منگل، 9 دسمبر، 2025

جگنی -جڑی نام علی دا لیندی آ- فخر پاکستان لوک گلوکارعالم لوہار

  محمد عالم لوہار خطۂ پنجاب پاکستانی حصہ کے ایک مشہور پنجابی لوک موسیقی فنکار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی اصطلاح  میں جگنی کو متعارف کرایا جو پنجابی لوک موسیقی میں بہت مقبول ہے۔ 

جگنی

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

میں ہر سانس کے ساتھ امام علی کا نام پڑھتا ہوں۔

اب خدائی روشنی کا مشاہدہ کریں۔

شبنم کے قطروں کی طرح

میں نے پیار کی دعا مانگی ہے۔

اور سارے غم دور ہو جاتے ہیں۔

تو میں جگنی گاتا ہوں۔

میں آپ کی جگنی گاتا ہوں۔

میں گاتا ہوں تیری جگنی اپنے محبوب کی

اللہ بسم اللہ تیری جگنی

ہاں! تیری جگنی، میرے محبوب

 عالم لوہار کی پیدائش 01 مارچ 1928ء میں تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے ایک قصبہ  میں ہوئی۔ ان کے والد ان کی خوش الحانی کی وجہ سے انہیں قاری بنانا چاہتے تھے مگر ان کا اپنا رجحان لوک داستانیں گانے کی طرف تھا چنانچہ وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور نہایت کم عمری میں بہت مقبول ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن سے بھی اپنے فن کا جادو جگایا اور پاکستان کے مقبول ترین لوک گلوکاروں میں شمار ہونے لگے۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال فن حاصل تھا ۔ ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے ۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا ۔ انہوں نے چمٹے کوبطور میوزک انسٹرومنٹ  دنیا کو ایک نئے ساز سے متعارف کرایا۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔ ان کی گائی ہوئی "جگنی "آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔


" جگنی "اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔ جگنی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی "جگنی "کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ جگنی کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی ۔ "جگنی "کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اورمنفرد دھنیں بھی تخلیق کیں جن میں"دھرتی پنج دریاں دی" بہت مقبولیت ہوئی ۔عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے ۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔


عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے۔ان کی خاص پہچان ان کا چمٹا تھا،وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے، ان کی گائی ہوئی جگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔جک گنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔جگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔عالم لوہار کی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتیں وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے، خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے


 اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال کا فن حاصل تھا، ان کے گائے ہوئے پنجابی گیت آج بھی سماعتوں پر وجد طاری کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔عالم لوہار کا’’چمٹا‘‘ بھی ان کی ایک الگ پہچان بنا۔ان کی گائی ہوئی جُگنی آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔ان کی گائی ہوئی جُگنی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکاجُگنی کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اور منفرد نغمے تخلیق کئے جن میں اے دھرتی پنج دریاں دی، دل والا دکھڑا نئیں، جس دن میرا ویاہ ہو وے گا، قصّہ سوہنی ماہیوال کا گیت، وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔ خصوصاً قصّہ ہیر رانجھا اور قصّہ سیف الملوک آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ انہوں نے عالم لوہار کو’’شیر پنجاب‘‘ کا خطاب بھی دیا۔حکومت پاکستان نے ان کی فنی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دی-ہمارا یہ ہونہار فنکار  لالہ موسیٰ کی  خاک میں محو آرام ہے اللہ کریم مرحوم کو اپنی رحمت کی ٹھنڈی چھاؤں عطا فرمائے آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

غربت کے اندھیروں سے کہکشاں کی روشنی تک کا سفراور باؤفاضل

  باؤ فاضل  کا جب بچپن کا زمانہ تھا  اس وقت ان کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے غربت کے سائبان میں وہ صرف 6جماعتیں تعلیم حاصل کر سکے تھے  1960  ء...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر