منگل، 31 دسمبر، 2024

جون ایلیا ' اپنے زمانے کا یگانہ شاعر

 

چاہتا ہوں بھول جاؤں تمہیں

اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں

جیسے تم صرف اک کہانی تھیں

جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

 جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ، ہندوستان میں ایک تعلیم یافتہ شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، شفیق حسن ایلیا، ادب اور فلکیات کے اسکالر تھے جو عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور سنسکرت زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور برٹرینڈ رسل جیسے معروف دانشوروں کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے۔ جون ایلیا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔جون ایلیا کا  نام سید حسین سبطِ اصغر نقوی ہے،عام طور پر اپنے قلمی نام جون ایلیا سے پہچانے جاتے ہیں،آپ ایک پاکستانی شاعر تھے۔ جدید ترین اردو شاعروں میں سے ایک، جو اپنے غیر روایتی طریقوں کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے "فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، مسلم صوفی روایت، مسلم مذہبی علوم، مغربی ادب اور قبالہ کا علم حاصل کیا۔" وہ اردو، عربی  ، سندھی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی۔میں روانی رکھتے تھے۔ پاکستان کے مشہور صحافی، ماہر نفسیات رئیس امروہی اور جنگ اخبار کے پہلے ایڈیٹر اور فلسفی سید محمد تقی جون ایلیا کے بھائی تھے، جب کہ مشہور خطاط اور مصور صادقین، فلمساز کمال امروہی ان کے کزن تھے۔


   ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔ نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیاہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء  میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔ وہ شاعری میں‌ اپنے منفرد لب و لہجے اور روایت شکنی کے سبب خاص و عام میں مقبول ہوئے،انہوں نے اپنے کلام میں‌ محبوب کو براہِ راست اورنہایت بے تکلفی سے مخاطب کیا، ان کی شاعری ہر عمر اور طبقے میں‌ پسند کی گئی ۔ جون ایلیا کی شاعری میں علامتی نظام کے جائزے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے جدید شاعری میں رائج  لفظوں کو ہی اپنی شاعری میں برتا ہے اور جدید شعراء کی طرح ہی بہ طور علامت نظم کیا ہے۔ ان علامتوں میں کوئی نیا پن محسوس نہیں ہوتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ ان علامتوں میں ان کا انداز بیان نمایاںہے۔ جو الفاظ عموماً غزل میں استعمال نہیں ہوتے ہیں   ان الفاظ کوبھی جون ایلیا نے اپنی غزلوں میں علامت بنا کر پیش کیاہے۔  کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ جون ایلیا  نے اپنی  شاعری کو  فکروفن کا حسین امتزاج جو دیا تو شاعری کی دنیا میں وہ ایک بلکل الگ  اور  انوکھی شناخت لے کر وارد ہوئے  اور اپنے ہم عصر شعراء کو پیچھے چھوڑ دیا

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

،،

میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے

اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو

پاکستانی سینئر اداکار منور سعید بھی جون ایلیا کے رشتے دار ہیں۔   جون ایلیا کی تعلیم امروہہ کے مدرسوں میں ہوئی جہاں انہوں نے اردو، عربی اور فارسی سیکھی۔ اسے نصابی کتابوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ بڑے ہونے کے بعد وہ فلسفہ اور ادب میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے اردو، فارسی اور فلسفہ میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ انگریزی، پہلوی اور عبرانی، سنسکرت اور فرانسیسی بھی جانتے تھے۔ جوانی میں وہ کمیونزم کی طرف راغب ہو گئے۔سنہ ء۱۹۵۶ میں اپنے والدین کی وفات کے بعد وہ جبراً پاکستان آئے۔ لیکن امروہہ تمام زندگی ان کے دل میں آباد رہا ۔وہ کراچی میں آباد ہو گئے تھے لیکن   امروہے کے گلی کوچوں میں ہی اپنے شب و روز بسر کرتے تھےجون ایلیا کو کام میں مشغول کرنے اور انہیں ہجرت کے دباؤ سے آزاد کرنے کے لیے،ان کے بڑے بھائ  رئیس امروہوی نے ایک علمی اور ادبی جریدہ "انشا" شروع کیا، جس میں جون ایلیا نے اداریے لکھے۔


بعد میں اس رسالے کو "ورلڈ ڈائجسٹ" میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس عرصے کے دوران جان نے قبل از اسلام مشرق وسطیٰ کی سیاسی تاریخ مرتب کی اور باطنیت اور فلسفہ پر کتابوں کا انگریزی، عربی اور فارسی میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے کل 35 کتابیں مرتب کیں۔ وہ اردو ڈویلپمنٹ بورڈ (پاکستان) سے بھی وابستہ رہے، جہاں انہوں نے ایک عظیم اردو لغت کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔جون ایلیا کا مزاج بچپن سے ہی رومانوی تھا۔ وہ اکثر اپنے تصور میں اپنے محبوب سے باتیں کیا کرتے تھا۔ جون ایلیا جس زمانے میں ’’انشا‘‘ میں کام کر رہے تھے اس دوران ان کی ملاقات مشہور صحافی اور افسانہ نگار زاہدہ حنا سے ہوئی۔سال  1970 میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ زاہدہ حنا نے ان کا خوب خیال رکھا اور وہ آپس میں خوش تھے لیکن دونوں کے مزاج میں فرق نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھایا۔ آخر کار تین بچوں کی پیدائش کے بعد دونوں میں طلاق ہو گئی۔ انکی دو بیٹیاں سنینا ایلیا، فینانا فرنام ، اور ایک بیٹا زریون ایلیا ہیں۔


جون ایلیا کی شخصیت کو ان کے دوست نے کچھ یوں پیش کیا ہے۔ "ایک تیز مزاج لیکن انتہائی مخلص دوست، ایک مہربان اور صاف گو استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہگیر، ایک دلچسپ بحث کرنے والا، ایک مغرور فلسفی، ایک جلد باز سوگوار، غیر معقول طور پر خودغرض اور سرکش۔ ایک عاشق، ایک ویران۔ جو ہر وقت تمباکو نوشی کرتا ہے، ایک محفل پسند، بہت کمزور لیکن جھگڑا کرنے کا شوقین ایک ہی وقت میں پوری دنیا کے ساتھ، ایک غیر محرم جو ہر وقت کو اپنا محرم سمجھتا ہے، انتہائی غیر ذمہ دار، بیمار، شدید جذبے کا شاعر، یہ فنکار ہے جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔ جون ایلیا نے پاکستان پہنچتے ہی اپنی شاعری کا جھنڈا گاڑ دیا تھا، شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے ڈرامائی انداز سے بھی سامعین محظوظ ہوئےان کی شرکت ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ ممتاز شعراء ان مشاعروں میں شرکت سے گھبراتے تھے جن میں جون ایلیا بھی شامل تھے۔ جان کو عجوبہ بن کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا شوق تھا۔ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر باہر نکلنا، رات کو دھوپ کا چشمہ لگانا اور لمبے جوتے پہن کر لوگوں سے ملنے نکلنا ان کا عام تھا۔ زاہدہ حنا سے علیحدگی جون کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ وہ نیم تاریک کمرے میں اکیلے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ سگریٹ  نے بھی ان کی صحت کو متاثر کیا۔ ان کا انتقال 8 نومبر (2002) کو ہوا

ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں

ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا




1 تبصرہ:

  1. منفرد اسلوب کے شاعر،مصنف اورمترجم جون ایلیا کو دنیا سے رخصت ہوئے 22 برس بیت گئے،مگروہ اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر