عوسجہ اور حبیب ابن مظاہر نے کوفہ چھوڑ دیا  اور چھپتے چھپاتے کربلا میں آ کر امام  عالی مقام سے متصل ہو گئے

 شب عاشور-شب عاشور امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اپنے اصحاب سے بہترین اصحاب اور اپنے اہل بیت سے بہترین اہل بیت کسی کے نہیں دیکھے اور اس کے بعد انہیں رات کی تاریکی میں  چھوڑ  کرچلے جانے کی تلقین اور یہ باور کروایا کہ دشمن فقط مجھ حسینؑ کا کو قتل کرنا چاہتا ہے اس لیے تم سب یہاں سے خاموشی کے ساتھ رات کی تاریکی میں نکل جاؤ۔امام حسینؑ کے اس دستور پر ان کے اہل بیت اور اصحاب نے اپنی وفاداری اور فدا کاری کا یقین دلایا اور امام حسینؑ کے بغیر زندگی کے تصور کا انکار کیا۔ ایک ایک کر اصحاب کھڑے ہوتے جاتے اور امام حسینؑ سے محبت و وفا داری کا اظہار کرتے اور جانے سے انکار کرنے لگے۔ انہی میں مسلم بن عوسجہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔اگر ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں تو آپ کا حق اداء کرنے کے وظیفہ کے بارے میں اللہ کے سامنے یا عذر پیش کریں گے؟! قسم بخدا ! جب تک میں اپنے نیزے کو ان کے سینوں میں نہ گاڑ دوں اور اپنی تلوار سے ان وار نہ کر لوں، جب تک میرے ہاتھوں گرفت اس تلوار پر قائم ہے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، اگر میرے پاس اسلحہ باقی نہ رہے تو بھی میں ان سے جنگ لڑتا رہوں گا اور پتھروں کے ساتھ ان پر حملہ کروں گا، یہاں تک کہ آپ کی سرپرستی میں آپ کے ہمراہ موت سے ہمکنار ہو جاؤں۔ قسم بخدا! ہم آپ کو ہر گز تنہا نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ اللہ جان لے کہ نے رسول اللہؑ کی غیبت میں آپ کی حفاظت کی ہے، قسم بخدا! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر جلا دیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا جاؤں گا اور اس طرح میرے ساتھ ۷۰ مرتبہ کیا جائے تو بھی میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہمراہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں-

شہادت -روز عاشور عمر بن سعد نے لشکر کے دائیں حصے کا علم عمرو بن حجاج کے سپرد کیا تھا اس حصے نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے اصحاب با وفا پر حملہ کیا ۔دونوں میں لڑائی شروع ہوئی تو دونوں طرفیں اسی دوران فرات کی طرف چلے گئے ۔ مسلم بن عوسجہ اس حملہ میں موجود تھے ۔مسلم بن عبد اللہ ضبائی اور عبدالرحمان بن ابی خشکارہ نے مسلم بن عوسجہ پر حملہ کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا۔ حضرت مسلم بن عوسجہ جب خون میں غلطان تھے تو حضرت امام حسین اور حبیب بن مظاہر آپ کے سرہانے پہنچے ۔امام نے اسے کہا:اے مسلم! خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ اور پھر اس آیتفَمِنهُم مَن قَضی نَحبَهُ و مِنهُم مَن یَنتَظِر و ما بَدّلوا تَبدیلاًکی تلاوت فرمائی۔ حبیب بن مظاہر اسکے قریب ہوئے اور کہا :تمہارا قتل ہونا میرے لئے نہایت سخت ہے لیکن میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔مسلم بن عوسجہ نہایت نحیف آواز میں کہا: میں بھی تمہیں خیر کی بشارت دیتا ہوں ۔حبیب نے کہا:اگر  اللہ کے گھر کی وداعئ  کا وقت قریب نہ ہوتا میں تم سے خواہش کرتا کہ تم مجھے وصیت کرو تاکہ میں حق دینی اور رشتہ داری کا حق ادا کرتا۔ مسلم بن عوسجہ نے امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حبیب سے کہا:میں تمہیں اس شخص(یعنی امام حسین علیہ السلام ) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے بدن میں جان باقی ہے اس کا دفاع کرنااور اپنے قتل ہونے تک اس کی مدد اور حمایت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ حبیب نے جواب میں کہا : میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور تمہاری آنکھوں کو روشن کروں۔


 

اتوار، 7 جولائی، 2024

*جاں نثار امام' حبیب بن مظاہر اسدی٭

 حبیب بن مظاہر اسدی، قبیلۂ بنو اسد میں سے اور کوفہ کے باشندے ہیں اور حضرت علیؑ کے خاص صحابی ہیں۔ ۔وہ ان کوفیوں میں سے ہیں جنہوں نے امیر شام  کی موت اور خلافت  یزید کی باز گشت کے بعد امام حسینؑ کو خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی لیکن جب انھوں نے کوفیوں کی بیعت شکنی کو دیکھا تو چپکے سے کوفہ چھوڑ کر امام حسینؑ سے جا ملے اور 75 سال کی عمر میں امام حسینؑ کی رکاب میں جام شہادت نوش کرگئےحبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ خفیہ طور پر لوگوں سے مسلم کے لئے بیعت لیتے تھے اور اس راہ میں ان دو نے کوئی قصور روا نہيں رکھا۔ ابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو انھوں نے مسلم کا ساتھ چھوڑ اور بیعت توڑ دی چنانچہ قبیلۂ بنو اسد نے حبیب اور مسلم بن عوسجہ کو پناہ دی تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے اور موقع پاکر دونوں خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئے۔حبیب شہر کوفہ میں میثم سے کہتے ہیں: "گویا ایک مرد کو دیکھ رہا ہوں جو الزرق کے بازار میں خوبوزے فروخت کررہا ہے ۔


عاشورا میں میسرہ کے کمانڈر

صبح عاشورا جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے لشکر کو آراستہ کیا تو زہیر بن قین کو میمنہ کا سالار مقرر کیا اور حبیب بن مظاہر کو میسرہ کا سالار اور قلب لشکر کی کمان بھائی ابوالفضل کے سپرد فرمائی۔شکر یزید کی طرف سے زیاد بن ابیہ کا غلام "یسار" اور عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ کا غلام "سالم" دونوں میدان میں آئے اور حریف طلب کیا۔ حبیب اور بریر ہمدانی مقابلے کے لئے اٹھے مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی۔ بعدازاں عبیداللہ بن عمیر کلبی ان کی طرف لپکے اور اپنا تعارف کرایا لیکن انھوں نے حبیب، زہیر اور بریر کو جنگ مقابلے کے لئے طلب کیا؛ تاہم عبیداللہ بن عمیر نے کار نمایاں کرکے ان دونوں کو ہلاک کر ڈالا۔


بالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلا میں امام حسینؑ کے قافلے سے جاملےابن زیاد کوفہ آیا اور لوگوں پر دباؤ ڈالا تو انھوں نے مسلم کا ساتھ چھوڑ اور بیعت توڑ دی چنانچہ قبیلۂ بنو اسد نے حبیب اور مسلم بن عوسجہ کو پناہ دی تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے اور موقع پاکر دونوں خفیہ طور پر کوفہ سے نکل گئے۔ وہ دن کی روشنی میں ابن زياد کے جاسوسوں اور گماشتوں کی نظروں سے کہیں چھپ جاتے تھے اور راتوں کو سفر کرتے تھے حتی کہ امام حسینؑ کی لشکر گاہ تک پہنچے۔ بالآخر وہ سات محرم الحرام کو کربلا میں امام حسینؑ کے قافلے سے جاملےاپنی کم تعداد کے باوجود اپنی قوت ایمانی سے لیس اور اخلاص کے ساتھ اسلام کے دفاع اور محبت و ولایت اہل بیت علیہم السلام سے سرشار جذبے کے ساتھ دشمن کے سامنے ڈٹ گئے ان باوفاء اصحاب نے عطاء وفداء کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملے گی جس کی گواہی حضرت امام حسین علیہ السلام کے اپنے اصحاب کے بارے میں کہے گئے کلام سے ملتی ہے 


حبیب کا بنی اسد سے مدد مانگنا

عمر بن سعد کے لشکر میں مسلسل میں اضافہ ہوتا گیا تو حبیب امام حسین علیہ السلام سے اجازت لے کر قبیل بنی اسد کی طرف چلے گئے اور ایک مفصل خطبہ دے کر ان سے مدد مانگی۔انھوں نے اپنے خطاب کا کچھ یوں آغاز کیا: "میں تمہارے لئے بہترین تحفہ لے کر آیا ہوں اور تم سے درخواست کرتا ہوں کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مدد کے لئے چلے آؤ؛ کیونکہ آپ اپنے بہادر اصحاب کی ایک جماعت کے ہمراہ - جن میں سے ہر فرد ایک ہزار افراد کے برابر ہے اور آپ کے فرمان سے سرتابی نہیں کرتے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ آپ کا دفاع کرتے ہیں تاکہ آپ کو دشمنوں کی طرف سے کسی قسم کی گزند نہ پہنچے - کربلا کی سرزمین پر موجود ہیں جنہیں عمر بن سعد کی سرکردگی میں 22 ہزار یزیدیوں پر مشتمل لشکر نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ تم میرے اقرباء اور اعزاء میں سے ہیں، میری نصیحت کی طرف توجہ کرو تاکہ دنیا اور آخرت کی شرافت حاصل کرسکو۔۔۔ خدا کی قسم! تم میں سے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرزند کے راستے میں بصیرت و آگہی کے ساتھ جام شہادت نوش کرے گا وہ اعلٰی عِلِیّین (یعنی جنت کے اعلیٰ درجے لوگوں کے رتبے) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ ہوگا" جس شخص نے سب سے پہلے حبیب کی ندا پر لبیک کہا اور وفاداری کا اعلان کیا وہ "عبد اللہ بن بشر" تھے۔ عبد اللہ اور بنی اسد کے کچھ افراد حبیب کے گرد جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرف حضور پانے کا ارادہ کیا لیکن یزیدی فوج سے ازرق بن حرب صیداوی نے 4000 افراد کا لشکر لے کر ان پر حملہ کیا اور قبیلہ بنی اسد کو منتشر کردیا۔ حبیب، امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا کہہ سنایا۔ 


مندرجہ ذیل کا رجز حبیب بن مظاہر سے منسوب ہے:

أَنَا حَبيبٌ وَأبي‌ مُظَّهَرْ • فارِسُ هَيجاءٍ وَلَيثُ قَسْوَرْ

وَفي‌ يميني‌ صارِمٌ مُذَکَّرْ • وَفيكُمُ نارُ الجَحيمِ تُسْعَر

أَنْتُمُ أَعَدُّ عُدُّةً وَأَكْثَرْ • وَنَحْنُ في‌ كُلِّ الأُمورِ أَجْدَر

وَأَنتُمُ عِنْدَ الوَفاءِ أَغْدَر • لَنَحْنُ أَزْكى مِنْكُمُ وَأَطْهَرْ

وَنَحْنُ أَوْفى مِنْکُمُ وَأَصْبَرْ • وَنَحْنُ أَعْلى حُجَّةً وَأَظْهَرْ

حَقّاً وَأَتْقى مِنْكُمُ وَأعْذَرْ • المَوْتُ عِنْدي‌ عَسَلُ وَسُكَّرْ

مِنَ البَقاءِ بَينَكُم يا خُسَّر • أَضْرِبُكُم وَلا أَخافُ المَحْذَرْ

عَنِ الحُسَينِ ذِي الفِخارِ الأَطْهَرْ • أنْصُرُ خَيرِ الناسِ حينَ يذْكَرْ؛ (45)

میں حبیب ہوں، میرا والد مظاہر ہے

بھڑکتی شعلہ ور رزمگاہ کا شہسوار ہوں

ہاتھ میں میرے عمدہ کاٹ کی تلوار ہے

جو تمہارے درمیان دوزخ کی آگ بھڑکاتی ہے

تم گنتی میں زیادہ اور ہتھیاروں سے لیس ہو

جبکہ ہم تمام معاملات میں زیادہ لائق ہیں

تم وفاء کے لحاظ سے عہدشکن اور بہت زیادہ غدار ہو

اور ہم پاک تر اور پاک سرشت تر ہیں

اور ہم تم سے زیادہ وفادار اور زیادہ صبر کرنے والے ہیں

اور ہم حجت و استدلال کے لحاظ سے برتر اور پاک تر ہیں

حق یہ ہے کہ ہم تم سے زیادہ پرہیزگار اور زیادہ صاحب برہان ہیں

موت میرے نزدیک شہد اور شَکَر ہے

تمہارے درمیان بقاء اور رکنے کی نسبت، اے گھاٹے میں گھرنے والو

تمہیں مارتا ہوں اور کسی خبردار کرنے والے سے نہیں ڈرتا

حسین کی طرف سے، جو پاک ترین، سربلندلئے بیعت لیتے تھے 

ہفتہ، 6 جولائی، 2024

جناب حضرت مسلم بن عقیل 'ہانی بن عروہ اورساتھیوں کی شہادت

 



جناب  حضرت مسلم بن عقیل 'ہانی بن عروہ اورساتھیوں کی شہادت -جناب مسلم بن عقیل امام حسین علیہ السلام کے شجاع اور بہادر سفیر کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے جناب ہانی کے قتل کا حکم جاری کر دیا اور محمد بن اشعث کودیئے گئے وعدہ کو کہ ہانی کواس کے حوالے کر دے گا تاکہ وہ اپنی قوم کی عداوت اور دشمنی سے بچ سکے، وفا کرنے سے انکار کر دیا۔ابن اشعث کی گزار ش کاسبب یہ تھاکہ وہی جناب ہانی کے پاس گیاتھااور انہیں لیکر آیاتھا۔ابن زیاد نے اپنے و عد ہ سے مکرنے کے بعد فورا ًحکم دیاکہ انہیں بازار میں لے جاؤ اور گردن اڑادو ۔اموی جلاد اس شریف النفس انسان کا ہاتھ باندھے ہوئے ان کو بازار کی طرف لے کر چلے جہاں بکریاں بیچی جاتی تھیں۔جب یہ افر ادجناب ہانی کووہاں لے کر آئے توآپ آوازدے رہے تھے: ''وامذحجاہ ولامذحج لی الیوم !وامذحجاہ وأین منی مَذحِج ''ہائے قبیلہ ٔمذحج والے کہاں گئے، کو ئی مذحج والامیری مددکو کیوں نہیں آتا؟'' وامذحجاہ '' ارے میرے مذحجی افراد کہاں ہیں؟جب دیکھاکہ میری مدد کو کوئی نہیں آتاتو اپنی ساری طاقت و قدر ت کو جمع کر کے ایک بار ہاتھو ںکو جھٹکادیااوردیکھتے ہی دیکھتے ساری رسیاں ٹوٹ گئیں پھر فرمایا: کیاکوئی عصا ،خنجر،پتھر یاہڈی نہیں ہے جس سے میں اپنادفاع کرسکوں لیکن ان جلادوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیااور دوبارہ رسیو ں سے کس کر جکڑ دیاپھرکسی ایک نے کہا: اپنی گردن اٹھاؤ تاکہ تمہاراکام تمام کر دیاجائے ۔ عبیداللہ کاترکی غلام  آگے بڑھااور تلوار سے جناب ہانی پر ایک ضرب لگائی لیکن اس کی تلوار جناب ہانی کاکچھ نہ بگاڑ پائی تو ہانی نے کہا : ''الیٰ اللّٰہ المعاد !اللھم الی رحمتک و رضوانک'' خداہی کی طرف برگشت ہے، خدایا!تیری رحمت اوررضایت کی آرزو ہے ۔وہ پھر آگے بڑھااوردوسری مرتبہ آپ پر وار کر دیا۔ اس ضربت سے آپ نے جام شہادت نوش فر مایا۔ آپ پر خداکی رحمت ہو۔
اسکے بعد یہ جلاد آپ کا سر لے کر ابن زیادکے پاس چلے گئے۔  

تیسرا شہید :
جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد نے عبدالاعلی کلبی کو بلایا جسے قبیلہ بنی فتیان کے محلہ سے کثیر بن شہاب نے پکڑااور ابن زیاد کے پاس لے کر آیا تھا۔ابن زیاد نے اس سے کہا : اپنی داستان سناؤ ۔تو اس نے کہا : اللہ آپ کو سلامت رکھے !میں اس لئے نکلا تھا تاکہ دیکھوں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں،اسی اثنا ء میں کثیربن شہاب نے مجھے پکڑلیا ۔ابن زیاد : تجھے سخت وسنگین قسم کھانی پڑے گی کہ تو فقط اسی کام کے لئے نکلا تھا جس کا تجھے گمان ہے تو اس نے قسم کھا نے سے انکار کر دیا ابن زیاد نے کہا اسے میدان میں لے جاؤ اور اس کی گردن اڑادو !جلادوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس کا سر فوراً قلم کردیا۔

چو تھا شہید :
اس بندئہ خدا کی شہادت کے بعد عمارہ بن صلخب ازدی کو لا یا گیا جو جناب مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے نکلے تھے اور انھیں گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔ابن زیاد نے ان سے پو چھا : تم کس قبیلہ سے ہو؟ انھوں نے جواب دیا'' ازد'' سے تو ابن زیاد نے کہا : اسے اس کے قبیلہ والوں کے پاس لے جاؤ اور اس کی گر دن اڑا دو۔ ۔ یہاںپر طبری نے اس بات کو بیان نہیں کیاہے کہ ان دونوں بزرگ شخصیتوں کے پیر میں رسی باندھ کر انہیں کو فہ کے بازار وں میں کھینچا جارہاتھا؛ لیکن مذکورہ روایت کو بیان کرنے کے بعد خو د ابومخنف ہی سے ابی جناب کلبی کے حوالے سے نقل کیاہے کہ اس نے'' عدی بن حرملہ اسدی'' سے اس نے'' عبداللہ بن سلیم'' اور'' مذری بن مشمعل'' (یہ دونوںقبیلہ اسد سے متعلق تھے ) سے اس نے ''بکیر بن مثعبہ اسدی'' سے نقل کیاہے کہ اس نے کہا: میںاس وقت تک کوفہ سے باہر نہیں نکلا تھا یہاں تک کہ مسلم اور ہانی بن عروہ شہید کردئے گئے اور میں نے دیکھا کہ ان دونوں کے پیروں میں رسی باندھ کر کوفہ کے بازار میں کھینچاجارہاہے۔  
مختار قید خانہ میں
جب دوسرے دن کا سورج نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے دربار کا دروازہ کھلا اور لوگوں کو دربار میں آنے کی اجازت ملی تو لوگ آہستہ آہستہ دربار میں آنے لگے انہیں آنے والوں میںمختار بھی تھے ۔ عبیداللہ نے انہیں پکارا اور کہاکہ سناہے تم ،لوگوں کو مسلم بن عقیل کی مدد کے لئے اکٹھا کر رہے تھے اور انھیں اکسا رہے تھے ؟مختار : نہیں ایسا نہیں ہے، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ میں تو کل آیا اور عمر وبن حریث کے زیر پرچم آگیا ، شب اسی کے ہمراہ گذاری اور صبح تک اسی کے پاس رہا ۔ عمرو بن حریث نے کہا : ہاں یہ سچ کہہ رہے ہیں؛ آپ کو اللہ سلامت رکھے ؛لیکن ابن زیاد نے چھڑی اٹھائی اور مختار کے چہرے پر مار مار کر ان کی پیشانی ، آنکھ ، اور پلک کو زخمی کر دیایہاں تک کہ مختارکی آنکھیں ٹیڑھی ہو گئیں؛ اس کے بعد بولا : تیرے لئے یہی سزاوار ہے۔ خدا کی قسم! اگر عمرو نے گواہی نہ دی ہوتی تو میں ابھی تیری گردن اڑادیتااور حکم دیا کہ اسے فور اً لے جاکرقید خانہ میں ڈا ل د و ۔کارندوں نے فوراً حکم کی تعمیل اور مختار کو قید خانہ میں ڈال دیا۔ یہ اسی طرح قید خانہ میں مقید رہے یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے۔ 
ان مظلوموں کے سر یزید بن معاویہ کے دربار میں روانہ کئے جانے کی روداد ابن زیاد نے یوں رقم کر کے خدمت یزید کا حق ادا کر دیا
اما بعد اس خدا کی حمد و ثنا جس نے امیر المومنین کا پاس رکھا اور دشمنوں کی خراب کاریوں کو خود ہی درمیان سے ہٹا دیا۔امیر المومنین کی خدمت میں یہ خبر پیش کی جاتی ہے۔ خدا ان کو صاحب کرم قرار دے کہ مسلم بن عقیل نے ہانی بن عروہ مرادی کے گھر پناہ لی تھی اورمیں نے پورا منصوبہ  بناکر ان دونوں کو اپنے چنگل میں لے لیا اور خدا نے مجھے ان دونوں پر قدرت عطا فرمائی لہذا میں نے ان دونوں کے سر اڑا دیئے اور اب آپ کی خدمت میں ان دونوں کے ، سر ہانی بن ابی حیہ کلبی اور زبیر بن ارواح تمیمی کے ہمراہ روانہ کر رہاہوں۔ یہ دونوں حکومت کے خیر خواہ ،فرمانبر دار اور بے چوں و چرا باتوں کو سننے والے ہیں۔ امیر المومنین عراق کے حالات کے سلسلہ میں ان دونوں سے جو پوچھنا چاہتے ہیں پو چھ لیں کیونکہ یہ حالات سے آگاہ، سچے ، بافہم اور صاحب ورع ہیں ۔والسلام منجانب ابن زیاد
 
