بدھ، 10 دسمبر، 2025

جب فیض احمد فیض غدار قرار دے کر پابند سلاسل کئے گئے

 

1959ء میں فیضؔ  میں راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض کی گرفتاری ان کے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ ان پر جو مقدمہ قائم ہوا اس کی سزا پھانسی تھی یا پھرعمر قید، ایلس فیض ابھی گرفتاری کے صدمے سے نہیں سنبھلی تھیں کہ سی آئی ڈی کا تلاشی کے لیے گھر آنا مزید ذہنی اذیت کا باعث بنا۔41 ایمپرس روڈ لاہور پر پولیس اور سی آئی ڈی کا پہرہ لگ گیا۔ آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاتی۔ ان کے نام نوٹ ہوتے۔ اخبارات فیض کو غدار قرار دینے کی مہم میں پیش پیش تھے۔ فیض اور دیگر ملزموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ ہونے لگا۔ایلس پر چاروں طرف سے مصیبتوں نے یورش کر دی۔ ایک طرف شوہر کے پابندِ سلاسل ہونے کا غم تو دوسری طرف گھربار چلانے کی ذمہ داری کا بار، لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں الگ۔ایلس کی زندگی کس ڈھب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ فیض کے نام خطوط سے ہوتا ہے-اس کڑے وقت میں ایلس نے بڑی ہمت اور تدبر سے کام لیا۔ حالات کے سامنے سپر ڈالنے کے بجائے ان کا مقابلے کرنے کی ٹھانی۔ پاکستان ٹائمز میں ملازمت کرلی۔ خواتین اور بچوں کا صفحہ ترتیب دینے لگیں۔گاڑی بیچ کر وکیل کو فیس کی پہلی قسط کی ادائیگی ممکن بنائی۔ 150 روپے کی فلپس سائیکل خریدی جو دفتر آنے جانے کی کام آتی۔ اس زمانے میں ان کی زندگی کس ڈھب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ فیض کے نام خط کے اس اقتباس سے ہوتا ہے 


کاموں کی زیادتی میں صبح سے شام ہونے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بچوں کو صبح 8 بجے سکول پہنچنا ہوتا ہے اور مجھے 9 بجے صبح آفس اور میری واپسی 4 بجے ہوتی ہے۔ پھر دن کا باقی حصہ بچوں کو ہوم ورک کروانے، مہمانوں کی مدارات کرنے، کتابیں پڑھنے، کپڑے دھونے میں گزر جاتا ہے اور پھر تھک کر بستر پر گرجاتی ہوں۔‘ایک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔ایک خط میں لکھا:فیض کو جیل میں بچوں کی یاد ستاتی ہے جس کا ذکر ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں ملتا ہے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے کچھ تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسیکل پر اپنے گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔’لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا۔


فیض کے نام خطوط سے چند منتخب اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’ لاہور میں رہنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ 16روپے من آٹا ہوگیا ہے اور ہم مشکل سے گزارا کر پا رہے ہیں۔‘’آخر یہ حکومت کر کیا رہی ہے؟ لوگ بھوک سے مررہے ہیں۔ کل میں نے سولہ روپے کا ایک من آٹا خریدا۔ پچھلے سال مارچ میں جب تم گئے تھے تو من بھر آٹے کی قیمت نو روپے تھی‘ (میں نے اپنی حساب کی پرانی ڈائری میں چیک کیا تھا۔)’چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب تین روپے بارہ آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ چار روپے کا، ہم نے گھر میں ٹوتھ پاﺅڈربنا لیا تھا جو دو مہینے چلا۔‘اضافی یافت کے لیے ایک طالب علم کو انگریزی بھی پڑھائی۔ وائی ایم سی اے سے شارٹ ہینڈ کا کورس اس لیے کیا کہ نوکری جاتی رہے تو یہ کہیں اور کام کے لیے کام آ سکے۔ نوکری کے تین برس ہونے پر تنخواہ میں اضافے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ایک دفعہ آموں کا موسم آنے پر شوہر رہ رہ کر یاد آیا۔ خط میں لکھا:خط کے ذریعے فیض اور ایلس کی آدھی ملاقات ہو جاتی تھی۔ ’آموں کا موسم ہے اور میرا دل اداس ہے، مجھے یاد آتا ہے جب تم دوپہر کو کھانے پر گھر آتے تو بڑے بڑے آموں سے بھرا ایک تھیلا تمھارے ہاتھ میں ہوتا اور کبھی بھولتے نہیں تھے۔‘ شوہر بھی صابر شاکر، راضی برضا، ایک خط میں بیوی سے کہا:تم نے پوچھا ہے کہ تمھارے لیے ساتھ کیا لاﺅں؟ تم خود آجاﺅ اور ان دوہنستے ہوئے چہروں کو ساتھ لیتی آﺅ، اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے۔

ک اور خط میں بتایا:’پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہےفیض کو اہلیہ کی کلفتوں کا خوب احساس تھا۔ وہ ان کے سائیکل پر سفرکے حق میں بھی نہیں تھے۔ایک خط میںلکھا:فیض کو جیل میں بچوں کی یاد ستاتی ہے جس کا ذکر ایلس کے نام لکھے گئے خطوط میں ملتا ہے۔  ’لاہور کے موسم کی خبروں سے کچھ تشویش رہتی ہے۔ اس موسم میں جب تپتے ہوئے دفترسے تمھارے بائسیکل پر اپ گھر آنے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے بچنے کے لیے زور سے آنکھیں میچ لیتا ہوں۔ اگر تم اتنا لکھ دو کہ ایک آدھ مہینے کے لیے تم نے سائیکل چلانا بند کردیا ہے تو کچھ اطمینان ہوگا۔ اس میں کچھ خرچ تو بڑھ جائے گا لیکن ایسا بھی کیا خرچ ہوگا۔ وعدہ ہے کہ ہم یہ پیسے پورے کردیں گے۔‘ایلس ہمدم و ہم ساز سے کہتی ہیں: ’سائیکل سے گھر آنا جانا یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ٹانگے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘سردی کی شدت بھی بیوی اور دونوں بیٹیوں  کی یاد دلاتی ہے۔لاہور کا درجہ حرارت دیکھتا ہوں تو جھرجھری سی آ جاتی ہے اور اس خیال سے کہ اس غضب کی ٹھنڈک اور تنہائی میں تم پر اور بچوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔دل دکھتا ہے۔‘ایلس سگھڑ بیوی کی طرح گھر چلا رہی تھیں۔ کفایت شعاری سے کام لیتیں۔ مہنگائی سے گھریلو بجٹ متاثرہونے پرقیدی شوہر کو صورت حال سے آگاہ کیا جاتا
جاری ہے

منگل، 9 دسمبر، 2025

جگنی -جڑی نام علی دا لیندی آ- فخر پاکستان لوک گلوکارعالم لوہار

  محمد عالم لوہار خطۂ پنجاب پاکستانی حصہ کے ایک مشہور پنجابی لوک موسیقی فنکار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی اصطلاح  میں جگنی کو متعارف کرایا جو پنجابی لوک موسیقی میں بہت مقبول ہے۔ 

جگنی

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

اب خدائی روشنی کا مشاہدہ کریں۔

شبنم کے قطروں کی طرح

میں نے پیار کی دعا مانگی ہے۔

اور سارے غم دور ہو جاتے ہیں۔

تو میں جگنی گاتا ہوں۔

میں آپ کی جگنی گاتا ہوں۔

میں گاتا ہوں تیری جگنی اپنے محبوب کی

اللہ بسم اللہ تیری جگنی

ہاں! تیری جگنی، میرے محبوب

 عالم لوہار کی پیدائش 01 مارچ 1928ء میں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے ایک قصبہ  میں ہوئی۔ ان کے والد ان کی خوش الحانی کی وجہ سے انہیں قاری بنانا چاہتے تھے مگر ان کا اپنا رجحان لوک داستانیں گانے کی طرف تھا چنانچہ وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور نہایت کم عمری میں بہت مقبول ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن سے بھی اپنے فن کا جادو جگایا اور پاکستان کے مقبول ترین لوک گلوکاروں میں شمار ہونے لگے۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال فن حاصل تھا ۔ ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے ۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا ۔ انہوں نے چمٹے کوبطور میوزک انسٹرومنٹ  دنیا کو ایک نئے ساز سے متعارف کرایا۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔ ان کی گائی ہوئی "جگنی "آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔


" جگنی "اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔ جگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی "جگنی "کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ جگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی ۔ "جگنی "کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اورمنفرد دھنیں بھی تخلیق کیں جن میں"دھرتی پنج دریاں دی" بہت مقبولیت ہوئی ۔عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے ۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔


عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا،وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے، ان کی گائی ہوئی جگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔جک گنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔جگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔عالم لوہار کی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے، خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے


 اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیت آج بھی سماعتوں پر وجد طاری کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔عالم لوہار کا’’چمٹا‘‘ بھی ان کی ایک الگ پہچان بنا۔ان کی گائی ہوئی جُگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔ان کی گائی ہوئی جُگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکاجُگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔ خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ انہوں نے عالم لوہار کو’’شیر پنجاب‘‘ کا خطاب بھی دیا۔حکومت پاکستان نے ان کی فنی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دی-ہمارا یہ ہونہار فنکار  لالہ موسیٰ کی  خاک میں محو آرام ہے اللہ کریم مرحوم کو اپنی رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں عطا فرمائے آمین

کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا

    

 کراچی کے مین ہولز پر ڈھکن کون لگائے گا  -کچھ مہینے پہلے بھی  کراچی ہی میں  ایک معصوم بچہ کھلے گٹر میں جاں بحق ہوا تھا اور جب مئر کراچی پر انگلیاں اٹھیں تو انہوں نے بیان دیا تھا کہ یہ میرا کام نہیں کہ میں گلیوں میں گٹر کے دھکن لگواؤں-پیپلز  پارٹی سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر آپ کے ایجنڈےمیں کراچی کی فلاح شامل نہیں ہے  تو برائے مہربانی اس  شہر کو 100 سال کیلیز پر چائنا کو دے دیجئے  کراچی پاکستان کا معاشی انجن، تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر اور ساحلی خطّے کا اہم ترین معاشی و ماحولیاتی مرکز آج بنیادی شہری انفرااسٹرکچر کے انہدام کا ایسا شکار ہے کہ یہاں رہائش، نقل و حمل، نکاسی آب، صحتِ عامہ اور ماحول کے ہر شعبے میں سنگین بحران جنم لے چکے ہیں۔ یہی بگاڑ بالآخر ایسی دل دہلا دینے والی خبروں میں ڈھلتا ہے "بچّہ گٹر میں گر کر جاں بحق۔”گزشتہ دنوں کمسن ابراہیم کا گٹر میں گر کر موت کے منہ میں چلے جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا، اور یہی اس شہری سانحے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کراچی میں کھلے مین ہولز، ٹوٹے ڈھکن، غیر تسلی بخش نکاسی آب اور برسوں سے نظرانداز کردہ شہری منصوبہ بندی نے بچوں کی زندگیوں کو روزانہ کی بنیاد پر خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ابراہیم کی موت ایک سوال ہے، آخر کراچی جیسا شہر، جس کی معیشت پورے ملک کو سہارا دیتی ہے، اپنے بچوں کے لیے بھی محفوظ کیوں نہیں؟آج کھلے مین ہولزایک خاموش قاتل کا روپ دھار چکے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں اور گلیوں‌ کے سیکڑوں مین ہولز کے ڈھکن نہیں ہیں۔ کچھ برساتی پانی میں چھپ جاتے ہیں، کچھ چوری ہو جاتے ہیں، اور کچھ محکمہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہی


 بدقسمتی سے یہ صورتحال کوئی عارضی بے ترتیبی کی نہیں بلکہ شہر کے پورے نکاسی آب کے نظام میں موجود دیرینہ بدانتظامی کی علامت ہے۔ کے یم سی، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، ڈی ایم سیزاور دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی صورتحال کے بگاڑ میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔ غیر مربوط شہری منصوبہ بندی، سڑکوں اور سیوریج لائنوں کی مرمت میں بے حد تاخیر، بارشوں کے بعد ہنگامی اقدامات کا فقدان یہ تمام عوامل مل کر ایسے سانحات کو مسلسل جنم دیتے ہیں جن کا شکار وہ بچے بنتے ہیں جن کے کندھوں پر قوم کا مستقبل رکھا جاتا ہے۔ابراہیم کے ساتھ ہونے والا اور اس جیسے دوسرے حادثات صرف بدانتظامی نہیں بلکہ موسمیاتی بحران کے بڑھتے اثرات سے بھی جڑے ہیں۔ کراچی سمندر کے ساتھ واقع ایک کم بلندی اور گنجان آبادی والا شہر ہے جہاں بارشیں معمول سے کہیں زیادہ اور شدید ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں شہری سیوریج سسٹم کا بار بار اوور فلو ہونا معمول بن چکا ہے۔ شہر کے کئی علاقے عارضی جھیلوں میں بدل جاتے ہیں اور مین ہولز کے ساتھ کھلے نالے پانی میں ڈوب کر موت کے جال بن جاتے ہیں۔ ماہرین پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ کراچی جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی خطرات کے مرکز میں داخل ہو چکے ہیں۔


یعنی اگر شہری انفرااسٹرکچر پہلے ہی بوسیدہ ہو تو ماحول اور موسم میں ہر معمولی تبدیلی بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر کم از کم دو دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔ سیوریج لائنیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے، غیر رسمی بستیوں میں بغیر نقشے کے تعمیرات کھلے عام ہو رہی ہیں اور کوئی ادارہ انہیں روکنے والا نہیں، نالوں پر تجاوزات اور ان پر بنے غیر سائنسی ڈھانچے شہری انفرااسٹرکچر کا منہ چڑا رہے ہیں، کچرے اور پلاسٹک کے بوجھ سے بند ہوتی ڈرینج اور سولڈ ویسٹ کے مسائل، ان سب عوامل نے مل کر پاکستان کے معاشی حب کو ناقابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسے شہر میں مین ہول کا کھلا ہونا محض ایک غفلت نہیں بلکہ انتظامی ذمے داریوں کے پورے نظام کا انہدام ہے۔کیا یہ ماحولیاتی مسئلہ ہے یا انتظامی؟ اصل میں دونوں۔ یہ امر اب حقیقت بن چکا ہے کہ کراچی کے شہری مسائل اب ایک اجتماعی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں، موسمیاتی تبدیلی، سمندر کی سطح میں اضافہ، اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ، سیلابی بارشیں اور شہری اداروں کی بدانتظامی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی چپقلش یہ سب ایک ہی لڑی میں جڑ چکے ہیں۔ ابراہیم کی موت اسی بڑے ماحولیاتی و شہری بحران کی ایک المناک مثال ہے۔


اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہر سانحے کے بعد یہی سوال اٹھتا ہے، مین ہول کس نے کھلا چھوڑا؟ ذمہ دار کون ہے؟ اداروں نے بروقت کارروائی کیوں نہ کی؟ احتیاطی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ لیکن ان سوالات کے جواب کبھی نہیں ملتے، اور کچھ دن بعد زندگی معمول پر آ جاتی ہے، تاوقتیکہ کوئی نیا ابراہیم ایک اور کھلے مین ہول میں گر کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔اگر کراچی کو محفوظ شہر بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہو چکے ہیں جن میں سیوریج سسٹم کی مکمل آڈٹ اور ری ڈیزاننگ، پرانی اور ٹوٹی لائنوں کی ہنگامی تبدیلی، مین ہول مانیٹرنگ سسٹم، GPS ٹیگ شدہ، لاکڈ کور، اور موبائل ایپ رپورٹنگ سسٹم۔شہری اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت، کے یم سی، ڈی ایم سیز، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے درمیان مربوط حکمت عملی۔ بارشوں کے دوران ایمرجنسی رسپانس یونٹ، ہر علاقے میں مین ہول کور کی مستقل نگرانی کے ساتھ شہر کی ماحولیاتی منصوبہ بندی، کلائمیٹ رسک بیسڈ اربن پلاننگ، تاکہ شہر کو آنے والے موسمیاتی واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے۔عوامی آگاہی کی مہمات، گلی، محلے، اسکول، کالونی سطح پر کھلے مین ہولز کی فوری رپورٹنگ اور حفاظتی علامات کی تنصیب شامل ہے۔ابراہیم کی موت شہر کے لیے آخری وارننگ ہونی چاہیے۔ یہ سانحہ ایک بچے کی موت نہیں، یہ کراچی کے شہری نظام کے لیے ریڈ الرٹ ہے۔ اگر یہ شہر آج بھی نہیں جاگتا، اگر شہری ادارے اور شہر میں متحرک سیاسی جماعتیں اب بھی اپنی ترجیحات کا تعین اور درست سمت کا اںتخاب نہیں کرتے، اگر ماحولیاتی اور موسمیاتی حقیقتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ 

پیر، 8 دسمبر، 2025

پروٹوکول دورغلامی کی یادگار ہے

 

    بخت آور کا بیٹا اپنی ٹرائیسکل پر اسلام آباد کی سڑک پر نکلا تو اس کے پروٹوکول میں لاتعداد   قیمتی گاڑیا ں خراماں 'خراماں  اس  کی ٹرائیسکل کی رفتار سے   اسکے پیچھے چل رہی تھیں' پروٹو کول کی لعنت دراصل دور غلامی کی یادگار ہے آج صورتحال یہ ہے کہ جس شخص کے پاس کچھ وسائل ہیں یاپاکستان کا کے ایک شہری نے بتایا کہ     ہمارے حاکم جن کے پاس  اختیارات ہیں وہ اس بات میں فخر محسوس کرتے ہیں  کہ اپنے ساتھ دس‘ بارہ مسلح ملازم اور کم ازکم پانچ سات گاڑیاں لے کر چلیں اور جہاں سے وہ گزریں  ہٹو بچو کی صدا دینے والے لوگ آگے آگے ہوں اور حضرت گردن اکڑا کر اور سینہ تان کر گزریں۔ ایم این ایز،سرکاری افسران اور انتظامی عہدہ داران سب اس بیماری کا شکار ہیں اور وزراءتو جب کہیں سے گزریں تو وہاں پر عوام کے کئی گھنٹے سخت اذیت میں گزرتے ہیں کیونکہ عوام کی آمدورفت اس علاقہ میں ممنوع ہو جاتی ہے اور کئی ایسے واقعات بھی ہو چکے ہیں بھی ہو چکے ہیں کہ پروٹوکول کی وجہ سے لائنوں میں لگی ہوئی ایمبولینس یا گاڑی میں موجود مریض بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نا رینگی

 اور یہ کلچر آج بھی جاری ہےبح یو نیو رسٹی کے لئے جلدی نہ اٹھ سکا کیونکہ رات کو دیر تک جاگتا رہا کام زیادہ تھا ۔جب اٹھا تو کافی دیر ہو چکی تھی تیا ر ہوا اور کھانا کھائے بغیر یو نیو رسٹی کی راہ لی جب میں جی ٹی روڈ پہ پہنچا تو دیکھا کہ ٹریفک جام ہے پہلے تو میں نے سوچا کہ کسی نے روڈ بلاک کیا ہوا ہے لیکن میری سوچ غلط تھی۔ میں نے بائیک کو گھساتے ہوئے پاکستانی طریقہ استعمال کیا اور سب سے آگے جا کھڑا ہوا اس دورانئیے میں مجھے بیس منٹ لگ گئے میں نے ہمت کر کے ٹریفک وارڈن سے پوچھا کہ سر کیا وجہ ہے جواب ملا کہ کام سے کام رکھو میں خاموش ہو گیا ۔لیکن مجھے بہت غصہ آیاخیر مزید ٹائم گزرنے کے بعد دو پولیس کی گاڑیاں گزریں تب معلوم ہوا کہ یہاں سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا گزر ہونا ہے ۔ان گاڑیوں کے پیچھے ریسکیوایمبولینس اور تین بلٹ پروف گاڑیاں جو کہ بالکل ایک ہی طرح کی بنی ہوئی تھیں ان میں سے کسی ایک گاڑی میں بیٹھے ہوئے میاں صاحب اپنے گھر کی طرف جا رہے تھے ان کے پیچھے مزید چالیس سے پچاس گاڑیاں اور تھیں

 میں اتنا پروٹوکول دیکھ کر حیران ہو گیا جو کہ کوگوں کے منہ سے سن رکھا تھا آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ۔میاں صاحب کو اسمبلی سے گھر جانے کے لئے کم ازکم چار سے پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے ہوں گے جو کہ ایک معمولی سی بات ہے ۔جب آپ سگنل توڑتے ہیں تو آپ چالان کی صورت میں پیسے ادا کرتے ہیں جو کہ درست بھی ہے لیکن اگر آپ اپنے پیچھے ایمبولینس کی آواز سنیں تو آپ سگنل توڑ کریمبولینس کو رستہ دیتے ہیں کیونکہ انسان کی جان قیمتی ہے ۔ اگر فارن ملکوں کی بات کریں تو وہ لوگ ایک جانور کی جان بچانے کے لئے لا کھوں خرچ کر دیتے ہیں کیونکہ جان تو جان ہوتی ہے چاہے انسان کی ہو یا جانور کی ۔سائرن کی آواز بڑی دیر سے سنائی دے رہی تھی لیکن ہر ایک کو اپنی پڑی ہوئی تھی آوازایمبولینس کی تھی جس میں ایک مریض اپنی زندگی اور موت کی سانسیں گن رہا تھالیکن کوئی رستہ دینے کو تیا ر نہ تھا وہ تو خدا کی رحمت تھی اس مریض کی جان بچنی تھی ایمبولینس ٹائم سے ہسپتال پہنچ گئی اورعلاج وقت پہ شروع کر دیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے تو اس کی جان لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔

 اگر وزیر اعلیٰ صاحب کے گھر پہنچنے تک پروٹوکول کے لئے قوم کے لاکھوں روپے خرچ کئے جا سکتے ہیں تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سڑکیں بلاک ہونے میں ایک طالبعلم کا یونیورسٹی سے دیر ہونے کو تو آپ نظر انداز کیجئے اگر وہ مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تو اس کا ذمہ دار کون تھا ایمبولینس کو رستہ نہ دینے والے یا وزیر اعلیٰ فرض کریں اگر وہ مر جاتا تو کیا ہوتا اس کے لواحقین احتجاج کرتے تویہ خبر نیوذ چینل کا حصہ بنتی اس پہ تجزئے ہوتے میاں صاحب کی طرف سے افسوس کیا جاتا ارو اس کے لواحقین کو دو چار لاکھ روپے نواز دئیے جاتے ان کا منہ بند کرنے کے لئے کچھ دن سوگ کے بعد لواحقین بھی اپنے معمولات میں مصروف ہو جاتے۔یہ ہے پاکستان میں انسان کی قیمت صرف کچھ پیسے کیا ہم اپنی قدر بھول چکے ہیں ہم کیوں قیمتی جانو ں سے کھیل رہے ہیں ؟؟؟؟ہم کیوں اس قدر لالچی ہو گئے ہیں ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟عوام یا عوام کے مقرر کردہ حکمران جو سانپ کی طرح اس ملک کو لوٹتے جا رہے ہیں کیا اس نظام کو 

اتوار، 7 دسمبر، 2025

آ تینوں موج کراواں‘ آ

 

پنجابی لوک گلوکار عارف لوہار  اپنے والد عالم لوہار کی طرح چمٹا لے کر  پاکستان کے  اسٹیج پر  ظاہر ہوئے  اور بہت کم وقت میں اپنی خداداد  صلاحیت اور اپنے والد  کے نقش قدم پر چلتے ہوئے   اپنی فوک گائکی کا لوہا منوا لیا  -وہ ٍچمٹے کی دھن پر کئی مشہور گانے گا چکے ہیں۔ پنجاب کی ثقافت کو اپنے گانوں کے ذریعے سامنے لانے والے عارف لوہار نے  کچھ مہینوں  قبل ایک گانا گایا ’آ تینوں موج کراواں‘ جسے خاصا پسند کیا جا رہا ہے۔اس گانے کو ایسی مقبولیت ملی کہ چاہے انسٹاگرام رِیلز ہوں یا پھر ٹک ٹاک ویڈیوز، ہر جگہ ہی یہ گانا سننے کو ملتا ہے۔اس گانے کی خاص بات اس کے الفاظ اور دو پنجابی گلوکار ہیں۔ روچ کِلا اور دیپ جنڈو کینیڈین پنجابی ریپر ہیں۔ روچ کِلا سبھا لیبیا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والدین پاکستانی ہیں جبکہ دیپ جنڈو ایک پنجابی پروڈیوسر اور ریپر ہیں جن کا تعلق بھی کینیڈا سے ہے۔اس اشتراک اور گانے کی دلچسپ کہانی سناتے ہوئے عارف لوہار نے بتایا ’ میں ایک دن لندن میں تھا۔ میری ٹیم اور میں گانے بنا رہے تھے تو میں نے بچوں کو کہا کہ وہ جا کر دکان سے چپس لے آئیں۔ جب وہ لے کر آئے تو میں نے گُنگنا کر اُنھیں کہا کہ ’آ تینوں چیپس کِھلاواں۔‘’اب مجھے نہیں علم تھا کہ یہ دھن بن جائے گی۔


پھر میری ٹیم نے دو سال بعد مجھے یاد کروایا کہ وہ جو دھن آپ نے بچوں کے ساتھ بنائی تھی اُس کا کچھ کریں۔عارف لوہار نے مزید بتایا کہ اس گانے کو جو بعد میں مقبولیت ملی اس کا اُنھوں نے تصور نہیں کیا تھا۔عارف لوہار کا کہنا ہے کہ جب کوئی چیز تخلیق ہونے والی ہوتی ہے، تو وہ اس طرح ہی بن جاتی ہے۔اپنے والد کی مشہور ’جُگنی‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُس کا نیا ورژن بھی ایسے ہی اچانک بن گیا تھا۔’مجھے کہا گیا کہ فِلر کے لیے کچھ چاہیے۔ جو پہلے سے گایا ہوا کلام ہے اُسی کو نیا کر کے بنا دیں تو میں نے پھر ایسے ہی بیھٹے بیٹھے بنا دیا۔‘لوک داستانیں، لوک گیت، گانے والا انسان ہوں‘عارف لوہار کے ماضی کو دیکھیں تو اُنھوں نے اپنے فن کو اپنی محنت اور لگن سے عروج پر پہنچایا۔ انھوں نے موسیقی کی دنیا میں تیز رفتاری سے ہوتی ہوئی ترقی کا ساتھ بھی دیا اور روایات کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔چمٹا ہاتھ میں لیے پنجاب کا روایتی دھوتی کرتا پہنے عارف لوہار نے جدید موسیقی اور روایتی انداز کو ساتھ ساتھ رکھا ہوا ہے۔ پہلے ان کی جگنی ہر جگہ سنائی دیتی رہی تو آج کل چرچے ’آ تینوں موج کراواں‘آ کے ہیں عارف لوہار کا یہ نیا روپ دنیا بھر میں ان کے مداحوں کو خوب پسند آیا


مگر ساتھ ساتھ یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ آج کی نوجوان نسل کی پسند کو دیکھتے ہوئے لوک موسیقی کی جانب کم توجہ دی جا رہی ہے۔اسی بارے میں عارف لوہار کا کہنا تھا ’میں خالص فوک میوزک، لوک داستانیں، لوک گیت، گانے والا انسان ہوں، ایسا کچھ ہونا چاہیے کہ سب ایک ساتھ لے کر چلیں۔‘بچوں میں گانے کا ہنر قدرتی طور پر موجود تھا‘عارف لوہار کے تین بیٹے ہیں جن کے نام علی، عامر اور عالم ہیں۔ ان میں سے سب سے چھوٹے بیٹے عالم کو ’عارف لوہار جونیئر‘ بھی کہا جا رہا ہے۔عارف لوہار کا کہنا ہے کہ ’میں ان بچوں کا والد بھی ہوں اور ماں بھی۔‘ چند سال قبل عارف لوہار کی اہلیہ کی وفات ہوئی تھی۔ جس کے بعد اب وہ عام طور پر اپنے بیٹوں کو جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کو اس وقت بھی قریب رکھنا پسند کرتے ہیں جب وہ پرفارم کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کل سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں اُن کے تینوں بیٹے اُن کے ساتھ کانسرٹس اور مختلف تقریبات میں نظر آتے ہیں۔بی بی سی کی ٹیم جب عارف لوہار کے گھر پہنچی تو اُن کے ساتھ اُن کے تینوں بیٹے بھی موجود تھے۔


 سب سے چھوٹے بیٹے عالم لوہار نے بتایا کہ ’مجھےکبھی بھی بابا نے نہیں بولا کہ گانا گاؤ۔ یہ شوق مجھ میں پہلے سے موجود تھا۔ ہمیں بابا کے گانے کا سٹائل پسند ہے۔‘ان کے بیٹے عامر کا کہنا تھا کہ وہ موسیقی کے ساتھ ساتھ پڑھائی پر بھی اُتنی ہی توجہ دیتے ہیں۔عارف لوہار اپنے بچوں کے بارے میں آبدیدہ ہو گئے اور اُنھوں نے کہا ’یہ تین بچے ہیں جو میرے تین پہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان بچوں کو میں نے کچھ نہیں کہا کہ یہ کرو یا وہ کرو، گانے کا ہنر اُن میں قدرتی طور پر موجود تھا۔‘’اپنے والد کا عاشق ہوں‘عارف لوہار کے بچے والد کی طرح نہ صرف چمٹا بجانا جانتے ہیں بلکہ اُن کو دیگر آلات بجانے میں بھی مہارت حاصل ہے۔عارف لوہار نے بتایا کہ اُن کے بیٹوں کو گائیکی کا شوق ہے مگر انھوں نے کبھی ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی۔اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ وہ اپنے دادا اور باپ کی میراث کو آگے بڑھائیں گے۔‘عارف لوہار کے والد عالم لوہار کی شہرت بھی سرحد کے دونوں پار تھی۔ عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی دھنوں پر وہ لوگ بھی جھوم اٹھتے تھے، جنھیں اردو یا پنجابی کی سمجھ نہیں تھی۔ انھیں ’جُگنی کا خالق‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی آواز میں گائے گئے پنجابی گیت آج بھی مقبول ہیں۔ اس وقت وہ اپنے  ہونہار بیٹوں سمیت  یورپ کے کئ ملکوں میں اپنی پرفارمنس پیش کر کے ڈھیرساری داد وصول کر

ہفتہ، 6 دسمبر، 2025

تین زبانوں میں گیت گانے والی پاکستانی فوک گلو کارہ نصیبو لال

 

 تین زبانوں میں گیت گانے والی پاکستانی  فوک گلو کارہ نصیبو لال ۔  نصیبولال کی والدہ کلورکوٹ کی مشہور "ببلی گڈوی والی" تھیں۔1970 میں اسی ببلی گڈوی والی کی بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام نصیبولال رکھا گیا اور واقعی وہ نصیبولال ثابت ہوئی۔ نصیبولال نے بھی کلورکوٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ گانے بجانے کا کام کیا اور کلورکوٹ میں ان کو گڈوی والی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ نصیبولال کے خاندان کے لوگ کلورکوٹ سے باہر بھی گانا گانے جاتے تھے اور کچھ ان کے لوگ مستقل طور پر بڑے شہروں میں چلے گئے۔ ایک محفل میں نصیبولال کو گانے کا موقع دیا گیا جس کی آواز کو اتنا پسند کیا گیا کہ ان کو بہت سے شادی کے گانے کے پروگرام میں بلایا گیا۔ اسی طرح نصیبولال ریڈیو پاکستان تک پہنچ گئی جہاں انہوں نے اپنی آواز کے ایسے سُر بکھیرے کہ لوگ نصیبولال کو ڈھونڈنے لگے۔ انھوں نے کوک اسٹوڈیو کے نویں سیزن میں بطور نمایاں فنکار کے طور پر کام کیا،  انہوں نے   راجپوتانہ ، ہندوستان   میں ایک خانہ بدوش گھرانے میں جنم لیا ۔  بچپن کی ابتدائی عمر میں ہی گلوکاری کا آغاز کیا اور مشہور ہوگئیں۔ ان کے کریڈٹ میں ان کے بہت سے گانے ہند و پاک دونوں ملکوں میں یکساں مقبول ہیں ۔آپ کو بین الاقوامی میوزک شوز میں بھی مدعو کیا جاتا ہے-پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ نصیبولال کا خاندان 1947 سے پہلے انڈیا علاقہ راجھستان میں رہتے تھے۔


ان کا خاندان                                 گلی              محلوں میں                             ہونے والی تقریبات میں بالخصوص شادی بیاہ  میں گیت گا کر   اپنی                           معاشی ضروریات پوری  کرتا تھا            ۔ یہ راجھستان کے ثقافتی گلوکار تھے جو راجھستانی لباس کے ساتھ راجھستانی گانے بھی گایا کرتے تھے۔  لوک موسیقی بھی راجستھانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔ لوک گیت عام طور پر بہادری کے کاموں اور محبت کی کہانیوں سے متعلق ہوتے ہیں  اس وقت راجپوتوں کے محلوں میں انگریزوں کو عشایہ رکھا جاتا تو ان مقامی گلوکارں کو بھی بلایا جاتا جن کے لباس اور گانوں سے انگریز بہت خوش ہوتے اور ان کو کچھ انعامات سے بھی نواز دیتے۔ 1947 کی تقسیم کے وقت نصیبولال کا خاندان نے بھی انڈیا سے پاکستان ہجرت کی ۔ وہ ٹرین ان کو اس وقت کے ضلع میانوالی اور آج کا ضلع بھکر کے شہر کلورکوٹ میں لے آئی۔کلورکوٹ میں آجانے کے بعد نصیبولال کے خاندان نے گلوکاری کو جاری رکھا اور شروع میں ان کے خاندان نے اپنے راجھستان لباس پہنے رکھا جس میں مرد کرتی لنگی اور رنگ برنگی پگڑی اور عورتیں کسی بڑی محفل میں ساڑی پہنتی تھی اور محفل میں ان کے لباس سے مزید نکھار پیدا ہو جاتا اور یہ لباس ان کی ایک پہچان بھی تھی۔ فلم انڈسٹری نے نصیبولال سے بہت گانے رکارڈ کیے لیکن فلمانڈسٹری کے حلات خراب ہونے کے بعد نصیبولال نے لاہور تھیٹر کے لیے گانے رکارڈ کرئے مگر وہ گانے  ان کو راس  نہیں آئے۔ تو پھر وہ اپنے  ٹریک پر واپس آگئیں  اللہ نے نصیبو لال کی قسمت میں بے پناہ شہرت بھی رکھی اور دولت بھی رکھی   -نصیبو لال جو اپنے بچپن کی عمر سے اپنی ماں کی مددگار بن کر کھڑی ہوئیں  تو اللہ نے بھی ان کا ہاتھ تھام کر بتا دیا کہ ہم کسی کی محنت کو رائگاں نہیں کرتے ہیں 


اب نصیبو لال اور ان کے خاندان کے کچھ فرد لاہور شاہدرہ کے گڈوی ولے محلے میں رہتے ہیں۔ نصیبولال ساڑی پہنتی ہیں اور ایک انٹرویو میں ان سے سوال ہوا کہ آپ زیادہ ساڑی کیوں پہنتی ہیں انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا خاندان 1947 سے پہلے راجھستان سے تھا اور وہاں کا ہمارا لباس ساڑی تھا اور پاکستان آنے کے بعد ہم نے یہی اپنا لباس رکھا۔ کلورکوٹ میں پیدا ہونے والی نصیبولال نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی اپنے سُر کے جادو جگا چکی ہیں اور بہت سے ملکی اور غیر ملکی عزاز اپنے نام کیے۔نصیبو لال چنگڑ قوم سے تعلق رکھتی ہے بھکر کے علاقے کلور کوٹ سے اسکا تعلق ہے لیکن یہ لوگ خانہ بدوش لوگ تھے جن کو پکھی واس جھونپڑوں والے کہا جاتا ہے تو یہ لوگ نگر نگر گھوما کرتے تھے۔کبھی کہاں جھونپڑیاں لگا لیں تو کبھی کہاں۔۔نصیبو گھڑوی بجاتی تھی اور اسکی ماں اور اسکی بڑی بہن تینوں مل کر گانا گاتی تھیں۔۔نصیبو کی ماں کی آواز بھی بہت سریلی تھی اور نصیبو کی بڑی بہن فرح کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی۔ یہ تینوں ماں بیٹیاں ٹرک اڈوں پر دوکانوںپر  گھڑوی پر گانے سنا کر پانچ پانچ روپے وصول کرتی تھیں۔1998 /99 کے زمانے میں پانچ روپے کی بڑی قدر ہوتی تھی۔نصیبو کے خاندان نے ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں کے نواحی قصبہ آدھی والی کھوئی میں اپنی جھونپڑیاں لگائی تھیں اور قصبے   میں  تینوں ماں بیٹیاں گھڑوی پر گانا بھی سناتی تھیں۔ 


وہاں پر ایک بڑا زمیندار تھا جس کا نام تھا پیر پپو چشتی۔ پیر پپو نے جب نصیبو کا گھڑوی پر گانا سنا تو اسے نصیبو کی آواز  دل کو لگی اور اس نے اپنے خرچہ پر لاہور کی ایک کیسٹ کمپنی میں نصیبو کا پہلا البم ریکارڈنگ کروایا جس کا گیت تھا۔وے توں وچھڑن وچھڑن کرنا ایں جدوں وچھڑے گا پتہ لگ جاو گا۔اسی البم کا دوسرا گیت تھا۔ جِنے ٹکڑے ہونے دل دے وے ہر ٹکڑے تے تیرا ناں ہونایں۔یاد رہے پہلے البم کے وقت یہ صرف نصیبو ہی تھی نصیبو لال نہیں تھی۔پہلا البم نصیبو کا اتنا ہٹ ہوا کہ سپرہٹ ہوگیا۔ انہی دنوں ملکہ ترنم نورجہاں کی وفات کو تھوڑا وقت ہوا تھا اور نورجہاں کے پرستار بہت بے چین تھے کہ نصیبو نے پہلا البم ریلیز کیا تو نورجہاں کے سب پرستار نصیبو کی طرف لپک پڑے اور نصیبو واحد سنگر ہے جو پہلے البم پر ہی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔بعد میں نصیبو نے اپنے نام کے ساتھ نصیبو لال لگا دیا اور موسیقی کی دنیا میں چھا گئی-نصیبو لال نے نورجہاں کی کمی پوری کر دی تھی بلکہ نورجہاں سے بھی زیادہ شہرت پا گئی۔نصیبو لال جھونپڑیاں چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگئی۔نصیبو نے اپنی ماں کو بھی سنگر بنانا چاہا مگر اس نےمعذرت کرلی کہ میری اب عمر ڈھل گئی ہے اپنی بہن کو سنگر بنا دیں۔نصیبو لال نے اپنی بہن فرح کو بھی سنگر بنا دیا جو فرح لال کے نام سے مشہور ہے

جمعہ، 5 دسمبر، 2025

ٹورانٹو کنیڈا کا اہم ترین شہر ہے

  ٹورنٹو کنیڈا کا  اہم ترین شہر ہے جس میں  آدھے شہری امیگرنٹس ہیں یہاں کے ریسٹورنٹس انہی  کے دم قدم سے بھرے رہتے ہیں  بس آپ گوگل پر دیسی ریسٹورینٹ لکھئے اور بے شمار نام آ پ کے سامنے آ جائیں گے-بسوں میں سفر کے دیکھئے اسی فیصد ڈرائیورز دیسی ملیں گے -زبان کا کوئ مسئلہ نہیں اردو ہندی پنجابی  انگلش جو آپ بولنا پسند کیجئے گا وہی زبان آپ کو بولنے والا مل جائے گا ٍ-اس کا کل رقبہ 630 مربع کلومیٹر ہے۔ شمالاً جنوباً کل 21 کلومیٹر جبکہ شرقاً غرباً 43 کلومیٹر لمبا ہے۔ جھیل اونٹاریو کے کنارے اس کا ساحل کل 26 کلومیٹر طویل ہے اور ٹورنٹو کے کچھ جزائر اس جھیل کے اندر بھی موجود ہیں۔ اس شہر کی جنوبی حد جھیل اونٹاریو، ایٹوبیکو کی کھاڑی اور ہائی وے نمبر 426 شمال میں، سٹیلز ایونیو شمال میں جبکہ روگ دریا مشرق میں حد بندی کا کام دیتا ہے۔شہر کے درمیان سے دو دریا اور ان کی ڈھیر ساری شاخیں گذرتی ہیں۔ ہمبر دریا مغربی حصے سے جبکہ ڈون دریا مشرق سے گذرتا ہے۔ شہر کی بندرگاہ قدرتی طور پر جھیل اونٹاریو کی لہروں کے نتیجے میں ریت وغیرہ کے جمع ہونے سے بنی ہے۔ اسی عمل کے نتیجے میں بندرگاہ کے پاس موجود جزائر بھی بنے تھے۔ جھیل میں گرنے والے بہت سارے دریاؤں نے اپنی گذرگاہوں میں گھنے جنگلات سے بھری ہوئی کھائیاں بنا دی ہیں۔ تاہم یہ کھائیاں شہر کے نقشے میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ تاہم ان کھائیوں کی مدد سے شہر میں بارش وغیرہ کے سیلابی پانی کی نکاسی بہت آسان ہو جاتی ہے۔


پچھلے برفانی دور میں ٹورنٹو کا نشیبی حصہ گلیشئر کی جھیل اروکوئس کے نیچے تھا۔ آج بھی شہری حدود اس جھیل کے کناروں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اگرچہ ٹورنٹو زیادہ تر پہاڑی نہیں تاہم جھیل سے اس کی بلندی بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ جھیل اونٹاریو کا کنارہ سطح سمندر سے 75 میٹر جبکہ یارک یونیورسٹی کے مقام پر یہ بلندی 209 میٹر ہو جاتی ہے۔جھیل کا کنارہ زیادہ تر 19ویں صدی کے اواخر میں کی گئی منصوعی بھرائی سے بنا ہے۔کینیڈا کے جنوبی حصے میں واقع ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو کا موسم معتدل نوعیت کا ہے۔ ٹورنٹو کی گرمیاں گرم اور نم جبکہ سردیاں سرد تر ہوتی ہیں۔ شہر میں 4 الگ الگ نوعیت کے موسم پائے جاتے ہیں اور روز مرہ کا درجہ حرارت سردیوں میں بالخصوص کافی فرق ہو سکتا ہے۔ شہری آبادی اور آبی زخیرے کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو میں دن اور رات کے درجہ حرارت میں کافی تغیر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں رات کا درجہ حرارت سردیوں میں بھی نسبتاً کم سرد رہتا ہے۔ تاہم بہار اور اوائل گرما میں سہہ پہر کا وقت کافی خنک بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ جھیل سے آنے والی ہوائیں ہیں۔ تاہم بڑی جھیل کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے برفباری، دھند اور بہار اور خزاں کا موسم تاخیر سے بھی آ سکتا ہے۔ٹورنٹو میں موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کچھ وقت کے لیے منفی 10 ڈگری سے نیچے رہ سکتا ہے جو ہوا کی رفتار کی وجہ سے زیادہ سرد محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس صورت حال میں برفباری یا بارش بھی شامل ہو جائے تو روز مرہ کی زندگی کے کام کاج رک جاتے ہیں اور ٹرینوں، بسوں اور ہوائی ٹریفک میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نومبر سے وسط اپریل تک ہونے والی برفباری زمین پر جمع ہو جاتی ہے۔


 تاہم سردیوں میں اکثر درجہ حرارت کچھ وقت کے لیے 5 سے 12 ڈگری تک بھی چلا جاتا ہے جس سے برف پگھل جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہو جاتا ہے۔ ٹورنٹو میں گرمیوں کا موسم نم رہتا ہے۔ عموماً درجہ حرارت 23 سے 31 ڈگری تک رہتا ہے اور دن کے وقت درجہ حرارت 35 ڈگری تک بھی پہنچ سکتا ہے جو ناخوشگوار بن جاتا ہے۔ بہار اور خزاں موسم کی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔بارش اور برفباری سال بھر ہوتی رہتی ہیں تاہم گرمیوں میں بارش کی مقدار کافی زیادہ رہتی ہے۔ اگرچہ بارشوں میں طویل وقفہ بھی آ جاتا ہے تاہم قحط سالی جیسی صورت حال سے کبھی کبھار ہی واسطہ پڑتا ہے۔ سال بھر میں 32 انچ سے زیادہ بارش جبکہ 52 انچ سے زیادہ برف گرتی ہے۔ ٹورنٹو میں اوسطاً 2038 گھنٹے سورج چمکتا ہے۔وِل السوپ اور ڈینیئل لیبیس کائنڈ جیسے ماہرین کے نزدیک ٹورنٹو میں کوئی ایک طرزِ تعمیر نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی عمارات کا طرزِ تعمیر بدلتا رہتا ہے۔ٹورنٹو کے افق پر سب سے اہم عمارت سی این ٹاور ہے جو 553 میٹر سے زیادہ بلند ہے۔ برج خلیفہ کی تعمیر سے قبل یہ دنیا کی سب سے اونچی آزاد کھڑی عمارت تھی۔ٹورنٹو میں فلک بوس عمارات کی تعداد 2000 سے زیادہ ہے جن کی بلندی 90 میٹر یا اس سے زیادہ ہے۔ اونچی عمارات کی تعداد کے لحاظ سے  شمالی امریکا میں نیو یارک اس سے آگے ہے۔ٹورنٹو کا سب سے اہم سیاحتی مرکز سی این ٹاور ہے۔ اس ٹاور کے خالقین کے لیے یہ بات خوشگوار حیرت کا سبب ہے کہ ان کے اندازوں کے برعکس 30 سال سے زیادہ عرصے تک یہ عمارت دنیا کی بلند ترین عمارت شمار ہوتی رہی ہے


۔ اونٹاریو کا شاہی عجائب گھر بھی سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے جہاں دنیا کی ثقافت اور مظاہر قدرت کے متعلق چیزیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 5000 سے زیادہ حیوانی نمونے موجود ہیں جو 260 سے زیادہ انواع کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مختلف نوعیت کے کئی عجائب گھر یہاں موجود ہیں۔یارک ولے نامی مضافاتی علاقہ ٹورنٹو بھر میں اپنے ریستورانوں اور خریداری کے مراکز کی وجہ سے مشہور ہے۔ اکثر اس علاقے میں شمالی امریکا کے فلمی ستارے اور اہم شخصیات خریداری کرتی یا کھانا کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں سالانہ اوسطاً 5 کروڑ سے زیادہ سیاح آتے ہیںگریک ٹاؤن میں موجود ریستورانوں کی تعداد فی کلومیٹر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ٹورنٹو کاروباری اور معاشی لحاظ سے اہم بین الاقوامی مرکز ہے۔ عموماً اسے کینیڈا کا معاشی مرکز مانا جاتا ہے۔ ٹورنٹو سٹاک ایکسچینج کو کاروباری سرمائے کے اعتبار سے دنیا بھر میں 8ویں بڑی مارکیٹ مانا جاتا ہے۔ کینیڈا کے پانچوں بڑے بینکوں اور دیگر بڑے کاروباری اداروں کے صدر دفاتر ٹورنٹو میں قائم ہیں۔اس شہر کو میڈیا، پبلشنگ، مواصلات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فلمی صنعت کا اہم مرکز مانا جاتا ہے۔اگرچہ یہاں کی زیادہ تر مینو فیکچرنگ کے مراکز شہر کی حدود سے باہر واقع ہیں تاہم ٹورنٹو ہول سیل اور ڈسٹری بیوشن کے حوالے سے اہم حیثیت رکھتا ہے۔ کیبویک اور ونڈسر کی راہداری میں اپنے اہم جغرافیائی محلِ وقوع اور ریل اور سڑکوں کے بہترین نظام کی بدولت آس پاس موجود گاڑیاں بنانے، فولاد، سٹیل، خوراک، مشینری، کیمیکل اور کاغذ کی مصنوعات ٹورنٹو سے ہی آگے بھیجی جاتی ہیں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد

  مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر