اِنشاء جی کا شُمار بلا شبہ پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے اُردو اَدب کے اُن مایہ ناز اور بلند پایہ قَلم کاروں میں ہوتا ہے جِنہوں نے نظم ونثر دونوں میدانوں میں اپنے کمالِ فن کے جَھنڈے گاڑے ہیں۔ اُن کی ہَمہ گِیر اور ہَمہ جِہت شَخصِّیت میں ایک شاعِر بھی موجُود ہے، ایک کالم نویس بھی، بَچّوں کا ادیب بھی اپنی موجُودگی کا اِحساس دِلاتا ہے، سفرنامہ نِگار اور مُتَرَجِم بھی پا یا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ ہر صِنفِ اَدب میں ایک اَلگ دبستان ہیں اور اپنے اُسلُوب کے مَؤجِد بھی ہیں ۔
Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
اتوار، 23 اکتوبر، 2022
انشا جی کے دیس میں
ہفتہ، 22 اکتوبر، 2022
بہشت ارضی پاکستان میں وادی سوات
>
پولینڈ کی سیاح ایوا زو بیک نے وادئ سوات کے نگاہوں کو خیرہ کر دینے والےحسن کو دیکھ کر بے اختیار کہا تھا کہ سویٹزرلینڈ یورپ کا سوات ہے!
سوات پاکستان ہے تو یقین کر لیجئے کہ کالام جنت الفردوس ہے۔ دریائے اتروڑ اور اوشو کے سنگم پہ واقع یہ وادی مجسم حسن ہے۔آپ جس بھی موسم میں یہاں جائیں -لیکن کسی بھی موسم میں یہاں جاتے وقت گرم کپڑے اور چھتری ساتھ رکھنا مت بھولئے گا یہاں کا موسم بڑا بے ایمان ہوتا ہے۔
کالام دراصل ایک بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے یہاں آپ کو ہر بجٹ کا ہوٹل بآسانی مل جائے گا۔دریا میں چارپائیاں بچھی ہوں گی کسی بھی ہوٹل پہ کھانے کا آرڈر کیجئے اور دریا کے یخ ٹھنڈے پانیوں میں پائوں ڈبو کے چارپائیوں پہ نیم دراز ہو جائیے۔سکون ہی سکون۔پیٹ پوجا کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے اوشو کے جنگلات دیکھنے چل پڑئیے یا پھر یہیں سے جیپ کروائیے اور اوشو فاریسٹ سے گزرتے ہوئے مہوڈنڈ جھیل کی جانب چل پڑئیے۔جھیل کی سیر کیجئے، کشتی رانی سے لطف اٹھائیے، مچھلیاں پکڑئیے۔اس جھیل میں مچھلیوں کی اس قدر بہتات ہے کہ اس کا نام ہی مچھلیوں والی جھیل یعنی مہوڈنڈ ہے
شاہی باغ کالام کا حسین ترین مقام ہے۔اس کا سارا راستہ پستہ کے باغات سے بھرا ہوا ہے۔اور جہاں کچا راستہ اختتام پذیر ہوتا ہے وہاں سارا راستہ ساتھ بہنے والا دریا دو لخت ہوتا ہے۔اور ان دو دریائوں کے بیچ درختوں سے اَٹی انتہائی سر سبز چراگاہ ہے۔چراگاہ میں داخلے کے لئے دریا عبور کرنا واحد راستہ ہے اور اس مقصد کے لئے دیو دار کا ایک بڑا سا تنا کاٹ کر دریا پر پل کی جگہ ڈال دیا گیا ہے۔جس کے نیچے پانی کی گہرائی اندازًا پندرہ سولہ فٹ ہے۔لیکن خوبصورت منزلیں ہمیشہ دشوار راستوں کو طے کرنے سے ہی ملتی ہیں۔کوشش کیجئے کہ ایک رات اس سبز مخملیں چراگاہ میں کیمپنگ کریں اور دریا کے شور کے سنگ تاروں بھرا آسمان دیکھیں۔مچھلیاں پکڑیںاور فطرت کے جلوے دیکھیں۔
اگر آپ شاہی باغ نہیں جانا چاہتے یا وہاں رات نہیں رکتے تو پھر آپ اوشو سے واپس آتے ہوئے اتروڑ کی جانب چلے جائیے۔قریبا ایک گھنٹے کی مسافت پہ اناکر گاں میں بلیو واٹرز کیمپ سائیٹ آئے گی۔اسے اناکر میڈوز بھی کہتے ہیں
۔یہاں سےکچھ آ گے جاکر جانشئی میڈوز اور اندراب جھیل کے راستے نکلتے ہیں۔بلا کی حسین جگہ ہے۔یہاں اتروڑ دریا سے نکلتا بن خور نالہ بہتا ہے۔انتہائی شفاف نیلا پانی۔سردیوں میں یہ سارا علاقہ برف سے ڈھکا ہوتا ہے لیکن گرمیوں میں یہاں سر سبز چراگاہ ہوتی ہے۔لیکن جس بھی موسم میں یہاں جائیں کھانے پینے اور کیمپنگ کا سامان بمع گرم کپڑے اور چھتری یا رین کوٹ ساتھ لے جانا مت بھولیں۔
۔جانشئی میڈوز صد رنگ پھولوں سے بھری سبز مخملیں چراگاہ ہے جودل سے دھڑکنیں تک چھین لیتی ہے اور یہاں پہنچ کر سب سے مشکل کام دل کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ یہ سنگ میل ہے منزل نہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں،۔۔بلیو واٹرزمیڈوز سے لکڑی کا پل کراس کر کے قریبا چار سے پانچ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد اوپربلند پہاڑوں کے دامن میں اک خوابیدہ جھیل آپ کی منتظر ہو گی۔برف پوش پہاڑوں کے حصار میں نیلگوں شفاف پانیوں کے بدلتے رنگوں کی جھیل۔اندراب جھیل۔sاسے اناکر جھیل اور کوہ جھیل بھی کہتے ہیں۔اس کے تین اطراف بلند پہاڑ ہیں اور چوتھی جانب پھولوں سے بھرا سبزا۔اور یہ ایک منظر عمر بھر کی تھکان بھلا دیتا ہے!اور دل سے بس ایک دعا نکلتی ہے ''میرے پیارے وطن سلامت رہیں تیرے یہ مرغزار 'تیری گلیوں کے ہوں میں نثار
بریمپٹن کینیڈا
جمعہ، 21 اکتوبر، 2022
فارابی کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں
وہ علم الطب کے ماہر تھے ریاضی میں بیکن نے اس کی شاگردی کو تسلیم کیا۔ اس نے اپنی تصنیف میں ’’احصاء العلوم‘‘ میں متداوّل سائنسوں پر زبردست تبصرہ کیا۔ اس کتاب کے پانچ حصے ہیں جن میں علم کے مختلف شعبوں زبان، منطق، ریاضیات، طبعی سائنس اور سیاسی و معاشرتی اقتصاد پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
سیاست پر اس کی دو تصانیف سیاست المدینہ اور آراء اہل المدینہ الفاضلہ بڑا نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آراء اہل المدینہ الفاضلہ جس میں وہ معیاری مملکت کو مدینہ الفاضلہ کا نام دیتا ہے ۔
فارابی کا خیال ہے کہ ایک کامل فلسفی وہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے جس کا علم آسمانی شعور کے اندر موجود ہے۔ وہ یہ تو دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ خود اس مقام پر پہنچ چکے ہیں لیکن وہ یہ دلیل ضرور دیتے ہیں کہ اصولی طور پر ایسا ہونا ممکن ہے۔
اس کے علاوہ ان کا انسانی علم میں بھی کردار ہے۔ جیسے ہم روشنی کے بغیر نہیں دیکھ سکتے، اس طرح اس شعور کے بغیر ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔اور بالکل جس طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں سوچنے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
فارابی کی ابتدائی زندگی نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں گزری، مگر غربت و تنگدستی اس کے علم و جستجو پر غالب نہ ہو سکی
ابتدائی دور میں یہ ایک دفعہ رات کے وقت مطالعہ میں مصروف تھے کہ تیل ختم ہونے سے چراغ بجھ گیا۔ اس میں اتنی وسع نہں تھی کہ تیل خریدتے ۔ مگر شوق مطالعہ اسے کھینچ کر باہر لے آیا اور گشت کر تے ہوئے پہرے دار کے سامنے لا کھڑا کیا۔ فارابی نے پہریدار سے سارا ماجرا کہہ سنایا اور اُے وہاں تھوڑی دیر رکنے کی گزارش کی تاکہ وہ اپنا سبق یاد کر لے۔ پہریدار اس دن مان گیا، مگر دوسرے دن اس نے رکنے سے صاف انکارکر دیا۔ مگر فارابی نے گزارش کی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا تاکہ اس کی لالٹین کی روشنی میں مطالعہ کر سکے۔ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر ایک دن پہریدار نے اس کی علمی لگن اور جستجو سے متاثر ہو کر اسے نئی لالٹین لاکر دے دی۔ فارابی کے حصول علم کا یہ بے مثال واقعہ رہتی دنیا تک ایک مشعل راہ ہے۔ انہوں نے تقریباً 50 سال حصولِ علم میں صرف کیئے؟۔ان کا کہنا تھا کہ
اے کے ذریعے علم سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق کی بنیاد انسان کی ترقی اور اس کا اشرف المخلوقات ہونا سب اسی عقل الفعال کے بغیر ناکارہ ہے۔ قوت نزوعیہ کے ذریعے انسان میں محبت، نفرت اور رنج و خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور قوت ناطقہ انسانی طبیعت کو جبلت پر قابو پانے کے طریقے سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے خیال میں اجتماع کی دو اقسام ہیں:
(1. اجتماع تام
(2. اجتماع ناقص و نا مکمل فارابی کے نزدیک کرہ ارض پر رہنے والے تمام لوگوں کا اجتماع سب سے بڑا اجتماع ہے
۔ اس کے خیال میں خدا نے دنیا کے نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے ہرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق فرائض تفویض کر رکھے ہیں۔ ریاست کا اعلیٰ شہری وہ ہے، جو حکمران کے ماتحت شہری زندگی گزارتا ہے۔
اس کے خیال میں مثالی حکمران کے تحت ریاستیں معیاری ہو سکتی ہیں۔ وہ مقتدر اعلیٰ کے فرائض و اوصاف کے باب میں کہتا ہے کہ انسان بلحاظ عقل ایک جیسے نہیں ہوتے- مقتدر اعلیٰ میں قوت استبداد کے ساتھ ساتھ قوت تبلیغ بھی ہونی چاہیے۔ اس کے ماتحت ہر شعبہ کا الگ قائد ہونا چاہیے
بدھ، 19 اکتوبر، 2022
کراچی میں بلدیاتی انتخابات پھر ملتوی کر دئے گئے
پیر، 10 اکتوبر، 2022
شداد کی جنت اور اس کا انجام
شدید اور شداد دونوں بھائ تھے اور بہت امیر بادشا ہ کے بیٹے تھے لیکن شدید عالم جوانی میں ہی مر گیا
شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق
و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اس کے باج گزار تھے۔ اُس دور میں
کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ اس تسلط اور
غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کردیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ اُس وقت
کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے
عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جوحکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا
ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ
سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟ حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے
سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔
چناں
چہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے
سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس
کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ ع
پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے
برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی
بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک
سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔
اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک
ہزار محل تعمیر کیے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے
جڑاؤ کیا ہوا تھا۔ پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر
سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں
کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سے سجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں
پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان
کے پھل موتی ویاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔ شہر کی
دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور
عنبر و گلاب سے صیقل کیاگیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں
پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔ جب
تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔
پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں
شہد و شربت جاری کردیا گیا۔
بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں
سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں
مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لیے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل
میوے پہنچایا کریں۔لیکن قومِ عاد کی بداعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کردیا گیا تو
حضرت ہُود علیہ السّلام بحکم اللہ تعالِی نزول عذاب سے پہلے ہی حضر موت کی طرف مراجعت کر
گئےتھے۔ ۔ حضرت ہوُدؑ علیہ السّلام کی وفات یہیں پر ہوئی
معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ
اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا
گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی
اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ
جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس
کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر
پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنےلگے کہ اس شہر کی صورتِ حال
تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان
فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟ اسی
کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح
کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے
اور واپس دمشق آئے اور لوگوں سے سارا
ماجرہ بیان کیا جو ان کے ساتھ پیش آیا تھا، پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ
عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔
ایک
طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور
پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔ پھر اہلِ علم حضرات سے وہاں کے لوگوں نے رجوع کرکے
اس بارے میں معلومات حاصل کیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا
تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟ علما نےبتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر
آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو
لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ آنحضرتؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ
میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے
ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا
اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا اور یہ نشانیا ں چشم دید گواہ عبد اللہ بن قلابہ میں
موجود تھیں ۔ زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسی کیسی قوموں کو ہلاک کر
مارا
(القران)
ہفتہ، 8 اکتوبر، 2022
مختلف موسموں میں کینیڈا کا موسم
کینیڈا رقبے کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے اور ملک کے مشرقی حصوں کا موسم اکثر مغربی حصوں سے بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں دو ساحل، چھ ٹائم زون، اور ایک ایسا خطہ ہے جو خوشگوار ساحلوں سے لے کر برف پوش پہاڑوں، گلیشیئرز اور آرکٹک ٹنڈرا تک ہے۔ ، اگر آپ کسی شہر کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی وقت ملک کا دورہ کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے کہ کینیڈا جانے کا بہترین وقت کب ہے، یہاں کینیڈا کے موسم اور سیاحت کے لئے رہ نمائ بک ہے۔
کینیڈا رقبے کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے اور ملک کے
مشرقی حصوں کا موسم اکثر مغربی حصوں سے بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں دو ساحل،
چھ ٹائم زون، اور ایک ایسا خطہ ہے جو خوشگوار ساحلوں سے لے کر برف پوش پہاڑوں، گلیشیئرز
اور آرکٹک ٹنڈرا تک ہے۔ ، اگر آپ کسی شہر کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی وقت ملک
کا دورہ کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے کہ کینیڈا
جانے کا بہترین وقت کب ہے، یہاں کینیڈا کے
موسم اور سیاحت کے لئے رہ نمائ بک ہے۔
مختلف موسموں میں کینیڈا کا موسم
کینیڈا کے مختلف شہروں اور خطوں کا
موسم اس بات پر منحصر ہے کہ وہ جگہیں سال بھر کس قسم کے موسمیاتی حالات اور درجہ
حرارت کا تجربہ کرتی ہیں۔ ہر جگہ سرد اور برفباری ہونے سے دور، کینیڈا کی آب و ہوا
ملک میں پائے جانے والے مختلف متنوع مناظر پر منحصر ہے۔وینکوور اور کاملوپس کے گرم
علاقوں کے بعد آتے ہوئے، جنوبی برٹش کولمبیا کے پہاڑی درے لوگوں کو حیران کر دیتے
ہیں۔ سبارکٹک یا سبپلائن آب و ہوا. تاہم، ساحلی برٹش کولمبیا شدید بارشیں ہوتی ہیں
لیکن معتدل گرمیاں اور سردیاں۔
کینیڈا کے مختلف علاقوں میں کس قسم کے
موسم کا سامنا ہے اس کا انحصار اس موسم پر بھی ہے جو اس وقت ملک میں چل رہا ہے۔ کینیڈا
میں چار اچھی طرح سے طے شدہ موسم ہیں، بہار، گرمی، خزاں اور سردی۔
کینیڈا میں موسم سرما
کینیڈا میں سردیاں ملک بھر میں سرد ہیں
اگرچہ عرض البلد اور خطوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ وینکوور جیسے ساحلی شہروں میں
ہلکی سردی ہے جبکہ درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک کہیں بھی حرارت صفر سے نیچے
گرتا ہے. مونٹریال، ٹورنٹو، اور اوٹاوا جیسے فلیٹ لینڈز میں درجہ حرارت -20 ڈگری سیلسیس
کے قریب گر جاتا ہے۔ . کینیڈا میں سردیوں کا موسم دسمبر کے مہینوں سے لے کر فروری
کے مہینے تک ہوتا ہے ، کبھی کبھی مارچ تک۔
کینیڈا میں موسم بہار
کینیڈا میں بہار مارچ سے مئی تک جاری
رہتی ہے، حالانکہ یہ فروری کے دوران ہی مغربی ساحلی علاقوں میں آتی ہے اور بہت سے
دوسرے علاقوں میں اسے اپریل کے بعد ہی نظر آتا ہے۔ دی آخر کار ان مہینوں میں درجہ
حرارت صفر سے بڑھ جانا شروع ہوتا ہے، 10 ڈگری سیلسیس تک جا رہا ہے۔ البرٹا جیسی
جگہوں اور اونچائی والے علاقوں جیسے بینف اور وِسلر میں اب بھی کافی سردی ہے لیکن
باقی ہر جگہ صرف سردی ہے۔ جو سیاح گرم آب و ہوا والے خطوں سے ملک کا دورہ کر رہے ہیں
وہ خاص طور پر سردی محسوس کرتے ہیں-
کینیڈا میں موسم گرما
کینیڈا میں موسم گرما جولائی سے اگست
کے مہینوں تک رہتا ہے اور ہے کینیڈا میں سیزن کا موسم کے ساتھ ملک میں سال بھر گرم
ترین درجہ حرارت ہوتا ہے. ٹورنٹو زیادہ درجہ حرارت پرجبکہ وینکوور اور دیگر معتدل علاقوں میں درجہ
حرارت کچھ کم ہوتا ہے اور اگست کے آخر میں وہاں موسم ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا
ہے-گرمیوں کی دوپہروں کو ایک تازہ پہاڑی جھیل میں چھڑکنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔
کھوئے ہوئے جھیل ساحل سمندر پر آرام دہ دن کے لیے بہترین ہے، یا اگر آپ خاموش بیٹھنے
کے لیے بہت بہادر ہیں، تو کھڑے ہو کر پیڈل بورڈنگ کریں الٹا جھیل یہ بہت ضروری ہے
کے ساتھ موسم گرما کا آغاز کریں۔
وِسلر چلڈرن فیسٹیول6 سے 8 جولائی 2018 تک جہاں Whistler بچوں کے جادو اور موسیقی کی پرفارمنس، ہینڈ آن آرٹس اور دستکاری کی
ورکشاپس جیسے کہ چہرے کی پینٹنگ، اوریگامی اور مزید بہت کچھ میں تبدیل ہوتا ہے
کینیڈا میں خزاں کاموسم
گھنے جنگلات سے گھری ہزاروں جھیلوں کے
ارد گرد واقع متعدد قومی پارکوں والا ملک، کینیڈا وہ ملک ہے جس کے شہروں سے باہر پیش
کرنے کے لیے زیادہ نظارے ہیں۔ ۔ ملک کا مشرقی حصہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ موسم
خزاں کے رنگوں کا مشاہدہ کرنے کا بہترین طریقہ اپنی تمام شدت کے ساتھ پتے سرخ سے
نارنجی کی طرف جاتے ہیں اور آخر کار سردیوں کی ہوا میں پیلے رنگ کی ساخت کے ساتھ
غائب ہو جاتے ہیں۔کینیڈا جتنے بڑے ملک میں موسم خزاں کے وقت کا اندازہ لگانا مشکل
ہو سکتا ہے لیکن زیادہ تر ستمبر کے مہینوں میں زیادہ تر صوبوں میں خزاں کا آغاز
ہوتا ہے۔ اونٹاریو, کیوبک اور سمندری صوبے ملک بھر میں موسم خزاں کے روشن رنگوں کو
دیکھنے کے لیے بہترین مقامات ہیں۔
ملک کی بیشتر جھیلوں کے قومی پارکوں
سے گھرے ہونے کی وجہ سے، سرخ اور پیلے میپل کے درختوں کے بیچ میں واقع پرامن جھیلوں
کو اپنے پرسکون پانیوں میں سرخ جنگلات کی عکاسی کرتے ہوئے دیکھنا زندگی بھر کی تصویر
بن جاتا ہے۔ کینیڈا کے قدیم ترین صوبائی
پارکوں میں سے ایک، جنوب مشرقی اونٹاریو میں واقع الگونکوئن نیشنل پارک میں ہزاروں
جھیلیں ہیں جو اس کی حدود میں چھپی ہوئی ہیں، جنگل کے پوشیدہ راستے جو خزاں کے
موسم میں شاندار نظارے پیش کرتے ہیں۔ پارکوں کے شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو,
Algonquin بھی ملک کے سب سے مشہور پارکوں میں سے ایک ہے جو کہ مختلف قسم کے
جنگلی حیات اور کیمپ سائٹس کا گھر ہے۔
جمعہ، 7 اکتوبر، 2022
سرکےکا استعمال اور اس کے فوائد
سرکا مشرقی کھانوں کا ایک اہم جزو ہے
سرکہ سازی کا بنیادی طریقہ کار جو آج کے دور میں رائج ہے۔ یہ معمولی فرق کے ساتھ بالکل وہی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے کا تھا بلکہ بنوں، کوہاٹ اور پشاور کے علاقوں میں جہاں گھر گھر میں سرکہ سازی ہوئی ہے، وہی قدیم طریقہ استعمال کیا جاتا ہے یعنی کسی میٹھے یا نشاستہ دار محلول کو ضامن لگا کر جب خمیر اٹھایا جاتا ہے تو اس میں الکحل پیدا ہو جاتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نکل جاتی ہے اور پھر جب الکحل اور آکسیجن کا ملاپ ہوتا ہے تو سرکہ بن جاتا ہے جبکہ اطباء کے ہاں سرکہ کی تیاری کا طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ جس چیز کا سرکہ بنانا ہو، پہلے اس کا رس (جوس) حاصل کرکے پھر اس کو کسی روغنی مٹکے میں ڈال کر زیر زمین اس طرح دبایا جاتا ہے کہ مٹکے کا تمام حصہ زمین کے اندر رہے اور صرف گردن باہر ہو یا پھر کسی ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں سورج کی شعاعیں دیر تک رہیں۔ تقریباً چالیس روز بعد یا پھردو ماہ کے بعد نکال کر استعمال میں لاتے ہیں
۔ اس میں اگر کسی اور دوائی کا اضافہ نہ بھی کیا جائے تو چھیپ، داد اور رانوں کے اندرونی طرف کی خارش میں مفید ہے۔ پھپھوندی کے علاج میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پھپھوندی دواؤں کی عادی ہو جاتی ہے۔ اس لئے صحیح دوائی کے چند روزہ استعمال کے بعد فائدہ ہونا رک جاتا ہے بلکہ مؤثر دوائی کے استعمال کے دوارن ہی مرض ۔ سرکہ وہ منفرد دوائی ہے جس کی پھپھوندی عادی نہیں ہوتی اور یہ ہر حال میں اس کے لئے مفید ہے۔ ابن قیم کے مشاہدات پیدا ہونے والی سوزشوں کے لئے ایک نسخہ آزمایا گیا۔ برگ مہندی، سنامکی، کلونجی، میتھرے، حب الرشاد، قسط شیریں کو ہم وزن پیس کر اس کے ایک پیالہ میں چھ پیالہ سرکہ ملا کر اسے دس منٹ ہلکی آنچ پر ابالا گیا۔ پھر کپڑے میں نچوڑ کر چھان کر یہ ہمہ اقسام پھپھوندی میں استعمال کیا گیا۔ فوائد میں لاجواب پایا گیا۔ کسی بھی مریض کو بیس روز کے بعد مزید علاج کی ضرورت نہ رہی۔
سرکہ کے سر کے بالوں پر اثرات
سرکہ جلد اور بالوں کی بیماریوں کے لئے اطباء قدیم کے اکثر نسخہ سرکہ پر ہی مبنی ہیں۔ بو علی سینا کہتے ہیں کہ روغن گل میں ہم وزن سرکہ ملا کر خوب ملائیں۔ پھر موٹے کپڑے کے ساتھ سرکہ کو رگڑ کر سر کے گنج پر لگائیں۔ انہی کے ایک نسخہ میں کلونجی کو توے پر جلا کر سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنے سے گنج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بکری کے کھر اور بھینس کے سینک کو جلا کر سرکہ میں حل کرکے سر پر بار بار لگانے سے گرتے بال اگ آتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے ادرک کا پانی اور سرکہ ملا کر لگانا بھی مفید ہے۔ بال اگانے کے لئے کاغذ جلا کر اس کی راکھ سرکہ میں حل کرکے لگانے کے بارے میں بھی حکماء نے ذکر کیا سرکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے جراثیم کش، دافع تعفن اور مقامی طور پر خون کی گردش
خارش اور حساسیت میں سرکہ پلانا اور لگانا مفید ہے ۔سرکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے جراثیم کش، دافع تعفن ہے
* سرکہ میں پکائے ہوئے گوشت کو یرقان میں مفید بتلایا ہے۔
* سرکہ جوش خون اور صفراء اور پیاس میں مفید ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو مفید ہے۔
* سرکہ میں گندھک ملا کر خارش میں لیپ کرنا مفید ہوتا ہے۔
* سرکہ کاسٹک سوڈا کا علاج ہے۔
* عرق النساء میں حکماء نے لکھا ہے کہ حب الرشاد اور جو کا آٹا سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنا نہایت مفید ہے۔
* ہیضہ اور اندرونی سوزشوں میں مفید ہے۔
* حلق کے ورم میں اس کی بھاپ سونگھایا جانا بے حد مفید ہوتا ہے۔ شراب کا نشہ اتارنے کے لئے ایک اونس سرکہ پلانا کافی ہوتا ہے۔
* سرکہ اور شہد کا مشہور مرکب بخار، متلی اور صفراوی امراض میں مستعمل ہے۔
* برسات اور موسموں کی تبدیلیوں میں بہترین چیز ہے۔ پیٹ کی اکثر بیماریاں دور کرتا ہے۔
* امام صادق فرماتے ہیں کہ سرکہ عقل کو تیز کرتا ہے اور اس سے مثانہ کی پتھری گل جاتی ہے۔
مجموعی طور پر تیاری کے اعتبار سے سرکہ کی تین اقسام ہیں۔
* پہلی قسم وہ ہے جو پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ فطری اور قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے بھی اعلٰی خاصوصیات کا حامل ہے۔
* دوسری قسم خشک اجناس مثلاً جو کے جوہر (ایکسٹریکٹ) سے تیار ہوتی ہے، اپنی افادیت کے اعتبار سے یہ دوسرے نمبر پر ہے۔
* تیسری قسم تیزاب سرکہ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں مقطر پانی، تیزاب سرکہ کچھ مقدار چینی اور رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔
سرکہ گنے، جامن، انگور، چقندر، گندم، جو وغیرہ سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔
س
اللہ پاک آپ سب کو اپنی امان میں رکھے آمین
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد
مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...