 

جمعہ، 5 جولائی، 2024

امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر انبیاء بھی روئے

 راوایا ت میں ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے جب حضرت آدم علیہ السلام اورا بی بی حوا کو عرش بریں سے فرش زمیں پر دو الگ الگ پہاڑوں پر اس طرح سے اتارا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے ان حالات میں جب جناب حوا کو نہ پایا ۔ لہذا مختلف خطہ ہائے ارض پر تلاش حوا میں سرگردان و حیران و پریشان رہے کہ ایک مرتبہ زمین کربلا پر قدم رکھا اور غم والم کا احساس ہوناشروع ہوا ، دل مغموم چشم پر نم سینہ میں اظہار تاسف مشہد امام حسین علیہ السلام کے نزدیک پہونچے کہ ایک بار ٹھوکر لگی زمین پر گرپڑے ، پنڈلی میں زخم آیا خون جاری ہوا ۔ بارگاہ باری میں الحاح و زاری کی ۔ معبود بے مثال مختلف جگہ میں پھرا لیکن کسی جگہ ایسا نہ ہو ا۔ کیا وجہ ہے کے مجھے یہ صدمہ جانکاہ پہونچا ۔ وحی الٰہی ہوئی اے آدم ! آپ کی اولاد میں ایک عظیم ہستی حسین علیہ السلام پیداہوگا ۔ جو اس جگہ پر بصد ظلم و جفا شہید کیا جائے گا۔ جس پر وحوش و ملک طیور وفلک سب ہی گریہ و زاری کریں گے ۔ ہم نے چاہا کہ آپ کو بھی اس حادثہ عظمیٰ سے خبر داد کیا جائے ۔ اور ان کے مصائب وشدائد میں شریک کریں تمھارا خون جو اس جگہ ٹپکا تو یہ اس خون سے مل جائے گا ۔جناب آدم علیہ السلام نے عرض کی اے قدوس حسین علیہ السلام کیا کوئی نبی ہوگا ؟ ارشاد باری ہوا کہ نہیں بلکہ نبی آخر الزمان کا نواسہ ہواگا ۔ جناب آدم نے عرض کیا اس پر ظلم و ستم کون کرے گا ؟ بتایا گیا کہ وہ یزید پلید مردود و شقی ہوگا ۔ زمین وآسمان کی اس پر لعنت ہوگی ۔ جناب جبرئیل سے جب حضرت آدم علیہ السلام نے معلوم کیا کہ مجھے اس سلسلہ میں کیا امر کیا گیا ہے ، بتایا کہ آپ بھی اس شقی پر لعنت کیجئے ، تاکہ اجر عظیم کے مستحق ہوں پس روایت میں ہے کہ آپ نے چار مرتبہ اس پر لعنت کہی اور اس کے بعد میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں جناب حوا سے ملاقات ہوئی اور آدم علیہ السلام کے غم و الم میں کمی ہوئی


۔ارض نینویٰ اورحضرت نوح علیہ السلام کی گریہ و زاری -جناب نوح علیہ السلام کی قوم پر جب بارش کی صورت میں عذاب نازل ہوا اور آپ کی کشتی پانی میں گرد ش کرنے لگی تو زمین کربلاپر بھی سفینہء نوح علیہ السلام پہونچا تو وہاں کے پانی کو بہت مضطرب پایا،پھر کشتی بھنور میں پھنس گئ تب  گرداب نے ایک مرتبہ جھٹکا دیا کہ حضرت نوح علیہ السلام پرکشتی کے غرق ہونے کا خطرہ لاحق ہوا اور آپ نے  ۔ بارگاہ الٰہی میں روکر ارشاد کیا معبود برحق خطہ ارض پر چہار طرف گردش کی لیکن یہ بے چینی و پریشانی کہیں طاری نہ ہوئی ۔ مالک سبب حیرانی وپریشانی کیا ہے ؟ ۔ معلوم نہیں ہوتا تو رب ودود ہے ظاہر فرماتا کہ اس اندوہ سے نجات پاؤں جبرئیل خدائے جلیل کی طرف سے نازل ہوئے اور عرض کی اے نوح اس سرزمین پر امام حسین علیہ السلام شہید کئے جائیں گے جو خاتم النبیین کی صاحبزادی کےفرزند اورخاتم الاوصیاءکا نواسہ ہوگا ۔ جناب نوح نے جبرئیل جیسے ذاکر سے مصائب حسین علیہ السلام سنے کہ دفعتاً گریہ طاری ہوا۔ حال گریہ میں معلوم کیا اے جبرئیل یہ ظلم کا بانی اور ستم و الم کا خوگر کون شقی ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کے وہ یزید نابکار ہوگا جس پر ساتوں زمین و آسمان کے ساکن لعنت کریں گے ۔ آپ بھی اسی ملعون ومطرود پر لعنت کیجئے تا کہ کشتی کو نجات اور دل کو مراد ملے ۔ آپ نے اس پر لعنت کی تو آپ کی کشتی نے قرار لیا ۔ اور آپ کو نجات حاصل ہوئی ۔ کشتی دریائے جودی پر جاکے ٹہر گئ

حضرت ابراہیم علیہ السلام غاضریہ میں :

جناب ابراہیم علیہ السلام گھڑے پر سوار اس طرف سے گزر رہے تھے کہ دفعتاً آپ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی آپ گھوڑے سے زمین پر گرے سر زخمی ہوا خون جاری ہوا آپ استغفار باری میں مشغول ہوئے اور پروردگار سے نہایت فروتنی سے گزارش کی ، مالک ظاہر فرما کہ مجھ سے ایسی کون سی کوتاہی سرزد ہوئی جس کا سبب یہ ہے ۔ جناب جبرئیل خدائے جلیل کی طرف سے حاضر ہوئے کہ اے خلیل خدا تم سے کوئی قصور و کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ یہ زمین مشہد حسین علیہ السلام ہے یہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کا لخت جگر ، علی علیہ السلام کا نور نظر تین روز کا بھوکا پیاسا جورو جفا کے ساتھ ظلم کیا گیا میں نے چاہا کے آپ بھی اس مصیبت حسین میں شریک ہوں اور حصہ لیں جناب ابراہیم علیہ السلام نے پھر عرض کی اے جبرئیل اس سعادتمند کا قاتل کون ہوگا ۔ آپ نے جواب دیا کہ یزید بے دین ہوگا جس پر اہل زمین و آسمان لعنت کریں گے ۔ اے ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے قلم لے اس مردود پر لعنت لوح پر لکھی تو ارشاد باری ہوا کہ اس لعنت لکھنے کے سبب ، اے قلم تو مستحق ثناءاور سزاوار مدح ہوا ہے ۔ یہ سن کر جناب ابراہیم علیہ السلام نے جانب آسمان اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور یزید پلید پر لعنت کی ۔ جناب ابراہیم علیہ السلام کے گھوڑے نے آمین کہی ، آپ نے اس سے کہا کہ اے اسب تونے کیا سمجھ کر آمین کہی تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اس پر فخر ہے کہ آپ جیسا نبی مجھ پر سوار ہوتا ہے اور میں اس کی نحوست و پلیدگی کو سمجھ گیا اسی سبب میں لعنت کی ہے اسی کی وجہ سے آپ کو یہ رنج وتعب ہوا ہے ۔

جمعرات، 4 جولائی، 2024

کلاوڈ سیڈنگ کے ذریعے مصنوعی بارش

 کلاوڈ سیڈنگ کے ذریعے مصنوعی بارش  دنیا کے  کسی  بھی خشک  خطے کے لیے کتنی ضروری ہے اس کی اہمیتب کو وہی لوگ جان سکتے ہیں جو خشک سالی کی دنیا میں جی رہے ہوں-ان ممالک میں  سمندری پانی اور ڈیم کے بڑے منصوبے زیر غور ہیں مگر ان کے بھی  اپنے ماحولیاتی  نقصانا ت ہیں۔پانی کی قلت کے وسیع پیمانے پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔-خشک سالی، روزی روٹی کے مسائل، دیہی سے شہری علاقوں میں آبادیوں کے پھیلاو سے بدامنی پیدا ہوسکتی ہے۔متحدہ عرب امارات نے پانی کے ذخیرے کے لیے تقریبا 130 ڈیم تعمیر کیے ہیں جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تقریبا 120 ملین مکعب میٹر ہے  تا کہ پانی کو بخارات بننے یا صرف سمندر میں بہنے سے روکا جا سکے ۔سائنسدان بارش برسانے  کے کئی طریقے تلاش کر رہے ہیں، امارات کی آب و ہوا دیگر خلیجی ممالک کی طرح ہے اور  یہاں کلاؤڈ سیڈنگ کا  تجربہ ان کے لیے بہت مفید ثا بت ہو سکتا ہے۔اگر ڈرون تکنیک طویل مدت میں کامیاب ثابت ہوتی ہے تو کلاؤڈ سیڈنگ وسیع تر خطے میں پائیدار بارش میں اضافے کے منصوبوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس سے خشک سالی  کم کرنے میں مدد ملے گی۔ایسے بادل اکثر امارات کے مشرق میں واقع الحجر پہاڑوں میں نظر آتے ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد انسان پہلے ہی پانی تک قابل اعتماد رسائی سے محروم ہیں اور2.7 بلین افراد سال میں کم ازکم ایک مہینے تک پانی کی قلت کا سامنا کرتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2025 تک دنیا کی دو تہائی آبادی کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


ڈرون ٹیکنالوجی کا جہاں بہت سے منصوبوں میں استعمال ہو رہا ہے وہاں موسمیاتی تبدیلیوں میں بھی اس کے استعمال کا آغاز کر دیا گیا ہے۔عرب نیوز میں کلاوڈ سیڈنگ کے بارے میں شائع ہونے والےمضمون میں متحدہ عرب امارات میں سائنسدان بادلوں میں برقی چارجز کا استعمال کرتے ہوئے اب مصنوعی بارش کے لیے  ڈرون ٹیکنالوجی کا وسیع  منصوبہ بنا رہے ہیں اور اس عمل کو کلاؤڈ سیڈنگ کہتے ہیں۔ دیگر خلیجی ممالک کی طرح  امارات کو  بھی گرمی اور خشک سالی کا سامنا ہے جہاں 2021 کے ابتدائی تین ماہ میں صرف 1.2ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی اور موسم گرما کا درجہ حرارت اکثر 50 علاقوں میں سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ اس لئے سائنسدان گرمی کاحل تلاش کر رہے ہیں۔2007-2008 کلاؤڈ سیڈنگ فزیبلٹی سٹڈیز میں حصہ لینے والے سول انجینئر ڈاکٹر محمد شمروخ نے عرب نیوز کو بتایا ہےکہ متحدہ عرب امارات کے لئے یہ سائنسی یا تحقیقی تجربے کے طور پر ایک اہم اور دلچسپ اقدام ہے-متحدہ عرب امارات کے پاس میٹھے پانی کے اپنے قیمتی چند وسائل موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس کی معیشت درآمدات اور ڈی سیلینیشن یعنی سمندری پانی سے نمک نکال کر استعمال کے قابل بنانے کے عمل پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے تاکہ فصلوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔درحقیقت متحدہ عرب امارات نے کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی کو بھی میٹھے پانی کی قلت سے نمٹنے کے ممکنہ طریقے کے طور پر استعمال کیا ہے۔


سعودی عرب نے بھی گزشتہ سال کلاؤڈ سیڈنگ ٹیکنالوجی پروگرام کی منظوری دی تھی جس کا مقصد مملکت میں بارش میں تقریبا 20 فیصد اضافہ کرنا تھا۔امارات میں یہ کام اس سے قبل 2017 میں شروع ہوا تھا اور بارش میں اضافے کے9 منصوبوں میں 15 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی  گئی تھی۔واضح رہے کہ دنیاکے کل رقبے کا  تقریبا71 فیصدحصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے خطے(مینا) میں اس وسائل کی مقدار بہت کم ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق  مشرق وسطی میں پانی کا تناسب  باقی دنیاسے قدرے کم ہےاور اس خطے میں موجود 17 ممالک کو  پانی کے لحاظ سے غربت کی لکیر سے نیچے سمجھا جاتا ہے۔ورلڈ بینک کی رپورٹ  کے مطابق صرف مینا خطے کی زراعت کے لیے پانی کا استعمال  تقریبا 80 فیصد ہے۔ پیش گوئی یہ بھی کی گئی ہے کہ 2030 تک پانی کی فراہمی مزید کم ہو جائے گی جس کے لیے پائیدار حل پر عمل ضروری ہے۔گذشتہ سال متحدہ عرب امارات نے موسم اور زلزلہ کے بارے میں اطلاعات کے قومی مرکز نے200 سے زائد کلاوڈ سیڈنگ آپریشن کئے ۔اس مرکز میں ٹیکنیشنز اور پائلٹس کی ٹیم نے خاص قسم کبادلوں پر150 تجربے کئے ہیں۔


ایسے بادل اکثر پہاڑی علاقوں اور امارات کے مشرق میں واقع الحجر پہاڑوں میں نظر آتے ہیں جو خلیج عمان سے آنے والی گرم ہوا کو روکتے ہیں۔یہ بادل ایک ہزار میٹر کی اونچائی تک ہوتے ہیں جس کی چوڑائی ایک کلو میٹر تک نظر آتی ہے۔دبئی میں زراعت کے بین الاقوامی مرکز  میں آبی وسائل انتظام کے پرنسپل سائنسدان ڈاکٹر خلیل عمار نے بتایا ہے کہ امارات میں سابقہ ​​تجربے کی بنیاد پر اب وہ  پانی کے ہر قطرہ کی نگرانی کے نظام کو سمجھتے ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بادل کی کس قسم کو مخصوص ٹیکنالوجیز استعمال کر کے سیلاب یا زمین پر ہونے والے کسی بھی خطرے سے بچایا جا سکتا ہے۔


کلاؤڈ سیڈنگ تیزی سے بڑھتی ہوئی سائنس ہے جسے متحدہ عرب امارات میں بہتر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔خلیج اور وسیع مینا خطے میں بارشوں کی تقسیم اور شدت کی پیش گوئی کرنے کے قابل ہونا آنے والے سالوں میں اہم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی خشک سالی کو زیادہ عام بناتی ہے۔خلیل عمار نے مزید بتایا کہ بارشوں کو بڑھانے کے لیے معروف ٹیکنالوجیز کی تحقیقات اور استعمال جاری رکھنا بہت ضروری ہے تاہم سائنسدانوں کو ممکنہ ماحولیاتی مضر اثرات اور دیگر خطرات کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ڈاکٹر خلیل نے کہا ہمیں اس کے  فوائد پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کل کلاؤڈ سیڈنگ کی بہت سی تکنیکیں ہیں۔سائنسدانوں کو دنیا بھر سے نئے آئیڈیاز اور ہونے والی ایجادات پر نظر رکھنی چاہئے اور اگر تکنیکی لحاظ سے ممکن ہو تو انہیں یہاں لانا چاہیے۔خلیل عمار نے کہا ہے کہ یہ ساری بارش انمول ہے اور کوئی بھی ملک اس قیمتی آبی وسائل کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔

 بشکریہ گوگل 

 

منگل، 2 جولائی، 2024

انٹارکٹکا 'برف کا عجائب خانہ

 

 

انٹارکٹکا 'برف کا عجائب خانہ- ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے انٹارکٹیکا میں نیا ریسرچ سینٹر چھن لنگ اسٹیشن مکمل کیا گیا ہے اور اس نے باقاعدہ تحقیقی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ چھن لنگ اسٹیشن انٹارکٹیکا میں ایسا تیسرا چینی تحقیقی مرکز ہے جو پورے سال کام کرنے کے قابل ہے۔یہ اسٹیشن موسم گرما میں 80 اور سردیوں کے دوران 30 افراد کی میزبانی کرسکتا ہے۔انٹارکٹک کے بحیرہ راس کے قریب پتھریلے، ہوا سے بھرے جزیرے پر تعمیر کی جانے والی اس نئی تنصیب نے سائٹ پر منفرد ماحولیاتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مربوط مقامی نظام اور سبز ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔5244 مربع میٹر پر پھیلے اس نئے اسٹیشن کو چین کے لیجنڈری میرینر ژینگ ہائی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سدرن کراس مجمع النجوم کی شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہے، جنہوں نے مغربی سمندروں کے اپنے سفر کے دوران نیوی گیشن کے لئے مجمع النجوم کا استعمال کیا تھا۔چھن لنگ اسٹیشن کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں ایک مرکزی مشترکہ کمرہ بھی شامل ہے جو کھانے اور پیشہ ورانہ مقاصد کے کام آتا ہے، یہ کمرہ موسم گرما کی دو رہائشی شاخوں اور لیبارٹریوں سے جڑتا ہے۔ موسم سرما کے ہاسٹل مرکز کی دوسری منزل پر واقع ہیں۔آرکیٹیکٹ کے مطابق، انٹیریئر ڈیزائن انتہائی مربوط ہے اور چین میں ماڈیولز میں تعمیر کیا گیا تھا تاکہ انہیں سائٹ پر جمع کیا جا سکے. مرکزی عمارت کا طویل محور ہوا کی موجودہ سمت سے مطابقت رکھتا ہے۔ انٹارکٹک برف کو جمع ہونے سے روکنے کے لئے گراؤنڈ فلور کے کچھ حصوں کو بلند کیا گیا ہے۔یہ اسٹیشن اس انداز سے تعمیر کیا گیا ہے جس میں کم سے کم تعمیری رقبہ شامل ہے اور مقامی منظر نامے پر تعمیری اثرات انتہائی محدود ہیں۔

انٹارکٹکا دنیا کا انتہائی جنوبی براعظم ہے، جہاں قطب جنوبی واقع ہے۔ جغرافیائی اصطلاح میں اسے منطقہ منجمد جنوبی (South friged zone) بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سرد ترین، خشک ترین اور ہوا دار ترین براعظم ہے، جبکہ اس کی اوسط بلندی بھی تمام براعظموں سے زیادہ ہے۔ 14٫425 ملین مربع کلومیٹر کے ساتھ انٹارکٹکا ایشیا، افریقا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکاکے بعد دنیا کا پانچواں بڑا براعظم ہے۔ انٹارکٹکا 98 فیصد برف سے ڈھکا ہوا ہے جس کے باعث وہاں کوئی باقاعدہ و مستقل انسانی بستی نہیں۔ صرف سائنسی مقاصد کے لیے وہاں مختلف ممالک کے سائنس دان قیام پزیر ہیں۔وہاں تقریبا 2 ملین سالوں سے بارش نہیں ہوئی ہے، اس کے باوجود دنیا کے میٹھے پانی کے 80 فیصد ذخائر وہاں موجود ہیں، اگر یہ سب پگھل جاتے تو سمندری سطح کو ساٹھ میٹر (200 فٹ) تک بڑھا سکتے ہیںانٹارکٹکا یونانی لفظ اینٹارکٹی کوس سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے آرکٹک کے مدمقابل۔اس براعظم کو پہلی بار روسی جہاز راں میخائل لیزاریف اور فابیان گوٹلیب وون بیلنگشاسن نے 1820ء میں دیکھا۔1959ء میں 12 ممالک کے درمیان میں معاہدہ انٹارکٹک پر دستخط ہوئے، جس کی بدولت یہاں عسکری سرگرمیاں اور معدنیاتی کان کنی کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور سائنسی تحقیق اور براعظم کی ماحولیات کی حفاظت کے کاموں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مختلف تحقیقی کام سر انجام دینے کے لیے دنیابھر سے انٹارکٹکا پہنچنے والے سائنسدانوں کی تعداد ہر سال موسم گرما میں 5،000 سے زائد ہوجاتی ہے، جبکہ موسم سرما میں یہ تعداد کم و بیش 1٬000 تک رہ جاتی ہے۔

قطبی برفانی صحرا کا منظر

انٹارکٹکا کی بلند ترین چوٹی ونسن ماسف ہے، جس کی بلند 4٬892 میٹر (16٬050 فٹ) ہے۔ یہ دنیا کا سرد ترین مقام ہے اور سب سے کم بارش بھی یہیں ہوتی ہے۔ یہاں کم سے کم درجۂ حرارت منفی 80 سے منفی 90 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ موسم گرما میں ساحلی علاقوں پر زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 5 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان میں رہتا ہے۔ بارشوں میں کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قطب جنوبی پر سال میں 10 سینٹی میٹر (4 انچ) سے بھی کم بارش پڑتی ہے۔پاکستان نے مشرقی انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991ء میں ایک اسٹیشن قائم کیا جس کا نام جناح انٹارکٹیکا اسٹیشن ہے۔۔ لہذا، ہر ریسرچ اسٹیشن ایک خود کفیل بنیادی ڈھانچے سے لیس ہے۔یہ پانی کی فراہمی اور فضلے کو ٹھکانے لگانے جیسی بنیادی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔اسٹیشن سے تقریباً ایک کلومیٹر نیچے ایک ہیلی پیڈ زیر تعمیر ہے کیونکہ اسٹیشن پر سامان اور لوگوں کی نقل و حمل کے لئے ہیلی کاپٹر ضروری ہیں۔اسی طرح ایک حصہ اسٹیشن کے لئے توانائی فراہم کرتا ہے۔یہاں توانائی کے دو نئے ذرائع، فوٹو وولٹک اور ہوا کی توانائی کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ تکمیل کے بعد، نئے اسٹیشن کے لئے توانائی کی فراہمی کا 60 فیصد ان دو ذرائع سے فراہم کیا جائے گا۔


بحیرہ راس زمین کے اُن چند قطبی علاقوں میں سے ایک ہے جو اپنی اصل حالت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ سمندری حیاتیاتی تنوع اور ایک مکمل ماحولیاتی نیٹ ورک کا حامل ہے، جو دنیا کی تقریباً 50 فیصد سی ٹائپ جارحانہ وہیل، 40 فیصد ایڈیلی پینگوئن، اور 25 فیصد ایمپریر پینگوئن کی میزبانی کرتا ہے۔2016 میں، انٹارکٹک میرین لیونگ ریسورسز کے تحفظ کے کمیشن (سی سی اے ایم ایل آر) کے 35 ویں سالانہ اجلاس کے دوران، بحیرہ راس کو باضابطہ طور پر دنیا کا سب سے بڑا سمندری محفوظ علاقہ قرار دیا گیا تھا، جس کا کل رقبہ 1.55 ملین مربع کلومیٹر ہے۔ماہرین کے نزدیک یہ ”برف اور آگ” کی جادوئی جگہ ہے کیونکہ جنوب مغربی انٹارکٹک کی آئس شیلفس کے نیچے کئی فعال آتش فشاں موجود ہیں، جن میں سے بہت سے راس آئس شیلف کے نیچے واقع ہیں۔ بحیرہ راس کے ساحل کے ساتھ، بہت سے مشہور آتش فشاں موجود ہیں، جن میں ماؤنٹ ایریبس اور ماؤنٹ میلبورن قابل زکر ہیں۔ یہ برف سے ڈھکے ہوئے ہیں، جس سے پہاڑوں اور سمندر کا حیرت انگیز امتزاج پیدا ہوتا ہے۔یوں، تنہا اور ویران انٹارکٹک پانیوں میں، فعال آتش فشاں کے ہائیڈرو تھرمل چھید قطبی حیاتیات کے لئے توانائی کے قیمتی ذرائع فراہم کرتے ہیں.


بحیرہ راس کا ساحل کئی جغرافیائی خوبیوں کا حامل ہے، جس میں ٹرانس انٹارکٹک پہاڑوں سے وسیع گلیشیئر سمندر میں بہہ رہے ہیں، جو مشہور راس آئس شیلف تشکیل دیتے ہیں۔ بحیرہ راس کے خطے میں عام قدرتی جغرافیائی اکائیوں جیسے لیتھواسفیئر، کریواسفیئر، بائیواسفیئر اور فضا کے مرتکز تعامل کی خوبیاں ہیں، جو اسے اعلیٰ سائنسی اہمیت کا حامل بناتا ہے اور بہت سے ممالک کو تحقیقی اسٹیشن قائم کرنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔اس سے قبل چھ ممالک بحیرہ راس کے خطے میں سات تحقیقی اسٹیشن قائم کر چکے ہیں جن میں امریکہ کا مرڈو اسٹیشن، نیوزی لینڈ کا اسکاٹ بیس، جنوبی کوریا کا جانگ بوگو اسٹیشن، روس کا روسکایا اسٹیشن اور لینن گراڈسکایا اسٹیشن، اٹلی کا زوچیلی اسٹیشن اور جرمنی کا گونڈوانا اسٹیشن، شامل ہیں۔چین نے1980 کی دہائی کے اواخر سے اپنے تحقیقی اسٹیشن کی تعمیر کو آگے بڑھایا اور آج اُسے 30 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں

پیر، 1 جولائی، 2024

خسرہ ایک متعدی اور خطرناک بیماری ہے

 


خسرہ ایک جان لیوا مرض ہے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں خسرہ کی وبا پر قابو پا  نے کی حکومتی  کوششیں جاری ہیں محکمہ صحت ملتان اور جنوبی پنجاب ہیلتھ سیکرٹریٹ کی جانب سے  بھی ٹھوس اقدامات  کئے جا رہے ہیں - جبکہ چلڈرن کمپلیکس میں رواں سال  خسرہ میں مبتلا 942 مریض بچے رپورٹ ہوئے, نشتر ہسپتال میں  خسرہ میں مبتلا  میں 14 مریض بچے زیر علاج تفصیل کے مطابق ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں خسرے کی وبا  پھیل چکی ہے  تاہم اس حوالے سے محکمہ صحت ملتان  اور ہیلتھ سیکرٹریٹ جنوبی پنجاب کے افسران وبا کو روکنے سے متعلق  احتیاطی اقدامات  بھی کر رہے ہیں -  ادھر  ترجمان چلڈرن کمپلیکس ملتان کے مطابق چلڈرن کمپلیکس رواں سال خسرہ میں مبتلا 942 مریض بچے رپورٹ ہوئے،چلڈرن کمپلیکس میں اس وقت خسرہ میں مبتلا 40 مریض بچے زیر علاج ہیں،جبکہ  گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران چلڈرن کمپلیکس میں خسرہ میں مبتلا 05 مریض بچے رپورٹ ہوئے ادھر نشتر ہسپتال ملتان  میں خسرہ میں مبتلا  مریضوں کے لئے  آئی سو لیشن وارڈ میں  بستروں کی تعداد 24 سے بڑھا کر 30 کر دی گئی ہے جہاں  اس وقت خسرہ کے  میں مبتلا  14 مریض بچے زیر علاج ہیں-


خسرہ کی بیماری کسی انفیکشن یا وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ بیماری عام طور پر سردیوں کے اختتام یا پھر موسم بہار کے آغاز میں ہوتی ہے۔خسرہ کی بیماری کے ساتھ جب کوئی مریض کھانستا یا چھینکتا ہے تو متاثرہ شخص کے نہایت چھوٹے آلودہ قطرے پھیل کر ارد گرد کی اشیا پر گر جاتے ہیں اور یہ بیماری ہوا اور سانس لینے سے پھیلتی ہے، جس وجہ سے ایک مریض متعدد افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔خسرہ کی علامات میں شدید بخار کے ساتھ کھانسی، ناک اور آنکھوں سے پانی بہتا شامل ہے، خسرہ میں سرخ دانے چہرے اور گردن کےاوپر نمودار ہوتے ہیں اور پھر جسم کے دوسرے حصوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کیسز 79 فیصد بڑھ کر 3 لاکھ سے زیادہ ہو گئے تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کل تعداد کا صرف ایک حصہ متاثرہ افراد سے کسی بھی قسم کے رابطے سے گریز کریں جن میں انفیکشن کی علامات ظاہر ہو چکی ہوں۔صابن اور پانی سے بار بار ہاتھ دھونے سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔


خسرہ  کا مرض   جو ایک بچے سے دوسرے بچے میں آسانی سے پھیل جاتا ہے جو بچے وٹامن اے کی کمی کاشکار ہو انکو  یہ مرض خطرناک حد تک لاحق ہو سکتا ہے  خسرہ کی علامت یہ ہے۔   ایک متعدی اور خطرناک بیماری ہے اور عموماً بچے آسانی سے اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہذا اپنے جگر گوشوں کی زندگی کو داؤ پر لگانے کی مترادف ہے ۔ اس کا مختصر جواب ہے کہ خسرہ ایک انفکشن ہے جو عام طور پر سردیوں کے آخر میں یا بہار کے شروع میں پیرامکسوں وائرس (Paramyxovirus) سے پیدا ہوتی ہے۔واضح رہے کہ چند روز قبل پنجاب میں شیخوپورہ، پتوکی اور کبیر والا میں خسرہ کے کیسز سامنے آئے تھے اور خاص طور پر کبیر والہ میں خسرہ کے باعث 5 بچوں کی اموات ہوئی تھی خسرہ کو   بھی کہا جاتا ہے. یہ ایک پھیلنے والی سانس کی وبائی بیماری ہے اس بیماری میں عموما بچے مبتلا ہوا کرتے ہیں لیکن بڑوں کو بھی خسرہ ہو سکتا ہے۔خسرے کاوائرس ناک اور گلے کے بلغم میں پرورش پاتا ہاس میں تیز بخار ہوتی ہے اور ساتھ میں  کھانسی،  زرد یا سبز رنگ کا بلغم خارج ہوتا ہے۔ناک اور آنکھوں سے پانی بہتا ہے  اور اکثر آنکھیں لال ہو جاتی ہے۔ منہ کے اندر کی جھیلی پک جاتی ہے۔ سرخ نما دانے کان کی پچھلی سطح سے شروع ہو کر چہرے گردن پر ظاہر ہو جاتے ہیں اور بعد میں سارے جسم پر پھیل جاتے ہیں ۔ خسرہ بذات خود خطرناک نہیں ہے لیکن اس سے جو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہے جس میں خاص کر نمونیہ شامل ہے اس کا اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے تو اس سے بچوں کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔ 


وائرس متاثرہ مریضوں کی ناک اور گلے میں پایا جاتا ہے اور کھانسی اور جھینک کے ذریعہ ہوا میں چلا جاتا ہے، جہاں یہ دو گھنٹے تک فعال اور متعدی رہے گا۔ اس کے نتیجے میں، ایک فرد صرف کسی ایسے کمرے میں ہوا کو سانس میں داخل کرنے سے ہی متاثر ہو سکتا ہے جہاں دو گھنٹے پہلے خسرہ سے متاثرہ کوئی فرد رہا ہو۔خسرہ کی وجہ سے مختلف شدت کی پیچیدگیاں لاحق ہو سکتی ہیں، ڈائریا،انسیپفلائٹس (دماغ کی سوجن) نمونیہ، آنتڑیوں میں زخم، نظر کی کمزوری آنکھوں میں سفید موتیا اور سننے کی کمزوری کانوں کا بہرہ پن، بچے کے دل میں سوراخ۔ بالغ مریضوں کو خاص طور سے زیادہ پیچیدگیاں لاحق ہوتی ہیں. خسرہ ویکسین کے منظرعام پر آنے سے قبل  خسرہ بچپن میں لگنے والا ایک عمومی انفیکشن تھا۔ متاثرہ افراد میں، شروع میں بخار، کھانسی، ناک بہنا، آنکھیں سرخ ہونا اور منہ کے اندر سفید دھبے نمودار ہوں گے۔ اس کے  3  سے  7  دن بعد سرخ دھبے دار جلد کی چھپاکی ہوتی ہے، جو عام طور پر چہرے سے جسم کے باقی حصوں تک پھیل جاتی ہے۔ چھپاکی عام طور پر  4 - 7  دن تک رہتی ہے، مگر بھوری رنگت اور بعض اوقات ملائم جلدی جھلی چھوڑتے ہوئے  3  ہفتوں تک بھی جاری رہ سکتی ہے۔ شدید حالتوں میں، پھیپھڑے، انتڑیاں اور دماغ بھی لپیٹ میں آ سکتا ہے اور سنگین نتائج یا موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔  


اس بیماری  کی حد عام طور پر 18-7 دن تک ہوتی ہے، مگر یہ 21 دن تک بھی ہو سکتی ہے۔خسرہ کی روک تھام کےلئے ہمیں پیشبندی کے طور پر اپنے بچوں کو خسرہ کے ویکسین لگانے چاہئے بچوں میں خسرہ کے ویکسین 9 ماہ پر پہلی خوراک 15 ماہ کے عمر میں دوسری اور پھر 5 سال کے عمر سے پہلے تیسری  آپکی صحت ہماری اول ترجیح ہے ۔   خسرے میں مبتلا بچوں، افراد کو کیسی غذا کا استعمال کرنا چاہیےایسے افراد کو زیادہ سے زیادہ پانی اور صحت بخش مشروبات کا استعمال کرنا چاہیے، خسرہ کے مریضوں کو جَلد صحت یاب ہونے کے لیے پھلوں کے تازہ جوس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کروانا چاہیے۔خسرہ سے متاثر بچوں اور بڑوں کو خشک میوہ جات منقیٰ یا انجیر کا استعمال کرنا چاہیے، ان دونوں کا استعمال گنتی کے حساب سے اعتدال میں رہتے ہوئے کریں۔خاکسیر  منقہ  بھی اس مرض میں شافی علاج مانا جاتا ہے ٓبدن کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے  خاکسیر بستر پر بچھاتے ہیں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

اوورسیز میں پاکستانی گداگرایک صوبے میں منظم مافیا

      آج ہی یہ تحریر انٹرنیٹ سے ملی ہے غور سے پڑھئے سعودی عرب نے پاکستانی بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سخت اقدامات کیے ہیں، جن ک...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر